“تمہیں پتہ ہے سب سے اچھی فیلنگ کیا ہے؟” وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی مسکرا کر بولی تو وہ جو اسے غور سے دیکھ رہا تھا اب نثار ہوا۔ زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیاصرف سر ہلایا اور بس بولتے رہنے کا اشارہ دیا۔
“جب میں اچانک تمہاری طرف دیکھوں اور تم پہلے سے میری طرف دیکھ رہے ہوتے ہو” وہ اب ایک ہاتھ سے اپنے بال اپنے دائیں کندھے پر ڈال کر بولی۔ وہ بھی مسکرا دیا ۔ آنکھوں میں جگنو سے چمکے تھے۔
“اور تمہیں پتہ ہے سب سے اچھی فیلنگ کیا ہے؟” وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا تو تراشیدہ بالوں کی لٹیں پھر سے چہرے کی ملائمت چھونے آئیں ۔
“تمہیں دیکھتے رہنا اور بس گم ہو جانا” اس نے اسکا ہاتھ ہولےسے دبایا اور چھوڑ دیا۔
“باتیں بس بنواتے جاؤ تم سے ایک سے بڑھ کر ایک” وہ منہ بنا کر بولی۔
“اچھا بابا میں جا رہا ہوں نا اس بار گھر۔ کر کے ہی آؤں گا کچھ۔ اور پھر اگر تم بولی کہ اتنی جلدی کیوں مچائی ہے تب میں نہیں سننے والا” وہ اس کے شکوے کو سمجھ چکا تھا تبھی فوراً سے وضاحت دی۔
وہ اس وقت اس کے آفس آئی ہوئی تھی اور وہ تھا کہ اس کے علاوہ اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ جو ایسا مرد تھا کہ کبھی کسی لڑکی کو نظر میں نہ لایا تھا اب ا س پر مر مٹا تھا جو اس کی کبھی رہنے والی آئیڈیل سے ذرا بھی میل نہ کھاتی تھی ۔
بھورے بالوں کو سیٹ کیے ہوئے وہ نیوی بلیو ڈریس شرٹ پہنے کوٹ کو اپنی کرسی کی بیک پر لٹکائے رعب سے بیٹھا بھرپور شخصیت کا مالک ،ایک آفس کا کل مختار۔ زوئنہ کو اور چاہیے بھی کیا تھا۔
ماتھے پر آتے اور کندھوں پر گرتے تراشیدہ بال جو کبھی بھی باندھےنہ گئے تھے ، لبوں کا اصل رنگ تو جانے کیا تھا مگر ان کو بہت سلیقے سے ڈیپ ریڈ لپ گلوس میں چھپائے ، گرے ٹاپ اور بلیک کیپری پہنے ، پاؤں میں گرے ہی اسنیکرز پہنے وہ لڑکی۔ نام میں خاص نہ عہدے میں۔ خاص کیا تھا اس میں ۔
ہاں۔۔۔۔
اس کی آنکھیں ۔۔۔
مدہوش کر دینے والی کالی گھنگھور گھٹا سی آنکھیں۔ جھیل سی گہری اور طور کے سُرمے سی سیاہ کجری آنکھیں۔
سجاول زمان کو اور چاہیے بھی کیا تھا ۔
“میں پاگل ہرگز نہیں ہوں ۔ کل مما بھی پوچھ رہی تھیں ۔ گھر میں سب ہی کہتے ہیں کہ اگر اسٹینڈ نہیں لے سکتا سجاول تو کچھ سوچ لو کیونکہ اتنی دیر وہ بھی مجھے گھر نہیں بٹھائے رکھنے والے۔ احد نے زور دیا ہوا ہے ۔ بابا چاہتے ہیں میری شادی اسی کے ساتھ نپٹا دیں ۔”
” اسے بھی میں پوچھ لوں گا اسے کیا جلدی ہے ۔ تم اپنے آپ کو اچھی بہو بنانے کی پریکٹس شروع کرو” وہ ہنستے ہوئے بولا تو زوئنہ کی آنکھوں میں الجھن اتری تھی جو کہ سجاول کی آنکھوں سے اوجھل رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورج طلوع ہوئے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے مگر مجال ہے جو وہ دونوں اپنے کمرے سے نکلے ہوں۔ ہمیشہ کی طرح وہ یونیورسٹی سے لیٹ آئے تھے۔ جب سب گہری نیند سو چکے ہوتے تب ان کا اس حویلی میں پہلا قدم ہوتا تھا۔ خصوصاً ہفتے کے آخری دودنوں میں وہ لوگ لازمی لیٹ ہوتے تھے۔ حالانکہ ان دنوں میں یونیورسٹی آف ہوتی تھی مگر ان کا گھر سے باہر رہنا لازم تھا۔ اس عادت سے باقی لوگ تو جو تنگ تھے سو تھے۔ مگر زہرہ بی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجایا کرتا تھا۔ آج بھی وہ اپنا عصا لیے ان کے کمرے کے سامنے سے بار ہا چکر کاٹ چکی تھیں۔
“زہرہ بی میں اٹھاتی ہوں دونوں کو۔ آپ لاؤنج میں چلیں وہیں انہیں لے کر آتی ہوں” کشور بیگم بھی آخر تنگ آ کر اس طرف چلی آئی تھیں۔
“نہیں۔ آج سونے دے پتر انہیں ۔ جتنا دل چاہے نیند پوری کر لیں ۔ ہم بھی دیکھیں بھئی کتنا سو سکتے ہیں آخر یہ۔ اور تو نے بھی تو شہزادے پیدا کیے ہیں نا تو آرام کرنے دے ” زہرہ بی نے آواز خاصی اونچی رکھتے ہوئے کہا تھا۔ کشور جانتی تھیں کہ آج تو دونوں کو وہ بھی نہیں بچا سکتی تھیں۔
