صوفہ پر کروفر سے بیٹھے، ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ارحام شاہ نے اپنے سامنے بیٹھی زویا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا تھا جو سر جھکائے انگلیاں چٹخانے میں مصروف تھی۔
“نام کیا ہے تمہارا؟” ان کی بھاری بھرکم آواز پر وہ سٹپٹائی تھی۔
“زویا!” دھیمی آواز میں اس نے جواب دیا تھا۔
“پورا نام؟”
“ویلکیم بیک ارحام شاہ!” سپاٹ آواز پر ارحام شاہ نے سر اٹھائے دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں پینٹ میں ہاتھ ڈالے، سپاٹ چہرہ لیے سنان شاہ کھڑا تھا، اس کی دائیں جانب ہی وائے۔زی بھی لبوں پر دھیمی مسکراہٹ سجائے موجود تھا۔
“سنان مائی بوائے!” ارحام اٹھ کر اس کی جانب گلے لگنے کو بڑھے تھے جب ہاتھ اٹھائے سنان نےانہیں روکا تھا۔
“تم نہیں بدلے۔۔۔ بالکل ویسے ہی ہو خردماغ۔” ارحام شاہ مسکرائے تھے۔
“اور آپ ہمیشہ کی طرح بددماغ۔” سنان کے طنز پر ان کا قہقہ گونجا تھا۔
سر نفی میں ہلائے مسکراتے ہوئے وہ وائے۔زی کی جانب بڑھے تھے۔
“وائے۔زی مائی بوائے تم کیسے ہو؟ مجھے یقین تھا کہ ایک گولی میرے بیٹے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی!” اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے وہ بولے تھے۔
“ایم فائن ڈیڈ!” وہ دھیما سا مسکرایا تھا۔
سنان شاہ انہیں اگنور کرتا زویا کے برابر جابیٹھا تھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے اپنے ساتھ کی تسلی دی تھی۔
“تو ہمارا انٹرو بیچ میں ہی رہ گیا ینگ لیڈی۔” وائے۔زی کے ساتھ نشست سنبھالے وہ ایک بار پھر زویا کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
“ہاں تو تمہار پورا نام کیا تھا زویا؟”
“اس کا نام زویا ہے اور آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے!” سنان کی بات پر مسکرائے تھے۔
“ویسے میں نے سنا تم نے اسے نیلامی میں سے خریدا۔۔۔ بلکہ نہیں یہ وہاں سے بھاگ نکلی اور تم سے ٹکڑائی تھی۔۔۔۔۔۔ واٹ آ بیوٹیفل کو انسیڈینس!۔۔۔”
“چلو ٹکڑانا تو ایک الگ بات ہوئی مگر یہ کیا تم نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا؟کیا دل تونہیں آگیا اس پر؟نہیں وہ تو پہلے ہی کسی اور کو دے چکے ہو تم۔۔۔۔ کہی تم اس کے شوگر ڈیڈی۔۔۔”
“زبان سنبھال کر ارحام شاہ!” سنان یکدم اس پر دھاڑا تھا۔
جہاں وائے۔زی کی آنکھیں پھیلی تھی، وہی زویا کی آنکھیں ان کی بات کا مطلب سمجھ کر نم ہوئیں تھی جبکہ کریم نے صبط سے مٹھیاں بھینچی تھی۔
“اوہ کم آن سنان میں نے تو بس ایک بات کہی ہے۔۔۔ اور تم اتنا غصہ کیوں کررہے ہو۔۔۔۔۔ کہی میری کہی بات سچ۔۔۔۔۔۔”
