شاید یہ کوئی مچھر تھا جو کافی دیر سے اُس کے کان اور چہرے کے پاس مسلسل بھنبھنا رہا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ کافی دیر سے الجھن میں مبتلا تھا… جب وہ مچھر کہیں غائب ہو گیا تو اُس نے خدا کا شکر ادا کیا۔۔۔ مگر اب اُسے اپنے سیدھے ہاتھ پر چبھن محسوس ہو رہی تھی یقیناً وہ مچھر اُس کے سیدھے ہاتھ پر بیٹھا ہوا اُس کو کاٹ رہا تھا،، بے بسی کی انتہا یہ تھی کہ پچھلے آٹھ ماہ سے وہ اپنے ہاتھ پاؤں چلانا تو دور کی بات اپنے وجود میں ہلکی سی جنبش دینے کے بھی قابل نہیں رہا تھا
اُس کا دماغ اُسے بات سمجھنے کی آگاہی دیتا تھا، اُس کا جسم سارے محسوسات سے واقف تھا مگر ہلنے سے قاصر تھا۔۔۔ کوئی ایسا درد یا تکلیف نہیں تھی جو اُس نے 8 ماہ میں برداشت نہ کی ہو مگر بے بسی کا یہ عالم تھا کہ وہ درد سے چیخ نہیں سکتا تھا، نہ ہی اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دے سکتا تھا جب اُس کی برداشت ختم ہو جاتی تو اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔۔۔ آٹھ ماہ سے وہ ہسپتال کے ایک بیڈ پر کسی زندہ لاش کی طرح پڑا ہوا تھا
دروازہ کُھلنے کی آواز پر اُس کا دماغ،، ہاتھ پر بیٹھے مچھر سے،، ہسپتال کے کمرے کے اندر آنے والے فرد پر چلا گیا۔۔۔ یہ اُس کا اٹینڈیٹ عدیل ہرگز نہیں تھا کیونکہ اُس کے کپڑوں سے اٹھتی سستے پرفیوم کی خوشبو اور منہ سے آتی پان کی اسمیل اُسے کمرے میں عدیل کی موجودگی کا پتہ دیتی تھی
اپنے ماتھے پر دیے گئے بوسے سے وہ زرین کو پہچان چکا تھا۔۔۔ شاید وہ ابھی حویلی سے سیدھا اسپتال میں آئی تھی تبھی اُسے مختلف شاپرز اور بیگ رکھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ تیمور خان کو معلوم تھا اب تھوڑی دیر بعد وہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا سانس بحال کرتی اور پانی پینے کے بعد اُس سے باتیں کرتی،، اُسے حویلی کا حال احوال بتاتی۔۔۔ دنیا میں کیا چل رہا ہے یہ سب خبر دیتی
پوری دنیا سے تعلق ختم کیے اُسے آٹھ ماہ گزر چکے تھے مگر اُس کی ماں نے اُس کا تعلق کسی بھی چیز سے ختم نہیں ہونے دیا تھا
“کیسے ہو خان،، ابھی میں اور ژالے شہر پہنچے ہیں، کل رات اماں حضور کافی پریشان تھی تمہیں خواب میں روتا ہوا دیکھ کر،، ضد پکڑ کر بیٹھ گئی کہ مجھے میرے خان کے پاس لے چلو مگر چار گھنٹے کا طویل سفر کرنا اُن کے لیے مشکل ہے،، اِس لیے بڑے خانے نے ڈرائیور کے ساتھ مجھے اور ژالے کو بھیج دیا۔۔۔ ژالے کے بارے میں سوچ رہے ہو،، وہ ڈاکٹر کے پاس گئی ہے تمہاری کل کے ٹیسٹ کی رپورٹ لینے تھوڑی دیر میں آتی ہوگی۔۔۔ تم بتاؤ میرے بچے کوئی پریشانی تو نہیں،، حویلی میں سب خیریت ہے چند دن پہلے روشی کے پیپر ختم ہوگئے تھے تو وہ واپس حویلی پہنچ گئی ہے،، ورنہ ایک ماہ سے وہ شہر میں ہی موجود تھی میں نے بتایا تھا ناں تمہیں۔۔۔۔ اماں حضور ٹھیک ہیں بس اب اپنے کمرے میں ہی رہتی ہیں،، سارا دن اُن کا مُصّلے پر بیٹھے تمہاری صحت کے لیے دعا کرتے گزر جاتا ہے اور بڑے خان وہ بھی ٹھیک ہیں پہلے کبھی بڑھتی ہوئی عمر میں بوڑھے نہیں لگتے تھے مگر اب لگتا ہے اُن پر بڑھاپا آ ہی گیا ہے”
زرین حویلی میں موجود سب کا احوال بتانے لگی۔۔ ان آٹھ ماہ میں بہت کچھ بدل گیا تھا
اُس کے کومے میں جانے کے بعد اور مستقل اسپتال میں قیام کرنے کی وجہ سے سردار اسماعیل خان، زرین اور ژالے تینوں کا ہی شہر میں آنا جانا لگا رہتا کبریٰ خاتون چار سے پانچ بار ہی اُس کے پاس ہسپتال آئی تھی مگر تیمور خان کو اِس حالت میں دیکھ کر اُنکی اپنی طبیعت کافی بگڑ گئی تھی۔۔۔ اب انہوں نے حویلی کے تمام تر معاملات اور فیصلے سردار اسماعیل خان پر چھوڑ دیے تھے اور خود خدا سے لو لگا لی تھی۔۔۔ بڑھاپے کی سبب اب کبریٰ خاتون کی طبیعت میں کافی نرمی آ چکی تھی
روشانے اسپتال میں ایک بار ہی نہیں آئی تھی اگر آجاتی تو شاید تیمور خان کو اِس حال میں دیکھ کر اُسے سکون ملتا کیونکہ تیمور خان کی وجہ سے اس کی مشکلات میں اضافہ ہو چکا تھا
اب تیمور خان کو احساس ہونے لگا کہ وہ روشانے کے ساتھ بہت برا کر چکا ہے۔۔ وہ بھی اپنی سوچوں میں گم تھا کہ دروازہ ایک بار پھر کُھلا۔۔ تیمور خان آنے والی ہستی کے بارے میں ایک پل میں بتا سکتا تھا وہ ژالے تھی، جو ہسپتال میں زیادہ تر اُسی کے پاس موجود رہتی تھی
“او میرے خدا اِس عدیل کے بچے کو کتنی بار کہا ہے یہ کھڑکی مت کھولا کریں سارے مچھر کمرے میں آ جاتے ہیں۔۔۔ عجیب موٹی عقل ہے اِس لڑکے کی،، دوسرا ہر وقت اُس کے منہ میں پان بھر رہتا ہے اتنی زہر لگتی ہے اُس کے منہ سے آتی بو”
ژالے نے کمرے میں آنے کے ساتھ ہی سب سے پہلے کمرے میں موجود کھڑکی بند کی اور پھر ائیرفریشنر کرتی ہوئی وہ تیمور خان کے پاس آئی اور اُسے دیکھنے لگی
“چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے ژالے،، شریف بچہ ہے،، اچھے سے میرے خان کی دیکھ بھال کر لیتا ہے”
زرین ژالے کو سمجھاتی ہوئی بولی جبکہ ژالے تیمور خان کے سیدھے ہاتھ کے اُس حصے پر آہستگی سے اپنی انگلیاں پھیرنے لگی جو کہ مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے سرخ نشان چھوڑ چکا تھا۔۔۔
تیمور خان کو اُس کی انگلیوں کی نرمائٹ سے سکون مل رہا تھا۔۔۔ وہ زرین کی طرح اُس سے باتیں نہیں کرتی تھی صرف اُس کا اچھی طرح خیال رکھتی تھی
“صرف شریف بچہ ہے آنٹی، مگر خان کی دیکھ بھال وہ بالکل ٹھیک طریقے سے نہیں کرتا،، یہ ہفتے بھر پہلے جب میں یہاں سے گئی تھی تب کی شیو بنی ہوئی ہے خان کی۔۔۔ اگر میں جاکر ابھی اُس کی خبر لو تو دس طرح کے بہانے بنائے گا”