“اچھا آپ آئیں ۔ دوپہر کا کھانا تو بن رہا ہے شام کے لیے بتا دیں کیا بنائیں ” کشور نے ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں کمرے کے سامنے سے ہٹانا چاہا تا کہ بعد میں آکر ان بھنگیوں کو جگائیں تو زہرہ بی کے غیض سے کچھ وقت کے لیے بچا جا سکے۔ وہ زہرہ بی کو لیے لاؤنج میں آئی تھیں جہاں سب کوئی نہ کوئی کام کرنے میں مصروف تھے۔ زہرہ بی اپنے تخت پر آکر بیٹھیں تو کشور بیگم نے اشارے سے رانی کو پانی لانے کا کہا ۔ وہ فوراً پانی لیے چلی آئی۔
“سجاول کی کوئی خبر ہے یا مجھے ہی جانا پڑے گا اس دفعہ بھی ؟” ان کی توپوں کا رُخ اب قدسیہ بیگم کی طرف ہو چکا تھا۔قدسیہ بیگم جو بادام پیس رہی تھیں اس اچانک گولہ باری پر اچھل ہی پڑیں ۔وہاں بیٹھی سب لڑکیوں نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔
“جی کہہ تو رہا تھا کہ اسی ماہ میں چکر لگائے گا ۔” وہ منمنائیں۔
“یہ جو تیرا پتر ہے نا۔ اسی کی وجہ سے تجھے میرے سامنے شرمندگی ہوتی ہے۔ ورنہ تو کبھی نہیں یہ بلیوں والی میاؤں نکلتی تیری۔ شیرنیوں جیسی دھاڑ ہے تیری، میں سب جانتی ہوں ۔ وہ تجھے فون کرے گا تو پتر آنے کا بھی بتائے گا نا۔ ہاتھ سے نکالا ہوا ہے اسے تم دونوں میاں بیوی نے” ان کی اس بات سے وہاں بیٹھے سب لوگ ہی اتفاق کرتے تھے۔
“اور کومیل نے راستہ دیکھنا ہے گھر کا یا اسے بھی میں ہی سیدھا کروں؟” زہرہ بی اب آمنہ بیگم کیطرف دیکھتے ہوئے گرجی تھیں۔آمنہ بیگم تو بالکل چپ سر جھکائے کھڑی تھیں کیونکہ ان کی طرف بھی دو بیٹیوں کےعلاوہ ایک ہی اولاد بچتی تھی جو ان کے ہاتھ سے نکلی ہوئی تھی۔ اسی ایک کی وجہ سے انہیں ہمیشہ شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔
“میں بس اب کہے دیتی ہوں۔ سدھار لو اپنی اولادوں کو ورنہ یہ جومیں آخری عمر میں ہوں اس کا بھی لحاظ نہیں کروں گی” زہرہ بی نے گلاس رانی کی طرف بڑھایا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ لڑکیاں کھسر پھسر کرنے لگیں تو اپنا عصا اٹھا کر اجر کے کندھے کو ٹہوکا دیا۔
“میں تجھے بھی بتا رہی ہوں کہ سدھر جا ۔ باقیوں نے تو یہیں کھپ جانا ہے مگر تو نے جانا ہے اگلے گھر اور میں اسی سال میں تجھے فارغ کروں گی یہ بات بھی اپنے ذہن میں بٹھا لے اب۔” اسے کلستا چھوڑ کر اپنے عصا کا سہارا لیتے وہ آگے بڑھ گئی تھیں۔ جبکہ پیچھے ان کی یہ پوتی اپنا کندھا سہلا رہی تھی۔
“یہ آج کے دن کا پہلا سین تھا جو تم نے ملاحظہ کیا ہے۔ اب آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا” فجر پاس بیٹھی غنویٰ کی طرف جھک کر بولی تھی۔
“یہاں اور کتنے لوگ رہتے ہیں اس بیچاری کو تو یہ بھی نہیں معلوم ابھی” نمل بھی ان کی طرف مڑی۔
“لوگ نہیں نمونے کہو” فجر نے تصحیح کی۔
“اِسے ہم بھی نمونے لگ رہے ہوں گے اس لیے ذرا آرام سے بیٹا” نمل نے اس کے کندھے پر تھپکی دی۔
“تم اتنا کم کیوں بولتی ہو یار” فجر بولی۔
“اب ایک دم سے کیا بولے وہ بیچاری۔ ابھی تو اسے تجسس ہو رہا ہو گا ان نورانی چہروں کا جن کی ابھی زہرہ بی نے اتنی تعریفیں کی ہیں” نمل شرارت سے بولی تو پاس بیٹھی اجر فجر اور منال دبی دبی سی ہنسی تھیں جبکہ غنویٰ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
“اُٹھ جاؤ اب تم لوگ بھی کام ختم کرو اپنے۔ اس سے پہلے کہ زہرہ بی تم لوگوں کے چہرے بھی نورانی کریں” آمنہ بیگم جو پاس ہی ان کی کھسر پھسر سن رہی تھیں اچانک سے بولیں۔
“ایک تو چچی آپ کے کان بہت تیز ہیں سچی” فجر ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔
“اور تمہاری زبان۔”آمنہ بیگم نے اس کا کان کھینچا۔
“نمل اٹھو اور کومیل کو کال کرو ۔میں اس کا دماغ سیٹ کر ہی لوں” نمل فوراً سے اندر کی طرف بڑھی تھی جبکہ باقی سب بھی اپنے کام کرنے کو منتشر ہو گئیں۔ غنویٰ پہلے پہل تو بیٹھی رہی بعد میں کسی خیال کے تحت وہ بھی کچن کی طرف چل پڑی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عادت ہی بنا لی ہے اس شہر کے لوگوں نے
