”مے آٸی کم ان سر۔؟“ وہ فاٸل چیک کرنے میں محو تھا جب ارحم جو کہ اس کا بہت ذہین اور ایماندار ورکر تھا نے ڈور ناک کر کے اندر آنے کی اجازت چاہی۔
”یس کم ان۔“ اس نے کہا اور فاٸل بند کر کے ساٸیڈ پر رکھ دی۔
”السلام علیکم سر۔۔۔! وہ مجھے آپ سے اک کام ہے۔۔“ وہ تھوڑا ججھک کر بولا ، دارین نے تھوڑا حیرانی سے اس کی طرف دیکھا’ کیونکہ پہلے تو وہ بات کرتے ہوۓ کبھی ایسے نہیں جھجھکا تھا۔
”ہاں بولو۔۔۔“
”وہ سر مجھے چھٹی چاہیے۔“ وہ کہہ کر خاموش ہوگیا اور دارین کی طرف دیکھنے لگا۔۔
”کیوں؟ تم جانتے بھی ہو آج کل کتنا زیادہ کام ہے۔پھر بھی تم چٹھی مانگ رہے ہو” اس نے تیوری چڑھا کر کہا وہ اب کافی غصے میں تھا۔
”جج جی سر پتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”کیا لیکن۔؟“وہ اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر تیزی سے بولا ، جبکہ ارحم سہم کر پیچھے ہو گیا۔۔وہ ورکرز پر کبھی کبھار ہی غصہ کرتا تھا اور کرتا بھی بہت زیادہ تھا۔
”وہ سر بات یہ ہے کہ میری واٸف کی کال آٸی ہے ‘ اُن کی سسٹر کی شادی ہے ، تو انہوں نے شاپنگ کرنی ہے۔کل وہ اپنے میکے چلی جاٸیں گی اس لیے“ اس نے ڈرتے ڈرتے بات ختم کی ، اس کی بات سن کر دارین چونکا ، اس کے ذہن میں زوردار جھماکہ ہوا۔
”شاپنگ۔۔۔؟“ وہ بڑبڑایا ، چار دن ہو گٸے تھے ، بیا اک ہی سوٹ میں پھر رہی تھی اور وہ روز دو دو سوٹ چینج کرتا تھا ، اس کے لیے کپڑے لینے کا دارین کو یاد ہی نہیں تھا۔۔
”اوہ شٹ۔۔۔! کتنا کیر لیس ہوں میں۔۔۔“وہ بڑبڑاتے ہوۓ یکدم اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا،
”کیا سر۔۔؟“
”تم جاٶ۔۔“ ارحم کو جانے کا بول کر اس نے جلدی سے والٹ، سیل اور کیز اٹھاٸیں اور تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔۔جبکہ وہ شش و پنج میں مبتلہ تھا کہ سر نے اس کو چھٹی دی تھی یا نہیں؟کچھ یاد آنے پر دارین دروازے میں رک کر بولا۔۔
”ارحم تم جاٶ گھر۔“
”تھینک یو سو مچ سر۔۔۔۔“ خوشی سے اس کی باچھیں کھل گٸی۔لیکن وہ اس کی بات سنے بغیر لمبے لبمے ڈگ بھرتا آفس سے باہر نکل گیا۔۔۔چار دن میں اس کو بلکل بھی خیال نہیں آیا تھا اب اس کو رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا خود پر ، اس نے پارکنگ سے گاڑ ی نکال کر روڈ پر ڈالی،اور سپیڈ سلو کر کے زین کو کال ملاٸی۔۔
”زین کہاں ہو۔۔۔؟“ کل رسیو ہوتے ہی اس نے پوچھا۔۔
”میں یونی ہوں بھاٸی۔۔“
”اوکے۔۔“
”کیا ہوا بھاٸی۔۔؟“
”کچھ نہیں۔۔۔“ اس نے کال ڈسکنٹ کر کے شاہ ولا میں لینڈ لاٸن پر کال ملاٸی اک دو بیل کے بعد کال رسیو ہو گٸی تھی ، کال رجو نے رسیو کی تھی۔۔
”رجو انابیہ بی بی سے کہو کہ وہ جلدی سے تیار ہو کر نیچے آجاٸیں میں ان کو لینے کے لیے گھر آرہا ہوں۔۔۔۔۔“
”ٹھیک ہے صاحب جی۔۔۔۔“
” اوکے جلدی کرو۔۔۔۔۔“ اس نے کال بند کر کے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی اور گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا ،
ٹھیک بیس منٹ میں وہ شاہ ولا کے گیٹ پر تھا ، اس نے اندر جانے کی بجاۓ گارڈ کو بھیج کر بیا کو باہر ہی بلوا لیا،
بیا اسی گرے سوٹ میں ملبوس تھی۔۔ جو اس نے چار دن پہلے پہنا تھا اور اسی براٶن شال سے اس نے خود کو ڈھانپا ہوا تھا ، شال اور سوٹ دونوں ہی بد رنگ ہو ہوگٸے تھے ، دارین نے شرمندگی سے نظریں چراٸی اور فرنٹ ڈور کھول کر اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بھی خاموشی سے بیٹھ گٸی۔
”کیا ہوا دارین جی۔۔۔ہم کدھر جا رہے ہیں۔؟“ کچھ دیر بعد اس نے لب بھینچ کر خاموشی سے ڈراٸیو کرتے دارین سے پوچھا۔۔
”کچھ بتاٸیں تو سہی۔۔؟“ وہ پریشان ہو رہی تھی اتنی ایمرجنسی میں اس نےکال کر کے جلدی سے تیار ہونے کو جو کہا تھا،
”اب آپ کچھ بولیں بھی پلیز ۔۔۔؟“وہ پھر سے بولی۔
