“اوۓ اٹھ جا امی سے عزت افزائی کرواۓ بغیر تیرا بهی دن شروع نہیں ہوتا چل اٹھ جا شرافت سے”
صالحہ نے اسکے اوپر سے کمبل کهنچتے ہوۓ کہا
“اٹھ جاتی ہوں نا آپو بس پانچ منٹ اور سونے دو”
کمبل پهر سے منہ پر لپیٹتے ہوۓ بولی
“تیرے پانچ منٹ تو ابهی نکلواتی ہوں صبر کر ذرا”
“نہیں نہیں آپو اٹھ تو گئی ہوں نا امی کو مت بلانا پلیز”
اپنی ماں کے طعنوں کا خیال آتے ہی وہ جهٹ سے اٹھ گئی
“ویری گڈ چلو اب جلدی سے ہاتھ منہ دهو لو”
اسے اٹهتا دیکھ کر بولی اور وہ چہرے کے زاویے بگاڑتی واش روم کی طرف چل دی
“میڈم اٹھ گئیں یا اب تک خواب خرگوش میں ہیں”
ملیحہ نے کچن میں آتی صالحہ کو دیکهتے ہوۓ پوچها
“ہاں اٹها کر آ رہی ہوں بالکل سونے کی مشین ہی ہے یہ لڑکی توبہ”
صالحہ نے عنایہ کے لئے چاۓ کا پانی رکهتے ہوۓ کہا جبکہ ملیحہ مسکرا دی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ملیحہ ، صالحہ اور عنایہ تینوں بہنیں همہیں ملیحہ تینوں میں سب سے بڑی ہے اس نے ایف ایس سی کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ کر گهر سنبهال لیا تها جبکہ صالحہ نے گریجویشن تک پڑهائی مکمل کرکے ملیحہ کے ساتهه گهر کی ذمہ داریاں بانٹ لیں تهی جبکہ سب سے چهوٹی عنایہ ماں باپ کی راج دلاری تو تهی ہی ساتھ ہی ساتھ بہنوں کی بهی بے حد لاڈلی تهی عنایہ ایک ماہ پہلے ہی گریجویشن کرکے فری ہوئی تهی اب ان دونوں کے ساتھ گهر کے کام بانٹنے کی بجاۓ آدها دن سونے میں جبکہ آدها دن موبائل فون سے چپکے ہوۓ گزرتا تها
دوسری جانب انکی والدہ فائزہ بیگم تهیں کہنے کو یہ گهر تو انصاری ہاؤس تها مگر حکومت یہاں فائزہ بیگم کی ہی چلتی تهی اسد صاحب کو بهی اپنی بیگم اور بیٹیوں سے بہت پیار تها مگر عنایہ سے وہ کچھ زیادہ ہی پیار کرتے تهے کچھ بہنوں کے اور بہت زیادہ اسد صاحب کے لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک بگاڑ دیا تها اسکا یہی بگاڑ فائزہ بیگم کو ایک آنکھ نہیں بهاتا تها اور اسکا اظہار وہ وقتا فوقتا اسد صاحب سے کرتی رہتیں تهیں ۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
فائزہ بیگم اس وقت لان میں بیٹهی دهوپ سینک رہی تهیں پاس ہی اسد صاحب بیٹهے اخبار کے مطالعے میں مصروف تهے اسد انصاری شہر کے جانے
