یحییٰ جمیل
ودربھ کے نئے ابھرنے والے مزاح نگاروں میں۔ یحییٰ جمیل نے بہت کم مدت میں اپنی فطری صلاحیتوں کو ظریفانہ تحریروں کے ذریعے منظر عام پر لا کر اپنی پہچان بنائی ہے وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ ان کے تحقیقی مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ یحییٰ جمیل ۳۰؍ جنوری ۱۹۷۴ کو امراؤتی میں پیدا ہوئے۔ فارسی میں ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد امراؤتی کے ڈگری کالج میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یحییٰ جمیل کی بیشتر ظریفانہ تحریریں خاکوں پر مشتمل ہیں جن میں ان کے آس پاس موجود کوئی شخص طنز کے نشانے پر نظر آتا ہے۔
دولہا سر
یحییٰ جمیل
انگریز نے ’کوٹ‘ کی شکل میں دنیا کو وہ نادر و نایاب تحفہ عطا کیا جو بلا شرکتِ غیرے عزت و وقار کی نشانی بنا۔ ہمارے ملک میں کوٹ پہننے کے لیے مخصوص لباس کی شرط نہیں۔ پٹھان شلوار پر کوٹ پہنتا ہے، حیدرآبادی ڈھیلے پاجامے پر، مراٹھا دھوتی پر اور جنوبی ہند کے باشندے لنگی پر۔ ایک ملک کا بادشاہ چڈی پر کوٹ پہنتا ہے۔ وہ چڈی کو عزت بخشتا ہے یا کوٹ کو رسوا کرتا ہے، وہی جانے۔ بادشاہ ہے، کوئی پوچھ سکتا ہے؟ ہمارے کرم فرما، باقاعدہ ٹراوزر پر ہی کوٹ پہنتے ہیں، لیکن جس طریقے سے پہنتے ہیں، اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ خود کو عزت بخشتے ہیں یا کوٹ کو رسوا کرتے ہیں۔
موصوف، ایک دیہات میں ٹیچر ہیں اور طلبہ میں بطور ’دولہا سر‘ مشہور ہیں، کہ گاؤں کے بچے صرف دولہے کو کوٹ میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ جب کلاس کے ایک ’ہری رام نائی‘ نے انھیں یہ اطلاع بہم پہنچائی تووہ خوشی سے پھولے نہ سمائے، اور ان کا قہقہہ جامے سے باہر ہو گیا، جو اکثر ہوتا ہے، کہ ’’بیوقوف، یہ خطاب ہے، اگلے زمانے میں مرزا نوشہ تھے اس زمانے میں ہم ہیں، دولہا سر۔‘‘ دروغ بر گردنِ راوی کہ اس کے بعد وہ بیت الخلاء بھی کوٹ پہن کر جانے لگے۔
ویسے دولہا سر کا نام، ’شیخی جان ‘ہے۔ موصوف کے اسم گرامی کے بارے میں کئی روایتیں ہیں۔ کچھ کے مطابق ان کے دادا کا نام، شیخ بھورو تھا، اس لیے یہ شیخی ہو گئے۔ شاید ان کی سیاہ رنگت نے انھیں ’ بھوروی‘ ہونے سے باز رکھا ہو۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کا نام سلیم تھا، والد پیار سے شیخو کہتے تھے جو رفتہ رفتہ شیخی میں بدل گیا۔ کچھ بد خواہوں کے مطابق اس نام کے لیے، اُن کے شیخی بگھارنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن ہم انھیں دولہا سر ہی کہتے ہیں کہ لفظ دولہا میں جو ’داد خواہی‘ پوشیدہ ہے، اسے ہر شادی شدہ بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
دولہا سر ایک مرتبہ پکنک پر گئے ہوئے تھے، جہاں دو اساتذہ نے شرط لگائی کہ ان کا کوٹ اتروایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ایک استاد نے طلبہ کو ورغلایا کہ دولہا سر سے ندی میں نہانے کی ضد کریں۔ بچوں کے اصرار پر دولہا سر بے تأمل کوٹ پہن کر پانی میں اتر گئے اور بچوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ وہاں انھوں نے ڈبکیاں بھی لگائیں اور قہقہے بھی اڑائے۔ بعد ازاں ایک چٹان پر بیٹھ کر کوٹ سُکھا لیا، لیکن اتارا نہیں۔ در اصل دولہا سر، بچپن سے کپڑے گیلے کرنے کے عادی ہیں۔
