ماہا کی ساس اس کی شادی کے چند دن بعد ہی فالج کا شکار ہو کر بستر سے جا لگی جسے اب چوبیس گھنٹے ایک نرس کی ضرورت تھی
صائم اگرچہ بہت خیال رکھتے تھے ماہا کا مگر اب ان حالات میں ماہا کی چوبیس گھنٹے ان کی ماں کے پاس موجودگی بہت ضروری تھی جس کی وجہ سے ماہا اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی کام کے بوجھ تلے دب کے مرجھا کے رہ گئی
صبح سارے گھر کا کام کھانا بنانا صفائی کپڑے دھو برتن دھو پھر ہر وقت بیمار ساس کی دیکھ بھال ماہا کو اپنے اوپر توجہ دینے کا وقت ہی نہ ملتا
اور جب کبھی وہ میکے آتی تو سونیا اسے الگ سے طعنے دیتی کہ دیکھو
بنا دیا نہ تمھیں ان لوگوں نے چند ماہ میں ہی کام والی ماسی میں نہ تمھیں کہتی تھی کہ مت کرو صائم سے شادی
اتنی سی عمر میں ساٹھ سال کی بڑھیا لگ رہی ہو
اور ماہا کی ڈھارس بندھانے کی بجائے وہ اسے اور دل برداشتہ کر دیتی
انھیں باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر ماہا نے میکے آنا کم کر دیا
اور سونیا سے تو فون پہ بھی اسی وقت ہی رابطہ کرتی جب کوئی بہت ضروری کام ہوتا
____________________
لیکن جاب کے بعد سونیا کے لیے باہر کی بناوٹی دنیا کسی خواب سے کم نہیں تھی
خاص کر شعبان سر کیا پرسنالٹی تھی ان کی وہ تو پہلی ہی نظر میں ان پہ فدا ہو چکی تھی
اور پھر جب وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں سونیا کے حسن کی تعریف کرتے تو وہ خود کو کسی ریاست کی ملکہ سمجھنے لگتی
اور پھر سر شعبان کا اتنی لمبی گاڑی میں آفس آنا
تمام سٹاف کا ان کے احترام کے لیے کھڑے ہو نا
عائشہ بتا رہی تھی کہ سر کا گھر کسی محل سے کم نہیں تھا
مگر ایک بات جو سونیا کے لیے پریشانی کا باعث تھی کہ سر شعبان کی ایک خوبصورت بیوی اور دو عدد بیٹیاں بھی تھیں
پتہ نہیں کیوں سونیا نے محسوس کیا تھا سر شعبان اسے آتے جاتے مخصوص نظروں سے دیکھتے تھے جس کے معنی ایک عورت بہت اچھی طرح سمجھتی ہے جیسے وہ سونیا کے نزدیک آنے کی اجازت مانگ رہے ہوں
__________________
شعبان کے پاس ہر شے تھی جس کا خواب سونیا نے دیکھا تھا اور پھر شادی شدہ تھا تو کیا ہوا
وہ تو چار بیویوں کو بھی ایک ساتھ رکھ سکتا تھا
سونیا تو پھر بھی اس کی دوسری بیوی ہوتی اس سے کیا فرق پڑتا ہے
سونیا نے اپنے دماغ میں اٹھتے شعبان کے متعلق خدشات کو خود ہی رد کیا
اور ایک دن شعبان نے جب اسے اپنے آفس بلایا تو
ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے
ان کی باتیں سونیا کو بہت اچھی لگتی تھیں
سونیا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میرے ساتھ شام کو ڈنر پہ چلیں سر شعبان نے سونیا کا خوشگوار موڈ دیکھ کر ایک دن آفر کی
بھلا اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا
وہ تو خود کب سے سر شعبان کے قریب ہونے کے مواقع تلاش کر رہی تھی
سر شعبان کی گاڑی میں ان کے پہلو میں وہ بیٹھ کر خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی گردان رہی تھی فائیو ہوٹل میں بیٹھ کے شعبان جیسے انسان سے اپنے حسن کے قصیدے اور باتوں ہی باتوں میں وہ بہت جلد ایک دوسرے سے بے تکلف ہو گئے
شعبان نے