”بیا آپ چپ کر کے بیٹھیں’ بہت زیادہ بولتی ہیں آپ۔“ اس نے سختی سے کہا ، انابیہ کی زبان کو وہیں بریک لگ گٸے وہ خاموش ہو کر شیشے سے باہر دیکھنے لگی ، اس کی آنکھیں بہنے کو تیار تھی ‘ لیکن پھر وہ اپنے آنسو اندر ہی اتار گٸی ، کچھ دیر کے بعد دارین نے گاڑی بہت بڑے شاپنگ مال کے سامنے روکی لیکن وہ پھر بھی کچھ نہیں بولی، دارین نے دوسری طرف سے آ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ خاموشی سے باہر نکل آٸی، دارین کو بھی اپنے سخت رویے کا احساس ہوگیا تھا،
”ایم سوری میں کچھ زیادہ ہی سختی سے بول گیا آپ کے ساتھ۔۔ “ اس نے سوری کی، بیا نے اک نظر دارین کے شرمندہ سے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر سے نظریں جھکا کر بولی۔۔
”اس کی ضروت نہیں دارین جی ۔۔۔“
” لیکن پھر بھی۔۔۔۔“
”چلیں اب۔۔۔۔“
”ہممممم۔۔۔۔۔“وہ مضبوطی سے بیا کا ہاتھ پکڑ کر شاپنگ مال کے اندرآ گیا،اتنا بڑا شاپنگ مال دیکھ کر بیا تو دنگ سی رہ گٸی، اس نے تو آج تک بازار بھی ٹھیک سے پورا نہیں دیکھا تھا اور اگر کچھ لینا بھی ہوتا تو اپنے محلے سے کچھ دور بنی چھوٹی سی مارکیٹ میں چلی جاتی تھی لیکن یہ تو بلکل الگ دنیا تھی،
ساری شاپنگ دارین نے ہی کی تھی وہ تو بس خاموشی سے ہوں ‘ ہاں میں سر ہلا دیتی تھی ، دارین کو لیڈیز شاپنگ کا کوٸی خاص تجربہ نہیں تھا۔۔ لیکن پھر بھی اس نے بیا کے لیے بہت اچھی شاپنگ کی تھی ، اس کی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ کبھی اپنی واٸف کے سات آ کر شاپنگ کرتا جو کہ آج پوی ہو گٸی تھی۔اتنی زیادہ شاپنگ دیکھ کر بیا تو دنگ ھی رہ گٸی،
”بس کر دیں اب آپ۔۔ “ کب سے وہ خاموش تھی آخر کار بول ہی پڑی۔
”کیوں کیا ہوا۔؟“ وہ ہلکا سا مسکرا کر حیرانی سے بولا کیونکہ وہ اتنی دیر کے بعد جو بولی تھی۔
”کیا آپ نے آج ہی خریدنا ہے سارا شاپنگ مال۔۔۔؟” اس نے معصومیت سے سوال کیا ، دارین ٹکٹکی باندھے اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جو بہت خفا خفا اور سادہ سی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
”وہ مم میں یہ کک کہہ ر۔۔“ اس کو اپنی طرف غور سے دیکھتے پا کر وہ گڑبڑا گٸی اور الفاظ اس کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے لگے۔
”اچھا ٹھیک ہے۔۔! ہم بس کر دیتے ہیں باقی شاپنگ پھر کبھی سہی۔۔“ اس کو گھبراۓ ہوۓ دیکھ کر دارین نے جلدی سے اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر کہا،
”جج جی میں بھی بہت تھک گٸی ہوں ‘ اب گھر چلتے ہیں ہم پلیز۔۔“ بیا نے کہا ، وہ واقع ہی تھک چکی تھی۔۔
”لیکن میں تو سوچ رہا تھا ہم کچھ کھالیں ، ویسے بھی آج پہلی بار میں اپنی بیوی کے ساتھ شاپنگ پر آیا ہوں، کیوں نہ ڈیٹ بھی ہو جاۓ۔۔“ وہ دھیرے سے مسکرا کر شرارت سے بولا ، اب وہ بہت اچھے موڈ میں تھا۔۔
”تو پہلے آپ کس کے ساتھ آتے تھے۔۔۔؟“ وہ مصنوعی غصے سے تیوری چڑھا کر بولی۔
”ہاہاہاہاہاہا۔۔۔! ارے واہ بیویوں والا ایٹی ٹیوڈ۔۔” وہ بڑی زور سے قہقہ لگا کر ہنس پڑا،اِدھر اُدھر سے گزرنے والے لوگوں نے بڑے تعجب سے ان کی طرف دیکھا لیکن وہ تو جیسے اپنی ہی دنیا میں مست کھڑے تھے۔۔
”دارین جی پلیز چلیں یہاں سے سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں۔۔“ وہ بہت شرمندہ ہو گئی تھی اور پھر اس کو بازو سے پکڑ کر باہر کی طرف مڑی۔
شاپنگ بیگز ‘ شاپ کیپر نے اٹھاۓ ہوۓ تھے۔۔
تقریباً آٹھ بجے کا وقت تھا جب وہ لوگ گھر واپس آئے صرف زین ہی گھر تھا ، باقی سب اپنے اپنے فنکشنز اور پارٹیز اٹینڈ کرنے گٸے ہوۓ تھے۔۔وہ زین کے پاس ہی رک گیا ‘ جبکہ بیا چینج کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گٸی،کچھ دیر بعد وہ چینج کر کے آٸی تو دارین اس کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اس کے خریدے ہوۓ سوٹ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔، پھر ان تینوں نے مل کر کھانا کھایا اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گٸے۔۔آج پہلی بار دارین اندر و باہر دونوں طرف سے ریلیکس تھا۔ اس کو اک انجانی سے خوشی ملی تھی۔۔وہ آج خود کو اک مکمل انسان محسوس کر رہا تھا۔۔۔!
….***….
