سجاد ظہیر
گو کہ بچپن سے وہ اِس گھرمیں رہی اور پلی، مگر سولہویں سترھویں برس میں تھی کہ آخر کار لونڈی بھاگ گئی ۔ اس کے ماں باپ کا پتہ نہیں تھا، اس کی ساری دنیا یہی گھر تھا اور اس کے گھر والے شیخ ناظم علی صاحب خوشحال آدمی تھے۔ گھرانے میں ما شا ء اللہ کئی بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔ بیگم صاحب بھی بقید حیات تھیں اور زنانہ میں ان کا پورا راج تھا۔ دُلاری خاص اُن کی لونڈی تھی۔ گھر میں اور نوکرانیاں اور مامائیں آتیں، مہینہ دو مہینہ، سال دو سال کام کرتیں اس کے بعد ذرا سی بات پر جھگڑ کر نوکری چھوڑ دیتیں اور چلی جاتیں۔ مگر دلاری کے لئے ہمیشہ ایک ہی ٹھکانا تھا۔ اس سے گھر والے کافی مہربانی سے پیش آتے۔ اونچے درجے کے لوگ ہمیشہ اپنے سے نیچے طبقے والوں کا خیال رکھتے ہیں۔ دُلاری کو کھانے اور کپڑے کی شکایت نہ تھی۔ دوسری نوکرانیوں کے مقابلے میں اس کی حالت اچھی ہی تھی۔ مگر باوجود اس کے کبھی کبھی جب کسی ماما سے اُس سے جھگڑا ہوتا تو وہ یہ طنز ہمیشہ سُنتی : ’’ میں تیری طرح لونڈی تھوڑی ہوں۔‘‘ اِس کا دُلاری کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔
اس کا بچپن بے فکری میں گزرا۔ اس کا رتبہ گھر کی بی بیوں سے تو کیا نوکرانیوں سے بھی پست تھا۔ وہ پیدا ہی اس درجہ میں ہوئی تھی۔ یہ تو سب خدا کا کیا دھرا ہے، وہی جسے چاہتا ہے عزّت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ اس کا رونا کیا ؟ دلاری کو اپنی پستی کی کوئی شکایت نہ تھی۔ مگر جب اس کی عمر کو وہ زمانہ آیا جب لڑکپن کا ختم اور جوانی کی آمد ہوتی ہے، اور دل کی گہری اور اندھیری بے چینیاں زندگی کو کبھی تلخ اور کبھی میٹھی بناتی ہیں تو وہ اکثر رنجیدہ سی رہنے لگی۔ لیکن یہ ایک اندرونی کیفیت تھی جس کی اُسے نہ تو وجہ معلوم تھی نہ دوا۔ چھوٹی صاحبزادی حسینہ بیگم اور دلاری دونوں قریب قریب ہم سن تھیں اور ساتھ کھیلتیں۔ مگر جوں جوں ان کا سِن بڑھتا توں توں دونوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا جاتا۔ صاحبزادی کیونکہ شریف تھیں ان کا وقت پڑھنے لکھنے ، سینے پرونے، میں صرف ہونے لگا۔ دُلاری کمروں کی خاک صاف کرتی، جھوٹے برتن دھوتی، گھڑوں میں پانی بھرتی۔ وہ خوبصورت تھی، کشادہ چہرہ، لمبے لمبے ہاتھ پیر، بھرا جسم۔ مگر عام طور سے اس کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے اور اُس کے بدن سے بو آتی۔ تیوہار کے دنوں البتہ اپنے رکھاؤ کپڑے نکال کر پہنتی اور سنگار کرتی، یا اگر کبھی شاذ و نادر اُسے بیگم صاحبہ یا صاحبزادیوں کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تب بھی اُسے صاف کپڑے پہننے ہوتے۔
