“سبکتگین! آ جاؤ بچے! کھانا لگ گیا ہے؟” فوزیہ نے اسے آواز لگائی۔ کچھ دیر پہلے کی گئی ابا جی کی باتوں نے ساری بھوک ہی ختم کر دی تھی۔ اسے کسی چیز میں کوئی کشش محسوس نہیں ہو رہی تھی، یہاں تک کہ کچھ دیر قبل اقدس کا جو رویہ اسے خوش کر رہا تھا، وہ بھی یاد نہیں رہا تھا۔ اس نے ابا جی کا دیا معاہدہ بےدلی سے وہیں پھینکا اور نیچے آ گیا۔ کھانے کے دوران بھی فوزیہ نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا تھا۔ سب چہک رہے تھے، اریبہ اور شاہنواز کی مدھم آواز میں ایک دوسرے سے نوک جھونک بھی جاری تھی۔
“تمھیں پتا ہے اریبہ! بھائی مجھے چاکلیٹ کیک بنا کر دیں گے۔” شاہنواز نے اریبہ کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ ٹھٹکی، چاکلیٹ کا نام سن کر ہی منھ میں پانی آ گیا تھا۔
“لیکن اس میں سے، میں تمھیں ذرہ برابر بھی نہیں دوں گا۔” اسے جلا کر وہ خود پانی پینے لگا تھا۔
“ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ سبکتگین بھائی مجھے کچھ نہ دیں۔” اریبہ کی آواز بلند ہوئی۔
“اوں ہوں۔۔۔!” فیاض نے اسے تنبیہ کی۔ وہ گڑبڑا کر پلیٹ کی طرف متوجہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد سبکتگین کو مخاطب کیا۔
“بھائی۔! آپ دیں گے نا مجھے۔!؟” لیکن وہ تو جیسے وہاں تھا ہی نہیں۔
“ہاں۔۔! کیا کہا؟” اس کے دوبارہ بلانے پر وہ ہوش میں آیا تھا۔
“ندیدی۔! بھوکی!” ابھی بن تو جائے۔” شاہنواز اریبہ کو اس کے القاب دینا نہیں بھولا تھا۔
فوزیہ نے بہت غور سے، خاموش رہ کر اس کی غائب دماغی کو دیکھا تھا۔ انھیں رہ رہ کر اس کی حالت تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔ ورنہ جتنا خوش اسے ہونا چاہیے تھا۔ وہ اتنا خوش تھا کیوں نہیں؟ کن انکھیوں سے شوہر کو بھی دیکھا تھا جو ہر طرف سے بےنیاز، مگن ہو کر کھانا کھا رہے تھے۔
(ہو نہ ہو۔! انھوں نے ہی کچھ ایسا کہا ہو گا کہ میرا بچہ اتنا پریشان ہے۔) سبکتگین نے کھانا بس دکھاوے کو، نہ کھانے کے برابر ہی کھایا تھا۔ اور یہ بات فوزیہ سے چھپی نہیں تھی، ان سے بھی کچھ ڈھنگ سے نہیں کھایا گیا۔ کھانے کے بعد سبز قہوہ بنانا چاہا لیکن فیاض نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ گھر جا کر ہی پییں گے۔ اقدس اور اریبہ جانے سے پہلے سارے برتن دھو گئیں۔ شاہنواز نے بھی اب شاید بھائی کی پریشانی بھانپ لی تھی، اسی لیے دوبارہ کیک کا نہیں کہا۔ اور پڑھنے کے ارادے سے کمرے میں چلا گیا۔
“آپ کے لیے چائے بناؤں؟” سبکتگین کو چھت پہ جاتا دیکھ، کچھ سوچ کر شوہر سے پوچھا جو کمرے میں بیٹھے اخبار سے دل بہلا رہے تھے۔
“نہیں بھئی! آج بہت تھک گیا ہوں، بس سوؤں گا۔” اخبار میز پہ رکھا تھا۔ انھوں نے آگے بڑھ کر کمبل کھول کر ان کی ٹانگوں پہ پھیلایا اور بتی بند کرکے باہر آ گئیں۔ شاہد جانتے تھے کہ اب سبکتگین کے پاس جا کر اس سے ساری بات پوچھے بغیر انھیں نیند نہیں آئے گی۔
وہ اوپر آئیں تو انھیں ہلکی روشنی میں زمین پہ گرا کاغذ نظر آیا۔ انھوں نے یہ سوچ کر اُٹھایا کہ سبکتگین کے کام کا ہو گا۔ اور جب پڑھا تو خوشی کی بجائے الجھن میں پڑ گئیں۔
“یہ پیپر سبکتگین نے یہاں کیوں پھینکا؟ اسے تو خاصا سنبھال کر رکھنا چاہیے تھا۔” پیپر تہ کرکے ہاتھ میں پکڑا اور آخری چھت پہ جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔ ان کے اندازے کے مطابق سبکتگین وہیں تھا۔
“سبکتگین! یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ ایسے اداس؟” نومبر کا آغاز تھا، موسم قدرے ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ وہ کچھ نہیں بولا تھا۔ ایسے ہی سر گرائے، ہاتھ گود میں رکھے بےحس و حرکت بیٹھا رہا تھا۔ ان کے دل کو کچھ ہوا۔ بڑی سے بڑی بات پہ بھی وہ ایسے ہمت نہیں ہارتا تھا۔ وہ اس کے قریب آئیں اس کا کندھا ہلایا، اس نے سر اٹھا کر انھیں ایک نظر دیکھا تھا بس اور پھر نگاہیں چرا گیا۔ اور وہ ایک نظر ہی انھیں اندر تک بےچین کر گئی تھی۔
“سبکتگین۔! کیا ہوا میری جان!” وہ رو رہا تھا۔ بڑی سے بڑی پریشانی یا تکلیف میں بھی جو ضبط کرتا تھا، آج رو رہا تھا۔
“تم رو رہے ہو؟” وہ ایک دم سے پریشان ہو گئیں۔ اس نے رخ پھیر کر چہرا رگڑا تھا۔ وہ ایسے ان کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
“کچھ نہیں ہوا اماں!” خود کو سنبھال کر چہرے پہ مسکراہٹ سجا کر انھیں مطمئن کرنے کی اپنی سی ایک سعی کی تھی۔
“یہ پیپر۔! وہاں کمرے میں گرا ہوا تھا” ان کے ہاتھ سے پیپر لیتے ہوئے وہ گڑبڑا سا گیا۔
“یہ۔۔ ہاں۔۔ وہ۔۔۔!!” اس سے کچھ بات نہ بن پائی۔
“تمھارے ابا جی نے کیا کہا ہے؟” وہ کچھ نہیں بولا تھا۔ بس اس کاغذ کو کھول کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی سعی کرنے لگا تھا۔
“میں کچھ پوچھ رہی ہوں سبکتگین!” انھوں نے اس کا کندھا ہلایا تھا۔ وہ محض ہوں کرکے رہ گیا تھا۔ کاغذ پہ اس مقام پہ ہاتھ رکھا جہاں اس نے دستخط کرنے تھے۔ وہاں کیا گیا ایک دستخط اسے اپنے خواب نگر کی پہلی سیڑھی چڑھا سکتا تھا لیکن اس خواب نگر میں ساتھ دینے والی اس کی ہم سفر کا ساتھ چھوٹ جاتا اور اگر چھوڑ دیتا تو اس کا دیرینہ خواب ٹوٹ جاتا۔ (بھلا خواب ٹوٹ جانے پر جینا آسان تھوڑی نا ہے!)