”شاہ ولا“ میں اس کے اور ملازموں کے سوا کوٸی بھی نہیں تھا۔شاہانہ اور رومانہ بیگم کسی کام کے لیے چلی گٸیں، حیدر شاہ اور دارین آفس ، جبکہ زین یونی چلا گیا تھا۔۔ اس نے بھی پہلے اپنی نگرانی میں پورے گھر کی صفاٸی کرواٸی، پھر لان میں مالی بابا سے پودوں کی کانٹ چھانٹ کروا کر ان کو پانی دلوایا۔ان سب کاموں سے فارغ ہونے کے وہ اپنے کمرے میں آگٸی۔۔۔! کمرے کو سیٹ کرنے کے بعد اس نے اپنی اور دارین کی مشترکہ واڈروب کھول لی۔۔ پچھلے دو ماہ سے وہ یہاں تھی۔اور ان دو ماہ جتنی بھی شاپنگ اس کے لیے ہوٸی تھی وہ سب دارین نے ہی کی تھی۔۔ کل بھی وہ اس کے لیے کچھ لے کر آیا تھا۔جسے اس نے کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا اب اس کی نظر کل والے بیگ پر پڑی تو وہ اسے اٹھا کر بیڈ پر لے آئی اور اُسے کھول دیا،اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ اس میں ریڈ اینڈ سکن کلر کا بہت ہی دیدہ زیب و خوبصورت سوٹ تھا ، یہ سوٹ دارین کی پسند تھا، وہ دیکھ کر مسکراٸی اور پھر وہ ہی سوٹ اٹھا کر فریش ہونے کے لیے واش روم میں گھس گٸی، کچھ دیر بعد فریش ہو کر باہر آٸی اور آٸینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے لمبے اور گھنے بالوں کو سلجھانے لگ گٸی۔
تب ہی اک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور دارین اپنے ہی دھیان میں چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا لیکن پھر اسے ریڈ سوٹ میں ملبوس آٸینے کے سامنے کھڑے بال بناتے دیکھ کر وہی دروازے میں ہی تھم سا گیا اور پھر بڑی فرصت سے اس کو تکنے لگا۔اتنے دنوں میں آج پہلی بار وہ اس کو ایسے ننگے سر بغیر دوپٹے کے دیکھ رہا تھا، اس کے بال بلاشبہ بہت ہی خوصورت تھے جو اس کی کمر سے نیچے تک آ رہے تھے،یہ کلر اس کی گوری رنگت پر بہت زیادہ جچ رہا تھا، وہ ایسے ہی مبہوت سا ‘ ٹرانس کی کیفیت میں چلتا ہوا اس کے بلکل پاس پہنچ گیا،وہ جو اپنے ہی دھیان میں کھڑی بال بنا رہی تھی آٸینے میں اس کو اپنے عین پیچھے کھڑے دیکھ کر گھبرا کر یکدم پیچھے مڑی اور اس سے ٹکرا گٸی ، اس پہلے کے وہ نیچے گرتی دارین نے اس کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور اس گرد بازوں حماٸل کر کے اس کو اپنے بہت قریب کر لیا، اتنا زیادہ قریب کے دارین کی گرم سانسیں اس کو اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی،اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، دارین بے خود سا اسے دیکھے جا رہا تھا۔تب ہی اس کا سیل زور سے بجا۔۔
بیل کی آواز پر انابیہ یک دم ہوش میں آٸی اور تیزی سے اس کے بازوٶں کے حقلے سے نکل کر بیڈ کی طرف بھاگی اور دوپٹہ اٹھا کر اچھی طرح اوڑھ لیا۔۔
”اوہ شٹ اس کو بھی ابھی ہی بجنا تھا۔۔۔“ وہ بڑابڑیا اور کال سنے بغیر ڈسکنٹ کر کے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”کیا ہوا آپ کو۔۔۔؟“ اس نے شرارت سے پوچھا۔اور اس کی اٹھتی گرتی، لرزتی پلکوں کو بغور دیکھنے لگا۔۔
”کک کچھ نہیں۔“وہ اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو سنبھالتے ہوۓ بولی اور دوپٹے کو مزید اپنے آگے پھیلا لیا ‘ دارین اس کی یہ حرکت دیکھ کر مسکرا دیا۔۔
”ویسے بہت اچھی لگ رہی ہیں آپ۔۔۔“ اس نے مسکراتے ہوۓ تعریف کی..
”آپ اس وقت یہاں۔۔۔؟“اس نے دھیرے سے پوچھا، اب وہ خود کو سنبھال چکی تھی۔
”کیوں؟کیا مجھے نہیں آنا چاہیے تھا۔۔؟“ اس نے بھنویں اچکا کر خفگی سے پوچھا۔
”نن نہیں تو آپ کا گھر ہے آپ جب آٸیں آپ کی مرضی میں کون ہوتی ہوں آپ کو روکنے والی۔۔“ اس نے اپنے ہاتھوں کو مروڑتے ہوۓ سنجیدگی سے کہا ، شاید اس کو برا لگ گٸی تھا ‘ یہ بات دارین کو محسوس ہوئی تھی۔۔
” ارے میں مزاق کر رہا ہوں ، آپ کو برا لگا سوری۔میری فاٸل رہ گٸی تھی میں وہ لینے آیا تھا۔لیکن اچھا ہی ہوا جو میں آگیا۔ورنہ اس خوبصورت نظارے سے محروم ہو جاتا۔۔۔۔“ اس نے نکھری نکھری بیا کا سرتاپا جاٸزہ لے کر شوخی سے کہا۔
”کیا مطلب آپ کا۔۔۔؟“ وہ پھر سے جھینپ کر بولی۔۔
”مطلب آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔اور مجھے بھٹکانے کی کوشش کر رہی ہیں۔۔۔“ اس نے ذومعنی لہجے میں تعریف کی اور دو قدم کا فاصلہ طے کر کے اس کے پاس آگیا۔۔
”مم میں آپ کو فاٸل اٹھا کر دیتی ہوں۔۔۔“ وہ اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر گھبرا کر بولی اور وارڈروب کی طرف بڑھی، دارین نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”رکیں تو سہی۔کچھ دیر دیکھنے تو دیں خود کو۔۔“ اس نے شرارت سے اس کے دونوں بازوں پکڑ کر گھمبیر آواز میں اس کے کان کے پاس سر گوشی کی۔
”آپ جاٸیں یہاں سے۔۔مم میں ڈسٹرب ہو رہی ہوں۔“وہ اس سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر رخ موڑ کر بولی۔۔
