چالیس سال پہلے جب کوئی مہمان کسی قازق کے گھر آتا بلکہ اس زمانے تک بھی جب اشتراکیوں نے یہ طے نہیں کر لیا تھا کہ ان کی قدیم تہذیب کو مٹا دیا جائے تو اس کا خیر مقدم اسی قدیم روایت کے مطابق کیا جاتا جو زمانۂ قبل تاریخ سے چلی آتی تھی۔ اس میں اس وقت بھی کوئی فرق نہیں آیا جب گیارھویں اور چودھویں صدی کے درمیان قازق مُشَرّف بہ اسلام ہوئے۔ اسلام باعی کے خیمے میں بوکو بطور کی پذیرائی کیسے کی گئی؟ اس کا کوئی مصدقہ بیان ہمارے پاس نہیں ہے لیکن چونکہ قازقوں کے دستوروں اور روایتوں میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، اس لیے ہم بغیر کسی دشواری کے اس منظر کو پیش کر سکتے ہیں ۔
بوکو بطور جب جھک کر خیمے میں داخل ہوا تو اس نے بڑی احتیاط برتی کہ دہلیز سے اس کا پاؤں نہ ٹکرانے پائے اور داخل ہونے میں اس کا لمبا چوغہ دروازے کی چوکھٹ سے نہ ٹکرانے پائے۔ “سلام علیکم” کہہ کر وہ خیمے میں داخل ہوا اور دونوں پیروں کو ٹکرا کر اس نے کفش پوشوں کو دروازے کے قریب ایک پہلو میں اتار دیا اور پھر آگے جائے نشست کی طرف بڑھا۔
اسلام باعی نے “وعلیکم السلام” کہہ کر بوکو بطور کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو پہلے اپنے داہنے ہاتھ میں لیا اور پھر دونوں ہاتھوں میں لے کر مصافحہ کیا۔ اس کے بعد مہمان اور میزبان دونوں نے اپنے اپنے ماتھوں، لبوں اور سینوں کو سیدھے ہاتھ سے چھوا، اس کے بعد دونوں دروازے کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے۔ سب ملا کر کوئی سولہ کلماتِ خیر کہے گئے۔ جب میزبان اور مہمان ان تکلّفات سے فارغ ہو لیے اور ان کے ملازمین خاص سے بھی رسوم ادا ہو چکیں تو آگ کے چاروں طرف گھیرا بنا کر سب حسب مراتب دو زانو یا آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ پھر سب نے مل کر دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور کوئی قرآنی دعا پڑھی۔ آخر میں سب نے ایک ساتھ آمین کہا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے اور ڈاڑھیوں پر پھیر لیا۔
دعا کے ختم ہوتے ہی اسلام باعی نے کہا “آپ کے تشریف لانے سے ہماری نہایت عزت و حوصلہ افزائی ہوئی”۔ عثمان اس کے پیچھے ہی کھڑا ہوا تھا، اس کی طرف رخ کر کے اور لہجہ بدل کر کے اسلام باعی نے کہا “ارے شریر شیطان! اس لڑکے کو کبھی کوئی تمیز نہ آئے گی۔ اسے یہ تک نہیں معلوم کہ باپ کے مہمان کا استقبال بیٹا بھی اس کے شایان شان کرتا ہے”۔
عثمان اس دستور سے واقف تھا، وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ باپ کی یہ تہدید صرف ایک نمائشی چیز ہے۔ اس پر بھی وہ جھجکتا ہوا آگے بڑھا کیونکہ بوکو بطور بہت مشہور سورما تھا جس کے کارنامے وہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک برابر سنتا رہا تھا، آگے آ کر اس نے بوکو بطور سے آنکھیں چار کر کے بالکل اپنے باپ کی طرح خیر مقدم کے الفاظ کہے اور آخر میں جب اس نے اللہ اکبر کہا تو اس کی آواز بالکل ماند پڑ گئی تھی۔
عثمان کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بوکو بطور نے اسے آگے کھینچا اور اس پر نظریں جما کر بولا “غالباً یہ وہی لڑکا ہے جس کا ذکر میں نے اپنے دوستوں کے خیموں میں اکثر سنا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں اپنی عمر سے زیادہ قوت و دانش ہے اور اس کے لیے ایک شاندار مستقبل مقدر ہو چکا ہے”۔
باپ نے کہا “یہ لڑکا کم عقل ہے، کسی کام کا نہیں ہے۔ بے ہودہ، بھاگ جا احمق۔ ہمارے مہمان کے گھوڑے کی ذرا دیکھ بھال کر”۔
عثمان نے ہمت کر کے کہا “کیا وہ مہمان زیادہ توجہ کے لائق نہیں جس کا گھوڑا اس قدر قابل توجہ ہو۔ اگر اجازت ہو تو میں یہیں ٹھہرا رہوں اور اس بات کا خیال رکھوں کہ گھوڑے کے مالک کو کسی قسم کی زحمت نہ ہونے پائے؟”
بوکو بطور کی گرج دار آواز سنائی دی “واللہ! تم نے سنا لڑکے نے کیا کہا؟ وئ! وئ! اور ابھی وہ بچہ ہی ہے!”
اسلام باعی نے کہا “مہمانوں کا خیال رکھنا باپ کا فرض ہے، اس شریر کی طرح جو چھوٹے لڑکے ہوتے ہیں انھیں نسبتاً ہلکے کام کرنے چاہئیں اور مناسب یہ ہے کہ جو کچھ ان سے کہا جائے وہ کریں”۔
عثمان تو جانتا ہی تھا کہ باپ بظاہر ناراض ہو رہا ہے مگر دل میں اس طرز عمل سے خوش ہے۔ ادھر بوکو بطور کی تعریف سے بھی وہ بہت خوش تھا لہذا فوراً خیمے سے باہر بھاگا تاکہ اونچے شبدیز کی خبر گیری کرے۔
باہر نکل کر اس نے دیکھا کہ بوکو بطور کا ایک ملازم قازقوں کے اٹل اصولوں کے مطابق گھوڑے کو ٹہلا رہا تھا تاکہ اتنے لمبے سفر میں سواری دینے کے بعد اس کی ٹانگیں کہیں اکڑ کر نہ رہ جائیں۔ عثمان نے ملازم سے گھوڑے کی لگام لے لی اور نڈر ہو کر اس کی زین پر چڑھ بیٹھا۔
سائیس قریب ہی کھڑا ہوا تھا۔ وہ حیران رہ گیا اور بے اختیاری میں اس کے منہ سے نکلا “وایا پرامائی! یہ تو اعجاز ہے اعجاز! آقا کا گھوڑا اسے نہیں پھینکتا! میں نے تو پہلے کبھی دیکھا نہیں کہ اس نے اپنے اوپر کسی اور کو سوار ہونے دیا ہو۔ اس لڑکے کے مقدر میں لوگوں کا رہنما بننا ضرور ہے اور تمام منہ زور گھوڑوں کی سواری کرنا بھی اس کے لیے مقسوم ہو چکا ہے”۔
اپنے ملازم کی حیرت زدہ باتیں بوکو بطور نے خیمے کے اندر سن لیں اور وہ اٹھ کر خیمے کے دروازے پر آ گیا۔ عثمان کو دیکھ کر بولا “آہا! شریر لڑکے، تو میرے گھوڑے پر بھی سوار ہو گیا”۔
عثمان نے جھجکتے ہوئے کہا “میں نے سوچا کہ اسے کھلانے پلانے سے پہلے ذرا ٹھنڈا کر لوں”۔
بوکو بطور ہنسا، بولا “غنیمت ہے کہ جب تو نے اس کی رکاب میں پاؤں رکھا تو اس نے تجھے چبا نہیں ڈالا۔ اس نے چونکہ تجھے نہیں کاٹا اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میرا یہاں آنا ٹھیک رہا”۔
اب عثمان نے ہمت کر کے پوچھا “اگر آپ اجازت دیں تو میں اب اسے کھلانے پلانے لے جاؤں؟”
بوکو بطور نے کنکھیوں سے اپنے میزبان کی طرف دیکھا کہ وہ بھی سن لے اور اونچی آواز میں بولا “ہرگز نہیں، اسے نہ تو پانی پلانا اور نہ کچھ کھلانا، کیونکہ رات ہونے سے پہلے مجھے یہاں سے روانہ ہو جانا ہے”۔
اسلام باعی نے گھبرا کر کہا “نہیں نہیں! آپ کا اتنی جلدی رخصت ہونا میری مہمان نوازی کو شرمندہ کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔” پلٹ کر اس نے آواز دی “بیوی! جلدی سے چائے اور نان لاؤ۔ اس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ہمارے مہمان بد دل ہو رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں جلدی لاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے چلے جانے سے ہمیں شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے”۔
