بھابھی ویسے کوئی دُنیا کی سب سے کم عقل لڑکی ہیں آپ۔۔۔۔ایسا رو رو کر بخار چڑھا کر آپکو کیا لگتا ہے بھائی کو فرشتے انفوم کریں گے
"طالش ابرہیم آپکی بیگم آپکی جدائی میں موت کو گلے لگانے لگی ہیں جلدی سے فلیٹ پکڑ کر جھنگ پہنچ جائیں”
نہیں نہ”
مرور سے پیچھے دیکھتے ہوئے اُسکی رائے معلوم کی
تو عندلیب نے نہ میں سر ہلا دیا
"یہ پکڑیں موبائل اور ملائیں بھائی کو کال اور کہیں "طالش ابراہیم اگر رات کو دس بجے اپنے کمرے میں ماجود نہ ہوئے تو بھول جائے کے کوئی بیوی ہے آپکی”
ایک ہاتھ سٹرنگ پر جبکہ دوسرے سے موبائل اُسکی طرف بڑھا رہا تھا
نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل لے لیا لیکن کال کرنا ممکن نہیں لگ رہا تھا
"بھابھی کریں نہ پھر مت کہنا وہ میک اپ کی دکان آپ کا شوہر لے گئی۔۔۔بھابھی آج کل شوہروں کو قابو کرنا بہت مُشکِل ہے تھوڑی بہت کوشش کرنی پڑتی ہے ”
دامل کو پتہ تھا ملیحہ کے نام پر تو عندلیب چھت سے چھلانگ لگا دے فون تو بڑی آسان بات ہے
کانپتے ہوئے ہاتھ سے نمبر ملایا جبکہ دامل نے گاڑی سے ہیڈ فون کانیکٹ کرکے کانوں پر لگا لیے تاکہ کمفرٹ زون مہیا ہوسکے
"دامل کیسے ہو ۔۔۔دیب ٹھیک ہے ؟؟۔اُسکا نمبر کیوں اکسیس نہیں دے رہا ”
دوسری طرف سے سوالوں کی فہرست کھول دی گی تو اپنے نام پر ایک مرتبہ دل زور سے دھڑکا ہاتھوں کی ہتھالیں نم ہوگئیں
طالش نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا تو کال ڈسکنیکٹ نہیں ہوئی تھی ذہن میں کچھ کلک ہُوا تو چہرے پر مسکراہٹ کا انبار امڈ آیا گال کا ڈمپل پوری آب و تاب سے چمکا
"دیب ”
ہلکی سی سرگوشی جو بے جان سے جسم کو منور کر گئی پاؤں کا درد بخار سب کچھ ایک سیکنڈ میں ختم ہوگئے وہ اُسکی سانسوں کو پہچانتا ہے یہی مان تھا
"کیسا ہے میرا شونا ۔۔۔۔۔۔یاد ہی نہیں کیا خسکار کو”
شکوہ اُسکا تھا کر وہ تھا چہرہ کا رنگ ایک سیکنڈ میں تبدیل ہوگیا زرد سے سُرخ کو مات دے رہا انکھوں میں آنسو تیرنے لگے تو دامل نے آنکھیں دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آئی
"طالش ”
اتنی آہستہ بولی تھی کے آواز خود کے کانوں میں بھی نہیں پڑی تھی جبکہ دوسری طرف دل بیتاب ہوا تھا دھڑکنوں میں انتشار بھرپا ہُوا تو ہاتھ سیدھا دل پر رکھ کر دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش
"آجائیں”
اب وہ نہیں بولا تو ایک مرتبہ پھر فرمائش کی دامل کے بتائے ہوئے ڈائیلاگز بولنا ایک مُشکِل امر تھا
"پہلے مسکراؤ اور بہت جلد آجاؤں گا ”
اُسکے کہنے اور چہرے اور خود با خود ہی مسکراہٹ حاوی ہوئی لیکن دوسری طرف سے اب پھر بہلایا گیا تھا
"بھائی آپکی بیوی ہاسپٹل ایڈمٹ ہے ڈاکٹرز مجوس ہوچکے ہیں اگر آسکتے ہیں تو آجائیں ”
