اگلی صبح جب بہروز اٹھا تو میرب کو کمرے کے کونے میں فرش پہ بیٹھا پایا شاید ساری رات وہ وہیں بیٹھی رہی تھی۔
” تیار ہوجاؤ”۔ اسنے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں کہا۔
” میں نہیں جاؤں گی”۔ ہڈ دھرمی سے کہا۔
” جانا پڑے گا تمہیں”۔ بہروز کے ماتھے پہ تیوریاں نمودار ہوئی۔
” میں نے کہا ناں۔۔۔!! میں نہیں جاؤں گی”۔ وہ اپنی نم سوجی آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑھ کر جنون امیز لہجہ میں کہتی بہروز کے غصہ کو ہوا دے گئی تھی۔
” مسئلہ کیا ہے تمہارا عزت سے بول رہا ہوں تو سمجھ نہیں آتی بات”۔ بہروز بیڈ سے کشن اٹھا کر زمین پہ پھینکتا اٹھا تھا۔
وہ خوف سے کپکپا اٹھی تھی۔ وہ بہ مشکل اپنے بے جان ہوتے پیروں پہ زور ڈال کر اٹھی تھی۔
” مجھے نہیں کرنا اپنے بچے کا قتل”۔ وہ مضبوط لہجہ میں گویا ہوئ۔
” تم کیوں سر پہ چڑھ رہی ہو میرے جتنا کہا ہے اتنا کرو”۔ وہ طیش کے عالم میں دھاڑا۔
” نہیں کرونگی جو آپ چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں کرونگی”۔ وہ سر کو نفی میں جنبش دیتی نحیف سی آواز میں بولی۔
” میری ایک بات کان کھول کر سن لو اگر اس بچے نے اس دنیا میں جنم لیا تو یہ بھول جانا کہ میں اسے باپ بن کر پالوں گا یا اسکی پرورش کرونگا”۔ وہ اسے کندھوں سے تھامتا غرا کر گویا ہوا۔
” میرے بچے کے لیئے میں کافی ہوں”۔ وہ سسک کر بولی۔
” ٹھیک ہے تو پھر پیدا کرو اور اکیلے پالو اسے”۔ وہ اسے جھٹک کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ میرب نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کو روکا تھا۔
♡♡♡♡
” میرب۔۔”۔ اماں جی نے اسے گم صم بیٹھے دیکھ کر آواز دی۔
” جی اماں جی۔۔”۔ اسنے سر اٹھا کر اماں جی کو دیکھا۔
” بہروز خوش ہے ناں اس بچے کی آمد سے؟”۔ انہوں نے اسکے زرد چہرے کو تک کر کہا۔
” پتہ نہیں”۔ وہ عجیب سے لہجہ میں بولی۔
” کچھ کہا ہے اس نے تمہیں؟”۔ اماں جی نے کچھ فکر مندی سے پوچھا۔
” نہیں ابھی تک تو کچھ نہیں کہا”۔ وہ بات چھپا گئ۔
” ہمم بس اللہ اس بچے کو تم دونوں کے لیئے رحمتوں اور برکتوں والا بنائے”۔ اماں جی نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہا۔
اسکی آنکھیں ہلکی سی بھیگیں، پر وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپا گئی۔
” بہروز تھوڑا سخت گیر ہے ، پر میرا بچہ دل کا بہت اچھا ہے میرب “۔ اماں جی نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔
اسکے دل سے بے ساختہ ایک آواز نکلی کہ اگر اتنا ہی اچھا ہے تو اپنے بچے کو کیوں مار رہا ہے۔
” جی اماں جی “۔ دل کی بات وہ زبان پہ نا لا سکی تھی۔
” اسکی ماں جب مری تھی ناں تو نو سال کا تھا وہ چھوٹا تھا ، نا سمجھ۔۔۔”۔ اماں جی نے نم آواز میں کہا۔
میرب کو یکدم جھٹکا لگا ، اسنے حیرت سے اماں جی کی طرف دیکھا۔
” پر اماں جی آپ تو۔۔”۔ میرب نے اماں جی کو دیکھ بہ مشکل الفاظ ترتیب دیئے۔
” میں اسکے باپ کی دوسری بیوی ہوں ، میری بڑی بہن بہروز کی ماں تھی اسکے انتقال کے بعد بہروز کے ابا نے مجھ سے نکاح کر لیا تھا”۔ انہوں نے گہری سانس خارج کرکے کہا۔
” آپ نے پہلے کبھی بتایا نہیں”۔ وہ حیران سی تھی۔
“اب بتا دیا “۔ وہ دھیرے سے ہنسی تھیں۔