یہ سنتے ہی اسلام باعی کی “باعی بی شا” یعنی زوجۂ اوّل نمکین چائے سے بھرے ہوئے تانبے کے پیالے اٹھا لائی اور ان کے ساتھ روایتی نمکین نان پارے بھی۔ یہ نان پارے ایک رومال میں تھے جس کے چاروں کونوں کو یک جا کر کے گرہ لگا دی گئی تھی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر بوکو بطور کو پھر خیمے میں آ کر اپنی مقررہ جائے اعزاز پر بیٹھنا پڑا۔ اب وہ کھانے کے لیے تیار ہو رہا تھا مگر بار بار عذر کرتا جاتا تھا کہ میں ایسی نوازش کا مستحق نہیں ہوں، میں اس اعزاز کے لائق نہیں ہوں۔ اس نے اسلام باعی کی بیوی کے ہاتھ سے پیالہ لے کر چائے پینی شروع کر دی۔ دانت بند کیے وہ شڑپّے لگا رہا تھا اور غٹر غٹر گھونٹ گلے میں اتار رہا تھا، ایک گھونٹ اور دوسرے گھونٹ کے درمیان جو وقفہ ملتا اس میں وہ سخت نان کے ٹکڑے کو منہ میں رکھنے سے پہلے چائے میں ڈبو لیتا۔
جب قازقوں کے دستور کے مطابق بوکو بطور نے روٹی کھا لی اور چائے پی لی تو اسلام باعی نے بوکو بطور سے کہا “کیا اب اجازت ہے کہ میں عثمان کو بھیج کر گھوڑے کو دانہ پانی دلواؤں کیونکہ کہا یہ گیا ہے کہ جب گھوڑے سے دن بھر محنت لے لی جائے تو پہلے اسے پانی پلایا جائے اور اس کے بعد اسے کھلایا جائے تاکہ اگلے دن پھر اس سے محنت لینے کے لیے طاقت آ جائے”۔ بوکو بطور نے نیچی آواز میں کہا “ایسے میزبان کی نوازشوں کی تعریف نہیں ہو سکتی”۔ اسلام باعی نے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھا “اگر زحمت نہ ہو تو ریوڑ کا معائنہ فرما لیا جائے تاکہ پسندیدہ جانور حلال کر لیا جائے اور میری بیویاں طعام شب تیار کر دیں”۔
بوکو بطور نے از راہِ کسر نفسی کہا “اس خانہ بدوش کے لیے کوئی جانور حلال نہ کیا جائے۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ رات ہونے سے پہلے مجھے روانہ ہو جانا چاہیے”۔
اسلام باعی نے اسے یہ کہہ کر یاد دلایا کہ “میں نے بھی تو عرض کیا تھا کہ آپ کے اس طرح رخصت ہونے سے میری مہمان نوازی شرمندہ ہو گی اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گھوڑے کو کھلا پلا دینے کے بعد اس سے محنت نہیں لینی چاہیے”۔
بوکو بطور نے گھوڑے کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا اسے تو اُڑا دیا اور بولا “ایسے میزبان کو شرمندہ کرنا اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے۔ اچھا تو میزبان کو جس بات میں سب سے کم زحمت ہو وہ کی جائے”۔
اسلام باعی لپک کر خیمے کے دروازے پر گیا اور آواز دے کر کہا “لڑکے! شب دیز کو دانہ پانی دے دو۔ اس کے آقا کا آج رات کو یہیں قیام رہے گا۔ بوری میں سے دانہ نکال لاؤ، مگر پہلے اسے دریا پر لے جاؤ تاکہ وہ تازہ پانی پی لے۔ اتنے گھوڑے کو دانہ پانی ملے، سب سے عمدہ یک سالہ بّرے خیمے کے دروازے پر لائے جائیں تاکہ ان میں سے طعامِ شب کے لیے مہمانِ گرامی خود انتخاب فرما لیں”۔
عثمان شب دیز کو دریا کی طرف لے چلا۔ باپ نے کہا تھا کہ اس کی لگام پکڑ کر لے جانا مگر وہ اس پر بڑے فخر کے ساتھ سوار جا رہا تھا اور بوکو بطور کے ملازم حیران ہو رہے تھے کیونکہ اس گھوڑے نے ان میں سے کسی کو بھی اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دیا تھا اور نہ اس پر سوار ہونے کی کسی میں ہمت ہی تھی۔ اس پر اب تک سوائے بوکو بطور کے اور کوئی سوار ہی نہیں ہوا تھا۔
خیمہ بوکو بطور کے خدم و حشم سے خالی ہو چکا تھا۔ خیمے میں واپس اپنی جگہ آ کر چھاپہ مار سردار اب بھی اصرار کیے جا رہا تھا “دایا پرامائی! میرے لیے کوئی جانور حلال نہ کیا جائے۔ کیا میں نے اور میرے محافظوں نے جب اپنے دوست کے ہاں آنے کا ارادہ کیا صبح تڑکے اپنے پڑاؤ سے روانہ ہونے سے پہلے خوب ڈٹ کر کھایا نہیں تھا؟” اسلام باعی نے اپنی ضد جاری رکھی “کھانا تو کھانے کے لیے ہی ہوتا ہے اور پیٹ اس لیے ہوتا ہے کہ اسے بھرا جائے۔ موقع ملنے پر جو شخص اپنا پیٹ نہیں بھرتا اسے روزوں میں اور بھی زیادہ بھوک لگتی ہے”۔
بوکو بطور نے کہا “لیکن میزبانوں کے گھر والوں کے لیے باعثِ زحمت بننا بڑی ناشائستہ حرکت ہے”۔
اسلام باعی کی زوجۂ اول بیچ میں بول اٹھی “کام ان آنسوؤں سے کہیں اچھا ہے جو مہمان کے اور ایسے جلیل القدر مہمان کے خالی پیٹ جانے پر ہم عورتوں کو بہانے پڑیں، یا اگر وہ پیٹ بھر کر بھی جائے مگر کھانا اس کے لائق نہ ہو”۔
بالآخر بوکو بطور کو اس پر رضامند ہونا پڑا کہ خیمے کے دروازے پر جائے جہاں یک سالہ بّروں کا ایک ریوڑ کھڑا ممیا رہا تھا۔
اسلام باعی نے کہا “انتخاب کرنا مہمان کا کام ہے مگر میری بیوی حاتانم نے بڑی سچی بات کہی ہے۔ اگر کوئی مہمان ازراہ تکلف ایسے جانور کا انتخاب کرے جو اس کے لائق نہ ہو اور میزبان کے لائق بھی نہ ہو تو اس صورت میں میزبان کو اس وقت تک اپنی آنکھیں بند کیے رہنا چاہیے جب تک کوئی اور بہتر جانور انتخاب نہ کر لیا جائے”۔
بوکو بطور کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک پیدا ہوئی۔ بولا “جب میزبان ایسا ہو تو مہمان کے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ ریوڑ کا بہترین جانور چن لے”۔ یہ کہہ کر ایک بڑے تیار بّرے کے سر پر اس نے ہاتھ رکھ دیا۔ اسے فوراً لے جا کر حلال کیا گیا اور رات کے کھانے کے لیے اسے بنا ڈالا گیا۔
اسلام باعی نے کہا “ان کے لیے بھی پسند کیجیے جو آپ کے ساتھ آئے ہیں۔ ساتھیوں کی تعداد چونکہ بیس تھی اس لیے بوکو بطور نے تین اور بّروں پر اپنا ہاتھ رکھا اور جب اسلام باعی نے شکایت کی کہ یہ ناکافی ہیں تو اس نے تین اور کے سروں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ان چھ میں سے کچھ بھی نہیں بچا تھا کیونکہ قازق کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ میزبانی اور مہمانی کے نہ بدلنے والے دستور جب دونوں جانب سے اس طرح ادا ہو چکے تو اسلام باعی اپنے مہمان کو پھر خیمے میں لے آیا اور خیمے کے دروازے کے سامنے گھر کے بُنے اور رنگے ہوئے شوخ رنگ کے قالینوں پر رکھی ہوئی گدّیوں پر دونوں آدمی پہلو بہ پہلو بیٹھ گئے اور عورتوں نے منتخب بّروں کے پارچوں کو ایک ایک کر کے بڑی دیگ میں ابلنے کے لیے ڈالنا شروع کیا۔ سری علاحدہ رکھ لی تاکہ پارچے کھا لینے کے بعد اسے بھون کر چاولوں کے ساتھ کھایا جائے۔ تھوری دیر بعد گھوڑے کو دانہ پانی دے کر عثمان خاموشی سے اندر آ گیا۔ آگ کی دوسری جانب خیمے کے دروازے کے قریب وہ اس طرح بیٹھ گیا کہ کسی طرح بھی اس کا وجود حائل نہ ہونے پائے، لیکن بغیر ان کی نظروں پر چڑھے ان دونوں بزرگوں کو دیکھتا بھی رہے اور ان کی باتیں سنتا بھی رہے۔ لیکن اسے اندر آئے کچھ زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ اسے اچانک معلوم ہوا کہ وہ دونوں خود اسی کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
