انسان کوشش کر سکتا ہے، نتیجہ فقت اس ذات کے پاس ہے جو اس کائنات کا مالک و خالق ہے۔
“کوشش کو اگر ہاتھی کہ لیا جائے تو نصیب ابابیل کی کنکری ہے”۔۔
زیان اور اسکے گھر کے تمام لوگوں کی کوششیں اگر ہاتھی جتنی تھی بھی تو خدا کی جانب سے نصیب کے ابابیل کی کنکریاں کچھ اور ہی پیغام لائی تھیں۔۔۔
نائلہ کے آنے کے بعد باتوں باتوں میں ذکر انجبین کا چل نکلا۔ نائلہ کو اب بھی اپنا دیور بے قصور لگتا تھا، اگر اس کی غلطی تھی تو بیماری کا علاج کروانے کو انجبین نے کیوں نہیں کہا۔ اس بحث کے دوران مہجبین نے اپنی سہیلی کے اوپر لگنے والے یہ الزامات سن کر ان کا جواب دینا چاہا۔ اس نے ایک سائیکو پیتھ کی زندگی میں رہ کر زندہ بچ جانے والی دوست کی طرفداری کی تھی۔ وہ ان باتوں میں اس قدر سٹریس لے گئی کہ اپنی حالت بگاڑ لی۔۔
مہجبین: یہ آپ کے لیے! جبین نے ایک چھوٹا سا باکس زیان کی جانب بڑھایا۔۔۔ اس کے ہاتھوں کی لرزش بتا رہی تھی کہ یہ باکس بس تھما دینا ہی کتنا تھکا دینے والا کام ہے۔ وہ زیان سے نظر نہیں ملا پارہی تھی۔ جس نے ایک چاندنی رات میں عمر بھر ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور پورے چاند کی ایک ایسی رات بھی آئی تھی جب وہ تھک گئی تھی۔ یہ بھی ایک ایسی رات تھی لیکن چاند کی چودھویں نہیں تھی۔ مگر رات تو تھی۔ایسی رات جس میں ایک دوست کی عزت پہ بات آنے پر دوسری دوست نے اپنے ہنستے بستے گھر تک کو تیاگ دینے تک کی جرت کر دیکھائی تھی۔۔۔
زیان نے وہ باکس ہاتھ میں لیا اور سوالیہ نگاہوں سے مہجبین کی جانب دیکھا۔ اس سے قبل کے وہ دونوں نظریں ملا پاتے مہجبین نے اپنا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ اس کے سر کے بال جو کبھی اتنے گھنے اور کالے ہوتے تھے جیسے آج کی کالی رات تھی۔
لیکن اس بیماری نے مہجبین کی وہ تمام خوبصورتی چھین لی تھی۔ وہ اپنے سر میں اٹھنے والی ٹیسوں کو کیسے برداشت کر رہی تھی آج تک وہ بس مہجبین جانتی تھی۔ مگر آج کا یہ درد۔۔۔
مہجبین کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے اس درد کی شددت کی وجہ سے۔۔۔ وہ سسک رہی تھی وہ کھل کر رونا چاہتی تھی لیکن وہ اپنے شوہر کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس نے مسکرانے کی کوشش بھی کی تھی۔لیکن وہ آج اس درد سے ہار رہی تھی۔
زیان نے اب تک اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا! اس کے سامنے اس کی بیوی تڑپ رہی تھی اور وہ بے بس تھا۔ وہ ایک مرتبہ پھر بے بس تھا۔ لیکن اب کی بار اسے خدا سے شکوہ نہیں تھا۔ اس نے اپنے خدا کے ساتھ جنگ ختم کر دی تھی۔وہ جانتا تھا وہ جیت نہیں سکتا لڑائی کر کے۔۔
مہجبین زیان کے سینے سے لگی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک وہ زندگی سے بھرپور آنکھیں آج موت جیسے سکوت کی مانند پتھر ہو چکی تھی۔ زیان نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے مہجبین کو اٹھا رکھا تھا۔ وہ گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا اور دیوانوں کی طرح اپنی ماں اور بہنوں کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا تھا۔۔۔ وہ ٹوٹ رہا تھا اسکی زندگی کو روشن کرنے والی تار جس نے زیان کو جوڑ کر رکھا تھا۔
“وہ آزماتا ہے، زندگی دے کر بھی اور زندگی لے کر بھی”
زیان جانتا تھا کہ اسے آزمائش میں مبتلاء کیا گیا ہے۔ وہ سورۃ انفال کی اس آیت کو بار بار یاد کر رہا تھا