”اوہ ڈسٹرب۔۔۔؟ مطلب میرا دیکھنا آپ کو ڈسٹرب کرتا ہے۔۔؟“ اس کی گرفت بیا کے ہاتھ پر ڈھیلی پڑ گٸی، وہ دکھ سے بولتا پیچھے ہٹا۔اُسے انابیہ کی بات سے دکھ ہوا تھا۔ بیا کو بھی اس کے دکھی لہجے سے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا وہ جلدی سے آگے بڑھی۔
”دارین جی مم میرے کہنے وہ مطلب نہیں تھا، آپ پلیز ناراض نہ ہوں۔۔۔“ وہ روہانسی ہو کر کہہ رہی تھی ۔
”ایم سو سوری دارین جی۔۔۔“
”آپ کو مجھ سے سوری کرنے کی ضرورت نہیں بیا۔“ وہ بیڈ کے کونے پر دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ گیا۔وہ خود بھی اپنی حالت نہیں سمجھ پا رہا تھا۔
”پلیز دارین جی میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا ، آپ کو پورا حق ہے مجھے دیکھنے کا، مجھے چھونے کا ، آپ تو میرے شوہر ہیں۔ آپ کی وجہ سے ہی میں اس گھر میں ہوں۔۔۔پلیز ناراض نہ ہوں ۔۔۔“ وہ روتے روتے اس کے سامنے نیچے کارپٹ پر بیٹھ گٸی اور اس کو منانے لگی۔وہ اسے روتے دیکھ کر جلدی سے اٹھا اور اس کو بھی کندھے سے پکڑ کر اٹھایا۔
”اب آپ کیوں رو رہی ہیں؟ مجھے تھوڑا برا لگا تھا آپ کا اس طرح سے کہنا ، شاید آپ کی بات سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوٸی ہے ۔۔پلیز اب آپ روٸیں نہ۔۔“ وہ اس روتے دیکھ کر پریشان سا ہو کر اس کو چپ کروانے لگا۔
”آپ مجھ ناراض تو نہیں۔۔۔۔؟“اس نے سوں سوں کرتے ہوۓ پوچھا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔۔
”نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔ میں بھلا اپنی خوبصورت اور کیوٹ سی واٸف سے کیسے ناراض رہ سکتا ہوں۔۔۔“ وہ پھر سے ٹون بدل کر شرارتی لہجے میں بولا۔اب وہ پھر سے پہلے والے موڈ میں آچکا تھا۔
”مم میں آپ کی فاٸل اٹھا کر دیتی ہوں۔۔آپ کو دیر ہو رہی ہوگی آفس سے۔“اس نے دراز میں سے فاٸل اٹھا کر دارین کے ہاتھ میں دی۔۔۔۔ وہ اس کی شوخ نگاہوں سے پزل ہو رہی تھی اور اس کی ذومعنی باتوں کا مطلب بھی سمجھ رہی تھی۔
”اب پھر آپ مجھے خود سے دور کر رہی ہیں۔۔۔ اگر میں سچ مچ میں چلا گیا تو۔؟“دارین نے شرارت سے اس کی طرف جھک کر پوچھا۔
”دارین جی مم میں آپ کو ہمیشہ دور جانے کا نہیں کہہ رہی بلکہ فلحال آفس جانے کے لیے کہہ رہی ہوں۔۔“ وہ اس کی شرارت سمجھ کر بولی۔کیونکہ اب تو وہ خود بھی دارین سے دور نہیں رہ سکتی تھی ان دو ماہ میں وہ اسکی بہت زیادہ عادی اور دیوانی سی ہو گٸی تھی، لیکن ابھی اس کے سامنے اظہار کرنے سے ڈرتی تھی، یہ سوچ کر کے کہیں وہ اسے کھو نہ دے۔کیونکہ اس بھری دنیا میں اک وہی تو تھا جو اس کا محافظ اور مسیحا تھا ۔جس نے ہر موڑ پر اس کا ساتھ دیا اور اس کے لیے سب کے سامنے ڈٹ گیا۔
”ویسے اک بات کی سمجھ نہیں آتی مجھے۔۔۔“ اس نے بیا کی طرف بغور دیکھ کر کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔
”وہ کیا۔۔۔؟“ اس نے بھی سوالیہ نظروں سے دارین کی طرف دیکھا۔۔
”رات کو بتاٶں گا تیار رہیے گا۔۔۔“ وہ شرارت سے بولا۔
”ابھی بتا دیں میں تیار تو ہوں۔“ اس نے نا سمجھی سے کہا۔
”رات کی باتیں دن میں نہیں بتاتے پگلی۔۔۔“
”دارین آپ انتہاٸی۔۔۔“اس کی بات کا مطلب سمجھ کر وہ شرم سے لال ہو کر پاٶں پٹختی اپنی بات ادھوری چھوڑ کر واڈروب میں گھس گٸی۔۔
”ہاہاہاہاہا۔۔۔! میں کیا ہوں یہ رات کو بتاؤں گا آپ کو۔۔“ اس کا چھت پھاڑ قہقہہ انابیہ کو اندر تک سناٸی دیا تھا۔دارین نے بھی کچھ دیر بند دروازے کو گھورا۔پھر باہر نکل گیا کیونکہ آج پہلی بار وہ لیٹ ہوگیا تھا، لیکن پھر بھی مطمٸین تھا۔۔۔۔!
….***….
”ارے آپ یہاں ہیں اور میں آپ کو اندر ڈھونڈ رہا تھا۔۔“ وہ عیشا کی نماز پڑھ کر باہر لان میں آگٸی تھی ، ابھی اس کو وہاں ٹہلتے کچھ ہی دیر ہوٸی تھی، جب دارین بھی اس کو ڈھونڈتا ہوا وہاں چلا آیا،
”جی۔۔۔!۔۔۔موسم کافی شفاف اور خوشگوار تھا اس لیے میرا دل کر رہا تھا ٹہلنے کو۔۔۔“ وہ جو اپنے دھیان میں سوٸمنگ پول کے ساتھ بنی روش پر ٹہل رہی تھی۔اپنے قریب دارین کی آواز سن کر اس کی طرف متوجہ ہوٸی،
”افففف باہر تو بہت سردی ہے۔“دارین نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑ کر پھونک مار کر سردی بھگانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا۔۔
”جی سردی تو ہے ، لیکن پھر بھی مجھے بہت اچھا لگ رہا۔دیکھیں چاند کتنا پیارا لگ سینکڑوں ستاروں کے بیچ۔“ اس نے شال کو درست کر کے اپنے گرد اچھے سے لپیٹا اور ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا جہاں سینکڑوں ستاروں کے بیچ چاند اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا ۔۔ آج نہ تو دھند تھی اور نہ ہی گرد، اس لیے سب کچھ صاف تھا ، سرد رات میں چاند کی ٹھنڈی ٹھندی روشنی ماحول کو اور زیادہ خوبصورت اور دلکش بنا رہی تھی۔
”مجھے بھی چاند سے باتیں کرنا ، اس کو دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا ، لیکن پھر کبھی موقع ہی نہیں ملا باتیں کرنے کا۔۔۔۔“وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹا آسمان کی طرف دیکھ کر دھیرے سے بولا۔