مانے بزنس مین تهے آج اتوار کی وجہ سے گهر میں تهے ملیحہ اور صالحہ گهر کے کاموں میں بری طرح سے مصروف تهیں اسد صاحب کے بے حد اصرار پر بهی فائزہ بیگم گهر میں نوکروں کی فوج رکهنے کے سخت خلاف تهیں انکی اسی سختی کا اثر تها کہ ملحیہ اور صالحہ گهر کے ہر کام میں طاق تهیں جبکہ عنایہ سب کی لاڈلی ہونے کی وجہ سے گهر کے کاموں سے کوسوں دور تهی پیار فائزہ بیگم کو بهی بہت تها عنایہ سے مگر وہ اسے ملحیہ اور صالحہ کیطرح ایک سگهڑ لڑکی بنانا چاہتی تهیں لیکن عنایہ نے بهی جیسے قسم کهائی ہوئی تهی کہ وہ اپنی ماں کی امیدوں پہ ہر حال میں پانی پهیر کے رہے گی “ایک مجهے اس لڑکی کی سمجھ نہیں آتی اونٹ جتنا قد ہوگیا ہے اور عقل اب تک گهٹنوں میں کہیں پهنسی ہوئی ہے”
“اب کیا ہوگیا بیگم کیا کر دیا میری گڑیا نے اب”
اسد صاحب اپنی بیگم کے لہجے سے سمجھ چکے تهے کہ کس کی شان میں قصیدے پڑهے جارہے ہیں سو وہ اخبار سے نظریں ہٹا کر بولے “ٹائم دیکهیں ذرا۔۔۔ اور اپنی لاڈلی کے اٹهنے کا ٹائم دیکهیں”
وہ کهڑکی سے اسے آنکهیں ملتی ہوئی جاتے دیکھ چکی تهیں سو اب یہ شکوہ لے کے بیٹھ گئیں تهیں “کیا ہو گیا بیگم بچی ہی تو ہے” ہمیشہ کیطرح انہوں نے اپنی لاڈلی کا کی ساتھ دیا
“آپکو تو پچاس سال بعد بهی یہ بچی ہی لگے گی حد ہے ملحیہ اور صالحہ بهی تو ہیں نا اور ایک یہ آپکی صاحبزادی نہ اٹهنے کا پتہ نہ سونے کا نہ کهانے کا ڈهنگ نہ پہننے کا سلیقہ” فائزہ بیگم حد درجہ پریشان تهیں
“کیا ہو گیا بچی ہی تو ہے وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جاۓ گی تم خواہ مخواہ میں پریشان ہورہی ہو” اسد صاحب بے فکری سے بولے
“پتہ نہیں کب آۓ گا وہ مبارک دن جب یہ سمجهے گی مجهے تو ڈر ہے کہ کہیں اگلے گهر جاکر میری ناک نہ کٹوا دے”
وہ سچ مچ عنایہ کیطرف سے فکرمند تهیں “ابهی میری گڑیا رانی بہت چهوٹی ہے اگلے گهر جانے کے لیۓ پہلے ملحیہ اور صالحہ کی باری آۓ گی پهر عنایہ کی تم ابهی سے یہ بول کے میرا دل نہ خراب کرو”
“بیٹیوں کی عمر بڑهتے پتہ نہیں چلتا اور پهر عنایہ تو ماشاءاللہ سے پهر کام کاج سے سدا کی دور ہے کیا بنے گا اس لڑکی کا”
“کچھ نہیں ہوتا بیگم سیکھ جاۓ گی وقت کے ساتھ تم اسکی ٹنیشن مت لو ویسے کل وسیم مجھ سے اپنے بیٹوں کے لیۓ ملحیہ اور صالحہ کے رشتہ کی سرسری سی بات کر رہا تها تم کیا کہتی ہو”
اسد صاحب نے انہیں اطلاع دی
“کون وسیم آپکا بزنس پارٹنر جن کے دو ہی بیٹے ہیں؟”
“ہاں وہی۔۔۔۔
تم بهی تو مل چکی ہو انکی فیملی سے لاسٹ منتھ گهر پہ پارٹی ہوئی تهی اسی میں”
“ہاں ہاں یاد کے مجهے تو پهر کیا جواب دیا آپ نے انہیں”
فائزہ بیگم پوری طرح متوجہ ہوگئیں۔۔۔۔
آخر کو بیٹیوں کی ماں تهیں
“میں نے تو فی الحال کوئی جواب نہیں دیا مجهے تو اسکے دونوں بیٹے ہی پسند ہیں میری آنکهوں کے سامنے ہی بڑے ہوۓ ہیں ماشاءاللہ وسیم کا پورا بزنس سنبهالا ہوا ہے دونوں نے بہت قابل بچے ہیں”
لہجے میں سچائی تهی
“اگر آپکو اعتراض نہیں تو پهر جو آپکو ٹهیک لگے”