“سبکتگین۔! میں تم سے بات کر رہی ہوں۔” اب کی بار انھوں نے زور سے اس کا کندھا ہلایا تھا۔ وہ گہری سانس بھرتا، ان کو دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے کندھے کے گرد بازو حائل کیا۔ اور دنیا جہان کا سکون اپنے اندر اتار کر، خود کو پرسکون ظاہر کرتے ہوئے بولا:
“کچھ نہیں کہا ابا جی نے اماں! بس کچھ اونچ نیچ سمجھائی تھی زمانے کی۔ اور میں ٹھہرا سدا کا نالائق، ان کی بات سمجھ ہی نہیں پایا۔” وہ اندھیرے میں بھی اس کے چہرے پہ کچھ کھوجنے میں محو تھیں۔
“اب اس تاریکی میں، ایکسرے کیوں کر رہی ہیں میرا؟” وہ ماں تھیں۔ کچھ انہونا ہونے کا احساس ہو رہا تھا، لیکن وہ بتا کیوں نہیں رہا تھا۔
“اچھا ہے، مت بتاؤ! خود ہی جا کر تمھارے ابا سے پوچھ لوں گی۔” وہ اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتیں وہاں سے جانا چاہتی تھیں لیکن اس نے مزید دباؤ ڈال کر انھیں روکا اور چھت پہ رکھی چارپائی پہ لے جا کر بٹھا دیا، خود گھٹنوں کے بل ان کے سامنے بیٹھ کر ان کے ہاتھ تھام لیے۔
“آپ اب ابا جی سے کوئی بات نہیں کریں گی اماں! میری وجہ سے آپ دونوں بہت بار جھگڑا کر چکے ہیں۔ بہت بار آپ ان سے خفا ہو چکیں، اب اور نہیں اماں! آپ میری وجہ سے ابا جی سے مزید بحث نہیں کریں گی اماں! چاہے معاملہ میرے آسٹریلیا جانے کا ہو یا اقدس سے شادی کا۔” جذباتی ہوئے اس کی بات سنتے، وہ جیسے چونکی تھیں۔
“کیا مطلب ہے تمھارا۔؟؟ اقدس سے شادی کا یہاں کیا تعلق؟” ان کی چھٹی حس انھیں باور کروا رہی تھی کہ کچھ غلط ہے۔
“تعلق ہے اماں! بس آپ ابھی نہ ابا جی سے کچھ کہیں گی اور نہ آپ خالہ کے گھر ہی جائیں گی” وہ اب غصے سے اسے گھور رہی تھیں۔ وہ اندھیرے میں بھی ان کا گھورنا محسوس کر پا رہا تھا۔
“میری خاطر اماں پلیز! میں بس اقدس سے بات کروں گا۔” اس نے انھیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا تھا۔
“کیا بات کرو گے اس سے؟”
“سب کچھ ابھی بتا دوں کیا؟ پھر بتا دوں گا نا۔!” وہ انھیں ٹال رہا تھا۔
“کیا بھروسہ؟ جیسے اپنے ابا جی سے ہوئی بات نہیں بتا رہے، ایسے وہ بھی نہ بتاؤ۔” خفگی کا اظہار کرکے وہ اس سے اصل بات اگلوانا چاہتی تھیں۔
“میں ایسا کروں گا کہ جب اقدس سے بات کروں گا تو فون پہ آپ کو کال ملا کر سب سنوا دوں گا۔ اب خوش؟” اس کی تجویز پہ بجائے خوش ہونے کے، اسے مزید غصے سے گھورا تھا۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے ایسی فضول حرکت کرنے کی، پٹو گے مجھ سے۔” بہت دیر میں وہ اب مسکرایا تھا۔
“جو بھی بات ہوئی، آپ بےفکر رہیے بس۔ اپنے بیٹے پہ یقین رکھیے۔”
“تم پہ آنکھیں بند کرکے یقین ہے بیٹا۔ کیا اپنی پیدا کی اولاد پہ یقین نہیں ہو گا؟ لیکن تمھارے ابا جی نے۔۔!” ان کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
“اب چلیں۔! رات بہت ہو گئی ہے۔ آرام کیجیے۔” ان کی بات ان سنی کرکے وہ انھیں لیے نیچے آیا تھا۔
نئے دن کا سورج اپنے معمول کے مطابق ہی گہما گہمی لے کر طلوع ہوا تھا۔ شاہد کو لگا کہ فوزیہ اب ان سے جھگڑا کریں گی، اب بحث کریں گی۔ یا ناشتے کی میز پر انھیں اکیلے ناشتہ کرنا پڑے گا۔ بیوی اور دونوں بچے ناراض ہوں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ ہر روز کی طرح نماز اور دیگر معاملات سے فراغت کے بعد انھیں کمرے میں ہی نیم گرم پانی لا کر دیا تھا۔ ناشتے کی میز پر ان کی اور بچوں کی وہی روٹین رہی تھی۔ انھوں نے سبکتگین کو بھی دیکھا تھا۔ لیکن اس کے انداز سے بھی ناراضی کا شائبہ تک نہیں ہوا تھا۔
“اچھا اماں! ابا جی ہم چلتے ہیں۔” دونوں آگے پیچھے گھر سے نکلے۔ سبکتگین کا ارادہ پاسپورٹ آفس جا کر اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانے کا تھا۔ آفس سے چھٹی وہ صبح فون پر ہی لے چکا تھا۔ بینک جا کر فیس جمع کروائی تھی اور پاسپورٹ آفس چلا آیا۔ ارجنٹ پاسپورٹ بننے دے کر، وہاں سے فارغ ہوتے ہوتے بارہ بج گئے تھے۔ پاسپورٹ آفس سے نکلا تو نجیب کو فون کرکے حسین صاحب سے ملاقات کا وقت طے کروانے کو کہا تھا۔ اور خود نجیب کا جواب آنے تک کی دیر میں ہوٹل پہ چائے پینے چلا گیا۔ پندرہ منٹ بعد ہی اس کا جواب آ گیا کہ ابھی ملنے چلا آئے۔ عبیرہ بھی آفس میں ہے۔ اس نے چائے ختم کی، بل دیا اور بائیک کا رخ آفس کی طرف کیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