بوکو بطور کہہ رہا تھا “لڑکا جو خیمے کے دروازے کے پاس بیٹھا ہے میں جانتا ہوں کہ کس قسم کا ہے”۔
عثمان کے باپ نے کہا “بہت سے لڑکوں سے کم عقل ہے۔ وادی میں شاید ہی کوئی ایسا لڑکا ہو جو کم عقلی میں اس سے برھ کر ہو۔ کھیلوں میں مثلاً سر پٹ بھاگتے گھوڑے کی پیٹھ پر کمالات دکھانے میں، زین پر سے پھسل کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے آ جانے اور پھر زین پر پہنچ جانے میں، یا چڑھے ہوئے دریا میں تیرنے میں، یا عااُول میں ملّا کے پس پشت مضحکہ خیز اشعار کہنے میں، ان سب حماقتوں میں اس سے کوئی بازی نہیں لے جا سکتا”۔
بوکو بطور زور سے ہنسا “وئ وئ! واقعی یہ سب حماقتیں ہیں۔ ایسے اور بھی بہت ہوں گے جو سر پٹ دوڑتے گھوڑے کی زین سے پھسل کر پیٹ سے چمٹ جاتے ہیں اور پورے قد و قامت کی بھیڑ کو گھوڑا دوڑا کر زمین سے اٹھا لیتے ہیں، ایسے بہت ہوں گے جو تیر سکتے ہیں اور جو شعر کہہ سکتے ہیں، لیکن ایسے شاذ ہی ہوتے ہیں جو یہ ساری باتیں ہنر مندی سے کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ عثمان یہاں آؤ، میرے پاس آ کر بیٹھو۔ ہاں، اب مجھے بتاؤ تمھیں اور کیا کیا آتا ہے؟ بندوق سے نشانہ لگانا آ گیا۔ تلوار کے ایک وار میں بھیڑ کا سر اڑا سکتے ہو؟ زحل کے گرد تم کتنے حلقے دیکھ سکتے ہو یا مشتری کو کتنے چاند اپنے حلقے میں لیے ہوئے دیکھتے ہو؟”
اسلام باعی نے کچھ بولنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا “نہیں دوست! لڑکے کو خود بولنے دو، تبھی میں جان سکوں گا کہ جو قصے میں نے اس کے بارے میں سنے ہیں کہاں تک ان میں صداقت ہے”۔
عثمان نے کہا “یہ کام تو ایسے ہیں جو کیے جاتے ہیں۔ صرف ان کا تذکرہ بے کار ہے اور جب تک کوئی صحیح استاد نہ ملے کوئی لڑکا انھیں کیسے کر سکتا ہے؟” “یا اللہ! میں اس کے باپ کے سامنے کہتا ہوں اور خود اس کے سامنے بھی کہ اس کا مثل اس کے بعد کبھی پیدا نہیں ہو گا، افواہ کم از کم ایک بار تو سچی ثابت ہوئی، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو کروں گا”۔
اتنے کم سن لڑکے کے لیے بوکو بطور جیسے آدمی کے منہ سے ایسی باتیں کچھ مبالغہ آمیز نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ بوکو بطور نے یہی الفاظ متعدد بار مختلف مواقع پر کہے ہیں۔ ہمیں یہ تو صحیح نہیں معلوم کہ بوکو بطور نے اسلام باعی سے کس ملاقات میں اپنی تجویز کا تذکرہ کیا لیکن اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ جو تجویز آگے بیان کی جائے گی وہ بوکو بطور نے ہی پیش کی تھی۔
قازقوں کی یہ سدا کی عادت ہے کہ کھانے سے پہلے سنجیدہ معاملات پر گفتگو نہیں کرتے۔ اس لیے جب بوکو بطور نے یہ کہا کہ مجھے سنجیدگی سے گفتگو کرنی ہے تو اس کے بعد معمولی واقعات پر بات چیت ہونے لگی اور عثمان یہ محسوس کر کے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی، چپکے سے اٹھا اور پھر دروازے کے قریب مقام خاکسارانہ پر جا بیٹھا۔ وہاں وہ بیٹھا توجہ سے سنتا رہا اور اس کے بزرگوں نے اسے یکسر فراموش کر کے کچھ اور ہی باتیں شروع کر دیں۔ اپنے گلوں کی، شکار کی، آنے والی فصل کی، اپنے قبیلے والوں کے معاملات کی، ناسازگار بیرونی دنیا کی جو انھیں گھیرے لے رہی تھی۔ یہ آخری موضوع ان کی گفتگو کو چینیوں کی طرف لے آیا۔ اسلام باعی نے اپنے مہمان سے نظریں چرا کر پوچھا “کیا یہ سچ ہے کہ خِطائیوں نے بوکو بطور کے سر کی قیمت لگا رکھی ہے؟”
بوکو بطور نے بے پروائی سے جواب دیا “مجھ سے یہی کہا گیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اچھا ہے۔ جو خطرے میں ہوتے ہیں ہمیشہ لمبی عمر پاتے ہیں”۔
“کیا قیمت لگائی ہے؟”
“میں نے سنا ہے کہ دس ہزار تائل”۔
١٩١١ ء کے بھاؤ سے یہ رقم ڈھائی ہزار پونڈ کے قریب بنتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرقی ترکستان میں دس تائل میں گھوڑا خریدا جا سکتا تھا۔
“یہ تو بڑی رقم ہے۔ کیا اسے اس کا خوف نہیں ہے کہ کوئی اتنی بڑی رقم کے لالچ میں اسے دغا دے جائے گا؟”
بوکو بطور ہنسا۔
“میرے اپنے آدمی تو ایسا نہیں کریں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ خِطائی اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے یہ رقم تو ادا کر دیں گے، مگر انعام پانے والے دروازے تک نہیں پہنچیں گے کہ گلے میں رسی کا پھندا پڑ جائے گا۔ خون کی اس رقم کو کوئی اور مرد یا عورت حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں پا سکے گی۔ یا اگر کسی نے یہ روپیہ لے بھی لیا تو اس میں اسے خرچ کرنے کی ہمت کہاں سے آئے گی؟”
“کتنے آدمیوں کو معلوم ہے کہ آج کی رات وہ کہاں بسر کر رہا ہے؟”
بوکو بطور نے جواب دینے سے پہلے احتیاط سے چاروں طرف دیکھا پھر بہت نیچی آواز میں بولا “صرف وہ جانتے ہیں جنھوں نے اسے اپنے خون شریک بھائی کے خیمے میں داخل ہوتے دیکھا”۔ اسلام باعی نے چونک کر اب چاروں طرف دیکھا اور بولا “خاموش! اگر کسی کن سُنیاں لینے والے نے ہمارے اس عہد کا ذکر سن لیا جو راز ہے ہم دونوں کے درمیان یا جسے صرف وہ ملّا جانتا ہے جس نے ہمارے باہمی عہد کا حلف اٹھاتے وقت ہم دونوں کے خون کو ایک پیالے میں ملایا تھا تو سمجھ لو کہ ہمارے لیے روزِ بد آ پہنچا”۔
“ایک شخص ایسا ہے جسے میں چاہتا ہوں کہ اس کا علم ہو جائے۔ میری یہ خواہش کیوں ہے اس کی وضاحت مَیں بعد میں کروں گا”۔
“وہ کون ہے؟”
“وہ لڑکا جو سامنے خیمے کے دروازے کے قریب بیٹھا اپنے دونوں کان ہماری باتوں پر لگائے ہے۔ لیکن اب کھانے کے بعد کے لیے اس موضوع کو اٹھا رکھو۔ جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو دل ہرا ہوتا ہے۔ دوست سے دل کی بات کہنے کا وقت یہی ہوتا ہے۔ لفظ زیادہ بڑے اور شیخی بھرے ہوتے ہیں، جب پیٹ کی ہوا سے پھولنے کے لیے ان کے لیے ضرورت سے زیادہ جگہ موجود ہوتی ہے”۔
ہماری کہانی کے اب پھر کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں لیکن یہ بات بھی کچھ انہونی سی ہے کہ جب دو شخص نہایت مقدس قربت میں منسلک ہو جائیں تو اس کے لیے کوئی دستاویز بھی تیار کی جائے۔ اگر یہ صورت ہوا کرتی تو اس تعلق خاص کی افادیت ہی ختم ہو جاتی۔ بوکو بطور اور اسلام باعی تو ایسے آدمی تھے کہ ان کے بارے میں یہ سوچا ہی نہیں جا سکتا کہ ان کے خون شریک بھائی نہیں ہوں گے اور یہ بھی قطعی نا ممکن تھا کہ بوکو بطور کا اگر اسلام باعی سے خون بندھن نہ ہوتا تو عثمان کے ساتھ بوکو بطور کا اس نوع کا رویہ ہوتا۔
