دولت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز خرید سکتی ہے اور وہ پانی میں راستہ بناتی ہے لیکن آج دولت کو کیا ہوگیا تھااس کی قوت خرید کہاں چلی گئی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اس پر فالج گرگیا ہے۔
لیکن دولت پر ہی کیوں، فالج تو پورے شہر کے امن وامان پر اور انسانوں کے ذہنوں پر بھی گرگیا ہے جب ہی تو امن پسند شہری اپنے گھروں میںبے بس بیٹھے ہیں اور فسادی لوگ شہر کے گلی کوچوں میں اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔
سہمی سہمی فضاء اور خوفزدہ ماحول، آسمان اور زمین دونوں سرخ، گلیوں میں لال لال خون بہہ رہا ہے ان حسرتناک انسانوں کا خون جو جینا چاہتے تھے۔ مگر ان سے کسی نے زندگی چھین لی تھی۔ ان شرپسند اقتدار کے بھوکے لوگوں نے جنہوں نے مذہب کی آڑ لے کر اپنی شیطانی جبلتوں کی پیاس بجھانی شروع کردی تھی۔
فضیل احمد شہر کے ایک معزز شہری ہیں، تجارت سے بہت دولت کمائی ہے۔ مگر بیوی کو نمونیہ ہوگیا ہے، تو اس کے لئے دوائیں بھی نہیں خرید سکتے۔ الماری میں رکھے ہوئے روپیوں میںآج اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ دوائیں خرید سکیں شہر میں فرقہ وارانہ فساد ہو گیا ہے، جگہ جگہ چھرے بازی اور آگ زنی کی وارداتیں ہوئیں تو کرفیو لگا دیا گیا، اس کرفیو کو پانچ دن ہوگئے ہیں مگر حالات میں خاص سدھار نہیں۔ پولیس نظروں سے اوجھل ہوئی نہیں کہ گلیوں میں سے بلوائی نمودار ہوئے اور انہوں نے شیطانی کھیل کھیلنا شروع کردیا۔
سخت سردی کا موسم ہے۔ شہر میں کئی غریب لوگ ٹھٹھر رہے ہیں، کئی گھرانے بھوکے ہیں اور کئی بیمار پڑے سسک رہے ہیں، دم توڑ رہے ہیں، مگر فسادیوں کو اس کی پرواہ نہیں ، ان کی روحوں میں نہ جانے کہاں سے آکر شیطان حلول کرگیاہے، بیوی رابعہ کو رات میںپہلے بخار ہوا، اور پھر جسم اکڑنے لگا، پڑوس کے ڈاکٹر ملہوترہ ٹیلیفون سن کر کسی طرح چھپتے چھپاتے سڑک پار کرکے آئے۔ انہوں نے مریضہ کا بغور معائنہ کر کے بتایا کہ مریضہ کو نمونیہ ہوا ہے۔ اف خدایا! پورا شہر بند ہے اور ایسا خطرناک مرض، فضیل احمد اور گھر کے سبھی لوگ گھبراگئے۔ ڈاکٹر نے ایک گولی اپنے پاس سے دی اور باقی پانچ دوائیاں بازار سے لانے کے لئے لکھ دیں انہوں نے کہا تھا۔ کہ یہ سبھی دوائیں آئیں تو کہاں سے؟ پولیس تھانے کو فون پر بتایا گیا۔ پولیس کی طرف سے بے رحمی اور تعصب کی بو آئی۔ مگر وہ کیا کرسکتے تھے، شہریوں کے سارے حقوق تو کرفیو آرڈر نے سلب کرلئے تھے۔ لیکن دوائیں منگوانا بہرحال ضروری تھا کسی بھی طرح ضروری تھا۔ چھوٹا بیٹا عامر، کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی کرکے ابھے جین کے گھر دو کلو میٹر جانے کو تیار تھا۔ جس کا میڈکل اسٹور گھر میں ہی تھا۔ لیکن باپ اور گھر والوں نے سختی سے منع کردیا۔ کوئی راستہ نکالنے کے لئے سب سوچنے لگے۔ عامر نے کہا کہ وہ پڑوس میں رہنے والے سوم ناتھ سے کہے گا کہ وہ جاکر کسی طرح دوائیں لائے۔ سوم ناتھ محلے کا ایک لچا اور بدمعاش لڑکا ضرور ہے، مگر اس نے پڑوس والوں کے ساتھ ہمدردیاں بھی کی ہیں۔