گھر کے کام ختم کرکے فوزیہ، شازیہ کی طرف چلی آئیں۔ بچیاں کالج تھیں تو دروازہ شازیہ نے ہی کھولا۔ سلائی مشین رکھے کپڑے سینے میں مصروف، گھر میں خواتین کے کپڑے وہی سلائی کرتی تھیں۔ رات ہوئی سبکتگین سے بات بہن سے کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کیا۔ لیکن شازیہ کو فکر لاحق ہو گئی کہ سبکتگین نے شادی کی بات کرنے سے کیوں منع کیا تھا؟
“کہیں سبکتگین نے اسی لڑکی، جو اسے آسٹریلیا لے جا رہی ہے، کے لیے تو اقدس سے شادی سے انکار تو نہیں کیا؟” وہ دور کی کوڑی لائی تھیں۔
“لا حول ولا قوۃ۔۔!” فوزیہ نے بلند آواز سے کہا تھا۔
“اس نے انکار کب کیا ہے شادی سے شازیہ! اس نے صرف ابھی بات نہ کرنے سے منع کیا ہے۔ تم نے بھی پل بھر میں کیا سے کیا سوچ لیا۔؟!” انھوں نے گویا بہن کی عقل پر ماتم کیا تھا۔
“وہی تو کہہ رہی ہوں کہ کل شام تک راضی تھا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ تو اچانک سے منع کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟” سلائی کے لیے رکھے کپڑوں کا گولا بنا کر مشین کے اندر گھسا کر، مشین ایک طرف رکھی۔ دل ایک دم کام سے اچاٹ ہو گیا تھا۔
“اس نے رشتے سے انکار نہیں کیا! اس نے ابھی بات کرنے سے منع کیا ہے۔ لیکن کیوں؟ یہی مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اور یہ بھی کہا کہ ان کے ابا جی سے کوئی بات نہ کروں۔” اب کے شازیہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔
“کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بھائی صاحب نے اس کے سامنے کوئی شرط رکھی ہو، جیسے یا آسٹریلیا چلا جائے یا اقدس سے شادی کرے؟” شازیہ کی بات پہ وہ ایک دم کھٹک گئیں۔ ایسا ہو تو سکتا تھا۔ ان کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آئی تھی۔
“ہم سب جانتے ہیں کہ بھائی صاحب کتنی شدت سے اس کے شیف بننے کے خلاف ہیں۔ تو ہم سب نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ وہ اتنی آسانی سے کیسے مان سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ سارا معاہدہ تک طے کرکے آ گئے۔” فوزیہ نے ساری بات سن کر، سمجھ کر سر ہلایا تھا۔
“ٹھیک کہہ رہی ہو تم شازیہ! میں سبکتگین کے لیے اتنی خوش تھی کہ میرا دھیان کسی اور طرف گیا ہی نہیں تھا۔ وہ تو جب رات کھانے پہ سبکتگین کو پریشان پایا اور پھر بعد میں اسے روتے ہوئے دیکھا تب کچھ غلط ہونے کا خیال آیا تھا۔ لیکن اس نے رات مجھے اپنے ابا سے بات کرنے سے منع کر دیا۔” گزشتہ رات کے واقعات ایک ایک کرکے ذہن میں اجاگر ہو رہے تھے۔
“ابھی آفس گیا ہے؟” شازیہ نے فرش پہ گری کپڑے کی کترنیں چنتے ہوئے پوچھا تھا۔
“نہیں! چھٹی پہ ہے۔ پاسپورٹ آفس جانا تھا۔ اب تک تو فارغ ہو گیا ہو گا۔” دیوار گیر گھڑی میں وقت دیکھا جو بارہ بجانے والی تھی۔
“میں نہیں جانتی سبکتگین کے دل میں کیا ہے، وہ کیا کرنے کا سوچے بیٹھا ہے لیکن ہو نہ ہو بھائی صاحب نے وہی شرط رکھی ہو گی جو مجھے لگ رہا ہے۔ لیکن میں تمھیں بتا دوں، میں ہر طرح سے اپنے بچے کے ساتھ ہوں۔ بھائی صاحب ایک چال چل سکتے ہیں تو ہم بھی انھیں شہ مات دے سکتے ہیں۔ پتا نہیں کیا ضد ہے بچے کے شوق سے۔ جو اعتراضات کی دیوار چین کھڑی کرکے بیٹھے ہیں۔” مشین پہ کپڑا ڈالا، بہن کو خاموش پا کر سر جھٹکا اور فون سے سبکتگین کا نمبر ملایا۔
“السلام علیکم خالہ! خیریت سے فون کیا؟”
“وعلیکم السلام بیٹا! پاسپورٹ آفس سے فارغ ہو گئے؟” اسے حیرت نہیں ہوئی تھی کہ وہ جانتی تھیں۔ اماں ان سے کوئی بات نہ کریں یہ ممکن نہیں تھا۔
“جی خالہ! بس ابھی کچھ کام تھا وہ کرنا باقی ہے۔”
“اچھا ہے! کام سے فارغ ہو کر میری طرح آنا۔ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔” وہ مسکرا دیا۔
“کیا بات کرو گی اب تم اس سے؟” فوزیہ نے فون بند ہونے پر اپنی بہن کو گھورا
“بس جو بھی کروں!” انھوں نے سر پیٹا۔
“مت بتاؤ کچھ بھی مجھے۔ میرا ہی دماغ خراب ہے۔” بڑبڑا کر خود ہی چپ ہو رہی تھیں۔
“اچھا یہ بتاؤ! سالن کیا بنا رہی ہو آج؟” شازیہ نے بات بدلی۔
“کچھ نہیں بنا رہی میں، طبیعت ہر چیز سے بیزار ہو رہی ہے۔ پتا نہیں کیا ہو گا۔ میں نے کبھی سبکتگین کو ایسے کمزور پڑتے اور روتے نہیں دیکھا۔ یاد ہے دو سال پہلے جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ تب مجھے کتنی تکلیف ہوتی تھی وہ تب بھی ایسے کمزور نہیں پڑا تھا جیسے اب۔ میں ساری رات ٹھیک سے سو بھی نہیں سکی۔” وہ بات کرتے کرتے رونے تک پہنچ گئی تھیں۔