ژالے اب تیمور خان کی بڑھی ہی شیو کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی۔۔ تیمور خان کو اندازہ تھا ابھی چند گھنٹے گزرنے کے بعد ژالے خود ہی اُس کی شیو بنانے لگ جائے گی
“بس اللہ پاک میرے بچے کے کے جسم میں جان ڈال دے، وہ خود اپنے کام کرنے کی اِس قابل ہو جائے،، کسی دوسرے کا محتاج ہی نہ رہے”
زرین افسردہ لہجے میں بولنے لگی تبھی تیمور خان کا بھی دل بھر آیا
وہ اِن آٹھ ماہ میں کون کون سی تکلیف اور اذیت اٹھا چکا تھا اُس کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا۔۔۔ زرین کی بات پر تیمور خان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے
کمرے میں پھیلی خاموشی سے وہ سمجھ گیا ژالے اب زرین کو خاموش کروا رہی ہوگی اور اشاروں اشاروں میں اُسے سمجھ آرہی ہوگی۔۔۔ ایک بار پھر وہ ژالے کی انگلیوں کی نرماہٹ محسوس کرنے لگا وہ اُس کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو پوچھ رہی تھی
****
“یار کمال کرتی ہو تم بھی گھر کا سارا سودا سلف تمہیں آج ہی خریدنا تھا”
فلیٹ کے گیٹ سے اندر گاڑی پارک کرتے ہوئے وہ بارہ تیرا شاپرز تھامے روشانے کو دیکھتا ہوا بولا
“سائیں آپ بھول رہے ہیں یہ شاپنگ کا پروگرام آپ نے بنایا تھا”
روشانے دو شاپرز ہاتھ میں لئے،، اپنی چادر سنبھالتی ہوئی ضیغم کے ہم قدم چلتی ہوئی اُسے یاد دلانے لگی
“میں نے تمہاری شاپنگ کا پروگرام بنایا تھا یہ نہیں کہا تھا کہ پورے گھر کا راشن آج ہی لے لو خوار کروا دیا یار قسم سے”
ضیغم آج جلدی گھر پہنچا تھا۔۔۔ اور اتفاق سے روشانے نے کالج سے آف کیا تھا تو ضیغم نے اُسے گرم کپڑے لینے کے لیے کہا کیونکہ موسم اب تبدیل ہو رہا تھا مگر روشانے کسی اور ہی موڈ میں تھی جبھی اُس نے اپنی شاپنگ کرنے کے بعد،، قریبی مارٹ سے گروسری کا بھی پروگرام بنا لیا
“دو دن بعد تو خواری اُٹھانی پڑتی سائیں آپ کو،، لائِیں ایک دو شاپرز مجھے پکڑوا دیں”
روشانے اُس کے ہاتھ میں ڈھیر سارے شاپرز دیکھ کر ضیغم کے ساتھ چلتی ہوئی اُسے آفر کرنے لگی جس پر ضیغم نے اُسے گھور کر دیکھا
“یہ جو دو شاپرز تمہارے ہاتھ میں موجود ہیں،، بس تم انہیں مضبوطی پکڑ کر چلو”
ضیغم کے طنز کرنے پر روشانے کو ہنسی آنے لگی
تھوڑی دیر پہلے اُس سے ایک شاپر نیچے گر گیا تھا جس میں فروٹ موجود تھا۔ ۔۔ وہ تو اللہ بھلا کرے واچ مین کا جس نے ضیغم کے غُصّہ کرنے سے پہلے سارے سیب اور کیلے اٹھا کر واپس شاپر میں ڈال کر روشانے کو پکڑا دیے تھے