فائزہ بیگم بولیں “تم بچیوں سے پوچھ لو پهر کچھ دن میں بات آگے بڑهاتے کیں”
اسد صاحب بولے تو فائزہ بیگم نے سر ہلا دیا
∆∆\\\∆∆∆∆∆\\\∆∆∆∆∆
“آپو بتاؤ نا کیسے بناتے ہیں”
عنایہ نے تقریبا روتے ہوۓ پاس کهڑی صالحہ سے پوچها جو اسکی حالت پہ مسکرا رہی تهی
“مجهے کیا پتہ تمهارا ٹاسک ہے خود سوچو اور خود بناؤ”
صالحہ نے لاعلمی سے کندهے اچکاۓ
“آپو… آپ میری ہیلپ نہیں کروگی؟ ہاں”
وہ رو دینے کو تهی
“بالکل بهی نہیں”
صالحہ مزے سے بولی
“بس قیامت آنے ہی والی ہے بہن بہن نہ رہی”
باقاعدہ آنسو برسنے کو تیار تهے جبکہ صالحہ اسکی بات پہ ہنس پڑی “ارے ارے کیا ہوا تمهیں”
اس سے پہلے کہ صالحہ اسے کچھ کہتی کچن میں آتی ملحیہ نے عنایہ کو روتے دیکھ کر پوچها “بجیا دیکهیں نا آپو میرا مذاق اڑا رہی ہیں”
عنایہ نے صالحہ کیطرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا جو ابهی بهی مسکرا رہی تهی “اوۓ جهوٹی کب اڑایا مذاق میں نے تو خود چلتا پهرتا مذاق ہے میں نے کیا مذاق اڑانا ہے تیرا”
صالحہ نے اسے مزید تپاتے ہوۓ کہا اور یہ بات سن کر وہ چیخ ہی پڑی
“بجیا دیکهو نا”
“صالحہ بری بات”
ملحیہ نے اسے گهور کر کہا
“اچها بابا سوری”
“ویسے یہ کیا بن رہا ہے”
ملحیہ نے چولہے پہ چڑهے گاڑهے سے کالے سیاہ محلول کو دیکھ کر پوچها “یہ ایک نہایت ہی عمدہ قسم کی چاۓ بن رکی ہے جو کہ مس عنایہ صاحبہ خاص طور پر تیار کر رہی ہیں”
عنایہ کے کچھ بولنے سے پہلے صالحہ نے مزے لے کر بتایا
“واٹ؟؟؟؟ یہ چاۓ ہے یہ کس قسم کی چاۓ آنی؟ یہ تو کوئلہ ہی لگ رہا ہے وہ بهی پگهلا ابلتا ہوا” ملحیہ نے پاس پڑے چمچ سے اسے ہلاتے ہوۓ کہا
“ویسے کس نے کہا تم سے چاۓ بنانے کو”
ملحیہ نے عنایہ کی طرف مڑ کر پوچها
“امی نے”
سر جهکا کر منمنائی
“مگر کیوں؟”
ملحیہ نے حیرت سے پوچها
اس سے پہلے فائزہ بیگم یا اسد صاحب کو جب بهی چاۓ کی طلب ہوتی تهی تو وہ صالحہ یا ملحیہ کو ہی کہتے تهے
“ویٹ مائی ڈئیر ویٹ…
میں بتاتی ہوں”
صالحہ نے حیران سی کهڑی ملحیہ کو دیکھ کر کہا
اور اس نے سوالیہ نظروں سے صالحہ کی طرف دیکها جبکہ عنایہ نے بے اختیار ٹهنڈی سانس لے کر نظریں چولہے پر پڑے اپنے شاہکار پر جما دیں “آج امی نے اسے چاۓ بنانے کا ٹاسک دیا ہے بقول امی کے اگلے گهر جانے کی اور وہاں پر اچهی طرح سے رچنے بسنے کی پریکٹس ابهی سے شروع کروا دی ہے تاکہ اسکے سسرال میں امی بابا کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کی بهی عزت افزائی نہ ہو جاۓ اور یہ امی کا ٹاسک اس وقت تیار شدہ ہمارے سامنے پڑا اپنی قسمت کو کوس رہا ہے”
