کچھ ایپی جینیٹک ترامیم ایسی ہیں جو واقعی بیماری کے آغاز یا اسکی بڑھوتری کا باعث بنتی ہیں۔ یہ کیس کینسر میں مظبوط نظر آتا ہے۔ ایسی ایپی جینیٹک ادویات موجود ہیں جو مخصوص اقسام کے کینسر کے خلاف موثر ہیں۔ اور خلیہ کے اندر ایپی جینیٹک ترامیم میں ردوبدل خلیہ کو کینسر کا شکار بنا سکتا ہے یا پہلے سے موجود کینسر کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ ڈی این اے میتھائی لیشن میں اضافہ ٹیومر سپریسر جین کے ایکسپریشن کو آف کردیتا ہے۔ مخصوص جگہ کے اوپر یہ ڈی این اے میتھائی لیشن میں اضافہ تب ہوتا ہے جب باقی جگہوں کے اوپر میتھائلیشن میں کمی واقع ہورہی ہوتی ہے۔ میتھائلیشن میں یہ کمی ہوسکتا ہے DNMT1اینزائم کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہو۔ باقی جگہوں پر میتھائی لیشن کی یہ کمی بھی کینسر کا باعث بنتی ہے۔
اس بات کی تحقیق کیلئے روڈی جینیش نے ایسے چوہے تیار کئیے جنکے اندر اس انزائم کا ایکسپریشن نارمل کا صرف دس فیصد تھا۔ ان چوہوں کے اندر ڈی این اے میتھائی لیشن کا لیول بہت کم تھا۔ ان چوہوں کی گروتھ ابتدا سے بہت سست رہی اور چار اور آٹھ مہینوں کے دوران انکے اندر مدافعاتی نظام کے کیسنر پھیلنا شروع ہوگئے۔ اسکا تعلق کروموسومز کی دوبارہ ترتیب کیساتھ تھا خصوصاً کروموسوم نمبر پندرہ کیساتھ۔ پروفیسر جینیش نے یہ مفروضہ دیا کہ ڈی این اے میتھائی لیشن میں کمی کروموسوم کی کمزوری اور ٹوٹنے کا باعث بنی۔ اسکی وجہ کروموسومز کی ترتیب درست طریقہ سے نہیں ہوسکی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ سرخ اور سبز رنگ کے دو چاک لیکر انکو توڑیں اور چار میں تبدیل کردیں۔ آپ انکو دوبارہ کسی چیز سے جوڑ کر دو بناسکتے ہیں لیکن آگر آپ یہ کام اندھیرے میں کریں تو کیا ہوگا ؟ ممکن ہے دو ہائبرڈ چاک بن جائیں آدھے سرخ آدھے سبز۔
روڈی جینیش کے چوہوں میں بڑھتی ہوئی کروموسوم عدم استحکام کا آخری نتیجہ جین کا غیر معمولی ایکسپریشن تھا۔ اس کے نتیجے میں انتہائی ناگوار اور جارحانہ خلیوں کا بہت زیادہ پھیلاؤ ہوا ، جس کے نتیجے میں کینسر ہوگیا۔
یہ اعداد و شمار ایک وجہ ہیں کہ DNMT انہبیٹر کو کینسر کے علاوہ کسی اور چیز میں بطور دوا استعمال کرنے کا امکان نہیں ہے۔ خوف یہ ہے کہ ادویات عام خلیوں میں ڈی این اے میتھائی لیشن کو کم کرنے کا سبب بنتی ہیں ، جو کینسر کی طرف کچھ اقسام کے خلیات کو دھیکل سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ڈی این اے میتھائی لیشن لیول اہم مسئلہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جینوم میں ڈی این اے میتھائی لیشن میں تبدیلیاں کہاں ہوتی ہیں۔
ڈی این اے میتھائی لیشن کی سطح میں عمومی کمی جو کہ عمر کے ساتھ آتی ہے انسانوں اور چوہوں کے علاوہ دیگر انواع میں بھی رپورٹ کی گئی ہے ، چوہوں سے لے کر ہمپ بیک سالمن تک۔ یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ ڈی این اے میتھائی لیشن کی کم سطح جینوم کے عدم استحکام سے کیوں وابستہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ڈی این اے میتھائی لیشن کی اعلی سطح ایک بہت کمپیکٹڈ ڈی این اے ڈھانچے کا باعث بن سکتی ہے ، جو زیادہ ساختی طور پر مستحکم ہو سکتی ہے۔ بہر حال کٹر کیساتھ ایک واحد تار کو کاٹنا آسان ہے بنسبت اسکے کہ بہت سی تاروں کو اکٹھا کر کے دھات کی ساخت گانٹھ بنادی جائے۔ خلیات جسطرح کروموسومز کا خیال رکھتے ہیں یہ قابل تعریف ہے۔ اگر کہیں کٹ لگتا ہے تو خلیہ اسکو درست کرنے کی پوری کوشش کریگا۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو خلیہ اپنے آپ کو تباہ کردیتا ہے جسکو اسکی خودکشی کہا جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خراب کروموسوم خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ایک خلیے کو مارنا بہتر ہے ، اس کے بجائے کہ یہ جینیاتی مواد کو نقصان پہنچا ئے۔ مثال کے طور پر ، ایک ہی سیل میں کروموسوم 9 کی ایک کاپی اور کروموسوم 22 کی ایک کاپی کا تصور کریں جنکو نقصان پہنچا ہو۔ وہ صحیح طریقے سے مرمت کر سکتے ہیں ، لیکن بعض اوقات مرمت غلط ہو جاتی ہے اور کروموسوم 9 کا کچھ حصہ کروموسوم 22 کے ساتھ مل جاتا ہے۔کروموسوم 9 اور 22 کی یہ دوبارہ ترتیب دراصل مدافعتی نظام کے خلیوں میں نسبتا کثرت سے ہوتی ہے۔ در حقیقت یہ اس قدر کثرت سے ہوتا ہے کہ اس کیلئے 9:22 ہائبرڈ کا ایک مخصوص نام ہے۔ اسے فلاڈیلفیا کروموسوم کہا جاتا ہےاس شہر کی نسبت سے جہاں اسے پہلے دریافت کیا گیا تھا۔ پچانوے فیصد لوگ جو کینسر کی خاص قسم کا شکار ہوتے ہیں جسے کورونک مائیلائڈ لیوکیمیا کہا جاتا ہے ان کے کینسر کے خلیوں میں فلاڈیلفیا کروموسوم ہوتا ہے۔ یہ غیر معمولی کروموسوم مدافعتی نظام کے خلیوں میں اس کینسر کا سبب بنتا ہے۔ دو کروموسومز کے حصوں کے فیوژن کے نتیجے میں Bcr-Abl نامی ایک ہائبرڈ جین کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس ہائبرڈ جین کے ذریعہ انکوڈ کردہ پروٹین خلیات کے پھیلاؤ کو بہت جارحانہ انداز میں آگے بڑھاتی ہے۔
ہمارے خلیوں نے اس طرح کے فیوژن کو روکنے کے لیے کروموسوم بریک کو جتنی جلدی ہو سکے مرمت کرنے کے لیے انتہائی پیچیدہ اور تیز رفتار راستے تیار کیے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ، ہمارے خلیوں کو ڈی این اے کے ڈھیلے سروں کو پہچاننے کے قابل ہونا چاہیے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ایک کروموسوم دو میں ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے خلیوں میں موجود ہر کروموسوم میں قدرتی طور پر ڈی این اے کے دو ڈھیلے سرے ہوتے ہیں ہر سرے پر ایک۔ کسی چیز کو ڈی این اے کی مرمت کی مشینری کو یہ سوچنے سے روکنا چاہیے کہ ان سروں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ایک خاص حصہ کرتا ہے جسے ٹیلومیر کہتے ہیں۔ ہر کروموسوم کے ہر سرے پر ایک ٹیلومیر ہوتا ہے ، جو انسانوں کے ایک خلیہ میں کل 92 ٹیلومیر بناتا ہے۔ وہ ڈی این اے کی مرمت کی مشینری کو کروموسوم کے سروں کو نشانہ بنانے سے روکتے ہیں۔