انداز بدل لینا، آواز بدل لینا
دنیا کی محبت میں اطوار بدل لینا
موسم جو نیا آئے، رفتار بدل لینا
اغیار وہی رکھنا، احباب بدل لینا
عادت ہی بنا لی ہے اس شہر کے لوگوں نے۔۔۔
بہت دیر سے وہ مشین لے کر بیٹھی تھی۔ آج اس سے کچھ پڑھا بھی نہ جا سکا تھا۔ کام سے دھیان ہٹتا تو اِدھر اُدھر بکھری کپڑوں کی کترنوں میں الجھ کے رہ جاتا۔
زندگی کیا رہ گئی تھی اس کی۔ محنت اور مشقت سے بھی پرے کی سختائی۔ پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر جمی ہوئی مشکلیں۔ اماں تھیں تو رونق تھی۔ ابا تو تھے ہی ہر وقت ہنسنے ہنسانے والے۔ ہاں بھائی نے جب سے قدم گھر سے نکالے تھے تب سے بس وہ اس گھر سے ہمیشہ کے لیے وداع ہو گیا تھا ۔
اماں، جو ہر وقت “میرا پتر ایسا کر ہی نہیں سکتا” کا ورد کرتی تھیں ان کا مان ایک دم سے ٹوٹا تھا۔
ابا ،جن کی جان ہی اپنے شرمیلے اور سمجھدار پتر میں تھی ان کا دم ہی گھٹ کے رہ گیا تھا۔
اور عبادت، جسکی ڈھال ہی اس کا دلارا بھائی تھا۔۔۔
اس کاتو حال ہی بے حال تھا۔
وہ اپنے حواسوں میں آ سکی تھی نہ ہی ابا کو دوبارہ ویسا کھلا سانس آ سکا تھا ۔ اماں نے تو خیر اپنے مان اور فخر کے ساتھ ہی دم توڑا تھا۔
“میں نے کتنی بار بولا ہے دروازہ کھلا نہ چھوڑ ا کر ۔ مگر یہ باز نہیں آتی” دروازہ کھلنے بندہونے کے ساتھ اسے ابا کی آواز سنائی دی تھی۔ سوچوں کو تسلسل ایک دم ٹوٹا تھا۔ جلدی سے چارپائی سے اٹھی اور دوپٹہ ٹھیک کر کے کمرے سے باہر کی جانب بھاگی۔
“آج اتنی دیر کیوں کر دی ابا” نروٹھے پن سے بولی۔
“شہر گیا تھا سواری مل گئی تھی شہر کی ۔ آج تو تیرا ابا بہت تھک گیا ہے جلدی سے کھانا گرم کر میری دھی۔ میں بس منہ ہاتھ دھو کر آیا” اس کے ہاتھ میں دو تین شاپر تھمائے اور صحن میں بنے غسل خانے کی طرف مڑ گئے۔
وہ عجیب سے انداز میں ان شاپروں کو دیکھنے لگی۔ بہت عرصے بعد اس طرح ابا اتنے بھرے ہوئے شاپر لائے تھے۔ اس نے کمرے میں آکر شاپر ایک طرف رکھے اور کھانا گرم کرنے باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔
کھانا گرم کرکے چنگیر میں روٹیاں رکھیں، سالن کٹوری میں ڈال کر کٹوری چنگیر میں رکھی، ایک ہاتھ میں گلاس پکڑا اور ایک میں چنگیر ، پانی کی بھری ہوئی بوتل بغل میں دبائی اور کمرے کی طرف چل دی جہاں ابا اس کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ ایک درمیانہ سا گھر تھا۔ اچھے وقتوں میں بنا ہوا ایک چھوٹا سا گھر جس میں تین کمرے اور ایک باورچی خانہ تھا۔ ایک چھوٹا سا مگر سردیوں گرمیوں میں انتہائی مناسب رہنے والا صحن ، جس میں اس نے اور اس کے بھائی نے مل کر بہت سے کھیل کھیلے تھے۔ ایک کمرہ جس میں اماں کی پیٹیاں اور دوسرے میں دو چارپائیاں بچھی تھیں۔ تیسرا کمرہ جو شادی کے بعد بھائی کو دیا گیا تھا اور اس کے یہاں سے چلے جانے کے بعد اب اسے بیٹھک یعنی مہمان خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ صحن میں سے ہی نکلتی چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں جنہیں اب بہت کم استعمال کیا جاتا تھا کہ اکیلی لڑکی چھت پر جاتی معیوب معلوم ہوتی تھی۔
“لے آ میرا شیر پتر آجا شاباش” ابا اسے دیکھ کر جوش سے بولے تھے ۔ جانتے تھے اس کا دھیان اس وقت بھی الجھا ہو گا۔ اونچا اور جوش سے بولنا اسے سوچوں سے نکالنے میں ہمیشہ کار گر ثابت ہوتا تھا ۔
اس نے چنگیر ابا کے سامنے رکھی اور پانی کا گلاس بھر کر چارپائی کے پائے کے پاس رکھا اور موڑھا کھینچ کر بیٹھ گئی۔
“کیا کیا آج سارا دن میری شہزادی نے”ابا آج الگ ہی موڈ میں لگ رہے تھے۔
“ایک نلکی بیچی ہے اس سے دال منگوائی تھی گل بھا بھی سے ۔ ایک سوٹ سل گیا تھا وہ بھیجا ہے ۔ اب وہ باجی شاہین کے گھر سے شادی کے کپڑے آئے ہیں وہ سلائی کرنےاور کچھ دن میں وہ بھی دینے ہیں اور ۔۔۔”