( ” اور جان لو کہ یہ تمھاری اولاد اور تمھارے اموال ایک آزمائش ہیں”- )
وہ اس سے دور لے جائی جا رہی تھی، اس لمحے زیان نے جھک کر اپنے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے مہجبین کی پیشانی کا بوسہ لیا تھا۔ ۔۔۔ مہجبین کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا جا رہا تھا۔۔۔ ڈاکٹرز کی پہلی کوشش بچے کو زندہ بچانے کی تھی۔
________________
زیان کے پاس ہسپتال میں کون تھا اس وقت؟ کاشف سے اسکی امی نے سوال کیا۔ کاشف ابھی گھر آیا تھا۔
کاشف: کوئی انکل آئے تھے جب میں نکل رہا تھا، انکے علاوہ کوئی نہیں! آپی اور آنٹی کو ابھی میں آتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں۔ کاشف کی بات سنتے ہی انجبین کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا تھا۔ “وہ مہجبین کے والد ہوں گے” انجبین نے یہ بات ایسے کہی تھی جیسے وہ خود کلامی کر رہی ہو۔ کاشف اور امی نے حیرت سے بیک وقت سوال دوہرایا تھا!!!۔۔۔ “مہجبین کے والد”۔۔۔
انجبین: امی اس کے بابا زندہ ہیں! وہ بہت بڑے کاروباری آدمی ہیں۔ انجبین بولے چلی جا رہی تھی اور سب کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔ ہر دل سے بے اختیار مہجبین کی صحت سلامتی کی دعا نکلی تھی۔
افطاری کا سامان جب لے کر جاو گے تو تم مجھے بھی ساتھ لے جانا پلیز! انجبین کی آواز کی وہ گھن گرج ماند پڑ گئی تھی۔ اس کی پلکوں پہ نمی صاف دیکھائی دے رہی تھی۔ وہ جیسے رو رو کر آئی تھی۔
کاشف: آپی وہاں جاکر کیا کرو گی؟ ادھر نائلہ آپی لوگ ہوں گے اور پھر سے کوئی بحث ہو تو یہ زیان بھائی کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن جائے گی۔۔ کاشف کی بات میں دم تھا، لیکن انجبین کو اپنے بارے میں باتیں سننے اور برداشت کر لینے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ اسے مہجبین کے پاس جانا تھا۔۔ مگر کاشف اس بات کے لیے تیار نہیں تھا۔۔
________________
ڈاکٹر کو اپنی جانب آتے دیکھ کر زیان اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بوجھل ہوتے قدموں کے ساتھ ڈاکٹر کی جانب چلنے لگا۔
ڈاکٹر حیدر اور ڈاکٹر نجیبہ دونوں اس وقت مہجبین کے کیس کو ہینڈل کر رہے تھے۔ ایسا بہت ہی کم ہوا کرتا ہے کہ کوئی عورت اس حالت میں بچے کو جنم دے۔ ڈاکٹر حیدر دماغی امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر جہنیں خاور خان نے کراچی سے بطور خاص بلوایا تھا۔ زیان نے روکنے کی بہت کوشش کی تھی کہ وہ ان کہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ خاور خان نے زیان کی اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈاکٹر کو بلوا لیا تھا۔ وہ خود صبح سے ہسپتال میں ہی تھے۔۔۔
ڈاکٹر حیدر: زیان آپکی وائف کہ حالت پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی ہیں! ڈاکٹر حیدر کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ یہ معاملہ کس قدر گھمبیر ہے اور وہ کچھ بھی کرنے سے پہلے زیان سے اجازت لینا چاہتے ہیں!۔۔۔
زیان کے جواب سے قبل ہی لیڈی ڈاکٹر نجیبہ نے بات کو بڑھاتے ہوئے زیان سے آپریشن کی اجازت چاہی۔
ڈاکٹر نجیبہ: زیان آپ تو جانتے ہی ہو مہجبین کی خواہش ہے اس بچے کو دنیا میں لانے کی۔ تو تم انکار نہیں کرو گے جو میں کہنے جا رہی ہوں! ڈاکٹر نے اپنی بات اُدھوری چھوڑ کر زیان کی جانب دیکھا۔