“زویا شہباز شاہ ہے وہ، شہباز سلطان شاہ کی بیٹی اور سنان سلطان شاہ کی بہن۔۔۔۔۔۔۔۔ سنا تم نے ارحام شاہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیٹی ہے شہباز شاہ کی، تمہاری بھتیجی۔۔۔!” اس کی دھاڑ پر وہاں مکمل طور پر سناٹا چھا گیا تھا۔
ارحام شاہ کے پاس تو جیسے بولنے کو الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
“وہ مرچکی ہے!” خود کو نارمل کیے ارحام شاہ نے جواب دیا تھا۔
“وہ زندہ ہے اور تمہارے سامنے ہے ارحام شاہ!۔۔۔۔۔ اب یقین کرنا نا کرنا تم پر ہے۔۔۔۔۔۔ چلو زویا!” روتی زویا کا ہاتھ تھامتا وہ وہاں ستے نکل چکا تھا۔
“واٹ؟” کریم اور وائے۔زی کی گھوری پر انہوں نے کندھے اچکائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بس آنٹی پلیز میں اور نہیں کھاسکتی۔” شزا بےچارگی سے بولی تھی جس پر اسے سخت گھوری سے نوازہ گیا تھا۔
“میم مس ربیکا کی کال آرہی ہے!” میڈ نے مسز زبیری کو اطلاع دی تھی۔
“میں کال سن کر آتی ہوں تب تک یہ باؤل خالی ہونا چاہیے پورا کا پورا۔” اسے تنبیہ کرتی وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
“حماد۔” شزا نے چڑ کر اسے پکارا تھا جو چائے کی چسکی لیتا آنکھیں چھوٹی کیے گارڈن میں چہل قدمی کرتے شبیر زبیری کو گھور رہا تھا۔
“حماد میں تم سے بات کررہی ہوں!” شزا نے اس کا شانہ ہلایا تھا۔
“ہاں کیا؟” وہ چونک اٹھا تھا
“افف حماد کب سے تمہیں بلارہی ہوں۔۔۔ آنٹی کو منع کرو نا اتنا نہیں کھاسکتی میں!” اس کے شکوے پر گہری سانس خارج کرکے رہ گیا تھا۔
“فلحال تم یہ ختم کرو۔۔۔ میں بات کروں گا ماما سے” اس کا گال تھپتھپائے اس نے دوبارہ گارڈن کی جانب دیکھا تھا جہاں اب کوئی نہ تھا۔
“ہمم۔۔” منہ بناتی وہ دوبارہ فروٹ باؤل کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سنان نے مجھے بتایا تمہیں مجھ سے کوئی اہم بات کرنا تھی معتصیم۔۔۔۔۔ اور بات اتنی اہم تھی کہ مجھے ماروکو سے پاکستان آنا پڑا؟۔۔۔۔۔۔۔ کیا جان سکتا ہوں وہ اہم بات؟” اپنے سامنے سپاٹ بیٹھے معتصیم سے ارحام شاہ نے سوال کیا تھا۔
جواب میں معتصیم نے بس خلع نامہ اس کے سامنے پیش کیا تھا جسے دیکھ ارحام شاہ کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی تھی۔
“اس سب کا مطلب؟” بےتاثر نگاہیں اس کے چہرے پر گاڑھے سوال ہوا تھا۔
“آہ معتصیم۔۔۔۔۔ یو نو جب تم مجھے آٹھ سال پہلے اس لٹی پٹی حالت میں ملے تھے۔۔۔۔۔۔ دل دکھا تھا میرا تمہیں اس حال میں دیکھ کر۔۔۔۔۔ اور پھر تمہارے ماں باپ کا بےدرد قتل۔۔۔۔۔ اففف کیا حالت تھی تمہاری۔۔۔۔ تمہیں یاد ہے جب میں نے ایک بار تمہارے سامنے تمہارے والدین کے قاتل کو سزا دینے کی بات کی تھی؟ اس دن، اس پل مجھے تمہاری آنکھوں میں ایک آگ نظر آئی، سب کچھ جلا کر راکھ کردینے والی آگ۔۔۔۔ ایک بیسٹ نظر آیا تھا مجھے تم میں۔۔۔ جو نیند میں تھا، جسے بیدار کرنے کی ضرورت تھی مجھے!”
