(Last Updated On: )
پارسا کل دردانہ کی طرف آئی تھی۔ سلطانہ بیگم نے اسے سمجھا کر بھیجا تھا کہ کس طرح اسے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوۓ ان گھر والوں کو اپنا اسیر کرنا ہے۔۔۔ وہ دردانہ کے ساتھ سارے کام کروا رہی تھی۔۔۔ ابھی بھی وہ ٹیبل پر ڈنر سَرو کر رہی تھی۔۔ اسے دیکھ کر دردانہ بیگم کا سر چوڑا ہو گیا تھا۔۔
“دیکھ لیں فرمان صاحب یہ ہے میری بہن کی تربیت۔۔ لوگوں کا کیا ہے وہ تو باتیں بنائیں گے۔۔ آپ کے پاس ابھی بھی وقت یے سوچ لیں۔۔” جب پارسا کچن میں گئی تو دردانہ بیگم فرمان نواز سےمخاطب ہوئیں۔۔
“مما أپ اس ٹاپک کو کلوز کر دیں پلیز۔۔ اس گھر میں صرف رمشا آۓ گی۔۔۔ پارسا نہیں ۔” فرمان صاحب سے پہلے ہی رامش نواز بول پڑا۔۔
“رامش۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔” دردانہ بیگم رامش کی بات کے جواب میں اتنا ہی بولیں۔
“مما میں نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں جس کی معافی مانگوں۔۔ آپ ایسی باتیں کر کے میرا موڈ مت خراب کریں۔۔” رامش ایک دم میں اکھڑ گیا۔۔ رمشا سے آخری مرتبہ بات کرنے کے بعد سے وہ اسی طرح ہو گیا تھا۔۔
“رمشا اس گھر میں بسنے والی نہیں ہے بیٹا۔۔۔ کیوں مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہو۔۔۔ میں تو۔۔۔” دردانہ بیگم اور بھی بول رہی تھیں کہ رامش وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔
*———————-*
“میسی میں ایبک سے شادی کرنے کے لیۓ تیار ہوں۔۔ بس میری منگنی ہو جانے دو۔۔ اس کے بعد کسی بھی دن تم اسے بُلا لینا۔۔۔” رومیسہ کے فون اٹھاتے ہی رمشا تیز تیز بولنے لگی۔۔۔
“اب آئی ہو تم لائن پر مشی۔۔ مجھے یقین تھا کہ تم یہی فیصلہ کرو گی۔۔۔ ایسے ہی میرا کہا مانو گی تو دیکھنا سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔۔” رومیسہ خوشامدی لہجے میں بولی۔۔۔
“میں نے یہ بکواس سننے کے لیۓ فون نہیں کیا۔۔ صرف اپنا فیصلہ بتایا ہے تمہیں۔۔” رمشا نے موبائیل آف کر کے بیڈ پر پھینک دیا۔
“تمہاری اتنی ہمت میرے ساتھ اس طرح بات کرنے کی۔۔۔ اب دیکھنا میں کیا کیا کرواتی ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔” رومیسہ نے ایبک کا نمبر ٹرائی کیا۔۔۔
“ہاں ایبک۔۔ مچھلی جال میں پھنس چکی ہے۔۔۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے پھر وہ تمہارے بیڈ روم کی زینت بن جاۓ گی۔۔۔”
“صرف میرے بیڈ روم کی ہی نہیں, بےشمار رومز کی۔۔۔ میں شوکت خان سے ڈیل فائنل کر لوں تمہاری رمشا کی۔۔۔؟”
“ہاں ہنڈرڈ پرسنٹ۔۔۔ میرا شیئر بھی ریڈی رکھنا۔۔۔” رومیسہ نے فون رکھ دیا۔۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی تھی۔۔
*——————–*
رانیہ صبح گیارہ کے قریب رمشا کے گھر آئی مگر وہ وہاں کہیں نہیں تھی۔۔ اس نے اس کا نمبر ملایا جو آف جا رہا تھا۔۔
“یا اللہ یہ لڑکی کیا کرنے جا رہی ہے۔۔۔ کیوں اپنا تماشا بنوا رہی ہے۔۔۔ یہ تو بے وقوف ہے تُو اسے سیدھا راستہ دکھا دے اللہ۔۔۔” رانیہ نے اللہ سے سچے دل سے رمشا کے لیۓ دعا مانگی۔۔۔