“بس بس۔۔! حوصلہ رکھو!” ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انھیں تسلی دی۔ پانی کا گلاس لا کر دیا اور بولیں:
“ایسے مسائل ہماری زندگی میں آتے ہی اس لیے ہیں تاکہ ہم اپنے ارادوں کی مضبوطی کو جانچ سکیں۔ ہمارا بچہ بہت بہادر اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے محنت کرنے والا بچہ ہے۔ اب وہ آئے گا تو دیکھیں گے کہ کیا بنتا ہے؟ لیکن تم ایسے پریشان مت ہو۔” انھیں سمجھا بجھا کر وہ دوپہر کے کھانے کی تیاری کے لیے اٹھی تھیں۔
“دال بنا رہی ہوں، تم یہیں سے سالن لے جانا۔” اپنے خیالات میں گم، انھوں نے فقط سر ہلایا تھا۔ اور وہیں لیٹ گئیں۔
“اچھا ہے کچھ دیر سو جاؤ۔” شازیہ نے چادر لا کر ان پہ ڈالی اور خود کچن میں آ گئیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
وہ آفس کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا جب خالہ کا فون آیا۔ اپنی ماں کی طرح ان کی محبت پہ بھی اسے کوئی شک نہیں تھا۔
“کیسے ہیں سبکتگین آپ؟ یقیناً آپ نے ان کاغذات کا بغور مطالعہ کر لیا ہو گا؟” نجیب کے باس نے اسے فوراً ہی آفس میں بلا لیا تھا۔ اور مطلب کی بات پہ آئے تھے۔
“اللہ کا کرم ہے سر! میں نے پڑھ لیے تھے۔”
“ویسے داد دینی پڑے گی آپ کے والد کی دور اندیشی اور سمجھداری کی۔” لیپ ٹاپ بند کرکے وہ اس کی طرف متوجہ تھے۔ عبیرہ بھی بس پہنچنے ہی والی تھی۔
“فی زمانہ ایک دم سے کسی کا بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور میری مانو تو کامیابی کا ایک گر آج دماغ میں بٹھا لو۔” ہاتھ میں پنسل پکڑے وہ اسے سمجھانے لگے:
“اول تو کسی پہ جلدی بھروسہ مت کرو اور بالفرض اگر اس پہ بھروسہ کر بھی لو تو جلدی اس پہ عیاں مت کرو کہ تم اس پہ بھروسہ کر چکے ہو۔” بات ان کی واقعی قابل غور تھی لیکن عجیب بھی تھی۔
“تو پھر آپ نے مجھ پہ بھروسہ کیوں کیا؟ نہ صرف بھروسہ کیا بلکہ اس بھروسے کو عیاں بھی کر دیا۔ مس حسین کا کیا مفاد ہو سکتا ہے آخر!؟ مجھے وہاں لے جانے میں، مجھے وہاں لے جا رہی ہیں، سارے اخراجات برداشت کر رہی ہیں، سیکھنے کے عمل کے دوران میری تنخواہ بھی طے کر چکی ہیں، آخر کیوں؟”
“کیونکہ میں جب کسی پہ بھروسہ کرتی ہوں تو مکمل کرتی ہوں۔” جواب اندر داخل ہوتی عبیرہ نے دیا تھا۔ جو ابھی آئی تھی اور اس کی ساری بات سن چکی تھی۔
“دیکھیے سبکتگین صاحب! ڈیڈی کی اپنی جو بھی سوچ رہی ہو لیکن میں جب کسی پہ اعتبار کرتی ہوں تو شک نہیں رکھتی۔ آخر اتنی سمجھ ہے مجھ میں۔” ہاتھ میں پکڑی ایک فائل میز پہ رکھتے، اپنی مخصوص نشست سنبھالتے اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
” میں ایک بزنس وومن ، ایک ورکنگ لیڈی ہوں، زمانے کی اونچ نیچ جانتی ہوں اور لوگوں کو پرکھنا مجھے آتا ہے۔ کالج میں پڑھنے والی نازک اندام دوشیزہ نہیں ہوں سبکتگین صاحب! کہ جذبات سے فیصلے کروں۔” پانی کا گلاس اٹھا کر چند گھونٹ بھرے اور قدرے پرسکون ہو کر اسے دیکھا جو اس کی باتیں سن کر کچھ سوچ رہا تھا۔
“آپ کی طرح میں نے بھی ہوٹل منیجمنٹ میں ہی ڈگری لی ہے۔ آپ ہی کی طرح مجھے بھی شوق ہے یہاں پاکستان میں اپنا ہوٹل بناؤں۔ لیکن پاکستان میں آگے بڑھنا۔۔۔ جبکہ ایک سے ایک کاروباری حریف آپ کی ٹانگ کھینچنے کو موجود ہو۔ ناممکن نہیں، مشکل ضرور ہے۔”
(آپ کو تو کاروباری حریف ستاتے ہیں مس حسین! میرے تو اپنے ابا جی ہی سب سے بڑے حریف ہیں۔) اس کی باتیں سنتا، وہ صرف سوچ کر رہ گیا۔
“یہاں بےشک ایک سے بڑھ کر ایک ادارہ ہے جو بیکنگ سیکھا رہا ہے، یوٹیوب پہ کئی سکھانے والے بھی بھلے موجود ہیں، لیکن جب تک ہم کسی ماہر شیف کے ساتھ رہ کر، اس کے ساتھ کام کرنے کا سرٹیفکیٹ لے کر پاکستان میں کچھ نہیں کرتے، ہم جلدی کامیاب نہیں ہو سکتے۔” وہ ساری تیاری کرکے آئی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ آج ہونے والی ملاقات میں سبکتگین سے یہی سب باتیں کرنی ہوں گی۔ آفس بوائے دستک دے کر اندر آیا تھا اور تینوں کے سامنے چائے رکھ کر جس خاموشی سے آیا، ویسے ہی لوٹ گیا تھا۔
“چائے پییں سبکتگین صاحب!” عبیرہ کے کہنے پر، اس نے آگے بڑھ کر پیالی اٹھائی تھی۔
“اب بات آتی ہے آپ کو آسٹریلیا لے جانے کی، تو بہت سادا سی بات ہے اور وہ ہے مفاد!” کچھ دیر کے بعد عبیرہ نے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا تھا۔
