ایک پہاڑ تھا جو سر پر گرا تھا وہ اسکی سگی ماں نا سہی مگر ماں تو تھی نا حاشر نے پریشانی سے اسے دیکھا جو اب اپنے ہاتھوں کو گھورنے میں مصروف تھی۔۔
ڈاکٹر کنڈیشن کیا ہے؟ مطلب وہ ٹھیک تو ہو سکتی ہیں نا؟؟
دیکھیں آپریشن کے بعد ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن ان کی ایج کی وجہ سے چانسز کم ہیں لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپریٹ ہو تو جلد از جلد کروائے کیونکہ جتنا ٹائم لگے گا اتنا ہی ان کی جان کو خطرہ ہے
ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں انہیں بتا رہا تھا جس کے دماغ میں اب نور تھی کہ اسے کیسے بتائے گی وہ یہ سب۔۔۔
وہ مردہ قدموں سے باہر آئی تھی۔۔
آپ کی مدر ٹھیک ہو جائیں گی ڈونٹ وری۔۔ حاشر کے بولنے پر اس نے صرف سر ہلایا تھا۔۔
امل۔۔ کیا ہوا ہے اماں کو کیا بولا ڈاکٹر نے۔۔؟؟؟
انہیں باہر آتا دیکھ نور اس کی جانب لپکی تھی اور اب پہ در پہ سوال کر رہی تھی
ٹھیک ہو جائیں گی وہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔۔
تو کیوں ہوا ایسا کچھ بتایا نہیں ڈاکٹر نے۔۔ وہ بے چین تھی اپنی ماں کی خیریت کے لئے۔۔
نور گھر جاکر کرلینا سوال ابھی گھر جاؤ۔اس نے سختی سے کہا تھا
لیکن۔۔۔
کوئی لیکن ویکن نہیں تم جاؤ ابھی اسکے سختی سے کہنے پر وہ آنے کو تیار ہوئی تھی۔۔۔
کتنا خرچا ہوگا ڈاکٹر میری ماں کے آپریشن پر۔۔ وہ ایک بار بھی ڈاکٹر کے کیبن میں موجود تھی
دیکھیں بڑی سرجری ہے تو دس سے پندرہ لاکھ لگے گے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں
اور جتنی جلدی ہوسکے آپریشن کروا لیں۔۔ڈاکٹر کی بات پر اس کے دل پر گرہ پڑی تھی
جی شکریہ۔۔ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنی ماں کے پاس آئی تھی جو دوائیوں کے زیر اثر بے ہوش پڑی تھی
کیسا عجیب تعلق رہا تھا ان کا کبھی بے حد اچھے ہوتے ایک ساتھ تو کبھی بہت برے وہ اسے ماں سمجھتی تھی اپنی لیکن ان کے بدلے رویے نے اسکا دل خراب کردیا تھا نفرت نہیں کرتی تھی وہ ان سے بس انہیں تنگ کرتی تھی لیکن ان کے لئے دل میں موجود محبت کو وہ چاہ کر بھی ختم نہیں کرسکتی تھی آج اسے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا کیسے بتائی گی وہ سب کو۔۔۔
آج وہ مضبوط لڑکی کمزور پڑی تھی۔۔۔
ڈاکٹر نے ڈسچارج پیپر ریڈی کردیے ہیں تھوڑی دیر بعد آپ انھیں لے جاسکتی گھر۔۔
حاشر کی آواز پر وہ خیالات سے باہر آئی تھی
ہمم ٹھیک۔۔
میں ہوں یہاں ان کو ہوش آجائیں تو آپ مجھے بلا لیجئے گا
سہی۔۔۔ ایک لفظی جواب دے کر وہ پھر دروازے کے پار اس بے ہوش وجود کو دیکھنے لگی۔۔۔