ابھی وہ دونوں باتیں کرتے کرتے لفٹ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کسی خرابی کی وجہ سے لفٹ بند تھی۔۔ ضیغم نے بیزار سی شکل بنا کر روشانے کو دیکھا۔۔ روشانے سے اپنی ہنسی چھپانا محال ہوگیا۔۔۔۔ اُن کا فلیٹ پانچویں منزل پر تھا اور اب سیڑھیوں سے اُن دونوں کو اوپر جانا تھا
“بہت ہنسی آرہی ہے تمہیں”
ضیغم سارے شاپرز ہاتھ میں تھامے سیڑھیاں چڑھتا ہوا سنجیدگی سے روشانے کو دیکھ کر پوچھنے لگا جو کہ اُس سے دو سیڑھیاں پیچھے تھی
“یہ بتائیں کہ آپ کو اتنا غصہ کس بات پر آرہا ہے”
روشانے اب مسکراتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی شادی کے چند دنوں بعد ہی اُن دونوں میں اجنبیت کی دیوار گر چکی تھی اور اس میں سارہ کمال سے ضیغم کا تھا
“غصہ نہیں آرہا یار الجھن ہو رہی ہے،، اِس لفٹ کو بھی ابھی خراب ہونا تھا”
ضیغم بیزار کیفیت میں بولتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا کیونکہ ابھی اُسے چند ایک جو کام اور بھی نبھٹانے تھے
“چلے میں آپ کی الجھن دور کر دیتی ہوں۔۔ ایسا کرتے ہیں ہم دونوں سیڑھیوں پر ریس لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پہلے کون سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے فلیٹ کے دروازے تک پہنچتا ہے۔۔۔ ایسے وقت کا بھی پتہ نہیں چلے گا اور سیڑھیاں بھی جلد سے جلد ختم ہو جائیں گی”
روشانے خوشی خوشی اسے آئیڈیا دیتی ہوئی بولی۔۔۔ سیڑھیاں چڑھتا ہوا ضیغم روشانے کے آئیڈیا دینے پر اُسے گھورنے لگا
“ایسی فضول سوچ کیسے دماغ میں آئی تمہارے”
وہ روشانے کی بات کو سیریس نہیں لیتے ہوئے بولا
“کبھی کبھی فضول کاموں کو انجوائے کرنا چاہیے سائیں مزا آتا ہے، چلیں نہ ریس لگاتے ہیں”
وہ ضیغم کے ساتھ چلتی ہوئی بچوں کی طرح ضد کرنے لگی جس پر اب ضیغم کو ہنسی آئی ساتھ ہی وہ تیزی سے دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوا اوپر چڑھنے لگا۔۔ جب سیکنڈ فلور پر پہنچا تب روشانے کو سمجھ میں آیا کہ وہ اِس سے آگے نکل کر پہلے فلیٹ تک پہنچ جائے گا۔۔ روشانے بھی تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔ اس طرح ریس لگاتے ہوئے اُن دونوں کو ہی اپنی بچکانہ حرکت پر ہنسی آرہی تھی
ضیغم اپنی ساری بے زاریت بھول چکا تھا وہ روشانے کو پیچھے چھوڑتا ہوا کافی آگے بھی نکل چکا تھا
“آہ سائیں”
اچانک روشانے کی آواز پر ضیغم نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ دونوں شاپرز نیچے زمین پر رکھ کر اپنا پاؤں پکڑے بیٹھ چکی تھی
“اوپر کھڑے ہو کر کیا دیکھ رہے ہیں نیچے آئے چوٹ لگی ہے مجھے”
روشانے ضیغم کو دیکھ کر منہ بسورتی ہوئی بولی
“اچھا،، مجھے لگا کہ تم ریس جیتنے کے لیے چوٹ لگنے کی ایکٹنگ کر رہی ہو”
ضیغم اُس کی چالاکی سمجھ چکا تھا تبھی وہی کھڑے کھڑے بولا