“اس بکواس کا مقصد؟” اس کی بات کاٹتا وہ درشتگی سے دھاڑا تھا۔
“انڈرورلڈ مافیا۔۔۔۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں امر ہونے کے لیے تمہیں سب سے پہلے اپنے آپ کو مارنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے اندر موجود احساس نامی اس بلا کو جلا دینا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے اندر پلتی بدلے کی اس آگ کو میں نے اچھے سے محسوس کیا تھا معتصیم۔۔۔۔۔ تمہارے اندر وہ جنون، وہ طاقت تھی کہ تم سب کو اپنے قدموں کی دھول بنا ڈالو۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے تمہارے اندر اس احساس کو مارنا ضروری تھی۔۔۔۔ مگر یہ لڑکی تمہیں روک رہی تھی۔۔۔۔۔ تم میرے لیے ضروری تھے اور وہ تمہارے لیے۔۔۔ کسی ایک کو قربانی دینا تھی معتصیم۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑو۔۔۔۔۔۔ اب بتاؤ مجھے کیوں بلایا یہاں؟ اب یہ مت کہنا کہ تم نے صرف اس خلع نامہ کی وجہ سے مجھے بلایا ہے!” ارحام شاہ نے اس کی غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ سوال کیا تھا۔
“تم جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے ارحام شاہ؟ زرا سا بھی اندازہ ہے تمہیں؟ میں نے تم سے زیادہ بےحس شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ارحام شاہ!” وہ پوری قوت سے دھاڑا تھا۔
“مجھ سے زیادہ بےحس تو تم ہو معتصیم۔۔۔۔۔۔ بھلا کوئی اپنی محبت کے ساتھ ایسا کچھ کرتا ہے جیسا تم نے اس کے ساتھ کیا؟ کیا تمہیں کیا لگا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم تم کیا کرتے پھیر رہے ہو؟ اور سب سے بڑھ کر اسے فہام جونیجو کے حوالے کردیا؟ اس شخص کے حوالے جو تمہارے ماں باپ کا قاتل ہے؟” ارحام شاہ کی بات پر اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگ گئے تھے۔
اس نے حیرت سے ارحام شاہ کی جانب دیکھا جو ٹیڑھی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔
“فف۔۔۔فہام جونیجو؟” اسے جیسے یقین نہ آیا۔
“مجھے بھی دو دن پہلے ہی علم ہوا تھا۔۔۔ویل کافی پینے کا موڈ ہورہا ہے تمہارا دل ہو تو آجانا!” اس کا شانے تھپتھائے وہ وہاں سے جاچکے تھے۔
صوفہ پر گرے معتصیم نے سختی سے اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں دبوچا تھا۔
وائے۔زی نے ایک افسوس کن نگاہ اس کے بےبس چہرے پر ڈالی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ تم نے اچھا نہیں کیا ارحام شاہ!” معتصیم کی گاڑی کو جاتے دیکھ سنان اس کو گھورتا بولا تھا جس نے مزے سے کافی کا سپ لیا تھا۔
“میں نے کیا کیا؟ مجھے تو لگا اسے خوشی ہوگی یہ جان کر۔۔۔۔ آخر کو آٹھ سالوں سے ڈھونڈ رہا ہوں اس کے ماں باپ کے قاتلوں کو!” مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
“کسی کو تکلیف دے کر بہت مزہ آتا ہے نا تمہیں؟”
“بہت” ارحام شاہ کے لب مسکرائے تھے۔
“مسئلہ معلوم ہے کیا ہے۔۔۔۔۔ تم کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے ارحام شاہ۔۔۔۔۔۔ تم ان لوگوں میں سے ہو جو خود اپنے ہاتھوں سے اپنا آشیانہ برباد کرکے دوسروں کے گھروں کو بھی طوفان کے نذر کردیتے ہیں۔۔۔۔۔ تم ان کی بےبسی سے لطف اندوز ہوتے۔۔۔۔ تمہیں ان کی بےبسی میں اپنی بےبسی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔ جو خامی، جو کمی تم میں ہے انہیں ٹھیک کرنے کی جگہ تم نے دوسرے لوگوں کی زندگی کو ان خامیوں، ان کمیوں سے بھرنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔۔ یو آر سک ارحام شاہ!”