شب برات تھی۔ دُلاری گڑیا بنی تھی۔ زنانے کے صحن میں آتشبازی چھوٹ رہی تھی۔ سب گھروالے نوکر چاکر کھڑے تماشہ دیکھتے۔ بچّے غل مچا رہے تھے۔ بڑے صاحبزادے کا ظم بھی موجود تھے جن کا سِن بیس اکیس برس کا تھا۔ یہ اپنی کالج کی تعلیم ختم ہی کرنے والے تھے۔ بیگم صاحب انھیں بہت چاہتی تھیں مگر یہ ہمیشہ گھروالوں سے بیزار رہتے اور انھیں تنگ خیال اور جاہل سمجھتے۔ جب چھٹیوں میں گھر آتے تو ان کو بحث ہی کرتے گزر جاتی۔ یہ اکثر پرانی رسموں کے خلاف تھے مگر اظہار ناراضی کر کے سب کچھ برداشت کر لیتے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔انھیں پیاس لگی، اور اُنھوں نے اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ کر کہا : ’’امّی جان پیاس لگی ہے۔‘‘ بیگم صاحبہ نے محبت بھرے لہجے میں جوادب دیا: ’’بیٹا شربت پیو۔ میں ابھی بنواتی ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر دُلاری کو پکار کر کہا کہ شربت تیار کرے۔
کاظم بولے : ’’جی نہیں امّی جان۔ اُسے تماشہ دیکھنے دیجئے۔ میں خود اندر جا کر پانی پی لونگا۔‘‘ مگر دُلاری حکم ملتے ہی اندر کی طرف چل دی تھی۔ کاظم بھی پیچھے پیچھے دوڑے۔ دُلاری ایک تنگ اندھیری کوٹھری میں شربت کی بوتل چُن رہی تھی۔ کاظم بھی وہیں پہونچ کر رکے۔
دُلاری نے مڑ کر پوچھا: ’’ آپ کے لئے کون سا شربت تیار کروں ؟ ‘‘ مگر اُسے کوئی جواب نہ ملا۔ کاظم نے دُلاری کو آنکھ بھر کے دیکھا، دُلاری کا سارا جسم تھر تھرانے لگا اور اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اُس نے ایک بوتل اُٹھا لی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ کاظم نے بڑھ کر بوتل اس کے ہاتھ سے لے کر الگ رکھ دی اور اُسے گلے سے لگا لیا۔ لڑکی نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے تن من کو اُس کی گود میں دے دیا۔
دو ہستیوں نے جن کی ذہنی زندگی میں زمیں و آسمان کا فرق تھا،یکا یک یہ محسوس کیا کہ وہ آرزؤں کے ساحل پر آ گئے۔ در اصل وہ تنکوں کی طرح تاریک طاقتوں کے سمندر میں بہے چلے جا رہے تھے۔
ایک سال گزر گیا۔ کاظم کی شادی ٹھہر گئی۔ شادی کے دن آگئے۔ چار پانچ دن میں گھر میں دُلھن آ جائے گی۔ گھر میں مہمانوں کا ہجوم ہے۔ ایک جشن ہے۔ کام کی کثرت ہے۔ دُلاری ایک دن رات کو غائب ہو گئی، بہت چھان بین ہوئی، پولیس کو اطلاع دی گئی، مگر کہیں پتہ نہ چلا۔ ایک نوکر پر سب کا شُبہ تھا، لوگ کہتے تھے کہ اُسی کی مدد سے دلاری بھاگی اور وہی اُسے چھپائے ہوئے ہے۔ وہ نوکر نکال دیا گیا۔ در حقیقت دُلاری اُسی کے پاس نکلی مگر اُس نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا۔
تین چار مہینے بعد شیخ ناظم علی صاحب کے ایک بڈھے نوکر نے دلاری کو شہر کی غریب رنڈیوں کے محلہ میں دیکھا۔ بڈھا بیچارا بچپن سے دلاری کو جانتا تھا۔ وہ اُس کے پاس گیا اور گھنٹوں تک دُلاری کو سمجھایا کہ واپس چلے وہ راضی ہو گئی۔ بُڈھا سمجھتا تھا کہ اُسے انعام ملے گا اور یہ لڑکی مصیبت سے بچے گی۔