سونیا کو اپنی نجی زندگی کے بارے میں چھپے سچائی بتائی کہ نازیہ سے اس کی شادی اس کے گھر والوں نے زبردستی کر رکھی ہے اسے خود نازیہ میں کوئی دلچسپی نہیں وہ اپنی پسند کی لڑکی تلاش کر رہا تھا اور سونیا کی شکل میں اسے وہ لڑکی مل گئی ہے اب سونیا ہی اس کی منزل ہے وہ ہر صورت میں سونیا کو اپنا کر رہے گا سونیا
شعبان سے یہ سب باتیں سن کر خوشی سی جھوم اٹھی اسے اپنی منزل بہت قریب نظر آنے لگی
_________________
دوسرے دن سر شعبان نے سونیا کو اپنی محبت کا پہلا گفٹ دیا ۔
بالکل الینہ کے موبائل جیسا سیل فون
سونیا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں اتنی جلدی اس کے خواب حقیقت کا روپ لے لیں گے اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔
اور رات کو اس میں سم ڈالتے ہی اس نے پہلا فون شعبان کو کیا
آدھی رات تک وہ شعبان سے ویڈیو کال پہ بات کرتی رہی
صبح آفس جانے کے لیے نکلنے ہی والی تھی کہ شگفتہ بیگم نے سونیا کو بتایا کہ ماہا کا فون آیا تھا کہ اس کے سسر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ ہاسپٹل میں ہے
تو پھر میں کیا کروں
سونیا نے بیزاری سے ماہا کے نام پہ کہا
بیٹا وہ چاہ رہی تھی کہ تم اس کے پاس چند دن چلی جاؤ اس کے لیے گھر اور ہاسپٹل کے چکر لگانا بہت مشکل ہو رہا ہے ۔
مما خدا کے لیے میرے سامنے اس بیوقوف اور کم عقل لڑکی کا ذکر مت کیا کریں اس نے اپنی مرضی سے اس کنویں میں خود چھلانگ لگائی ہے ہم نے اسے نہیں کہا تھا کہ وہ صائم سے شادی کرے اس لیے سب نتائج کی وہ خود ذمے دار ہے ہم اس کے لیے بس اب دعا ہی کر سکتے ہیں اس سے کہہ دیں کہ وہ ہم سے کسی بھی قسم کی مدد کی کوئی امید نہ رکھے
سونیا نے اپنی ماں کو کھری کھری سنائیں اور آفس چل پڑی جہاں کوئی اس کے آنے کا بیتابی سے انتظار کر رہا تھا
یار اتنی دیر پورا آدھا گھنٹہ لیٹ آئی ہو آنکھیں ترس جاتی ہیں تمھیں دیکھنے کے لیے
آفس پہنچتے ہی شعبان کا میسیج سکرین پہ پڑھ کے وہ خوشی سے نہال ہو گئی تھی
___________________
ماہا تم نے مما کو کال کی تھی؟ کہ وہ چند دن کے لیے سونیا کو ہمارے پاس بھیج دیں
صائم نے ہاسپٹل سے ماہا کو لیتے ہوئے کہا
ہاں کی تھی مگر مما بتا رہی تھیں کہ سونیا جاب کرنے لگ گئی ہیں اس لیے اب ان کا آنا بہت مشکل ہے
یار تم یہ سب کیسے کرو گی ؟گھر میں امی بیمار بستر پہ پڑی ہیں یہاں ابو ہاسپٹل میں
کیسے ہو گا سب میں جاب سے کتنے دنوں کی چھٹی لے سکتا ہوں تم کیا کیا کرو گی اکیلی؟
آئی ڈونٹ نو وٹ کین آئی ڈو
صائم نے پریشانی سے کہا
صائم ہم چند دن کے لیے گھر میں کوئی کام والی رکھ لیتے ہیں جب تک ابو ہاسپٹل میں ہیں
ماہا نے تجویز پیش کی
مگر ماہا اتنی جلدی کام والی کہاں سے ملے گی اور پھر وہ منہ کھول کے جتنے پیسے مانگتی ہیں پھر روٹی کپڑے اور وقت بوقت ان کی ڈیمانڈ ز بھی پوری کرو میری تنخواہ میں یہ سب کیسے ہو گا امی کے علاج پہ بھی خرچ ہو رہا ہے ابو کا بھی یہاں علاج جاری ہے
کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں ؟
ماہا خاموش ہو گئی صائم بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے
مگر وہ اس بھاگ دوڑ میں بری طرح تھک گئی
اور خود بیمار ہو گئی
اب ساری ذمے داری صائم کے کندھوں پہ آ گئی
جس کی وجہ سے اسے آفس سے چھٹیاں کرنی پڑیں
اور ایک دن اسی بات کو جواز بنا کے صائم کو جاب سے فارغ کر دیا
_____________________