“آپ کو ریس جیتنے کی پڑی ہے،، اب کیا میں رو کر دکھاؤ گی تب آپ کو یقین آئے گا، کتنا درد ہو رہا ہے میرے پاؤں میں”
روشانے درد سے کرہاتی ہوئی بولی تو ضیغم کو اُس کا ڈرامہ سمجھنے کے باوجود سیڑھیاں اتر کر نیچے آنا پڑا
“لاؤ یہ شاپرز اور بیگ مجھے دے دو”
ضیغم اُس کے پاس پہنچ کر بولا۔۔۔ تو روشانے نے جھٹ سے اپنی شاپر اُس کے ہاتھ میں پکڑوانے کے بعد اپنا ہینڈ بیگ ضیغم کے گلے میں لٹکا کر شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے سیڑھیوں پر تیزی سے چڑھنے لگی۔۔۔
ضیغم اُس کی شرارت سمجھنے کے باوجود مسکراتا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے تمام شاپرز اٹھائے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور اُسے کِھلکِھلا کر ہستا ہوا دیکھ کر خود بھی ہنس رہا تھا۔۔۔ ویسے بھی وہ یہ ریس جان بوجھ کر ہارنے کا ارادہ رکھتا تھا
“سائیں یہ ریس تو آپ اپنی روشی سے ہار گئے”
فلیٹ کے دروازے کے پاس پہنچ کر روشانے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان ضیغم سے بولی
“میں یہ ریس نہیں ہارا ہو بلکہ اپنے دل ہارا ہو، یہ ریس تم چیٹنگ سے جیتی ہو اپنے سائیں سے”
ضیغم بولتا ہوا اچانک سے اُس کے ہونٹوں پر جُھکا
“یہ کیا فضول حرکت ہے کوئی دیکھ لیتا تو”
روشانے نے ایک دم ضیغم کی حرکت پر اِدھر اُدھر دیکھا اور ناراض ہوتی ہوئی ضیغم سے بولی
“ابھی تم ہی نے تو کہا تھا کہ فضول حرکتوں کو کبھی کبھی انجوائے کر لینا چاہیے۔۔۔ اب یہ شرمانا چھوڑو میری پاکٹ سے چابی نکال کر دروازے کا لاک کھولو”
سرمئی شام آہستہ آہستہ رات کی تاریخی میں ڈھل رہی تھی حویلی کے لان میں وہ اپنے گرد چادر لپیٹے ہوئے کرسی پر بیٹھی،، ضیغم اور اپنی پرانی باتیں سوچ رہی تھی۔۔۔ موسم ایک بار پھر تبدیل ہو رہا تھا،، سردیاں شروع ہو چکی تھی مگر نو ماہ سے اُس کے دل کے اندر کا موسم ایک ہی جیسا تھا بے حد اداس۔۔۔
“روشی بچے یہاں کیوں بیٹھی ہو،، رات ہوتے ہی سردی بڑھ جاتی ہے اور میں نے کل بھی تمہیں کہا تھا کہ پاؤں لٹکا کر مت بیٹھا کرو دیکھو کتنی سُوجن آگئی ہے دونوں پیروں پر۔۔۔ تم ذرا بھی اپنی فکر نہیں کرتی”
زرین باہر لان میں آ کر روشانے سے ناراض ہوتے ہوئے بولی
ڈاکٹر نے اُسے ایک ہفتے کے بعد کی ڈیٹ دی تھی مگر وہ اپنے آپ سے بالکل بے پرواہ رہتی تھی۔۔۔ زرین ہی اُس کا خیال رکھتی تھی،،
زرین خود اِس عمر میں آکر روشانے اور تیمور خان کی اُجڑی حالت دیکھ کر کافی کمزور ہو گئی تھی،، سردار اسماعیل خان کا بھی حال اس سے مختلف نہ تھا
“اتنا زیادہ پریشان مت ہوا کریں میرے لئے تائی ماں۔۔۔ جسے فکر ہونی چاہیے اُسے تو شاید میرے حال کی خبر تک نہیں ہے۔۔۔ وہ تو شاید اپنی اولاد کو اپنا بھی نہیں مانتے ہیں”
