گہری رات کا سناٹا مزید گہرا ہو گیا تھا۔آخری دنوں کا چاند ابھی تک نہیں نکلا تھا ۔نادیہ اندھیرے میں ٹمٹماتے ہوئے برقی قمقموں کو دیکھ رہی تھی ۔حویلی سے چھن کرجانے والی روشنی میں ذرا فاصلے تک منظر سسک رہے تھے۔اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں اور اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں کہ اندھیرے انہیں نگل نہ جائے۔وہ اپنے آپ سے فرار حاصل کر کے دنیا سے بے خود ہو کر سو گئی تھی۔شاید وہ تنہا ہوتی تو اتنی چھبن نہ ہوتی۔جتنا اردگرد کی باتوں نے اسے دکھ دیاتھا۔ظہیر شاہ تو پہلے ہی اس کی زندگی میں نہیں تھا۔اب اگر وہ لندن چلاگیا ہے تو اس کی زندگی میں تو کوئی فرق نہیں آیا۔مگر ایسا کر کے اس نے نادیہ کو کم مائیگی کا احساس ضرور دلا دیا تھا۔اس نے بڑے مان اور حق سے ظہیر شاہ کے سامنے شرط رکھی تھی ۔ اگر اس کے دل میں نادیہ کے لیے ذرا سا پیار یا تھوڑی سی ہمددری بھی ہو گی نا تو وہ ضرور اس کی بات پر غور کرتا۔اگر اس کے بس میں نہ ہوتا تو اچھی طرح سے اسے سمجھانے کی کوشش کرتا۔اس کی انا پر ذرا سی ٹھیس کیا آتی وہ پوری طرح کھل گیا۔اس کے اندر کا سخت گیر انسان جو پیر سائیں کا جانشین تھا۔ایک دم سے بول پڑا۔اس نے اپنا آپ ظاہر کر دیا کہ وہ کیا ہے اورکیسا ہے۔وہ جتنا بھی تعلیم یافتہ ہو گیا تھا مگر اس کے ضمیرمیں وہی حاکمانہ انداز تھا۔ضد اس کی گھٹی میں تھی اور اپنی عظمت کو منوانا ان کی فطرت بن گئی ہوئی۔انہوں نے روایات کے سہارے تو خود کو بنا سنوار لیا تھا لیکن زندگی کی حقیقت اور فطرت کے تقاضوں کو نہیں اپنایا تھا۔انہیں یہ خیال کیوں نہیں آیاتھا کہ جو خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے وہی خون اس کی رگوں میں بھی تھا۔یہی سوچتے ہوئے اس کی ذہنی رو شعیب کی جانب ہوگئی تو ایک دم جیسے اس کے پورے وجود میں سناٹا پھیل گیا ۔ویسا ہی مہیب سناٹا جو حویلی کے دروبام ہمیشہ لپٹا رہتا ہے۔یہی سناٹا اس کی بغاوت کی بنیاد تھا۔وہ ایک دم سے خوف زدہ ہو گئی۔تبھی اس کے اندر سے ایک چیختی ہوئی صدا بلند ہوئی۔
’’کیوں اب تم کیوں خوف زدہ ہو گئی ہو۔یہ سناٹے تم نے خود چنے ہیں۔۔۔اب کیوں ڈرتی ہو؟‘‘
’’میں نے۔۔؟ نہیں تو۔۔۔میں نے کیوں یہ سناٹے چنے تھے؟‘‘ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’کیوں جھوٹ بولتی ہو۔۔محبت خودچل کر تیرے در تک آ گئی ۔۔لیکن تم نے اس کی قدر نہیں کی۔۔شعیب تجھے لینے کے لیے حویلی میں آ گیا تھا۔۔‘‘
’’میں نے کب اسے کہا تھا کہ وہ یوں خاموشی سے سر نیہوڑ ے ہر حکم مان لے ۔۔وہ لڑتا میرے لیے۔وہ مجھے لے جانے کے لیے ضد کرتا۔۔وہ پاگل ہو جاتا میرے لیے۔۔‘‘
’’کس برتے۔۔۔کس ناطے وہ تیرے لیے یہ سب کرتا ۔۔۔کیا تو نے اسے مان دیا ۔۔۔ عزت اور احترام کے اس استھان پر رکھا،جہاں پر کھڑا ہو کر وہ پورے اعتماد کے ساتھ تمہارے لیے لڑ سکتا۔اجنبیوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا جاتا جو تونے اس کے ساتھ کیا ہے۔۔‘‘
اس کے اندر سے احتجاج اٹھا تو وہ لمحے اس کی نگاہوں کے سامنے آ گئے جب شعیب کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ کمرے سے باہر دروازے کی درز میں سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس کے چہرے پر کس قدرے بے بسی پھیلی ہوئی تھی۔وہ وہاں بیٹھا کسی اجنبی کی طرح سب کو دیکھ رہا تھا اور جب اس نے شرط رکھی تھی تو اس کا چہرہ کس قدر سرخ ہو ا تھا۔وہ کیا تھے۔۔۔جذبات تھے ۔۔۔یا غصہ تھا۔۔۔کیا تھا۔۔۔
’’تو نے وقت خود اپنے ہاتھوں سے گنوادیا ہے۔تم لاہور میں اس کی تصویر دیکھنے سے لے کر اسے حقیقت میں اپنے سامنے دیکھنے تک ،کوئی فیصلہ نہیں کر پائی۔یہ مان لو کہ تم اپنے ہی فیصلے کے بوجھ تلے دب گئی ہو۔۔اب اگر سناٹے تمہارے اندر پھیل گئے ہیں تو اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔نہ حالات کا اور نہ ہی قسمت کا۔۔تم نے اپنی خوشیاں خود دوسروں کو دے دی ہیں۔اب تہی دامن ہو جانے کا کیا فائدہ۔اپنی قسمت کو ریت کی مانند اپنی مٹھی سے اُڑادیا ہے۔‘‘
’’نہیں،میں نے قربانی دی ہے۔۔‘‘اس نے چونکتے ہوئے سوچا۔
’’غلط کہہ رہی ہو۔۔اگر تم نے قربانی دینا ہوتی نا تو یوں تنہائی محسوس نہ کرتی ۔اپنے فیصلے پر افسوس زدہ ،ماتم نہ کر رہی ہوتی۔تم اپنے ذہن میں کچھ اور ہی لیے بیٹھی ہو۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو،کیا تم پیر سائیں سے نفرت نہیں کرتی ہو؟‘‘
’’ہاں ۔!مجھے نفرت ہے ۔۔لیکن مجھے شعیب پر بھی غصہ ہے اور میں۔۔۔۔‘‘
’’تم خود الجھی ہوئی ہو۔۔۔تمہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے پا رہا ہے۔اور اگر کچھ دکھائی بھی دے رہا ہے تو تم سمجھ نہیں پا رہی ہو کہ آخر کرنا کیا ہے۔۔اور اپنے اسی احمق پن کی وجہ سے تم اپنی بازی خود ہار گئی ہو۔نہ تمہاری بغاوت تمہارے کسی کام آئی ۔۔اور نہ تمہاری محبت۔۔۔‘‘
’’نہیں شعیب کو مجھ سے محبت ہے۔ورنہ وہ یوں تڑپ کر میرے لیے حویلی نہ بھاگا آتا۔۔‘‘
’’تو پھر تو نے اس کا مان کیا رکھا۔اس کے سامنے تک نہیں گئی۔۔اور اگر تجھے اب شعیب کی محبت کا احساس ہے تو کیا۔۔۔؟ وہ تو اب فرح کا ہو چکا ۔اب اگر تم اپنی محبت کا اظہار بھی کرو گی تو فرح کی گنہہ گار ہو گی۔ جیسے تم نے خود اپنے ہاتھوں سے سونپا ہے۔مان لو،زندگی تمہارے دَرپر خوشیاں لے کر آئی ،جیسے تم نے خود لوٹا دیا۔
’’میں اگر مان بھی لوں کہ میں نے خود اپنی خوشیاں دوسروں کو سونپ دی ہیں تو پھر کیا میری زندگی کی تنہائی ختم ہو جائے گی۔۔؟‘‘