ایک گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا تو وہ حاشر کی مدد سے اسے لے کر گھر آئی تھی ڈاکٹر نے انہیں دماغی کام کرنے سے منع کردیا تھا
اسے بس ان کے علاج کی فکر تھی اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا یہ سوچ سوچ کر وہ پاگل ہوگئی تھی
علی اور شان کو پتا چلا تو وہ بھی افسردہ ہوگئے تھے لیکن وہ بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے بس اتنا کیا کہ اس کے ساتھ مختلف ہاسپٹل کے چکر لگائے تاکہ علاج کے بارے میں اچھے سے معلومات لے سکیں ہر کوئی منہ پھاڑ کر پیسا بتا رہا تھا
کیسے مرنے دوں اسے جس نے بھلے برے دل سے ہی مگر میری پرورش کی۔۔ وہ اداسی سے بینچ سے ٹیک لگاگئی
امل تیرے اداس ہونے سے کیا ہوگا تو بس پریشان نہیں ہو ان کے کام والی جگہ پر معلوم کر کیا پتا مدد کردیں ۔۔
روشنی نے اسے مشورہ دیا تھا
اس کی بات پر چونکی ضرور تھی مگر کچھ ظاہر نہیں۔۔۔
وہ گھر آیا تو گھر میں کافی سناٹا تھا سر درد سے پھٹ رہا تھا آج تو حاشر بھی پتا نہیں کہا غائب تھا
ردابہ سے بھی اسکی کوئی بات نہیں ہوئی تھی وہ بھی منہ بنا کر بیٹھی تھی
وہ تھکا ہارا صوفے پر ڈھے سا گیا اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اٹھ کر پانی پی سکے۔۔
وہی صوفے میں بیٹھے بیٹھے اس نے آنکھیں موند لی تب کہیں جاکر تھوڑا دماغ کو سکون ملا تھا
ایک بات کے لئے جھوٹ بولنے پر بھی اسکا دل خفا تھا لیکن یہ بھی تو اسکی ایک مجبوری ہی تھی۔۔
وہ کافی دیر وہی بیٹھا رہا پھر اٹھ کر کچن میں آیا اپنے لئے کافی بنائی آج شدت سے اپنے گھر کی یاد آرہی تھی لیکن کال کیسے کرتا دادی کو تو خود ناراض کر کے بیٹھا تھا۔۔
کافی پی کر اسنے تھوڑا سکون محسوس کیا تو فریش ہونے کے بعد بستر پر لیٹ گیا آج حاشر سے بھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی وہ پتا نہیں کہاں غائب تھا
اس نے موبائل سائیڈ سے اٹھا کر حاشر کا نمبر ڈائل کیا لیکن جواب میسر نا ہونے کی صورت میں وہ موبائل رکھ کر واپس لیٹ گیا
دھیان کے سارے دھاگے ردابہ سے جڑے تھے
وہ اسکی پسند تھی محبت تھی وہ کبھی ایسا انسان نہیں رہا تھا جو بے بات پابندی لگائے یا کچھ بھی وہ شروع سے آزاد خیال تھا اور اسے ردابہ کی سوچ نے ہی متاثر کیا تھا لیکن اب اسے پتا نہیں کیوں وہ چیزیں پسند نہیں آرہی تھیں جو ردابہ کے لئے معمولی بات تھی وہ یہ سب کرنے کی عادی تھی لیکن وہ تو نہیں تھا پھر بھی اس نے کوئی روک ٹوک نہیں کی اور اب کی تو ردابہ نے تو اسکی سننے سے ہی منع کردیا۔۔۔
دادی سے بھی اتنا بڑا جھوٹ بول چکا تھا پتا نہیں کیا بننا تھا اس کی زندگی کا۔۔۔
یہ سب سوچتے سوچتے وہ جب نیند کی وادی میں گیا اسے پتا بھی نہیں چلا
