وہ بہت زیادہ تھک چکا تھا۔ نہ صرف جسمانی اعتبار سے بلکہ ذہنی طور سے بھی وہ محسوس کر رہا تھا کہ کچھ دیر میں اس کے دماغ کی رگیں غباروں کی طرح پھٹ جائیں گی۔ یاوہ خود شدّت کرب سے گھبرا کر ہمیشہ کے لیے اپنی سانسوں کی آمدورفت کے سلسلے کو منقطع کر کے حرکت قلب کو خاموش کر دے گا۔ کئی ماہ کی مسلسل جد و جہد کا نتیجہ کیا نکلا؟ صفر۔ جو پہلے تھا، جواب بھی ہے اور جو……
وہ ہر روز اپنی پچیس سال کی محنت کے صلے میں حاصل کیے ہوئے کاغذوں کو ایک خاص فائل میں سلیقہ سے رکھ کر اس طرح آشرم کے بس اسٹاپ پر آ کر کھڑا ہو جاتا، جیسے آفس جا رہا ہو۔ آفس۔ آفس کو پانے کی خواہش کے لیے ہی وہ سوا نیزے پر اُترے ہوئے آفتاب کی حدّت کو برداشت کر کے بس کا انتظار کیا کرتا تھا۔ بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے اُسے محسوس ہونے لگا تھا کہ اُس کی پہلی اور آخری منزل یہی ہے۔ وہاں کی تمام چیزیں اس کی نظروں میں تصویر کی طرح اُتر گئی تھیں۔ حلوائیوں کی دکانیں، فوٹو گرافر، کیمسٹ، بس اسٹاپ کے نزدیک بیٹھا ہوا موچی، پٹرول پمپ، ٹھیلوں پر رکھے ہوئے پھل، سب کچھ اس کی نگاہوں میں اس طرح بس گیا تھا، جیسے برسوں سے وہ ان سب کو دیکھ رہا ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے مسافروں کو نہ صرف وہ پہچان گیا تھا بلکہ ان کے بارے میں بہت کچھ جان بھی گیا تھا۔ یہ لمبے اور دُبلے پتلے سانولے سے صاحب ۴۱۰ میں جائیں گے۔ جو لاجپت نگر سے سنٹرل سکریٹریٹ جاتی ہے۔ اور ریڈیو اسٹیشن پر اُتر جائیں گے۔ یہ صاحب جن کے ہاتھ میں کالے رنگ کا آفس بیگ ہے۔ اوکھلا سے آنے والی منی بس میں سوار ہوں گے اور اسٹیشن میں پر اُتر جائیں گے۔ یہ دوہرے بدن والی میم صاحبہ ریلوے اسٹیشن جانے والی کسی بس میں سوار ہوں گی اور دلّی گیٹ پر اُتر کر ارون ہاسپٹل کی جانب چلی جائیں گی۔ ہر روز وہ ان سوالات کے جواب دینے کے لئے وہاں کھڑا ہوتا تھا:
’’بابوجی، لال قلعہ کے لیے کون سی بس ملے گی؟‘‘
’’بٹیا ۴۰۵ نمبر آئے تو بتا دینا۔‘‘
’’بھیّا قطب مینار پر کتنے نمبر کی بس جائے گی؟‘‘
اور وہ اپنے اطراف سے بے نیاز ہو کر دو طرفہ سڑکوں کے درمیانی راستے پر اُچھلتے کودتے اور قہقہہ لگاتے ہوئے پاگل کو گھورتا رہتا ہے۔ وہ نوجوان پاگل آشرم کے بس اسٹاپ کا ایک لازمی حصہ بن چکا تھا۔ بس اسٹاپ پر کھڑے سبھی اشخاص اس کی مضحکہ خیز حرکات پر مسکرانے کی کوشش کیا کرتے اور وہ پاگل ان سب اشخاص کی بے بسی پر قہقہہ لگاتا تھا۔ وہ دیکھتا کہ ہر روز اس پاگل کے ہاتھ میں ضرور کچھ نہ کچھ ہوتا۔ بسکٹ، روٹی، مٹھائی، پیسے۔ وہ ان سب چیزوں کو ایک یادو منہ مارکر ہی حقارت سے کتّوں کے آگے ڈال دیا کرتا۔ اس کی نظر میں ان کھانے کی چیزوں کی کوئی قدر نہیں تھی۔ یا وہ ان کی قدر نہیں جانتا تھا۔ شاید اُسے معلوم نہیں تھا کہ بس اسٹاپ پر کھڑی ہوئی بوڑھی زندگیاں، چلتی ہوئی بسوں کے ڈنڈے پر صرف اس لیے لٹکتی ہیں تاکہ دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں کو گزارنے کے لیے غذا حاصل کر سکیں۔ شاید اس نے پُل کے نیچے بیٹھے اس بھکاری کو نہیں دیکھا تھا جس کے آگے بچھے ہوئے کپڑے پر ہمیشہ پانچ پیسے کے تین چار سکے ہی پڑے رہتے ہیں۔ اُسے پاگل سے کچھ خاص دلچسپی ہو گئی تھی۔ ا گر کسی روز وہ اُسے نہیں دیکھتا تو اُسے محسوس ہوتا کہ وہ ان مردہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہے جن کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں جدا ہو گئی ہیں۔ وہ خود بھی تو اُن مردہ لوگوں میں سے ایک تھا، جو قہقہہ نہیں لگا سکتے تھے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ کہیں نہیں جائے گا۔ گھر سے آئے ہوئے تمام روپے آہستہ آہستہ ختم ہو چکے تھے۔ کب تک وہ گھر سے پیسے منگاتا رہے گا؟ہر روز کئی روپے بس کے ٹکٹوں میں بے مقصد ضائع ہو جاتے ہیں۔ جگہ جگہ درخواستوں کے ساتھ پوسٹل آرڈر لگاتے لگاتے وہ تنگ آ چکا تھا۔ پچھلے تین روز سے وہ کہیں نہیں گیا تھا۔ ذہنی کرب اور بھوک کی شدّت اُسے تڑپا رہی تھی۔ اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے پیسہ درکار تھا۔
وہ بہت دیر تک بستر پر لیٹا ہوا چھت کو گھورتا رہا۔ نوکری۔ بھوک۔ پیسہ۔ پیسہ۔ بھوک۔ نوکری۔ مکڑی کے جالے کی طرح یہ تین الفاظ اس کے ذہن میں اُلجھ گئے تھے۔ اچانک اسے چھت کی سفید سطح پر اس پاگل کی متحرک تصویر نظر آئی۔ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اور اپنے ہاتھ میں میں لی ہوئی روٹی کتّے کو کھلا رہا تھا۔ اُچھل اُچھل کر اپنی خوشی اور بے فکری کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں پھر وہی الفاظ اُبھرے:
بھوک۔ ۔
پیسہ۔۔
نوکری۔ ۔
اور پھر وہ اتنی تیزی سے اُٹھا، جیسے بستر میں کرنٹ دوڑ گیا ہو۔ میز پر پڑی فائل اُٹھا کر اس میں رکھے ہوئے کاغذوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ بی اے۔ ایم اے، اس نے ان کاغذوں کو یک جا کر کے ایک بھرپور نظر ڈالی۔ دوسرے ہی لمحے انہیں چاک کر ڈالا۔ پھر آئینہ اُٹھا کر اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔ کئی روز سے شیونہ کرنے کے سبب داڑھی بڑھ گئی تھی۔ بڑے بڑے بال بے ترتیبی سے اُلجھے ہوئے تھے۔ وہ اپنا عکس دیکھ کر زور سے ہنسا، جیسے وہ پاگل ہنستا ہے۔ اس نے پوری طاقت سے آئینہ کو دیوار پر دے مارا اور کھڑے ہو کر اپنے کپڑے پھاڑے۔ کمرہ کا سامان اِدھر اُدھر پھینکنے لگا۔ اور پھر اُچھلتا کُودتا، قہقہے لگاتا ہوا کمرہ سے باہر نکل کر سڑک کی طرف بھاگتا چلا گیا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...