’’ایسے وقت میں سومناتھ کو اس گھر کا دھیان مت دلاؤ ورنہ وہ کچھ الٹا بھی کرسکتا ہے۔‘‘ فضیل صاحب نے قدرے تردد کے ساتھ کہا۔
’’وہ دوسرے مذہب کا آدمی ہے اور کہیں اس نے فسادیوں کو ہی گھر بتا دیا تو؟‘‘ بڑی بہو نے آگاہ کیا۔
’’اس کو دو تین بار اس گھر سے پیسے نہیں ملے اس لئے وہ جلا ہوا ہے، اس موقعہ پر وہ بدلہ بھی لے سکتا ہے‘‘ منجھلی بہو نے اپنی رائے دی۔
’’جو بھی ہو ہمیں اس وقت رسک لینا ہی پڑیگا‘‘ عامر نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’اگر ماں کی دوائیں نہ آئیں تو اور بھی بڑا نقصان ہوگا اس وقت تو اماں ہی ہماری کل کائنات ہیں۔ میں جارہا ہوں، اس سے بات کرتا ہوں۔ٗٗ‘‘
اور عامر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے واپس آکر بتایا کہ سومناتھ دوائیں لینے چلا گیا ہے۔ وہ ابھے جین کے گھر کس طرح جائیگا یہ وہی جانے اور پھر سب لوگ سومناتھ کا انتظار کرنے لگے۔ ایک گھنٹہ دو گھنٹہ اور تین گھنٹے۔ رابعہ بی کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ فضیل صاحب ان پرکبھی آیتیں پڑھ کر دم کر رہے ہیں، کبھی انہیں تسلی دے رہے ہیں اور کبھی ان کے ہاتھوں کو سہلارہے ہیں، ان کا چہرہ سرخ ہے، آنکھوں میں غم کے کہرے رقص کررہے ہیںاور عامر جذبات سے مغلوب، کبھی باہر دوڑرہا ہے، کبھی ماں کے پاس آرہا ہے۔ سخت مضطرب سا اسے سومناتھ کا انتظار ہے۔ بہت پریشانی کی گھڑی تھی۔ سب کے دماغوں میں یہ خیال گھر کرنے لگا کہ اگر سومناتھ دوائیں لے کر آتا تو کبھی کا آجاتا۔ وہ ضرور فسادیوں کے ساتھ جا ملا ہے۔ اللہ خیر کرے اب تو کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ غیر مذہب کا ہے اور بدمعاش بھی ہے، اس پر بھروسہ کر کے بہت بڑی غلطی کی۔ اس سے تو اچھا تھا کہ پولیس کی ہی خوشامد کی جاتی۔
بہرحال غلطی ہوچکی تھی اور تیر ہاتھ سے نکل چکا تھا، اور غلطی بھی ایسے وقت میں ہوئی کہ جب حالات کافی سنگین ہیں، اس غلطی سے جیسے فسادیوں اور بلوائیوں کو دعوت دے دی گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ سومناتھ کی شہہ پر بلوائی اب کسی بھی وقت آسکتے ہیں اور ان پر ٹوٹ سکتے ہیں، ان کی زندگی اس وقت سومناتھ کے رحم وکرم پر تھی۔
سومناتھ کے آنے میں دیر ہوتی جارہی تھی نہ سومناتھ آرہا تھا اور نہ بلوائی، جس کو آنا ہے وہ آئے تو سہی یہ انتظار تو اور بھی مارے ڈالتا ہے، جوہونا ہے جلد ہو، بلوائی آئیں گے تو بھی دیکھا جائیگا ان سے مقابلہ کیا جائیگا۔ سب لوگ بند کھڑکیوں اور دروازوں کو تھوڑا تھوڑا کھول کر جھانک کر راستے پر اور راستے سے کچھ دور نظر آنے والے چوراہے پر نظریں لگائے رہے، کبھی پولیس کی لاری نکلتی تھی۔ کبھی رنگین ٹوپیاں لگائے آدمیوںسے بھری ہوئی کوئی جیپ اور کبھی سر پر ہیلمٹ لگائے اور ہاتھوں میںرائفلیں لئے ہوئے پولیس والے ملٹری والے انہیں دھڑکتے دل کے ساتھ انتظار تھا سومناتھ کا یا پھر اس کے ذریعہ لائی گئی مصیبت کا۔ اللہ کرے کوئی تو آئے یہ انتظار تو اور بھی مارے ڈالتا ہے اندر اماں کس قدر کراہ رہی ہیں ، دوا کے بغیر کہیں ان کی جان ہی نہ نکل جائے۔ کیسا برا وقت آپڑا ہے۔
