Awake my dear be kind to your sleeping heart,
Take it out into the vast fields of light and let it breath
"آپ ایسے شخص سے ارج کی شادی کرنا چاہتیں ہیں جیسے کسی کی تمیز نہیں ۔اور وہ معذور بھی ہے ایک کان سے سن نہیں سکتا ۔” جمال صاحب نے آرزو صاحبہ کی طرف دیکھ کر کہا
"آپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔ جمال بھائی۔ ارج نے بھی تو اس دنیا کی تلخیاں دیکھیں ہے۔ ۔ اگر معذوری کے حساب سے دیکھا جائے تو ارج نے بھی تین سال پاگل خانے میں گزارے ہیں وہ اب بھی ہجوم میں ڈر جاتی ہے تو کیا وہ اس کے قابل ہوئی ۔پھر آپ کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہو گی ۔ ان دونوں کی نفسیات کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتیں ہیں ۔” آرزو صاحبہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا ۔
"ٹھیک ہے !!ٹھیک ہے! اگر آپ کو ٹھیک لگتا ہے تو لیکن ارج سے اس کی مرضی معلوم کر لیں میں چلتا ہوں ۔”
جمال صاحب نے نیم رضا مندی ظاہر کی اور باہر چلے گئے
"اب ارج کو کسی طرح ماننا ہے ۔ "یہ سوچتے ان کے ذہن میں جھامکا سا ہوا ۔
"ہمم ۔ یہ آئیڈیا کام کر سکتا ہے۔میں آج شام کو۔ ہی فون کرتی ہوں ۔ "انہوں نے مسکرا کر سوچا ۔
ارج نے چابی(جیسے وہ اکثر گھر ہی بھول جاتی تھی ) سے دروازہ کھل کر اندر داخل ہوئی ۔ گھر میں چھائے سکوت سے اسے وحشت سے ہوئی ۔
"آنٹی آرزو کہاں پر ہیں آپ ؟ ” وہ کہتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو وہ خاموشی سے سامنے بیٹھیں تھیں
آپ ٹھیک آنٹی اس نے قریب جا کر کہا
"میرے بھائی کی طبیعت بہت خراب ہے ایک ہفتے کے اندر اندر مجھے یہاں سے جانا ہو گا ” غمزدہ آنکھیں لئے وہ اس کو دیکھ رہیں تھیں
” آپ کو یہاں نہیں روکنا چاہیے آپ کل ہی استنبول چلی جائیں ۔” ارج ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی
"چلی جاؤں بچے لیکن تم بھی تو ہو میری تو فیملی ہے تمہاری فیملی تو صرف میں ہوں ۔” انہوں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"آپ میری فکر مت کریں میں رہ لوں گی ۔” ارج نے ان کو یا خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔
"تمھاری وجہ سے یہاں رک رہی ہوں میں کسی سے کہتی ہوں جمال بھائی ہان ان سے کہتی ہوں ۔” وہ آنکھیں ملتے اٹھ کھڑیں ہوئیں ۔
"پر جمال انکل تو خود بیمار ہیں ۔ "ارج بولی
"تو ! کیا اب تمھیں اکیلا چھوڑ دوں ۔”وہ کہہ کر کچھ دیر رکیں
” تم ۔۔تم نا کسی سے شادی کر لو۔ ہان یہ ٹھیک رہے گا میری مجبوری سمجھنے کوشش کرو ۔” وہ کچھ امید لئے بولیں۔لیکن ارج حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی
"کسی بات کی امید تم سے رکھنا ہی غلط ہے ۔مجھے کچھ دیر کے لئے اکیلا چھوڑ دو ۔جاؤ یہاں سے ۔ ” آرزو صاحبہ تھوڑے تراش لہجے میں بولیں
ارج کچھ دیر بے یقینی سے ان کو دیکھتی رہی پھر باہر کی طرف بھاگ گئی ۔