“آپ کو بیکنگ کا شوق ہے اور مجھے بھی۔ جب ہمارے شوق ایک سے ہیں تو میں نے سوچا کہ منزل بھی ایک ہی بنا لی جائے۔ وسائل میرے، محنت آپ کی۔” اس نے چائے کی خالی پیالی واپس رکھی۔
“لیکن میرے ہاتھ میں نہ آپ جتنی صفائی ہے اور نہ ذائقہ۔ سب سے بڑھ کر یہ بیکنگ بہت توجہ اور محنت طلب بلکہ صبر آزما کام ہے۔ اور اتنا صبر مجھ میں ہے نہیں۔ تو مجھے اسی لیے آپ کی محنت چاہیے۔” چائے پیتے وہ بھی بہت غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
“مجھے مستقل آسٹریلیا میں نہیں رہنا، یہاں آ کر ڈیڈی کے ساتھ ان کا بزنس سنبھالنا ہے۔ ایک بار اگر ہم شیف سڈنی کا ٹائٹل جیت لیتے ہیں۔ تو پاکستان میں آ کر ہمارے لیے اپنی خود کی بیکری بنانا یا کسی نامی گرامی ہوٹل کے ساتھ منسلک ہونا، دونوں ہی آسان ہو جائیں گے۔” اس ساری گفتگو کے دوران حسین صاحب دونوں کو سنتے رہے تھے، بولے کچھ نہیں۔
“مزید آپ کو کوئی شبہات ہوں تو کہیے! میں آج سب واضح کروں گی۔” عبیرہ نے پلیٹ سے ایک بسکٹ اٹھایا تھا۔
“نہیں! مس حسین! اب مجھے کوئی شبہات نہیں رہے۔ بلکہ میں نے ان کاغذات پر بھی دستخط کر دیے تھے۔” پیالی رکھ کر، جیب سے کاغذ نکالا اور اس کی جانب بڑھایا۔
“میں ابھی آپ کو یہ سکین کرکے واپس دیتی ہوں۔” عبیرہ نے آفس میں رکھے سکینر پہ وہ کاغذ سکین کیے تھے۔ خوشی سے اس کا چہرہ دمکنے لگا تھا۔ سبکتگین کو اس کا یوں خوش ہونا کھٹکا تو ضرور تھا، لیکن سر جھٹک کر حسین صاحب کی طرف متوجہ ہوا جو اس کے پاسپورٹ کی بابت دریافت کر رہے تھے۔
“پاسپورٹ بنا ہوا تھا سر! آج صبح ہی اس کی تجدید کے لیے دوبارہ درخواست دی ہے، ان شاء اللہ سات سے آٹھ دن میں مل جائے گا۔”
“ٹھیک ہے! آپ پاسپورٹ آنے کے بعد بتائیے گا، باقی کے معاملات تبھی طے ہوں گے۔ آپ کا ویزا اور ٹکٹ وغیرہ۔ تب تک سمجھ لیجیے کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ ہی ہے اب آپ کے پاس۔” اس نے ساری بات سمجھ کر سر ہلایا تھا۔
“سبکتگین!” عبیرہ کا اتنا بےتکلف انداز، وہ چونکا تھا۔
“یہ فلیش ڈرائیو لیجیے۔ شیف سڈنی کے حوالے سے آپ کو جو جو معلومات چاہیے ہوں گی، وہ سب اس میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پوچھنا ہوا تو کبھی بھی آفس آ جائیں یا گھر کے دروازے بھی کھلے ہی ہیں آپ کے لیے۔” اس کے ہاتھ سے یو لی تھی۔
“میرا کارڈ بھی لیجیے، میرا نمبر درج ہے اس پر۔” عبیرہ نے وزٹنگ کارڈ بھی اسے پکڑایا۔
“اور آپ کا نمبر ہے میرے پاس، کل آپ کے والد سے لے لیا تھا۔” وہ ایک کے بعد ایک اسے حیران کیے جا رہی تھی۔ بہرحال ملاقات ختم کرکے، ہر قسم کے خیال کو جھٹکتے وہ آفس سے باہر آیا تھا۔ نجیب جیسے اسی کے انتظار میں تھا۔ اس نے مختصر الفاظ میں اپنے جانے کا بتایا اور اس کے لیپ ٹاپ پہ اپنا استعفیٰ لکھنے لگا۔ وہیں سے پرنٹ نکالا اور وہاں سے نکل آیا تھا۔ اس کے باس اچھے تھے۔ وہ ابھی جا کر انھیں استعفیٰ دینا چاہتا تھا۔ وہ سیدھا ان کے دفتر میں گیا تھا۔ اس کے بیکنگ کے شوق سے وہ بھی واقف تھے۔ اب اس کی زبانی یہ سب جان کر خوش بھی ہوئے تھے۔
“بہت اچھا موقع ہے سبکتگین! خود کو منوانے کا، کچھ کر دکھانے کا۔ اور تم خوش قسمت ہو کہ زندگی تمھیں یہ موقع دے رہی ہے۔ باقی سب تم پہ ہے کہ کیسے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہو۔” ساری بات سن کر انھوں نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
(سبھی خوش ہیں، بس ایک ابا جی ہی۔۔) اس نے دکھ سے سوچا تھا۔
“اب ایسا ہے کہ نیاز صاحب سے کہو کہ اخبار میں تمھاری ہوسٹ کے لیے اشتہار دیں اور ان کے کوئی امیدوار منتخب ہونے تک تم آفس آتے رہو، جیسے ہی تمھاری سیٹ پر ہو، تم اپنا حساب کتاب ختم کرکے چلے جانا۔۔” نیاز صاحب سے مل کر، انھیں سب بتا کر وہ تین بجے کے قریب گھر پہنچا اور خالہ کی ہدایت کے مطابق سیدھا انھیں کی طرف آیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
فیاض روز کے معمول کے مطابق کھانا کھانے آئے تو شازیہ نے ان سے بات کی تھی۔
“اب کیا کہا جائے شاہد بھائی کو۔ خدا بخشے ابا جی کو، کہا کرتے تھے کہ شاہد تم کسی اڑیل گھوڑے کی طرح ضد پر اڑ جاتے ہو، اور مجھے مجبور مت کیا کرو کہ تمھیں بھی زبان کی بجائے، لاتوں سے سمجھانا پڑے۔ ابا جی کے ڈر سے وہ مان جایا کرتے تھے، اب کس کا ڈراوا دیں انھیں۔” کھانا کھاتے ہوئے دونوں بس یہی باتیں کیے گئے تھے۔ دریں اثناء دروازے پہ دستک ہوئی اور بلند آواز سے سلام کرتا سبکتگین اندر داخل ہوا تھا۔
“السلام علیکم!”
