اب کیسا فیل کر رہے ہیں میشا نے بلڈپریشر چیک کرتے ہوئے پوچھا
پہلے سے بہتر ہوں اور تم لوگ آ گئے ہو نہ تو مزید اچھا ہو جاؤں گا ۔انہوں نے اپنے اردگرد بیٹھے ان چاروں بہن بھائیوں کو دیکھا
چلیں یہ تو پھر گڈ ہو گیا ۔اب کچھ دنوں کے لیے نو فاسٹ فوڈ، نو مرچ مصالحہ بس ہلکی پھلکی غذا لینی ہے ۔آپ کا اتنا ہائی بی پی دیکھ کر میں تو ڈر ہی گئی تھی
تو سیدھا سیدھا کہو کہ میں ڈائیٹنگ پر چلا جاؤں ۔انہوں نے منہ بنایا
کیا یار بابا بچوں کی طرح منہ بسور رہے ہیں۔ میشا نے ہنستے ہوئے انہیں میڈیسن کھلائی
اچھا مام آپ تھوڑی تھوڑی دیر بعد انکا بلڈ پریشر چیک کرتی رہیے گا اور میڈیسن بھی دے دیجیے گا ۔میں ہوسپیٹیل جا رہی ہوں اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے کال کر لینا ۔
میشا ادھر آؤ ۔وہ ابھی دروازے تک ہی پہنچی تھی فاروق صاحب نے اسے بلایا
جی بابا۔۔۔
یہاں آؤ بیٹھو میرے پاس ۔انہوں نے اپنے پاس جگہ بنائی
ائی ایم سوری ۔اپنے ڈیڈ کو معاف کر دو ،میں تم لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پایا ۔مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چایے تھا ۔ وہ آہستگی سے بولے
کیا ڈیڈ آپ بھی نہ۔۔ اولاد سے بھلا معافی کون مانگتا ہے آپ ریلیکس رہیں، پھر طبعیت خراب ہو جائے گی۔ ولید نے انکا ہاتھ پکڑ کر تسلی دی
نہیں بیٹا مجھے مت روکو میں نے بہت زیادتی کی ہے تم چاروں کے ساتھ ،فرائض نبھاتا نبھاتا تم لوگوں کو بھول گیا اور سب سے زیادہ تو میں میشا کا قرضدار ہوں ۔باپ کے ہوتے ہوئے بھی وہ پرائے در پر رہی ہے ۔مجھ پر ، اس گھر پر اور ان آسائشات پر اس کا بھی حق تھا جو صرف میں اپنی غفلت کی وجہ سے اسے نہیں دے پایا ۔ بیٹا اپنے بابا کو معاف کر دینا ۔انہوں نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے
کیا کرتے ہیں ڈیڈ ۔اب گناہ گار تو نہ کریں.ایسے کون کرتا ہے ۔اس نے انکے ہاتھ پکڑ کر چومے
ایک بار اپنے ڈیڈ کے گلے تو لگو
آئی ایم سو سوری ۔انہوں نے اسکا سر چوما ہوئے کہا
نو ڈیڈ ائی ایم سوری میں نے آپ سے کئی بار بدتمیزی سے بات کی اور خومخواہ ضد بھی لگائی
تمہاری بدتمیزی بھی سر آنکھوں پر ۔۔ مجھے برا نہیں لگتا تھا کہ چلو جیسے بھی سہی تم بات تو کرتی تھی
اچھا اب زیادہ پیار مت دکھائیں۔ کہیں یہ پیار دکھا کر میری فیس اور دوائی کے پیسے دبانے کا ارادہ تو نہیں کیے بیٹھے ایسی کوئی بات ہے تو زہن سے نکال دیں ۔ سٹور میرے باپ کا نہیں ہے جہاں سے آپکو مفت دوائیاں مل جائیں گی اور آپکا چیک اپ بھی مستقبل کی ایک بہت بڑی اور مہنگی ڈاکٹر نے کیا ہے جس کی فیس بھی آپکی طرف ادھار ہے ۔
تو کیا فایئدہ دھی کے ڈاکٹر ہونے کا ،جب باپ پیسوں سے دوائی لے گااس لیے تو نہیں پڑھایا لکھایا تھا کہ باپ کوہی لوٹنے بیٹھ جانا۔ فاروق صاحب اسی کے انداز میں بولے تو سب نے آنکھیں پھاڑیں