رانیہ کافی دیر رمشا کے کمرے میں اس کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہیں آئ۔۔ اچانک اس کی نظر اس کے دراز میں پڑی۔۔ وہاں پر رمشا کا موبائیل تھا۔۔ اس نے اسے آن کیا اور کال ہسٹری چیک کی۔۔ وہاں اسے کچھ خاص نہیں ملا تو اس نے انباکس کھولا۔۔
“ایبک نے سارا انتظام کر لیا ہے۔۔ میں دو تین دن میں تمہیں شادی کی ڈیٹ بتاؤں گی۔۔۔” رومیسہ کا میسج دیکھتے ہی رانیہ کے پیروں تلے زمین سرک گئی۔۔ اس نے جلدی سے اپنے موبائیل سے اسے میسج بھیجا۔۔
“السلام علیکم رومیسہ۔۔
مجھے رمشا کے سلسلے میں امپارٹنٹ بات کرنی ہے۔۔ اینی ایڈریس۔۔؟؟
رانیہ۔۔”
رومیسہ نے میسج پڑھتے ہی ایک دم میں ایڈریس ٹیکسٹ کیا اور ساتھ میں ایبک کو میسج بھیجا۔۔
“قسمت کچھ زیادہ ہی مہربان ہو رہی ہے ایبک۔۔۔ جلدی سے پرنس ہوٹل, روم نمبر 10 میں پہنچ جاؤ۔۔ سرپرائز تیار ہے۔۔۔”
*——————-*
پارسا صبح سویرے چاۓ لے کر رامش نواز کے کمرے میں آئی تھی۔۔ اس نے اپنے گیلے بال پشت پر پھیلاۓ ہوۓ تھے اور دوپٹا گلے میں ڈالا ہوا تھا۔۔ اس کے کپڑے بھی بہت چست تھے۔۔ رامش کو اس سے وحشت ہونے لگی۔۔
“ہزار دفعہ کہا ہے کہ میرے کمرے میں مت آیا کرو۔۔ پھر کیوں آ جاتی ہو منہ اٹھا کر۔۔۔” رامش نے اپنا منہ چادر میں چھپا لیا۔۔۔
“میں نے سوچا تمہیں اپنے ہاتھ سے بنی چاۓ دے دوں۔۔۔ آفٹر آل ہم کزن ہیں رامش۔۔ ” پارسا نے دوپٹا وہیں نیچے گرا دیا اور رامش کے سر سے چادر ہٹائ۔۔۔ اس کے کالے گھنے بال رامش کے چہرے پر پھیل گۓ اور وہ خود رامش کے اوپر گر گئ۔۔ رامش نے اسے دھکیلنا چاہا مگر پارسا نے اس کے گرد اپنے بازو حمائل کر دئیے۔۔۔
“میں اپنا آپ تمہیں سونپنا چاہتی ہوں رامش۔۔ مجھے اپنے سے دور مت کرو۔۔ میری قربت کو محسوس تو کر کے دیکھو, رمشا کو بھول جاؤ گے۔ ” پارسا نے رامش کے گالوں کو اپنے ہونٹوں سے چوما۔۔رامش نے ایک جھٹکے سے اسے پرے دھکیلا۔۔ وہ وہیں بیڈ کے دوسری طرف گر گئ۔۔
“عورت پر ہاتھ اٹھانا مجھے میری ماں نے نہیں سکھایا پارسا۔۔ ورنہ تمہاری اس حرکت کے بدلے تمہارا چہرہ لال کر دیتا۔۔۔” اس نے پارسا کو بیڈ سے اٹھایا اور دھکیلتا ہوا کمرے سے باہر نکال دیا۔۔۔ پارسا نے بہت منت کی کہ وہ ایک مرتبہ اس کو آزماۓ مگر رامش نے اس کی ایک نہ سنی۔۔۔۔
______
رانیہ کافی دیر سے رومیسہ کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔۔ جوں جوں وقت کا پہیہ چل رہا تھا اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔ اس نے رومیسہ کو میسج بھیجا کہ مزید کتنا ویٹ کرنا ہے تو اس نے لکھا کہ بس پانچ منٹ۔۔ یہ پانچ منٹ کاٹنا رانیہ کے لیۓ بہت بھاری گزر رہے تھے۔۔۔ باہر اذان کی آواز گونجنے لگی۔ رانیہ نے پوری اذان سنی اور اس کا جواب دیا۔۔ اس کی بے چینی تھوڑی سی کم ہو گئی تھی۔۔۔
کمرے کا دروازہ کھلا تو باہر سے ایبک اندر داخل ہوا۔۔۔ اس کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔۔۔