قازق معاہدوں میں خون کا بھائی چارہ دو آدمیوں میں سب سے پکا بندھن سمجھا جاتا ہے، ایک ماں کے پیٹ کی اولاد سے بھی زیادہ، زن و شوہر کے تعلقات سے بھی قوی تر، کیونکہ اسلامی قانون کے مطابق ان میں تین دفعہ طلاق دینے پر علاحدگی ہو جاتی ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا بندھن ہے جو جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی۔ زندگی بھر ایک دوسرے کی مادی خدمات تو لازم و ملزوم ہوتی ہی ہیں، مرنے کے بعد بھی ان دونوں کی روحیں جنت میں یکجا ہو جائیں گی۔ کیونکہ بہ اعتبار مسلمان ہونے کے قازق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب جسم مر جاتے ہیں تو روحیں اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہیں اور مدغم ہو کر ایک ہو جاتی ہیں۔
اچھا تو اب ہمیں یہ تصور کرنا چاہیے کہ اُدھر عورتیں کھانا پکانے میں لگی ہوئی تھیں اور ادھر یہ دونوں خون شریک بھائی خاموش ہو کر ماضی کا وہ خواب دیکھ رہے ہیں جب ان کی جوانی میں مُلّا ایک پیالہ لایا تھا، پھر اس نے ان دونوں کی کلائیوں میں شگاف دیے تھے اور اپنے ساتھ ساتھ ان دونوں سے عہد کے الفاظ کہلوائے تھے۔ مرغ کا ایک پٹّھا پاس ہی حلقوم کی کھال سے بندھا ہوا ایک ساں شور مچائے جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ خون شریک کرنے کی کارروائی بھی ہو رہی تھی اور خیمے کے باہر مرغ کی اس چیخ پکار کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ مرغ کے پٹھوں کی تو یہ عادت ہی ہوتی ہے کہ شور مچاتے رہیں۔ آخر میں دونوں خون شریک بھائیوں نے پیالے میں اپنے اپنے انگوٹھے ڈبوئے اور آپس میں گلے ملے، ان میں سے ایک نے مرغ کے پٹھے کو آزاد کر دیا اور خیمے کا پردہ اٹھتے ہی وہ پھڑ پھڑا کر بھاگ گیا۔ یہ دونوں آدمی اپنے اپنے کام پر اس طرح چلے گئے گویا کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہی نہیں، لیکن اس عہد کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک کو حق حاصل ہو گیا تھا کہ اگر کبھی دشمنوں کے نرغے میں پھنس جائے تو اپنے خون شریک بھائی سے ایک رات کے لیے سر چھپانے کی جگہ طلب کرے اور اگلے دن صبح کو ایک صبا رفتار گھوڑا اسے تیار مل جائے؛ اس کے علاوہ خطرات اور میدان جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی جانبین پر فرض ہو جاتا تھا۔ پھر ان دونوں خون شریک بھائیوں میں کوئی راز نہیں رہتا تھا، ایک کے دریافت کرنے پر دوسرے کو سب کچھ بے دریغ کہہ دینا پڑتا تھا بشرطیکہ وہاں تیسرا کوئی اور موجود نہ ہو۔
شاید یہ دونوں ایسے ہی خواب دیکھ رہے ہوں گے کہ عورتیں گرما گرم شوربے کے بھرے ہوئے پیالے اور بَرّے کے پارچے لے کر آ گئیں اور پہلے بوکو بطور کو، پھر اسلام باعی کو یہ چیزیں پیش کرنے لگیں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے خیمے کے دروازے پر گرم پانی سے ان کے ہاتھ دھلوائے گئے، پھر اپنی اپنی جگہ واپس آ کر انھوں نے برکت کے لیے کوئی دعا پڑھی۔ سپاٹ روٹی کے بڑے بڑے ٹکڑے پیش کیے گئے جس کے بعد بڑی سی گہری رکابی میں اپنے سیدھے ہاتھ ڈبو ڈبو کر انھوں نے گوشت کے پارچے نکالنے اور کھانے شروع کیے۔ گوشت چباتے جاتے اور شوربے کے پیالے منہ سے لگا کر شڑپّے لگاتے جاتے تاکہ گوشت حلق سے نیچے آسانی سے اتر جائے۔ یہ بالکل وہی طریقہ تھا جو آتے ہی بوکو بطور نے چائے اور نان خوری میں اختیار کیا تھا۔ جب خوب پیٹ بھر کر کھایا جا چکا تو ملازم نے گرم پانی سے پھر ان کے ہاتھ دھلائے اور کھانے والوں کے زانوؤں پر جو لمبا سا تولیہ پڑا ہوا تھا، اس سے دونوں نے ہاتھ پونچھے۔ ملازمین نے باقی ماندہ کھانا اٹھا کر جگہ صاف کر دی۔ اتنے میں عورتیں تازہ چائے کے پیالے لے آئیں، ان میں سے دار چینی کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ ذائقہ کے لیے اس چائے میں شکر بھی ڈالی گئی تھی اور نمک بھی۔ گرم چائے کو وہ زور زور سے شڑکتے رہے اور درمیانی وقفوں میں غیر مسلسل گلوئی صدائیں خارج کرتے رہے، جن کا مطلب قازقوں کے آداب اکل و شرب میں یہ لیا جاتا ہے کہ کھانا بہت تھا اور مزے دار بھی۔
جب دونوں بزرگ اپنی اپنی گدیوں پر سستانے کے لیے بیٹھ گئے تو اسلام باعی نے چیخ کر کہا “ارے کاہل لڑکے ایندھن لا۔ جب ہوتا ہے جب مجھے تجھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آگ جوڑ اور دھونکنی سے شعلے اٹھا۔ جانور تک جان گئے ہوں گے کہ رات ہو گئی اور چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا ہے”۔
عثمان نے چپکے سے اپنے بھائیوں سے کہا اور وہ خیمے کے باہر جو لکڑیوں کا ڈھیر لگا تھا اس میں سے کولیاں بھر بھر کر لکڑیاں لانے لگے۔ جن اپلوں کے انگاروں پر ابھی برے کا گوشت پک چکا تھا ان پر ایک نے احتیاط سے لکڑیاں چنیں اور دوسرے نے دھونکنی سے ہوا دینی شروع کی۔ یہاں تک کہ خیمے میں شعلوں کی زبانیں لہرانے لگیں اور ان کے عجیب و غریب سائے خیمے میں اس طرح ناچنے لگے جیسے آسمان پر بجلی کے کالے کوڑے بن رہے ہوں اور یہ سائے خیمے کی نمدے دار دیواروں سے ٹکرا کر خاموشی سے پاش پاش ہونے لگے۔
اسلام باعی نے جب دیکھا کہ شعلے خوب بھڑک اٹھے ہیں تو اس نے عثمان بطور کو آواز دے کر منع کیا کہ اب اور آگ نہ بھڑکائی جائے۔ اب بوکو بطور نے عثمان کو بلایا۔ عثمان آگے آ کر نہایت ادب سے کھڑا ہو گیا۔ بوکو بطور نے کہا “یہاں بیٹھ جاؤ، میرے پاس۔” چنانچہ عثمان بیٹھ گیا اور منتظر رہا۔ دیر تک خاموشی رہی، کچھ دیر بعد بوکو بطور نے لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا:
“کھانا کھانے سے پہلے ہم گفتگو کر رہے تھے کہ میرے سر کی قیمت لگا دی گئی ہے”۔ پھر اسلام باعی کی طرف رخ کر کے کہا “کیوں بھائی، یہی بات ہو رہی تھی نا؟”
اسلام باعی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا “جی ہاں، یہی بات ہو رہی تھی”۔
“وہ جو خطرے میں پیدا ہوتے ہیں لمبی زندگی پاتے ہیں، یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، کیونکہ خدا کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ہوشیار رہیں لیکن جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو موت سبھی کو آتی ہے”۔
اسلام باعی نے کہا “خدا نہ کرے کہ موت ان کو آئے جو اس خیمے میں ہمارے ساتھ ہیں اور خدا کرے ان میں کوئی عمر دراز پائے بغیر نہ مرے”۔
اور اس کی بیویوں نے کہا “آمین”۔
بوکو بطور نے کہا “اس کا اختیار اللہ کو ہے لیکن جو دانش مند ہوتے ہیں خصوصاً ایسا شخص جو ہزاروں کی رہنمائی کرتا ہو، مثلاً مَیں، ایسا شخص پیش بینی کرتا ہے اور اپنے منصوبے بناتا ہے تاکہ اچانک وہ روزِ بد نہ آ جائے کہ اس کے پیرو بغیر رہنما کے رہ جائیں۔ کیوں بھائی یہی بات ہے نا؟”
“جی ہاں۔ یہی بات ہے”۔