صبح معمول کے حساب سے اس کی آنکھ دیر سے کھلی تھی کتنی ہی دیر تو وہ غائب دماغی سے لیٹا رہا عجیب سستی و کسلمندی چھائی ہوئی تھی
کافی دیر بعد وہ بستر سے اٹھا تھا دادی کی یاد ایک بار پھر آئی تھی لیکن فون بھی نہیں کرسکتا تھا
بے بسی سے لب کاٹے تھے اس نے
موبائل چیک کیا تو حاشر کا میسج آیا ہوا تھا وہ اسے کال کرتا رہا تھا مگر وہ موبائل سائلنٹ پر لگا کر سویا تھا کیونکہ دل ہی نہیں تھا کسی سے بھی بات کرنے کا۔۔
وہ اٹھ کر فریش ہوا تھا ناشتے کے نام پر اسنے جوس کا ایک گلاس پیا تھا
بوتیک آیا تو اسے کل کے واقعے کا حاشر سے پتا چلا افسوس بھی تھا اسے بہت ۔۔
کیونکہ کم وقت میں ہی زلیخا نے کافی متاثر کیا تھا انہیں اپنے کام سے
ان کے علاج کا جو بھی خرچا ہے وہ ہم دیں گے حاشر مجھے ان کے فیملی بیک گراؤنڈ کا پتا ہے اتنے اسٹیبلش نہیں ہیں کہ اپنا علاج کرواسکیں۔۔
ہممم بات تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ایک اور اہم مسئلہ ہے جو ہمیں درپیش ہے؟
حاشر کے بولنے پر اس نے ناسمجھی سے حاشر کو دیکھا تھا
دادو….. حاشر نے اپنا موبائل آگے کیا جہاں کافی ساری کالز تھی دادی کی نمبر سے
شٹ۔۔۔ اس نے سر تھاما تھا دادو کی کال آنا مطلب ایک اور مصیبت ان کی منتظر تھی
کیا کرنا ہے اب؟؟
دعا کر وہ پاکستان نا آئیں ورنہ بہت بڑا مسئلہ بن جانا ہے ہمارے لئے
بس دعا ہی کرسکتے ہیں حاشر نے بول کر اپنا رخ لیپ ٹاپ کی جانب کیا تھا تبھی انٹر کام بجا تھا
سن میں راؤنڈ پر جارہا ہوں تو ڈیل کرلینا سب کو۔۔ حاشر کو بول کر وہ اٹھ کر باہر نکل گیا تو حاشر نے انٹر کام اٹھایا
سر آپ سے زلیخا بی کی بیٹی ملنے آئی ہیں ۔۔
جی آپ بھیجیں انہیں۔۔ اس نے فوراً اجازت دی تھی
تبھی تھوڑی دیر بعد ڈور ناک ہوا تھا۔۔
یس۔۔ اسنے لیپ ٹاپ میں دیکھتے ہوئے آنے والے کو اجازت دی تھی
تبھی اس کے کانوں میں چوڑیوں کی کھنک سنائی دی تھی
اس نے لیپ ٹاپ سے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو نظریں پلٹنا بھول گئی تھیں
کالے رنگ کے لباس میں اسکا رنگ دمک رہا تھا کاجل سے بھری آنکھیں نازک سا سراپا ہاتھوں میں موجود کالی چوڑیاں سوگوار سا حسن سیدھا اس کے دل میں اترا تھا وہ تو بس یک ٹک ہی اسے دیکھے جارہا تھا اور وہ بچاری اس کے اس طرح دیکھنے پر کنفیوز سی انگلیاں چٹکھانے لگی تھی
وہ۔۔۔ اس نے دروازہ بجایا تو وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آیا تھا
جی۔۔جی پلیز آئیں اس نے ہڑبڑا کر کہا سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے
وہ آہستہ سے آکر اس کے سامنے بیٹھ گئی آنکھیں لال ہورہی تھیں شاید وہ سارا راستہ روتی آئی تھی
مس نور کیا ہوا ہے؟ زلیخا بی ٹھیک ہیں۔۔۔