“آج عادل کو کال کی تھی۔” وہ بھی بات سے بات بنا رہی تھی جب ابا اچانک سے بولے۔ ان کے اس طرح بولنے سے وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ خاموشی صرف اسی کی طرف نہیں تھی ۔ ابا بھی بس لقمے توڑتے اور نگلتے جا رہے تھے۔ بولنے کو کچھ نہیں تھا سو وہ بس ابا کے ہاتھوں کی حرکت کو دیکھتی رہی۔
“اس کا بیٹاپانچ سال کا ہوگیا ہے” ابا کھانا ختم کر چکے تو چنگیر ایک طرف کرتے ہوئے گویا ہوئے۔ وہ پھر بھی خاموش رہی۔
“کیا نام تھا اس کا ۔ بڑا بھلا سا نام تھا ۔۔” ابا اسے کوشش کر رہے تھے کہ وہ بول پڑے۔ وہ سب سمجھ رہی تھی۔
“عُنیب ” ہولے سے جواب دیا گیا۔
“ہاں ہاں وہی۔ اسی کی بات کر رہا تھا وہ۔ کہ رہا تھا ابھی میٹنگ میں جانے لگا ہوں بعد میں رابطہ کرتا ہوں۔ میں نے بھی بس حال چال ہی پوچھنے کو فون کیا تھا” وہ وضاحت دینے لگے ۔
“ابا ان شاپروں میں کیا بھر لائے ہیں آج؟” اس نے بات ہی بدل دی ۔ انہوں نے گہری سانس لی ۔
“دیکھ لے نکال کر۔ ”
اس نے پہلے ابا کی طرف دیکھا پھر شاپرز کی طرف۔ پہلا شاپر کھولتے ہی اس کی آنکھیں برسنا شروع ہو چکی تھیں۔ ابا اس کی طرف دیکھتے ہلکا سا مسکرا رہے تھے۔ اس میں کپڑوں کی جدید ڈیزائننگ کی کچھ کتابیں تھیں۔
“آپ کو کیسے پتہ چلا ” وہ منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی خوشی کو قابو کرنے کی سعی کرنے لگی ۔
“اس دن سدرہ سے بات کر رہی تھی نا تُوکہ پیسے ہوئے تو یہ کتابیں لوں گی۔ میں نے سوچا آج پیسے بھی ہیں اور شہر بھی آیا ہوں تو ۔۔ ۔ میرا شیر پتر خوش ہوا؟” وہ ان کے پاس چارپائی پر آکر بیٹھی اور سر ان کے سینے پر دھر دیا ۔
باپ بیٹی کو ایک دوسرے کا ہی تو آسرا تھا۔ ایک دوسرے کی خوشی ایک دوسرے کاغم اور ایک دوسرے کے غم کا مداوا بھی۔
“تیری ماں ہوتی تو تجھے اتنا کام نہ کرنا پڑتا ۔ اللہ لوک جلدی ہی چلی گئی۔” ان کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے۔
“ابا پیسے آئے تھے تو رکشہ ہی ٹھیک کروا لیتے۔ یہ کتابیں اتنی اہم نہیں تھیں”
“بات بدلنے میں تو میری پتری ماہر ہو گئی ہے” انہوں نے پیار سے اس کے سر پر چپت لگائی۔
“آپ بھی تو بدل ہی جاتے ہیں نا۔ ” وہ نروٹھے پن سے بولی۔
“آج بڑی حویلی میں ایک سواری کو چھوڑ کر گیا تھا۔ بچی ہے کوئی۔ بہت ہی اچھی بچی لگتی تھی۔ سب رکشوں تانگوں کو چھوڑ کر میرے رکشے کی طرف آئی تھی” وہ برے مزے سے اسے بتا رہے تھے۔
“ہاں بس اسی بات پر آپ خوش ہو گئے ۔ ابا اب اگلی بار پیسے آئیں گے تو آپ رکشہ ٹھیک کروائیں گےورنہ میں ناراض ہو جاؤں گی بس”
“اچھا میری دھی کروا لوں گا۔ اب پانی ذرا سا پانی گرم کر دے وضو کر کے رب سے بھی ملاقات کر لوں۔”
“میں کرتی بس ابھی”
“میں تب تک کمر سیدھی کر لوں” انہوں نے لیٹتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتی چنگیر اٹھا کر کمرے سے باہر نکل آئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“یہ میرے ہاتھ میں پانی دیکھ رہے ہو؟” وہ بہت دیر سے لاؤنج میں بیٹھا تھا مگر ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی سو اس نے بھی خاموشی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے پاؤں سامنے میز پر ٹکائے اور کمر صوفے کی پشت سے ٹکا کر بیٹھ گیا۔ اس کے اس طرح بیٹھنے کی دیر تھی کہ وہ بوتل کے جن کی طرح سامنے آئی تھی اور اب اپنے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بناکر اس کے سامنے پھیلائے اس سے پو چھ رہی تھی۔
اس نے وہاں پانی تلاش کرنے کی سعی کی مگر پانی کے ایک قطرےکے علاوہ وہاں کچھ نہ تھا۔ اس نے کندھے اچکائے۔
“پانی دکھ رہا یا نہیں یہ بتاؤ؟” وہ گرج کر بولی۔
اس نے پھر سے نظریں اس کے ہاتھوں میں موجود اس قطرے پر جمائیں اور سر ہاں میں ہلا کر اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھنے لگا۔
“اس میں ڈوب کے مر جاؤ اور ساتھ اپنے اس نمونے شیطان کو لینا مت بھولنا” فجر اب پورے جوش سے کڑکتی ہوئی آواز میں بولی تو وہ جو بہت آرام سے صوفے اور میز پر دراز تھا ہربڑا کر سیدھا ہو بیٹھا۔