بوکو بطور نے کہا “رہنمائی خدا کرتا ہے، انسان نہیں کرتا۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رہنما کا لڑکا بھی باپ کی خوبیوں سے متصف ہو ہی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کا لڑکا یا اس کی لڑکی باپ کے دستے کی یا پورے قبیلے کی رہنمائی امن کے زمانے میں کرے مگر جنگ کے زمانے میں اپنی قسمتیں اسے سونپ دینا، جب تک وہ اس کا اہل نہ ہو، گناہ ہے۔ خدا کا گناہ”۔
اسلام باعی بولا “جیوٹ گھوڑے کو خدا ہی ہدایت کرتا ہے کہ پہاڑوں میں جب کوئی خطرہ قریب ہو تو اپنی گھوڑیوں اور بچھروں اور بچھیروں کی حفاظت کے لیے تیار ہو جائے”۔
بوکو بطور نے کہا “تم نے اچھی مثال دی، اگر مجھے نکال لیا جائے تو میرے پاس اور کوئی گھوڑا نہیں ہے جو میرے گلے کی حفاظت کرے”۔
یہ کہہ کر اس نے عثمان کا چہرہ اپنی طرف پھیرتے ہوئے پوچھا “یہ لڑکا ہے ایسے دم خم کا گھوڑا؟ کیا خیال ہے تمھارا ابو عثمان؟”
اسلام باعی اچانک اور غیر متوقع طور پر مسکرانے لگا، اس کی مسکراہٹ میں کچھ شرارت بھی تھی۔ بولا:
“اتنا تو میں جانتا ہوں کہ یہ آختہ گھوڑا ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ کہنا، میرا یعنی اس کے باپ کا کہنا مناسب نہیں ہے، پھر یہ کہ ابھی اس کی عمر مشکل سے بارہ سال کی ہو گی”۔
بوکو بطور نے کہا “مگر وہ اتنا بڑا تو ضرور ہے کہ میرے ساتھ چلے، تاکہ میں اس کے متعلق کچھ معلوم کر سکوں”۔
باپ نے بیٹے سے پوچھا “لڑکے تم کیا کہتے ہو؟”
“اگر میرے باپ کی مرضی ہو اور بوکو بطور کی بھی، تو میں بہ خوشی جاؤں گا”۔
بوکو بطور نے کہا “مجھے جو کچھ تجھ سے کہنا ہے اسے غور سے سن۔ کیونکہ ہم جس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تیرا باپ اچھی طرح جانتا ہے کہ چنگیز خاں کے زمانے سے نہیں بلکہ شروع ہی سے ہم قازق ان پہاڑوں پر گھومتے رہے ہیں، ہم نے کبھی کسی کو خراج نہیں دیا اور نہ کبھی کسی کی اطاعت قبول کی سوائے خدا کے اور اپنے منتخب سرداروں کے۔ پھر صحرائے گوبی کے پیچھے سے غیر ملکی کافر آئے اور ہمیں غلام بنانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ تیرا باپ جانتا ہے اور اس سے زیادہ ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ میں جہاد کرتا رہا ہوں، پچھلے بیس سال سے ان اہل خِطا سے مقدس لڑائیاں لڑتا رہا ہوں اور اپنے لوگوں کو ابھارتا رہا ہوں کہ وہ بھی جہاد کریں۔ ایک نہ ایک دن ہم انھیں اُسی صحرا میں واپس دھکیل دیں گے جہاں سے وہ آئے تھے اور ہم انھیں برباد کر دیں گے، چاہے ان کی تعداد تکلا مکان کے ذروں کے برابر ہی کیوں نہ ہو”۔
بوکو بطور ایک ذرا کی ذرا چپ ہوا اور بولا:
“اے عثمان! تیرا باپ امن پسند آدمی ہے اور میں ان میں سے ہوں جو لڑ کر زندہ رہتے ہیں اور جنھیں لڑائی سے محبت ہوتی ہے۔ لیکن ہم دونوں کو اپنی قوم سے محبت ہے، اس کا طور اور ہے اور میرا کچھ اور۔ جتنی محبت اسے امن سے اور مجھے جنگ سے ہے اس سے بڑھ کر ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس وقت سے جب ہم تیرے برابر کے لڑکے تھے۔ کل رات کو سوتے میں یہ بات میرے دل میں آئی کہ اس خیمے میں کوئی اور ایسا موجود ہے جو امن کے طریقوں میں اپنے باپ کی سلیقہ مندی رکھتا ہے تاہم وہ اس لائق ہے کہ میں اسے اپنی جنگ کرنے کی ہنر مندی سکھا دوں۔ پھر جب میں رخصت ہو جاؤں تو ہمارے سدا کے دستور کے مطابق جنگ بجائے دو یا دو سےبھی زیادہ دماغوں کے، صرف ایک دماغ کے تحت آئندہ جاری رہ سکتی ہے۔ اور جب میری آنکھ کھلی تو پَو پھٹ رہی تھی اور میرے دل میں آئی کہ میں یہاں آؤں اور بہ چشم خود دیکھوں۔ چنانچہ میں یہاں آیا”۔
اب پھر ایک ذرا دیر کے لیے خاموشی ہو گئی اور اب کے اس کے اس سکوت کو عثمان کی ماں نے توڑا۔
“آنے والے زمانے میں لوگ میرے بیٹے کو اسی طرح بطور کہیں گے جیسے آج کسی اور کو کہتے ہیں، آپ اسے لے جائیے اور سکھائیے اور اگر یہ نا اہل ثابت ہو تو اسے اس کے باپ کے خیمے میں واپس بھیج دیجیے”۔ عثمان بولا “اگر میں نا اہل ثابت ہوا تو میں ہرگز واپس نہیں آؤں گا۔ مر جانا پسند کروں گا”۔
یہ طے ہو گیا کہ بوکو بطور عثمان کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور اسے چھاپہ مار سردار کی تربیت دے گا۔ رات گئے تک بزرگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں عثمان خاکساری سے اپنے بھائیوں میں جا بیٹھا۔ اور جب ضرورت ہوتی تو آگ دہکا دیتا، مگر بڑوں کی باتوں میں پھر شریک نہیں ہوا۔ انھیں تمام پہلوؤں پر غور کرنا تھا، خصوصاً اس پر کہ اس شبہ سے اسلام باعی کو کیسے بچایا جائے کہ اس کا بیٹا چینیوں سے لڑ رہا ہے۔ چینیوں کو اس سے کیسے باز رکھا جائے کہ وہ اسلام باعی کو گرفتار کر کے طرح طرح کے عذاب دے کر یہ دریافت نہ کر لیں کہ بوکو بطور کہاں پوشیدہ ہے؟
عثمان بڑے اشتیاق اور خاموشی سے باتیں سن رہا تھا جن میں چینی افسروں سے شدید نفرت بھری ہوئی تھی۔ ان کے مظالم، قازق وطن کی سر زمین کے نیچے سونے اور دوسری معدنیات کی جو دولت دبی پڑی تھی اس کے لیے چینیوں کی حرص و آز، چینیوں کے چنگل میں پھنس جانے والوں پر ان کی اذیتیں اور ذی استطاعت قازقوں کا زرِ رستگاری ادا کر کے ان کے قبضے سے رہائی حاصل کرنا۔ اس کے بعد بوکو بطور نے ان چینی سوداگروں کو برا بھلا کہا جو جابرانہ قیمتیں وصول کرتے، ان چڑھ آنے والے چینیوں کی برائی کی جو الطائی کی زمینوں کو دباتے چلے جا رہےتھے، یہاں تک کہ اس کے حقیقی آقا تنگ حدود میں گھر کر رہ گئے تھے اور اپنے آبا و اجداد کی طرح سب حسب مرضی آزادی سے گھوم پھر بھی نہیں سکتے تھے۔
عثمان ان باتوں کو سنتا رہا اور سینے میں اس کا دل جلتا رہا۔ بوکو بطور کے زیر اثر اسے چینیوں سے نفرت ہو گئی اور یہ نفرت زمانے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ جب چینی خطرہ ١٩٣٠ء کے لگ بھگ وسیع تر اشتراکی خطرے میں مدغم ہونے لگا تو قومیت پسند چینیوں سے اسے جو نفرت تھی، اس میں کچھ کمی آئی اور اس نے سوچا کہ چینی اور روسی اشتراکیوں کے خلاف قومیت پسند چینیوں کا حلیف بن جائے، مگر پھر اس نے سوچا کہ قازق طرز زندگی کے دشمن تو دونوں ہی ہیں اس لیے ان سے بھی میل نہیں ہو سکتا۔
عثمان پر اعتراض کرنا مشکل ہے۔ جو قومیں چینیوں کے ما تحت تھیں انھیں اپنا کوئی مستقبل سوائے اس کے نظر نہ آتا تھا کہ چینی بن جائیں۔ چالیس سال بعد جون ١٩٥٢ء میں چین کے ایک سابق نائب صدر ڈاکٹر چوچپا ہوا اپنی فارموسا کی جلا وطنی سے استنبول میں مہاجر ترکی رہنما محمد امین بُغرا کو لکھ رہا تھا :
“نہ صرف سنکیانگ (مغربی ریاست) خود چین میں ہے بلکہ بہت سا وہ علاقہ بھی جو اس کے پیچھے ہے کبھی چینی سلطنت میں شامل تھا، یہی وجہ ہے کہ چین کے کل باشندے اسے ایک مقدس ورثہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ چینی خون کئی قوموں کے خون کا آمیزہ ہے۔ آسمان تلے صرف ایک خاندان کا نظریہ محض ایک شاعرانہ نمود نہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ ہمارے روز مرہ کے طرز عمل کے لیے ایک معیار بھی ہے۔