اس کے اس طرح بولنے پر وہ اور شدت سے رو دی کہ وہ بوکھلا گیا
آپ سب نے جھوٹ بولا مجھے نہیں بتایا میری اماں کو کیا بیماری ہے ان کا علاج بھی نہیں ہوسکتا امل بہت محنت کر رہی پیسوں کے لئے آپ پلیز میری اماں کا علاج کروائیں نا ہم بہنیں مل کر آپکا قرضہ دے دینگی۔۔
وہ ایک ہی سانس میں ساری بات کرگئی تو وہ مبہم سا مسکرایا
آپ کو ان کے لئے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے جتنا ہوگا ہم کریں گے اس طرح روئیں نہیں پلیز۔۔۔ نور کے رونے سے اسکا دل ڈوب رہا تھا
سچی آپ اماں کا علاج کروائیں گے؟؟؟ اس کے لہجے میں بچوں کی سی خوشی تھی اس کے اس طرح پوچھنے پر اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا
تھینک یو سو مچ تھینک یو فرط جذبات سے اس کی آواز رندھ گئی تھی
لیکن اب رونا نہیں ہے آپ نے اسے دوبارہ آنسو بہاتا دیکھ وہ بولا تو وہ جھینپ گئی
حاشر نے یہ دھوپ چھاؤں کا منظر دل میں اتارا تھا
اور یوں حاشر مراد نور کامران سے دوسری نظر کی محبت کا شکار ہوا تھا پتا نہیں پہلے دیکھا نہیں تھا یا شاید دل ایک خاص وقت چاہتا تھا
لیکن آپ یہ کسی کو مت بتانا کہ میں آپ کے پاس مدد کے لئے آئی تھی پلیز وہ ملتجی انداز میں بولی تھی۔۔جاتے جاتے وہ واپس پلٹی تھی
آپ فکر مت کریں یہ بات آپ کے اور میرے درمیان رہے گی ۔۔وہ اسکی اس بات کا پس منظر سمجھتا تھا
تھینکس۔۔ اب میں چلتی ہوں اپنی بات بول کر وہ جلدی سے اٹھی تھی مبادہ کسی کو اس کے آنے کا پتا چل جائے
اللّٰہ حافظ۔۔۔۔
وہ فل اسپیڈ سے وہاں سے نکلی تھی دل میں ایک امید سی جاگی تھی کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا ماں کی بیماری کا تو اسے تبھی پتا چل گیا تھا جب امل نے علی اور شان کو بتایا تھا اس وقت وہ بس چپ روتی رہی تھی مگر اینڈ کی بات پر اسنے فوراً عمل کیا تھا اور بنا وقت ضائع کئے وہ آج یہاں آئی تھی دل درد سے پھٹ رہا تھا مگر اب تھوڑا سکون تھا کہ اماں کا علاج ہوسکتا ہے وہ ٹھیک ہوسکتی ہیں اسی امید کے سہارے وہ وہاں سے نکلی تھی
لیکن ابھی امتحان باقی تھے۔۔۔۔
وہ خاموش سا کیبن میں بیٹھا تھا تبھی ابرہیم اندر آیا تھا اسے اس طرح گم صُم بیٹھے دیکھ اس نے اسکا کندھا ہلایا
کہاں گم ہے؟؟
کہیں نہیں تو بتا کچھ سوچا کیا کرنا ہے اگے؟؟
کیا سوچنا دماغ نے تو ساتھ دینا ہی چھوڑ دیا ہے سچ بولوں تو بہت گلٹی فیل ہورہا ہے یار اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔
ردابہ کیا بولتی ہے؟؟
بات نہیں ہوئی اس موضوع پر میری…
کیا مطلب؟؟ تو پاگل ہے ابرہیم تو نے اتنا بڑا جھوٹ جس کے لئے بولا اسے بتایا تک نہیں؟؟
وہ بزی تھی تو۔۔۔
تو؟؟؟؟ مطلب میں نے یہ اس لئے بولا کہ جب تک دادو آئیں گی تب تک ردابہ سے تیری ساری بات ہوجانی ہے یا تو سنبھال لے گا
