(مارچ ۳۰، ۱۸۳۵ء)
کرنل گارڈنر نے مجھے کہا کہ آج دولہا برات لے کر آئے گا اور دلہن آج ہی رخصت ہو جائے گی۔ یہ ایک پرانا تاتاری دستور ہے کہ شادی کے لیے دولہا کو لڑنا لازمی ہے۔ چنانچہ اس رسم کو اب تک برتا جاتا ہے۔ آج دروازوں پر چوکیدار اور برقنداز مسلح بٹھائے جائیں گے اور جس وقت دولہا اندر آنا چاہے گا تو اس کو روکیں گے لیکن جب دولہا ان کو چند مُہریں بطور انعام کے دے دے گا تو وہ اس کے اندر جانے میں مانع نہ ہوں گے۔ برات کے جلوس میں دلہن کے رشتہ دار شریک نہیں ہوتے۔ رات کے وقت دولہا بڑے تجمل و احتشام سے آیا۔ راستہ میں سڑکوں پر جا بجا محرابیں بنائی گئی تھیں اور ان پر روشنی کی گئی تھی۔ علاوہ اس کے تمام قصبے میں چراغاں کیا گیا تھا۔ بہت سے جھنڈے اور طرح طرح کے باجے تھے۔ آتش بازی بھی بڑی کثرت سے چھوڑی گئی تھی۔ دولہا ایک عرب گھوڑے پر سوار تھا جس پر بہت قیمتی کلابتونی زین پوش تھا۔ گھوڑے کے سر پر جیغہ اور کلغی تھی اور گلے اور پیروں میں زیورات تھے۔ ایک خادم برابر میں چھتر لگائے ہوئے تھا۔ دولہا کی سواری کے پیچھے اس کے دوست رشتہ دار ہاتھیوں اور گاڑیوں پر سوار تھے۔ جب دلہن کے گھر برات پہونچی تو مصنوعی لڑائی کے بعد دولہا کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ سونے کے تاروں کا سہرہ تھا اور اس میں موتیوں کا جال بُنا ہوا تھا۔ مسٹر ٹارٹ ڈھاکہ کی ململ کا انگرکھا پہنے ہوئے اور ڈوپٹہ باندھے ایک عرب گھوڑے پر سوار تھے۔ یہ پوشاک ان کو بہت سجتی تھی۔
کمبائت کے بڑے نواب صاحب بھی ایک تام جھام میں سوار تھے اور بہت خوش معلوم ہوتے تھے۔ ایک بہت بڑا شامیانہ مکان کے سامنے لگایا گیا تھا اور اس کے اندر مکلف فرش تھا۔ صدر میں کامدار مخملی گدی دولہا کے لیے بچھائی گئی تھی۔ بہت سے ہندوستانی شرفا وہاں موجود تھے۔ ان کے آسائش کے لیے بہت سے خیمے ادھر ادھر کھڑے کیے گئے تھے۔ شادی کے دنوں میں تمام مرد، عورت، بچہ، ہاتھی، گھوڑے کرنل صاحب کے مہمان تصور کیے جاتے تھے اور سب کو ان کے ہاں سے کھانا ملتا تھا۔ آج آتش بازی بہت چھوڑی گئی اور شامیانہ میں رات بھر ناچ رہا۔ دولہا نے گدی پر بیٹھ کر نکاح نامہ کی شرائط سُنیں۔ یہ ایک نہایت نفیس مطلّا کاغذ پر لکھا ہوا تھا۔ جس کے لیے کرنل صاحب نے ۴۵۰ روپیہ دیے تھے۔ دستخط ہونے سے پیشتر دلہن کی منظوری لی جاتی ہے۔ اس اجازت کے حاصل کرنے کے لیے جیمس صاحب مع قاضی اور دو اور ہندوستانی شرفا کے، زنانہ میں گئے۔ میں بھی ہمراہ تھی۔ ہم سب ایک خالی کمرے میں بیٹھے۔ اس کے برابر کے کمرہ میں بیگم اور دلہن موجود تھیں۔ درمیان میں پردہ پڑا ہوا تھا لیکن آواز سنی جا سکتی تھی۔ قاضی نے دریافت کیا کہ ’’شبیہ بیگم موجود ہیں؟‘‘ جواب ملا کہ ’’ہاں‘‘۔
کیا وہ خوشی سے مرزا انجم شکوہ کی زوجیت قبول کرتی ہیں؟
اس کے جواب میں بہت دبی زبان سے ’’ہوں‘‘ کی آواز آئی۔
