(Last Updated On: )
دنیائے دنی، ہیچ سبک سار بچائی
افسوس صد افسوس کہ بیکار بچائی
دل خوگرِ آزار تھا کیا اور بچاتے
تاعمر یہی لذتِ آزار بچائی
کوتہ قَدَمی اچھی رہی راہِ جنوں میں
منزل کے لیے تھوڑی سی رفتار بچائی
مردانگی جاتی تھی اگر دیکھتے رہتے
عزت کسی گھر کی سرِ بازار بچائی
کچھ بھی نہ بچایا گیا وہ آگ تھی گھر میں
پرکھوں کی نشانی تھی یہ تلوار بچائی
جاگیر ملی ترکے میں لیکن متنازع
گھر ٹوٹ گئے صحن کی دیوار بچائی
ڈیتھ نوٹ نہ چھوڑا کہ ترا نام نہ آئے
عزت تری مر کر بھی مرے یار بچائی
یہ شعر کی دنیا بھی تو کیچڑ سے بھری ہے
چھینٹے نہ پڑیں کھینچ کے شلوار بچائی
کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں غم نہیں کاشر
ہے فخر کہ آزادئ اظہار بچائی