“مجھے تمہارے لیکچر میں کوئی انٹرسٹ نہیں۔۔۔۔۔ اور جہاں تک بات رہی معتصیم کی تو اسے میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے اسے بچایا۔۔۔۔۔ اسے نئی زندگی بخشی۔۔۔۔۔ اس پر احسان تھا میرا اور مجھے میرے احسانوں کا بدلا لینا آتا ہے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی معتصیم کو تو میرا بہت بڑا احسان مند ہونا چاہیے ورنہ جو الزام اس پر لگا تھا اس کے بعد نہ تو اسے کوئی ڈگری ملتی اور نہ ہی جاب۔۔۔۔۔ در در کی ٹھوکریں کھاتا وہ۔۔۔۔۔ اور دیکھو میں نے اسے کہاں پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔ آج کیا نہیں ہے اس کے پاس؟ پیسہ، دولت، گاڑیاں، گھر۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر طاقت۔۔۔۔ سب کچھ ہے اس کے پاس، صرف اور صرف میری وجہ سے۔”
“اس کے پاس ماورا نہیں ہے اس کی بیوی نہیں ہے جسے اس نے سب سے زیادہ چاہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تم نہیں ہے ارحام شاہ۔۔۔۔ اس نے محبت کی ہے اپنی محبت سے تمہاری طرح دل لگی نہیں کی جو بیوی کے مرتے ہی۔۔۔۔۔۔”
“سنان شاہ!” ارحام شاہ دھاڑا تھا، جس پر سنان شاہ مسکرایا تھا۔۔۔۔ یہ موضوع ارحام شاہ کے لیے ایک حساس ترین موضوع تھا۔۔۔۔ سنان شاہ نے ٹھیک جگہ اسے چوٹ پہنچائی تھی۔
“کیا ہوا ارحام شاہ سچ سن کر تکلیف ہوئی؟ سچ ہی تو ہے۔۔۔۔ یہ دل لگی ہی تو تھی کہ بیوی کے مرتے ہی تم نے اس کی کمی کو مختلف عورتیں کے ساتھ راتیں رنگین کرکے پورا کیا تھا۔۔۔۔ تم ایک بےحس انسان ہو ارحام شاہ۔”
“ہاں میں ہوں بےحس جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔۔۔۔۔اور یہی اس دنیا کا اصول ہے!” اسے جواب دیے ارحام شاہ نے وہاں سے جانے کو قدم اٹھائے تھے۔
“اس دنیا میں ہر انسان کے پاس کھونے کو کچھ نا کچھ خاص ضرور ہوتا ہے ارحام شاہ۔۔۔۔۔۔ اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ تمہاری خام خیالی ہے تو تم بہت بڑی خوش فہمی میں جی رہے ہو”
“اوہ مگر یہ سچ ہے میرے پاس واقعی کھونے کو کچھ نہیں۔۔۔۔” ارحام شاہ نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“کچھ ماہ پہلے میں بھی اسی خوش فہمی میں جی رہا تھا مگر اب نکل آیا ہوں اس سے میں!”
“کہنا کیا چاہتے ہو صاف صاف کہو۔”
“وہ زندہ ہے ارحام شاہ۔۔۔۔۔۔۔تمہاری بیٹی، گڑیا زندہ ہے!”
“میں اس وقت مزاق کے موڈ میں نہیں۔۔۔۔۔۔”
“میں مزاق کر بھی نہیں رہا، سچ ہے یہ چاچا جان۔” وہ دانت پیس کر بولا تھا۔
“جاننا چاہتے ہو کہاں ہے وہ؟۔۔۔۔ شبیر زبیری کی تحویل میں ہے وہ۔۔۔۔ پچھلے گیارہ سالوں سے۔۔۔۔۔!۔۔۔۔ کیا معلوم اب اس کی رکھیل۔۔۔۔۔ سمجھ تو گئے ہو گے نا؟” وہ ہنس کر بولا تھا
ارحام شاہ کی آنکھیں انگارہ ہوئیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا وہ اپنے اندر ابلتے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش میں تھا جس میں وہ برے سے ناکام ہوا تھا۔
دو گھنٹوں کی مسلسل ڈرائیونگ کے بعد اب اس نے تھک ہار کر گاڑی روک دی تھی۔۔۔۔ سٹئرینگ پر سر رکھے اس نے گہری سانس بھری تھی۔
کچھ پل بعد سر اٹھائے اس نے آس پاس کی جگہ کو دیکھا۔۔۔۔۔ وہ اس وقت ماورا کے کیفے کے قریب تھا۔
کسی احساس کے تحت گاڑی کو لاک کرتا وہ اس کے کیفے کی جانب بڑھا تھا جب اس نے اسے خود سے تھوڑی دور ٹیکسی کے انتظار میں پایا۔ بےاختیار وہ اس کی جانب چل دیا
آج ماورا کا ارادہ تقی کے ساتھ باہر ڈنر کا تھا اسی لیے جلدی آف لیے وہ اب کیب کے انتظار میں تھی جب اپنے قریب کسی کو کھڑے پایا۔
سر دائیں جانب موڑے اس نے سامنے کھڑے معتصیم کو دیکھا تو آنکھیں باہر کو ابل آئیں تھی۔