ڈیڈ۔۔۔۔
نہ کیا ڈیڈ۔۔۔ جہاں سے تو آئی ہے تیرا بابا بھی وہیں پلا بڑھا ہے یہ بڑی بڑی آنکھیں مزید بڑی کر کیوں دیکھ رہی ہے، ڈرائے گی کیا۔
ڈیڈ آپ اس طرح سے بولتے ہوئے کتنے کیوٹ لگ رہے ہیں میں بتا نہیں سکتی۔ میشا نے ہنستے ہوئے انکا گال کھینچا
ٹھیک ہے میں لیٹ ہو رہی ہوں مام ، ڈیڈ کا خیال رکھیے گا
کیسے جاو گی۔۔ رکو راحم چھوڑ دیتا ہے ۔۔ ولید نے اپنی گاڑی کی چابی اسکی طرف بڑھائی تو وہ دونوں باہر نکل گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بلایا سر
یس ڈاکٹر میشا سب سے پہلے تو آپ بتائیں کہ آپ کا کوٹ کہاں ہے
ایک یہ اور ان کے رولز۔۔۔۔۔ کسی دن میں نے چولہے میں جھونک دینے ہیں۔میشا بڑبڑائی
کسے سر فرید کو۔ فضہ نے سرگوشی کی
نہیں انکے رولز کو۔۔
آپ کیا بڑبڑا رہی ہیں اونچی بولیں
کچھ نہیں سر وہ روم میں ہے ۔جا کہ پہن لوں گی
اوکے اب میری بات دھیان سے سنیں ۔یہ مسٹر حنان ہیں انکا ایکسیڈینٹ ہوا ہے سو انکا ٹریٹمنٹ آپکے زمہ ہے ۔ڈاکٹر فرید نے کہا تو میشا نے پلٹ کر پیچھے دیکھا جہاں حنان سر اور بازو پر پٹی لپیٹے پڑا تھا
یہ تھوڑی دیر پہلے مجھے گاڑی کی چابی دینے آیا تھا تب تو ٹھیک تھا اچانک کیا ہوا اس نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا
کیا بات ہے ڈاکٹر میشا کیا سوچنے لگیں
نہیں سر کچھ نہیں آپ کیا کہہ رہے تھے
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ کہ آپ انکا پراپر چیک اپ کریں گی ڈاکٹر فضہ نے ایک بار بینڈیج کر دی ہے باقی آپ دیکھ لیجیے گا ۔کسی بھی قسم کوئی کوئی شکائیت نہیں ہونی چایئے سمجھیں
مگر سر میری ڈیوٹی تو تین گھنٹے بعد ختم ہو جائے گی
آج آپ نائٹ ڈیوٹی بھی دیں گی
واٹ ۔۔۔ اس نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے حنان کو دیکھا جس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی
جی آپ ان کا خاص خیال رکھیں گی کوئی شکائیت نہیں ہونی چایئے
پر سر میں ہی کیوں آپ فضہ کی ڈیوٹی لگا دیں نہ۔ اس نے حنان کو گھورتے ہوئے نیا عذر پیش کیا
ڈاکٹر میشا ۔آپ ایک ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹرز اپنے پیشنٹس سے جان نہیں چھڑاتے اور نہ ہی عذر تراشتے ہیں۔۔۔۔ بی پروفیشنل۔۔۔۔۔۔ اور فیضان چھٹی پر تو ڈاکٹر فضہ کی ڈیوٹی فرسٹ فلور پر ہوگی
جی سر ۔اس نے مرے مرے انداز میں کہا
اور کچھ۔۔۔۔
نو سر۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ڈاکٹر فرید اس کی اتنی فکر اور فیور کیوں کر رہے ہیں
دیکھیں ڈاکڑ میشا یہ ہمارے ہوسپیٹل کے نیو ڈونر ہے حال ہی میں انہوں نے ڈونیشن دیا ہے اس لیے میں نہیں چاہتا کہ انہیں کوئی مسئلہ ہو آپ سمجھ رہیں ہیں نہ ۔ باہر نکل کر انہون نے سمجھانے والے انداز میں کہا اس نے گہری سانس لی