عظیم راہبوں کے سوانح میں ایک دلچسپ قصہ سنکیانگ کے ایک راہب جمولوش کا لکھا ہے کہ بربری حملہ آوروں کے زمانے میں وہ ایک عسیر المدت بادشاہت میں پہنچا، بادشاہ نے اسے دس حسین چینی دوشیزائیں دیں، تاکہ راہب کی اعلیٰ صفات ذہنی اور راہب اور ان دوشیزاؤں سے جو اولاد پیدا ہو، ان میں منتقل ہو کر دائم و قائم ہو جائیں۔۔۔۔۔ اگر جمولوش کی کوئی اولاد ان حسین بیویوں سے ہوئی ہو گی تو چینیوں کے معاشرے ہی میں جذب ہو کر چینی باشندوں ہی کا حصہ بن گئی ہو گی۔۔۔۔
جدید چینی نسل کئی نسلی عناصر سے مرتب ہوئی ہے۔ چینی ثقافت اور چینی عوام کی مسلسل قوت کا سبب یہی ہے۔”
محمد امین بغرا نے جواب میں لکھا کہ “وہ ترکی، منگولی اور تبتی قومیں جو اب چینیوں کے زیر اقتدار ہیں، ان کی زبان، مذہب، رسم الخط اور دوسرے خصائص چینیوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے۔ترکستان چین کی قدرتی حد کے پیچھے ایک علاحدہ جغرافیائی رقبے میں واقع ہے اور اس کی چھیانوے فی صدی آبادی ترکی ہے، لہذا اسے خود مختار ہونا چاہیے۔ وہاں اسی لاکھ سے زیادہ ترک ہیں جن میں ترکی بھی ہیں اور قازق وغیرہ بھی۔ دنیا میں دس سے زیادہ ایسی آزاد قومیں ہیں جن کے افراد کی تعداد ترکستان سے کم ہے۔”
عثمان کا چینیوں سے نفرت کرنا اور ان سے لڑتے رہنا، مختصراً انہی وجوہ سے تھا اور یہی سبب ہے کہ علی بیگ، حمزہ اور دوسرے قازق بعد میں بھی اُن روسی اور چینی اشتراکیوں سے لڑتے رہے جو قازق انفرادیت کو مٹا دینے کے درپے تھے۔
جس رات کو بوکو بطور نے عثمان کو جہاد کرنے میں اپنا جانشین بنانے کی تربیت دینے کی پیش کش کی، اس کے اگلے دن علی الصباح اسلام باعی، اس کے گھر والوں اور مہمان سب نے اٹھ کر نماز فجر ادا کی اور کوئی گھنٹہ بھر بعد عثمان نے اپنا ضروری سامان ایک بغچی میں باندھا اور اپنے نئے نگراں و استاد کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر پڑاؤ سے روانہ ہو گیا۔ عا اُول سے وہ فارغ التحصیل ہو چکا تھا اوراب سے اسے عملی تجربے کے مکتب میں سبق حاصل کرنا تھا۔
اس کے احساسات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ جب سے وہ بڑوں کی باتیں سننے لگا تھا وہ بوکو بطور کے کارنامے سنتا چلا آ رہا تھا۔ جب کبھی بھی اسلام باعی کے خیمے میں کوئی مہمان آتا تو ہر پھر کے تذکرہ اس چھاپہ مار سردار ہی کا ہوتا رہتا۔ گھومتے پھرتے بھاٹ اس کی شان میں اپنے لکھے ہوئے گیت گاتے اور طویل رزمیہ نظمیں سناتے اور عثمان کے مکتب کے ملّا نے خود عثمان کو شعر لکھنے اور انھیں قدیم دُھنوں میں گانے سکھائے تھے جو سب کومحبوب تھیں۔
لہذا عثمان کی آنکھیں بوکو بطور کے سر کے گرد ضرور نور کا ایک دائرہ دیکھ رہی ہوں گی اور جب وہ دونوں ایک ساتھ اوپر الطائی کی وادیوں کی جانب سوار چلے جا رہے ہوں گے تو عثمان کی ناک میں جہاد کے مقدس مقصد کی خوشبو آ رہی ہو گی۔ اگرچہ ہمیں یہ ٹھیک نہیں معلوم کہ یہ کب کا واقعہ ہے اور وہ کہاں گئے، تاہم ہمیں اس کا یقین ہے کہ خزاں کا آخر آ پہنچا تھا اور برف کی تہ اس مقام کی جانب اترتی چلی تھی جہاں اسلام باعی کا پڑاؤ ہوتا تھا۔ بہر حال جب بھی یہ واقعہ ہوا ہو اور جہاں کہیں بھی یہ گئے ہوں، ان کا رخ برف کی تہ کی طرف تھا۔ کیوں کہ بوکو بطور پہاڑوں کے اندر چھپنے کے ایسے مقام تلاش کرتا تھا جنھیں ڈھونڈھ نکالنا دشمن کے لیے مشکل ہو۔
لہذا کچھ ہی عرصے بعد وہ برف کی تہ کی جانب چلے جا رہے تھے۔ بوکو بطور آگے تھا۔ گھوڑوں کا رخ وہ ران کے دباؤ کے اشاروں ہی سے بدل لیتے۔ پتلی پتلی لگاموں کے کھنچاؤ سے گھوڑوں کے سر اونچے ہو جاتے۔ ان ہی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قازق اپنے گھوڑوں کو کس قدر عزیز رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک کہاوت ہے کہ “بھلے گھوڑے کو چابک کی ضرورت نہیں ہوتی”۔
ان کا راستہ بھوری خشک چراگاہوں اور ایسے گنجان درختوں میں سے ہو کر جا رہا تھا کہ کسی کو سان گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کسی کا گزر ہو سکتا ہے۔ بوکو بطور نے پلٹ کر دیکھا کہ عثمان پر کیا گزر رہی ہے اور مسکرا کر کہا:
“کیا یہاں سے اپنے گھر واپس پہنچ سکتے ہو؟”
“نہیں صاحب، مگر میرا گھوڑا مجھے لے جا سکتا ہے”۔
بوکو بطور نے کہا “ٹھیک”۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر پلٹ کر کہا:
“گھوڑے پر اعتماد اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ راستے سے واقف ہو۔ مگر ایک وقت ایسا آتا ہےجب کوئی نیا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے یا کوئی پرانا راستہ نئے گھوڑے کو دکھانا پڑتا ہے، جو شخص میرے نقش قدم پر چلے اسے یہ سیکھنا چاہیے کہ نئی راہ کیسے تلاش کی جاتی ہے۔ یہ بات اسے دوسروں کو بھی بتانی چاہیے اور اپنے گھوڑے کو بھی”۔ عثمان نے یہ ڈھنگ بھی سیکھ لیا۔ جب وہ جوان ہو گیا اور بوکو بطور کا چغہ اسے مل گیا تو وہ فخریہ کہا کرتا کہ لڑائی کے بعد میں اپنی پوشیدہ کمین گاہوں میں اس طرح چپکے سے رو پوش ہو سکتا ہوں کہ سنکیانگ، شنگھائی اور کن سو تینوں صوبوں کی چینی فوجیں میری ہوا بھی نہ پائیں۔ حالانکہ وہ اتنے قریب پہنچ جاتی ہیں کہ میرے کانوں میں ان کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور میں ان کی گولیوں کی زد میں ہوتا ہوں۔ لیکن رفتہ رفتہ زمانہ بدل گیا اور اس کی زندگی کے اختتام سے پہلے اس کے دشمنوں نے ہوائی جہازوں سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور ان سے بچنا خاصا دشوار ثابت ہونے لگا تھا۔ مگر اکثر ایسا ہوتا کہ ہوائی جہاز بھی اس کا پتا چلانے میں ناکام رہتے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ تک ہوائی جہازوں کی بہت کمی تھی۔
عثمان اپنے گھوڑے پر سوار بوکو بطور کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی اس کے پہلو بہ پہلو بھی ہو جاتا۔ عثمان کی تیز نگاہوں نے ان نظر نہ آنے والی علامتوں کو بھی دیکھ لیا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ پڑاؤ اب قریب آ رہا ہے۔ چٹانوں کے بعض حصے بہت سے جانوروں کے گزرنے کی وجہ سے گھس کر چکنے ہو گئے تھے، کسی کسی خار دار جھاڑی میں بھیڑوں کے اون کے ریشے اٹکے رہ گئے تھے اور کہیں کہیں بھیڑوں کی مینگنیاں پڑی دکھائی دے رہی تھیں۔
بوکو بطور نے پوچھا “تم پہلے کبھی یہاں آئے ہو؟”
“کبھی نہیں”
“تمھارا باپ آیا ہے”۔
