“تم مجھ سے شادی کرو گے یہ جانتے ہوئے بھی کے میں ۔۔۔۔۔۔”پریشے نے شرم سے اپنا سر جھکا لیا
“ہاں پری میں کروں گا تم سے نکاح کیوں کے میں تم سے محبت کرتا ہوں میرے لئے تمھارا ماضی کوئی اہمیت نہیں رکھتا “افضل مسکراتے ہوئے بولا
“تم جیسا شوہر نصیب والی عورتوں کو ملتا ہے “پری نے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ سجا لی
“پر میرے کپڑے بہت گندے ہو گۓ ہیں “کپڑوں کو دیکھ کر پری کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو جاری ہو گۓ
“ارے کچھ نہیں ہوتا پری نکاح ہی تو کرنا ہے ،چلو شاباش اب اٹھو “افضل نے پری کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھایا اور دونوں کورٹ کی جانب روانہ ہو گۓ
آخر کار افضل نے پری سے نکاح کر لیا اور پری بھی بہت خوش تھی اس کے چہرے پر سکون اور اطمینان واضح تھا ،اس کو اس کا ہم سفر مل گیا تھا جو اس کی عزت کی حفاظت کرنا جانتا تھا
“افضل اب کہاں جائیں گے “پری نے افضل سے پوچھا
“پری گھر جائیں گے اور کہاں “افضل نے جواب دیا
“پر افضل تمہارے گھر والے مجھے قبول کریں گے کیا ؟؟”
“اس بات کی تم فکر مت کرو یہ میرا کام ہے تمھارا نہیں “یہ بات سن کر پری ہواؤں میں اڑنے لگی ایک پل کے لئے تو وہ اپنے سب غم بھول گئی تھی
“السلام عليكم ڈاکٹر صاحب میں حمزہ ”
“جی فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ”
“ڈاکٹر صاحب پچھلے ایک ہفتے سے میرے گلے میں درد ہے ،منہ میں چھالے بھی بہت نکل آۓ ہیں کھانسی بھی بہت ہوتی ہے ساتھ ساتھ کمزوری بھی محسوس ہوتی ہے “حمزہ کافی پریشان دکھائی دے رہا تھا
“اچھا میں آپ کو کچھ دوائیاں اور ایک دو ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں یہ ٹیسٹ آپ کو لازمی کروانے ہیں “ڈاکٹر نے جواب دیا
“ڈاکٹر صاحب کوئی خطرے والی بات تو نہیں ہے ”
“خیر میں آپ کو ابھی تو کچھ نہیں بتا سکتا جب ٹیسٹ کی رپورٹ آۓ گئی تب ہی پتہ چلے گا کہ مسئلہ کیا ہے ”
“جی ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب خدا حافظ “حمزہ نے ڈاکٹر سے ہاتھ ملایا اور باہر چلا گیا
(چار روز بعد)
“ڈاکٹر صاحب یہ لیں رپورٹ پر آپ کی دوائی سے میں کچھ بہتر محسوس کر رہا ہوں “حمزہ رپورٹ ڈاکٹر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا
“ہم اچھی بات ہے پر اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں اس کو آپ نے بہت اطمینان سے سننا ہے ”
“کیا بات ڈاکٹر صاحب جو بات بھی ہے آپ مجھے کھل کر بتائیں ”
“حمزہ آپ کو AIDS ہے اور آپ کہ پاس زیادہ وقت نہیں ہے کیوں کہ AIDS کے ساتھ ساتھ آپ کو kidney cancer بھی ہے ”
“AIDS اور kidney cancer”
حمزہ ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے بولا
لیں جی گھر آگیا “افضل موٹر سائیکل سے اترتے ہوۓ بولا
“ارے تم کہاں چل دی ایک منٹ رکو بی بی “افضل پری پر چیخ کر بولا اور پری جو گھر کی جانب بڑھ رہی تھی سہم کر کھڑی ہو گئی
