کیا یار آپی! میں نے آپ سے شادی کرنی تھی، تھوڑا انتظار نہیں کرسکتی تھیں؟
زعیم نے حسب عادت اپنی ہی جھونک میں کہا تھا۔
عشال اچانک ہی چونکی تھی۔
زعیم کی بات پر عشال کے ہونٹوں پر تبسم بکھرا۔ اور کچھ دیر پہلے والے منظر سے دھیان بٹ گیا۔
پتہ ہے؟ اس بار ویلنٹائنز ڈے پر میں آپ کو ریڈ روز دینے والا تھا۔
ایک اور امیدوار!
نورین نے ہنس کر عشال کے کان میں سر گوشی کی۔
چپ رہو، تم تو!
عشال نے بھی سرگوشی میں ہی نورین پر دانت پیسے تھے۔
وہ تینوں آئسکریم کھاتے ہوئے زعیم کی گفتگو انجوائے کررہے تھے۔
وہ مری کے بورڈنگ ہاؤس میں پڑھ رہاتھا۔ چند دن ہی ہوئے تھے اسے آئے ہوئے، اور آتے ہی جو روح فرسا خبر اس نے سنی تھی، اس نے فرسٹ پوزیشن کا سارا مزہ برباد کردیا تھا۔
ایک ہفتے بعد اسے واپس جانا تھا۔ اور اس وقت سے اس کا غم غلط ہی نہیں ہورہا تھا۔
حالانکہ وہ آدھا کلو آئسکریم بڑے آرام سے ڈکار چکا تھا۔
تم پہلے بتادیتے تو میں انتظار کر لیتی۔
عشال نے تھوڑی کے نیچے مٹھی رکھے، مسکرا کر کہا تھا۔
میں تو آپ کی اسٹڈیز کا سوچ کر رکا ہوا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا، آپ اتنی جلد باز نکلیں گی۔
زعیم کی بات پر باجماعت قہقہہ پڑا تھا۔ جس میں عشال کی دلکش ہنسی بھی شامل تھی۔
چلو کسی نے تو میری اسٹڈیز کا سوچا!
عشال نے ہنستے ہنستے اسے جواب دیا۔
فکر مت کریں، آغا جان نے بھی ضرور سوچا ہوگا۔
زعیم نے ایک بار پھر آئسکریم آرڈر کردی تھی۔
سولہ آنے سچ!
نورین نے عشال کو دیکھ کر بوڑھیوں کے انداز میں کہا تھا۔
دیکھ لو، تم سے زیادہ تو زعیم کو بھروسہ ہے، آغا جان پر۔
نورین نے زعیم کی پشت تھپکی تھی۔
میں اپنے بزرگوں کو آپ دونوں سے زیادہ جانتا ہوں۔
زعیم نے تیزی سے تیسری بار آئسکریم بؤل خالی کرنا شروع کیا تھا۔
پھر لیٹ کیوں ہوگئے؟
عشال نے اسے چھیڑا۔
بس۔۔۔!(مصنوعی آہ بھری)
اوور کانفیڈنس میں مارا گیا۔
عشال ایک بار پھر ہنسنے پر مجبور ہوئی تھی۔
اسی لمحے نورین کا سیل بجا تھا۔
جی! ڈیڈ! بس ہم نکل ہی رہے تھے۔
دوسری طرف مرتضی صاحب تھے۔ اور ان کی واپسی کا پروگرام جاننا چاہتے تھے۔
چلو فورا نکلنے والی کرو۔ نورین نے کال ختم کرتے ہی عشال اور زعیم سے کہا تھا۔ آبریش کے آج کل مڈٹرمز چل رہے تھے، چنانچہ وہ ان کے ساتھ نہیں تھی۔
کیا آپی؟ تھوڑی دیر تو رکیں یار؟
زعیم نے احتجاج کیا۔ اس کی آئسکریم ابھی باقی تھی۔
زعیم! گیارہ بج رہے ہیں، دوگھنٹے ہوچکے ہیں ہمیں گھر سے نکلے ہوئے، اب اٹھو!
نورین نے فورا دھونس جمائی تھی۔اس عرصے میں عشال اٹھنے کی تیاری میں تھی۔
اچھا ناں! یہ آئسکریم تو ختم کرنے دیں؟
وہ پوری تندہی سے مصروف ہوچکا تھا۔
کتنا کھاؤگے؟ پیٹو! اٹھ جاؤ بس!