جیسے وہ زیان کے چہرے سے کسی بات کا اندازہ لگا رہی ہوں۔ لیکن آج تو زیان بھی جیسے ایک پتھر کی مورتی بنا ہوا تھا۔ اس کے جزبات کو سمجھنے کے لیے چہرہ دیکھنا بھی بیکار تھا۔
آج کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو زیان کی دل کی بات جان سکتا، ایک ہی تو تھی۔ مگر وہ بھی آج زیان کا امتحان لینے کے لیے چپ چاپ, آئی -سی -یو میں پڑی تھی۔
زیان نے ایک لمبی سانس لی، ایک ایسی سرد سی آہ جس نے بنا بولے ہی اس کے دل کا حال کہ سنایا تھا۔
زیان: نجیبہ آپکو جیسا بہتر لگتا آپ ویسا ہی کریں! مہجبین کی جو بھی خواہش تھی آپ اس کو پورا کریں۔ زیان کے منہ سے ادا ہونے والے جملے جزبات سے عاری تھے۔ اس کی نظریں ڈاکٹروں کی پشت پے دیکھائی دینے والے اس “ICU” کی جانب تھیں۔ وہ اندر سے آج تھک چکا تھا۔ اس نے خدا کی مرضی کے آگے اپنی مرضی قربان کر دی تھی۔
زیان: جن لوگوں کو ہمارے ساتھ رہنا نہیں ہوتا وہ زندگی میں آتے ہی کیوں ہیں آپی؟ زیان شمائلہ کے پاس بینچ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
شمائلہ: ہماری زندگیوں میں سب ہی تھوڑی تھوڑی دیر آئے زیان۔ ابا کو دیکھ لو، پھر کچھ ہی سال میں آپی کی شادی۔ شادی کے بعد تو جیسے وہ اجنبی ہی بن گئی۔ ہمارا خاندان بھی تو تھا۔ ادھر ابا کی آنکھیں بند ہوئیں وہاں انہوں نے نظریں پھیر لیں۔
زیان: مگر مہجبین کی کیا غلطی تھی! اسے تو خوشیاں بھی اب ملی مگر زندگی ختم ہو گئی۔ زیان نے اپنے منہ کو اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا،
وہ رو رہا تھا! ایک خوشیوں کو ترستا ہوا شخص کسی دوسرے کی محرومی دیکھ کر رو رہا تھا۔
شمائلہ نے اپنا ہاتھ زیان کے کندھے پر رکھا اور اسے دلاسہ دینے لگی۔
شمائلہ:ہر وہ شخص جو ہماری زندگی میں قدم رکھتا ہے، اُس کے آنے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے…
کچھ لوگ ہمیں محبت کرنا سکھا دیتے ہیں، کچھ لوگ محبت نبھانا…
کچھ صبر کرنا سکھا دیتے ہیں،
تو کچھ خواب دیکھنا،
اور
کچھ لوگ اِنہیں خواب کو پورا کرنے کا حوصلہ دے جاتے ہیں…!!
زیان تمھے تو یہ سب مہجبین سکھا گئ۔ غور تو کرو ایک
غور ہی تو کرنے لگا تھا زیان۔ ایک انسان عمر بھر کانٹوں پہ بسر کر کے دوسروں کی زندگی پھولوں سے بھر دے، بے رنگ زندگی جیتے ہوئے دوسروں کی زندگی میں رنگ بھر دے۔اور پھر جب خوشی سکون اس کے قریب آئے تو وہ ہی دور جانے لگے۔۔
___________________
دکھ سے بھرے ماحول میں خوشی!۔
زیان کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ ایک ننھی سی جان۔ دکھوں اور غموں کی چھائی ہوئی سیاہ کالی رات میں زیان کو ایک روشنی کی کرن مل گئی تھی۔
اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ جس کا نام زیان اور مہجبین نے “دعا نور” سوچ رکھا تھا۔
لڑکی کے ہاں پہلی اولاد بیٹی کی ہو تو اسے خوش بختی کہا جاتا ہے۔ مگر یہاں، تو ماں ہی دنیا سے جانے والی تھی۔ زیان نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ وہ دیوانہ لگ رہا تھا۔
جب سے داکٹرز نے بچی کو حوالے کیا تھا تب سے ایک پل کے لیے بھی وہ اسے اپنے آپ سے الگ کرنے کو تیار نہیں تھا۔۔
ماں نے بچی کو بہت مشکلوں سے لیا زیان سے۔ وہ رو رہی تھی اسے بھوک لگی تھی۔ مگر زیان کو ایسا لگتا تھا جیسے وہاں موجود لوگ اس کی بیٹی اس سے چھین لیں گے۔ جیسے اس کا پیار لے لیا گیا جیسے بیوی بستر مرگ پہ پہنچ چکی ہے۔۔۔
*. *. *. *. *.