’’ختم نہیں ہو گی،لیکن سکون تو ہو جائے گا۔اپنا قصور مان لینے میں بڑاحوصلہ چاہئے۔‘‘
’’میں کیا کروں۔؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں،بس تسلیم کر و کہ تم نے زندگی کے تحفوں کو ٹھکرا دیا ۔جس کے لیے تنہائی تمہارے سنگ اب چلے گی۔کرنا یہ ہو گا کہ نجائے تنہائی کو عذاب سمجھنے کے۔۔اس تنہائی کواپنا دوست بنا لو۔۔کسی کے سامنے اپنا دست سوال دراز نہ کرو۔اپنی ذات میں کھو جاؤ۔اپنی بے وقوفی ،اپنے احمق پن ۔یا جذباتی لمحوں کا شاخسانہ ۔۔جو بھی نام دو۔۔اسے بھول جاؤ۔اور دنیا پر یہ ظاہر کروں کہ تم نے قربانی دی۔اس پر قائم ہو۔۔‘‘
’’یہ تو منافقت ہوئی ۔۔میں تو منافقت نہیں کر سکتی۔۔‘‘
’’نہ کرو منافقت۔لیکن کسی پر اپنی کمزوری تو ظاہر نہ کرو۔‘‘
’’کیسے ۔۔کیسے ۔۔میں تنہائی کو اپنا دوست بنا سکتی ہوں۔‘‘
’’یہ سوچنا ہو گا۔۔۔یہ مجبوری ہے ۔۔کرنا ہو گا یہ۔۔۔‘‘
’’ہاں۔!میں اپنی تنہائی کو اپنا دوست بنا لوں گی۔گذری یادوں کے سہارے۔۔‘‘اس نے بے بسی سے سوچا تو کافی حدتک اس کے دل میں سکون اترگیا۔اسے لگا جیسے بہت بڑا بوجھ اس کے ذہن سے ہٹ گیا ہو۔وہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بیڈ کر آن لیٹی۔تبھی خوشبو کے آوارہ جھونکے کی مانند شعیب کا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آ گیا۔اختر رومانوی کی ہیولا جو اس کے ذہن میں بنا تھا۔وہ اس سے یکسر مختلف تھا۔اس نے اختر کے بارے میں یہی ہیولا بنایا تھا کہ وہ پتلے سے بدن کا ،عام سے لباس میں ملبوس ہو گا۔اس کے چہرے پر بے روزگاری نے کافی حدتک شباہت کو چھین لیا ہوگا۔ایک عام سا نوجوان جیسے زندگی سے تو کوئی حصہ نہیں لیکن زندگی کے لیے خاص جدوجہد کرنا بھی کرنا چاہتا ہوں۔کیونکہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے اکثر عملی زندگی میں کامیاب نہیں ہو پاتے ۔لیکن جب اس نے شعیب کو دیکھان تو اس کا خیال یکسر بدل گیا۔تصویر تو پھر تصویر ہوتی ہے ۔زندہ وجود جب سامنے آ جائے اور جذبات و احساسات کی مہکتی ہوئی پرچھائیں اس کے ساتھ خود پر اثر انداز ہو جائے تو بندے کو بے خود کر دیتی ہے۔اس فون پر کی جانے والی طویل باتیں یاد آنے لگیں۔گذری ہوئی راتوں کے وہ جذباتی لمحات ،جن میں اپنا آپ کسی کو سونپ دینے کو جی ہمک اٹھتا ہے۔باتوں کی آبشار میں وجود بھیگتا ہوا محسوس ہوتاہے۔دل بے ترتیب دھڑکنوں کو قابو کرنے کے لیے دل ہی نہیں چاہتا۔ہوا کے دوش پر بہہ جانے کو جی چاہتا ہے اور بدن سے اٹھتی ہوئی سوندھی سوندھی مہک بالکل کچی مٹی پر پانی پھنکنے جیسی ہو جاتی ہے۔جس سے بے خود ہو جانا اچھا لگتاہے۔ وہ لمحے اپنی پوری قوت کے ساتھ اس کے گرد منڈلانے لگے۔جیسے پرندے کسی سرسبز درخت پر ایک کے بعد ایک آ کر بیٹھنے لگتے ہیں۔تبھی ان گذرے لمحوں نے اس کے احساسات اور جذبات میں ہلچل مچا دی۔ لیکن اس بار ان لمحات کی خوشبو تو پھیلی مگر اس میں ہجر کی وہ ٹیس بھی شامل تھی جس نے اسے بے قابو کر دیا۔مایوسی کی لہر پورے وجود میں زہر بن کر پھیلنے کو تیار ہو بیٹھی۔کھودینے کا احساس نے اسے پوری طرح جکڑنے کی بھر پور کوشش کی۔تبھی وہ چونک گئی۔زندگی کی راہ پر اپنے فیصلے کا زادراہ لے کر ابھی تو وہ محض ایک قدم ہی چلی تھی کہ ہانپ کر بیٹھ گئی۔کیا وہ روز اسی طرح خود جنگ کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔سارا دن خود کو سمیٹنے اور رات بکھرتے گذرے گی۔؟ وہ تو کسی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی اپنا وجود ریزہ ریزہ کر بیٹھے گی۔۔کیا وہ تنہائی کے سراب میں کسی سہارے کی تلاش میں سراب دیکھتی رہے گی یا پھر اس صحرا میں تڑی ہوئی پیاسی دم توڑ جائے گی۔۔کیا اس کے مقدر میں زندگی کی لطافتوں سے بھرا ہوا کوئی سائبان نہیں ہو گا۔وہ گبھرا کر اٹھ بیٹھی۔اس کا پورا بدن پسینے میں نہا چکا تھا۔وہ کیوں بہک رہی ہے۔اسے تو اپنے فیصلے پر قائم رہنا ہے ۔اس نے بے بسی سے خود پر غور کیا۔بدن کی تڑپ پکار رہی تھی اور وہ بے حال ہو کر خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔اچانک اسے خیال آیا کہ وہ اگر بے بس ہے تو اس کے بنانے والا تو بے بس نہیں اسے اپنے رب سے مدد مانگنی چاہیے۔وہی تو سارے بے سہاروں کا سہارا ہے۔وہ اگر اس کے ساتھ ہو گا تو کہیں بھی کمزوری اسے راہ سے بھٹکا نہیں سکے گی۔اسے اپنے رب ہی سے مدد مانگنا ہو گی۔اس خیال کے آتے ہی اسے یوں لگا جیسے دہکتی ہوئی آگ پر چھاجوں پانی برس جائے۔ایک سکون کی لہر پورے وجود میں پھیل گئی۔ٹھنڈ ک کا احساس اس کے پورے وجود میں مہکنے لگا ۔وہ جلدی سے اٹھی اور باتھ روم میں چلی گئی ۔کتنی ہی دیر تک پانی کے چھنٹے منہ پر مارتی رہی ۔پھر بڑے اہتمام سے وضو کیا اور کمرے میں آگئی۔اس نے جائے نماز بچھائی اور اپنے رب کے حضور کھڑی ہو گئی۔کمرے سے باہر رات کا اندھیرا اپنا آپ منوا رہا تھا اور کمرے کے اندر نادیہ اس روشنی کا سراغ پانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔جس میں وہ اپنے شعور کی لگامیں خود تھام سکتی تھی۔ہر طرف سکون چھا گیا تھا۔