بڑھاپے کے کنٹرول میں ٹیلومیر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جتنا ایک خلیہ زیادہ تقسیم ہوتا ہے اسکے ٹیلومیر چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ ہماری عمر بڑھتی ہے اور ٹیلومیر کی جسامت کم ہوتی جاتی ہے بالآخر اس قدر چھوٹے ہوجاتے ہیں کہ صحیح طرح سے کام نہیں کرسکتے۔ خلیات تقسیم ہونا بند کر دیتے ہاں یا پھر خودکشی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ صرف ایک قسم کے خلیات جہاں ایسا نہیں ہوتا وہ جراثیمی خلیات ہوتے ہیں جو بالآخر انڈے یا نطفہ کو جنم دیتے ہیں۔ ان خلیوں میں ٹیلومیرز ہمیشہ لمبے رہتے ہیں ، لہذا جب لمبی عمر کی بات آتی ہے تو اگلی نسل مختصر عمر میں تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ 2009 میں ، فزیالوجی یا میڈیسن کا نوبل انعام الزبتھ بلیک برن ، کیرول گریڈر اور جیک سوستک کو ان کے کام کے لیے دیا گیا جس میں دکھایا گیا کہ ٹیلومیر کیسے کام کرتا ہے۔
چونکہ ٹیلومیرز بڑھاپے کے حوالے سےبہت اہم ہیں ، اس لیے اس بات پر غور کرنا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ایپی جینیٹک سسٹم کے ساتھ کیسے انٹرایکٹ کرتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے ٹیلومیرز کا ڈی این اے TTAGGG کی سیکڑوں تکرار پر مشتمل ہے۔ ٹیلومیر میں کوئی جین نہیں ہے۔ ہم تسلسل سے یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ٹیلومیرز میں کوئی سی پی جی سائٹ نہیں ہے۔ لہذا کوئی ڈی این اے میتھائی لیشن نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی ایپی جینیٹک اثرات ہیں جو ٹیلومیرز میں کردار ادا کرتے ہیں تو انہیں ہسٹون ترمیم پر مبنی ہونا پڑے گا۔ ٹیلومیرز اور کروموسوم کے اہم حصوں کے درمیان ڈی این اے کے پھیلاؤ ہیں جنہیں سب ٹیلومیرک ریجنز کہا جاتا ہے۔ ان میں بار بار ڈی این اے کے بہت سارے ایک جیسے حصے ہوتے ہیں۔ یہ تکرار ٹیلومیرز کے مقابلے میں ترتیب میں کم محدود ہیں۔ سب ٹیلومیرک علاقوں میں جین کی تعداد کم ہوتی ہے۔ ان میں کچھ سی پی جی سائٹس ہوتی ہیں لہذا ان علاقوں کو ہسٹون میں ترمیم کے علاوہ ڈی این اے میتھائی لیشن کے ذریعے بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر ٹیلومیرز اور سب ٹیلومیرک علاقوں میں پائی جانے والی ایپی جینیٹک ترمیم کی اقسام وہ ہیں جو انتہائی ریپریسیو ہیں۔
چونکہ ان علاقوں میں ویسے بھی بہت کم جینز ہیں یہ ترمیم شاید انفرادی جینز کو بند کرنے کے لیے استعمال نہیں کی جاتی۔ اس کے بجائے یہ ریپریسیو ایپی جینیٹک ترامیم شاید کروموسوم کے سروں کو سپریس کرنے میں شامل ہیں۔ ایپی جینیٹک ترامیم ان پروٹینز کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں جو کروموسوم کے سروں کو گھیرے ہوتی ہیں اور انکی مدد کرتی ہیں تاکہ جتنا مضبوطی سے ہوسکے پکڑ کر رکھا جاسکے۔
خلیہ کیلئے یہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ کروموسومز کے تمام سرے ایک ہی جیسے ڈی این اے ترتیب ہر مشتمل ہوتے ہیں۔ ایک جسیے حصے آپس میں جڑ جاتے ہیں اور خلیہ کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں جب یہ کھلے ہوئے یا خراب ہوں۔ لہذا ٹیلومیرز کے سروں پر موجود ریپریسیو ترامیم کی کوٹننگ مختلف کروموسومز کو آپس میں جڑنے سے روکتی ہے۔ اگر ٹیلومیرز زیادہ چھوٹے ہوجائیں تو خلیے کا نظام بند ہونے کا خطرہ ہے اور اگر زیادہ لمبے ہوجائیں تو کروموسومز کے آپس میں مکس اپ ہوکر کینسر کا باعث بننے کا خطرہ ہے۔ اسی وجہ سے ایسی ادویات کی تیاری مشکل ہے جو ٹیلومیرز کو لمبا کرنے کے باوجود کینسر کا باعث نہ بنیں۔