“تم” لبوں نے سرگوشی کی
معتصیم نے مزید ایک قدم اس کی جانب بڑھائے اسے اپنی باہوں میں لیا تھا۔
“یہ تم۔۔۔”
“ششش” اس کے بالوں میں منہ دیے، اس کے گرد اپنی گرفت زرا سخت کیے اسے کچھ بھی بولنے سے روکا تھا اس نے۔
ماورا تو اپنی جگہ جم سی گئی تھی، اچانک اسے اپنے کندھے پر کچھ گیلا محسوس ہوا تھا۔
“کیا وہ رو رہا تھا مگر کیوں؟” اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔
“معتصیم کیا ہوا؟” اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرے اس نے سوال کیا تھا۔
اس وقت اسے کسی بات کی پرواہ نہ تھی، لوگوں کی ان نظروں کی بھی نہیں جو انہیں حقارت سے دیکھتے، اپنی جانب سے اندیشے لگاتے آگے بڑھ گئے تھے۔
“آر یو اوکے؟” اس کی دھیمی آواز پر معتصیم نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔۔۔۔ ماورا پر اس کی گرفت مزید سخت ہوگئی یہاں تک کہ ماورا کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگ گئی تھی۔
“سس۔۔۔۔سانس۔۔۔۔۔سانس نہیں آرہی” نہایت مشکل سے اس نے اپنی بات مکمل کی تھی۔
اس کی بات سن وہ ہوش میں آتا اس سے زرا دور ہوا تھا۔
ماورا کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کررہی تھی، سرخ آنکھیں، تکان زدہ چہرہ۔
“تم ٹھیک ہو؟” ٹرانس کی کیفیت میں اس کے چہرے پر ہاتھ رکھے اس نے سوال کیا تھا۔
اس کے چھونے پر یکدم ہوش میں آتا وہ اس نے چند قدم پیچھے ہوا تھا، ماورا بھی اپنے حواسوں میں لوٹی تھی۔
“سوری۔” بالوں میں ہاتھ پھیرتا، نظریں جھکائے وہ الٹے قدموں وہاں سے نکلا تھا۔
ماورا بس اپنے ہاتھ کو گھورے جارہی تھی جس سے اس نے اسے چھوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا بات ہے شبیر میں نوٹ کررہی ہوں آج کل آپ بہت پریشان رہنے لگ گئے ہے؟ حالانکہ جو خوش خبری حماد نے سنائی ہے اس کے بعد ایسا چہرہ کچھ سمجھ نہیں آئی مجھے!” لوشن ہاتھوں پر ملتی وہ شبیر زبیری سے بولی تھی۔
“کچھ نہیں بس کام کا لوڈ زیادہ ہوگیا ہے”
“حماد آفس جا تو رہا ہے آپ کے ساتھ، گھر میں بھی کم ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جو وقت اسے اپنی بیوی کو دینا چاہیے وہ آپ کے آفس کو دے رہا ہے پھر کیسی پریشانی؟”
“ہے کچھ۔۔۔۔ چھوڑو تم۔۔ سونے لگا ہوں لائٹ آف کردینا!” لحاف منہ تک اوڑھے وہ بولے تھے۔
مسز زبیری کندھے اچکائے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحام شاہ کو پاکستان آئے دو ہفتے ہوچکے تھے۔۔ زویا نے ان دو ہفتوں میں انہیں پریشان پایا تھا، اگرچہ ان کے چہرے کے تاثرات نارمل تھے مگر ان کا انداز اس بات کی گواہی تھا کہ وہ سخت پریشان تھے۔
“انکل کچھ پریشان ہے بھائی کیا آپ کو وجہ معلوم ہے؟” انہیں فون پر کسی پر چلاتے دیکھ وہ سنان سے بولی تھی جو ان کی حالت کے مزے لیتا کندھے اچکا گیا تھا۔
سنان جانتا تھا کہ ان دو ہفتوں میں انہوں نے ہر طریقے سے گڑیا کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی، مگر ان کی ہر کوشش ناکام ٹھہری تھی۔
“چھوڑو انہیں تمہارے بھائی کو تمہاری مدد چاہیے کرو گی؟”
“جی بالکل بھائی۔” وہ خوش دلی سے مسکرائی تھی۔
“اچھا تو پھر یہ فائل لو اور اسے پڑھ کر مجھے سناؤں۔۔ کیونکہ میرا موڈ نہیں!” مزے سے صوفہ پر ٹیک لگائے اس نے فائل اس کی جانب بڑھائی تھی جس پر زویا کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔
سنان جانتا تھا کہ ارحام شاہ کو پریشان دیکھ وہ بھی پریشان رہے گی اسی لیے اس کی توجہ ہٹانے کو اس نے جان بوجھ کر اپنی فائل اسے دی تھی۔
ان دو ہفتوں میں زویا اور ارحام شاہ کے رشتے میں کچھ حد تک بہتری آگئی تھی۔