“تھینک یو رومیسہ فار سچ آ بیوٹیفُل سرپرائز۔۔۔” ایبک نے میسج ٹائپ کر کے رومیسہ کو بھیج دیا۔۔
*————–
شہریار آفریدی آج صبح سے ہی بہت بے چین تھا۔ اس کا کسی کام میں جی نہیں لگ رہا تھا اسی لیۓ اس نے آج کی میٹنگز کینسل کیں اور گھر آ گیا مگر اس کی بے چینی بدستور قائم تھی۔ ایسا لگ رہا تھا اس کا دل کسی نے اپنی مٹھی میں جھکڑ لیا ہو۔ کسی بہت اپنے کی تکلیف اسے اپنی اوٹ میں محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے گاڑی نکالی اور بس سٹاپ کی طرف نکل گیا جہاں پر رانیہ اسے مل جاتی تھی۔۔۔ مگر آج رانیہ وہاں کہیں بھی نہیں تھی۔۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔
“یا اللہ رانیہ جہاں کہیں بھی ہے اسے اپنی حفاظت میں رکھیں۔۔” شہریار نے اللہ سے رانیہ کے لیۓ دعا مانگی۔۔۔
آج ہم بات کریں گے قران پاک کی پہلی سورۃ یعنی الفاتحہ کے بارے میں۔۔ ﯾﮧ ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻻ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﺗﯽ ہے۔۔ کیسے کرتی ہے اس کا اندازہ آپ کو بخوبی ہو جاۓ گا۔۔
• ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ ﺭَﺏِّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴﻦ
ﮨﻤﯿﮟ ﻋﺪﻡ ﺳﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ، ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ صرف اور صرف اللہ ہے۔۔ اس پورے جہان کو پالنے والا کون ہے۔۔؟؟ بے شک وہ اللہ ہی ہے۔۔
• ﺍَﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﯿْﻢ
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﮭﺎﻣﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻼﻧﮯ ﻭﺍلی ذات بھی اللہ ہی کی ہے اور ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ بھی ﮨﻢ اسی کے ﺳﮩﺎﺭﮮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔
• ﻣَﺎﻟِﮏِ ﯾَﻮْﻡِ ﺍﻟﺪِّﯾْﻦ
ﮨﻤﯿﮟ اس جہان فانی سے ﺁﺧﺮﺕ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ بھی صرف اللہ ہی ہے۔
• ﺍِﯾَّﺎﮎَ ﻧَﻌْﺒُﺪُ ﻭَﺍِﯾَّﺎﮎَ ﻧَﺴْﺘَﻌِﯿْﻦ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ہے, ﺗﻮ ﺑﺲ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ اور ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ہیں۔ ﺟﺐ ہم نے ﺍﺱ ﮐﯽ غلامی ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ہے تو پھر ﺍﺏ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﮭﮑﯿﮟ ﮔﮯ۔ صرف اسی کی عبادت کریں گے۔
• ﺍِﮬْﺪِﻧَﺎ ﺍﻟﺼِّﺮَﺍﻁَ ﺍﻟْﻤُﺴْﺘَﻘِﯿْﻢَ
جب اللہ ہم سے پوچھتا ہے کہ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮ … ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮨﯽ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ … آپ ہی کا راستہ مانگتے ہیں۔۔۔ ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺟﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺁﭖ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﮮ۔۔۔
• ﺻِﺮَﺍﻁَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺃَﻧْﻌَﻤْﺖَ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢ ﻏَﻴْﺮِ ﺍﻟْﻤَﻐْﻀُﻮﺏِ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻭَﻟَﺎ ﺍﻟﻀَّﺎﻟِّﻴﻦ
یا اللہ ﮨﻤﯿﮟ ان افراد میں شامل فرما دے جن پر تو نے اپنا ﺍﻧﻌﺎﻡ کیا ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ اس راستے سے بچا جو ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ کی طرف لے جاۓ اﻭﺭ ہمیں اپنے ﻏﻀﺐ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﺩے۔ (آمین)
میڈم رانیہ نے لیکچر ختم کیا اور ڈائس کی طرف گئیں۔۔ وہ کافی دیر سے نوٹ کر رہی تھیں کہ رانیہ آج کلاس سے غیر حاضر ہے۔ ایسا تو بہت کم ہوتا تھا, ورنہ وہ سب سے پہلے آ کر پہلی رَو میں ان کے سامنے بیٹھ جایا کرتی تھی اور انہماک سے اپنے نوٹس تیار کرتی۔ آج اس کی کرسی خالی تھی, کوئی بھی لڑکی اس کی جگہ پر نہیں بیٹھی تھی۔۔ شاید سب کو انتظار تھا کہ دیر سے ہی سہی مگر وہ آ جاۓ گی۔۔
*————————-
رات کے دس بج چکے تھے مگر شہریار آفریدی ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔ تانیہ کو اس کی بہت فکر ہونے لگی۔ اس نے شہریار افریدی کو کال ملائی جو اس نے اٹینڈ نہیں کی۔ وہ باہر لان میں آ کر ٹہلنے لگ گئی۔ کافی دیر بعد شہریار آفریدی کی گاڑی آئی۔ وہ گاڑی سے اتر کر سیدھا اندر جانے لگا جب تانیہ اس کی طرف بڑھی۔۔
“بہت دیر سے آۓ ہیں جی آپ شہریار صاحب۔ بندہ اپنا موبائیل ہی دیکھ لیتا ہے کہ کسی نے کال تو نہیں کی۔۔”
“ہاں میں ایک ضروری کام کر رہا تھا۔۔۔” شہریار آفریدی نے وہیں کھڑے کھڑے جواب دیا۔۔ تانیہ کو وہ کافی الجھا الجھا سا لگا۔۔
“اتنی بے رخی کیوں کر رہے ہیں شہریار صاحب۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے دل کی کیفیت مجھ سے چھپا سکتے ہیں تو یہ جھوٹ ہے جی۔ سب جانتی ہوں میں آپ کس آگ میں جھلس رہے ہیں۔۔” تانیہ اب شہریار آفریدی کے عین سامنے آ گئی اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولی۔۔
“کیا مطلب۔۔۔۔ کیا کہنا چاہتی ہو۔۔؟؟”
“مطلب یہی کہ آپ کو پیار ہو گیا ہے اور آپ یہ بات خود سے بھی چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔”
شہریار آفریدی جواب میں کچھ نہیں بولا۔۔ صرف ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔ یہ مسکراہٹ تانیہ کو بہت کچھ سمجھانے کے لیۓ کافی تھی۔۔
“آپ کی اس ہنسی کو کسی کی نظر نہ لگ جاۓ شہریار صاحب۔۔ تانیہ آپ کی اس ہنسی کے لیۓ اپنی جان تک دے سکتی ہے۔۔۔” تانیہ خود کلامی کرتے ہوۓ اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
*————————–*
“تھینک یو سو مچ رمشا۔۔۔ تمہاری وجہ سے آج میں بہت خوش ہوں۔۔” رمشا نے گھر آ کر دراز سے فون نکال کر آن کیا تو رومیسہ کا ٹیکسٹ دیکھا۔۔