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا کیا کروں,,,
درد کم نہیں ہوتا
ریزہ ریزہ ہے خواب آنکھوں میں
کیسے کہہ دوں غم نہیں ہوتا۔۔..
سجدے میں رکھے ہوئے سر کو اٹھانے کا حوصلہ انجبین کے اندر تو نہیں تھا! بس وہ ہی ذات اب کے اٹھا سکتی تھی جس کے آگئے انجبین نے خود کو جھکا لیا تھا۔ اے اللّٰه میری دوست کو زندگی دے دو۔ میں اس سے حسد کبھی نہیں کروں گی۔
وہ سجدے میں دوست کی زندگی مانگ رہی تھی، اور یہاں زندگی کی پتنگ لوٹی جا رہی تھی۔
سرجری کرنے نہ کرنے کا فیصلہ مہجبین کی حالت میں بہتری سے مشروط تھا۔
ڈاکٹروں کی پوری ٹیم اس کام کی نگرانی کر رہی تھی۔
خاور خان اپنی بیٹی کی صحت کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہانے کو تیار تھے۔ لیکن زیان ان کا احسان مند نہیں ہونا چاہتا تھا۔
وہ اپنی بیوی جس کو حرام کمائی سے اسکی ماں نے پلنے نہ دیا تھا، اسے کیوںکر وہ اس دولت سے صحت اور زندگی حاصل کرنے دیتا۔
کس طرح اس پاکیزہ زندگی جینے والی لڑکی کو دنیا سے رخصت ہوتے وقت حرام کی کمائی ہوئی دولت کی بدولت چند سانسیں خرید دیتا۔
خاور خان کی اصل سزا کا آغاز ہو چکا تھا!
_________________
زیان کچھ گھنٹوں کے لیے سو گیا تھا! نہ جانے کیسے اس کی آنکھ لگ گئی تھی، وہ شدید تھکن کی وجہ سے سوگیا تھا شاید۔
آنکھیں کھلنے پہ اس نے تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی۔ مگر اس کی کلائی اسکے بہنوئی کیپٹن عاصم نے پکڑ لی تھی۔ وہ کب آئے تھے زیان کو تو اس بات کا بھی علم نہیں تھا۔
زیان: مجھے مہجبین کو دیکھنے جانا ہے پلیز! ۔ زیان ںرمی سے بولا۔
عاصم: چلے جانا پہلے افطار کر لو روزہ۔۔۔ عاصم نے شمائلہ کو اشارہ کیا کہ کھانے کو دے کچھ۔ اور خود بغور زیان کی اجڑی ہوئی حالت کا جائزہ لینے لگا ۔
زیان نے جلدی سے افطاری مکمل کی، بس ایک کھجور اور پانی کے گلاس کے ساتھ۔ بہن نے لاکھ کہا کہ کھا لو مگر زیان کہاں رکنے والا تھا۔
زیان تیز قدم اٹھاتا ہوا ڈاکٹر حیدر کے کمرے میں بنا دستک دیے داخل ہونے ہی لگا تھا کہ ڈاکٹر حیدر خود ہی باہر نکل آئے۔
زیان: کیا میں مہجبین سے مل سکتا ہوں؟ زیان کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ روکنے کے باوجود بھی رکنے والا نہیں ہے۔۔
ڈاکٹر حیدر: مل سکتے ہو بیٹا مگر ابھی مل کر کیا حاصل ہوئیں گا؟
زیان: سکون! زیان کے اس ایک لفظ کے جواب نے ماحول پہ ایک عجیب طرح کا سکوت طاری کر دیا تھا، جیسے کوئی بھی اس جواب کو سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
زیان بوجھل قدموں سے “آئی- سی -یو” کی طرف جا رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکا دل بند ہو جائے گا۔ اسکے دل کی دھڑکنیں ڈوب رہی تھی۔ وہ اب تک مہجبین کو ایسی حالت میں نہ دیکھ سکا تھا۔۔۔
_______________
کیا ڈھوںڈ رہی ہو آپی!
