۱۸۔ ایمرسن
یہ نظم ایک امریکی شاعر ایمرسن سے ماخوذ ہے۔
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
۱۹۔ مقابلہ
یہاں مکڑے اور مکھی والے معاملے کے اُلٹ ہے۔ مکڑا مکھی کو اپنے گھر بلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ پہاڑ گلہری کو دُور بھگا رہا ہے۔
۲۰۔ حد سے بڑھنا
ذرا سی چیز ہے، اِس پر غرور، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
۲۱۔ سچائی
پہاڑ خوش مزاج نہیں ہے۔ اُس کی باتوں میں اکڑ بھی ہے مگر مکھی کے برعکس وہ اپنی حقیقت سے واقف ہے۔ مکڑے کی طرح خوشامدی بھی نہیں۔ جب وہ کہتا ہے، ’’زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے‘‘ تو اُس کی بات دل کو لگتی ہے کیونکہ اپنی جگہ یہ بات سچی ہے۔ پھر ہمیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ گلہری سے کیوں خفا ہے۔ ہو سکتا ہے گلہری نے واقعی غرور کا مظاہرہ کیا ہو اور اپنی حد سے آگے بڑھ گئی ہو جس پر پہاڑ اُسے اُس کی حقیقت یاد دلا رہا ہو۔
۲۲۔ موازنہ
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!
۲۳۔ غلطی
پہاڑ کی آخری بات غلط ہے۔ پہاڑ اپنی جگہ ہے اور جانور اپنی جگہ ہیں۔
اب اُس کی باقی باتیں بھی غلط لگنے لگی ہیں کیونکہ اب یہ بات اہم نہیں رہی کہ وہ کس بات پر گلہری سے ناراض ہوا تھا۔ اب یہ بات اہم ہو گئی ہے کہ اُس نے غلط موازنہ کیا ہے۔
ہمیں یہ بات اِس لیے بھی بری لگ رہی ہے کیونکہ پہاڑ نے جانوروں کو جو طعنہ دیا ہے وہ ہم پر بھی پورا اترتا ہے۔ خیر ہم جانور تو نہیں انسان ہیں مگر گلہری کی طرح ہم بھی پہاڑ سے چھوٹے ہیں۔
۲۴۔ گلہری کا جواب
کہا یہ سن کے گلہری نے، منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
۲۵۔ طبیعتوں کا فرق
گلہری کی طبیعت مکھی سے مختلف ہے۔ مکھی کی باتوں میں شروع ہی سے گھماؤ پھراؤ تھا مگر گلہری کی بات دو ٹوک ہے۔
البتہ ابھی اُس کی بات میں وزن پیدا نہیں ہوا۔ یہ کوئی بہت سمجھداری کی بات نہیں ہے کہ پہاڑبھی اُس کی طرح چھوٹا نہیں ہے۔ اگر یہی بات دل میں بٹھا لی جائے تو پھر آگے بڑھنے اور زندگی میں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے بلکہ یہ کہہ دینا کافی ہو کہ اگر ہم پیچھے رہ گئے ہیں تو کیا ہوا، جو ہم سے آگے نکلے ہیں وہ بھی تو ہماری طرح پیچھے نہیں رہ سکے!
۲۵۔ خدا کی قدرت
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اُس نے
۲۶۔ حقیقت
اب معلوم ہوتا ہے کہ گلہری نے جب پہاڑ سے یہ کہا تھا کہ وہ بھی اُس کی طرح چھوٹا نہیں ہے تو اصل میں اُس کا مطلب یہ تھا کہ صرف بڑا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ کچھ کر کے دکھانا بھی ضروری ہے۔ اپنی مرضی سے قدم اٹھانا اور اپنی جگہ سے آگے بڑھنا بھی بڑی بات ہے چاہے آگے بڑھنے والا خود چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
پہاڑ نے گلہری سے موازنہ کر کے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ پہاڑ جانور سے بہتر ہے۔ گلہری بھی موازنہ کر رہی ہے مگر وہ یہ نتیجہ نہیں نکال رہی کہ جانور پہاڑ سے بہتر ہیں۔ وہ یہ کہہ رہی ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ اہم ہے۔
۲۷۔ حرکت کی اہمیت
قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دِکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو
۲۸۔ تین گواہ
اپنے بارے میں پہاڑ کی بات درست تھی مگر دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں وہ غلطی کر گیا۔ یہ اِس لیے ہواکیونکہ وہ دوسروں کو اپنی نظر سے دیکھ رہا تھا مگر اپنے آپ کو اُن کی نظر سے دیکھنے پر تیار نہیں تھا۔
گلہری نے اپنے آپ کو اپنی نظر سے بھی دیکھا، پہاڑ کی نظر سے بھی اور خدا کی نظر سے بھی۔ اپنی نظر سے دیکھنے پر محسوس ہوا کہ وہ پہاڑ سے بہتر ہے کیونکہ وہ دوڑ سکتی ہے۔ پہاڑ کی نظر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ اُس کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے۔ خدا کی نظر سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ دنیا میں ہر چیز ایک دُوسرے سے مختلف ہے تو اِس کی کوئی وجہ ہو گی۔
حقیقت سے قریب ہونے کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے بارے میں تین گواہ تلاش کیے جائیں۔ پہلے گواہ ہم خود ہیں۔ دوسرا گواہ اپنے آپ کو دوسرے کی نظر سے دیکھنا ہے۔ تیسرا گواہ اپنے آپ کو خدا کے نور کی روشنی سے دیکھنا ہے۔
مکھی کے تین جھوٹ انہی تین گواہوں کو جھٹلا رہے تھے جبکہ گلہری نے انہی تینوں کی مدد سے اپنے آپ کو پہچانا ہے۔
ہم دنیا کو جس طرح دیکھتے ہیں اُس کا اثر ہماری زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ پہاڑ یہ سمجھے ہوئے تھا کہ وہ جانوروں سے بہتر ہے چنانچہ اُسے کبھی احساس ہی نہیں ہو سکا کہ چلنا پھرنا بھی کچھ ہوتا ہے۔ گلہری اُس کے رعب میں آ جاتی تو وہ بھی اُسی کی نظر سے دیکھنے لگتی اور اُسی کی طرح چلنے پھرنے کی اہمیت کو سمجھنے سے محروم ہو جاتی چاہے خود اُس کے بعد بھی درختوں پر چڑھتی اور اترتی رہتی۔
۲۹۔ خلاصہ
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
۳۰۔ قرآن
قرآن شریف میں ہے کہ خدا اِس بات سے نہیں شرماتا کہ کسی چیز کو مچھر سے مثال دے یا کسی بڑی چیز سے۔ جو ایمان رکھتے ہیں وہ پہچانتے ہیں کہ یہ اُن کے پروردگار کی طرف سے آنے والی سچائی ہے مگر اُس کی نشانیوں کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ بھلا خدا ایسی مثالوں سے کیا چاہتا ہے!
یہ دنیا خدا نے بنائی ہے تو پھر یہ بھی اُس کی کتاب کی طرح ہے۔ قرآن میں آیتیں ہیں اور دنیا میں خدا کی نشانیاں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سیار گاہ میں دوسرا مقام عطارد تھا۔ وہ دریافت کا سیارہ تھا۔ دُوسری نظم میں آپ نے باغ کی حقیقت دریافت کر لی ہے۔