“ہوا کیا ہے والا فضول سوال تو کرنا ہی مت مجھ سے تم۔ اور کیا ٹائم ہوا ہے والا ڈرامہ بھی پرانا ہو چکا ہے سو اب کچھ نیا پلیز ” وہ ناک چڑھاتے ہوئے بول رہی تھی کیونکہ اس وقت مقابل پوری طرح چت تھا۔
“بائے دا وے زہرہ بی آج بہت خوش تھیں۔ کہہ رہی تھیں کہ بہت جلد انعام سے نوازیں گی ہرسپوت کو”
“طعنے کم مارو۔ اپنا وقت بھی آئے گا مت بھولا کرویہ بات” جبل اب فل فارم میں آنے والا تھا ۔
“میرا وقت ہر ہفتے نہیں آتا ۔ ایسی بونگی دھمکیاں مجھے نہ دیا کرو تم” بہت سکون سے لاجواب کیا گیا تھا۔
“اچھا کھانا لا دو پلیز”
“اتنا میسنا بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ میرے پاس ویلا ٹائم نہیں ہے” ٹھک سے جواب آیا تھا۔
“تم اب یوں کرو گی فجرزمان؟” معصومیت چہرے سے ٹپکنے لگی تھی۔
“میں کیا اب تو محترم جبل زمان ! تمہاری سگی اماں بھی ایک لقمہ تک نہ دیں گی تمہیں۔ اور ایسی شکلیں نہ بنایا کرو مجھ پہ نہیں ہوتا ان کا اثر” جواب تو آج سبھی حاضر تھے فجر کے پاس۔
“سب سو گئے ہیں کیا؟” وار ناکام ہونے پر وہ موضوع بدل گیا۔
“ظاہر ہے اس وقت اُلّو ہی جاگتے ہیں ۔ ”
“اچھا؟ اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟” آنکھوں سے شرارت ٹپکنے لگی تھی۔
“تمہارا کیا خیال ہے میں نے خود کو نہیں کہا؟” وہ ابرو اچکا کر بولی تو جبل جو بہت اچھے جملے میں اس کو لا جواب کرنے والا تھا اب خود ایک بار پھر سے لاجواب ہوا۔
” خیر میں یہی بتانے آئی تھی کہ سجاول بھیا سے کہو گھر چکر لگا جائیں ہم میں سے کسی کے کہے سنے میں نہیں ہیں اس لیے تمہیں کہہ رہی تو اس بات پر تم اب شوخے نہ ہو جانا کہ فجر زمان خود چل کر آئی ہے تمہارے پاس۔ سمجھے؟”
“ویلا نہیں میں۔ اور بھائی تمہارا ہے میرا تو دورکا رشتہ دار ہے مجھ سے امید مت رکھنا” ماتھے پر بل ڈال کر اس نے جواب دیا ۔
“اوکے ۔ پھر مجھ سے بھی زہرہ بی کے سامنے حمایت کی امید بھول جانا۔ شب بخیر۔” فجر نے کہا اور اٹھ کر کمرے کی طرف چل دی جہاں نمل اور غنویٰ اس کا انتظار کر رہی تھیں۔
پیچھے جبل زمان چاہے بھاڑ میں جاتا اسے پرواہ نہ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج اس گھر میں اس کی دوسری رات تھی۔ یہ لمحات اسے اتنے اچھے لگ رہے تھے کہ اس کا دل بہت شدت سے ان کے امر ہونے کی دعائیں کر رہا تھا۔
وہ اجر کے بستر میں سکڑی بیٹھی تھیں ۔ پچھلی رات میں وہ اور فجر اسی کمرے میں سوئی تھیں جبکہ اجر کو زہرہ بی کے کمرے میں پناہ دی گئی تھی۔ آج ان تینوں کا ایک ہی کمرے میں سونے کا ارادہ تھا سو اجر کو نمل کی جگہ یعنی منال کے ساتھ شفت کر دیاگیا تھا۔
نمل اسے سب اہلِ خانہ کی باتیں بتا رہی تھی جب فجر ہمیشہ کی طرح گنگناتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی ۔ نمل فوراً سیدھی ہوئی جب کہ غنویٰ نے فجر کے لیے بھی جگہ بنائی تھی۔
“کیا کہہ رہا تھا؟” نمل کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
“جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا تو ہرگز نہیں کہا اس نے ” اس کی اس بات پر جہاں غنویٰ ہنسی تھی وہیں نمل کا منہ بنا تھا۔
“اور اگر تم سوچ رہی ہو کہ وہ شرمندہ ہوا ہو گا تو وہ بھی مت سوچو۔ ” اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
“کیا مسئلہ ہے اپنے بیڈ پر جاؤ یہ میرا اور غنویٰ کا ہے ” نمل اسے دھکیلتی ہوئی بولی۔
“تمہیں اگر بات سننی ہے تو بیٹھنے دو اور اگر نہیں تو اٹس اوکے میں جا رہی ہوں اپنے بستر پر” فجر نے ٹھیک نشانے پر تیر پھینکا تھا۔
“اچھا بس اب لڑنے مت بیٹھ جانا تم دونوں۔ بات تو بتا دو” غنویٰ نمل کے تیور دیکھ کر فوراً بولی۔
“وہ شرمندہ تو ہرگز نہیں ہوا لیکن سجاول بھیا کو بلا ہی لے گا ۔ اور زہرہ بی کا غصہ بھی نارمل ہو جائیگا دیکھ لینا وہ اس بار کیا علاج کرتی ہیں ان سب لڑکوں کا” فجر ہمیشہ کی طرح ہاتھ نچاتے ہوئے بولی تھی جبکہ نمل کی تو گویا سانس ہی اٹک گئی تھی۔