***
زندگی میں جب بنا خواہش کے بہت زیادہ خوشیاں مل جائیں تو انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔اور پھر وہ خوشیاں جن کے بارے میں بندہ بالکل ناامید ہوتا ہے۔سوکھے ہوئے پیڑ پر اچانک بہار آ جائے تو اس درخت کے ثمرات کو پانے کی بے چینی بندے کو بے حال کر دیتی ہے۔نا امیدی سے امید تک کے سفر میں کھو دینے کا تو احساس ہی نہیں ہوتا،بس پانے کی جستجو اور خواہش بڑھتی رہتی ہے۔جب پا لیا تو پھر کھو جانے کا خوف اپنی پوری ہیبت کے ساتھ بندے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔فرح کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔اس نے تو کبھی سوچانہیں تھا کہ اس کی شادی ہو جائے گی۔اب جبکہ وہ خواب کہیں جیسے لمحات میں سے گذررہی تھی۔شعیب کی محبت نے اسے نہال کر دیا ہوا تھا۔ایسے میں حویلی کی طرف سے آنے والی ہوائیوں میں خوف زدہ کر دینے والے احساسات اسے دہلا دیتے تھے۔کبھی کبھی تو وہ اپنی ہی سوچوں سے گبھرا جایا کرتی تھی ۔اس کے شادی کے پہلے ہی دن جب وہ حویلی گئی تھی ۔تبھی نادیہ کو تہی داماں پایا تھا۔لیکن آفرین ہے نادیہ پر اس نے شکوہ یا شکایت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔بلکہ اسے زیادہ محبت سے اپنے اور خدمت کرنے کی تلقین کرتی رہی تھی۔نجانے اسے کیوں لگ رہا تھا کہ یہ خوشیاں جو اس کے حصے میں آتی ہیں ،اس کی اپنی نہیں،نادیہ کی دی ہوئی ہیں۔
’’ فرح ۔۔۔اری او فرح۔۔کہاں ہو بیٹی۔۔‘‘ زبیدہ پھو پھو کی آواز پروہ اپنے خیالوں سے چونکی ،وہ باہر کہیں کھڑی اسے آوازیں دے رہی تھی۔تب وہ جلدی سے نکل کر کمرے سے باہر آگئی۔زبیدہ کاریڈور کے کنارے کھڑی تھی۔
’’جی پھوپھو۔!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے پاس چلی گئی۔
’’ارے بیٹا،شعیب کے آنے کا وقت ہو گیا ہے اور ابھی تک تم ویسے ہی پھر رہی ہو۔تھوڑا بہت تیار ہو جاتے ہیں بیٹی۔‘‘زبیدہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
’’ابھی میں نے کھانا بنوایا ہے خانساماں سے ۔۔کچن سے آ کر بیٹھی ہوں۔‘‘اس نے وجہ بتائی تو زبیدہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ،تم تیار ہو کر آ جاؤ ڈرائینگ روم میں۔‘‘زبیدہ نے کہا اور اس طرف بڑھ گئی ۔اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے وہ یونہی سوچنے لگی کہ سنا ہے ساس بہت ظالم ہوتی ہے۔ یہاں تو یہ نعمت میسر تھی کہ وہ بالکل بڑوں کی مانند اس کی دیکھ بھال کر تی تھی۔وہ اپنی قسمت پر مسکرا دی۔
وہ تیار ہو کر ڈرائینگ روم میں آ گئی تو زبیدہ پھوپھو کو اپنی سوچوں میں گم پایا تب وہ اس کے قریب صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’پھوپھو۔!میں نے دیکھا ہے کہ آپ زیادہ تر سوچوں میں گم رہتی ہیں آخر ایسی کیا بات ہے۔‘‘
’’بیٹی۔!یہ جو یادیں ہوتی ہیں نا۔۔۔یہ انسان کا بڑا سرمایہ ہوتی ہیں۔اچھے دن چاہے وہ بہت تھوڑے سے بھی ہوں۔۔وہ یاد آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم زندہ ہیں۔۔۔‘‘
’’اگر میں غلط نہیں توکہہ سکتی ہوں کہ آپ پھوپھا کاشف کو یاد کرتی ہیں۔‘‘ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بیٹی۔!وہی تو میری زندگی کا حاصل تھا۔اس کا اور میرا ساتھ جتنا بھی تھا۔وہ ایسا تھا کہ بندہ چاہتے ہوئے بھی اسے نہیں بھلا سکتا۔‘‘اس نے یادوں میں بھٹکتے ہوئے خود کلامی کے سے انداز میں کہا ۔پھر چونکتے ہوئے بولی۔’’بیٹی۔!یہ جو تعلق ہوتے ہیں نا،بڑے نصیبوں سے بنتے ہیں۔ان کی حفاظت کرنا۔۔۔خوشگوار تعلق ہوں نا تو زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے۔ ورنہ تعلق نبھانے میں خونِ جگر بھی رائیگاں چلا جاتاہے۔قسمت والے ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں اچھا ساتھ مل جاتاہے۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔۔میں جو کبھی ایسے تعلق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔مجھے یوں مل گیا کہ سوچنا بھی نہیں پڑا۔اور نادیہ کے من میں کیا ہے ۔یہ میں نہیں جانتی ،لیکن اس نے نہ صرف اپنے ہر فیصلے پر خود لکیر پھیری ہے بلکہ وہ کسی بھی فیصلے تک پہنچے میں خود اپنی سوچوں کوسہارا نہیں لیتی۔ڈٹ جانے کی اس میں ہمت ہی نہیں ہے۔‘‘زبیدہ نے اپنے تئیں تجزیہ کرتے ہوئے کہا تو فرح تیزی سے بولی۔
’’لیکن پھوپھو ۔!آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ ایسی میں حوصلہ ہے ،ورنہ وہ حویلی کی روایات کو توڑ کر اتنی دور نہ چلی جاتی۔‘‘
’’وہ ہی تو میں کہہ رہی ہو،فیصلہ کر کے اس پرثابت قدم رہنا نہیں آتا اس کو۔۔اگر وہ شعیب کے لیے گئی تھی تو پھر اسے ہر حال میں شادی بھی اسی سے کر لینی چاہئے تھی۔اپنے فیصلے پر قائم رہتی۔۔‘‘اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’شاید یہاں قدرت کافیصلہ تھا۔‘‘وہ دھیرے سے بولی۔
’’خیر۔!جو ہوا سو ہوا۔نجانے آنے والے حالات میں کیا ہے۔اس بارے کچھ بھی تو نہیں کہا جا سکتا۔لیکن۔! تم اپنے اس تعلق کو بہت خوشگوار رکھنا۔اس کے لیے زندگی کی راہوں پر چلتے ہوئے بہت ساری قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔شوہر اور بیوی کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ ٹوٹے نہیں ٹوٹ سکتا۔لیکن اگر اس میں کہیں شک کی دراڑ پڑ جائے تو کچے دھاگے سے بھی نازک تعلق ہوتاہے۔یہ سارا تعلق اعتماد اور یقین پر ہوتاہے۔‘‘
’’جی پھوپھو۔! آپ میری راہنمائی کرتی رہیں نا۔۔‘‘اس نے کافی حد تک خوف زدہ لہجے میں کہا ۔اس پر زبیدہ مسکرا دی اور بڑے پیار سے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔اور بڑے نرم لہجے میں بولی۔
’’میں ہوں نا ادھر۔۔لیکن تم خود کو مضبوط رکھنا۔۔‘‘
یہ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔
’’لگتا ہے شعیب آ گئے۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی تو زبیدہ نے اطمینان سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا،میں نے شعیب سے بات کرنی ہے ،تم لوگوں کے بارے میں،میری ہاں میں ہاں ملاتی رہنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے،پھوپھو۔‘‘فرح نے سعادت مندی سے کہا اور شعیب کی راہ تکنے لگی۔
وہ جب کھانا کھا چکے اور گپ شپ کے لیے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ زبیدہ نے یونہی بات چھڑ دی۔
’’شعیب تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری شادی کو آج ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔‘‘
’’جی امی۔‘‘اس نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔پھر سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ سوال ایویں نہیں،کسی خاص بات کہ تمہیدہے۔
’’اب تمہیں بھی معلوم ہے کہ یہ شادی کس حال میں ہوئی اور حالات کیا تھے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں اپنے بیٹے کی بارات دھوم سے لے کر جاتی،چار دن خوب ہلا گلا رہتااور میں ہر ماں کی طرح اپنے ارمان پورے کرتی۔‘‘وہ بڑی مسرت سے بولی تو شعیب نے خوشگوار انداز میں کہا۔
’’امی۔!اس ساری تمہید کو چھوڑیں اور جو آپ نے اصل بات کہنی ہیں وہ کہیں۔ورنہ پھر میں نے یہ ضد کر لینی ہے کہ میری بارات لے کر جائیں اور فرح کو دوبارہ سے دلہن بنا کر لے آئیں۔‘‘
’’ویسے ہونا تو یہی چاہیے ،لیکن اب اس میں وہ مزہ نہیں رہے گا۔۔‘‘اس نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔
’’تو اصل بات بتائیں پھر۔؟‘‘ وہ بولا۔
’’دیکھو،میرے تو ارمان پورے نہیں ہوئے ۔لیکن بے چاری کا کیا قصور ہے ۔اسے تو کہیں لے کر جاؤ،گھماؤ ۔پھراؤ۔‘‘زبیدہ نے فرح کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’امی،یہ سارا قصور آپ کا ہے ۔آپ نے پہلے کہا ہی نہیں۔ورنہ میں اسے کب کا لے جاتا،ویسے کیا،یہ بات فرح نے آپ سے کہی ہے؟ ‘‘وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’نہیں،میں نے خود سوچاہے۔اب ایسا کرو،پورے ایک ہفتے کی یا دس دن کی چھٹی لو ،اور نکلویہاں سے ۔مجھے بھی لاہور سے آئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں۔‘‘
’’تو یوں کہیں نا،آپ کا جی یہاں نہیں لگ رہا۔‘‘وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا۔
’’نہیں،اب میں نے کہاں جانا ہے پتر۔مرنا جینا تم دونوں کے ساتھ ہے۔تم ذرا شمالی علاقوں میں گھوم آنا اور میں اتنے دن لاہور رہ لوں گیا۔بس اتنی سے بات ہے۔‘‘وہ اداس لہجے میں بولی۔
’’امی۔کیوں نہ ایسا کریں۔یہاں سے تبادلہ کروالیں۔‘‘وہ سنجیدگی سے بولا۔نجانے اس کے لہجے میں حسرت کہاں سے اتر آئی تھی۔زبیدہ نے اس کے لہجے پر توجہ دیئے بغیر کہا۔
’’اگر تو لاہور میں ہوتا ہے تو پھر ٹھیک ہے ،ورنہ کسی اور شہر میں ہو تو پھر کوئی فائدہ نہیں،وہ بھی ایسا ہی ہو گا۔یہاں تو پھر حویلی نزدیک ہے ۔فرح کے لیے آسانی ہو گی۔‘‘
’’اوکے۔!تو پھر آپ سامان باندھیں۔میں نے پہلے ہی سے پندرہ دن کی چھٹی لے لی ہوئی ہے۔میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں جاؤ ں لاہور۔۔۔اپنے دوستوں یاروں سے ملوں۔۔کیوں فرح تم تیار ہو؟ ‘‘ آخری فقرہ اس نے فرح کی طرف دیکھ کر کہا جو ان کی باتوں کے درمیان بالکل بھی نہیں بول تھی۔
’’جی، جیسا آپ چاہیں۔‘‘اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
’’تو ٹھیک ہے کل دن کے وقت نکلتے ہیں۔‘‘شعیب نے حتمی انداز میں کہا اور اٹھ گیا۔زبیدہ نے فرح کی طرف دیکھا تو دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرا دیں۔ان کے دل کی بات شعیب نے پہلے ہی بوجھ لی ہوئی تھی۔
اگلی صبح جب وہ ناشتے سے فارغ ہوئے تو شعیب نے فرح کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’ہاں تو پھر چلنے کے لیے تیار ہو؟‘‘
’’جی ،میں بالکل تیار ہوں۔‘‘
’’اور امی۔؟‘‘
’’وہ بھی تیار ہیں۔‘‘
’’تو پھر نکلیں۔سامان رکھواؤ گاڑی میں۔‘‘
’’وہ پھوپھو نے رکھوا دیا ہے۔ڈرائیور انتظار کر رہا ہے۔‘‘
’’چلو پھر۔‘‘یہ کہتے ہوئے شعیب اٹھا اور ڈرائینگ روم میں آ گیا۔جہاں زبیدہ بیٹھی ہوئی تھی۔اسے دیکھ کر وہ بولا۔’’چلیں امی۔‘‘
’’ہاں،وہ ذرا ڈرائیو رسے کہہ دینا،حویلی کی طرف سے ہوتا ہوا چلے،جاتے ہوئے ان سے مل لیں۔‘‘زبیدہ نے اٹھتے ہوئے تو وہ ایک دم سے چونک گیا۔پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
’’امی۔!اب چھوڑیں،وہاں پتہ نہیں کتنا وقت لگ جائے واپسی پر سہی۔‘‘
’’ کتنا وقت لگے ،زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ آدھا گھنٹہ۔وہاں ہم نے سارا دن تھوڑی رہنا ہے۔‘‘وہ حیرت سے بولیں۔
’’تو امی،آپ پہلے حویلی سے ہو کر آ جائیں۔پھر ہم نکل چلتے ہیں۔میں آپ کا یہاں انتظار کرتاہوں۔اس نے کہا اور صوفے پر ٹک گیا۔تب فرح کے چہرے پر پھیلی ہوئی ساری خوشگوار ختم ہو گئی۔جیسے سورج کے آگے بادل آ گئے ہوں۔
’’کیا تمہیں حویلی جانا اچھا نہیں لگتا؟‘‘زبیدہ نے پوچھا تو اس نے صاف لفظوں میں کہا۔
اچھا لگنے یا نہ لگنے کی بات نہیں ،بس میں نے سوچ لیا ہے کہ وہاں نہیں جانا تو بس نہیں جانا۔‘‘
’’اس کی وجہ؟‘‘وہ تیز لہجے میں بولی۔
’’میں نہیں جانتا۔اس نے یہ کہہ کر لا جواب کر دیا۔ماحول میں ایک دم سے تلخی در آئی تو گذرتے ہوئے لمحے بھاری لگنے لگے۔تبھی فرح نے بڑے اعتماد سے کہا۔