“یہاں کچن میں آ جاؤ سبکتگین! تمھارے چچا بھی آئے ہیں، کھانا کھا لو پھر بات کرتے ہیں۔” کھانا خاموشی سے کھایا گیا تھا۔ شازیہ کو چائے کا کہہ کر فیاض نے اس سے پوچھا۔ جب اس نے بتانے میں تامل کیا تو وہ بولے:
“بےفکر رہو! یہاں بات ہم تینوں کے درمیان ہی رہے گی۔” سبکتگین نے ان کی یقین دہانی کے باوجود خالہ کی جانب اشارہ کیا۔ وہ بھی سمجھ کر ہنس دی تھیں۔
“وعدہ رہا بیٹا کہ تمھاری اماں سے کچھ نہیں کہوں گی۔” وہ جانتا تھا کہ شازیہ یا فوزیہ ایک دوسرے سے ہر بات کرتی تھیں۔ ان سے وعدہ لینے کے بعد ہی اس نے ابا جی سے ہوئی ساری بات دہرا دی تھی۔ شازیہ تو صدمے سے دوچار ہوئی ہی تھیں، فیاض نے بھی سر پکڑ لیا تھا۔
“کیا مطلب ہے آپ کے بھائی صاحب کا اس سب سے؟ ہاں۔۔!؟” چائے وائے سب بھول گئیں شازیہ کا اور کسی پہ بس نہ چلا تو شوہر ہی پہ برس پڑیں۔ ان کی تو اپنی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہیں یا کریں۔
“بھائی صاحب کو لگتا ہے کہ سبکتگین وہاں جائے گا اور واپس نہیں۔۔۔ اف! حد ہوتی ہے بے اعتباری کی۔ انھیں اپنی اولاد پہ تو یقین رکھنا چاہیے۔” وہ غصے میں تھیں، اور ایسے ہی بول بول کر اپنا غصہ فرو کر رہی تھیں۔ تب چائے پہ نظر پڑی جو بس پتیلی سے باہر گرنے ہی کو تھی۔ فوراً سے چولہا بند کیا تھا۔
“تم کیا کہتے ہو سبکتگین! واپس آؤ گے یا۔۔۔؟”
“چچا جان! آپ بھی ابا جی جیسی بے اعتباری دکھا رہے ہیں۔” وہ اتنا افسردہ ہوا کہ اٹھ کر جانے لگا تھا جب فیاض نے اسے بٹھایا۔
“بیٹی کا باپ ہوں یار! کیا کرتے ہو۔” ساتھ منھ پھلائے کھڑی بیوی کو دیکھا
“چائے لاؤ بھئی۔!”
“بھائی جان نے بھی اپنی بیٹی جیسی بھتیجی کی محبت میں یہ سب کہہ دیا ہو گا۔” بھائی کی طرف داری بھی کی گئی تھی۔
“ایسی کیسی محبت کہ اگلے بندے کی جان لے لیں۔” چائے کی پیالیاں میز پہ رکھتے ہوئے شازیہ بڑبڑائیں۔
“اب کیا سوچا ہے تم نے؟” چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے فیاض نےباس سے پوچھا۔
“میں جا رہا ہوں چچا جان!” شازیہ نے صدمے سے اسے دیکھا، یعنی اس نے اقدس کو چھوڑنے کا فیصلہ اتنی آسانی سے کر لیا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی ہی تھیں کہ فیاض نے اشارے سے منع کیا، سبکتگین ابھی کچھ کہہ رہا تھا۔
“میں نے بہت سوچا چچا جان۔! اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے خواب کی تکمیل کے لیے زندگی یہ سنہری موقع شاید دوبارہ نہ دے، لیکن خدا نے چاہا اور آپ کا یقین اور محبت مجھ سے برقرار رہی تو اقدس بھی مل جائے گی۔” آخری جملہ نظر جھکا کر، قدرے جھجک کر ادا کیا تھا۔ شازیہ کی رکی سانس بحال ہوئی۔ فیاض نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے مشورہ لیا جو اثبات میں سر ہلا کر مان لیا گیا۔ نظریں جھکی ہونے کے باعث وہ ان دونوں کے تاثرات دیکھ نہیں پا رہا تھا۔
“مجھے خوشی ہے سبکتگین! کہ تم نے بروقت ایک بہترین فیصلہ کیا، جذبات سے نہیں دماغ سے کام لے کر۔ بےشک جذبات کا بھی انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے۔ لیکن مرد وہی کامیاب ہے جو جذبات کو بھی مدنظر رکھے لیکن فیصلہ دماغ سے کرے۔” انھوں نے اس کا شانہ تھپکا تھا۔
“بھائی صاحب کی جو بھی مرضی رہی ہو۔ یا جو بھی ان کی سوچ ہو۔ میں تمھیں، تمھاری خالہ کی موجودگی میں زبان دیتا ہوں کہ اقدس تمھاری امانت ہے۔ اور تم اس کی امانت ہو۔ وہاں جا کر تمھیں بھی اپنی امانت کا خیال رکھنا ہو گا۔ دھیان رکھنا ہو گا کہ کبھی اس امانت میں خیانت نہ ہو۔” سبکتگین کا دل چچا کی محبت پہ، ان کی باتوں سے خوشی سے بھنگڑے ڈال رہا تھا۔ مانو جیسے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔
“تم دونوں بیٹھ کر باتیں کرو، میں چلتا ہوں۔ ہاں لیکن۔! بھائی صاحب کو ابھی اس چیز کی بھنک نہ پڑے، انھوں نے ہمیں اتنا ستایا تو ہمارا بھی حق ہے کہ تھوڑا انھیں بھی تنگ کیا جائے۔” چائے ختم کرکے وہ اٹھ کھڑے ہوئے تب شازیہ کو یاد آیا
“اور فوزیہ کو؟”
“سبکتگین کو آسٹریلیا چلے جانے دو، کچھ دن بعد بتا دینا، ابھی بتایا تو اس سے کچھ بعید نہیں کہ بھائی صاحب سے بحث ہی شروع کر دے۔ تب تک سبکتگین ہی باتوں میں ٹالتا رہے گا۔”سبکتگین کو بھی چچا کی بات سے اتفاق تھا، کچھ سوچ کر شازیہ نے بھی سر ہلایا۔ ان کے جانے کے بعد شازیہ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا لیکن یہ کہنے کی ہمت نہ کر پایا کہ اسے اقدس سے بات کرنی ہے۔ پھر یہ سوچ کر اٹھ آیا کہ ابھی کافی دن تھے وہ جانے سے پہلے ہی ایک بار اس سے بات کر لے گا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“ڈیڈی! آپ غزنوی کو ہاں کہہ دیجیے!” سفیر نے ان کی ٹورنٹو سے واپسی پر، پہلی فرصت میں ان سے بات کی تھی۔