دامل اُنکے ڈرامے دیکھ کر سر پکڑ کر رہ گیا آخر خود ہی اُسکے ہاتھ سے موبائل چھینا اور تین چار خود سے لگا کر موبائل پاور آف کردیا
"بھابھی اب دیکھنا مکھی کے پر پر بیٹھ کر بھی آنا پڑا تو دیر نہیں لگائیں گے”
اپنی شرٹ کا کالر اوپر کو کر کے کہا
"اگر بُرا لگا اُنہیں”
ناخن دانتوں سے کاٹتے ہوئے کہا
"ملیحہ بندری لے جائے گی چھین کر پھر سوچتی رہنا بُرا لگے گا کے نہیں”
اب گاڑی مہر کے گھر کے سامنے پارک ہوچکی تھی
جلدی سے شیشہ نکال کر بال سیدھے کیا بیس کی ڈبی نکال کر چہرے اور پہلے سے لگے ہوئے فانڈیشن کو سیٹ کیا بال کو ایک نظر دیکھا پھر پرفوم نکال کر تھوڑا سا اپنے اوپر چھڑکا کوٹ باہر نکل کر پہنا جبکہ عندلیب آنکھیں پھاڑ کر اُسے دیکھ رہی تھی کیا تھا یہ انسان "نمونہ ” بلکل
"بھابھی آجائیں اور میری تعریفیں بھی کردینا انوی نہیں اتنے اعلیٰ قسم کے مشورے دیتا میں”
ابھی بھی اپنے آپکو ہی دیکھی جا رہا تھا کے کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
کراچی میں آج مغلز پروڈکٹس اینڈ بازل شاہ ٹریڈرز کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی جس میں غیر ملکی صحافی کالم نگار اور دوسری فلیڈ سے تعلق رکھنے والے لوگ ماجود تھے
کانفرنس ایک بڑے میٹنگ ہال میں منعقد ہونی تھی جس کا مقصد اپنی دکھاوے کی دوستی اور پارٹنرز شپ کو دیکھنا اور آنے والے وقت میں اپنے گولز کو بزنس کمیونیٹی کے آگے پیش کرنا تھا
گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ اُس اعلی شان بلڈنگ کے آگے آکر روکا سیکیورٹی ایک دم سے ایکٹو ہوگئی
اِس جگہ کو دو دن سے اُنڈر ابضرب رکھا گیا تھا کیوں کےبازل شاہ کو کسی قسم کا کوئی نقصان پاکستان کی ساخت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا
ساری سیکیورٹی رینجرز کی ٹیم کے حوالے تھی جس میں ایک کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا تھا
اِس ٹیم میں مایا بھی شامل تھی کیوں کے اُسے ایک ایکٹو اور شارپ ٹیم ممبر کنسیڈر کیا جاتا تھا
"تمھیں نہیں لگتا یہ امیر لوگ بس اسی دکھاوے کے لیے جیتے ہیں ”
کنٹرول روم میں بیٹھی باوردی مایا نے ساتھ کھڑی نوین کو کہا
"میں کیا کہوں مجھے تو بازل شاہ کی ایک جھلک دیکھنی ہے سنا ہے بہت ہی کوئی خوبصورت مرد ہے باہر کی شہزادیاں مرتی ہیں اِس کی لُک پر”
دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا مودا بیان کیا تو اُسکی سے ایک بار پھر محد کی یاد آگئی دل میں ایک خلش سی تھی لیکن جب بھی اُسکی یاد آتی دل بےچین ہوجاتا تھا پتہ نہیں کس حال میں ہوگا وہاں غیر ملک میں کیا کر رہا ہوگا
"دیکھو آگیا وہ”
نوین نے چیخ کر اور ساتھ میں جھول بھی رہی تھی تو مایا نے نظریں اُٹھا کر دیکھا سیکیورٹی گارڈز کے گھیرے میں چلتا ہوا بازل شاہ واقعی ہی ایک عمدہ شخصیت کا مالک شخص جس کو ایک بار دیکھنے میں نظریں ٹھر جاتیں تھیں بال ماتھے اور حکمرانی جمائے ہوئے تھے آنکھیں براؤن جبکہ مغرور ناک اُسکی شخصیت کو چار چاند لگا رہی تھی لیکن پھر بھی مایا کو ایک نظر اچھا نہیں لگا تھا