جی سر اب تو ہی تو سمجھی ہوں آپکا مسئلہ۔ رخ پھیر کر وہ ہلکا سا بڑابڑائی
کچھ کہا آپ نے
نو سر
ٹھیک ہے خیال رکھیے گا
جی سر۔۔۔ اس نے تابعداری سے سر ہلایا
کیا کر رہی ہو ۔میشا فضہ کے روم میں داخل ہوئی جہاں وہ کسی پیشنٹ کی فائل پڑھ رہی تھی
کچھ نہیں بس ایسے ہی آج تو نیو کوئی پئشنٹ بھی نہیں ہے لگتا ہے لوگوں نے بیمار ہونا چھوڑ دیا ہے
ہاں میں بھی بورہو رہی ہوں
ہوں ۔۔۔۔ فضہ نے بس ہوں پر ہی اکتفا کیا جانتی تھی وہ کیوں آئی ہے
لاؤ مجھے دکھاؤ۔۔ میشا نے اس کے ہاتھ سے فائل پکڑی
کیسے ہوا۔۔ کچھ دیر تک فائل کے صفحات الٹتے پلٹتے ہوئے اس نےسرسری انداز میں پوچھا۔
کیا ۔۔۔۔۔ وہ بھرپور انجان بنی
ایکسیڈینٹ۔۔۔۔۔
کس کا ۔۔۔اوہ اچھا ۔۔۔سامنے سے آتی گاڑی نہیں دیکھ سکے اور گاڑی والا بھی بریک لگاتے لگاتے عین سر پر پہنچ گیا ۔ تمہیں پتہ تو ہے اس عمر میں ہوجاتا ہے ۔ انہیں تو ٹھیک سے نظر بھی نہیں آتا ۔شکر ہے کوئی ہڈی وغیرہ نہیں ٹوٹی نہیں تو عمر کے اس حصے میں ہڈیاں بہت نازک ہو جاتی ہیں جڑنی مشکل ہوتی ہیں ۔فضہ خاصی سنجیدگی سے بولی
اس عمر میں مطلب ۔۔۔اس نے حیرانگی سے پوچھا
تم انہی بزرگ کا پوچھ رہی ہو نہ جس کا کل ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔بیچارہ بڑی مشکل سے بچا ہے
میں ان کا کیوں پوچھوں گی ۔۔میشا نے دانت کچکچائے
تو پھر کس کا پوچھ رہی ہو کوئی اور بھی ایکسیڈنٹ کا پئشنٹ آیا ہے کیا
تمہارے دوست کا پوچھ رہی ہوں جس کی خاطر تم نے مجھ سے غداری کی ہے
میرا کونسا دوست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضہ مجھے لگتا ہے تمہاری یاداشت کو ریسٹور کرنا پڑے گا ۔۔ میشا نے اسے گھورا
اوہ اچھا تم حنان کی بات کر رہی ہو ۔۔۔ میں نے نہیں پوچھا داراصل جب وہ آیا تھا تو بہت بری حالت تھی تو مارے گھبراہٹ کے میں پوچھ نہیں سکی ۔میرے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے تھے
چوٹ کہاں لگی ہے
زیادہ سر اور ہاتھ پر لگی ہے باقی تھوڑی بہت ہے ۔۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو
وہ سر فرید نے مجھے زمہ داری دی ہے تو پتہ ہونا چایئے نہ
ڈاکٹر میشا وہ روم نمبر اکیس کے پئشنٹ کو پین ہو رہا ہے نرس پرجوش سی اندر آئی
تو اس میں اتنا ایکسئاٹڈ ہونے کی کیا بات ہے ۔میشا نے حیرانی سے کہا تو فضہ نے اسے ہاتھ ہلکا رکھنے کا اشارہ دیا
نہیں یہ وہی پئشنٹ ہیں جن کی زمہ داری آپکو دی گئی ہے
اچھا۔۔۔۔۔۔
اچھا نہیں آپ چلیں بیچارے کو بہت درد ہو رہا ہے بازو ہلا بھی نہیں پا رہا ۔ وہ اٹھ کر باہر نکلی دروازے تک پہنچ کر مڑ کر دیکھا تو نرس کو غائب پایا۔سر کو نفی میں ہلاتی اندر آئی جہاں وہ چہرے پر دنیا جہاں کا درد سموئے بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا
کیسے ہیں مسٹر حنان ۔ پیشہ وارنہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کا حال پوچھا