فاریہ کی آواز پہ انجبین چونک گئی اسے پتہ بھی نہ چلا تھا کہ کوئی کمرے میں داخل ہوا ہے۔ وہ اس قدر کھوئی ہوئی تھی تلاش میں۔
انجبین: میرا باکس تھا، وہ مہجبین والا! انجبین کو اپنے آپ پہ قابو پانے میں بہت مشکل پیش آرہی تھی۔۔ وہ اپنے حواس میں نہیں تھی جیسے۔
فاریہ: وہ سامنے ٹیبل پہ رکھا ہوا ہے آپی۔ کیا ہوگیا ہے! فاریہ اسے اٹھانے کو آگے بڑھی ہی تھی کہ انجبین نے اسے روک دیا ” مم میں خود لے لیتی ہوں” وہ ہڑبڑا کر میز کی جانب تیزی سے بڑھ گئی۔
فاریہ: آپکو امی بلا رہی ہیں۔ فاریہ کا تاثرات سے عاری چہرہ اور مختصراً دیا گیا پیغام۔ انجبین نے کچھ خاص توجہ نہ دی۔ مگر جب آوازیں امی اور بابا کی بھی آنے لگی تو انجبین باکس وہیں چھوڑ کر تیزی سے باہر کو بھاگی۔
کاشف: آپی جوتے پہن کر آئیں۔
کاشف کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ انجبین باوجود اس کے کہ بھائی اس سے چھوٹا ہے۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح واپس پلٹی اور جوتے پہن کر لوٹ آئی۔
انجبین نے ایک لمحہ کو بھی نہیں سوچا کہ جوتے پہننے نہ پہننے سے ماں کی بات کا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔
وہ بنا کسی سوال کے اپنے والدین کے پہچھے چل دی، ان سب سے آگے کاشف تھا۔
وہ اتنی جلدی میں کہاں جا رہے تھے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ نہ ہی کوئی سوال کرنے کا خیال اس کے دماغ میں آیا۔۔
وہ چپ چاپ گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔۔ اس کا دماغ جیسے کام کرنا چھوڑ رہا تھا وہ اپنے وجود کو کانپتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ کچھ تو ایسا تھا جو انجبین کی سمجھ سے باہر تھا۔ مہجبین! وہ بھی بھتر ہی ہے تو ہم کہاں جارہے ہیں ابھی کاشف نے ہی تو آکر بتایا تھا۔ وہ جس معاملے کو سوچتی تھی،مزید الجھتی چلی جاتی تھی۔
_______________________
زیان کی آنکھوں میں آنسوں نہیں تھے۔ وہ اپنی آنکھوں میں آنسوں نہیں رکنے دے رہا تھا! کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے مہجبین کا چہرہ دھندلا دیکھائی دیتا تھا!
اس چہرے کو جس نے ہمیشہ مسکرا کر زیان کا استقبال کیا تھا، آج بے رنگ تھا۔ تاثرات سے عاری تھا۔ وہ چہرہ شاید مسکرایا ہوگا۔ یا وہ بس ایک وہمہ تھا زیان کا۔
ساکت ہوئی آنکھوں میں آج زیان کا عکس نہیں بلکہ موت کا رقص تھا۔ ویرانی تھی۔ خلاؤں میں گھورتی آنکھیں کچھ کہ تو رہی تھیں! مگر ان کی کہی ہوئی باتیں زیان چاہتے ہوئے بھی پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔
زیان زمین پہ بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنا سر مہجبین کے ہاتھ کے بلکل قریب اس بیڈ پہ رکھ دیا اور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہلکا سا دبایا۔اور اپنی آنکھوں میں آنے والے اشکوں کو ہاتھ کی پشت سے خشک کرتے ہوئے بولا
زیان: مبارک ہو! ماں بن گئی ہو۔ ،،، تم سن سکتی ہو نامجھے۔۔
زیان نے اپنی آواز کو قابو میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
“مجھے تم سے بہت لڑائی کرنا تھی، لیکن تم بہت تیز ہو! ہمیشہ بچ جاتی ہو ڈانٹ سے۔ پہلے امی کے پیچھے چھپ جایا کرتی تھی۔ پھر یہ دھمکی کہ بچہ سن لے گا تو کیا سوچے گا۔۔۔ مہجبین سب کی سوچوں کی فکر کرتی تھی! بس ایک خود کی فکر نہ کی تم نے۔۔۔ (زیان نے مہجبین کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا تھا۔)
معلوم ہے جب تم نے مجھ سے پیار کا اظہار کیا تھا؟ اس وقت میرے دل میں کوئی اور تھا۔ جب جب تمھارے قریب آتا تھا میں، اس وقت دل و دماغ میں کوئی اور ہوا کرتا تھا۔ مہجبین تم نے ہمیشہ مجھ سے پیار کیا اور میں نے ان تمام لمحوں میں تمہیں مایوسی دی۔
میرے دل نے تمھارے ساتھ دھوکہ کیا! میں اعتراف کرتا ہوں اپنے تمام گناہوں کا۔ ان غلطیوں کا۔ میں نے تمھیں ادھورا رکھا۔ تم تھی جس نے مجھے مکمل کیا تھا!