“کیا ہوا زویا پڑھو!” اس کی شکل دیکھ سنان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
“وہ۔۔۔وہ۔۔میں۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔۔۔ میں پڑھ نہیں سکتی” جواب دیے اس نے چہرہ جھکا لیا تھا۔۔۔ آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں فائل پر جاگرے تھے۔
“ہے زویا۔۔۔۔ لک ہیئر۔۔۔۔ میری طرف دیکھو۔۔۔۔۔ اٹس اوکے، کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔” دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے سنان نے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا تھا۔
“مگر۔۔۔۔۔ مگر میں بھی پڑھنا لکھنا چاہتی ہوں” ناک سے سانس اندر کھینچے اس نے خواہش کا اظہار کیا تھا۔
“تمہاری یہ خواہش ضرور پوری ہوگی!” اسے اپنے ساتھ لگائے سنان نے اسے تھپتھپایا تھا جبکہ آنکھوں میں غصہ در آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا کچھ معلوم ہوا؟” وائے۔زی کو آتے دیکھ ارحام شاہ نے بےصبری سے پوچھا تھا۔
وائے۔زی کا سر نفی میں ہلا تھا۔۔۔ سنان کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
“چچچچچ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا بھی تھا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔ ویسے میں سوچ رہا ہوں گڑیا اس وقت کہاں ہوگی۔۔۔۔۔ اگر وہ شبیر زبیری کی رکھیل نہیں تو کہی اس کے آدمیوں کی رکھیل۔۔۔۔۔”
“زبان سنبھال کر سنان شاہ۔۔۔ وہ بہن ہے تمہاری” ارحام شاہ کے چلانے پر اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
“میری صرف ایک ہی بہن ہے وہ ہے زویا جو اس وقت میرے پاس۔۔۔۔۔ جس کی بات کررہے ہو وہ تمہاری بیٹی ہے، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں!” سنان نے مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
وائے۔زی نے سر نفی میں ہلائے سنان کو دیکھا جو ارحام شاہ کو تکلیف دینےکے لیے ہر حد پار کررہا تھا۔
ارحام شاہ کو شائد کبھی بھی سنان کی بات پر یقین نہ آتا اگر وائے۔زی اس کی تصدیق نہ کرتا۔
وائے۔زی بھی تیرہ سال کا یتیم بچہ تھا جو ارحام شاہ کو سڑک پر بھیک مانگتے ملا تھا۔
ایک رات ارحام شاہ کے دشمنوں نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ گھر کے لیے نکل رہا تھا اس وقت گولی لگنے سے اس کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی، ایسے میں وائے-زی نے اسے نہ صرف بچایا تھا بلکہ اس کے دشمنوں سے چھپا کر اسے ہسپتال بھی لایا تھا۔۔۔۔ اس کے بعد سے ارحام شاہ نے اسے اپنے بیٹے کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ کیا ہے ہاں؟ کیا تم اسے پریزنٹیشن کہتے ہو؟ کیا اس سے ہم وہ پراجیکٹ حاصل کرے گے؟ بےوقوف سمجھ رکھا ہے سب کو؟” آج پھر سے پورے سٹاف کی شامت آئی ہوئی تھی۔
پچھلے دو ہفتوں سے وہ یہی تو کررہا تھا، اپنا تمام تر غصہ سٹاف کر نکال رہا تھا۔
آج ان کی ایک فارن ڈیلیگیشن سے بہت اہم میٹینگ تھی اور پریزنٹیشن دیکھ اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔
“صرف دو گھنٹے، دو گھنٹے ہیں تم لوگوں کے پاس، اسے ٹھیک کرو نہیں تو سب کو فائر کردوں گا!” انگلی اٹھائے اس نے انہیں وارن کیا تھا جنہوں نے ڈرتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“ناؤ گیٹ لاسٹ!” اس کی دھاڑ پر وہ سب ایک سیکنڈ میں وہاں سے غائب ہوئے تھے۔
پانی کا گلاس لبوں کو لگائے اس نے غصہ کم کرنے کی کوشش کی تھی جب پیون ایک کورئیر لیے اس کے آفس میں داخل ہوا تھا اور کورئیر ٹیبل پر رکھے وہاں سے نکل گیا تھا۔
