(Last Updated On: )
دنیا کے راستے پہ لگایا نہ جا سکا
پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا
وہ پیاس تھی کہ بات گلے میں اٹک گئی
خواب شب گناہ سنایا نہ جا سکا
ظلمت تو آشکار ہوئی کشف نور سے
پر روشنی کا پردہ اٹھایا نہ جا سکا
سورج سفر میں ساتھ تھا نصف النہار پر
میری جلو میں خود مرا سایہ نہ جا سکا
یہ جبر کا نظام، یہ خود رو مجسمہ
ڈھایا گیا مگر کبھی ڈھایا نہ جا سکا
اک چوب نم گرفتہ سلگتی رہی مدام
سینے میں جشن شعلہ جگایا نہ جا سکا
بے نام سا گزر گیا خود اپنی اوٹ میں
وہ کون تھا، اسے کبھی پایا نہ جا سکا
٭٭٭