“اسے کیا ہوا؟” غنویٰ نے اشارے سے پوچھا۔
“وہ جانتی ہے نا کہ کیا علاج ہونے والا ہے ان کا اسی لیے ایسا منہ بنا رہی ہے” فجر بولی تو غنویٰ ناسمجھی سے دیکھنے لگی۔
“یار بچپن سے سب کے رشتے طے کیے ہوئے ہیں زہرہ بی نے۔ ہمارا بھی طے ہے۔ اجر آپی کا چھوٹی پھپھو کے بیٹے یعنی سانول بھایا سے طے ہے۔ میرا جبل کے ساتھ اور اس نمل بی بی کا حبل کے ساتھ طے ہےیہی تمہارے شیطان کی آنت جیسے بھائی جو ہیں نا ان سے۔ مطلب سمجھ لو اس وقت تم اپنی بھابھیوں کے ساتھ بیٹھی ہو۔” غنویٰ پورے انہماک سے اس کی باتیں سن رہی تھی جبکہ نمل بیڈ شیٹ پر بنےڈیزائن پر انگلیاں پھیر رہی تھی۔
“ان دونوں کا علاج کرتی ہیں زہرہ بی، تو صاف اور کھرا علاج یہی ایک ہے ان کے پاس مجھے کیا سبھی کو پتہ ہے کہ ان کا علاج ہو گا ساتھ میں ہم بھی جائیں گے۔ یو نو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے ” فجر نے گہری سانس بھری۔ نمل اور غنویٰ اس وقت بھی خاموش ہی تھیں ۔
” اب آ جا کر بچتے ہیں سجاول بھیا، کومیل اور منال۔ کومیل اور منال ابھی چھوٹے ہیں۔ کومیل کو کیا علاج کریں گی معلوم نہیں۔ اور سجاول بھیا کا علاج بھی ہمیں نہیں معلوم کیا ہو۔ مگر اپنا ہمیں اچھے سے پتہ ہے ہم نے پس جانا ہے۔ اور نمل تم فکر نہیں کرو میں بھی دھمکی دے آئی ہوں کہ سدھر جاؤ ورنہ مجھ زہرہ بی کے سامنے مدد نہ مانگنا۔ ”
“ہاں بہت ہی کوئی بڑی دھمکی دے آئی ہونا۔ الٹا شیر بنا آئی ہوگی اسے تم۔ ” نمل پھٹ ہی پڑی تھی۔ غنویٰ کو پھر سے لالے پڑے کہ کہیں ایک بار پھر نہ لڑنے بیٹھ جائیں۔
“نہیں آج تو آرام سے سب سن لیا ہے شرمندہ لگ رہا تھا کافی” فجر بہت آرام سے سمجھانے والے انداز میں بولی تو غنویٰ نے گہری سانس لی کہ فجر اکھڑی نہیں تھی۔
“اچھا پلیز اب تم اس کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے مت ملانا” نمل ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی تو غنویٰ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ اور فجر نے اپنے ماتھے پر آنے والے بل ضبط کیے۔
“اچھا چھوڑو ابھی کوئی اور بات کرتے ہیں۔ یہ سب تو ہو کر ہی رہنا ہے سو ابھی سے موڈ خراب کر کے کیا مل جانا” نمل نے معاملہ رفع دفع کیا۔
“جی نہیں ۔ ابھی سو جاؤ تا کہ صبح میں زہرہ بی کو فریش شکل کے ساتھ دیدار کروا سکیں ” فجر اٹھ کر اپنے بیڈ کی طرف گئی اور کمبل کھولنے لگی ۔نمل نے اب غنویٰ کی طرف امید سے دیکھا۔
“ہاں مرا بھی یہی خیال ہے اب سونا چاہیے کافی دیر سے جاگ رہے ہیں ۔” غنویٰ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
“اچھا کبھی مجھے یہ خوشی نصیب نہیں ہونی کہ کوئی میری بھی سائڈ لے گا” وہ منہ بناتے ہوئے لیٹ گئی تو فجر اور غنویٰ نے قہقہہ لگایا ۔
“ایک نمبر کی ڈرامے باز ہے یہ۔ اس کی شکل پر مت جانا” فجر نے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔
“تم سے تو کم ہی ہوں ” نمل نے کہا اور کمبل میں دبک گئی۔ فجر نے لیمپ آن کیا لائٹ آف کی اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔ جبکہ غنویٰ بھی نمل کے ساتھ ہی کمبل میں لیٹ چکی تھی۔
“ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ اجر بجو کی شادی ہو ہی جانی چاہیے اب۔ گھر میں بھی تو رعب ڈالنے کی علاوہ کچھ کرتی نہیں ہیں وہ” اچانک سے نمل کی آواز کمبل میں سے گونجی ۔
“او خبردار جو میری بہن کے بارے میں ایک بھی لفظ فالتو بولا تو” فجر بھی دوبدو بولی۔
“اب بس بھی کر دو سو جاؤ “یہ آواز غنویٰ کی تھی۔ نمل اور فجر نے ایک قہقہہ لگایا تھا جس پر خجل ہو کر غنویٰ نے مزید کچھ نہیں کہا اور خاموشی سے کروٹ بدل لی تھی۔ ان دونوں نے بھی سو جانا ہی مناسب سمجھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کیا ہوا تجھے ؟ موت کا فرشتہ ہو گیا ہے تیرے پاس سے؟” وہ بالکل ساکت سا بیٹھا چھت کو مسلسل گھور رہا تھا جب حبل دھپ سے اس کے پاس آکر بیٹھا اور اس کے اس طرح بیٹھنے کی وجہ بھی دریافت کی مگر وہاں ہنوز خاموشی تھی۔