نورین نے اسے جھڑکا، خیالوں میں وہ مرتضی صاحب کا غصیلہ چہرہ دیکھ چکی تھی۔
اللہ! کیسی بہن ہیں، ذرا جو بھائی کی صحت سے پیار ہو؟ بس ہر وقت میرے نوالے گنتی رہا کریں، اللہ چھوٹا بھائی بھی کسی کو نہ بنائے۔
وہ دہائیاں دیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
کار میں بیٹھتے ہوئے، عشال نے ایک بار اس طرف دیکھا تھا، جہاں شامی اسے نظر آیا تھا، کسی لڑکی کے ساتھ!
************
شامی!
عائشہ نے اسے پورچ میں ہی جالیا تھا۔ اور وہ ماں کو دیکھ کر مزید بدمزہ ہوا تھا۔
اوہ مام! پلیز ناٹ اٹ آل!
وہ بیزاری سے تھکن ظاہر کرتا آگے بڑھا تھا۔ لیکن عائشہ نے پرواہ کیے بغیر قدم اس کے پیچھے ڈال دیے تھے۔
اس کا نام، عشال زبر جرد ہے ناں؟
عائشہ کی آواز نے سیڑھیوں پر ہی شامی کے قدم جکڑ لیے تھے۔
واٹ؟
وہ کرنٹ کھا کر مڑا تھا۔
عائشہ دو سیڑھیاں طے کرکے اس کے سامنے کھڑی، شامی کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔
وہ بس خاموشی سے ماں کو دیکھے گیا۔
ہم پوزل لے کر جارہے ہیں وہاں۔
شامی کی آنکھیں ذرا سی پھیلیں اور پھر ان میں آتش بازی سی پھوٹی تھی۔
اپنے والدین کی صلاحیتوں کاتو وہ ہمیشہ سے قائل تھا۔
************
“بات دراصل یہ ہے، بھائی صاحب! صارم کے جانے میں میں صرف نو دن ہی رہ گئے ہیں، تو آپ لوگ اجازت دیں تو آج کل میں منگنی کی تاریخ رکھ لیں۔ باقی شادی ہم دس ماہ بعد کر لیں گے۔ اس سے پہلے صارم کو چھٹی نہیں ملے گی۔ ورنہ میری تو خواہش تھی، صارم کے جانے سے پہلے اس کے سر پر سہرا سجا دیکھ لیتی۔
شہیر ولا میں آج پھر شافعہ کی آمد ہوئی تھی۔ رشتے کےلیے باقاعدہ ہاں ہوتے ہی انھوں نے معاملات آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ضیاءالدین صاحب نے آغا جان کی طرف دیکھا تھا۔ بحرحال عشال کے اصل سرپرست تو وہی تھے اور خاندان کے موجود بزرگ بھی۔
ضیاءالدین صاحب کی نظروں کے تعاقب میں شافعہ نے بھی روئے سخن آغاجان کی طرف ہی موڑ دیا تھا۔
بیٹا!ہم آپ کی مجبوری کو سمجھ رہے ہیں۔
آغا جان نے بھی کھنکھارتے ہوئے سنبھل کر گفتگو کا آغاز کیا۔
آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن منگنی کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو منگنی کے بجائے نکاح کردیا جائے۔
جی۔۔۔؟
شافعہ کو وقتی طور پر جھٹکا سا لگا تھا۔ البتہ صارم کا چہرہ کھل ساگیا تھا۔ جسے وقار نے خاص طور سے محسوس کیا تھا۔
جبکہ عشال کی نظریں غیر ارادی طور پر صارم سے ٹکرائی تھیں، جس کے چہرے پر بل بورڈ کی طرح، ” ہاں،ہاں اور بس ہاں” صاف پڑھا جاسکتا تھا۔
کیوں آپ کے لیے یہ ممکن نہیں؟
آغا جان نے شافعہ کی حیرت کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
نہیں! آغاصاحب!
ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
شافعہ کو کہنا پڑا۔ کہ سب کی نظر بچا کر صارم نے ان کا ہاتھ دبارکھا تھا۔
لیکن اتنی جلدی نکاح کے انتظامات کیسے ہو پائیں گے؟
سطوت آراء نے ہلکے پھلکے انداز میں آغا جان سے کہنے کی کوشش کی۔
منگنی کے لیے تو وہ تیار تھیں لیکن نکاح؟ بات انھیں بھی کچھ ہضم نہیں ہورہی تھی۔
گھر کے چند افراد کی موجودگی میں سادگی سے نکاح کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئےگی۔
بیٹا! آپ کے لیے کوئی مسئلہ تو نہیں؟
آغا جان نے ایک بار شافعہ سے پوچھا۔
شافعہ اب سنبھل چکی تھیں۔ صارم سے بمشکل ہاتھ چھڑوایا اور مسکرا کر بولیں۔
بالکل بھی نہیں! جن چند لوگوں کی موجودگی میں منگنی ہوسکتی ہے، انھی کی موجودگی میں نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن فی الحال میں شگن ضرور کروں گی۔ کیوں آغا صاحب؟ اجازت ہے؟
اور آغا جان نے بھی مسکرا کر انھیں اجازت دے دی۔
شافعہ صارم کے پہلو سے اٹھ کر عشال کے پاس جا بیٹھیں اور دو خوبصورت کنگن اس کی کلائی میں چڑھادیے۔
آبریش دلچسپی سے سارا منظر تک رہی تھی۔
************
شامی کو نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ وہ کافی دیر سے کروٹیں بدل رہا تھا۔ نہ جانے یہ عائشہ کی کہی بات کا اثر تھا، یا کوئی الہام! اک بے نام سے بے کلی اسے مسلسل گھیرے ہوئے تھی۔ اور ذہن بار بار بھٹک کر عشال کی طرف چلا جاتا تو کبھی عائشہ کی دی ہوئی نوید کی طرف۔
اس نے کمفرٹر ایک طرف پھینکا اور اے سی کی کولنگ بڑھا دی۔ ذرا سا اٹھ کر تکیہ سیدھا کر کے نیم دراز ہوگیا۔
قریب پڑا موبائل اٹھایا اور فیس بک کھول لی۔
سات ماہ ہوچکے تھے اسے فرینڈ ریکوئسٹس بھیجتے ہوئے لیکن ابھی تک ایکسیپٹ نہیں ہوئی تھی۔
پھر کسی خیال کے تحت اس نے نورین کا نمبر پریس کیا۔
سات آٹھ بیلز کے بعد بالآخر کال پک ہوگئی۔
ہیلوووو!
نیند میں ڈوبی اس کی آواز میں فقط سستی تھی۔ اس نے شاید دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی تھی کہ کال ہے کس کی؟
ہیلو! سورہی ہو؟
شامی کا خیال تھا باقی دنیا بھی صبح کے انتظار میں گھڑیاں گن رہی ہوگی۔
نہیں کرکٹ کھیل رہی ہوں۔ تم بتاؤ اس وقت کال کیوں کی ہے؟ وہ شاید اب حواس میں آگئی تھی اور شامی کو پہچان بھی چکی تھی۔
سوری! میں نے تمہیں جگا دیا۔ لیکن کیا کروں تمہاری دوست میری نیند کی دشمن ہوگئی ہے، سوچا اب تھوڑا سا حساب بے باق کر لیا جائے۔
کیا کہہ رہے ہو یار! یہ باتیں تم کسی اور وقت بھی کرسکتے تھے۔ پلیز سو جاؤ، اور مجھے بھی سونے دو!
نورین نے فی الحال اسے عشال کے رشتے کی خبر دینا مناسب نہیں خیال کیا تھا۔ وہ صرف جان چھڑانا چاہتی تھی۔
مطلب یہ کہ! میں کل شام اپنے پیرنٹس کے ساتھ اس کے گھر آرہا ہوں۔ پرپوزل لے کر!
واٹ؟
نورین کے چودہ نہیں سارے کے سارے طبق روشن ہوگئے تھے۔
تم اتنی حیران کیوں ہو؟
شامی نے اس کی حیرت کا مزہ لیا تھا۔
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔ اوکے؟
میں صبح یونی میں تم سے ملتی ہوں پھر بات کریں گے۔
نورین کے لیے یہ معاملہ وائنڈ اپ کرنا ضروری ہوگیا تھا۔
وائے؟
شامی کا موڈ ایکدم ہی بدلا تھا۔
کہا ناں! مل کر بات کریں گے۔
نورین نے اسے ٹالنا چاہا۔
نہیں! ابھی بات کرو، جو بھی ہے۔
وہ ہٹیلے انداز میں اس سے مخاطب ہوا تھا۔
شامی! ہر بات فون پر نہیں ہوسکتی۔ کہا ناں صبح بات کرتے ہیں۔
میں اب سونا چاہتی ہوں۔ نورین نے لہجہ بدلا تھا۔ اور جب اگلے ہی لمحے اس کی کال ڈسکنکٹ ہوئی تب شامی کو احساس ہوا۔ ہندسے تین سے تجاوز کرچکے ہیں۔
وہ بیڈ سے اٹھ کر کشادہ بالکونی میں چلا آیا۔ جہاں اب اسے تارے گننے تھے۔
اور نیند تو صارم کو بھی نہیں آرہی تھی۔
“یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”
***********
ہمارا بچہ ہم سے خفا ہے؟
آغا جان نے عشال کو جو یوں منہ سر لپیٹے پڑے دیکھا تو خود ہی اس کے پاس چلے آئے تھے۔
جائیں مجھے آپ سے بات نہیں کرنی!