”اوہ۔۔! اک بات پوچھوں آپ سے۔۔۔؟“ اس کے لہجے میں اُداسی دیکھ کر اُس نے جلدی بات بدلی۔اور رک کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”جی۔“ وہ بھی رک کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا جو اس شش وپنج میں مبتلا تھی کہ پوچھے یا نہیں۔۔
”آپ پاپا کو تو پاپا ہی کہتے ہیں ‘ لیکن ماما کو مسسز شاہ کیوں کہتے ہیں۔۔؟“اس کے سوال پر دارین کے چہرے پر اک سایہ سا آ کر گزر گیا ‘اور ماتھے پر بل پڑ گٸے اور لب بھی بھینچ گئے وہ کچھ بولا نہیں۔
”کیا ہوا دارین جی۔۔؟ آپ کو میری بات بری لگی۔۔؟“وہ پریشان سی ہوگٸی۔۔
”نہیں۔۔۔!۔۔۔۔“ اس نے لب مزید بھینچ لیے۔شاید وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”تو پھر آپ نے جواب کیوں نہیں دیا۔۔۔“ وہ پوچھنے کے لیے بے تاب تھی۔۔
”بس ایسے ہی دل نہیں مانتا ان کو ماما کہنے کو۔“ وہ رکھاٸی سے کہہ کر پھر سے چلنے لگا اور سوٸمنگ پول کے پاس رکھی چٸیرز میں سے اک پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے لہجے میں صدیوں کی سی تھکن تھی۔
”لیکن وہ تو آپ کی سگی ماں ہیں۔۔۔! انہوں نے جنم دیا ہے آپ کو۔۔“ وہ بھی بولتی ہوٸی اس کے پاس جا کر بیٹھ گٸی۔
”جانتا ہوں یہ تلخ حقیقت بھی کہ وہ عورت میری ماں ہے۔۔”وہ پھر تلخی سے بولا۔۔لیکن اس کی آنکھوں میں دکھ کی جھلک واضح تھی جو بیا سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔۔
“آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں۔۔؟”
” آپ نہیں جانتی کچھ بھی ‘ چھوڑیں کوئی اور بات کریں۔”وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا۔
”ہممم میں زیادہ تو نہیں لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ آپ لوگوں کے بیچ بہت زیادہ دوریاں ہیں،جن کو آپ لوگوں میں سے کسی نے بھی کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔اگر آپ کوشش کرتے تو۔۔۔۔؟“وہ اس کی بات سن کر رسانیت سے بول رہی تھی۔
”تو بھی کچھ نہیں ہونا تھا۔!یہ مسسز شاہ جو دنیا کی نظر میں میری ماں ہیں،انہوں نے آج تک مجھے اپنا بیٹا ہی نہیں سمجھا ، وہ تو مجھ سے بات تک کرنا ضروری نہیں سمجھتیں۔لیکن اُس رمل سے وہ اتنا زیادہ پیار کرتی ہیں،جیسے وہ ہی ان کی سگی اولاد ہو،۔۔۔ اب آپ خود سوچیں جب وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتیں تو میں کیسے کرتا یہ سارے فاصلے کم؟مسسز شاہ کو اپنی بہن اور رمل کے سوا کسی سے محبت نہیں ‘ پاپا سے بھی وہ زبردستی کا رشتہ نبھا رہی ہیں۔۔۔اُن کو تو دن رات پارٹیز اور فنکشنز اٹینڈ کرنے کا شوق تھا۔۔وہ نہیں چاہتیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اُنکی لائف میں داخل اندازی کرے۔تو بس پھر میں نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور خود پر بھی خول چڑھا لیا۔“ تلخی سے بولتے بولتے آخر میں اس کے لہجے میں دکھ در آیا تھا۔۔۔اس کے لفظوں میں شکوے اور ماں کا پیار نہ ملنے کا دکھ بیا کو صاف نظر آ رہا تھا۔۔
”لیکن دارین جی اگر مساٸل کو بغیر حل کیے چھوڑ دیا جاۓ تو وہ کبھی حل نہیں ہوتے بلکہ اور زیادہ بڑھتے ہیں۔۔۔“ وہ دھیرے سے بولی۔
”سب جانتا ہوں۔۔۔! لیکن اب میں اس موضوع پر کسی سے کوٸی بات نہیں کرتا۔میرا بچپن اور جوانی والدین کی محبت کو ترستے ہوۓ گزر گئی’میرے سارے خواب جو میں نے ان دونوں کے ساتھ رہنے کے دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگٸے۔۔ میں نے بہت کچھ سہا ہے بیا ‘ لیکن اب میں بھی انہی کے رنگ میں رنگ چکا ہوں۔اب مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ کیا کر رہی ہیں یا کہاں آتی جاتی ہیں۔۔۔۔ایم سوری بیا اب میں اس موضوع پر آپ سے مزید بات نہیں کر پاؤں گا۔۔” اس نے سنجیدگی سے بات ختم کر کے سامنے بیٹھی بیا کو اک نظر دیکھا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگا۔۔۔۔اس کے اندر عجیب سی توڑ پھوڑ شروع ہو چکی تھی۔
“ارے رک جائیں کہاں’جا رہے ہیں۔۔؟” وہ بھی تیزی سے اٹھ کر اس کے پیچھے لپکی۔لیکن وہ نہیں روکا۔” ویسے لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں آپ کے بارے میں دارین جی۔“ انابیہ نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا۔۔ وہ جو پہلے نہیں رک رہا تھا اِس کی بات سن کر ايكدم سے رک کر پیچھے مڑا اور تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔
”کیا کہتے لوگ؟ بتاٸیں۔۔“ وہ سینے پر ہاتھ باندھے بغور اسے تکتے پوچھنے لگا۔
” کیوں بتاؤں۔جائیں آپ یہاں سے ۔۔” وہ نروٹھے پن سے بولی۔
“بتائیں نہ پلیز۔۔۔” اس نے اسرار کیا۔
“بتا دوں۔۔؟” وہ شرارت سے مسکرائی۔۔
” جی ۔۔بتائیں کیا کہتے ہیں لوگ ۔۔” وہ اس کے سامنے پھیل کے کھڑا ہو گیا۔