“اوئے پاپے کیا ہوا ہے مرتو نہیں گیا؟” اس کا کندھا بھی ہلا دیکھا مگر جبل مکمل طور پر گم تھا۔
“چل اچھا ہے مر گیا۔ ویسے بھی تیری ایسی زندگی کا کیا فائدہ مجھےکہ شام سے بھوکا بند ہوں کمرے میں اور تو اپنی اسٹپنی سے کہہ کر بھی کچھ نہیں منگوا سکا کھانے کو۔ میں تو کہتا ہوں کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔ ” وہ اب صوفے پر آرام سا بیٹھا تھا اور پاؤں سامنے پڑے میز پر پھیلائے ہوئے تھے جبکہ جبل صوفے تک محدود تھااور اب اسے گھور رہا تھا۔
“کیا ہےاتنی بڑی بڑی آنکھیں کیوں دکھا رہا ہے؟”
“رات کتنی دفعہ بولا تھا میں نے کہ گھر چل بہت گھوم لیا آوارہ۔ بتا کتنی بار بولا تھا؟ ” جبل میں ایک دم جیسے سیل ڈال دیے گئے تھے۔
“کیا ہو گیا ہے ایک دم سے؟ کوئی شارٹ سرکٹ کا مسئلہ تو نہیں دماغ میں؟” حبل اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔
“بکواس نہ کر حبل۔ ابھی فجر صاف لفظوں میں وارن کرگئی ہے ۔ زہرہ بی کچھ نہ کچھ سوچے بیٹھی ہیں ” وہ چڑا بیٹھا تھا۔
“نئی بات تو نہیں ہے یار۔ ہر ویک اینڈ پر ایسا ہوتا ہے نیا کیا ہے اس میں؟”
“سجاول کو بلانے کا کہا ہے فجر نے۔ اب خود سمجھ جا کہ سجاول کو تائی امی بھی تو کال کر سکتی تھیں نا؟ آپی بھی تو کر سکتی تھیں نا؟ مگر نہیں اس نے مجھ سے ہی آکر کیوں کہا ہے؟”
“ہاں اور آج تو آپی بھی ابھی تک گم ہی ہیں کھانے کا بھی نہیں پوچھا ۔ تھیٹا بھی تو گم ہے آج” حبل کی بھی سٹی گم ہونے کو تھی۔
“بالکل !! اب شرافت سے سجاول کو کال ملا ساری صورتِ حال بتا اور گھر آنے کا کہہ تا کہ مل کر کوئی پلان بنایا جا سکے” جبل نے اپنے ٹراؤزر کی پاکٹ سے فون نکال کر اسے تھمایا ۔
“اور تُو کدھر؟” حبل نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔
“کھانے کو ڈھونڈ لاؤں کچھ ۔ میرے تو سات نسلوں کے لڑکوں کی توبہ آئیندہ نہ تو دیر سے سونا ہے نا ہی جاگنا دیر سے ہے” اس نے کہا اور کچن کی طرف چل دیا۔
دونوں کے ذہن اپنی اپنی جگہ پر زہرہ بی کے عتاب سے بچنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح بے شک بہت نرالی تھی۔ آسمان کی چھت کو سورج کی روپہلی کرنوں نے کچھ اس طرح سے سجایا ہوا تھا کہ دھند کی چادر اسے ڈھانپنے کو بے قرار ہوئی جاتی تھی۔ منظر اتنا دلکش تھا کہ دیکھنے والی آنکھ بھی اس منظر کو قید کرنے کو بے چین تھی۔ اور بات صرف صبح ہی کی تو نہ تھی۔ بات تو آج دل کی بھی تھی۔ آج تو دل نے ہر راز پھرول کے دنیا کے سامنے اقرار کرنا تھا ۔ آج تو صبح کے ڈھنگ بھی نرالے ہی تھے۔
آنکھ کھلتے ہی اس نے سب سے پہلےادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے موبائل کو تلاش کیا تھا۔ وہ اسے سائیڈ ٹیبل پر پڑا مل گیا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ پھوٹی پڑتی تھی۔ موبائل اَن لاک کیا اور ان باکس میں جا کر “گُڈ مارننگ” کا میسج ایک پیاری سی اسمائلی کے ساتھ بنا کر اسے بھیج دیا۔ موبائل ایک طرف ڈالا اور پھر سے خوش کن خیالات میں گم ہونا پسند کیا۔
ابھی انہی خیالات میں رہنے کا ارادہ تھا جب موبائل چنگھاڑنے لگا۔ اس نے ناگواری سے اس کی طرف یوں دیکھا جیسے اس کی سوچوں میں مخل ہونے والا سامنے ہی بیٹھا ہو۔ کہنیوں کے بل اٹھا اور بیڈ پر ایک طرف پڑا ہوا اپنا موبائل دیکھا جس پر “ڈیول برادر” کا نام بمع تصویر جگمگا رہا تھا۔ایک قہقہہ حلق سے برآمد ہونے کو تھا مگر کنٹرول کرتے ہوئے اس نے کال اوکے کی۔
“کہاں مر گیا تھا رات؟میں تو سمجھ بیٹھا تھا اب تیری لاش ہمیں لاہور کے سبھی ہسپتالوں میں تلاش کرنی پڑے گی اور پھر ڈی پورٹ کروانی پڑے گی ۔ اوہ میں بھول گیا کہ ابھی بھی تو نہیں پتہ کہ تو نے ہی کال ریسیو کی ہے یا کوئی اور تیری موت کی اطلاع دینے والا ہے” حبل اس کے کال اٹھاتے ہی شروع ہو چکا تھا۔اور اب اسے خاموشی سے اس کے بھڑاس نکال لینے تک انتظار کرنا تھا سو وہ کر رہا تھا۔