انتظار… انتظار… انتظار…سومناتھ کا۔ یا پھر بلوائیوں کا۔ اور پھر۔ انجن کی دلخراش آواز کے ساتھ اچانک گلی میں ایک جیپ آئی۔ اس میں کئی لوگ بیٹھے نظر آئے وہ سب جیپ سے نکل آئے، ان کے چہروں پر سختی تھی اور ان کے ارادے اچھے معلوم نہیں ہوتے تھے، ان کے پیچھے سومناتھ بھی تھا ایک دم مطمئن جیسے ان سب کو لاکر اس نے کوئی بہت بڑا کام کیا ہو۔ وہ سب کے سب کمپاؤنڈ کا مین گیٹ کھول کر بغیر گھنٹی بجائے ہی اندر آگئے۔ سارا شہر پریشان تھا لیکن ان کے چہرے بے حد مطمئن تھے کرفیو کے وقت بھی ایسے خراب لوگ کیسے شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں، اس سے پولیس کا رول بہت مشکوک ہوجاتا ہے۔ ارے پولیس اچھی ہوتی تو رونا ہی کس بات کا تھا۔ پولیس چاہے تو فساد کبھی بھی اور کہیں بھی نہ ہو۔ ان لوگوں میںجو آدمی کٹے ہوئے گال اور بدنما چہرے کا تھا وہ آگے آیا اور بولا۔
’’پھجیل احمد کون ہے‘‘؟ فضیل احمد اور ان کے تینوں بیٹے فکر مند چہروں کے ساتھ آگے آئے تو اس آدمی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور چھوٹا سا پیکٹ فضیل احمد کے ہاتھ میں دے کر کہا۔’’ ہم لوگ ریلیف کمیٹی سے آئے ہیں آپ کی دوائیں آنے میں ولمب (تاخیر) اس لئے ہوا کہ ایک تو یہ سومناتھ بہت کٹھنائی (مشکل) سے ہم تک پہنچا، پھر ساری دوائیں ایک ہی اسٹور میں نہیں ملیں۔ دو تین جگہ ڈھونڈ کر انہیں پراپت (حاصل) کرنا پڑا۔‘‘
پھر جلد ہی اس آدمی نے ایک کارڈ جیب سے نکال کر فضیل احمد کو دیتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی اور دواؤں کی جرورت پڑے تو ہمیں اس پھون نمبر پر سوچت (مطلع) کرنا‘‘
ان لوگوں میں پیچھے کھڑا ایک اور آدمی بولا ’’آپ لوگ ڈریئے گا نہیں‘‘ شہر میں اب کافی سدھار ہے اور آپ کے محلے کی سرکشا ویوستھا (حفاظتی انتظام) بہت کڑا کردیا گیا ہے اور کوئی جرورت ہو تو سومناتھ کو بتادیا کریں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سب واپس مڑ گئے۔ سومناتھ مڑا ہی تھا کہ عامر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنے نزدیک کرتے ہوئے بولا۔
’’سومناتھ بھائی تم نے ہم پر بہت احسان کیا ہے بولو تم کیا پیوگے۔‘‘
یہ سن کر سومناتھ کچھ مضطرب سا ہوا لیکن پھر جلد ہی بولا۔
عامر بھائی تم نے مجھے غلط سمجھا میں یہ دوائیں تمھاری ماں کے لئے نہیں لایا اپنی ماں کے لئے لایا ہوں، دوست کی ماں اپنی ہی ماں ہوتی ہے بولو ہوتی ہے کہ نہیں‘‘
عامر کچھ نہ بولا، اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...