”یہی کہ دارین حیدر شاہ بڑا اکڑو ، گھمنڈی ، کھڑوس ، ضدی ، غصیل ، اور ۔۔۔۔“ بولتے بولتے اچانک ہی اس کی زبان کو بریک لگ گٸے ‘ کیونکہ دارین دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بڑے انہماک سے اس کی بات سن کر دھیرے دھیرے مسکرا رہا تھا۔۔
”اور کیا ۔۔۔۔۔۔؟ رک کیوں گئیں آپ۔۔“ اس نے مسکرا کر پوچھا۔۔
”اور کک کچھ بھی نہیں۔۔“وہ شرمندگی سے سر جھکا گٸی،
”اچھا آپ لوگوں کو چھوڑیں ان کی مجھے پرواہ نہیں۔ آپ میرے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔۔؟ کیا میں واقعی ہی ایسا ہوں؟ بتاٸیں۔۔۔“ وہ اس کے قریب آ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگا۔۔
”نن نہیں تو ۔۔۔۔۔۔“ وہ گھبرا کر بولی اور نظریں جھکا گٸی۔
”ایسے نہیں ٹھیک سے بتاٸیں۔۔۔۔“ وہ بھی پوچھنے کے لیے بضد تھا۔ وہ خاموش رہی ۔۔
“بتائیں نہ۔۔۔” وہ اس کی طرف جھکا۔
”اگر میں آپ سے نہ ملتی اور نہ ہی آپ کے ساتھ رہتی ہوتی تو میں نے بھی آپ کے بارے میں یہی کہنا تھا جو سب لوگ کہتے ہیں۔۔۔لیکن اب مجھے لگتا ہے آپ جیسے دکھتے ہیں’ اصل میں ویسے ہیں نہیں۔۔۔” اس نے ڈرتے ڈرتے صاف گٶٸی سے کہا۔
”اچھا جی ۔۔۔! تو بتائیں پھر میں ہوں کیسا؟ اور آپ کو دکھتا کیسا ہوں۔؟“ اب وہ اس کے جواب سے محظوظ ہو رہا تھا۔
”آپ شکل سے اکڑو ‘ گھمنڈی ‘ کھڑوس اور بدتمیز لگتے ہیں لیکن اصل میں ہیں نہیں۔۔“
”ہاہاہاہاہاہاہا!” وہ زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔ جبکہ وہ ہونقوں کی طرح اس کو ہنستے دیکھ رہی تھی۔پھر خفگی سے بولی۔۔”کیا ہوا آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟“ وہ خفا ہوگٸی تھی یہ بات اس کو بھی پتا لگ گٸی تھی ۔
”کچھ نہیں!ویسے میں بالکل ایسا ہی ہوں جیسے دکھتا ہوں۔۔گھمنڈی ‘ مغرور اور بدتمیز سا۔۔” وہ اپنی ہنسی بمشکل روک کر بولا ۔
”اوکے آپ اڑاتے رہیں میرا مذاق ‘ میں بھی جا رہی ہوں اندر۔“وہ مصنوعی خفگی سے منہ بنا کر وہاں سے جانے لگی۔
”رک جائیں پلیز۔۔“ دارین نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکا’اس کے لہجے میں چھپی اپناٸیت اور چاہت محسوس کر کے اس کے قدم بھی خود بخود ہی رک گٸے۔
”سوری اب نہیں ہنستا میں۔! چلیں ہم واک کرتے ہیں۔۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لان میں چلنے لگا تو وہ بھی بنا کچھ بولے خاموشی سے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی۔۔
“کیا ہوا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں۔۔؟” اُسے بیا کا خاموش رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
“میں کچھ سوچ رہی ہوں۔۔” وہ دھیرے سے بولی۔
”کیا۔۔۔؟”
“یہی کے زین آپ کی طرح ضدی اور غصیل نہیں ہے ، اک اور بات بھی ہے جو میں نے بہت زیادہ نوٹ کی ہے“ چلتے چلتے اچانک ہی اس کو یاد آیا تو اس نے رک کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کون سی بات۔۔۔؟“ وہ بھی چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گیا۔۔
”یہی کہ زین کی شکل نہ تو آپ سے ملتی ہے اور نہ ہی ماما پاپا سے۔۔“ اس نے کب سے نوٹ کی ہوٸی بات اس سے پوچھی ، جبکہ دارین اس کے منہ سے یہ سب سن کر سنجیدگی اس کو دیکھنے لگا لیکن کچھ بولا نہیں۔۔
”کیا ہوا ؟ آپ پھر سے چپ کیوں ہوگٸے؟“ اس نے دارین کو سنجیدہ دیکھ کر استفسار کیا۔
”زین کے والدین اور ہیں ‘ جبکہ میرے والدین اور۔“ آخر کار اس نے چپ توڑ ہی دی اور جو بات خود سے بھی چھپاتا تھا وہ ‘ اس نے بیا کو بتا دی اور اندر جانے والے دروازے کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گیا۔
“مطلب؟ “وہ ناسمجھی سے بولی۔ اور اس کے پاس ہی سیڑھیوں پر ٹک گٸی۔
“مطلب مسسز شاہ نے زین کو جنم نہیں دیا ، جب میں پانچ سال کا تھا ‘ تو سکینہ بی کے ساتھ پارک جاتا تھا۔وہاں ہمیں زین ملا ، ہم نے اس کے پیرنٹس کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی،لیکن وہ نہیں ملے ہمیں ‘ پھر زین کو مجھ سے اور مجھے اس سے انسیت ہو گٸی تو میں نے اس کو خود سے جدا نہیں کیا ، زین کی صورت میں مجھے اک سہارا مل گیا تھا ، بس پھر میں نے اپنا سارا بچپن پاپا اور مسسز شاہ کی لڑاٸیاں سننے کے ساتھ ساتھ زین کی پرورش کرنے میں گزار دیا۔وہ میری جان، میرا بھاٸی ، میرا دوست بلکہ میرا سب کچھ ہے۔۔۔۔اس کی وجہ سے ہی میں بھٹکنے سے بچ گیا،اگر زین نہ ہوتا تو میں بھی اس وقت تمہارے سامنے نہ کھڑا ہوتا ، بلکہ حالات سے تنگ آ کر نشے میں لگ جاتا ‘ اور پھر اک بگڑا ہوا امیرزادہ بن کر نشے میں دھت کہیں بے یارو مددگار پڑا ہوتا۔۔“ اس نے دھیرے دھیرے اپنی ساری کہانی اس کے گوش گزار کر دی۔ وہ حیران بیٹھی اس خوبصورت شکل اور دل والے انسان کو دیکھ رہی تھی ، آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پر بہنے لگے ، وہ واقع ہی نہ سمجھ میں آنے والا انسان تھا ، دکھتا کچھ تھا پر اصل میں کچھ اور ہی تھا۔