“اینی ٹائم میسی۔۔۔” رمشا نے اس کی بات کا مطلب سمجھے بغیر ریپلائی کیا۔۔
اس کے بعد اس نے رانیہ کا نمبر ملایا۔۔ دوسری بیل پر ہی اس نے کال پک کر لی۔۔۔
“ہاۓ رانیہ کہاں ہو تم۔۔؟؟”
“میں سنٹر جا رہی ہوں, راستے میں ہوں۔۔ بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔ اللہ حافظ” رانیہ نے جلدی جلدی بات کی اور فون بند کر دیا۔ رمشا کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا مگر اس نے اس خیال کو جھٹک دیا۔۔۔
*————————*
“السلامُ علیکم رمشا باجی!! آپی سے میری بات کروا دیں ۔۔ کافی دیر سے ان کا نمبر ٹرائی کر رہی ہوں مگر بند ہے۔” جب آٹھ بج گۓ اور رانیہ گھر نہیں آئی تو مہرین نے رمشا کو کال ملائی۔۔
“میں کیسے بات کرواؤں مہرین۔۔ میرے ساتھ تو نہیں ہے رانیہ۔۔” رمشا نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔
“یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں رمشا باجی۔۔ میں جب سے کالج سے آئی ہوں وہ غائب ہیں۔۔ میں نے سنٹر بھی کال کی تھی مگر آج آپی وہاں بھی نہیں گئ۔۔” مہرین کی تو جان ہی نکل گئی۔۔ ابھی تک وہ تو یہ سوچ کر کچھ پر سکون تھی کہ رانیہ رمشا کی طرف ہی ہو گی۔۔۔
“میں سچ کہہ رہی ہوں رانیہ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں ہے رانیہ کا۔۔ اِن فیکٹ میں صبح سے گھر نہیں تھی۔۔ واپس آ کر اسے کال کی تو اس نے بتایا تھا کہ وہ سنٹر جا رہی ہے۔”
“لیکن وہ تو سنٹر نہیں گئیں۔ پلیز رمشا باجی آپ میری طرف آ جائیں۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔ آپی کبھی بھی اتنی دیر تک باہر نہیں رکیں۔۔ اللہ کرے سب خیریت ہو۔۔۔”
“میں ابھی آتی ہوں مہرین۔۔ تم گھر ہی رہو اور کسی کے لیۓ بھی دروازہ مت کھولنا۔۔” رمشا نے مہرین کو احتاطی تدابیر بتا کر فون بند کر دیا۔۔۔
*—————————*
رامش کے کمرے سے نکالے جانے کے بعد پارسا سیدھی اپنے کمرے میں گئی اور سلطانہ بیگم کو فون کیا۔۔
“امی اب میں مزید یہاں پر نہیں رک سکتی۔۔ اپنا آپ بچھانے چلی تھی اس رامش پر مگر وہ تو میری طرف دیکھتا ہی نہیں۔۔۔”
“دیکھے گا وہ تیری طرف بھی۔۔ بس تو ویسا ہی کر جیسا تجھے سمجھایا تھا۔۔ اور ہاں دردانہ کے مزاج کیسے ہیں۔۔۔؟؟”
“وہ تو میرا بہت خیال رکھ رہی ہیں امی لیکن ان کے خیال سے مجھے غرض نہیں۔۔ میں تو رامش کے لیۓ ادھر آئی ہوں۔۔”
“انتظار کر پارسا۔۔ میں نے دھوپ میں بال نہیں سفید کیۓ۔۔ رامش اگر میری بیٹی کے نصیب میں نہ ہوا تو میں اسے رمشا کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گی۔۔”
*————
اذان سننے کے بعد رانیہ واش روم گئی اور وضو کرنے لگی۔۔ وضو کرتے وقت اسے بہت گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔۔ اس کو چکر آنے لگے اور دم گھٹنے لگا۔۔۔ وضو کر کے اس نے بمشکل اپنا حجاب درست کیا اور دیوار کے سہارے دروازہ کھول کر باہر آئی۔۔ ایبک پر اس کی نظر پڑی۔۔ اسے کسی انہونی کا احساس ہوا۔۔ اس نے بھاگنا چاہا مگر اس کے قدم بہت بھاری ہو گۓ تھے۔۔ ایبک اس کی طرف بڑھا۔۔۔