دلاری کی واپسی نے سارے گھر میں کھلبلی ڈال دی۔ وہ گردن جُھکائے، سر سے پیر تک ایک سفید چادر اوڑھے، پریشان صورت، اندر داخل ہوئی اور سائبان کے کونے میں جا کر زمین پر بیٹھ گئی۔ پہلے تو نوکرانیاں آئیں۔ وہ دور سے کھڑے ہو کر اُسے دیکھتیں اور افسوس کر کے چلی جاتیں۔ اتنے میں ناظم علی صاحب زنانہ میں تشریف لائے انھیں جب معلوم ہوا کہ دُلاری واپس آ گئی ہے، تو وہ باہر نکلے، جہاں دلاری بیٹھی تھی۔ وہ کام کاجی آدمی تھے، گھر کے معاملات میں بہت کم حصّہ لیتے تھے: انھیں بھلا ان ذرا ذرا سی باتوں کی کہاں فرصت تھی۔ دُلاری کو دُور سے پکار کر کہا ’’بے وقوف اب ایسی حرکت نہ کرنا ! ‘‘ اور یہ فرما کر اپنے کام پر چلے گئے۔ اس کے بعد چھوٹی صاحبزادی، دبے قدم، اندر سے بر آمد ہوئیں اور دُلاری کے پاس پہونچیں، مگر بہت قریب نہیں، اس وقت وہاں اور کوئی نہ تھا۔۔ دلاری کے ساتھ کھیلی ہوئی تھیں۔ دُلاری کے بھاگنے کا انھیں بہت افسوس تھا۔ شریف، پاکباز، باعصمت حسینہ بیگم کو اس غریب بے چاری پر بہت ترس آ رہا تھا، مگر ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کوئی لڑکی کیسے ایسے گھر کا سہارا چھوڑ کر جہاں اُسکی ساری زندگی بسر ہوئی ہو باہر قدم تک رکھ سکتی ہے۔ اور پھر نتیجہ کیا ہوا ؟ عصمت فروشی، غربت، ذلّت یہ سچ ہے کہ وہ لونڈی تھی، مگر بھاگنے سے اُس کی حالت بہتر کیسے ہوئی ؟دُلاری گردن جھکائے بیٹھی تھی۔ حسینہ بیگم نے خیال کیا کہ وہ اپنے کئے پرپشیمان ہے۔ اس گھر سے بھاگنا، جس میں وہ پلی، احسان فراموشی تھی۔ مگر اس کی اُسے کافی سزا مل گئی۔ خدا بھی گنہ گاروں کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ گو کہ اُس کی آبرو خاک میں مل گئی مگر ایک لونڈی کے لئے یہ اتنی اہم چیز نہیں جتنی ایک شریف زادی کے لئے۔ کسی نوکر سے اُس کی شادی کر دی جائے گی۔ سب پھر سے ٹھیک ہو جائے گا۔ انھوں نے آہستہ آہستہ نرم لہجے میں کہا: ’’دُلاری یہ تونے کیا کیا ؟‘‘ دُلاری نے گردن اُٹھائی، ڈبڈبائی آنکھوں سے ایک لمحہ کے لئے اپنے بچپن کی ہمجولی کو دیکھا اور پھر اُسی طرح سے سر جھکا لیا۔حسینہ بیگم واپس جا رہی تھیں کہ خود بیگم صاحب آ گئیں۔ ان کے چہرہ بر فاتحانہ مُسکراہٹ تھی، وہ دُلاری کے بالکل پاس آ کر کھڑی ہو گئیں۔ دلاری اسی طرح چُپ گردن جُھکائے بیٹھی رہی۔ بیگم صاحب نے اُسے ڈانٹنا شروع کیا:
’’بے حیا ! آخر جہاں سے گئی تھی وہیں واپس آئی نا، مگر منہ کالا کر کے۔ سارا زمانہ تجھ پر تُھڑی تُھڑی کرتا ہے۔ بُرے فعل کا یہی انجام ہے……….. ‘‘مگر باوجود اِن سب باتوں کے بیگم صاحبہ اس کے لوٹ آنے سے خوش تھیں۔ جب سے دُلاری بھاگی تھی گھر کا کام اتنی اچھی طرح نہیں ہوتا تھا۔