“بول نہیں رہے بھائی اب؟ مر گیا ہے کیا ہمارا بھائی؟ کوئی نہیں بھائی صاحب ہمیں سب معلوم تھا کہ ایک دن یہ بھی سب دیکھنا ہی تھا حبل اس کے کال اٹھاتے ہی شروع ہو چکا تھا۔اور اب اسے خاموشی سے اس کے بھڑاس نکال لینے تک انتظار کرنا تھا سو وہ کر رہا تھا۔
“بول نہیں رہے بھائی اب؟ مر گیا ہے کیا ہمارا بھائی؟ کوئی نہیں بھائی صاحب ہمیں سب معلوم تھا کہ ایک دن یہ بھی سب دیکھنا ہی ہے۔ اس نے ہمیں چھوڑ کر جانا ہی تھا۔مگر افسوس بس اس بات کا رہ گیا کہ یہ ہمارے بچوں کے منہ سے ماموں چاچو سننے سے محروم رہ گیا۔ ہائے سجاولا! کلیاں چھڈگیا اپنے ویروں کو۔” اب وہ دہائیاں دینے لگا تھا اور سجاول نے بہت دیر سے روکا ہوا قہقہہ آزاد کیا تھا۔
“بے غیرت انسان کتنے دن ہوگئے شکل دکھائی ہوئی کو ؟” حبل مکمل غصے میں تھا۔
“تین ماہ دو ہفتے چار دن آٹھ گھنٹے” حساب تو خیر سے کبھی بھی اتنا تیزنہیں رہا تھا اس کا تو پھر اب؟
“بہت خوب بیٹا۔ لگتا ہے کوئی حسینہ دو عالم زندگی میں قدم رکھ چکی ہیں جبھی ایک ایک لمحے کا حساب رہتا ہے” حبل نے فوراً اندازہ لگایا تو جواب میں اس نے بس ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔
“دانت نہیں نکالنے کو کہا بھائی صاحب جواب مانگا ہے جواب۔ہم قہقہہوں کی زبان نہیں سمجھتے یہ بات آپ بھی جانتے ہیں جناب” باتیں ذومعنی ہو چلی تھیں اور سجاول کو ابھی سے راز نہیں گنوانے تھے۔
“نہ کر یار ۔ کیا عجیب بندہ ہے تو بھی۔ ایک تو اتنے دن بعد کال کی ہے اور تب بھی تیری یہی باتیں”
“گھما رہا ہے تو مجھے بیٹا۔ لیکن خیر میں بھی اطلاع دے دوں کہ گھر میں اپنا یہ منحوس سا مکھڑا دکھا جا کیونکہ زہرہ بی کا عتاب بہت جلد نازل ہونے والا ہے”
“کیا مطلب؟” وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
“مطلب کہ تمہیں گھر سے رخصت نہیں کیا تھا ہم نے کہ اب منہ دکھانا ہی نہیں ہے، ہمیشہ ہم میں سے ہی کوئی نہ کوئی آتا ہے تجھ سے ملنے ۔ یا عید شبرات پر درشن کرواتا ہے تو اپنے۔ میری مان اب ہفتے دو ہفتے کے لیے ادھر کا رخ کرلے ”
بات کے دوران وہ بستر سے نکل آیا تھا ۔ بسترکی تہہ جماتے ہوئے وہ اس کی بات سن بھی ہا تھا اور ممکنہ جواب بھی سوچ رہا تھا۔
“ورنہ تایا کا تو تجھے پتہ ہی ہے کوئی نہیں چلتی ان کی مگر اس بار تائی کی بھی نہیں سننی زہرہ بی نے اور تجھے گھر بلا لینا ہے ۔ پھرلگاتے رہنا کھیتوں میں پانی”
اب وہ باتھروم کی طرف آگیا تھا۔ موبائل کو لاؤڈ اسپیکر پر لگا کر اس واش بیسن کی ٹوٹی مکمل کھول دی اور پانی کے چھینٹے منہ پر مارنے لگا۔
“سن بھی رہا ہے میری یا میں بکواس ہی کیے جا رہا ہوں؟” وہ اس کے نہ بولنے سے چڑا تھا۔
“یارمیں نے کل ہی آجانا تھا۔ مگر سوچا کہ کچھ چیزیں ہی لیتا چلوں سب کے لیے۔ بس کل سارا دن اسی میں گزر گیا۔ میں آج آنے ہی والا تھا سوچ رہا تھا سرپرائز دونگا مگر ہر بار میرے سرپرائز کی واٹ لگ جاتی ہے” وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔
“بس مجھے کہانیاں نہ سنا تو بیٹا سب بہت اچھے سے جانتا ہوں میں کیسے تیرے رنگ بدلے ہیں دنوں میں” طنز کرنے سے تو یہ خاندان چوکتا بھی نہ تھا۔
“بکواس نہ کر میرا کونسا رنگ دیکھ لیا تو نے؟” وہ اچھا خاصا گڑبڑا گیا۔
“بیٹاسبھی جانتا ہے تو۔ میرے سامنے بن رہا ہے تو کوئی نہیں ایک دن اسی بھائی کی ضرورت پڑے گی۔ اور اب میں جا رہا ہوں ۔ تجھے تو کوئی شرم ہے نہیں مگر مجھےبہت ہے ۔ ناشتہ کرنے جا رہا ہوں سب انتظار کر رہے ہونگے اور تجھے زہرہ بی کو تو پتہ ہی ہے۔ بائے” حبل نے کال ڈسکنیکٹ کی تو وہ ہنسنے لگا۔ اب اسے جلد سے جلدفیصل آباد جانے کی تیاری کرنی تھی سو موبائل کو چارجنگ پر لگا کر وہ اپنے کام نپٹانے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...