“میں پریشے حبیب کو اپنے پورے حوش و ہواس میں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،یہ پکڑ اپنا دو ہزار روپیہ حق مہر اور دفع ہو جا یہاں سے اب میرا بدلہ پورا ہو گیا ،جھوٹی ،بے حیا تجھ جیسی سے کون کرے گا شادی “افضل نے دو ہزار پری کے منہ پر مارا اور گھر کے اندر جا کر دروازہ بند کردیا
ایک بار پھر پری کی امیدیں ،تمنائیں ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گئیں ،قسمت ایک بار پھر اس کو دھوکہ دے گئی وہ بیچاری چپ چاپ بے ہس و حرکت ایک جگہ کھڑی ہوگئی
“مجھے یاد ہے حمیرہ باجی جب آپ کے لئے امیر گھر کے لڑکے کا رشتہ آیا تھا آپ کا نکاح بھی ہو گیا تھا مجھے یہ بات ہر گز برداشت نا ہوئی کہ آپ ایک امیر گھر میں بیاہ کر جاؤ میں نے پورے محلے میں یہ بات پھیلا دی کہ آپ آوارہ اور بد چلن ہو جس کی وجہ سے آپ کو طلاق ہو گئی اور آپ نے خود کشی کر لی تھی مجھے آج بھی یاد ہے کے آپ کی امی نے بد دعا دی تھی کے جس نے میں بھی میری بیٹی پر بہتان لگایا ہے اللّه اس کے ساتھ بہت برا کرے اور دیکھیں آج میں کیا سے کیا ہو گئی ،بے شک یہ دنیا مکافات عمل ہے “پری خود سے باتیں کرتی ہوئی سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تھی آخر تھک ہار کر وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی اس کا برقع نہایت گندہ ہو چکا تھا جس پر دھول جم چکی تھی
گھر کے دروازے پر دستک ہوئی
“علیزہ بیٹی جا دیکھ کون آیا ہے ”
“جی امی میں دیکھتی ہوں “علیزہ چلائی
“السلام عليكم جی میرا نام سعد ہے “دروازہ کھلتے ہی سعد بولا
“وعلیکم السلام جی بولیے کیا کام ہے “علیزہ بے رخی سے بولی
“یہ پریشے کا گھر ہے کیا ؟؟”
“جی مگر پری مر چکی ہے “علیزہ چلائی اور ساتھ ہی دروازہ بند کر دیا
“پری مر گئی !”سعد بھوکلا سا گیا
“ہاں مر گئی اب جاؤ یہاں سے “علیزہ روتے ہوئے بولی
سعد نے اپنے آنسو پونچھے اور گھر کی جانب روانہ ہوگیا
“ڈرائیور گاڑی روکو یہاں “شائستہ بیگم نے حکم دیا
شائستہ بیگم نے اپنے بیگ سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا اور پری کی جھولی میں ڈال دیا
“پیسے ،پیسے نہیں میں بھکارن نہیں ہوں بس مجھے پناہ چاہیے “پری مسلسل رو رہی تھی
“بیٹے آپ کے گھر والے کہاں ہیں “شائستہ بیگم نے پری سے پوچھا
“میرے گھر والوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ،مجھے طلاق ہو گئی ہے ،مجھے عدت گزرنی ہے خدا کے لئے مجھے کہیں پناہ دے دیں بے شک آپ مجھے اپنی نوکرانی بنا لیں آپ کا جب دل چاہے مجھے سزا دے دیجئے گا مجھے کھانا بھی نا دیجئے گا بس مجھے پناہ دے دیں “پری شائستہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی
“ارے نہیں بیٹا میں آپ کو پناہ دوں گی آپ میرے ساتھ میرے گھر چلو “شائستہ بیگم نے پری کا ماتھا چوم لیا