گزرتے دنوں کے ساتھ وہ چڑچڑی ہونے کے ساتھ ساتھ کافی تلخ بھی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ابھی وہ تلخی سے زرین سے کہہ رہی تھی
“پھر الٹی بات کر دی تم نے۔۔۔ کتنی بار کہا ہے غلط مت سوچا کرو اپنے سائیں کے بارے میں۔۔۔۔ اُس دن اُس نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی تھی،،، یہ گھٹیا الزام اُس کی ماں نے لگایا تھا”
زرین کافی دنوں سے محسوس کر رہی تھی گزرتے دنوں کے ساتھ وہ ضیغم سے بدگُمان ہونے لگی تھی اِسی لیے روشانے کو سمجھاتی ہوئی بولی
“اُن کی ماں نے مجھ پر گھٹیا الزام لگایا اور انہوں نے ایک بار بھی اپنی ماں کو آگے سے برا بولنے سے نہیں روکا بلکہ الٹا مجھے یہاں بھیجوا دیا۔،۔۔ ایک بار پلٹ کر نہیں پوچھا کہ میں کس حال میں ہو،، اگر میرے وجود میں پلنے والی اولاد کو وہ اپنا خون سمجھتے تو کیا وہ مجھ سے لاپروائی برتتے،، یہ مرد زات بہت سفاک ہوتی ہے تائی ماں،، اب نفرت سی ہونے لگی ہے ان سب سے”
روشانے کے لہجے میں گُلی نمی محسوس کر کے زرین کا دل بھی افسردہ ہونے لگا
“اپنے شوہر کی طرف سے دل میں میل مت لاؤ بچے ورنہ زندگی اور بھی مشکل ہو جائے گی۔۔۔ تیمور خان نے تمہارے ساتھ برا کیا اوپر والے نے اُس کو اِسی وقت سزا دے دی۔۔۔۔ تیمور خان کے لیے بےشک دل صاف مت کرو مگر اپنے سائیں کے لیے اپنا دل خراب مت کرو۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا چلو کمرے میں آجاؤ ورنہ بڑے خان ناراض ہو گے”
زرین نہیں چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے لیے دل میں کوئی بات رکھے اِس لیے روشانے سے بولتی ہوئی خود بھی کرسی سے اٹھی اور روشانے کو لے کر کمرے میں جانے لگی
شروع شروع میں تو وہ ضیغم کو بہت یاد کرتی۔۔۔ ابتداہ کے مسلسل تین ماہ تک وہ ڈیلی اُسے کال کرتی۔۔۔ مگر ضیغم اُس کی کال ریسیو نہیں کرتا۔۔۔ روشانے نے اپنی جھوٹی قسم کھانے پر بھی ضیغم سے معافی مانگی تھی۔۔۔ تمام حالات اور واقعات بتائے تھے معلوم نہیں ضیغم نے اُس کے میسج پڑھے بھی تھے کہ نہیں
سردار اسماعیل خان اور زرین نے بھی بیچ میں پڑ کر معاملے کو سلجھانا چاہا۔۔۔ مگر ضیغم شہر میں موجود ہوتا جبکہ کشمالا ان دونوں میاں بیوی سے کافی بداخلاقی سے پیش آئی تھی،، وہی فیروز جتوئی نے بھی سردار اسماعیل خان کو دوبارہ حویلی میں قدم رکھنے سے منع کردیا کشمالا نے ان لوگوں کو یہ بھی بولا کہ وہ اپنے بیٹے کی جلد دوسری شادی کروائے گی
شہر میں جاکر ضیغم سے ملاقات کرنے پر سردار اسماعیل خان کو اُس کی طرف سے کافی کولڈ رسپانس ملا تھا۔۔۔ اُس کے بعد سے ہی روشانے نے بھی ضیغم کی ضد چھوڑ دی تھی
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...