قاضی نے کہا کہ مرزا انجم شکوہ ۷ لاکھ روپیہ مہر کا باندھتے ہیں۔ اس کے جواب میں بیگم نے کہا کہ دو لاکھ ہم ان کو معاف کرتے ہیں، پانچ لاکھ کا مہر لکھا جائے۔ اس کے بعد مصری کی ڈلیاں دلہن کی طرف سے دولہا کو بھیجی گئیں اور ہم دستخط دیکھنے کے لیے باہر آئے۔
قاضی نے دولہا سے قرآن کی بعض آیتیں دوہروائیں اور اس سے دریافت کیا کہ کیا تم یہ شرطیں منظور کرتے ہو۔ جس کے جواب میں دولہا نے کہا ’’منظور کرتا ہوں‘‘ اور اس کے بعد چند اور رسمیں ادا ہوئیں اور نکاح نامہ پڑھا گیا۔ شاہزادے نے غور سے سن کر دستخط کر دیے اور کئی اہل فرنگ نے بطور گواہ اپنے دستخط کیے۔ کرنل صاحب نے نکاح نامہ لے لیا اور کہا کہ ’’یہ میں اپنی تحویل میں رکھوں گا۔‘‘ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ یہ کاغذ دلہن کے پاس رہتا ہے۔ چند ماہ تک دولہا اس کی بہت خاطر کرتا ہے اور جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ اس سے بہت محبت کرنے لگی ہے تو بہلا پھسلا کر وہ کاغذ اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے اور پھر یہ کاغذ ردی ہو جاتا ہے کیونکہ دولہا کہہ دیتا ہے کہ دلہن نے اپنی رضا سے کاغذ اسے دے دیا۔
اس عرصہ میں دولہا نے دلہن کو نتھ جس میں ایک لعل اور دو موتی پڑے ہوئے تھے، بھیجی۔ دلہن اب اپنی چارپائی سے اٹھی اور اسے غسل کرایا گیا اور بیش قیمت پوشاک اور زیور پہنائے گئے۔ لیکن ان سب کپڑوں کے اوپر دو دو شالے ایک زردوزی کا ایک روپہری اس طرح سے اس کو پہنائے گئے کہ سر سے پاؤں تک کوئی جُزو بدن اس کا نظر نہیں آتا تھا۔ دلہن کے سر پر بھی سہرا بندھا ہوا تھا۔ نکاح نامہ پر دستخط کر دینے کے بعد دولہا زنانہ مکان میں گیا۔ جیمس صاحب نے سوسن کو گودی میں اٹھا کر دولہا کے برابر مسند پر لا کر بٹھایا۔ دلہن اس طرح دبی ہوئی اور کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھی کہ کوئی شخص یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ ان کپڑوں میں کوئی جاندار ہے۔ دلہن کے سر پر، کندھوں پر اور پیروں پر مصری کے ٹکڑے مستورات نے رکھے اور دولہا سے یہ کہا گیا کہ تم اپنے منہ سے اٹھا کر ان ٹکڑوں کو کھاؤ۔ دولہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر دلہن کی رو گی کو کمخواب میں لپیٹ کر اس پر مصری کی ڈلی رکھی اور دولہا سے کہا کہ کھاؤ۔ یہ ایک بڑا بھاری مذاق سمجھا جاتا ہے اور جو دولہا اس طرح دھوکے میں آ جاتا ہے اُس کی بڑی ہنسی اُڑائی جاتی ہے۔
اس کے بعد قرآن کی چند آیتیں بلند آواز سے پڑھی گئیں۔ پھر ایک دوشالہ چار عورتیں دولہا دلہن کے سر پر لے کر کھڑی ہوئیں۔ ایک شیشہ دولہا کے ہاتھ میں دیا۔ اس کے بعد دولہا نے دلہن کی نقاب کو ہٹایا۔ اور اب دولہا دلہن نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو آئینہ میں دیکھا۔ اس موقع پر اگر دولہا کو یہ معلوم ہو کہ اس کو کسی طرح کا دھوکا دلہن کے بارہ میں دیا گیا ہے تو وہ علانیہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں شادی نہیں کرتا۔ لیکن دولہا اور دلہن دونوں کے چہرہ سے اس رسم کے بعد بشاشت ٹپکتی تھی۔ دولہا نے دلہن کو اپنی گود میں لے کر ایک چاندی کی پلنگڑی پر بٹھایا اور خود برابر بیٹھ کر پنکھا کیا۔ ان رسموں میں صبح ہو گئی اور ۱۱ بجے کے قریب تمام جہیز سامنے لا کر رکھا گیا اور ہر ایک چیز دیکھی گئی اور رخصت کی تیاری شروع ہوئی۔ جب رخصت کا وقت قریب آیا تو تمام بیگمات دلہن کے پاس آئیں اور سب نے گلے مل مل کر رونا شروع کیا۔
کرنل بھی موجود تھے اور میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے اپنی پوتی کو گلے لگایا تو ان پر بہت رقت طاری ہو گئی تھی اور وہ تھر تھر کانپ رہے تھے۔ کرنل نے شاہزادے کو بلا کر صاف طور پر کہا کہ اگر تم میری لڑکی کے ساتھ محبت سے سلوک کرو گے تو تم کو کسی بات کی کبھی کمی نہیں ہو گی۔ لیکن اگر تم اس سے بد سلوکی کرو گے تو تمہارے لیے بہتر نہ ہو گا۔ کرنل نے مجھ سے کہا کہ جب میں نے اپنی دوسری پوتی کی شادی گارڈنر سے کی تو مجھ کو کسی قسم کا اندیشہ اس کی بابت نہ تھا لیکن اس کی بابت میں اُسی پختگی سے نہیں کہہ سکتا۔ مگر چونکہ یہ لڑکی اور اس کی ماں اور دادی یہ چاہتی تھیں کہ شاہزادے سے اس کی شادی ہو، اس لیے مجھ کو مجبوراً ماننا پڑا۔ بیٹی تم جانتی ہو کہ جس بات پر عورتیں اڑ جاتی ہیں تو اسے کر کے چھوڑتی ہیں۔ کرنل صاحب مجھے ہمیشہ بیٹی کہہ کر پکارتے تھے اور زنانہ میں سب مجھ کو فینی بوا کہتے تھے۔ جب سب تیاری ہو چکی تو دولہا نے دلہن کو گودی میں اٹھا کر فنس میں سوار کر دیا اور کلابتونی ڈوریوں سے پردے کس دیے۔ دولہا گھوڑے پر سوار ہو کر فنس کے آگے آگے ہوا اور دلہن کی سواری کے پیچھے پیچھے تمام جہیز کا سامان روانہ ہوا۔ بہت سے بیش قیمت جوڑے دلہن کے لیے دیے گئے اور علاوہ تیار شدہ پوشاکوں کے بہت سے تھان مخمل، گورنٹ، ململ، زربفت وغیرہ کے بھی تھے۔ دو چاندی کے پلنگ تھے اور تمام ظروفِ خانگی بھی چاندی کے تھے۔ دو ہاتھی، کئی گھوڑے، کئی رتھ اور ایک پالکی بھی جہیز میں شامل تھی۔ الغرض ایک نیا گھر بسانے کے لیے جو جو چیزیں درکار ہوتی ہیں سب ایک امیرانہ ٹھاٹھ پر موجود تھیں۔ کئی لونڈی غلام بھی خدمت کے لیے ساتھ تھے۔ جواہرات اور زیورات بھی بہت قیمتی تھے۔
دلہن کو شاہزادہ اپنے خیموں میں لے گیا۔ مسٹر دگنی کہتے ہیں کہ یہاں میں نے ایک عجیب رسم دیکھی جو خاص خاندان تیمور میں برتی جاتی ہے۔ جب دلہن خیمے کے دروازہ پر پہنچی تو اس کا ایک پیر باہر نکالا، اس پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ دولہا نے انگوٹھے پر اپنے ہاتھ سے بکرے کا خون لگایا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دولہا نے اپنے ہاتھ سے اس کو ذبح کیا تھا۔ جب یہ ہو چکا تو دلہن نے پیر اندر کر لیا اور پھر اندر خیمہ میں چلی گئی۔ تین دن تک دولہا دلہن خیموں میں رہے، چوتھے روز چوتھی کی رسم کے لیے کاس گنج کرنل صاحب کے ہاں آئے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...