مگر میں احسان فراموش تھا۔ میں نے ناشکری کی۔ ناقدری کی تمھاری۔۔۔ مجھے میرا اللّٰه معافی نہیں دے گا مہجبین۔”
زیان روئے جا رہا تھا،اس نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا۔
مہجبین مت جاؤ یوں چھوڑ کر، دیکھوں تو! ہماری دعا کو دیکھوں ایک بار۔ میرے لیے نہ سہی اپنی بیٹی،،،، ہماری بیٹی کے لیے لوٹ آو۔ ایک بار لوٹ آو پلیز! میں وہ پہلے والا زیان نہیں ہوں پلیز آجاو۔ زیان کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی تھی، وہ روئے چلا جا رہا تھا۔ اس کی زندگی کو زندگی کا رنگ ڈھنگ دینے والی لڑکی اس سے دور جا رہی تھی۔ مجھے خدا نے میرا پیار نہیں دیا۔ مجھے تم ملی۔ میں نے شکر ادا کیا تھا مہجبین! ۔مجھے تمھاری شکل میں ایک دوست ایک پیار کرنے والی بیوی ملی۔میں بہت خوش رہنے لگا تھا۔میں کوشش کیا کرتا تھا کہ میں تم کو خوش رکھ سکوں!۔۔۔ مجھے تمھارے ساتھ سے خوشی ہوتی تھی مہجبین۔۔۔ پلیز اٹھ جاؤ۔ اپنی بیٹی کی خاطر۔۔۔ تمھاری امی، میری امی سب کی زندگیوں کو ویران مت کرو۔۔ میری خاطر ہی لوٹ آو پلیز مہجبین پلیز۔۔۔۔ میں نے تمہیں قبول کر لیا تھا تو
پھر اب یہ درد دکھ تکلیف کیوں دی جا رہی ہے آخر کیوں!!!..
کمرے میں لگی مشینوں کا شور بڑھنے لگا تھا۔ مشینوں کے سہارے جینے والی مہجبین کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکے تھے۔۔
زیان نے سر اٹھا کر مہجبین کے چہرے کی جانب دیکھا تو وہاں اسے ایک پژمردہ سے مسکراہٹ دیکھائی دی تھی۔ یا یہ فقط زیان کا وہم تھا۔۔
مشینوں کا شور بڑھتا جاتا تھا۔ اس موقع پہ نرس اور ڈاکٹر بھاگتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔ مہجبین کے چہرے کی اداسی ختم ہو چکی تھی۔ وہ پرسکون تھی مگر مشینیں کچھ اور کہ رہی تھیں۔۔۔ ڈاکٹرز نے زیان کو باہر بھیجنے کی کوشش کی تھی مگر وہ جانے کو تیار نہیں تھا
ڈاکٹر حیدر: زیان یہ تمھاری بیوی کی بہتری کے لیے ہی کہ رہے ہیں ہم۔پلیز باہر چلو۔۔۔ زیان نے بچوں کی سی بھولی صورت بنا کر ڈاکٹر کو دیکھا۔ اور ایک نظر مہجبین کو دیکھا۔ وہ چند سیکنڈز کئی سالوں کی مسافت محسوس ہوئے تھے۔۔۔ زیان کو باہر لے جایا گیا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...