”ارے اب آپ کو کیا ہوا؟رو کیوں رہی ہیں۔۔؟“ اس کو روتے دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا۔۔
”کک کچھ نہیں۔۔! آپ بہت زیادہ اچھے ہیں دارین جی” وہ روتے روتے بولی۔
”میں نہیں جانتا کہ میں اچھا ہوں یا برا۔۔کیونکہ مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں۔۔”
”میں جانتی ہوں آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔ ‘ اور ویسے بھی برا کوئی بھی نہیں ہوتا دارین جی’ بس حالات انسان کو ایسا بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اور جن حالات سے آپ گزر رہے تھے انہوں نے آپ کو بھی کسی نہ کسی برائی کی طرف مائل کیا ہوگا ‘ لیکن پھر بھی آپ زیادہ برائی کی طرف نہیں گے پتا ہے کیوں۔۔۔۔؟”
“کیوں۔۔۔؟”
“کیونکہ آپ نے بہت سی نیکیاں کی ہوئی ہیں ‘ جن کا آپ کو بھی نہیں پتا جس کی وجہ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتے کہ اُس کا پیارا بندہ برائی کی راہ پر چلے۔۔” بات کرتے ہوۓ وہ اپنے چہرے پر آٸی چند آوارہ لٹوں کو بھی پیچھے ہٹا رہی تھی جو پھر سے اس کے چہرے پر جھولنے لگ جاتی تھیں۔
“ہممم۔۔! شاید ایسا ہی ہو۔۔”وہ دھیرے سے بولا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اچھا نہیں تھا بہت سی برائیاں تھی اس میں ۔۔
“یقیناً ایسا ہی ہے دارین جی۔۔۔۔! اب بتائیں کیا زین کو پتا ہے یہ سب۔۔؟” وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اُسے تکتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
”ہاں پتا ہے اُسے بھی۔۔۔۔ ! میں نے بتا دیا تھا اسے کچھ سال پہلے۔ماشاء اللہ اب تو تٸیس کا ہونے والا ہے بہت سمجھدار اور ذہین ہے میرا شہزادہ ۔۔۔“ اس کے لہجے میں زین کے لیے پیار ہی پیار تھا۔۔
“ہممممم بہت اچھا کیا آپ نے۔۔! اللہ آپ دونوں بھائیوں کو ہمیشہ ایسے ہی ہنستا مسکراتا رکھے۔آمین۔۔۔“ اس نے سچے دل سے دعا کی تھی اور کپڑے جھاڑ کر کھڑی ہوگٸی۔
”آمین ثم آمین۔۔“وہ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔اور اس کی طرف دیکھنے لگا جس کا سراپا چاند کی روشنی میں چمکتا اور بھی زیادہ پیارا لگ رہا تھا۔ کپڑے جھاڑتے ہوۓ شال اس کے کندھوں سے اتر گٸی تھی اور کیچر میں مقید سلکی بالوں سے چند آوارہ لٹیں نکل کر اس کے چہرے پر جھولنے لگیں جن کو بات کرنے کے دوران وہ ہاتھ سے پیچھ کر دیتی تھی ، لیکن اب پھر وہ اس کے چہرے پر آگٸی تھیں،وہ بڑا محو ہو کر اسے دیکھے گیا۔۔
”کیا ہوا دارین جی آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟“اُسے اپنی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے پا کر اس نے جھینپ کر پوچھا ۔۔
”کچھ نہیں۔! پلیز آپ شال کو اچھے سے لپیٹ لیں۔اس کے بغیر آپ مجھے کافی ڈسٹرب کر رہی ہیں۔۔“ اس نے شرات سے آنکھ دبا کر کہا اور تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔اب سردی کافی ہوگٸی تھی۔۔
”کیا مطلب ہے دارین جی کا۔۔۔۔؟“ وہ پیچھے کھڑی اس کی بات کا مفہو م سمجنے لگی اور جب اس کو سمجھ آیا ‘ وہ شرم سے سر جھکا گٸی ، تب تک دارین اندر جا چکا تھا وہ بھی اندر کی طرف بڑھ گٸی۔۔۔!
….***….
بیا کو گھر سے گٸے ہوئے تقریبا چار ماہ ہوگٸے تھے۔۔۔!
اُس دن جب وہ واقع پیش آیا جس نے بیا کو اپنے ہی گھر سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔اس دن نائمہ اور عابدہ مامی جلدی گھر آ گئی تھیں۔جن کو بھاگتے وقت بیا نے دیکھا ہی نہیں تھا ‘ جب وہ دونوں اندر گئیں تو اسرار احمد بے ہوش پڑا تھا ‘ اس نے ہوش میں آنے کے بعد بیا کے خلاف سب کو جھوٹی کہانی گھڑ کر سنائی تھی ‘ جس پر عابدہ مامی اور نائمہ کو اندھا اعتبار تھا لیکن رائمہ بہت اچھے سے جانتی تھی کہ اسرار احمد جھوٹ بول رہا تھا۔۔
پھر عابدہ مامی نے اُسے محلے میں بھی بدنام کرنے میں کوٸی کثر نہیں چھوڑی تھی۔۔سارے محلے والوں کی زبان پر بیا کے گھر سے بھاگ جانے کی خبریں تھی۔ جو کوٸی بھی عابدہ سے بیا کے بارے میں پوچھتا تھا وہ ساری کہانی شروع سے لے کر آخر تک سناتی تھی، اس سارے قصے سے انہوں نے اپنے داماد کو ایسے نکال لیا جیسے دودھ میں سے بال نکالا جاتا ہے۔۔لیکن زرینہ خالہ ، عاشی اور رائمہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ بیا ایسا کر سکتی ہے ، وہ تینوں ہی اسرار احمد کی گھڑی ہوٸی کہانی ماننے لیے تیار نہیں تھیں۔لیکن عابدہ نے داماد پر یقین کر کے ان دونوں ماں بیٹیوں کو بھی اس سارے قصے میں گھسیٹ لیا اور وہ بیچاریاں بھی محلے والوں سی منہ چھپاتی پھر رہی تھیں۔۔،صفدر علی کو بھی عابدہ نے اتنا زیادہ بھرا تھا ‘ وہ بھی بیا کا نام تک نہیں سننا چاہتا تھا۔۔ ان کی محلے میں خوب بےعزتی ہوٸی تھی۔اس واقعے کے بعد سے صفدر علی نے كمپنی سے دوسرے شہر جانے سے معذرت کر لی اور گھر بھی جلدی آنا شروع کر دیا تھا۔۔۔
ان چار مہینوں میں جہاں بہت کچھ بدل گیا تھا۔۔۔!