اور عثمان کی سمجھ میں پہلی دفعہ یہ بات آئی کہ کبھی کبھی اس کا باپ صبح سویرے ہی اٹھ کر پڑاؤ سے کیوں چلا جاتا تھا اور اگلے دن یا اس سے بھی اگلے دن تک واپس کیوں نہ آتا تھا۔ اس انکشاف سے بھی اسے ایک سبق حاصل ہوا، وہ یہ کہ اپنا راز اپنے تک رکھنا چاہیے، ورنہ دوست یا عزیز ذرا سی بے احتیاطی سے بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ راز داری قازقوں کی ایک مخصوص صفت ہے، جو ان کے حالاتِ زندگی کی وجہ سے ناگزیر ہو گئی ہے۔ مگر اس کی وجہ سے دوسروں کے لیے دشوار ہو جاتا ہے کہ ان کی رضا جوئی کریں، یا خود آپس ہی میں انھیں سلوک رکھنا مشکل ہو جا تا ہے۔ عثمان کے لیے یہ مشکل اور بھی سخت ہو گئی تھی کیونکہ جھوٹ بولنے پر وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ حالانکہ اسی کے ساتھ کے دوسرے جی دار قازق اس اصول پر کاربند نہیں تھے۔
اس کے بعد جو اٹھارہ مہینے گزرے، ان میں بوکو بطور بہت سے حملوں میں عثمان کو اپنے ساتھ لے گیا اور اسے بہت سی وہ باتیں سکھائیں جو کسی چھاپہ مار سردار کو معلوم ہونی چاہئیں۔ گولی کا نشانہ کیسے بنایا جائے، پہلے جنگلی خرگوشوں اور پھر انسانوں کو اور اس وقت جب گھوڑا پوری رفتار سے دوڑ رہا ہو بندوق کو کمر تک اٹھا کر ہی گولی چلا دی جائے، مسلسل بیس گھنٹے تک گھوڑے پر ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ کر آرام سے کیسے سوار رہا جائے اور چار گھنٹے دم لینے کے بعد اسی گھوڑے پر پھر بیس گھنٹے کے لیے روانہ ہوا جائے۔ بعد کے حصۂ عمر میں اپنے محافظوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں تین سو میل گھوڑے پر طے کرنا عثمان کے لیے معمولی بات تھی۔
عثمان میں ہمت و قوتِ برداشت بڑھاتے رہنے کے علاوہ بوکو بطور نے اسے یہ بھی بتایا کہ کامیاب حملوں کی رہنمائی کیسے کی جاتی ہے کہ اپنے دستے کے افراد کے جوش و خروش کو شروع میں ٹھنڈا کیا جائے اور جب بے فکر ہو کر دشمن کی زیادہ تعداد آگے نکل جائے تب ایک دم سے حملہ کر کے باقی ماندہ فوج کو کاٹ ڈالا جائے اور اس سے پہلے کہ اگلی فوج لوٹ کر آئے، الطائی کی جانی پہچانی کمین گاہوں میں بعجلت تمام روپوش ہو جانا چاہیے۔ پہاڑوں میں جب درّے برف سے تنگ ہو جاتے تو بوکو بطور دشمن کے دستے یا کارواں کی راہ بند کر دیا کرتا اور اوپر سےبڑے بڑے پتھر لڑھکانا شروع کر دیتا۔ دشمن پلٹ کر بھاگتا، مگر آگے چل کر اسے معلوم ہوتا کہ ابھی جہاں سے وہ گزر کر آیا ہے وہ راہ بھی مسدود ہو چکی ہے۔
بوکو بطور عثمان سے اکثر کہا کرتا “یہ ایک اچھی زندگی ہے بیٹا عثمان!” پھر اس زور سے قہقہہ لگاتا کہ زین پر سے پھسلتا پھسلتا بچتا۔ “چپکے سے دشمن کے عقب میں پہنچ گئے اور اس سے وہ سامان جنگ چھین لیا جسے وہ تمھارے جسم میں داخل کرنا چاہتا تھا، اتنے میں کہ وہ اپنی رائفل بھرے اور گولی چلائے تم اپنے گھوڑے اڑا کر اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ تمھیں اس میں بڑا لطف آئے گا عثمان!”
چھاپہ اور شب خون مارنے کا بوکو بطور کو اس قدر شوق تھا اور اس کے حملے سے ایسی سنسنی پھیلتی تھی کہ اس کے متعلق سینکڑوں قصے اور داستانیں مشہور ہو گئی ہیں۔ جب اس نے عثمان کو اپنی شاگردی میں لیا تو وہ دور دور چینی ترکستان اور اس کے پیچھے تک تاخت کر رہا تھا۔ سالہا سال تک وہ منچو حکومت والوں کی چوٹیاں مروڑنے اور ٹانگیں کھینچنے میں لگا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد قوی تھا اور اسے چینیوں نے اگرچہ کئی بار گرفتار کیا لیکن زیادہ عرصہ تک اسے اپنی قید و بند میں نہ رکھ سکے۔ بعض دفعہ وہ اس کے بیڑیاں ڈال دیتے اور ہتھکڑیاں لگا دیتے، لیکن وہ انھیں توڑ لیتا اور اس کے گرفتار کرنے والے یا قید خانے کے محافظ رائفلیں ہی اٹھاتے رہ جاتے اور بوکو بطور فرار ہو جاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حسب دستور اسے بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر بیل کی تازہ اتری ہوئی کھال میں سی دیا۔ اتنی بڑی کھال کا جانور ہی تلاش کرنے میں خاصی دیر ہو گئی۔ بوکو بطور اس نفرت انگیز ماحول میں دنوں قید رہا۔ بعض کا بیان ہے کہ مہینوں سلا پڑا رہا۔ لیکن ایک دن صبح جب قید خانے کے محافظ اسے کھانا دینے گئے تو دیکھا کہ کھال خالی پڑی ہے۔
ہم تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ عااول میں آگ کے سامنے دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور سو رہنے سے پہلے بوکو بطور عثمان کو اپنے بچ نکلنے کے قصے سنا رہا ہے۔ عثمان دم بخود سن رہا ہے اور اس کے دل میں امنگیں اٹھ رہی ہیں۔ عثمان بھی اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے لیکن وہ اس بات کو بھی سمجھ رہا ہے کہ بوکو بطور کی جرات مندی میں مآل اندیشی کی کمی ہے۔ آزادی کے لیے کشمکش کرنے میں حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ہوشیاری کی بھی۔ عثمان نے اس اہم اصول کو گرہ میں باندھ لیا تھا کہ اپنا راز کسی سے کہہ کر غیر ضروری خطرہ مول نہیں لینا چاہیے اور اس افسوسناک حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اپنوں ہی میں باغی بھی ہوا کرتے ہیں جن کا پتہ چلاتے رہنا چاہیے۔ یہ واقعہ کہ بوکو بطور بیل کی کھال میں اسماعیل نامی ایک ترکی بدکردار کی دغا بازی کے باعث سیا گیا تھا، عثمان کی نظر میں زیادہ اہمیت رکھتا تھا بہ نسبت اس واقعے کے کہ بوکو بطو رنے اپنی قوت کی وجہ سے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ عثمان کے نزدیک قوت ایک عطیہ خداوندی ہے، اسی طرح دانشمندی بھی اور جس کے پاس یہ دونوں ہوں اسے اپنا اطمینان کر لینا چاہیے کہ وہ دونوں کو اچھی طرح استعمال کر رہا ہے یا نہیں اور جو ان کا صحیح استعمال کرتا ہے اس کی حفاظت اللہ کرتا ہے۔
بوکو بطور کے جنگ کرنے کے طریقے سیکھنے کے علاوہ عثمان نے یہ بھی سیکھ لیا کہ چینی سرحد کے محافظوں کے بغیر روکے ٹوکے چینی سرحد کو کس طرح پار کیا جائے۔ اُن دنوں سرحد پار کا علاقہ زاری روس کہلاتا تھا اور بوکو بطور اسے “رشّی” کہا کرتا تھا۔ اسے پار کر لینے کے بعد وہ بے خوف و خطر آگے سفر کر سکتے تھے۔ کیونکہ روسی افسروں میں بہت سے دوست تھے۔ بعض اوقات وہ شمال کی جانب بارہ سنگھے کے علاقے میں پہنچ جاتے جو جنوبی سائبیریا میں تھا، کم از کم ایک بار وہ آلما آتا تک بھی جا پہنچے جو آج کل کے سوویت جمہوریہ قازقستان کا صدر مقام ہے اور جہاں کے ثمرستان اور عمدہ موسم سارے ایشیا میں مشہور ہیں۔