ٹھیک ہوں ڈاکٹر بس اچانک سے درد شروع ہو گیا ہے
کہاں ہو رہا ہے سر میں یا ہاتھ پر۔۔
دونوں جگہ پر ۔۔۔۔۔۔۔
آپ ریلکیس رہیں میں چیک کرتی ہوں۔ زیادہ مومنٹ سے پرہیزکریں آپ بہت جلدی ٹھیک ہو جائیں گے
کتنا میٹھا بول رہی ہے یہاں اور باہر کتنا غصہ کرتی ہے، اس کی طرف یک ٹک دیکھتے ہوئے سوچا وہ تو جب اس نے سر کی پٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اسے ہوش آیا
نن نہیں یہ مت اتاریں۔ جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا
کیوں ۔۔۔۔۔
پکڑا جاؤں گا یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیں۔۔ اس نےاچھنبے سے دیکھا
نہیں میرا مطلب ہے کہ مجھے پہلے ہی درد ہو رہا ہے اگر آپ اسے چھیڑیں گی تو زیادہ درد ہو گا۔ کوئی پین کلر دے دیں ۔اس نے گڑبڑاتے ہوئے بات بدلی
اچھا ٹھیک ہے میں منگواتی ہوں سسٹر مسٹر حنان کے لیے یہ میڈیسن منگوائیں اس نے باہر نکل کر نرس کو آواز دی
مسز حنان مجھے بھوک بھی لگی ہے لنچ نہیں کیا میں نے ۔اس کو واپس جاتے دیکھ کر حنان نے اسے پکارا تو اسکے قدم تھمے
میرا نام میشا زینب ہےمسز حنان نہیں اور یہ ہوسپیٹل ہے کوئی پکنک سپاٹ نہیں جو آپکو کھانا بھی مہیا کیا جائے گا
میں نے سنا ہے کچھ دن پہلے آپکا نکاح ہوا ہے تو شادی شدہ لڑکی مسزہی ہوتی ہے رہی بات کھانے کی تو کھلا دو یار ثواب ملے گا اللہ آپکے شوہر کو لمبی عمر دے آپکی جوڑی سلامت رہے۔ معصومیت سے فرمائش کی
سسٹر کینٹین سے کچھ کھانے کو بھی منگوائیں نرس سے میڈیسن لیتے ہوئے میشا نے کہا
پلیز بریانی لایئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے ایک اور فرمائش کی
مسز حنان کتنا خیال ہے آپکو اپنے شوہر کا ۔اللہ ہر شوہر کو اپ ہی کی طرح اچھی اور کیوٹ سی بیوی دے ۔اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے باقاعدہ دعا دی اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ ادھر ادھر ٹہلنےلگی تھوڑی ہی دیر میں نرس نے بریانی کی پلیٹ لا کر اس کے سامنےرکھی
مسز حنان آپ سے ایک اور فیور چاہئے تھی۔
بولیں۔ اس نے خشک لہجے میں کہا
وہ میں خود نہیں کھا سکتا تو اگر آپ۔۔۔ اس کے تیور دیکھتے ہوۓ اس نے بات ادھوری چھوڑی
کوئ بات نہیں سر میں آپ کو کھلا دیتی ہوں۔پاس کھڑی نرس نے جھٹ سے اپنی خدمات پیش کیں
اوہ ہ ہ۔۔۔۔تھینک یو سو مچ۔ دنیا میں ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو بلا جھجک دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔میشا کی بدلتی رنگت دیکھ کر اس نے سنجیدگی سے نرس کی تعریف کی البتہ آنکھوں میں شرارت واضح تھی
تمہیں اور کوئ کام نہیں ہے کیا جو یہاں بیٹھ رہی ہو۔خدمت خلق کا اتنا ہی شوق ہو رہا ہے تو جاو روم نمبر بارہ میں جو بزرگ عورت ہیں آج رات وہاں ڈیوٹی دو یہاں میں دیکھ لوں گی اس نے سختی سے کہا تو وہ سوری کہتی کھسک گئی۔