“یا رحیم !! میری مدد فرما۔۔۔۔” رانیہ نے اللہ سے رحم مانگا۔۔۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ آخری منظر میں اس نے ایبک کو اپنے اوپر جھکتے دیکھا۔۔
*———————*
کل رامش کی منگنی کا دن تھا۔ دردانہ بیگم کی ساری تیاری مکمل تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو کافی حد تک سنبھالا ہوا تھا ورنہ پارسا کا دکھ انھیں چین نہیں لینے دے رہا تھا۔۔ ابھی بھی وہ پارسا کے کمرے میں تھیں۔۔
“خالہ ایک کام بتایا تھا امی نے آپ کو اور وہی کرتے ہوۓ آپ کی جان نکل گئی۔ آپ کو میری ذرا بھی پروا نہیں۔۔” دردانہ بیگم سے بات کرتے ہوۓ پارسا آنسو بہانے لگی۔۔
“ایسا نہیں ہے پارسا۔۔ تم میرے لیۓ رامش سے بڑھ کر ہو۔۔ میں نے تو پوری کوشش کی ہے لیکن فرمان صاحب کے آگے ہار گئی ہوں۔۔” دردانہ بیگم نے پارسا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔
“سب نظر آ رہا ہے مجھے کس طرح آپ منگنی کی تیاری میں پیش پیش ہیں۔ یہ سب آپ سے کوئی زبردستی تو نہیں کروا سکتا۔” پارسا نے ایک دم میں اپنا ہاتھ چھڑوایا۔
“میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کرو پارسا۔۔ میں یہ سب اس گھر میں رہنے کے لیۓ کر رہی ہوں۔۔۔ ابھی تو صرف منگنی ہی ہو رہی ہے شادی تو نہیں۔۔۔”
“مجھے آپ پر بالکل اعتبار نہیں خالہ۔۔ آپ نے میری ذندگی تباہ کر دی ہے۔۔۔ رامش کو میں کبھی خوش نہیں رہنے دوں گی۔۔” پارسا یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔ دردانہ بیگم کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح سے سب کچھ سمیٹ لیں۔۔
*—————–
رانیہ نے جیسے ہی ایبک کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو اس کو اپنی دنیا کے ختم ہونے کا احساس ہوا۔ آخری مرتبہ اس نے ایبک کو اپنے اوپر جھکتے دیکھا۔۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ ایبک نے اس کو ہلانے کی کوشش کی مگر وہ بے ہوش ہی رہی۔۔ ایبک نے تو سوچا تھا کہ یہاں پر رمشا جیسی کوئی لڑکی ہو گی مگر رانیہ تو بہت مختلف تھی۔ اس کا چہرہ حجاب میں مقید تھا جس پر بلا کی معصومیت تھی۔ ایبک کو اس چہرے کو دیکھ کر ایک خوف سا محسوس ہوا۔۔ اچانک ہی دروازہ کھلا اور فلیش لائٹس کی روشنی کمرے میں پڑی۔۔
*—————————-*
رمشا مہرین کے پاس پہنچ گئی تھی۔ اُس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اسے تسلی دے سکے۔ رات کی سیاہی ہر طرف پھیل چکی تھی مگر رانیہ کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔
“رمشا باجی خدا کے لیۓ آپی کو ڈھونڈیں۔۔ کچھ بہت غلط ہونے والا ہے۔۔” مہرین نے رانیہ کو دیکھ کر التجا کی۔۔
“میں کچھ سوچتی ہوں مہرین۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔۔ رانیہ کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔” رمشا نے مہرین کے کندھے پر تھپکی دی۔ رمشا کے نمبر پر ایک انجان نمبر سے ٹیکسٹ آیا۔۔