"کوئی تیس مار خان نہیں ہے پتہ نہیں کونسی سرجری کروائیں ہونی ”
ایک نظر سامنے لگی سکرین اور دیکھا اور نفرت سے کہا امیر لوگوں سے” اگر نفرت کرنی ہو تو ایک مرتبہ مایا سے ضرور ملے” یا اُنکے ونگ کمانڈر کے بیان تھے
اُسے آج بس محد اچھا لگ رہا تھا جو اِس طرح کے ہر دکھاوے اور نمائش سے پاک تھا سچا تھا بافادار تھا
آجکل مایا کی لسٹ میں اُسکی تعریفوں کے انبار تھے محد کو پتہ چلتا تو ایک مرتبہ بیہوش ضرور ہوتا
باہر کانفرنس شروع ہوچکی تھی
"دیکھیں ہماری شراکت داری کا واحد مقصد ہے غریب کا فائدہ ۔۔۔۔ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کے ہماری چیزیں ایک متوسط طبقہ کے لوگوں کو آسانی سے فراہم ہوں”
تالیوں کی گونج سے سارا ہال ہل گیا
"جیتنا کوئی امیر ہو ہوگا اتنا ہی بڑا شیطان اُسکے اندر ہوگا۔۔اگر یہ واقعی ہی غریبوں کا سوچیں تو آج کوئی غریب ہوتا ہے نہ”
اُسکی باتیں سن کر مایا نے نفرت سے کہا آنکھوں میں ایک کرب تھا
"مایا تمھیں نہیں آنا چاہے تھا”
اُسکا درد سمجھ کر نوین نے کہا تو مایا نے آنکھیں بند کر لیں
"اگر ہم اپنی غریب عوام کا نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا”
باہر سے پھر آواز آئی
"میں یہ نہیں کہوں گا کے غریب لوگوں کے لیے یہ شراکت داری کی گئی ہے یہ شراکت داری بس پاکستان کو گرتے ہوئے ریٹوں سے اوپر لانے کے لیے ہے ”
ایک پر اسرار سے آواز سارے ہال میں سور پھونک گئی اُسکے ساتھ بیٹھے انسان نے ایک مرتبہ ہاتھ مسلے جبکہ اپنی واحد بات کہہ کر بازل اپنی جگہ سے اُٹھ گیا سارے لوگ اُسکے پیچھے گاڑیوں تک گے جبکہ اُسکا منیجر پیچھے کانفرنس کو سمیٹنے کی کوشش میں تھا لیکن وہاں کوئی سننے والا ہی نہیں تھا
"سارا تالاب خراب کرنے والی مچھلی کتنی آسانی سے لوگوں کی محبت سمیٹ کر چلی گئی”
مغلز پارٹنرز میں سے ایک نے کہا اور وہ بھی اپنی سیٹوں سے اُٹھ کر چلے گئے کیوں کہ اُنکو سننے والا تو کوئی ہے ہی نہیں تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"محد میری جان میرے جگر گوشے ایک مرتبہ اِدھر تو دیکھنا”
نوفل فل بغرتی کی فورم میں تھا جب سے محد واپس آیا تھا اُسے ذلیل کرنے کا کوئی طریقہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا
"دفع ہو ”
چار پائی پر لیٹ کر منہ نیچے لٹکایا ہوا تھا آج پچھلی والی فورم میں بینان پٹھی ہوئی اور بالوں کا گھونسلا بنا ہوا تھا جیسے کبھی کھنگھی کی نہ ہو
” یہ تو بتا میڈم سے تھپڑ کیسا پڑا تھا اور ایک مرتبہ بس ایک مرتبہ بتا دے لاتیں کھانے میں کتنا مزہ آتا ہے”