عشال نے نروٹھے پن سے کہا۔
سوچ لو! ہم سچ مچ چلے جائیں گے۔ پھر ہم سے شکایت مت کرنا۔
آغا جان نے ہمیشہ کا کارگر حربہ استعمال کیا۔
آغا جان!
عشال کو پلٹنا پڑا۔
آپ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔
وہ اب بھی ناراض تھی۔
کیا اچھا نہیں کیا بھلا؟
وہ شرارت سے بولے۔ تو عشال کو لب دانتوں تلے دبانا پڑا۔
آپ نے۔۔۔۔ آتے ہی مجھے پرایا کردیا۔
بالآخر اس نے شکوہ کر ڈالا۔
نہیں میری بچی! بیٹیاں بیاہ کر اور زیادہ اپنی ہوجاتی ہیں۔ شادی کے بعد رشتے ختم تو نہیں ہوتے۔ بلکہ والدین سے بیٹیوں کا تعلق اور مضبوط ہوجاتا ہے۔
آغاجان بڑے سبھاؤ سے اسے سمجھا رہے تھے۔
لیکن فاصلہ تو آجاتا ہے ناں؟
سچ بتائیں، آپ کو اچھا لگے گا، مجھے خود سے دور کرکے؟
عشال کے چہرے پر اب بھی خفگی تھی۔
عشال! میرے بچے! بیٹیوں کا والدین سے دنیا کا عجیب ترین رشتہ ہے۔ جو فاصلوں کے باوجود کبھی کمزور نہیں پڑتا۔ جو لوگ بیٹیوں کو پرایا دھن کہتے ہیں۔ ان کی فہم اور ادراک اتنی ہی اجازت دیتا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے۔ بیٹیاں جب رخصت ہوتی ہیں تو جاتے جاتے اپنی محبت کا پودا مزید توانا کر جاتی ہیں۔
یہ مرحلے ہیں، کارزار حیات کے، انھیں سمجھو بیٹا! اور قدر کرو ان لمحوں کی۔ ہر رشتہ، ہر تعلق انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ نعمت سے منہ مت موڑو، میرے بچے۔ ورنہ، نعمتیں منہ پھیر لیتی ہیں۔
تم سمجھ رہی ہو ناں میری بات؟
أغا جان نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
لیکن میری اسٹڈیز؟
وہ اب بھی خائف تھی۔
تمہیں اپنے آغا جان پر بھروسہ نہیں ہے کیا؟
آغا جان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
ایسی بات نہیں ہے، لیکن ان کو بہت جلدی ہے اور مجھے ابھی پڑھنا تھا۔
وہ شکستگی سے بولی۔
أغاجان مسکرائے۔
وہ تمہاری تعلیم میں کبھی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ یہ ہم جانتے ہیں۔ ہر چیز دیکھ بھال کر ہم نے ہاں کی ہے۔
پھر بھی آغا جان! آپ کو ایک بار ان سے بات تو کرنی ہی چاہیے تھی۔
عشال نے مؤقف بیان کیا۔ پتہ نہیں کیوں۔ اس کے دل کو اطمینان نہیں تھا۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے، بھلا؟ ہم اپنی بچی کو اتنا بڑا سمجھوتہ کیسے کرنے دیتے؟
ہم نے ان سے پہلی بات یہی کی تھی۔ بس تمہیں نہیں بتایا۔
آغاجان نے اس پر بم پھوڑا۔
کیوں آغاجان؟
وہ بے یقین سی انھیں دیکھ رہی تھی۔
ہم دیکھنا چاہتے تھے۔ تم اپنی کمٹمنٹ سے کتنی مخلص ہو؟
انھوں نے مسکرا کر کہا تو، وہ حیرت زدہ سی انھیں دیکھ کر رہ گئی۔
آغاجان!
وہ ان سے خفا ہوکر انھی کے ساتھ لپٹ گئی تھی۔
**********
کہو! کیا کہنا تھا تم نے؟
شامی اچانک ہی نورین کی کار میں اس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا تھا۔
نورین نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔ اور دل ہی دل میں شکرمنایا تھا کہ اس وقت عشال اس کے ساتھ نہیں۔ بیک وقت دو دو طوفان سنبھالنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
لیکن اس کے ستارے آج کچھ گردش میں تھے۔
یہ جگہ مناسب نہیں، کہیں اور چلتے ہیں۔
نورین نے گہری سانس خارج کرکے شامی سے کہا ہی تھا کہ
عشال نے اسے شامی کے ساتھ دیکھ لیا۔ اور وہ لائبریری کی طرف جانا کینسل کر کے اس طرف چل دی تھی۔
*************************
پارکنگ میں آؤ!