وہ اچھا خاصا تپ گیا تھا
میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مزید مت کر یار وہ واقعی پریشان تھا اب کچھ نا کچھ تو اسے کرنا ہی تھا لیکن سوچنے کے ابھی اسے مزید ٹائم چاہیے تھا۔۔
کہاں گئی نور بیٹا مجھے پانی دے۔۔ وہ کب سے سو رہی تھیں پیاس لگی تو نور کو آواز دی
یہ لو۔۔۔ اس نے پانی کا گلاس دیا تو زلیخا بی نے اسے دیکھا
بجھی ہوئی کیوں لگ رہی ہے امل؟؟؟
ان کے بولنے پر اس نے ایک نظر انہیں دیکھا
تم ایسے لیٹی ہو لڑو مجھ سے تو تھوڑی رونق لگے اب ایسے پڑی رہوگی تو ایسا تو ہوگا ہی نا وہ منہ بنا کر بولی تو وہ ہنس دی
ٹھیک ہو جاؤں گی میں فکر مت کر میری۔۔۔۔
تمہاری فکر کسے ہے میں تو اپنے لئے پریشان ہو سکون اچھا نہیں لگ رہا
وہ کہاں باز آتی تھی اس کی بات پر وہ ہنس دی
کرلے یہ بھی مرے مرنے کے بعد۔۔۔
کتنا فضول بولتی ہو سوتیلی چپ کر کے پانی پیو اور آرام کرو دماغ نہیں کھاؤ میرا۔۔۔ اسکی بات کاٹ کر وہ غصے سے بولی تھی
وہ بھلے سگی ماں نہیں تھی لیکن ایک سہارا تو تھا نا اسے اس طرح دیکھ اسکا دل پھٹ رہا تھا
ان کی طبعیت میں کوئی سدھار نہیں تھا وہ متفکر تھی ان کی صحت کو لے کر
اس نے علی اور شان سے گھر بیچنے کی بات کی تھی لیکن اتنی جلدی گھر بیچنا ناممکن تھا دوکان بھی بیچنے کے لئے کم از کم اسے دو مہینے رکنا پڑتا کیونکہ کرایے دار کی روزی کا سوال تھا
آج پہلی بار اسے بڑے بھائی اور باپ کی کمی شدت سے کھلی تھی
اب ایک آخری حل وہی تھا جو علی اور شان نے بتایا تھا اپنی انا کو کچل کر اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑ رہے تھے
وقت واقعی کبھی کبھی بہت ظالم ہوتا ہے اور لوگ اسے مزید مشکل بنادیتے ہیں بیماری اگر امیر کو ہو تو وہ صرف زندگی کی پرواہ کرتا ہے کہ پیسہ ہے وہ بچ سکتا ہے
لیکن اگر غریب بیمار ہو تو اسے ہزاروں فکریں ستاتی ہیں علاج کیسے ہوگا پیسے کہاں سے آئیں گے اگر کچھ ہوگیا تو بچوں کا کیا ہوگا گزارہ کیسے ہوگا بیماری سے زیادہ تو اسے یہ سوچیں مار دیتی ہیں
اس لئے اس نے زلیخا بی کو ابھی کچھ نہیں بتایا تھا جب تک پیسوں کا انتظام نہیں ہوجاتا وہ اور ہی فکروں میں گھلی رہتی لیکن وہ بھی اسی کی ماں تھی انہیں اتنا تو اندازہ تھا کہ کوئی بڑی بات ہے جو چھپائی جارہی یے
مگر پوچھنے کی ہمت خود میں پاتی تھیں مبادہ کوئی ایسی بات نا ہو جسے سن کر وہ ہمت ہار جائیں کیونکہ اگر وہ ہمت ہار گئی تو ان سب کا کیا ہوگا ۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی اس نے حاشر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا۔۔
