(Last Updated On: )
محمد توحید الحق
کامٹی
دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجا کے رکھ
القاب جتنے ہو سکیں اتنے لگا کے رکھ
آتے ہیں آڑے وقت میں یہ کام بھی بہت
غنڈے ہیں جتنے شہر میں سب کو پٹا کے رکھ
تاکید میری ساس کی بیٹی کو ہے یہی
شوہر ہو سامنے تو سدا منہ پھلا کے رکھ
نکلے ہیں پھر وہ شہر میں خیرات بانٹنے
تو بھی کسی فقیر کا حلیہ بنا کے رکھ
پڑھ لے جو ایک بار تو ہو جائے بیڑا پار
دیوان اس طرح سے نہ میرا سجا کے رکھ
نادان یہ نہیں تیرے باوا کی خانقاہ
یہ محفلِ ادب ہے یہاں سر جھکا کے رکھ
(ماہنامہ شگوفہ، سالنامہ ۲۰۱۹)
طالبِ علم کی التجا
ہم کو مرغا جو کسی روز بنایا جائے
التجا ہے کہ نہ والد کو بتایا جائے
کوئی مضمون بھی پورا نہ پڑھایا جائے
ہم ہیں معصوم ہمیں یوں نہ ستایا جائے
نقل کرنے کی ذرا سی بھی جہاں چھوٹ نہیں
ایسے اسکول میں ہم کو نہ پڑھایا جائے
ایک تھیلا جسے کہتا ہے زمانہ بستہ
اتنا بھاری ہے کہ ہم سے نہ اٹھایا جائے
ایسے استاد جو فطرت سے ’’جلالی‘‘ ہیں بہت
ان کو فوراً کسی باوا کو دکھایا جائے
ان کے گھر کے ہی جھمیلوں سے نہیں جب فرصت
حالِ دل کس کو بھلا اپنا سنایا جائے
جتنے استاد پڑھانے میں ہوں کمزور بہت
ان کو ہمدرد کا معجون کھلایا جائے
سب سے ناکارہ مدرس کو ہی انعام ملے
ایسا قانون ریاست میں بنایا جائے
(سالنامہ ماہنامہ شگوفہ ۲۰۲۰)