آخر میں صالحہ نے عنایہ کی تیار کردہ چاۓ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا
“اففففف خدایا آنی…. اگر امی نے کہہ ہی دیا تها
تو کم از کم چاۓ بنانے سے پہلے ایک بار مجھ سے یا صالحہ سے پوچھ ہی لیتی پاگل”
ملحیہ نے افسوس بهرے لہجے میں کہا جبکہ پاس کهڑی صالحہ جلدی سے برتن سمیٹنے لگ گئی
“میں نے آپو سے پوچھا تها مگر انہوں نے کچھ بهی بتانے سے صاف صاف منع کردیا تها”
عنایہ نے پورے جوش سے بتایا
اتنی دیر سے چپ چاپ بیٹهی صالحہ کے طعنے تشنے برداشت کر رکی تهی اب جو بدلہ لینے کا موقع ملا تو بهرپور فائدہ اٹهایا جبکہ ملحیہ نے ایک نگاہ صالحہ پر ڈالی
“ہاں۔۔۔۔۔ تو میں کیوں بتاتی امی نے اسے کہا تها نا”
صالحہ بهی اپنے نام کی ایک کی تهی مجال ہے جو اپنی غلطی مان جاۓ “حد ہے تم دونوں کی ایک جیسے ہو اچها اب اسے وہاں گراؤ اور اچهے سے دهو کر تهوڑا سا پانی لے کر آؤ”
ملحیہ نے خراب چاۓ سینک میں ڈالنے کا کہا
“ارے یہ تو چیٹنگ ہے بهئی یہ غلط ہے”
ملحیہ کو چاۓ بناتا دیکھ کر صالحہ بولی
“تم چاہتی ہو امی اسکی انسلٹ کریں”
“نہیں یار میں بهلا ایسا کیوں چاہوں گی”
صالحہ نے جنهجهلاتے ہوۓ کہا
“تو بس پهر مجهے کرنے دو”
“تو نا ایسی معصوم شکل مت بنایا کر”
صالحہ عنایہ کی طرف مڑی جو اپنے چہرے پہ دنیا جہاں کی معصومیت سجاۓ کهڑی تهی
“کیا کروں آپو شکل ہی ایسی ہے”
اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ صالحہ کے ساتهه ملحیہ بهی کنس دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
عنایہ ٹرے میں دو کپ سجاۓ فائزہ بیگم کے روم میں داخل ہوئی اسد صاحب بهی وہیں موجود تهے “ارے واہ! میری بیٹی چاۓ لائی ہے”
اسے ٹرے کے ساتھ آتا دیکھ کر اسد صاحب مسکراتے ہوۓ بولے جبکہ فائزہ بیگم نے حیرت سے عنایہ کو دیکها مگر بولیں کچھ نہیں “امی بابا جلدی سے ٹیسٹ کرکے بتائیں کیسی بنی ہے”
ایک ایک کپ دونوں کو تهما کر بولی ۔۔۔ اسد صاحب نے پیار سے اپنی بیٹی کو دیکهتے ہوۓ کپ پکڑا جبکہ فائزہ بیگم نے حیرت سی حیرت سے کپ منہ کو لگا لیا “واہ بهئی چاۓ تو بہت زبردست بنائی ہے میری گڑیا نے”
اسد صاحب نے پہلے گهونٹ پہ ہی اسکی تعریف کی اور عنایہ کا ڈهیروں خون بڑھ گیا
“یہ تم نے بنائی ہے؟؟”
فائزہ بیگم نے حیرت سے پوچها
“امی اب آپکی یہ بیٹی اتنی بهی پهوہڑ نہیں کہ چاۓ بنانا تک نہ آتی ہو” عنایہ نے اپنی ماں کے گلے میں پیار سے بانہیں ڈالتے ہوۓ کہا
“جیتی رہو خوش رہو”
فائزہ بیگم نے دل سے دعا دی
کچهه دیر بعد دل میں ڈهیروں شرمندگی لئے وہ روم سے باہر نکلی۔۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...