انھی دنوں میں میرے ہاں دوسری لڑکی پیدا ہوئی اور چالیس دن کے بعد چلہ نہا کر میں تو والدہ کے ہاں دہلی چلی آئی اور میاں وہیں رہے۔ اور بھی قرضہ کر لیا۔ میں کوئی دو تین مہینے رہ کر پھر لودھیانہ کو واپس آ گئی۔ یہاں آئے کوئی دو تین مہینے گزرے ہوں گے کہ گود کی لڑکی کو ایسا جان ہار بخار چڑھا کہ جان ہی لے کر ٹلا۔ پلی پلائی پڑا سی لڑکی چار دن کے بخار میں چٹ پٹ ہو گئی۔ میں کلیجہ تھام رہ گئی۔ میرے کلیجہ پر اولاد کا یہ پہلا داغ تھا۔ لیکن خدا کی مرضی میں کیا چارہ تھا۔ صبر کیا، پر طبیعت کا یہ حال کہ دم بدم بگڑی جائے اور کلیجہ منہ کو آئے۔ کسی سے بولنے بات کرنے کو جی نہ چاہے۔ آخر بڑی لڑکی کو ساتھ لیے پھر دہلی چلی آئی۔ کوئی تین چار مہینے والدہ صاحبہ کے ہاں رہی اور پھر لودھیانہ کو واپس چلی گئی۔ رہی سہی کچھ مدت کے بعد پھر بال بچے کی مجھے امید ہوئی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو اطلاع دی۔ اب کے انھوں نے کسی دہلی کے پیرزادے سے ایک گنڈا بنوا کر مجھے بھیجا اور ساتھ ہی یہ بھی کہلا بھیجا کہ نواں مہینہ شروع ہو تو دہلی چلی آ نا۔
میرا دہلی آنا اور لڑکی کا پیدا ہو کر دونوں کا فوت ہو جانا
جب مجھے پورے دن شروع ہوئے تو میں دہلی چلی آئی۔ کوئی دس روز کے بعد بڑی لڑکی کے کلّے پر ایک دانہ نمودار ہوا۔ وہ دانہ کیا تھا گویا اجل کا پیغام تھا۔ کیا کہوں اس دانہ کی سوزش سے لڑکی ایسی تڑپتی تھی جیسے بن پانی کی مچھلی۔ بہتیرا علاج کیا پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آٹھویں روز دنیا سے کوچ کر گئی۔ ہنوز وہ غم نہ مٹا تھا کہ پانچویں روز ایک اور لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی پانچ ہی روز دنیا کی ہوا کھا کر عقبیٰ کو سدھاری۔ اب تو غم کا پتلا بن گئی۔ اکیلی تنہا رہ گئی۔ عجب طرح کا حال ہوا، جینا وبال ہوا۔ دہلی سے بھی جی گھبرایا پھر لودھیانہ کا رستہ لیا۔
والدہ کا میرے ہمراہ لودھیانہ جانا اور بد مزاجی کر کے دہلی آنا
اب کے والدہ صاحبہ بھی میرے ساتھ لودھیانہ تشریف لے گئیں۔ پانچ چھ مہینے رہیں مگر ایسی بدمزاجیاں کیں کہ نفس تنگ کر دیا۔ اور ایک روز تو ایسی بگڑیں کہ کہنے لگیں میں تو ابھی دہلی جاؤں گی۔ مجھے اسہ وقت سوار کرا دو، میں دم بھر نہیں ٹھہرتی۔ خیر قہر درویش بر جان درویش۔ میں نگوڑی بذات خود ان کو پہنچانے دہلی آئی۔ یہاں آن کر تو انھوں نے میرا ایسا پیچھا لیا کہ دم ضیق میں کر دیا۔
میرا لودهیانہ واپس جانا اور والدہ کا پاٹودی جانا