’’پھوپھو۔!اگر شعیب حویلی نہیں جانا چاہتے تو اس میں سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ جائیں یا نہ جائیں۔انہوں نے ہمیں تو نہیں روکا۔اگر آپ حویلی جانا چاہیں تو آپ ہو آئیں۔میں بھی یہیں آپ کا انتظار کروں گی۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر زبیدہ نے بڑی گہری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔وہ سمجھ گئی کہ وقت یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی کوئی بات منواسکے۔جب فرح ہی اپنے حق سے دستبرار ہو رہی ہے تو وہ اپنے بیٹے کی ضد کو تسلیم کیوں نہ کرے۔یہ ایسا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اس سے حویلی نہ جانے کی وجہ پوچھے۔وہ جتنا پوچھتی ماحول اتنا ہی کشیدہ ہو جانا تھا۔اس نے چند لمحے سوچا اور پھرا ٹھ کھڑی ہوئی۔
’’چلو ۔!سیدھے نکلتے ہیں ۔بعد میں جب آؤں گی تو حویلی چلی جاؤں گی۔‘‘
اس نے یوں کہنے پر شعیب چند لمحے اپنی ماں کی طرف دیکھتا رہا ۔پھر تحمل سے بولا
’’امی۔!آپ حویلی سے ہو آئیں بلکہ فرح کو بھی ساتھ میں لے جائیں۔وہ ہمارا یوں اچانک جانا کسی اور ہی معنی میں نہ لے لیں۔‘‘
’’میں انہیں فون پر بتا دوں گی۔اور ہم ان کے پابند تھوڑ ی ہیں۔جو انہیں بتاتے پھریں ۔ جیسے ضرورت ہو گی وہ خود ہی فون کر لے گا۔چلو نکلو، اب دیر مت کرو۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ باہر کی جانب چل دیں۔وہ صوفے پر بیٹھا چند لمحے سوچتا رہا ،پھر اٹھ گیا۔فرح اس کے پیچھے پیچھے پورچ تک آ گئی۔ ذرا سی تلخی اب بھی اس کے من میں تھی۔اس کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار بڑھا دی۔فرح نے پہلی بار سلامت نگردیکھا تھا۔بچپن میں شاید وہ ان گلیوں اور راستوں سے گذری ہو گی،جو اب بہت بدل گئے تھے۔ اب اس کے سامنے جو منظر بھی تھے ،وہ سب نئے تھے۔وہ ان مناظر میں کھو جانا چاہتی تھی جو اسے شعیب دکھاتا۔
***
کئی دن گذر گئے تھے ۔نادیہ کامن نجانے کیوں بھاری بھاری رہتا تھا۔وہ لاکھ اپنی توجہ شعیب اور فرح کی طرف سے ہٹاتی ،مگر پھر بھی ذہنی رو ان کی طرف چلی جاتی۔ نجانے کب کے کہانیوں میں پڑھے ہوئے واقعات اس کے ذہن میں تازہ ہو جاتے ۔ اگرچہ ہر کہانی او ر افسانے کا ہیروین اور ہیرو الگ الگ تھے لیکن نادیہ کے ذہن میں آنے والے واقعات میں سارے ہیرو اب شعیب اور ہیروین فرح بن چکے تھے۔جو بھی واقعہ اس کے ذہن میں در آتا۔اس میں صورت حال جو بھی ہوتی،اس ساری صورت حال میں اسے وہ دونوں دکھائی دیتے ۔انسان چاہے جتنا بھی خود کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ دماغ بھی عجیب شے ہے۔سوچوں کے اتنے پہلو اس میں ابھرتے ہیں ،شعور اور لا شعور کی اتنی کارفرمایاں اس میں ہیں کہ انسان خود اسی کے ہاتھوں بے بس ہو جاتاہے۔وہ نہیں چاہتی کہ ان دونوں کے بارے میں سوچے لیکن کوئی نہ کوئی سوچ وہ سوچتی چلی جاتی۔وہ چونکتی اس وقت جب من میں ایک طرح کی یا بہت اور کھو دینے کا احساس جاگزیں ہو جاتا۔دل سے اٹھنے والی ہوک اسے کہیں کا نہ رکھتی تو وہ خود سے شرمندہ ہو جاتی۔جب اسے نے اپنی محبت کسی دوسرے کی جھولی میں ڈال دی تو پھر پچھتانا کا ہے کا۔یہیں سے اس کے اندر کشمکش کا آغاز ہو جاتا اور اس کے اندر بیٹھی ہوئی نادیہ سے گفتگو اس قدر بڑھتی کہ بحث تک جا پہنچتی۔یہ الگ بات ہے کہ اس بحث کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔یہ گفتگو،یہ بحث ،یہ ہمکلامی ،اس پر سوچیں ،ہمکلامی میں کبھی ہار جاتی اور کبھی جیت جاتی،لیکن اس کے دل میں کبھی یہ خیا ل نہیں آیا تھا کہ اس نے غلط کیا،کیونکہ اسی دوران اس کا اپنا مقصد پوری طرح تن کر اس کے سامنے آن کھڑا ہوتاتھا۔باوجود شدید خواہش کے وہ اپنے مقصد کے لیے ایک وہ بھرپور کوشش نہیں کر پائی تھی۔وہ ابھی اس حصار ہی سے باہر نہیں نکلی تھی جو خود اس نے اپنے گرد باندھ لیا تھا۔شاید وہ ان دونوں کو بھول کر اپنی دنیا میں کھو جاتی،جہاں اس کے اپنے تصورات تھے اور اپنی مرضی کی مملکت تھی مگر اس کی دنیا میں روزانہ ہی ہلچل پیدا ہو جاتی۔اماں بی،زہرہ بی ،یا پھر پیر سائیں کسی نہ کسی حوالے سے ان دونوں کا ذکر کر دیتے۔بات یہیں سے شروع ہوئی تھی کہ وہ حویلی میں آئے بغیرلاہور کیوں چلے گئے؟یہی سوال ان کے لیے سوہان روح تھا۔ کہیں محبت کا تقاضہ تھا،لیکن کھو جانے کا خوف تھااور کہیں انا پر ٹھیس پڑی تھی۔خود اس کی سوچ میں کیا تھا۔یہ جاننے کی اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔اس کے اندر سے خود بخود کوئی واقعہ ابھرتا اور چشم زدن میں وہ ان دونوں کو پا لیتی۔تب من کی دنیا ہی عجیب طرح کی لہریں اٹھ جاتیں۔جنہیں وہ خود سمجھ نہ پائیں اور جو سمجھ آئیں اسے نظر انداز کر جاتی۔
چاہئیے تو یہ تھا کہ گذرتے دنوں کے ساتھ اس کی یہ کیفیات ماند پڑ جاتیں لیکن ایسا نہ ہوا۔اب تو اس میں جذبات بھی شامل ہو گئے۔حسرتیں بھی منہ کھولے آ جاتیں ۔ امیدیں آنکھیں کھولے اس کی طرف تکنے لگتیں۔اور خواہشات اپنے بال کھولے اس کا طواف کرنے لگتیں۔ایسے میں وہ بے انتہا گھبرا جاتی۔فرار کی کوئی راہ اس کے پاس نہیں تھی۔یہی وہ کمزرو ترین لمحات تھے جن میں وہ بے بسی محسوس کرتی تھی۔وہ بے حال ہو جاتی۔وہ جب ایسے لمحات پاتی،تو اپنی توجہ مبذول کرنے کی بجائے فرار چاہتی۔تب اس کے علاوہ اس لے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ سیدھے جا کر وضو کرتی اور اپنے رب کے حضور جا کر کھڑی ہو جاتی۔یہی وہ وقت ہوتا جب وہ دنیا سے ناطہ توڑنے میں پوری طرح تو نہیں مگر کافی حدتک کامیاب ہو جاتی۔وہ جب تک حاضر رہی،تب تک سکون میں ہوتی۔پھر معمولات زندگی کی ابتداء ہوتی اور ایک دورانیے میں پھنس کر دوبارہ اسی کیفیت میں آ جاتی۔رسائل ،کتابوں اور میگزین کے انبار لگ گئے تھے لیکن ایک لفظ بھی پڑھنے کو جی نہ چاہتا تھا۔وجہ صرف یہی تھی کہ کسی بھی کہانی کا ہیرو شعیب ہوتا اور ہیروین فرح۔دوسرا اسے کچھ دکھائی نہ دیتا۔اس لیے پڑھنے والی چیزیں اس کی منتظر رہنے لگی۔سوائے رب کے حضور کھڑے ہوئے کے ،اس کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