“تمہارا بہت شکریہ رمشا اتنی حسین مچھلی کے لیۓ۔۔ کل کے اخباروں میں اپنی اس رانیہ کی عزت کا جنازہ دیکھنے کے لیۓ تیار رہنا۔”
رمشا نے اس نمبر پر کال کی مگر وہ بند ہو چکا تھا۔۔۔
“کیا ہوا رمشا باجی آپی کا کچھ پتا چلا۔۔۔”
“چلو میرے ساتھ مہرین۔۔ ہمیں جلدی سے پولیس کو انفارم کرنا پڑے گا۔۔۔” رمشا نے اپنا بیگ اٹھایا اور مہرین کو ساتھ لے کر باہر نکل گئی۔
*—————
تانیہ کچن میں گئی اور چاۓ بنا کر شہریار آفریدی کے کمرے میں آ گئی۔ شہریار آفریدی قران پاک کی تلاوت کرنے میں اس قدر محو تھا کہ اسے تانیہ کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔ اُس نے چاۓ کا مگ بیڈ کے ساتھ دراز پر رکھا اور شہریار آفریدی کو دیکھنے لگی۔۔۔
“شہریار صاحب آپ تلاوت کرتے ہوۓ بہت پیارے لگ رہے ہیں۔ میرے دل میں آپ کو دیکھ کر ایک ہلچل سی کیوں ہونے لگتی ہے جی۔ میرا دل چاہتا ہے میں آپ کو لے کر اس دنیا سے کہیں دُور چلی جاؤں جہاں پر صرف ہم دونوں ہوں بس۔۔۔” تانیہ دل ہی دل میں بولنے لگی۔۔
شہریار آفریدی نے قران پاک بند کیا تو اس کی نظر تانیہ پر پڑی۔۔
“تانیہ آپ اس ٹائم کیوں آ گئی۔ کوئی کام تھا کیا۔۔۔؟؟” شہریار آفریدی اسے دیکھتے کر بولا۔۔
“وہ جی میں نے سوچا آپ تھکے ہوں گے تو چاۓ دے آؤں۔۔۔”
“اس گھر میں ملازموں کے ہوتے ہوۓ آپ کام مت کیا کریں تانیہ۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا اپنے لیۓ آپ کا یہ سب کرنا۔۔” شہریار آفریدی نے قران پاک شیلف پر رکھا اور اپنے بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔۔
“آپ نے میرے لیۓ جو کیا ہے اس کے بدلے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے شہریار صاحب۔۔ میں ساری ذندگی آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔۔۔” تانیہ وہیں کھڑے کھڑے بولی۔۔۔ شہریار کا اس کی پروا کرنا تانیہ کو بہت اچھا لگا۔۔۔
“میں نے جو کیا وہ میرا فرض تھا۔ مجھے اس سب کے بدلے آپ کی خدمت نہیں چاہیۓ۔”
“اچھا آپ یہ چاۓ پی لیں جی۔۔۔ میں جاتی ہوں اپنے کمرے میں۔۔۔” تانیہ نے چاۓ کا کپ شہریار کو تھمایا۔۔ اس کے ہاتھ شہریار آفریدی کے مردانہ ہاتھوں کے ساتھ ٹکراۓ تو اس نے شرم سے نظریں جھکا لیں۔۔ اس کی دھڑکن بے قابو ہو گئی۔۔ وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں گئ اور بیڈ پر لیٹ کر سہانے خواب بُننے لگی۔۔۔
*————————-*
ایبک نے رانیہ کے چہرے پر اس کا دوپٹا ڈال دیا اور تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔۔
“تم کون ہو اور کیوں آۓ ہو یہاں۔؟؟” اس نے دروازے میں کیمرہ پکڑے لڑکے سے سوال کیا۔۔
“یہاں پر جو دھندا ہو رہا ہے ہم اُسے بے نقاب کرنے آۓ ہیں۔۔” اس لڑکے نے رانیہ کے ساکت وجود کی تصویر بناتے ہوۓ جواب دیا۔