سیر سپاٹا بھی ان کی سرشت میں داخل ہے۔ تعلیم کے زمانے میں ایک صبح انھوں نے اپنے والد محترم کو اطلاع دی کہ، ’’آج، ہم چند دوستوں کے ساتھ پکنک پر جا رہے ہیں۔‘‘
والد صاحب نے پوچھا، ’’کون سے استاد کے ساتھ جا رہے ہو؟؟‘‘
بولے، ’’ہم سر کے بغیر جا رہے ہیں۔‘‘
والد صاحب نے کہا، ’’سر کے بغیر مت جاؤ۔‘‘
فرمایا، ’’ہم سر کے بغیر جائیں گے۔‘‘ اور والد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود سر کے بغیر چلے گئے۔
یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بین الاقوامی کانفرنس ہو، سیمینار ہو، تعلیمی ورکشاپ ہو یا آل انڈیا مشاعرہ؛ موصوف ہر جگہ سر کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے کسی کو دکھائی نہیں دیتے، حالانکہ وہ موجود ہوتے ہیں۔ اور اپنی موجودگی کا یقین دلانے کے لیے بحالت مجبوری انھیں تقاریب کی تصاویر میں اپنا سر ’پیسٹ‘ کرنا پڑتا ہے۔
دولہا سر بچپن میں گھر کی دیوار پر لکھتے تھے، پھر دُکانوں کے بورڈ لکھنے لگے اور اب وھاٹس ایپ پر لکھتے ہیں۔ غضب کے لکھاری واقع ہوئے ہیں۔ پچھلے سال ان کی ایک کتاب، ’’تنکا تنکا جوڑ کر‘ ‘شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے حروف تہجی کے مطابق اپنی پسند کے تین سو اشعار جمع کیے ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے بعد بہت دنوں تک کتاب کی رونمائی کے لیے پریشان رہے، لیکن کوئی بندوبست نہ ہو سکا۔
ایک دن دیکھا کہ محلے میں بچے کے ختنہ کی تیاری شروع ہے۔ منڈپ ڈالا جا رہا ہے، مائک ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔ دولہا سر سے رہا نہ گیا۔ وہ بچے کے والد کے پاس پہنچ کر اس سے مستدعی ہوئے کہ ختنہ کے فوراً بعد میری کتاب کی رونمائی رکھ دیں۔ اس نے سوچا، مسکین کی دعا سے بچے کا زخم جلد سوکھ جائے گا، بخوشی راضی ہو گیا، اور بتاشے بانٹنے سے پہلے کتاب کی رونمائی کرا دی۔ اس کامیابی کے بعد دولہا سر کا کانفی ڈینس بڑھ گیا۔ اب عالم یہ ہے کہ جہاں چار لوگ جمع ہوئے، کتاب کی رونمائی کرا لیتے ہیں۔
ایک دن محلہ میں زوجین کا جھگڑا راستہ تک آ گیا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ دولہا سر نے مجمع دیکھا تو فوراً اپنے بیگ سے دو کتابیں نکالیں اور دونوں کے ہاتھ میں دے کر موبائل سے تصویر لے لی۔ تصویر کلک ہونے کے بعد دونوں نے کتابوں سے ایک دوسرے کو مارا لیکن وھاٹس ایپ پر خبر گردش کرنے لگی کہ، ’زوجین کا جھگڑا، دولہا سر کی کتاب سے نمٹا‘۔
موصوف بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ کتاب میں اتنے صفحات نہیں ہیں جتنی مرتبہ میری کتاب کی رونمائی ہو چکی ہے۔