” اور ۔۔۔ جو بہروز کا بھائی تھا وہ بھی کیا آپکا اپنا بیٹا نہیں تھا؟؟”۔ اسنے کچھ ہچکچا کر کہا۔
” وہ میرا بیٹا تھا اسے میں نے جنم دیا تھا”۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
” آپ کو مجھ سے نفرت نہیں محسوس ہوتی”۔ اسے حیرت ہوئ۔
” نہیں کیوں میں بھلا تم سے کیوں نفرت کروں”۔ وہ نرمی سے بولیں۔
” میرا باپ آپکی اولاد کا قاتل ہے”۔ اسنے انہیں یاد دلایا۔
” اور میرا اللہ میری اولاد کے قاتل کو سزا دینے والا”۔ وہ پرسکون لہجہ میں گویا ہوئ۔
” اتنا صبر کیسے ہے آپ میں اماں جی؟”۔ اسے حیرت در حیرت ہوئی۔
” جب اپنے اچھے اور برے کا یقین اس پاک ذات پر ہونا پھر صبر آہی جاتا ہے”۔ وہ اپنی آنکھوں میں ڈھیروں نور لیئے گویا ہوئیں۔
” آپ جیسا صبر ہر کسی کو کیوں نہیں آتا؟؟”۔ اسنے انکے ہاتھ عقیدت سے تھام کر لبوں سے لگائے۔
” کیونکہ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایمان تو رکھتے ہیں ، پر ہمارا عقیدہ بڑا کمزور ہے ، ہم اللہ رب العزت سے زیادہ اسکے بندوں سے توقعات رکھتے ہیں ، اور جب امیدیں اور یقین دنیا پر ہو تو صبر کیسے آئے گا۔۔!!”۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔
وہ بھی دھیرے سے مسکائ تھی۔ حقیقت تھی یہ ہمیں اللہ سے زیادہ انسانوں سے ہی تو اچھے کی امید ہوتی ہے۔
” پھر بھی اماں جی آپ نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے ، کیا آپکو دکھ نہیں ہوا تھا کیا آپکے سینے میں بدلہ لینے کی آگ نے جنم نہیں لیا تھا؟؟”۔ اسے پھر بھی اشتیاق رہا۔
” اولاد کا دکھ ہمیشہ ہر دکھ سے بھاری ہوتا ہے ، پھر چاہے اولاد جوان ہو یا بوڑھی یا پھر بچپن کے دور میں ہو، اسکی تکلیف دل کو پاش پاش کر دیتی ہے ، پتہ ہے میں نے اپنے بیٹے کے قتل کا معاملا اللہ کی عدالت پہ چھوڑا ہے۔۔۔!! یہ دنیا کیا ہوگی انکی عدالت کیا ہوگی اور انکا انصاف کیا ہوگا دیکھو ناں ۔۔! اب بھی تم جیسی معصوم بے بس عورت کو سزا کاٹنے کے لیئے چنا گیا۔۔۔۔ حالانکہ تم نے تو کچھ نہیں کیا تھا ، جس نے کیا تھا وہ تو بھاگ گیا ۔۔۔ کہیں اور جاکر وہ پھر کسی معصوم کا قتل کردے گا اور پھر کسی اور معصوم کو اسکی سزا دی جائے گی ، جو اپنے جرم و گناہ سے بھی ناواقف ہوگا ، یہ دنیا کی عدالتیں اندھی ہیں ، اصل انصاف تو میرے رب کی عدالت میں ملتا ہے”۔ وہ تمکنت سے کہتی میرب کو تعجب میں ڈال گئ تھیں۔ وہ حیرت سے انہیں تک رہی تھی ، وہ اسے اسقدر حیرت سے خود کو تکتا پاکر دھیرے سے مسکرائ تھیں۔
” بہروز کی زندگی بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ، اسکی زندگی کا بھی ایک سیاہ باب ہے اور وہ میں تمہیں نہیں بتاؤں گی ، میں چاہتی ہوں تم اسکا اعتماد جیتو تم اسے جیتو محبت سے ، وفا سے ، توجہ سے مجھے یقین ہے ایک دن آئے گا جب وہ اپنا ہر غم تمہیں بتائے گا ، تم سے اپنی ہر تکلیف بانٹے گا انشااللہ”۔ انہوں نے اسکے بال سنوارتے کہا۔
” ایسا کیا ہے؟؟”۔ وہ انکو تکتی مستفسر ہوئ۔
” ایسا سمجھو کہ اگر یہ کڑی تم نے سلجھا لی ناں تو ۔۔۔ تم دونوں کی زندگی خوبصورت ہوجائے گی ایک ساتھ”۔ انہوں نے اسے سمجھایا۔
” پر ۔۔۔ وہ تو مجھ سے بات تک نہیں کرتے اور ابھی تو ناراض ہیں کافی”۔ اسنے بے چینی سے کہا۔