تو بار بی ڈول جیلس بھی ہوتی ہے ۔سوچتے ہوئے مسکرایا
یہ کیا ڈرامہ ہے خود کیوں نہیں کھا سکتے
کیسے کھاؤں۔۔ اس نے معصومیت سے اپنا داہنا ہاتھ اس کے سامنے لہرایا تو میشا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے خود کو حوصلہ دیا اور کرسی گھسیٹ کہ اس کے پاس بیٹھ کر اسے کھلانے لگی۔
چوٹ زیادہ لگی ہے کیا۔ اسکےمنہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے میشا نے عام سےانداز میں پوچھا
ڈاکٹر تم ہو اور پوچھ مجھ سے رہی ہو
اب مجھے کیا پتہ تمہاری پٹی تو فضہ نے کی ہے ۔میں تو دیکھوں گی تو پتہ چلے گا
اتنی زیادہ نہیں لگی ۔۔ اسے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا اسلیے سنجیدگی سے کہا
کیسے ہوا ایکسیڈینٹ۔۔۔۔۔
میری بیوی مجھ سے ناراض ہے۔آج کل خونخوار شیرنی بنی ہوئی ہے ۔ اس کو منانے کی ترکیبیں سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ بائیک سے گر گیا
گھر کیوں نہیں بتایا ۔۔۔۔۔۔
تھوڑی سی چوٹ ہے مام ڈیڈ پریشان ہو جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو رات گھر سے غائب رہنے کی کیا وجہ بتائی ہے
آؤٹ آف سٹی جانے کا بولا تھا
میں کچھ دیر کے لیے گھر جا رہی ہوں ڈیڈ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔ ایک گھنٹے تک آ جاؤں گی۔ فضہ ہو گی یہاں پر
کیا ہوا انکل کو۔۔۔
بی پی ہائی ہو گیا تھا
میں چلوں. ساتھ
نہیں تم رہنے ڈرائیو کرنا مشکل ہوگا۔ میں چلی جاؤں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارق صاحب کو میڈیسن دے کر وہ اپنے کمرے میں جا کر چینج کر کہ ڈریسنگ ٹیبل پر کھڑی. بال بنانے لگی
بیٹا کھانا کھا کہ جاؤ گی لگواؤں خالدہ بیگم نے اندر آتے ہوئے پوچھا
نہیں مام ٹائم نہیں ہے آپ پیک کر دیں اور پلیز تھوڑا زیادہ کیجئیے گا
فضہ کے لیے لے جانا ہے ۔۔۔ انکی نظر اس کے موبائل پر پڑی جس پر حنان کی کال آرہی تھی ان کے دیکھتے دیکھتے کال کٹ گئی اب موبائل سکرین پر سات مسڈ کالز لکھا آ رہا تھا
بیٹا کب سے تمہارا فون بج رہا ہے اٹھا کیوں نہیں رہی ۔پھر سے آتی کال دیکھ کر اُنہوں. نے موبائل اٹھا کر اس دیا
حنان کا ہے۔۔۔۔
تو اٹھا لو بات کرو اس سے۔ کب سے کر رہا ہے
اٹھا لوں گی ۔بات اس نے کرنی کوئی نہیں ۔ ایسے ہی کالز کیے جا رہا ہے۔ اس نے کال کاٹ کر موبائل سایڈ پر رکھا
یہاں آ کہ میرے پاس بیٹھو ۔ انہوں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا
میں کافی دنوں سے دیکھ رہی ہوں تمہارا رویہ بہت خراب ہے اس کے ساتھ ۔ یہاں آتا ہے تو اس سے بات نہیں کرتی ہو کال کرتا ہے تو ریسو نہیں کرتی ہو یہ سب کیا ہے ۔
تو اس نے آپ سے میری شکائت لگائی ہے