پانی پیتے ہی اس نے کورئیر اوپن کیا تھا جس میں کورٹ کا خلع نامہ کو لے کر ایک اور نوٹس اسے موصول ہوا تھا۔
غصہ مزید بڑھ گیا تھا، دماغ کی شریانیں پھٹنے کو تھی۔ ایک دم سے اپنی کرسی سے اٹھتا وہ آندھی طوفان بنا آفس سے نکلتا پی۔اے کو میٹنگ کینسل کرنے کا حکم دیے لفٹ کی جانب بڑھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد وہ ماورا کے گھر کے باہر کھڑا تھا۔
گاڑی سے نکلتے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اندر داخل ہوا جہاں سامنے ہی ٹی۔وی لاؤنج میں اسے تایا ابا چائے پیتے نظر آگئے تھے۔۔۔۔۔ ان کی نظر بھی معتصیم پر پڑی تو جھٹ سے اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔
“تم۔۔ تم یہاں کیا کررہے ہو؟” تایا کی دھاڑ پر کچن میں تائی کے ساتھ مگن ماورا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر نکلی تھی جہاں معتصیم کو دیکھ اس کے پیر اپنی جگہ پر جم گئے تھے۔
“آپ کو آپ کے نوٹس کا جواب دینے آیا ہوں!۔۔۔۔۔۔۔ کیاا سوچ کر آپ نے یہ نوٹس بھیجوایا مجھے؟” خلع نامہ ان کے سامنے لہرائے اس نے سوال کیا تھا۔
“دیکھو لڑکے اچھا ہوگا کہ تم اس پر سائن کردو ہماری بیٹی کو تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا” تایا قطعی انداز میں بولے تھے۔
“مگر مجھے رکھنا ہے اور کوئی مجھے روک نہیں سکتا اور جہاں تک بات رہی اس کاغذ کی تو یہ لے۔۔۔” ساتھ ہی اس نے خلع نامہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے تھے۔
ماورا آنکھیں پھیلائیں ان ٹکڑوں کو دیکھ رہی تھی۔
“تمہاری وجہ سے ہم پہلے ہی بہت ذلیل و رسوا ہوچکے ہیں مزید نہیں ہوسکتے۔۔ چھوڑ دو اسے”
“مرتے دم تک نہیں!” تایا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ ٹھوس لہجے میں بولا تھا۔
“اور اب اگر ایسی کوشش کی تو انجام بہت برا ہوگا!” اشارہ کورٹ کے نوٹس کی جانب تھا۔
“ماورا کو تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا!”
“میں اس کے زبان سے سننا چاہتا ہوں۔۔۔۔”
“وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔”
“آپ سے پوچھا میں نے؟” وہ بدتمیزی سے بولا تھا
“اپنی حد میں رہو لڑکے!” تایا ابا اس پر برسے تھے۔
“میری حد کی تو بات ہی مت کرے۔۔۔۔۔ اگر میں نے حد پار کردی تو کل تک پولیس کے ساتھ اس گھر میں ریڈ کروا کر۔۔۔۔۔آپ پر جھوٹا کیس بنوا کر آپ کو آپ کی بیوی بیٹے سمیت جیل پہنچوا دوں گا اور اپنی بیوی کو لے جاؤں گا اپنے ساتھ!” وہ سراسر دھمکی پر اتر آیا تھا۔
“سوچنے کی مہلت دے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ سوچ سمجھ کر اپنی بیوی سے مشورہ کیجیئے اور بتائیے مجھے کہ کب میں اپنی بیوی کو رخصت کروانے آؤں۔۔۔۔۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو نتائج کے زمہ دار آپ خود ہوگے۔” انہیں وارن کرتے اس نے ایک آخری نگاہ ماورا پر ڈالی تھی جو نم آنکھیں میں نفرت، غصہ، حقارت لیے اسے دیکھ رہی تھی اس کے دیکھنے پر رخ موڑ گئی تھی۔
زخمی سا مسکراتا وہ گھر کی دہلیز پار کر گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شزا کی ڈاکٹر کے پاس اپائنٹمنٹ تھی۔۔۔۔۔ اسے تین ماہ ہوچکے تھے اور اب وہ بچے کی صنف جاننےکے لیے ڈاکٹر کے پاس جارہے تھے۔
شزا ایسا نہیں چاہتی تھی مگر شبیر زبیری نے بہت زور دیا تھا۔۔۔۔ ان کے مطابق اگر پہلے ہی معلوم ہوجائے کہ لڑکا ہے یا لڑکی تو اس حصاب سے شاپنگ میں آسانی رہے گی۔
شزا تو ان کے جواب سے مطمئن ہوگئی تھی جبکہ حماد کو دال میں سب کچھ کالا ہی لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیسٹ کے بعد وہ دونوں رپورٹ لینے ڈاکٹر کے آفس میں بیٹھے تھے۔