زلیخا کو اس نے بہت ہمت کرکے بتایا تو وہ بس چپ ہوگئی البتہ نور جان کر بھی پھر سے روئی تھی ولید اور عریشہ تو ابھی چھوٹے تھے انہیں ویسے بھی بہت جلد یہاں سے چلے جانا تھا ان کے بڑے ماموں نے ان کی زمہ داری لی ہوئی تھی کیونکہ وہ بے اولاد تھے
وہ اپنی طرف سے جتنا کرسکتے تھے کر رہے تھے سفید پوش تھے لیکن بہن کے لئے بہت کررہے تھے لیکن پھر بھی اتنی رقم وہ پھر بھی نہیں دے سکتے تھے جتنی زلیخا کے علاج میں خرچ ہونی تھی
فلحال وہ حاشر سے ہی رابطے میں تھی اسی کے زریعے اسے دوسرے پارٹنر کا پتا چلا تھا وہ ان کی شکر گزار تھی کہ وہ اس کی مدد کر رہے تھے لیکن یہ بھی ایک قرضہ تھا جو اسے چکانا تھا
گھر اور دوکان وہ بیچ ہی نہیں پائی تھی۔۔
تھوڑا تھوڑا ہی سہی مگر وہ محنت کر رہی تھی زلیخا بی کا علاج شروع ہوگیا تھا دوائیں مہنگی تھی لیکن وہ یہ خرچا اٹھا رہی تھی سرجری کے لئے انہوں نے حاشر سے پیسے قرضے کے طور پر مانگے تھے
سرجری اسی مہینے کی پندرہ تاریخ کو ہونی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ تاریخ اس کے لئے ایک نیا موڑ لائے گی۔۔۔۔
آبی ۔ابی۔۔۔۔۔ا بی۔۔۔ وہ تقریباً بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا
کیا ہوا خیریت تو ہے؟؟؟
اس کی اسپیڈ دیکھ کر وہ بھی کھڑا ہوا تھا
بہت برا پھسنے والے ہیں ہم یار شٹ شٹ شٹ۔۔۔۔۔۔ اس نے ہاتھ کا مکا بنا کر دوسرے ہاتھ پر مارا
بتا بھی حاشر ہوا کیا ہے کیوں ٹائم ویسٹ کر رہا۔۔۔
اپنا برا وقت آنے والا ہے یار قسم سے ۔۔۔
تو بتائے گا بھی یا یونہی بکواس کرتا رہے گا۔ وہ غصے سے بولا تھا پیٹ میں ویسے ہی ہول ہورہی تھی
دادو آرہی ہیں پاکستان۔۔۔۔
حاشر نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔ وہ بیچارہ تو گنگ رہ گیا
کہاں سے لائیں گے تیری بیوی۔۔؟؟؟ یار آبی یہ آئیڈیا بہت بکواس تھا یار سوری وہ روہانسا ہورہا تھا
ابرہیم کو تو جیسے سکتا ہوگیا تھا بالوں کو ہاتھوں میں جکڑ کر وہ وہی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔
سن تو ردابہ کو بول نا کہ وہ ہیلپ کرے۔۔
وہ بدحواس ہورہا تھا ابرہیم کو خود کو سنبھالنا پڑا تھا
ہمم اب بس یہی آخری راستہ ہے وہ پریشانی سے بولتا باہر کی جانب بڑھا تھا
ردابہ کو کال کی لیکن نمبر مسلسل مصروف جارہا تھا اس نے پریشانی سے ماتھا مسلا تھا
آخری کوشش کے طور پر اس نے نمبر ڈائل کیا جو ریسو کرلیا گیا
کیا مصیبت ہوگئی تھی یار اتنی کالز ریسو نہیں کر رہی تو بزی ہی ہونگی نا حد ہوتی ہے ایک بات
کال اٹھاتے ہی وہ اس پر برسی تھی جو پہلے ہی پریشان بیٹھا
بہت ضروری بات کرنی ہے مجھے ردابہ لیسن مجھے ہیلپ چاہیے تمہاری کچھ۔۔
ابھی میں بزی ہوں اےبی بعد میں بات کرتی اس نے جان چھڑانی چاہی تھی