"چلو کچھ کام تو ہوا” ۔ آرزو صاحبہ دھیرے سے مسکرائیں ۔
پامیر آج پھر سے بیکری کے باہر موجود تھا ۔ آج نا تو اسے کسی سے ملنے جانا تھا ۔ نا ہی کافی پینے کا دل تھا ۔ پر ذہن بار بار اس طرف ہی بھٹک بھٹک کر آ رہاتھا
"مسٹر پامیر ! شوگر کے کے مریض مت بن جانا ۔ پہلے ہی غریب سے بندے ہو ۔ "اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کلامی کی اور اندر کی طرف بڑھا
"عفت تمہارے دماغ کے سکرو ڈھیلے تو نہیں ہو گئے ۔” اندر داخل ہوتے پامیر کے کانوں میں ارج کے الفاظ گونجے
"آہا تو محترمہ بولتیں بھی ہیں ۔ ” اندر جا کر وہ وہاں لگیں میز اور کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھا ۔اور یونہی بے مقصد پڑے اخبار اور میگزین دیکھنے لگا ۔
"ایک تو اس ہلکی بلکی کو بھی کوئی اور بیکری یا کافی شاپ نہیں ملتی ۔ جب دیکھو یہاں ہی پائے جاتے ہیں ۔”۔ ارج اردو میں بڑبڑانے لگی ۔جو عفت اور پامیر دونو ں کی سمجھ سے باہر تھی
ارج کے دماغ میں ابھی تک آرزو صاحبہ کی بات چل رہی تھی ۔ جو آج اس کے چڑ چڑ ے پن کی بڑی وجہ تھی
"کیا بات ہے ؟ ۔” عفت نے اس کی طرف دیکھ کر کہا
"تم میری باتیں سننے کی جگہ جا کے ان سے آرڈر لے کر آؤ ۔” اس نے بیس سالہ عفت کو ڈانٹ پلا دی
"ایک تو چھوٹا ہونا بھی عذاب ہے "عفت نے منہ بناتے ہوئے کہا
"سر ! اپنا آرڈر لکھوا ئیں ۔” اس نے پامیر کی ٹیبل پر پہنچ کر کہا
جو پامیر نے آرڈر بتایا وہ سن کر عفت کا حیرانی سے آنکھیں بڑی ہو گئیں ۔ وہ ارج کے پاس لے کر گئی تو اس کی حالت عفت سے مختلف نا تھا ۔
"اف ! چھ پسٹریز ، دو کیک ، تین کافی کپس ، توبہ توبہ ۔ انہوں نے کیا اب سومو پہلوان بننا ہے ۔” ارج نے لسٹ دیکھ کر کہا اور کام پر جت گئی ۔
"اگر یہ ہی حالات رہے تو تھوڑے عرصے بعد ہمپٹی ڈیمپٹی والی نظم کو ہلکی بلکی کہا جانے لگا گا ۔
ہلکی بلکی سیٹ اون دا چیئر!
ہلکی بلکی از گوینگ ٹو بریک دا چیئر ! ”
ارج جو لہک لہک کر نظم پڑھ رہی تھی اس کی زبان کو بریک تب لگا جب پامیر کو کاؤنٹر پر دیکھا ۔جو محو ہوئے اس کی گفتگو سن رہا تھا ۔
جبہی عفت نے اس کا آرڈر سامنے رکھا ۔ اس نے پیسے دیے اور ایک کیک دو پسٹریز اور دو کافی کے کپ وہاں ہی چھوڑ کر چل دیا
"یہ تو لیتے جائیں” ارج نے آواز لگائی ۔
"یہ آپ کے لئے ہیں ۔ اور بونیتا( خوبصورت )! مجھے آپ کی گفتگو کی خاص سمجھ نہیں آئی پر بولتے ہوئے اچھی لگتی ہو ۔” وہ عفت اور ارج کو ہگا بگا چھوڑ کر باہر کو چل
پامیر گھر میں داخل ہوا ۔ جو لائبریری کے پیچھے تھا یہ لائبریری اور گھر اس نے کرائے پر لے رکھے تھے ۔ مالک مکان کو پیسوں کی زیادہ ضرورت نا تھی تو کرایہ زیادہ نا تھا
اس نے کھانے کا سامان فریج میں رکھا اور وضو کرنے چل دیا ۔ واپس آ کر اس نے عشاء کی نماز باندھی ۔ سلام پھیر کر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں کے بند واہ ہوئے ۔