اس لعن طعن کا تماشہ دیکھنے، سب گھر والے بیگم صاحب اور دُلاری کے چاروں طرف جمع ہو گئے تھے۔ ایک نجس، ناچیز، ہستی کو اس طرح ذلیل دیکھ کر سب کے سب اپنی بڑائی اور بہتری محسوس کر رہے تھے۔ مردار خور گدھ بھلا کب سمجھتے ہیں کہ جس بیکس جسم پر وہ اپنی کثیف ٹھونگیں مارتے ہیں بے جان ہونے کے باوجود بھی اُن کے ایسے زندوں سے بہتر ہے۔یکا یک بغل کے کمرہ سے کاظم اپنی خوبصورت دُلہن کے ساتھ نکلے اور اپنی ماں کی طرف بڑھے۔ اُنھوں نے دلاری پر نظر نہیں ڈالی۔ ان کے چہرے سے غصّہ نمایاں تھا۔ اُنھوں نے اپنی والدہ سے دُرشت لہجہ میں کہا : ’’امّی خدا کے لئے اس بد نصیب کو اکیلی چھوڑ دیجئے۔ وہ کافی سزا پا چکی ہے۔ آپ دیکھتی نہیں کہ اُس کی حالت کیا ہو رہی ہے !‘‘
لڑکی اس آواز کے سننے کی تاب نہ لا سکی۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ سماں پھر گیا جب وہ اور کاظم راتوں کی تنہائی میں یکجا ہوتے تھے، جب اُس کے کان پیار کے لفظ سننے کے عادی تھے۔ کاظم کی شادی اُس کے سینے میں نشتر کی طرح چبھتی تھی۔ اسی خلش، اسی بے دلی نے اُسے کہاں سے کہاں پہونچا دیا ، اور اب یہ حالت کہ وہ بھی یوں باتیں کرنے لگے ! اس روحانی کوفت نے دُلاری کو اُس وقت نسوانی حمیّت کا مجسمہ بنا دیا۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور اُس نے سارے گروہ پر ایک ایسی نظر ڈالی کہ ایک ایک کر کے سب نے ہٹنا شروع کیا۔ مگر یہ ایک مجروح، پر شکستہ چڑیا کی پرواز کی آخری کوشش تھی۔ اُس دن ،رات کو وہ پھر غائب ہو گئی۔
٭٭٭
اس میں شک نہیں کہ جب کوئی تحریک یا رجحان فیشن کی طرح مقبول ہوتا ہے تو اصل اور نقل کا فرق مشکل ہو جاتا ہے۔ ہربڑی تحریک کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں کتنے ہی لوگ صرف نقادوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ترقی پسند بن بیٹھے تھے یہی کچھ ساٹھ کے بعد بھی ہوالیکن ستر میں محاسبہ کرنے والے ستّر کے بعد کے لوگ ہی نہیں خود ساٹھ کی دہائی کے اچھے لکھنے والے بھی اپنا محاسبہ کر رہے تھے، پھر یہ کہ خارجی منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی آئی تھی۔ موضوعات کے حوالے سے اور وہ کہانی جو ترقی پسند تحریک کے زمانے میں بالکل خارجی اور ساٹھ کی دہائی میں رد عمل کے طور پر باطنی ہو گئی تھی، ستّر میں مجموعی طور پر خارج اور باطن کے امتزاج کی صورت ظاہر ہوئی اور صرف ستّر کے بعد کے لکھنے والوں کی سوچ نہیں تھی ،خود ساٹھ کے لکھنے والے جواب مستحکم ہو گئے تھے اور عجز فن کی منزل سے بھی نکل آئے تھے، اس تبدیلی کے محر ک تھے۔ انتظار حسین ، انور سجاد، خالدہ حسین اور منشا دیاد کی ساٹھ اور ستّر کی کہانیوں میں یہ تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے، اس لیے یہ دعویٰ کہ یہ تبدیلیاں ستّر کی نسل کی دین ہیں، درست نہیں، انہیں کسی ایک نسل کی بجائے مجموعی اور عصری ارتقاء کے حوالے سے دیکھا جانا چاہیے۔ (ڈاکٹر رشید امجد کے مضمون سے اقتباس
مطبوعہ کتابی سلسلہ عکاس اسلام آباد،کتاب نمبر ۴۔ص۲۸)