“تو اس کی فیملی مان گئی؟ تمھارے لیے بھی؟” کسی فائل کے مطالعے میں غرق، انھوں نے سفیر کی بات کو سرسری ہی سنا تھا۔
“میرے لیے نہیں، صرف ردابہ اور غزنوی کی بات کر رہا ہوں۔” دونوں آفس میں تھے اور گھنٹے بھر کے بعد ہونے والی میٹنگ کے لیے کچھ اہم نکات زیر بحث تھے، جبھی سفیر نے یہ موضوع چھیڑ دیا۔ گھر پہ ردابہ کی وجہ سے وہ یہ بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔
“تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے کیا کہا تھا ردابہ سے۔ اگر غزنوی کے گھر والے اس کی بہن کا رشتہ تمھارے لیے دے دیتے ہیں تو مجھے غزنوی اور ردابہ کے رشتے پہ بھی اعتراض نہیں ہے۔” فائل بند کرکے رکھی اور پوری طرح اس کی طرف دھیان دیا۔
“غزنوی کی بہن کا رشتہ، اپنے کزن سے طے ہے ڈیڈی!” سفیر نے اطلاع بہم پہنچائی تھی۔
“تو ردابہ کو سمجھاؤ کہ غزنوی کا خیال دل سے نکال دے۔ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔”
“ڈیڈی پلیز! غزنوی اچھا لڑکا ہے، دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔” سفیر نے سمجھانے کی کوشش کی۔
“اس عمر میں ہر چار، چھ مہینوں میں لڑکے، لڑکیوں کی پسند بدلتی ہی رہتی ہے۔” انھوں نے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔
“ڈیڈی نہ ہماری ردابہ کی ایسی فطرت ہے اور نہ غزنوی ہی ایسے ہلکے کردار کا بندہ ہے، اتنا تو آپ اتنے عرصے میں اسے جان ہی چکے ہیں۔ اور میں جانتا ہوں کہ آپ کن تحفظات کو پیش نظر رکھ کر، ہمارے رشتوں کے لیے یہ شرط رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن میرا یقین مانیے ڈیڈی! ردابہ اس کے ساتھ ہی خوش رہے گی۔” سفیر نے انھیں ردابہ سے ہوئی ساری بات بتائی۔
“وہ بچی ہے سفیر! جذبات میں آ کر یہ سب کہہ رہی ہے۔” وہ کچھ متأمل ہوئے لیکن ہامی پھر بھی نہیں بھری تھی۔
“وہ بچی نہیں ہے ڈیڈی! سمجھدار اور باشعور ہے۔ آپ سمجھیں تو سہی۔” انھوں نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
“ڈیڈی۔!” سفیر نے رک کر انھیں اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کا کہا تھا۔
“سفیر۔۔! میٹنگ کے لیے دیر ہو رہی ہے۔” انھوں نے چلنا چاہا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ دروازے میں ان کا راستہ روکے کھڑا تھا۔
“اچھا میں نے اگلے مہینے پاکستان جانا ہے، وہاں غزنوی کے گھر والوں سے ملنے کے بعد، حتمی فیصلہ کروں گا۔ تب تک یہ بات تم اپنے تک ہی رکھو گے۔” وہ کچھ نرم پڑے۔
“ٹھیک ہے ڈیڈی!” اس قدرے اطمینان کا سانس لیا اور مسکرا کر ان کے لیے دروازہ کھول دیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“میں آسٹریلیا جا رہا ہوں ابا جی!” رات کے کھانے پر چاروں موجود تھے۔ جب سبکتگین نے بتایا۔ شاہد نے حیرت سے اسے دیکھا۔ شاید چہرے پہ کہیں افسردگی، دکھ یا غم کے تاثرات تلاشنا چاہ رہے تھے۔
“پاسپورٹ بھی تجدید کے لیے دے دیا ہے۔ سر حسین اور مس حسین سے ساری بات کر آیا تھا اور استعفیٰ بھی دے چکا ہوں۔” فوزیہ کو اب سمجھ میں آیا کہ آج سارا دن وہ گھر سے باہر کیوں رہا تھا۔ رات کی ان دونوں کی گفتگو کے بعد سے ان کی تفصیلی بات نہیں ہوئی تھی اور نہ انھوں نے شوہر سے اس بارے میں کوئی بات کی تھی۔
“ہوں۔۔!” ہنکارا بھرا۔
“اچھی بات ہے۔ تو تم نے فیصلہ کر ہی لیا۔” اور بس مزید کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ جبکہ شاہنواز تو کھانا چھوڑ کر خوشی کے مارے اس سے لپٹ ہی گیا تھا۔
“بس بھائی جانے سے پہلے مجھے ڈھیر سارے کیک بنا کر دے جائیے گا۔ میں آپ کو یاد کر کر کے کھاتا رہوں گا۔” خوشی اس کی ایک ایک حرکت سے عیاں تھی۔
“اور جب کیک ختم ہو گئے تو پھر یاد بھی نہیں کرو گے؟” وہ شرارت سے اسے چھیڑ رہا تھا۔
“نہیں! تب اقدس آپی سے بنوا کر کھایا کروں گا اور موازنہ کیا کروں گا کہ ان کی بیکنگ میں کوئی بہتری آئی ہے یا نہیں۔” فوزیہ نے سر پیٹا۔ جبکہ وہ دونوں ہنس رہے تھے، سبکتگین کے دل میں اب ابا جی کی شرط کو لے کر کوئی الجھن یا پریشانی نہیں تھی۔ چچا جان سے بات کرکے وہ بہت بےفکر اور پرسکون ہو گیا تھا۔ بس جانے سے پہلے ایک بار اقدس سے بات کرکے امید کا ایک دیا اس کی طرف سے بھی ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
اس کی سیٹ کنفرم ہو چکی تھی، وہ ساری تیاری کر چکا تھا۔ اوپر ہال کمرے میں جاری کام کو مکمل کروانے کی ذمہ داری اس نے نجیب اور شاہنواز کے حوالے کی تھی۔ شاہنواز کی فرمائش پر وقتاً فوقتاً کئی کیک بنا کر ریفریجریٹر میں رکھ دیے تھے۔
“یہ سارا سامان اس کیبنٹ میں رکھا ہے شاہنواز! تمھیں سب پتا ہے میں نے ہر چیز پہ اس کی تاریخ تنسیخ لکھی ہوئی ہے۔ ان کیکس پر آئسنگ وغیرہ تم کر سکتے ہو، بارہا مجھے دیکھ چکے ہو۔ کہ کیسے کرتا ہوں۔” کچن میں کھڑا وہ ایک ایک چیز کے بارے میں اسے بتا رہا تھا۔ جو دیوار سے ٹیک لگائے نم آنکھوں سے اس کی ایک ایک بات غور سے سن رہا تھا۔