حفاظتی اقدام کے طور پر نوفل دروازہ کھول کر کھڑا تھا جبکہ زبان بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی
"تیری تو”
آخر کو اندر ماجود غیرت نے زور مارا تو اُٹھ کر اُسکی طرف بھاگا جو اُسکے پہنچنے سے پہلے ہی بھاگ چُکا تھا
"مایا جی کے ہاتھ سے تو قتل ہوکر بھی بندہ کچھ نہ بولے”
دل پر ہاتھ رکھ کر انتہا کے چھچھورے انداز میں کہا اور خود ہی شرما کر ناک پر رومال رکھ لیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
طالش کی تصویر سامنے دیوار پر لگی ہوئی تھی جسے دیکھ کر عندلیب سوچوں میں گم تھی
"کتنے مختلف تھے دونوں بھائی سب سے ایک ایسی بیوی کو عزت بخش رہا تھا جو بغیر اُسکی مرضی سے اُس پر مسلط کردی گئی تھی جبکہ دوسرا محبت میں شکلوں کو مات دینے کے در پر تھا”
چند گھنٹے پہلے کا منظر اُسکی آنکھوں میں گھوما جب اٹھارہ سال کی لڑکی اُنکے سامنے چائے لے کر آئی تھی ۔۔۔۔۔عندلیب کو اُمید تھی وہ کوئی حُسن کی شہزادی ہوگی جو دامل جیسے مرد کے دل کو گھائل کر گئی ہوگی لیکن یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہتی تھی
عام سے نقشوں نگار رہنے والی لڑکی رنگت سانولی قد میں دامل کی کندھوں تک با مشکِل آتی ہوگی
دامل تو مُحبت سے چور نظروں سے اپنے دل کے قرار کو دیکھ رہا تھا جو اُسکی نظروں کی تپش پاکر آدھ موہی ہوئی پڑی تھی
دونوں بھائی محبتوں کے حقدار تھے ۔۔۔۔۔مہرکی ماں کی کڑوی کسیلی باتوں کا جس مہارت سے دامل نے جواب دیا تھا وہ متاثر کن تھا
اپنے اردگرد ایک مخصوص سی خوشبو کو پاکر خیالوں کی دُنیا سے باہر آئی تو طالش دروازہ میں کھڑا اُسے ہی دیکھا رہا تھا
پہلے تو اپنا وہم لگا لیکن اُسکے چہرے پر ماجود سخت تاثرات حقیقت کا غماز تھی
اپنی جگہ سے اُٹھ کر بھاگی پاؤں میں سولنیگ اور درد کی وجہ سے تھوڑا لڑکھڑا رہی تھی مقابل کی آنکھوں میں سختی چہرے کے تنے ہوئے نقوش اُسے دو قدم پیچھے رکنے پر مجبور کرگئے
"یہ کیا حرکت ہے عندلیب ۔۔۔۔میری کسی بات کی کوئی اہمیت ہے تمہاری نظروں”
اُسکے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے سخت آواز میں پوچھا پاؤں پر پٹی کا نام و نشان نہیں تھا ویسے ہی خون جما ہوا تھا اُسکے وہاں تو آنے کی وجہ سے رسنے لگ گیا تھا چہرہ بخار کی وجہ سے سُرخ ہوچکا تھا اور کوئی گرم کپڑا اُسکے گرد نہیں تھا
اُسکی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو آہستہ سے ایک قدم بڑھا کر اُسکے گرد اپنے باہیں حائل کرگئی لیکن دوسری طرف سے جسارت نہیں ہوئی تھی جسے دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر آنکھوں سے رم جم شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ طالش کا کوٹ بھیگنے لگ گیا
__________________________
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...