اس سہ پہر بارش ٹوٹ کر برسی تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ سارے بادل آج ہی برس جائیں گے۔کچھ دیر پہلے ہی دادی اماں اسے بتا کر گئیں تھیں کہ شعیب اور فرح سوات کی حسین وادی میں ہیں۔وہیں سے انہوں نے فون کر کے بتایا ہے کہ وہ کہاں کہاں کی سیر کر رہے ہیں۔او رکیسا محسوس کر رہے ہیں۔وہ تو چلی گئیں لیکن موسم کی گھٹن کے ساتھ اس کے اندر کی گھٹن بھی بڑھنے لگی تھی۔پھر اچانک ہی بارش ہونے لگی تو وہ اپنی کھڑکی سے آن لگی۔دور تک برستا ہوا پانی سارے منظروں کو دھندلا کر رہا تھا۔اور وہ خیالوں کی دنیا میں اپنے وجود کو بھلانے کی ناکام کوشش میں تھی۔بارش کا شور کم اور اس کے اندر کا شور کہیں زیادہ تھا۔اسے ہوش اس وقت آیا جب بارش تھم گئی ،اس کے اپنے اندر کی اور باہر بھی۔اس نے اچانک ہی ایک فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل کرنے کا مضبوط ارادہ کر لیا۔اس نے اپنا بہترین لباس چنا اور باتھ روم میں گھس گئی۔
کافی دیر بعد جب سورج مغرب میں غروب ہو گیا اور شہرکے سارے برقی قمقمے روشن ہو گئے تب وہ کاسنی رنگ کے شلوارسوٹ میں ملبوس اور بڑی ساری سیاہ چادر میں خود کو چھپائے ڈرائینگ روم میں تھی۔اس کے ساتھ تاجاں مائی تھی،جس کے ہاتھ میں اگر بتیاں اور ڈھیرے سارے پھول تھے۔اماں بی اور زہرہ بی دونوں وہیں برا جمان تھیں۔اسے یوں دیکھ کردادی اماں نے پوچھا۔
’’نادیہ بیٹی ۔!کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’میں مزار پر جا رہی ہوں۔۔میں صاحب مزار کے لیے شاید اتنا نہیں ،بلکہ اپنے والدین کی آخری آرام گاہ پر جانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’لیکن تمہیں معلوم ہے کہ پیر سائیں نے حویلی کی سب خواتین کو مزار پر جانے سے منع کیا ہوا ہے۔‘‘زہرہ بی نے دھیمے سے لہجے میں اسے یاد دلایا۔
’’آپ ایسا کریں ،انہیں اطلاع دے دیں۔میرے خیال میں وہ مجھے منع نہیں کریں گے۔۔اور اگر انہوں نے منع کر دیا تو میں نہیں جاؤں گی۔واپس اپنے کمرے میں چلی جاؤں گی۔۔ایک ذرا بحث نہیں کروں گی۔‘‘نادیہ نے بڑے تحمل سے کہا۔اس پر دادی اماں جب لمحے سوچتی رہیں ۔پھر نادیہ کے چہرے پر پھیلے ہوئے اعتماد کو دیکھ کر بولی۔
’’ٹھیک ہے ،میں ایک بار پوچھ لوں۔‘‘
’’جی ضرور۔!‘‘ نادیہ نے کہا اوروہیں سے پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔اماں بی نے تاجاں بی بی ہی سے کہا کہ وہ جائے اور پیر سائیں سے اجازت لے آئے۔وہ فوراً ہی مردان خانے کی جانب چلی گئی۔ کافی دیر بعد جب کہ مغربی افق پر سرخی ختم ہو گئی ۔تاجاں اس کے کمرے میںآئی۔
’’بی بی سئین۔پیر سائیں نے اجازت دے دی ہے۔بس اتنا کہا ہے کہ عشاء کی اذان ہوتے ہی واپس حویلی پلٹ آئیں۔‘‘
’’اماں بی اور زہرہ بی کو بتا دی ہے یہ بات۔۔۔‘‘نادیہ نے پوچھا۔
’’جی،میں انہیں بتا آئی ہوں۔‘‘
’’تو پھر چلو،ہمارے پاس تھوڑاسا وقت ہو گا۔‘‘اس نے اٹھتے ہوئے کہا اوراپنی سیاہ چادر کو اپنے اردگردیوں لپیٹ لیا کہ صرف آنکھیں دکھائی دیں۔
وہ درگاہ کے احاطے میں پہنچی تو وہ روشن تھا۔لیکن ہر طرف سناٹا تھا۔یوں جیسے وہاں کوئی نہ ہو۔اچانک اسے درگاہ کی ایک جانب مزار کی جالی کے پاس بہت ساری خواتین دکھائی دیں ورنہ وہاں کیسی مرد کاکوئی وجود نہیں تھا۔وہ اس حیرت میں تھی کہ وہ ادھیڑ عمر خاتون اس کی طرف بڑھ آئی جو درگاہ کی خدمت گذاروں میں سے ایک تھی۔وہ اسے دیکھ بچھی چلی جا رہی تھی۔اس کے انداز سے یہی لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اس کی آمد کی منتظر ہو۔پھر اس نے اظہار کر ہی دیا۔
’’بڑی خوشی ہوئی بی بی سئین آپ یہاں تشریف لائیں ۔عرصے بعد مرشد خاندان کی کوئی بی بی یہاں تشریف لائیں ہیں۔
’’تو کون ہے اور تجھے میری آمد کے بارے میں کیسے پتہ ہے۔‘‘نادیہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’بی بی سئین آپ ہم سے کیا بھولی ہوئیں ہیں۔زندگی گذار دی ہے یہاں خدمت کرتے ۔ پہلے حویلی میں تھی ا ب یہاں ہوں۔۔۔اور باقی رہی بات کہ آپ کی آمد بارے کیسے پتہ ہے تو ابھی کچھ دیر پہلے پیر سائیں کا حکم ہوا تھا کہ بی بی سئین درگاہ پر آ رہی ہیں۔اس لیے کوئی بھی مرد احاطے میں نہ ہو۔اور جب تک آپ یہاں ہوں،کسی کو آنے کی اجازت نہ دی۔صرف خواتین رہ سکتی ہیں ادھر۔‘‘
’’اچھا تو یہ پیر سائیں کا حکم تھا۔‘‘وہ ہمکلامی کے سے انداز میں بولی۔
’’جی بی بی سئین۔‘‘وہ خدمت گار خاتون کو سمجھ نہ آیا تو اس نے پوچھا ۔