"یا اللہ تمام جہانوں کے مالک ۔۔ اپنا کرم فرما ۔ مجھے سہی فصیلہ کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ میرے گناہ معاف فرما ۔ یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ میری مدد فرما میرے مالک ۔ مجھے دلی سکون عطا فرما ۔مجھے بھلائی کے راستے چلنے کی توفیق عطا فرما ۔۔”۔ پامیر کی آنکھوں سے اشک رواں تھے ۔ کافی دیر وہ یونہی دعا مانگتا رہا ۔
پھیر اٹھ کر رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگا ۔ کھانا کھا کر وہ کھڑکی کے پاس آ بیٹھا ۔ کیو نکہ اندر تو خاموشی ہی خاموشی تھی۔
ماضی نے ایک بار پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ جیسے اس نے بند کر دیا ۔
"میں ماضی کو اپنی کمزوری کبھی نہیں بننے دوں گا ۔” اس نے کہتے ہوئے ارج کی شبیہ ذہن میں ابھر ی اس نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں
ارج اپنے گھر کے راستے پر گامزن تھی ۔جب موبائل پر آتی کال کی۔ وجہ سے اس کو روکنا پڑا ۔
آرزو صاحبہ کی کال دیکھ کر اس نے کان سے فون لگایا ۔
"السلام علیکم ! آرزو آنٹی میں بس پہنچنے والی ہوں ۔ کوئی چیز لینی ہو تو بتا دیں میں راستے میں لیتی آؤں گی” ۔ ارج نے فون پر کہا ۔
"آرزو آنٹی ۔ ہیلو ۔ آنٹی ! ” کافی دیر جواب نا پا کر ارج پریشان ہوئی ۔
"ارج بیٹا !!! جلدی آؤ میں نہیں جانتی تھی کے یہ ایسا نکلے گا ۔ جلدی آؤ بیٹا اس سے پہلے کہ یہ میری بالی چڑھا دے ۔” آرزو صاحبہ کی خوف میں ڈوبی آواز سپیکر پر ابھری ۔
"آنٹی آپ کہاں پر ہیں ۔مجھے جگہ کا بتائیں ۔اور کس کی بات کر رہیں ہیں ۔میں ابھی پولیس لے کر آتی ہوں ۔” ارج کے اوسان خطا ہو چکے تھے ۔
"بونیتا! کسی کو بتانے کی غلطی مت کرنا ۔ تمھیں اپنی آنٹی پیاری نہیں تو شوق سے بتاؤ ۔ تمہارے پاس دس منٹ ہیں آنا چاہتی ہو تو پہنچ جاؤ ۔ ” ارج کو پامیر کی آواز پگھلے ہوئے سیسے کی مانند لگی ،
"تم ! تم ایسا کیسے کر سکتے ہو” وہ سکتے کے عالم میں بولی
"ویسے ہی کر سکتا ہوں جیسے تمہیں اپنی بیوی بنوؤں گا” ۔ ارج کو پامیر کوئی سئیکو لگا ۔
"تمہارا دماغ خراب ہو چکا ہے ۔ میں بیوی تمہاری ۔ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ۔ میں پولیس کو ساتھ کے کر آؤں گی ۔” ارج نے اپنے ڈر و خوف کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
"کارا ( ڈیئر )! دما غ تو تمھیں دیکھنے کے بعد سے ہی خراب ہو گیا تھا ۔ ” پامیر نے فون پر بولا
ارج کی حالات مسلسل بگڑ رہی تھی ۔ دل کی دھڑکن بڑھ چکی تھی ہاتھ کا نپ رہے تھے ۔ اپنا آپ برف کی سل پر پڑا محسوس ہو رہا تھا ۔
” دس منٹ ہیں اکیلے آؤ گی تو اپنی آنٹی سے مل سکو گی ۔ ورنہ ۔” ایک قہقے کے ساتھ رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا ۔
ارج نے لمبے لمبے سانس لئے ۔
آج پھر بجھ گئے جل جل کےامیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
کچھ ہمت جمع کر کے بتائے گئے پتے کی سمت دوڑ لگا دی ۔وہ لوگ یہاں سے دس منٹ کے فاصلہ پر ہی تھے ۔