نورین کو شامی کا میسیج موصول ہوا تھا۔ اس نے پہلے دائیں بائیں دیکھا پھر وقت، کلاس شروع ہونے میں ابھی ٹائم تھا سو قدموں کا رخ پارکنگ کی جانب موڑ دیاتھا۔۔
نورین کی کار کے پاس کھڑا وہ اسے دور سے ہی دکھائی دے گیا تھا۔
وہ بیقراری سے نورین کی طرف بڑھا۔ نورین نے کار کا فرنٹ ڈور کھولا اور بولی بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
شامی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
میں نے تم سے یہی کہنا تھا کہ عشال کے گھر پرپوزل مت لے جاؤ۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔
کیوں؟
نورین نے ابھی آغاز ہی کیا تھا کہ شامی نے درمیان میں سوال داغ دیا۔ اس کا لہجہ خاصا ترش تھا۔
نورین نے اس کا لہجہ نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا۔
ایکچولی شامی! تم اور عشال بہت ڈفرنٹ ہو، میں سمجھتی ہوں اس بات کو یہیں ختم ہوجانا چاہیے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
اور مجھے اپنی بھلائی نہیں چاہیے۔ مجھے عشال چاہیے، پھر؟
شامی نے ہٹ دھرمی سے جواب دیا تھا۔
نورین نے ایک ناکام سی آہ کھینچی۔اسے غصہ تو بہت آیا لیکن وہ ضبط کرگئی۔ اسے یہ سارا معاملہ سلیقے سے سلجھانا تھا۔ الجھانا نہیں۔
شامی! انسانوں کو چیزوں کی طرح ٹریٹ کرنا چھوڑ دو۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے، جو تمہیں ہر حال میں چاہیے۔
نورین نے بہت کوشش سے لہجہ نرم رکھا تھا۔
اوہ۔۔۔پلیز! میں تمہاری یہ باتیں شروع سے سنتا آرہا ہوں۔ اور اب فیڈ اپ ہوچکا ہوں۔
آخر ایسا کیا ہے؟ کہ وہ میری نہیں ہوسکتی؟
شامی کوئی بھی دوسری بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
شامی! شامی! شامی۔۔۔۔ کیسے سمجھاؤں تمہیں؟
نورین نے اسے ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کی۔
دیکھو! میں نے کئی بار اسے کریدا ہے، لیکن وہ تمہارا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔ اس کے خیال میں تم ایک نان سیریس انسان ہو، اور سچ تو یہ ہے، اس کا اسکیچ بنا کر تم نے اسے مزید خود سے دور کردیا ہے۔
ربش!
شامی سیٹ پر ذرا سا ترچھا ہوا۔ اور بولا۔
میں نے پہلی بار تو اسکیچ نہیں بنایا، اس میں کیا غلط ہے؟ اور اسے واپس بھی کرچکا ہوں! پھر
وہ اس بات کو ایشو کیوں بنارہی ہے؟
I can’t understand؟
شامی کے چہرے پر ناگواری تھی۔
نورین نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولی۔
تمہارے لیے نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ہے، ہماری فیملی میں یہ ہرگز بھی چھوٹی بات نہیں ہے۔ شامی!
تمہیں انڈراسٹینڈ کرلینا چاہیے کہ تمہارے اور اس کے درمیان دراصل ڈفرنس کیا ہے؟
مجھے بس اتنا بتاؤ، پرپوزل لے کر کب جانا ہے؟ اس کے گھر!
کبھی نہیں!
جواب عشال نے دیا تھا۔ اور ساکت نورین ہوئی تھی۔
***********
وہ کب وہاں پہنچی، اس نے کیا سنا کیا نہیں، نورین اور شامی کو احساس نہ ہوسکا۔ البتہ اس کا جواب ان دونوں نے پورے ہوش و حواس میں سنا تھا۔ اور شامی جیسے سلگتی برف ہوا تھا۔
سنا آپ نے مسٹر؟ آپ یہ زحمت مت کیجیے۔
عشال کے لفظوں نے اس برف کو آگ دکھائی تھی۔ وہ سیکنڈز میں کار سے باہر نکلا تھا۔
کیوں؟ محبت کرتا ہوں۔۔۔۔تم سے،ڈیمنڈ!
وہ جیسے بے اختیار ہوا تھا اور جھنجھلاہٹ کا شکار بھی۔
اس کی آنکھیں بے بسی لیے عشال سے سوال کنعاں ہوئی تھیں۔
محبت۔۔۔؟
مجھے دیکھو! اور پھر خود کو!