’’کچھ نہیں ،تم جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘نادیہ نے کہا اور درگاہ کے اس کونے کی جانب دیکھا جو احاطہ پار کرکے تھوڑا فاصلے پر تھا اور اسی کونے میں پہلو بہ پہلو اس کے والدین دفن تھے۔وہ مزار پر حاضری دینے کی بجائے سیدھا وہ اپنے والدین کے مرقد پر گئی۔وہاں جاتے ہی اس نے قبر پر پھول ڈالے ،اگر بتیاں سلگائیں اور دونوں قبروں کے درمیان بیٹھ گئی۔سفید پتھروں سے آراستہ پختہ قبروں کے درمیان ،سیاہ چادر ڈالے ،آنکھیں بند کر کے سر جھکائے وہ کافی دیر تک زیر لب پڑھتی رہی۔پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔سیاہ چادر کے پس منظر میں اس کے دونوں گورے ہاتھ یوں دکھائی دینے لگے ۔جیسے چمک رہے ہوں، حنائی ہاتھ ،جڑاو کنگن اور بھرے بھرے ہاتھ ۔۔آنکھیں بند ،ہلتے لب اور روشن چہرہ، اس وقت وہ کسی اور ہی جہاں کی مخلوق لگ رہی تھی۔وہ کتنی ہی دیر تک یونہی بیٹھی دعا مانگتی رہی۔پھر جیسے اسے سکون آ گیا۔اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنے اردگرد دیکھا،ویسا ہی سناٹے سے بھرا ماحول تھا۔دورکہیں اکا دکا خواتین آتی جاتی نظر آ رہی تھیں۔وہ اپنے والدین کے مرقد سے اٹھی اور درگاہ کے صاحب مزار کی جانب بڑھ گئی۔وہ اس کے پڑدادا تھے۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ صاحب کرامات اور مستجاب الدعاشخصیت تھے۔ان دنوں ان کی نہ حویلی تھی اور نہ ہی جاگیر ،وہ فقیر آدمی تھا اور نجانے کہاں سے آ کر بستی کے باہر ڈیرے ڈالے تھے۔ادھیڑ عمری میں انہوں نے یہاں کی ایک خاتون سے شادی کی اور پھر ایک گھر بنا کر رہنے لگے تھے۔یہ حویلی توان کے دادا کی جوانی کے دور میں بنی تھی جب مریدین نے اصرار پر درگاہ تعمیرکی تھی۔انہی دنوں ملک تقسیم ہوا تو درگاہ کے نام پر کافی سار زمین دادا کی کوششوں سے الاٹ ہو گئی۔انہوں نے اپنے مریدین کے ذریعے ان زمینوں کو آباد کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ بستی تیسری نسل آنے تک تحصیل کا درجہ پا گئی اور بڑے قصبے کا روپ دھار گئی۔نادیہ کو اپنے خاندان بارے ساری معلومات تھیں۔وہ انہیں خیالوں میں کھوئی ہوئی مزار کی جالی کے پاس چلی گئی۔جہاں کچھ خواتین پہلے ہی سے موجود تھیں۔اسے دیکھتے ہی وہ وہاں سے ہٹ گئیں۔جالی سے اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔سنگ مرمر کی جالی منعقش تھی۔اور اس پر لوگوں نے مختلف رنگوں کے دھاگے باندھے ہوئے تھے۔بڑے چھوٹے ،نیلے پیلے ،سرخ،سبز ، ہر رنگ اور ہر طرح کے دھاگے۔۔۔وہ انہیں دیکھنے لگی۔بظاہر تو ان دھاگوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی،لیکن جس وقت یہ دھاگے اس جالی سے باندھے گئے تھے ،تب دھاگہ باندھنے والے کے من میں نجانے کیسی خواہش ہو گی۔وہاں جتنے بھی دھاگے بندھے ہوتے تھے ہر دھاگے کی گرہ میں کم از کم ایک خواہش تو پنہاں تھیں۔اس جالی پر نجانے کتنی خواہشیں پوری ہونے کی منتظر تھیں۔ممکن ہے ان میں کچھ پوری بھی ہو گئی ہوں۔یہ گرہیں خواہش کی نجانے کتنے سپنوں میں لپٹی ہوتی ہوں گی۔کاش اس میں کوئی ایسی صلاحیت ہوتی کہ وہ جس گرہ پر ہاتھ رکھتی اسے معلوم ہو جاتا کہ اس میں کون سی خواہش پنہاں ہے۔تب کتنا اچھا لگتا۔تب اگلے ہی لمحے وہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گری۔اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ کس گرہ میں کون سی خواہش بندھی ہوئی ہے تو کیا وہ کسی بھی خواہش کو پورا کرنے کی مجاز ہے؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔یہ تو قدرت کے کارخانے میں دخل اندازی کے مترادف ہے ۔رنگوں بھری یہ گرہیں خواہش کیں نجانے اپنے اندر کتنی رنگیں و سنگین حسرتیں رکھتی ہوں گی۔وہ یہ سوچ تو سکتی ہے کہ ان گرہوں میں خواہشیں لپٹی ہوئی ہیں ،وہ خواہشیں کیسی ہیں یہ نہیں جان سکتی تھی۔وہ پوری توجہ سے اس بارے سوچتی چلی گئی تھی۔تب اس نے ایک گہری سانس لی،اور مزار کے اندر دیکھنے لگی،وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ایک احساس اس کے سراپے میں پھیل گیا کہ زبیدہ پھوپھو نے یہیں کاشف پھوپھا کو دیکھا تھا،اسی جالی سے جہاں رنگین دھاگوں میں خواہش وقت کی صلیب پر ٹنگی ہوتیں ہیں۔انہوں نے جو خواہش کی وہ پوری تو ہوئی لیکن یوں کہ پوری زندگی ایک گرہ کی مانند ہو کر رہ گئی ۔کاشف پھوپھا ،کچھ عرصہ زندہ رہے اور پھر یہ دنیا چھوڑ گئے۔ساری رنگینیاں پھر سنگینی میں بدل گئی۔اور پھر اس کے اپنے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟ یہ سوچ آتے ہی وہ چونک گئی۔وہ گھوم پھر کر اپنی ہی ذات کے بارے میں سوچنے لگ جایا کرتی تھی۔کیا وہ خود کو مظلوم سمجھتی ہے؟ یہ سوال بذات خود اسے اپنی ذات کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کر رہا ہے۔اس نے اپنا سر جھٹک دیا ۔اور ایصال ثواب کے لیے قرآنی آیات پڑھنے لگی۔
دعا مانگنے کے بعد جب اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ایک سکون اس کے من میں اترتا چلا گیا۔وہ اٹھ گئی۔تب اسے احساس ہوا کہ مزار پر ڈالنے کے لیے پھول تو ابھی تاجاں مائی ہی کے ہاتھ میں ہیں۔وہ آگے بڑھی اور تاجاں مائی سے پھول لیے اور اس کمرے میں داخل ہو گئی جہاں مزار تھا اور اس میں کسی عورت کو جانے کی قطعاً اجازت نہیں تھی۔دہلیز پار کرتے ہی وہاں موجود خواتین کی چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔تاجاں مائی کے ساتھ ساتھ وہاں پر موجود خدمت گار خواتین کے رنگ بھی فق ہو گئے۔ایک طرف انہیں یہ خوف تھا کہ پیر سائیں کو کیا جواب دیں گی اور دوسری طرف بی بی سئین کو روک بھی نہیں سکتی تھیں۔مزار پر آتے ہی نادیہ نے اس روایت کو بھی توڑ ڈالا تھا۔اس نے مزار پر پھول چڑھائے۔واپس پلٹنے لگی تو نجانے اس کے دل میں کیا آئی۔اس نے مزار پر پڑی بہت ساری چادروں میں سے ایک چادر اٹھا کر اپنی سیاہ چادر پر اوڑھ لی۔چند لمحے وہاں کھڑی رہی اور پھر وہاں سے نکل آئی۔وہ کمرے سے نکلی اور احاطے میں آ گئی۔واپسی پر درگاہ کے احاطے میں موجود ایک پرانے درخت پر اس کی نگاہ پڑی۔ جس پر مختلف رنگوں کے دھاگے باندھے ہوئے تھے۔وہاں اور کچھ بھی باندھا ہوا تھا۔رنگین رومال ،رنگ برنگے شیشوں والے پراندے ،چھوٹی بڑی گھنٹیاں ،لکڑی کے چھوٹے چھوٹے جھولے۔۔۔اور نجانے کیا کچھ اندھیرے اور ذرا اونچائی کے باعث وہ اچھی طرح دیکھ نہیں پائی تھی۔اس نے سوچا،یہ بھی تو گرہیں خواہش کیں ہیں۔کس گرہ میں کیا ہو گا؟ لیکن یہ وقت سوچنے کا نہیں تھا۔وہ اب واپسی پر راہ پر تھی۔