“یہ میری ڈائری ہے، جس پہ میں نے سب تراکیب اور بہت سی ٹپس اور بھی کئی خاص چیزیں لکھ رکھی ہیں۔ یہ سنبھال کر رکھنا، باقی میری ہر چیز تمھارے حوالے، خیال رکھنا۔” وہ گھر کا بڑا بیٹا تھا۔ اب جا رہا تھا تو ساری ذمہ داریاں، بیٹا ہونے کے ناطے شاہنواز کے کندھوں پہ آنی تھیں
“بھائی۔!” وہ ایک دم اس سے لپٹ کر بچوں کی طرح رویا تھا۔
“شاہو! میری جان!” خود اس کی آنکھوں میں بھی انسو آ گئے تھے۔
“میرا بالکل بھی دل نہیں لگے گا آپ کے بغیر! لیکن میں آپ کو روکوں گا بھی نہیں۔” روتے ہوئے اس نے بات جاری رکھی۔
“اللہ کرے آپ شیف سڈنی کا ٹائٹل جیتیں اور کامیاب ہو کر واپس آئیں تاکہ ابا جی بھی آپ کو مان جائیں۔” اسے سینے سے لگائے بس اسے سنے گیا تھا۔ کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔
“لیکن بھائی! جلدی واپس آ جائیے گا پلیز۔ ہم سب آپ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔” اس کے رونے میں شدت آگئی تو سبکتگین نے اسے خود سے الگ کیا۔ کرسی پہ بٹھا کر پانی دیا۔
“میرا دل بھی تم سب کے بغیر بہت مشکل سے لگے گا۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ جلد از جلد واپس آ جاؤں۔ لیکن تم نے یہاں سب کا بہت خیال رکھنا ہے۔ تم نے اپنی اور میری، ہم دونوں کی جگہ سنبھالنی ہے۔” پانی پی کر اس کی حالت قدرے سنبھلی تو اسے اٹھایا۔
“چلو شاباش! جاؤ اریبہ اور اقدس کو بلا لاؤ! تمھیں آئسکریم کھلا لاؤں۔” وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے باہر نکلا تھا۔ مشکل تو خود اس کے لیے بھی بہت تھا، گھر والوں کو چھوڑ کر، ان سے یوں اتنی دور جانا۔
“اللہ۔۔! میرا حامی و ناصر رہنا ہمیشہ۔” اس نے چپکے سے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کیے۔ اور چاروں پیدل ہی آئسکریم کی دکان تک چلنے لگے، آئسکریم لے کر قریبی پارک میں چلے آئے۔ اقدس، اریبہ اور شاہنواز کے ساتھ چہل قدمی کر رہی تھی جب اس نے اقدس کو بلایا۔
“اقدس!” وہ رکی جبکہ وہ دونوں آگے بڑھتے چلے گئے۔
“تم سے ایک بات کرنی ہے۔” دونوں بینچ پہ آ گئے۔ پہلے کی نسبت اب، اقدس اس سے کافی جھجکتی تھی۔
“اپنا خیال رکھنا اقدس!” اس نے تمہید باندھی۔
“مجھے حد سے حد وہاں سال یا دو سال لگیں گے اقدس!” اس نے سر ہلایا تھا۔
“انتظار کرو گی میرا؟” اس نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ بس چپ چاپ سنتی رہی۔
“میں تمھیں اپنا پابند نہیں کروں گا۔ نہ انتظار کے لیے مجبور کر رہا ہوں۔”وہ ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیل رہی تھی، شاید اضطراب میں تھی۔
“اس دوران اگر تمھاری زندگی میں مجھ سے کہیں زیادہ اچھا انسان آیا اور تمھیں لگا کہ تم اس کے ساتھ خوش رہو گی تب بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔” اب کے اقدس نے پہلی بار نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ سٹریٹ لیمپ کی روشنی میں اس کی روئی، سرخ آنکھیں واضح تھیں۔ اگلے ہی پل وہ نظریں جھکا گئی۔ وہ ایک نظر کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ گئی تھی۔ سبکتگین کے اندر تک سکون کی لہر دوڑ گئی۔
“میرا انتظار کرنا اقدس! میں اپنا آپ، اپنی محبت، اپنا دل اس کے سارے جذبات تمھارے نام کر رہا ہوں۔ میرا تم سے وعدہ ہے کہ میں تمھارا ہوں۔” اقدس کو اپنے دل کی دھڑکن، بےترتيب ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
“اپنا وعدہ یاد رکھیے گا۔” کانپتی آواز میں کہا تھا۔ اس کے حوالے سے سوچ کا زاویہ بدلا تو بات کا، مخاطب کرنے کا انداز بھی بدل گیا تھا۔ اریبہ اور شاہنواز واپس آتے دکھائی دیے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور مضبوط لہجے میں بولا:
“مرد وہی جو اول تو وعدہ نہ کرے اور جب کرے تو جی جان سے اسے نبھائے۔ اور مجھے وعدے نبھانے کا ہنر آتا ہے۔” اقدس نے مسکرا کر اسے دیکھا جسے قسمت نے اس کے لیے چن لیا تھا۔ دونوں کی نگاہیں باہم ملی تھیں۔ دونوں ہی نے دل میں ایک دوسرے کے ساتھ پہ اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
السلام علیکم!
نانبائی کا خواب نگر کا پہلا حصہ یہاں مکمل ہوتا ہے۔
کہتے ہیں خوابوں کی عمر طویل اور انکو تعبیر دینے کا راستہ اس سے بھی طویل ہوتا ہے۔
سو ایک پہر چھاؤں میں کہیں کچھ پل کیلئے ٹھہرنا ضروری ہوتا ہے۔
خوابوں کی اس داستان کا پہلا حصہ یہاں مکمل ہوتا ہے۔
دوسرا اور آخری حصہ جو اس داستان کی تکمیل ہوگا ہم کچھ عرصے بعد شروع کریں گے۔
تب تک کیلئے ہم ملتے ہیں آپ سے پھر ایک نئے انداز میں
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...