کیا ہو تم۔۔۔؟
میں سراپا پاکیزگی! اور تم۔۔۔۔ سراپا گندگی!
عشال کیا کہنا چاہتی تھی اور کیا کہہ گئی تھی؟ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
لیکن اس کے لفظوں نے شامی کو کانچ کیا تھا۔ اور کانچ میں دور تک چٹخ پٹخ ہوئی تھی۔
تو مجھے بھی کردو ناں اپنے جیسا!
اس نے ٹوٹے پھوٹے زخم خوردہ لہجے میں جیسے اپنی ذات کا اعتراف کیا تھا۔
عشال اپنی طرف سے بات ختم کرچکی تھی۔ لیکن شامی کے سوال نے اس کے قدم زنجیر کیے تھے۔
ناممکن! تم اور میں ایک راہ پر کبھی مسافر ہو ہی نہیں سکتے۔ جس چیز کو تم زندگی کا نام دیتے ہو، میرے لیے وہ موت ہے۔
وہ بہت حقارت سے اسے دیکھ رہی تھی۔لیکن نورین شامی کو!
نورین تیزی سے کار سے باہر آئی۔ عشال کو روکنا چاہا۔۔۔۔ مگر شامی نے ہاتھ کھڑا کرکے اسے درمیان میں آنے سے روک دیا اور نظریں عشال پر جمائے رکھیں۔
ایک بار! کہہ کر تو دیکھو! ساری زندگی کے لیے خود کو تمہارے حوالے کردوں گا۔ پھر جیسے چاہو گی، جو چاہو گی۔۔۔۔، خود کو ویسا کرڈالوں گا۔ اپنے آس پاس کی پوری دنیا بدل ڈالوں گا۔۔۔ تمہارے لیے! صرف ایک بار۔۔۔۔! صرف ایک بار کہہ کر تو دیکھو!
اس لمحے کوئی یقین نہیں کرسکتا تھا کہ ابشام زبیر کے یہ الفاظ ہوسکتے ہیں؟
مگر لفظوں کے جواہر بھی انہی کا نصیب ہوا کرتے ہیں، جو آبدار ہوں۔ اور عشال زبرجرد در عدن تھی۔ ہاں وہ جنت کا موتی تھی، جنت کا پھول تھی۔ اور پھر بھی تہی داماں۔۔۔
آج تک خود کو اللہ کی چاہت کے مطابق تو بدل نہ پائے؟ میرے لیے کیا بدلو گے؟
میں اللہ کو چاہتی ہوں۔ تم میرے لیے اللہ کو چاہ سکتے ہو؟ عشال نے رک کر اس کے چہرے پر نگاہ گاڑی۔
نہیں ابشام زبیر! تمہاری پرورش حرام پر ہوئی ہے، تم کبھی میرا معیار نہیں ہوسکتے۔
وہ پلٹنے کو تھی کہ ابشام آگے بڑھا۔ عشال نے ہاتھ کھڑا کر کے اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔
اور اس کے لفظوں کو بھی موقع نہیں دیا۔
تم میرے لیے اللہ کو چاہو، تو بھی وہ شرک کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
اور ” مشرک مردوں کے لیے مشرک عورتیں ہیں۔”
اتنا کہہ کر وہ ابشام زبیر کو کھڑے کھڑے حنوط کرگئی تھی۔
اس کا زندگی سے عاری ہوتا چہرہ دیکھنا نورین کے بس میں نہیں تھا۔ وہ بنا کچھ کہے، سر جھکا کر عشال کے پیچھے چل دی تھی۔ خود پر گذرنے والے اس طوفان کو ابشام زبیر نے تنہا ہی جھیلنا تھا۔
**********
ڈل گولڈن رنگ کا جھلملاتا وہ جوڑا صارم برہان کی آنکھیں جگمگا رہا تھا دونوں میں سے زیادہ روشنی کہاں تھی، کہنا مشکل تھا۔ شافعہ کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے سب کچھ بیڈ پر ہی چھوڑ گئی تھیں۔ صارم کا ادھر سے گذر ہوا تو یونہی اس جوڑے نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ جیسے اسے پہننے والی نے اس کا دل کھینچ لیا تھا۔
اس جوڑے کا رنگ دیکھتے ہی وہ دھنک کا ہر رنگ اوڑھے اس کے تصور میں جھملا گئی۔
اسے خود پر ناز ہوا۔ دل ہی دل میں اس نے ایک بار اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ جو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس سے بڑھ کر اسے عطا ہوا تھا۔