پلیز ردابہ بات سنو وہ بے بس سا ہوا تھا
اچھا بولو۔۔۔ اس نے احسان کیا تھا
اس نے اسے اپنی پروبلم بتائی تھی پہلے تو دوسری طرف خاموشی چھائی رہی
لیکن تھوڑی دیر بعد اسکا قہقہ گونجا تھا
اوووو مائے گاڈ اے بی تم اتنے ڈرپوک ہو سوچا بھی نہیں تھا
وہ ہنسے جارہی تھی ابرہیم کو اسکا ہنسنا برا لگ رہا تھا
دیکھو اے بی یہ تمہارے مسئلے ہیں گوگل کرو بہت آئیڈیاز مل جانے میں کل دبئی جارہی ہوں آل دا بیسٹ۔۔۔
اس نے اپنی کہہ کر فون ہی بند کردیا
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا
پھر ردابہ کی بات یاد آئی تو موبائل نکال کر گوگل کیا اور جو آئیڈیا سامنے آیا وہ سارے ہی دل جلانے والے تھے تبھی موبائل رنگ ہوا تھا
ردابہ کا میسج تھا جس نے اسے جلد آنے کا کہا تھا کہ وہ آکر شادی کریگی
خوشی اور مصیبت ساتھ آئے تھے لیکن وہ پھر بھی خوش تھا آئیڈیا جو سامنے آیا تھا اب اس پر عمل کرنے کی دیر تھی
اب یہ کام خود ہی کرنا پڑے گا اس کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا اب آگے اس کے پاس بہت کم دن تھے اس پر عمل کرنے کے لئے۔۔۔
وہ خاموشی سے بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا تبھی حاشر باہر آیا۔۔
کہا جارہا ہے حاشر؟؟
ہاسپٹل جارہا ہوں یار آج زلیخا بی کو سرجری کی ڈیٹ کنفرم کرنی ہے تو بس وہی جارہا ہوں
ہمم ویسے پیسے دے دئیے
ہاں لان کا کہا تھا انہوں نے تھوڑے تھوڑے کر کے دے دینگے ویل نا بھی دیں تو مسئلہ میں نہیں یہ میں اپنے اکاؤنٹ سے دے دوں گا غریب ہیں بچاری دو دو جوان بیٹیاں ہے ثواب ہی ملے گا
ہممم اچھی بات ہے چل تو جا
تو آفس نہیں جارہا؟؟
ہاں بس جارہا ہوں تو نکل میں بھی نکلوں گا تھوڑی دیر میں ۔۔
وہ حاشر کو بائے بول کر تیار ہونے چل دیا
آفس پہنچ کر وہ کام میں کافی مصروف رہا تھا تبھی اسے کسی کے آنے کی اطلاع ملی
اسکا دوست ارحم کافی ٹائم بعد اس سے ملنے آیا تھا
وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا
کہا غائب تھا یار ۔۔
کہیں نہیں یار بس باہر ہوتا ہوں
اوو گڈ ویسے کیا جاب کرتا وہاں ۔۔
آرام کرتا ہوں اور کیا وہ آنکھ مار کر بولا
کہا مطلب ؟؟
ارے گرین کارڈ ہولڈر سے شادی کی مطلب پیپر میرج اور اب مزے تو بتا
اس کی بات پر وہ حیران ہوا تھا
کوئی پرابلم ہے؟؟ اس نے ابرہیم کو پوچھا تو وہ اسے اپنی پرابلم بتاتا گیا
ارے تو اس میں کونسی مشکل ہے آج کل بہت ایسے طریقے بلکہ ایک طریقہ میں تجھے بتاتا اور جو طریقہ اس نے بتایا وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے ٹھیک ہی لگا تھا
لیکن میں؟؟
کچھ نہیں ہوگا ابھی میں ہوں یہاں سب ٹھیک کر کے جاؤں گا
اسے بول کر وہ ہنس دیا تو وہ بھی ریلیکس ہوا تھا