” اب یہ تو تم پر ہے ناں کہ تم کیا کرتی ہو اور کیسے کرتی ہو”۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔ میرب گہری سوچ میں ڈوب گئ۔
♡♡♡♡
شام کے پانچ بج رہے تھے وہ کسی کام سے عجلت میں گھر آیا تھا۔ کوئ ضروری کاغذات تھے جن کی اسے ضرورت پڑ گئ تھی۔
وہ کمرے میں ہر ایک جگہ چھان چکا تھا پر اسے اسکے کاغذات نہیں ملے۔
کافی ڈھونڈنے کے بعد اسے یاد آیا کہ وہ کاغذات تو اسنے اپنے وکیل کے پاس رکھوائے تھے۔ اسنے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے موبائل نکال کر کان سے لگایا۔
میرب کمرے کا دروازہ دھیرے سے بند کرتی اندر آئ تھی سرخ رنگ کے شیفون کا جوڑا جس پہ ہلکی ہلکی ایمبرائڈری ہوئ تھی۔ موتیے کے پھولوں کی خوشبو جیسا پرفیوم لگائے ، آنکھوں میں گہرا کاجل لگائے ہونٹوں پہ سرخ جوڑے کے ہم رنگ سرخی لگائے ناک میں ایک موتی والی نتھ پہنے وہ غضب ڈھا رہی تھی۔
بہروز کی توجہ اسکی طرف نا تھی۔ وہ خاموشی سے چلتی اسکے پاس آئ تھی۔ بہروز نے موبائل کان سے ہٹا کر کال کاٹی ، اوپر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ان چار ماہ میں پہلی بار وہ ایسے سج سنوری کر اسکے سامنے آئی تھی۔ وہ اسقدر حسیں لگ رہی تھی کہ وہ بے خود سا اسے تکتا رہ گیا۔ وہ اسے خود کو تکتا پاکر تھوڑی سی کنفیوز ہوئی تھی ، مگر ہمت کرکے وہ اسکے برابر بیٹھی تھی دھیرے سے اسکے قریب ہوکر اسنے پلکیں جھکا کر پوچھا۔
” میں کیسی لگ رہی ہوں”۔ وہ کپکپائے لہجہ میں مستفسر ہوئ۔
” بہت خوبصورت”۔ وہ بے خودی کے عالم میں اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا گویا ہوا۔
وہ اسکے تعریف کرنے پہ شرمیلی سی مسکان ہونٹوں پہ لیئے نظریں اٹھا کر دوبارہ جھکا گئ تھی۔
بہروز دھیرے سے جھکا تھا اسکی جھکی آنکھوں پہ اپنے لب رکھ گیا تھا۔ اسکی جسارت پہ اسکی آنکھیں دھیرے سے کپکپائی تھیں۔
” بہروز۔۔ “۔ اسنے اپنے سرخ لب دھیرے سے ہلائے۔
” ہمم “۔ وہ اسکے چہرے پہ اپنی انگلیاں پھیرتا مخموریت سے گویا ہوا۔
” کچھ نہیں”۔ کچھ کہتے کہتے اسکے لب پھڑپھڑائے تھے۔ بہروز کی نظر اسکے کپکپاتے لبوں پہ پڑی تو وہ بے خود سا ہوتا اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ اسکے لمس میں اسقدر شدت تھی کہ وہ کپکپا کر رہ گئ تھی۔ لمحہ یونہی سرکتے گئے میرب کا سانس رکنے لگا میرب نے اسکی گردن پہ اپنے ناخن گاڑھے۔
وہ دھیرے سے اس کے لبوں کو چھوڑتا اسے بستر پہ گراتا اسپے جھکا تھا۔ اسکی گردن پہ اپنے دانتوں کا ہلکا سا دباؤ ڈالا تو میرب سسک اٹھی اسنے اسکی شرٹ کے کالر کو مضبوطی سے اپنی گرفٹ میں جکڑ لیا۔ لمحے یونہی فسوں خیزی کے بیتنے لگے کہ یکدم بہروز کا موبائل بجا وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا اسے خود سے دور کرکے اٹھا ، چہرے پہ یکدم اسنے ہاتھ پھیرا۔ چہرے پہ نرمی ختم ہوئی اورسختی نے بسیرا کر لیا۔
میرب بھی اسکے پیچھے اٹھی تھی۔ اسنے میرب کو طیش کے عالم میں دیکھا۔
” آئیندہ سے ایسے سجنے سنورنے کی ضرورت نہیں ، انتہائی بے ہودہ لگ رہی ہو”۔ وہ اسپہ غراتا کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند کرتا نکل گیا تھا۔
اور وہ محض گہری سانس لے کر رہ گئ تھی۔
مشکل تھا اسکے دل تک رسائی کرنا پر ناممکن نہیں تھا۔
♡♡♡♡♡♡
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...