جب وہ الطائی واپس آئے تو اپنے ساتھ نئے حاصل کیے ہوئے اونٹوں کی ایک لمبی قطار بھی لائے۔ ان اونٹوں پر وہ ہتھیار اور گولہ بارود لدا ہوا تھا جو روسیوں نے انھیں دیا تھا۔ اس وقت اور بعد میں جب سرخوں نے سفیدوں سے اقتدار لے لیا، روسیوں کی حکمت عملی یہ تھی کہ سنکیانگ میں چینیوں کے لیے جتنی خرابیاں پیدا کی جا سکیں کی جائیں۔ کیونکہ اس صوبے پر روسیوں کی نظر تھی اور اب بھی ہے۔ اس سرحد کے ساتھ ساتھ دو سو میل چوڑی پٹی ہے جس کے مطالبے سے زاروں کے زمانے سے اب تک ماسکو نے دست برداری نہیں کی ہے۔ سوویت حکومت نے ١٩٤٦-٤٧ء میں اس پٹی کا ایک حصہ دبا لیا تھا اور ا ب تک اس پر انہی کا قبضہ ہے۔ سوویت روس کا مطالبہ دوسرے حصوں کے لیے اب تک سرکاری طور پر واپس نہیں لیا گیا ہے بلکہ اسے اب بھی التوا میں ڈال رکھا ہے۔ اس علاقے میں سونا ہے اور قیمتی خام دھاتیں ہیں، اور اگر ترکی کے قازق مہاجروں کا کہنا صحیح سمجھا جائے تو وہاں یورینیم بھی ہے؛ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ روسی وہاں ایٹمی کارخانہ بنانا چاہتے ہیں اور بعض کا بیان ہے کہ روسیوں نے کارخانہ کھول بھی لیا ہے۔
روسیوں نے جو ہتھیار بوکو بطور کو دیے تھے، ان سے بوکو بطور نے بڑے پیمانے پر چینیوں پر حملہ کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے “حر الطائی” طلب کی۔ جنگی مشورتی مجلس کا یہ قازقی نام چنگیز خاں کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ الطائی تئین شن اور بارکل کیرئی قازقوں کے جتنے ہزاری اور دہ ہزاری سردار تھے ان سب کو اس نے بلا بھیجا۔ ان بلائے جانے والوں میں سے بہت سے رقابت یا بے تعلقی کی وجہ سے نہیں آئے، یہ لوگ وہ تھے جو خراج لینے والے چینیوں میں اب تک نہیں پھنسے تھے اور انھیں ابھی اس کا خوف محسوس نہیں ہوا تھا کہ “آسمان کے نیچے ایک خاندان” میں وہ جذب ہو جائیں گے۔ تاہم دس ہزار کی جمعیت تیار کرنے میں بوکو بطور کامیاب ہو گیا۔
اس جنگ میں اسے شکست اٹھانی پڑی اور سخت نقصان ہوا۔ تئین شان پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں پر کیو کلوک کے قریب ایک لڑائی ہوئی جو پیش خیمہ تھی ایک اور ایسی ہی لڑائی کا۔ اس کا حال مناسب مقام پر بیان ہو گا۔ پھر کارا شہر میں تشنہ پہاڑوں کو عبور کرنے کا خطرہ مول لینے سے پہلے بوکو بطور نے اپنے چہار دہ سالہ شاگرد کو اپنے پاس بلا کر کہا:
“میں تم سے استدعا کر تا ہوں کہ تم اب واپس چلے جاؤ۔ کیونکہ تمھارے قبیلے والوں کو اب تمھاری ضرورت ہے”۔
اور عثمان نے ایک قدیم پیغمبر کی طرح کہا:
“میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جب تک اس دنیا میں میری روح میرے جسم میں رہے گی میں آپ کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا”۔
اور بوکو بطور نے محبت سے جواب دیا:
“نہیں تمھارے قبیلے والوں کو تمھاری ضرورت ہے اور جیسا کہ میں پیشین گوئی کر چکا ہوں: تمھارے بعد تم جیسا کوئی اور پیدا نہیں ہو گا۔ اگر تم مر گئے تو تمھارے قبیلے والے ان بھیڑوں کے گلے کی طرح رہ جائیں گے جن کا کوئی گلہ بان نہ ہو”۔
عثمان نے التجا کرتے ہوئے کہا کہ “میرے ساتھ آپ بھی چلیے میرے باپ، کیونکہ میں آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا”۔
“نہیں میرے بیٹے، میرا کام ختم ہو گیا۔ اب میں اس سرزمین کا پتہ چلانے جاتا ہوں جہاں وقت پڑنے پر، جب تمھاری زمین تم پر تنگ ہونے لگے، تم پناہ لے سکو۔ میں تمھیں اتنی دور اس لیے لایا تھا کہ تمھیں راستہ دکھا دوں”۔
استاد اور شاگرد کے جدا ہو جانے کے بعد بوکو بطور خطرناک تشنہ پہاڑوں کو عبور کر کے غزکُل کی جھیل پر پہنچا جو رول کی طرح سیدھی اور سکڑی ہے۔ اس کی آخری لڑائی ایک اور قریب کی جھیل کے کنارے ہوئی جس کا نام اچیک کُل ہے۔ جب گھمسان کا رن پڑا تو اس کی بے قاعدہ فوج چینیوں کی باقاعدہ فوج کے آگے نہ ٹھہر سکی اور انجام کار وہ اس بری طرح منتشر ہوئے کہ پھر نہ سنبھل سکے۔ مارے جانے والوں میں بوکو بطور کی پہلی بیوی تھی اور بوکو بطور کا سب سے چھوٹا بھائی شوکو بطور۔ یہ دونوں میدانِ جنگ کے قریب ہی دفن کیے گئے۔ بوکو بطور اور ان کے دوستوں نے ان قبروں پر لوحیں نصب کیں جو ١٩٥٠ء تک قائم تھیں۔ اگر اس کے بعد انھیں ہٹا نہ دیا گیا ہو تو خانہ بدوش قازقوں میں سے جو اب بھی وہیں قرب و جوار میں رہتے ہیں، ادھر جانے والوں کو یہ یادگاریں دکھا سکیں گے، کیوں کہ بوکو بطور اور اس کے خاندان والوں کی عزت و تکریم اب بھی ان کے دلوں میں جوں کی توں قائم ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ اشتراکیوں نے ان قبروں کو ضرور مٹا دیا ہوگا تاکہ ان کی یاد مٹ جائے جو ان میں آسودہ تھے۔
جنگ کے بعد بوکو بطور نے اپنی قوم کے پانچ ہزار افراد، ان کے گلے اور ریوڑ اور خاندانوں کو جمع کیا اور انھیں غیر آباد علاقوں میں لے گیا، تاکہ ایسے نئے مسکن تلاش کریں جن تک چینی مرکزی حکومت کی رسائی نہ ہو سکے۔ بنی اسرائیل کی طرح یہ سب کے سب اکٹھے روانہ نہیں ہوئے بلکہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں، لیکن ان میں وہی تنظیم کار فرما تھی جو حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو منظم کرنے میں اختیار کی تھی، یعنی گروہ بندی کر دی تھی۔ ہزار ہزار، سو سو، پچاس پچاس اور دس دس افراد کی۔
استاد کے حکم کے مطابق عثمان نو دنتی کنگھی کی وادی میں اپنے باپ کے خیمے میں پہنچ گیا اور بوکو بطور اپنے ساتھیوں سمیت جنوب کی طرف چلتا رہا اور تکلا مکان صحرا اور پر خطر تشنہ پہاڑوں کو عبور کرتا رہا۔ اس سفر میں کتنے ہی مر گئے، لیکن بوکو بطور اور اس کے ساتھیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد صحرا کی صعوبتیں جھیلتی، پہلے اچیک کل پہنچی اور پھر لڑائی کے بعد کُنلون کے زبردست پہاڑوں کو پار کر کے تبت جا پہنچی۔ انھوں نے سب سے پہلے وہ طویل سفر طے کیا جس کے بعد کم سے کم تین مرتبہ قازقوں کو ہر بار اتنی ہی مصیبتیں جھیل کر طے کرنا پڑا۔
بوکو بطور کا ارادہ ترکی جانے کا تھا لیکن جب وہ لاسا پہنچا تو چینی اژدہے نے اپنے پنجے بڑھا کر اسے دبوچ لیا۔ اس کا سر تن سے جدا کر کے کئی دن بعد سنکیانگ کے صدر مقام اُرمچی کے دروازوں میں سے ایک پر لمبے سے بانس پر چڑھا کر لٹکا دیا گیا۔ جہاں سر کاٹا گیا تھا اس سے یہ مقام ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ بوکو بطور کا سر وہاں لگا رہا اور چیلیں جھپٹ جھپٹ کر اس کے گوشت کے آخری ریشے تک نوچتی رہیں اور دھوپ اور ہوا نے اسے خشک کر کے سکیڑ دیا، یہاں تک کہ صرف کھوپڑی ہی کھوپڑی رہ گئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ اہل اختیار نے اسے بھی اتار کر پھینک دیا اور اس کے بدلے کسی اور کا سر اُس بانس پر چڑھا دیا۔
اور ان لوگوں میں سے جو بوکو بطور کے ساتھ تھے، کچھ تبت ہی میں رہ پڑے اور وہیں کے لوگوں میں انھوں نے شادیاں کر لیں اور ان کے خاندان بڑھ گئے اور اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ کچھ نے ہمالیہ عبور کیا اور ہندوستان میں پہنچ گئے لیکن ان میں سے بیشتر تھوڑے تھوڑے کر کے اپنے وطن ہی کو لوٹ گئے۔