اپنے کمرے میں آتے ہی وہ سیدھے آئینے کے سامنے گئی۔اس نے مزار سے لی ہوئی چادر کو دیکھا،سبز رنگ کی رنگ برنگی چمکیلی کڑھائی اور لیس سے آراستہ ،اسے خود کو آئینے میں دیکھ کر یوں لگا جیسے وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہو۔وہ دنیا،جس میں وہ خود کر دیکھنا پسند کرتی ہے۔ایک الوہی ہالہ اس کے اردگرد پھیل گیا تھا۔وہ چند لمحے خود کو دیکھتی رہی ،پھر وہ چادر اتار کر اونچی جگہ پر رکھ دی۔ایسے میں تاجاں مائی اس کے لیے کھانا لے کر آگئی۔اس نے ذرا سا چھکا اور پھر اپنے ہی خیالوں میں کھو گئی۔وہ چونکی اس وقت جب عشاء کی اذان نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔وہ اٹھی اور اپنے رب کے حضور پیش ہو نے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
رات کا نجانے کون سا پہر تھا ،اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔کتنی دیر تک وہ اس خواب کے حصار میں رہی جس کے ٹوٹ جانے سے وہ بیدار ہوئی تھی۔عام طور پر ہوتا یوں ہے کہ کوئی بھی دیکھا گیا خواب پوری طرح یاد نہیں رہتا۔اس کا کچھ حصہ شعور سے محو ہو جاتاہے کچھ دھندلا رہ جاتا ہے اور تھوڑا بہت یاد رہتا ہے۔مگر وہ خواب اسے پوری طرح یاد تھا۔اس کی ایک ایک جزئیات اس کے ذہن میں پوری طرح عیاں تھی۔وہ عشاء پڑھنے کے بعد بیڈ پر لیٹی تو پتہ نہیں کب اس کی آنکھ لگی تھی۔سوتے ہوئے اس کے ذہن میں درگاہ اور اس کا ماحول تھا۔سنگ مرمر کی جالیوں پر دھاگوں سے پڑی ہوئی گرہیں خواہش کیں ۔ درخت پر بندھیں خواہشیں۔مزار کے اندر کا ماحول،والدین کی قبر اور وہاں جو اسے سکون ملا،سب کو وہ محسوس کرتے ہوئے سو گئی تھی۔پھر اسے یوں محسوس ہو اکہ وہ سمندر کے کنارے کھڑی ہے۔حالانکہ اس نے پوری زندگی میں کبھی سمندر نہیں دیکھا تھا۔بس قصے کہانیوں میں پڑھا تھا۔یا پھر تصویریں دیکھی تھیں۔مگر وہاں کاماحول ہی کچھ دوسرا تھا۔وہ کنارے پر کھڑی ہے اور دور افق پر سورج طلوع ہو رہاہے۔، جس کی نارنجی روشنی میں وہ سمندر کا نیلگوں پانی دیکھ رہی ہے۔تو اتر سے اور ایک دورانیے میں لہریں آ رہی ہیں اور اس کے قدموں کے پاس آ کر بنا چھوئے واپس پلٹ رہی ہیں۔تبھی وہ آگے بڑھتی ہے اور ایک لہر پر سوار ہو جاتی ہے ۔وہ لہر اسے لے کر چل پڑتی ہے۔ہر طرف پانی ہی پانی تھا،نیلگوں پانی،زمین نجانے کہاں چلی گئی تھی او ر وہ سمندر پر کھڑی تھی،لہراسے خود پر سوار کیئے بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی ۔اس نے گہرے سبزرنگ کا لباس پہنا ہوا تھااور اس کے لمبے گھنیرے بال ہواسے پھڑپھڑا رہے تھے۔اچانک اسے دور ایک جزیرہ دکھائی دی، جس میں ایک محل کے برج دکھائی دینے لگے۔سفید محل لمحہ بہ لمحہ اس کے نزدیک ہونے لگا۔یہاں تک کہ وہ جزیرے کے کنارے تک آ پہنچی۔گہرے سبز درختوں اور رنگ برنگے پھولوں کی بہار،ہلکی ہلکی باد نسیم اور پرندوں کی مختلف آوازیں۔ایک عجیب فرحت آ گیہں منظر تھا۔ جس میں خوشبو رچی ہوئی تھی۔جہاں سمندر ختم ہو رہا تھا وہیں سے جزیرے کے کنارے سے،ایک خوبصورت روش دور محل تک جا رہی تھی۔اس نے اس روش پر قدم رکھ دیا۔پھر وہ یہیں راستہ چلنے لگا۔جس طرح لہر اسے یہاں تک لے آئی تھی۔بالکل ویسے ہی وہ روش اسے محل تک لے گئی۔وہاں کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔وہ محل میں داخل ہو گئی۔وہاں ہر شے سفید تھی،جیسے ہی دروازے سے اندر گئی ایک بہت بڑے کمرے کے درمیان میں سفید چاندنی پر ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔سفید ریش،سفید لباس ۔ان کے قریب ہی ایک جواں سال جوڑا بھی تھا۔انہوں نے بھی سفید لباس پہنا ہوا تھا۔مرد نے سفید پگڑی اور خاتون نے سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔وہ تینوں اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔وہ دھیرے چلتی ہوئی ان کے قریب پہنچ گئی اور اس سفید چاندنی پر ان کے قریب بیٹھ گئی۔
’’خوش آمدیدبیٹی۔!ہم شاید تجھے ابھی نہ بلاتے مگر تو نے جس شدت سے ہمیں یاد کیا ہے۔ ہمیں خود چل کر تمہارے پاس آنا پڑا۔پہچانتی ہو میں کون ہوں؟‘‘ اس سفید ریش بزرگ نے بڑی محبت سے پوچھا۔
’’نہیں۔!میں نے آپ کو نہیں دیکھا پہلے۔۔کون ہیں آپ۔۔؟ ‘‘ اس نے ہولے سے کہا۔
’’میں تمہارا پڑدادا ہوں بیٹے۔!آج تم میرے پاس آئی ہو تو مجھے اچھا لگا۔۔تمہارا خلوص اور تمہارے اندر اپنی تلاش،یہی ضرورت تھی۔۔اور انہیں دیکھو،یہ کون ہیں؟ ‘‘اس بزرگ نے کہا تو نادیہ نے تب ان کی جانب دیکھا ،وہ حیرت میں کھو گئی۔وہ بالکل اس کے ماں باپ جیسے تھے۔ جن کی تصویر اس نے کمرے میں رکھی ہوئی تھی۔اس نے ان کی طرف دیکھ کر لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یہ میرے والدین ہیں۔۔‘‘
’’ہاں ۔!یہ تمہارے والدین ہیں۔یہ تم سے بات نہیں کر پائیں گے۔۔بس تمہیں اتنی اجازت ہے کہ تم انہیں دیکھ سکو اور یہ اطمینان کر لوکہ یہ بہت اچھی جگہ پر ہیں۔ہاں اگر تم ان سے ہمکلام ہونا چاہو ،ان سے باتیں کرنا چاہویہ مرحلہ ابھی دور کا ہے۔اس سے تمہیں گذر کر آنا ہو گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...