نہیں شکائیت نہیں لگائی کل رات بھی وہ تمہیں کال کرتا رہا ہے یہ جاننے کے لیے کہ تم گھر پہنچ گئی ہو۔ مگر تم نے اس کی ایک کال بھی اٹینڈ نہیں کی پھر اس نے مجھے کال کر کہ پوچھا ۔ ٹھیک ہے جوا ہوا غلط ہوا تمہاری انا کو ٹھیس پہنچی مگر اب بھول جاؤ ۔لڑکیوں کو شادی کے بعد اپنی انا اور ضد مارنی پڑتی ہے ورنہ ایسے گزارا نہیں ہوتا ۔رشتے بہت نازک ہوتے ہیں ان کو بچانے کے لیے اپنا من مارنا پڑتا ہے ۔میں نے حنان کی آنکھوں میں تمہاری لیے محبت، فکر اور عزت دیکھی ہے وہ تمہیں خوش رکھے گا ۔میں سب دیکھ رہی ہوں اگر وہ تمہارے پیچھے آتا ہے یا تم سے دب کر رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تم سے ڈرتا ہے ۔تمہارا غصہ اس لیے سہہ جاتا ہے کہ تم اس کے لیے اہم ہواور وہ تمہیں کسی بھی حال میں کھونا نہیں چاہتا ورنہ کون سا مرد یوں چیخنا چلانا برداشت کرتا ہے اور تم نے تو اس پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے
مام میں نے کب ہاتھ اٹھایا ۔ اس نے آنکھیں پھاڑیں
مجھے فضہ نے بتایا ہے کہ کل واپسی پر تم نہ صرف اس پر ہاتھ اٹھایا ہے بلکہ بدتمیزی کر کہ اسکو اسی کی گاڑی سے نکال کر وہی چھوڑ آئی تھی
فضہ کی بچی تم بچ جاؤ ۔ اس نے دانت پیسے
نہیں مام میں نے کوئی نہیں مارا بس ایک کلچ ہی سر میں مارا تھا ۔اس نے منہ بنایا گو یا ایک ہی مارنے پر افسوس کیا گیا ہو
بات کم یا زیادہ کی نہیں بات یہ ہے کہ تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا ہے ۔دیکھو بیٹا مرد کو بدلتے دیر نہیں لگتی ۔آج اگر وہ تمہارے لیے پریشان ہے یا فکر کرتا ہے تو جواب میں تم بھی اسے احساس دلاؤ کے وہ بھی تمہارے لیے اہم ہے ۔ بیوی کے رویے کی بد صورتی شوہر کو بہت جلد بد ظن کر دیتی ہے ۔اگر وہ تمہارے مزاج اور رویے کی وجہ سے بددل ہو کر پیچھے ہٹ گیا تو پچھتاؤ گی
جب شادی ہو گی تب دیکھ لوں گی نہ۔ اس نے گویا ناک سے مکھی اڑائی
میشا کچھ دن پہلے غالبا تمہارا ہی نکاح ہوا ہے اور میں اب مزید تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گی ۔تم حنان کو کال بیک کرو اور اپنے بی ہیور کی سوری بھی کرو گی اب اگر مجھے تمہاری کوئی الٹی سیدھی حرکت کا پتہ چلا نہ تو بہت بری طرح سے پیش آؤں گی یہ جو تمہارا دماغ بہت جلدی گھوم جاتا ہے نہ کسی دن اس کی وجہ سے نقصان اٹھاؤ گی اپنے غصے پر کنٹرول کرنا سیکھو اور آئندہ حنان پر تو بلکل بھی تم غصہ نہیں کرو گی ۔۔ سمجھی ۔ اب کی بار انہوں نے سختی سے کہا تو اس نے سر ہلا دیا
یہ بیس کلو کا سر نہ ہلاؤ۔ اسے کال کرو اٹھو ۔خالدہ بیگم نے اپنی گود سے اٹھاتے ہوئے موبائل اسے تھمایا اور خود باہر نکل گئی
کال بیک کی کیا ضرورت ہے آپکے داماد صاحب کے پاس ہی جا رہی ہوں وہیں جا کر پوچھ لوں گی ۔بڑبڑاتے ہوئے موبائل وہیں چھوڑ کر خود ڈریسنگ ٹیبل کے پاس جا کھڑی ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...