“آپ کے گھر نہیں گھر نہیں جاؤں گی وہاں حمزہ اور افضل جیسے بھیڑئیے ہوں گے نا “یوں لگ رہا تھا کے پری اپنے حواس میں نہیں ہے
“نہیں بیٹا وہاں کوئی حمزہ اور افضل نہیں ہے وہاں بس میرا بیٹا سعد ہے اور اس کی پاکیزگی کی ضمانت میں آپ کو دیتی ہوں “شائستہ بیگم نے پری کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا
“بیٹے آپ کا نام کیا ہے ؟”
“میرا نام میرا نام حمیرا ہے “پری کو ڈر تھا کے کہیں حمزہ اس کے پیچھے نا آجاۓ اس لئے اس نے اپنا نام غلط بتا دیا
گاڑی شائستہ بیگم کے گھر کے آگے آکر رکی ،شائستہ بیگم نے پری کو اٹھایا اور اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گئی
سعد ٹی لاؤنج میں ایک کرسی پر براجمان تھا ،کے اس کی نظر اس لڑکی پر پڑی جس نے آنکھوں کے سواۓ اپنا پورا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا
“پریشے ۔۔۔”سعد سکندر چلایا
“پریشے یہ تم ہی ہو نا “سعد کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گۓ
“کیا ہو گیا ہے بیٹے یہ پریشے نہیں ہے یہ کوئی اور ہے چلو بیٹا میرے ساتھ اندر چلو “شائستہ بیگم بوکھلا سی گئی ،پری کا دل دہل کے رہ گیا کہ یہ کون سا لڑکا ہے جسے وہ پہچانتی تک نہیں ہے اور یہ اس کا نام بھی جانتا ہے ،خیر شائستہ بیگم پری کو اندر لے گئی اور سعد صدمے کی حالت میں وہیں کھڑا رہا ،اسے یاد تھا کہ پری کی آنکھیں بالکل اس لڑکی جیسی ہیں ،اس کو شک تو ہو گیا تھا کے ہو نا ہو یہ پری ہی ہے
“چلیں بیٹا آپ یہاں آرام کریں اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو یہ گھنٹی آپ کے پاس پڑی ہے اس کو بجا دی جئیے گا ملازمہ آجاۓ گی اور فکر نا کرنا آپ کے کمرے میں کوئی مرد نہیں آۓ گا ،شائستہ بیگم پڑی کو ایک وسیع کمرے میں لے آئیں
“جی شکریہ “پری نے سر ہلایا اور بیگم شائستہ باہر چلے گئیں
“کیا بات ہے سعد بیٹے آپ مجھے بہت پریشان لگ رہے ہیں “شائستہ بیگم سعد سے مخاطب تھیں
“ماں وہ لڑکی اس کا نام کیا ہے ؟؟ کون ہے وہ ؟؟کہاں سے لائی ہیں آپ اس کو ؟؟”سعد نے ایک ہی سانس میں کتنے ہی سوال ماں کے سامنے رکھ دیے
“بیٹے وہ لڑکی طلاق یافتہ ہے ، اس کا نام حمیرہ ہے ،بیچاری کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں تھی اس لئے میں اس کو ساتھ لے آئ اور بیٹے وہ لڑکی عدت میں ہے آپ نے اس کے سامنے جانے سے گریز کرنا ہے “شائستہ بیگم نے سعد کو سختی سے تلقین کی
“پر ماں وہ ۔۔۔۔۔”
“بیٹا پر ور کچھ نہیں آپ مجھے یہ بتاؤ کے پری کے گھر جانا تھا آپ نے ؟؟ گئے کے نہیں ”
“ماں میں گیا تھا اس کی بڑی بہن علیزہ کہنے لگی کہ پری مر گئی ہے پر مجھے یقین نہیں آتا میری محبت میری پری مر نہیں سکتی ،ماں ہم ڈھونڈیں گے پری کو مجھے یقین ہے وہ زندہ ہے آپ ڈھونڈیں گئی نا پری کو میرے ساتھ ؟؟”سعد رو رہا تھا
“ہاں بیٹے میں ڈھونڈوں گئی ضرور ڈھونڈوں گی آپ کے ساتھ “شائستہ بیگم نے پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کو اس طرح روتے دیکھا تھا ان کا دل بیٹھا جا رہا تھا آخر ماں جو تھی