اگر ہم نئے پلوریپوٹینٹ سیلز تیار کرلیں تو ؟ یہ سومیٹک سیل نیوکلئیر ٹرانسفر یا آئی پی ایس سیلز کی مدد سے کیا جاسکتا جن سے ہم اس سلسلے کے شروع میں متعارف ہوچکے ہیں۔ اس طریقے سے ہم انسانی یا غیر انسانی خلیات تیار کرسکتے ہیں جن سے مختلف بیماریوں کا تدارک کیا جاسکے۔ ہمیں نارمل لمبائی والے ٹیلومیرز درکار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایسے خلیات بنانے کی ضرورت ہے جنکے ٹیلومیرز کی لمبائی ایمبریو کے ٹیلومیرز کے برابر ہوں۔ فطرت میں ، یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جرم لائن میں موجود کروموسوم ٹیلومیر شارٹنگ سے محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نسبتاً بالغ خلیوں سے پلوری پوٹینٹ خلیات پیدا کر رہے ہیں تو ہم اس نیوکلیس کے ساتھ کام کر رہے ہیں جہاں ٹیلومیرز پہلے ہی نسبتاً مختصر ہونے کا امکان رکھتے ہیں کیونکہ ‘سٹارٹر’ خلیات بڑوں سے لیے گئے تھے ، جن کے کروموسوم کے ٹیلومیرز عمر کیساتھ کم ہوچکے تھے۔
خوش قسمتی سے جب ہم تجرباتی طور پلوریپوٹینٹ سیلز تیار کرتے ہیں تو کچھ غیر معمولی واقع ہوتا ہے۔ جب آئی پی ایس خلیات بنائے جاتے ہیں ، وہ ایک جین کے ایکسپریشن کو تبدیل کرتے ہیں جسے ٹیلومریز کہتے ہیں۔ ٹیلومیریز عام طور پر ٹیلومیرز کو صحت مند لمبائی میں رکھتا ہے۔ تاہم جیسے جیسے ہم بوڑھے ہوتے ہیں ہمارے خلیوں میں ٹیلومریز کی سرگرمی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ آئی پی ایس خلیوں میں ٹیلومیریز کو تبدیل کرنا ضروری ہے ورنہ خلیوں میں بہت چھوٹے ٹیلومیرز ہوں گے اور وہ خلیوں کی بہت سی نسلیں نہیں بنائیں گے۔ یاماناکا فیکٹرز آئی پی ایس خلیوں میں ٹیلومیریز کی اعلی سطح کی ایکسپریشن کو اکساتے ہیں۔
لیکن ہم ٹیلومریز کا استعمال انسان کی بڑھاپے کو ریورس یا سست کرنے کی کوشش کے لیے نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ اگر ہم خلیوں میں اس انزائم کو متعارف کرا دیں جین تھراپی کا استعمال کرتے ہوئے تو کینسر پیدا کرنے کے امکانات بہت زیادہ ہوں گے۔ ٹیلومیر سسٹم باریک طور پر متوازن ہے۔ اور اسی طرح بڑھاپے اور کینسر کے درمیان موجود ہے۔ ہسٹون ڈی ایسیٹائی لیز انہبیٹرز اور ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز انہبیٹرز یاماناکا فیکٹرز کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔ یہ جزوی طور پر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ مرکبات ٹیلومیرز اور سب ٹیلومیرک علاقوں میں کچھ ریپریسیو تبدیلیوں کو دور کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس سے ٹیلومیریز کے لیے ٹیلومرز بنانا آسان ہو سکتا ہے کیونکہ خلیات کو دوبارہ پروگرام کیا جاتا ہے۔
ٹیلومیر سسٹم کے ساتھ ایپی جینیٹک ترمیم کا تعامل ہمیں ایپی جینیٹکس اور بڑھاپے کے درمیان سادہ ارتباط سے تھوڑا دور لے جاتا ہے۔ یہ ہمیں ایک ایسے ماڈل کے قریب لے جاتا ہے جہاں ہم اعتماد پیدا کرنا شروع کر سکتے ہیں کہ ایپی جینیٹک میکانزم دراصل بڑھاپے کے کچھ پہلوؤں میں ایک کارآمد کردار ادا کر سکتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...