رونمائی کے شانہ بشانہ کتاب پر تبصرے بھی شائع ہونے لگے۔ ایک تبصرہ معروف نقاد کے نام سے شائع ہوا تو اس نقاد نے سخت اعتراض کیا کہ وہ انھوں نے نہیں لکھا۔ دولہا سر نے خوب شور مچایا کہ، ’’وہ میری شہرت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ بات کسی طور حلق سے نہ اتری کہ انکار سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لہٰذا ہم نے اپنا شک دور کرنے کے لیے ان سے پوچھا، ’’کیا آپ گھوسٹ رائٹنگ بھی کرتے ہیں؟‘‘
موصوف نے کچھ یوں قہقہہ مارا گویا کہہ رہے ہوں، ’جہانِ عشق میں تفریقِ اسم و ذات نہیں۔‘ ہم نے یہ سوچ کر دل کو سمجھا لیا کہ اگر کوئی ادیب اس طرح اپنی تحریر کا صدقہ نکالتا ہے تو کیا برائی ہے۔
ادھر، دولہا سر نے ادبی اصطلاحیں وضع کرنے کا ٹینڈر بھرا اور ٹھیکہ ان کے نام ہوا۔ ایک معروف افسانہ نگار نے گائے پر چند افسانچے سپردِ قلم کیے تو انھوں نے بے دریغ مشورہ دیا کہ آپ نے نئی صنف ایجاد کی ہے، آپ اسے بجائے افسانچہ کے بقرانچہ لکھیے۔ شکر ہے کہ افسانہ نگار نے اُس کے بعد افسانچہ ہی لکھنے سے توبہ کر لی۔ ورنہ وہ ان کے بچوں پر لکھے گئے افسانچوں کو ’طفلانچے‘ اور عورتوں پر لکھے گئے افسانچوں کو ’زنانچے ‘کہتے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
ایک دن اطلاع ملی کہ دولہا سر، اسکول کی عمر رسیدہ چپراسن کے عشق میں گرفتار ہیں۔ یہ سن کر ہمارا اپنا جمالیاتی ذوق شک کے دائرے میں آ گیا۔ ہم نے عرض کیا، ’’آپ کے والد مؤذن ہیں؟‘‘ بولے، ’’بھئی حکیم الامت بھی اس وادیِ پر خار سے گذر چکے ہیں۔‘‘
ہم نے از راہ ہمدردی کہا، ’’لیکن آپ ٹیچر ہیں اور وہ بیچاری …؟‘‘
قہقہہ مار کر بولے، ’’کفو نکاح کے لیے ضروری ہے، عشق کے لیے نہیں۔ بندہ کے لیے بغیر عشق کے سانس لینا بھی حرام ہے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’جو بھی ہو، مگر یہاں، وہ منھ کھولے تو اس کے پَون انچی دانت دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
فرمایا، ’’ان دانتوں میں ایک دانت سونے کا بھی ہے۔‘‘ اُس دن ہم اپنے جمالیاتی ذوق پر شرمندہ ہو کر دولہا سر کے معاشی ذوق پر رشک کرنے لگے۔ یہ عشق بہت لمبا چلا اور اس کا اختتام بڑے المیے پر ہوا۔ دولہا سر کو امید تھی کہ جس روز سالخوردہ معشوقہ کو پیغام اجل آئے گا، وہ یہ دانت تبرکاً حاصل کر لیں گے۔ مگر پھر انھیں معلوم ہوا کہ ایک وہی دانت ذاتی ہے اور باقی تمام مستعار۔ چونکہ اصل ہے اس لیے پیلا پیلا چمکتا ہے اور نقلی دانت سفید دکھتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں لفظ عشق سے نفرت ہو گئی۔
ایک دن سر راہ مل گئے، خیریت پوچھنے پر فرمایا، ’’انگریزی الفاظ کے معمے حل کرنے میں جو لطف ہے وہ عشق بازی میں بھی نہیں۔‘‘ ہم نے، کلمات تحسین سے ان کے کانوں کو نوازا۔ موصوف خوش ہو کر بولے، ’’صاحب! ہم نے وہ معمہ (puzzle) صرف چھ مہینے میں حل کر دیا جس کے اوپر ’’۲ سے ۵ سال کے لیے‘‘ لکھا ہوا تھا۔
ہم نے کہا، ’’بھئی آپ دنیا کے سب سے بڑے جینیس ہیں!‘‘
انھوں نے اونٹ کی طرح گردن اونچی کی اور بولے، ’’وہ تو ہم نے ثابت کر دیا ہے۔‘‘
براہِ کرم، دولہا سر کو ’قدرتی حماقت پر مصنوعی ذہانت‘ کی جیتی جاگتی تصویر نہ کہیں، ہاں … قہقہہ لگاتی تصویر کہہ سکتے ہیں۔