ایبک نے اس لڑکے سے کیمرہ چھین کر دور پھینکا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کو قتل کر دیتا۔۔ وہاں کھڑے دوسرے لڑکے نے وہ کیمرہ اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگا۔۔ ایبک اس کی طرف لپکنے لگا تو پہلے لڑکے نے اسے دھکا دیا۔۔ ایبک کا سر دیوار سے ٹکرایا اور اس سے خون بہنے لگا مگر اس میں ابھی بھی اتنی جان باقی تھی کہ وہ دوڑ سکتا۔۔ وہ تیز تیز باہر بھاگا۔۔
پہلے لڑکے نے دروازہ بند کیا اور رانیہ کی طرف آ گیا۔۔ اس نے رانیہ کے چہرے سے دوپٹا ہٹایا اور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔
رانیہ نے آنکھیں کھولنے کہ کوشش کی مگر وہ اس قدر بھاری ہو گئی تھیں کہ ایک دم بند ہو گئیں۔ وہ نیم بے ہوشی میں بولی۔۔
“میں کہاں ہوں اور تم کون ہو۔۔۔؟؟”
“یُو آر اِن ہیون مائی کوین۔۔ لیٹس میک فن۔۔۔” اس لڑکے نے رانیہ کے حجاب کی پِن کھول دی ۔۔ رانیہ پھر سے بے ہوش ہو گئی۔۔
*————————*
“رومیسہ تمہارا وہ ایبک تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔۔ ایک تو اس نے نعمان سے کیمرہ چھینا اور دوسرا اس لڑکی کے چہرے کی ایک تصویر بھی نہیں بنانے دی۔۔۔” گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتے ہوۓ قریشی نے رومیسہ کو بتایا۔۔
“اوہ گاڈ۔۔ کچھ بھی کرو مگر ان تصویروں کو میرے پاس لے أؤ۔۔ باقی سب میں سنبھال لوں گی۔۔ اور ہاں تمہیں تمہارا شیئر مل جاۓ گا۔۔۔” رومیسہ کو ان تصویروں کی فکر ستانے لگی۔۔۔
“تم فکر نہ کرو وہ کیمرہ بھی میرے پاس ہے اور تصویریں بھی۔۔۔ بہت جلد تمہاری امانت تمہارے پاس ہو گی”
“تھینک ہو سو مچ قریشی۔۔۔ تم نہیں جانتے یہ سب میرے لیۓ کتنا امپارٹنٹ ہے۔۔۔”
“آئی نو ایوری تھنگ رومیسہ۔۔۔۔” قریشی نے فون بند کر دیا۔۔
*————————*
رمشا پولیس اسٹیشن میں رانیہ کی مسنگ رپورٹ لکھوانے جا رہی تھی کہ راستے میں اسے بیک ویو مِرر میں ایبک دوڑتا ہوا نظر آیا۔ اس کی چھٹی حِس نے کچھ غلط ہونے کا اشارہ کیا۔
“رمشا باجی یہ آپ نے گاڑی اس روٹ پر کیوں موڑ دی۔۔ ہم نے تو اس طرف جانا ہے۔۔۔۔” مہرین نے رمشا کو گاڑی غلط روٹ پر لے جاتے دیکھا تو وہ بولی۔۔
“مہرین مجھے لگ رہا ہے ہمارے سوالوں کا جواب ایبک کے پاس ہی ہے۔۔۔”
“مگر ہمیں تو آپی کو۔۔۔” رمشا نے مہرین کی بات کاٹ دی۔۔
“تھوڑا سا صبر رکھو مہرین۔۔ بہت جلد ہم رانیہ کے پاس ہوں گے۔۔۔”
قریشی نے رومیسہ کے گھر کے راستے گاڑی موڑی۔ راستے میں اسے اپنی گاڑی کے سامنے سے ایک عورت گزرتے ہوۓ دکھائی دی, اس نے ہارن دے کر اسے متوجہ کرنا چاہا مگر شاید اسے ہارن کی آواز سنائی نہ دی۔ آخر اس نے بریک پر پاؤں رکھا مگر بریک تو جانے کیسے فیل ہو چکی تھی۔ اس نے گاڑی کا اسٹیئرنگ بائیں طرف روٹیٹ کیا تو اس کا پاؤں بریک سے پھسل کر ایکسلریٹر پر چلا گیا اور گاڑی ایک گہری کھائی میں جا گری۔ قریشی کے ساتھ ساتھ ساری تصویریں مٹ چکی تھیں۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے مگر انھیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ آج رانیہ کی بھی کڑی آزمائش میں اللہ اس کا ساتھ نبھا رہا تھا۔
*————————-*