آخر تنگ ہو کر میں بیس پچیس ہی روز میں لودھیانہ کو چلی گئی۔ اب تو یہ ایسی بگڑیں کہ خط کتابت تک بھی موقوف کر دی۔ لیکن میں ان کی خدمت گزاری برابر اسی طرح کرتی رہی۔ یعنی ساٹھ روپے ماہوار جو میرا زرِ وثیقہ تھا، وہ ان کو دیتی رہی۔ پھر انھوں نے اپنے پاٹودی جانے کی تدبیر کر لی۔ شاید کوئی پانچ مہینے کے بعد وہ پاٹودی تشریف لے گئیں۔ کیونکہ میں دہلی سے آخر فروری ١٨٦٩ء کو لودھیانہ چلی گئی تھی۔ اور والدہ صاحبہ نے ١١اگست ١٨٦٩ء کو محکمہ کمشنری دہلی میں اپنے زر وثیقہ کی درخواست کی تھی۔ تو وہ شاید اسی مہینے میں یا ستمبر میں پاٹودی تشریف لے گئیں۔ جب وہ وہاں پہنچ کر خاطر جمع سے بیٹھیں۔
والدہ صاحبہ کا مجھ سے روپیہ طلب کرنا
تو چند روز کے بعد انھوں نے ایک ماما کو لودھیانہ میرے پاس بھیجا اور وہ یہ پیام لائی کہ تمھاری والدہ نے کہا ہے: “میرے ذمے تین سو روپیہ کا قرضہ دہلی کا رہ گیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی ادا کا تم بندوبست کر دو”۔ میں نے ماما کو جواب دیا کہ “بوا! اس وقت تو مجھ سے روپیہ کا کچھ بندوبست نہیں ہو سکتا، کیونکہ میرے گھر میں آپ بے بندوبستی ہو رہی ہے اور میرا اپنا بال بال قرضے میں گھٹا ہوا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ‘پیر آپ ہی درماندہ ہے شفاعت کس کی کرائے’۔ فی الحال تو قرض خواہوں کو دلاسا دے کر وعدہ وعید سے روکیں، تھامیں۔ ان شاء اللہ تعالی آئنده کچھ تدبیر ہو جائے گی”۔ ماما یہ جواب لے کر واپس گئی۔ والدہ صاحبہ نے اس کے بعد بھی خط کتابت بند ہی رکھی۔ خیر میں بھی خاموش ہو رہی۔ کیونکہ میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی۔ قرض خواہوں کا ہجوم تھا اور خرچ کی تنگی۔ اس لیے کہ گھر لٹا لٹو کر جو میاں نے دھڑیوں قرضہ اپنے اوپر تھوپ لیا تھا، ساری آمدنی اس کی قسطوں میں لگی ہوئی تھی اور پھر جو نیا قرضہ ہوا اس کی ادائیگی کی کوئی سبیل نہ تھی۔ اس واسطے نہایت درجے کی ابتری پڑی ہوئی تھی۔ جب میری اپنی یہ صورت تھی تو اس حال میں ان کو میں اتنا روپیہ نقد بھیج کر کس طرح مناتی اور ایک مشت تین سو روپیہ کی رقم کہاں سے لاتی۔ خیر اب میری یہ صورت ہوئی کہ سوچتی ہوں الٰہی کیا کروں۔ ان قرض خواہوں کے تقاضوں کا کیا تدارک ہو۔
مرزا ایوب بیگ سے مشورہ کرنا اور ان کا گھوڑے خرید کر لانا
آخر میں نے مرزا ایوب بیگ کو بلا کر ان سے کہا کہ مرزا جی کوئی صلاح بتاؤ یا کچھ تدبیر کرو۔ میاں کو تو کچھ پروا نہیں اور میں قرض خواہوں کے بلوے سے سخت حیران ہوں، زیست سے تنگ ہوں۔ مرزا جی نے میری تشفی کی اور کہا کہ خاطر جمع رکھو اللہ تعالی مددگار ہے۔ ایک تدبیر کرتا ہوں۔ مرزا جی مجھ سے یہ کہہ کر چلے گئے اور بطور خود کہیں سے چار سو روپیہ قرض لے آئے۔ دوسرے ہی دن وہ روپیہ لے امرتسر کو روانہ ہوئے۔ وہاں سال کے سال گھوڑوں کا میلہ ہوا کرتا ہے۔ ان دنوں میں بھی وہاں میلہ تھا۔ پانچ چھ روز کے بعد امرتسر سے دو گھوڑے بہت عمده خرید کر لائے۔ ادھر تو گھوڑوں کو پالنا شروع کیا، انھیں خوب کھلایا پلایا موٹا تازہ کیا، ادھر ادھر قرض خواہوں کو بھی دل دہی کرتے رہے کہ دیکھو اب خدا چاہے تو ہمارے گھوڑے تیار ہو جاتے ہیں تو کیسی قیمت پاتے ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ تم ہی لوگوں کے لیے یہ کھڑاگ کیا ہے۔ اب کچھ دیر نہیں، خاطر جمع رکھو۔ تم دیکھو گے کہ کتنی جلدی تمھارے روپیوں کی سبیل ہو جاتی ہے اور ذرا میاں صاحب کو بھی کچھ نشیب و فراز سمجھاتے رہے۔ دو تین مہینے میں ان گھوڑوں کو تیار کر مرزا جی پٹیالہ لے گئے۔
مرزا ایوب بیگ کا گھوڑے بیچ کر روپیہ لانا اور قرض خواہوں کو دینا
اور چند ہی روز میں وہاں ان گھوڑوں کو دو ہزار روپیہ کو فروخت کر واپس آ گئے۔ یہاں آن کر انھوں نے وہ دو ہزار روپیہ میرے آگے رکھ دیے کہ لو بیگم اب یہ تم قرض خواہوں کو دے کر کچھ سبک دوش ہو جاؤ۔ میں نے اس وقت وہ دو ہزار روپیہ لیے ریوڑیوں کی طرح سے قرض خواہوں کو بانٹ دیے۔ جب انھوں نے چین لیا اور مجھے بھی دم لینے دیا، اور قرضہ بھی کچھ ہلکا ہوا۔ خدا مرزا جی کا بھلا کرے۔ انھی دنوں میں مجھے بال بچے کی امید ہوئی۔ اس وقت یہ صلاح ٹھہری کہ اب کے پاٹودی میں جا کر بھائی محمد صادق علی خاں صاحب کے مکان پر یہ چلہ تمام کروں۔
میرا پاٹودی جانا اور لڑکا پیدا ہو کر اس کا فوت ہونا
یہ سوچ کر لودھیانہ سے پاٹودی کی طرف روانہ ہوئی اور میں وہاں سے دہلی تک ریل میں آئی کیونکہ لودھیانہ سے دہلی تک ریل جاری ہو گئی تھی۔ پھر دہلی سے ایک رتھ اور ایک ڈولی کرایہ کر کے پاٹودی پہنچی۔ وہاں بھائی محمد صادق علی خاں کے مکان پر اتری۔ والدہ صاحبہ کو بھی خبر پہنچی، وہ بھی شب کو بھائی صاحب کے مکان پر آئیں اور بہت سی منتیں کر کے مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ کوئی آٹھ روز کے بعد میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ سب کو خوشی ہوئی۔ والدہ صاحبہ نے سارے کنبے کو جمع کیا اور سب کی دعوت کی۔ سوا مہینے کا چلہ نہا کر وہاں سے رخصت ہو لودھیانہ کو آئی۔ ایک مہینہ وہ لڑکا زندہ رہا۔ بعد ایک مہینہ کے وہ بھی اتر گیا۔ میں کلیجہ پکڑ کر رہ گئی اور اب بالکل مایوس ہو گئی کہ میری کوئی اولاد زندہ نہیں بچے گی۔ اسی طرح پیدا ہوتی جائے گی اور مرتی جائے گی۔ کیونکہ یہ چوتھا داغ تھا جو میرے کلیجے پر لگا۔
احمد علی خاں کا پیدا ہونا
چند روز کے بعد پھر مجھے امید ہوئی۔ اگرچہ اب کی دفعہ والدہ صاحبہ سے خط کتابت جاری تھی، پر وہ بال بچہ ہونے تک میرے پاس نہیں آئیں۔ یہاں تک کہ ١٨ رجب ١٢٨٨ھ کو میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام احمد علی خاں رکھا۔ اس کے پیدا ہونے کی خوشی ہوئی۔ پر ساتھ ہی یہ رنج بھی تھا کہ یہ کاہے کو جیے گا۔ غرض کچھ خوشی کچھ رنج۔ اسی شش و پنج میں تھی کہ بیمار پڑی۔ ایک مہینہ بعد کچھ صحت ہوئی تھی کہ رمضان شریف آ گئے۔