“مبارک ہو مسٹر حماد۔۔۔۔ بیٹی ہے!” ڈاکٹر کی بارسنتے ہی ان دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
واپسی پر حماد کے شانے پر سر ٹکائے شزا نے اسے دیکھا تھا جو کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
“کیا سوچ رہے ہو حماد؟” شزا نے نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے سوال کیا تھا۔
“سوچ رہا ہوں کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں جس کی پہلی اولاد بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو اللہ جس سے بہت خوش ہوتا ہے اسے پہلی اولاد بیٹی دیتا ہے۔۔۔۔۔نہیں جانتا کہ میں نے ایسی کونسی نیکی کی جس کے سبب اللہ مجھ سے اتنا خوش ہے، مگر جانتا ہوں تو اتنا کہ میں بہت خوش ہوں۔ خود کو اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کررہا ہوں!” اس کا ماتھا چومتے وہ بولا تھا۔
“سب لوگ کتنا خوش ہوگے نا؟”
“ہاں بہت زیادہ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“لڑکی ہے” مسکرا کر اس نے سب لوگوں کو خوشخبری دی تھی۔
جہاں جازل نے حماد کو خوشی کے گلے لگایا تھا۔ وہی مسز شبیر بھی خوشی سے پھولے نا سمارہی تھی۔
وہ اپنی بیٹی کو تو اپنی نااہلی کی وجہ سے گنواچکی تھی مگر اب پوتی کے ناز نخرے اٹھانے کو تیار تھی۔
اگر کسی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا تھا تو وہ تھے شبیر زبیری۔
حماد کو مبارکباد دیے وہ ضروری کام کا بہانہ بنائے وہاں سے جاچکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تو اب تم کیا کرو گے؟ بیٹی پیدا کر رہا ہے تمہارا بیٹا!”
“وہی جو پہلے سوچا تھا مار ڈالوں گا۔۔۔۔۔اس کی بیٹی کو بھی اور بیوی کو بھی!” شبیر زبیری نے مزے سے کندھے اچکائے تھے۔
حماد جو ایک ارجنٹ فائل لیے ان کی سٹڈی کی جانب آرہا تھا اندر سے آتی آوازوں پر اس کے قدم رکے تھے۔
“ویسے اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ اس بار بیٹی ہے تو اگلی بار بیٹا ہوجائے گا۔۔۔ مارنے والی بات سمجھ نہیں آئی؟”
“اس کا باپ ارحام شاہ جان چکا ہے کہ وہ زندہ ہے اور اب پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہے اسے۔۔۔۔۔۔ اگر بیٹا ہوتا تو میں کسی نا کسی طرح سے اسے چھپا لیتا چند ماہ مزید۔۔۔۔۔ مگر اب کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔ ویسے بھی یہ لڑکی اب کسی کام کی نہیں رہی۔۔۔۔۔ میں سوچ لیا ہے اس کا پتہ صاف کرکے اپنی بھتیجی کا نکاح کروا دوں گا حماد سے۔۔۔۔۔۔ اگر اس کا باپ اس تک پہنچ گیا تو سمجھو قیامت برپا ہوجائے گی۔۔۔۔ وہ کسی کو بھی چھوڑے گا!”
“تو کس سے مرواؤ گے اسے؟ جازل سے؟” اس کے سوال پر شبیر زبیری کے لب مسکرائے تھے۔
“نہیں جازل نہیں وہ حماد سے بہت اٹیچ ہے وہ یہ کام نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔”
“تو پھر کون؟”
“بتادوں گا مگر یہ یاد رکھو کہ شزا ارحام سلطان شاہ بہت جلد اس دنیا سے جانے والی ہے۔۔۔۔۔۔۔ سوچ رہا ہوں اس کی مار کر لاش اس کے باپ کو گفٹ کردوں!” شیطانی مسکراہٹ لبوں پر سجائے انہوں نے قہقہ لگایا تھا۔
باہر کھڑے حماد کو جیسے اپنے سر پر ہتھوڑے برستے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اس کا باپ اس حد تک سفاک ہوسکتا تھا اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اپنے بیٹے کی اولاد اور محبت کو مروانا چاہتا تھا۔۔ کیوں؟ کیونکہ اولاد بیٹی تھی اور بیوی دشمن کی بیٹی۔
من بھر کے قدم اٹھاتا وہ جھکے کاندھوں کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...