آپ ہی آپ اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ بہت جلد ان رنگوں میں ڈھلی وہ سارے حقوق اس کے نام کرنے والی تھی۔
اور وہ لمحے گن رہا تھا۔
***********
تمہیں اس سے اتنی سخت بات نہیں کہنی چاہیے تھی۔ نورین نے عشال کو سرزنش کی۔ اس کا لہجہ بجھا ہوا تھا۔
تو کیا حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی؟
اس شخص کی نظریں ہمیشہ میرا سراپا تلاش کرتی ہیں۔ اس حجاب کے نیچے میں کیسی ہوں؟ یہ ہے اس کی محبت! اور مجھ سے یہ توہین برداشت نہیں ہوتی۔ وہ محض مجھے عیاں دیکھنے کا خواہاں ہے۔ اور یہ میں کبھی ہونے نہیں دے سکتی۔
شادی کے نام پر بھی نہیں۔
یہ صرف میری ذات کی نہیں، محبت کی بھی توہین ہے۔
عشال نے ہوا سے پھڑپھڑاتے جرنل کے صفحات کو قابو کرتے ہوئے نورین سے کہا تھا۔
پھر بھی تمہیں یوں پرسنل نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ تم یہ بات مناسب الفاظ میں بھی کہہ سکتی تھیں۔ کم ازکم اسے “گندگی” نہیں کہنا چاہیے تھا۔ سچ کہوں تو عشال! تمہارے لہجے سے غرور کی بو آرہی تھی۔
نورین نے جو محسوس کیا، اس کا اظہار بھی کردیا۔
عشال کے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی۔
ہو سکتا ہے! لیکن جسے تم غرور کہہ رہی ہو، وہ فخر ہے، جو مجھے اپنی ذات پر ہے۔ اور اس پر واضح کرنامیں ضروری سمجھتی ہوں ، مگر اس جیسے لوگوں پر لفظ ذرا کم ہی اثر کرتے ہیں۔
عشال کچھ بھی محسوس کیے بناء دوبارہ سے نوٹس کی طرف طرف متوجہ ہوچکی تھی۔
ایک بار پھر ان کے امتحان قریب تھے۔
نورین نے تأسف سے اسے دیکھا۔
یہ فخر تمہیں قدرت نے عطا کیا ہے۔ تم آغا سمیع الدین فیروز کے گھرانے میں پیدا ہوئی ہو، اس لیے یہ فخر تمہارے حصے میں آیا ہے، اگر تم زبیر عثمانی جیسے کسی گھر میں پیدا ہوتیں تو کیا تب بھی تمہارے الفاظ یہی ہوتے؟ تب کہاں ہوتا، تمہارا یہ فخر؟
نورین نے اسے لاجواب کرنا چاہا تھا۔
ہاں! انسان کا ذاتی شرف اسے وہاں تک لے ہی جاتا ہے، جو وہ ڈیزرو کرتا ہے۔ اللہ نے مجھے آغا سمیع الدین کے گھر میں پیدا نہ بھی کیا ہوتا، تو میری تلاش مجھے میرے رب تک لے جاتی۔
یہ کوئی کلیہ نہیں ہے، ورنہ آج دنیا میں اتنے لوگ کنورٹڈ نہ ہوتے۔ ہزاروں انسان پیدائشی مسلمان نہیں تھے۔ لیکن وہ اب مسلمان ہیں۔
عشال نے پورے اعتماد سے اسے جواب دیا۔
نورین نے کتابیں سمیٹیں اور کلاس میں جانے کےلیے اٹھ کھڑی ہوئی، نا چاہتے ہوئے، لیکن اس کے جانے کاوقت ہوچکا تھا۔ جاتے جاتے اس نے رک کر ایک نظر عشال کو دیکھا۔ اور بولی۔
ہوسکتا ہے اس کا دل اللہ کی چاہت سے نا آشنا ہو، لیکن اللہ کی قدرت اپنے کسی بندے سے نا شناس نہیں رہتی! میں تمہیں صرف یہی سمجھانا چاہتی ہوں۔
عشال نے سر جھٹکا اور کام میں مصروف ہوگئی۔ نورین کے پاس بحث کاوقت نہیں تھا۔ سو وہ اپنی منزل کی طرف چل دی تھی۔
عشال کو اپنے لفظوں کا قلق نہیں تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی، لفظوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