(دو دن بعد)
پری کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی
“جی اندر آجائیں “پری نے آواز دی ،دروازے پہ شائستہ بیگم موجود تھی
“ارے آنٹی آئیں آئیں ”
“بیٹے کیسے ہو آپ ،مجھے ساجدہ نے بتایا کے آپ دو دن سے کچھ کھا پی نہیں رہی ،??is everything fine”
“جی سب ٹھیک ہے بس مجھے زیادہ بھوک نہیں لگتی ”
“پھر بھی بیٹے اپنا خیال رکھا کرو ،دراصل اگر آپ برا نا مناؤ تو میں آپ سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ کہاں سے ہو ،کون ہو ،کیا ہوا آپ کے ساتھ اگر آپ نا بتانا چاہو تو کوئی قباحت نہیں ہے ”
“نہیں محترمہ کوئی بات نہیں ،میں حیدر آباد سے ہی ہوں ،میں اپنی ماں کی پری اور آپا کی لاڈلی تھی پھر ہوا کچھ یوں کہ مجھے ایک لڑکا حمزہ اپنے ساتھ لے گیا مجھے بے آبرو کرنے کے بعد اس غلیظ انسان نے ایک طوائف کے ہاتھوں مجھے فروخت کر دیا وہاں میں ۔۔۔۔”پری کی آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں تھے
“بس بچے بس رو نہیں “شائستہ بیگم نے پری کو گلے لگا لیا
“پھر وہاں ایک رات گزارنے کے بعد میں وہاں سے بھاگ گئی اور پھر ایک لڑکے نے مجھ سے نکاح کرنے کے کچھ دیر بعد ہی طلاق دے دی “،شائستہ بیگم بغیر کچھ کہے کمرے سے باہر چلی گئیں ،ان کی آنکھوں میں آنسو تھے
شائستہ بیگم نے ایک زوردار تھپڑ پری کے منہ پر رسید کیا
“اللّه کو کیا جواب دو گی ،میری ایک بات یاد رکھنا اگر تم حرام موت مری تو جہنم تمھارا مقدر ہو گی ،جانتی ہو تم مجھے اپنی بیٹی عالیہ جیسی لگتی ہو اس کو تو میں نے کار ایکسیڈنٹ میں کهو دیا تھا پر تمہیں میں کہیں جانے نہیں دوں گی ”
“پھر آپ بتائیں مجھے اور میرے اس نا جائز بچے کو کون قبول کرے گا ”
“میں قبول کروں گی تمہیں اور تمہارے بچے کو ، میں اپنے سعد کی شادی تم سے کرواؤں گی “،یہ سن کر پری ایک دم خاموش هو گئی
اگلے روز پری کی طبیعت بہت خراب ہو گئی اس کو مسلسل الٹیاں ہو رہی تھی ،شائستہ بیگم اسے ہسپتال لے گئیں
“بیگم صاحبہ کیا کہا ڈاکٹر نے ؟؟”پری گھر واپس آچکی تھی
“بیٹے میں کیا کہوں آپ کو بتانا تو نہیں چاہتی پر مجبوری ہے آپ ماں بننے والی ہو “یہ سنتے ہی پری پر سکتا طاری ہو گیا ،یہ الفاظ پری پر پتھر بن کر برسے
“ایک نا جائز بچے کی ماں جس کے بارے میں میں یہ بھی نہیں جانتی اس کا اصلی باپ کون ہے وہ حمزہ یا پھر وہ سیٹھ صاحب میں اس بچے کو مار دوں گی میں خود بھی مر جاؤں گئی اور اس کو بھی مار دوں گی “پری چیخ رہی تھی
ادھر بہت اچھے گھر سے عائشہ کا رشتہ آیا ماں،باپ نے بغیر چھان بین کے جلدی جلدی عائشہ کا رشتہ طے کر دیا شادی کی رات عائشہ نے اپنے بستر پر اپنے شوہر کی بجاۓ کسی اور مرد کو پایا عائشہ کے شوہر نے عائشہ کو کسی اور کے ہاتھ بیچ دیا تھا عائشہ نے جو پری کے ساتھ کیا وہی اس کے ساتھ ہوا