************
عائشہ نے گھر میں قدم رکھے تو اک عجب احساس نے گھیرا، جیسے عثمانی ولا میں کچھ مختلف ہوا تھا۔ وہ تاریکی کو اپنی چمکتی ساڑھی سے چیرتی ہوئی، تیزی سے سیڑھیاں طے کرآئی تھی۔ لیکن اوپر پہنچتے ہی اس کی آنکھیں پتھر ہوئی تھیں۔عائشہ کی توقع کے مطابق کچھ برا ہوا تھا۔ لیکن اتنا برا ہوا ہے؟ یہ توقع نہیں تھی۔
**********
اسے ایمر جنسی میں اسپتال لے جایا گیا تھا۔ اور فوری ٹریٹمنٹ کا آغاز کردیا گیا تھا۔
عائشہ نے جب لان میں قدم رکھا۔ گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، اور ملازمین سہمے سے لاؤنج میں خاموش تھے۔ اور عائشہ کی آنکھیں دیکھ سکتی تھیں، گھر کی ساری روشنیوں پر شامی کا غیظ کس طرح ٹوٹا ہے؟ اسی لیے اس نے سیدھا شامی کے کمرے کارخ کیا تھا۔ جہاں اس کی کلائیوں سے بہتے خون سے دبیز قالین پچپچا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے کچھ نہیں سوجھا تھا۔
وہ سمجھنے سے قاصر تھی، ایسا کیا ہوا تھا کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی۔ عائشہ کے حساب سے اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا۔ آج تو وہ اس کا پرپوزل لے جانے والے تھے۔ لیکن۔۔۔! ملازم نے جب اسے فورا گھر پہنچنے کا کہا تھا تو، وہ کس طرح خود ڈرائیو کرتی ہوئی پہنچی تھی، وہ ہی جانتی تھی۔
اب تک کی ساری صورتحال پر وہ غوروخوض کررہی تھی۔
مسٹر عثمانی!
ڈاکٹر کی آواز نے عائشہ کا ارتکاز توڑا تھا۔
یس ڈاکٹر؟
زبیر عثمانی الرٹ سے ڈاکٹر کی جانب متوجہ ہوئے جو کسی گہری سوچ میں تھے۔
پیشنٹ اب بہتر ہے۔ ہم نے انھیں ٹریٹمنٹ دے دیا ہے۔ اس وقت وہ دواؤں کے زیر اثر ہیں، صبح تک وہ آپ سے بات کرسکیں گے۔
تھینک یو ڈاکٹر!
آپ نے ہماری پرابلم انڈراسٹینڈ کی۔
زبیر عثمانی نے خوش اخلاقی کافریضہ نبھایا تھا۔
اٹس اوکے سر۔
اور زبیر عثمانی کو تسلی دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
یہ سیدھا سیدھا پولیس کیس تھا۔ لیکن زبیر عثمانی نے اس سے پہلے ہی سب کچھ ہینڈل کر لیا تھا۔
عائشہ نے طمانیت بھری سانس خارج کی اور آنکھیں موند کر کھولیں۔
یہ اسی لڑکی کا معاملہ ہے؟
زبیر عثمانی کے لہجے میں صرف سوال تھا۔
May be!
عائشہ نے فقط اتنا ہی کہا تھا۔
احمق! جذباتی! بیوقوف!
ہر مسئلہ کا ایک سولوشن ہوتا ہے، اور یہ۔۔۔؟ یہ تو ڈھنگ سے ریلیشن بنانا بھی نہیں جانتا۔۔۔
زبیر عثمانی کا بس نہیں چل رہا تھا، اپنے ہونہار بیٹے کی اس حرکت پر اسے جاکر دوچار اچھی سی لگادیں۔
تم جانتی ہو، وہ لڑکی کون ہے؟ خاندان کیا ہے؟ ان کا!
زبیر عثمانی نے جیسے بہت سے خیالات جھٹکتے ہوئے محض سوال کیا تھا۔
مولوی کی بیٹی ہے، استخارہ کے بغیر گھر کے ملازم بھی نہیں رکھتے، اور تمہارے گھر میں آج تک کلمہ نہیں پڑھا گیا۔
عائشہ نے انھیں جتاتے ہوئے جواب دیا۔
ربش! مجھے اس لڑکے سے کسی عقلمندی کی توقع کبھی نہیں تھی۔ لیکن۔۔۔۔۔ خیر! اب اس مسئلے کو میں اپنے طریقے سے ہینڈل کروں گا۔
زبیر عثمانی نے کہہ کر آنکھوں پر نظر کے گلاسز درست کیے تھے۔
عائشہ نے بے پروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسے زبیر عثمانی یا ان کی کسی پلاننگ سے غرض نہیں تھی۔ عائشہ کو انتظار تھا تو صرف شامی کے جاگنے کا۔ وہ مسکن دواؤں کے زیراثر تھا۔
************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...