وہیں اک بات بہت اچھی ہو گٸی تھی اور وہ یہ تھی کہ راٸمہ کی بہت اچھے گھرانے میں شادی ہو گئی تھی۔ اس کا رشتہ صفدر علی کے ایک کولیگ حسن احمد کے توسط سے ہوا تھا، اسفر کے والدین وفات پا چکے تھے۔ بس اِک بڑی بہن تھی وہ بھی شای شدہ تھی۔اسفر خود ایک بہت اچھی کمپنی میں جاب کرتا تھا۔وہ سانولی رنگت کا خوش شکل اور خوش اخلاق نو جوان تھا، ان کا رشتہ اناً فاناً طے ہوا تھا پھر چٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہوگیا تھا، راٸمہ کو بھی اس رشتے سے کوٸی اعتراض نہیں تھا، کیونکہ لڑکا بہت اچھا ، سمجھ دار اور سلجھا ہوا تھا۔اچھا کھاتا ، کماتا تھا۔۔اور وہ خود بھی اس گھر سے نکلنا چاہتی تھی۔کیونکہ گھر میں اب اس کا بھی دم گھٹنے لگا تھا۔ لیکن بیا نے گھر کیوں چھوڑا تھا؟ اس کی بات کی اصل وجہ کسی کو بھی پتا نہیں تھی اور نہ ہی بعد میں کسی نے جاننے کی کوشش کی تھی لیکن راٸمہ اچھے سے جانتی تھی اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو ضرور غلط ہوا تھا ‘ جو وہ یوں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی تھی۔اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ اک نہ اک دن وہ بیا کو ضرور ڈھونڈ نکالے گی۔۔ وہ اسے بہت یاد کرتی تھی۔بہت اُداس تھی اس کے بنا۔۔۔۔!
….***….
”یہ آپ کی کافی۔۔“ وہ اپنے روم میں کاٶچ پر لیپ ٹاپ آگے رکھے بیٹھا نجانے کن خیالوں میں گم تھا ، جب بیا نے کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ کر اس متوجہ کیا ‘ لیکن پھر بھی اس نے کوٸی نوٹس نہیں لیا۔۔
”کیا ہوا دارین جی۔؟آپ ٹھیک تو ہیں۔“ اس نے آگے بڑھ کر پریشانی سے اس کے کندھے کو ہلایا۔وہ یکدم چونک گیا۔
”ہوں ہاں ۔۔۔! کچھ نہیں ۔۔۔“ اب وہ ایزی ہو کر بیٹھ گیا تھا، بیا نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا وہاں سوچ کی پرچھاٸیاں واضح تھیں،وہ پریشانی سے گویا ہوئی۔۔
”تو پھر کیا سوچ رہے ہیں آپ۔؟بتائیں۔۔”
”وہ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ مسسز اکرم اور رمل پہلے تو صرف اک ہفتے کے لیے آتی تھیں،لیکن اب انہیں چار ماہ ہونے والے ہیں وہ یہاں سے گٸیں نہیں واپس’ کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے، کوٸی نہ کوٸی کھیل تو ضرور کھیل رہی ہیں یہ دونوں ماں بیٹی۔۔“اس نے سوچتے ہوئے بتایا.
”کیا مطلب آپ کا کیا وہ لوگ شروع سے اس گھر میں نہیں رہتیں؟” بیا نے تعجب سے پوچھا وہ تو ابھی تک یہی سمجھتی تھی کہ وہ دونوں ماں بیٹی شروع سے ہی اسی گھر میں رہتی تھیں۔۔
”نہیں۔! وہ کراچی رہتی ہیں ‘ لیکن ہر ہفتے یہاں ہوتی ہیں۔۔“ اس نے بتایا۔
”اوہ اچھا ! میں تو سمجھی وہ یہاں ہی رہتی ہیں اس لیے اتنے دنوں سے یہی ہیں۔۔”
” نہیں یار ! ان کا یہ آنے جانے والا ڈراما لگا ہے رہتا ہے۔ لیکن اس بار مجھے گڑبڑ لگ رہی ہے۔۔”وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
“کیا پتا جو آپ سوچ رہے ہیں ویسا نہ ہو۔۔“
”ایسا ہی ہے جیسا میں سوچ رہا ہوں’اور آپ بھی دیکھ لینا۔بہت شاطر ہیں یہ دونوں میں انہیں بہت اچھے سے جانتا ہوں، بہت لوٹ چکی ہیں یہ مسسز شاہ کو۔۔۔“ وہ تلخی سے بولا اور سیل اٹھا کر کوٸی نمبر ملانے لگا،بیا خاموشی سے اس کو دیکھے گٸی ،وہ بلیک شلوار سوٹ میں ملبوس’ بازو کہنیوں تک فولڈ کیے ‘ رف حلیے میں بھی بڑا خوبصورت لگ رہا تھا۔۔
”علی دارین بات کر رہا ہوں! یار اک کام کر مجھے دو لوگوں کے بارے میں انفارمیشن چاہٸیے کل تک۔۔۔ اوکے میں اُن کے نام اور پکس سینڈ کر دیتا ہوں۔” كال بند کر کے اس نے رمل اور رومانہ بیگم کے نام اور پکس علی کو وٹس ایپ کیں اور پھر اس کی طرف متوجہ ہوا۔وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بڑی فرصت سے اسے تکے جا رہی تھی،
”کیا ہوا آپ کو۔؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہیں۔۔“ اس نے بیا کی آنکھوں آگے ہاتھ لہرایا۔۔وہ فوراً ہوش کی دنیا میں واپس آٸی۔۔”کک کچھ بھی نہیں۔۔آپ کک کافی پی لیں ٹھنڈی ہو رہی ہے۔۔۔“ اپنی چوری پکڑی جانے پر اس کی نظریں جھک گٸیں اور چہرہ خفت کے مارے لال ہوگیا تھا۔وہ خود کو ڈپٹتی جلدی سے وہاں سے اٹھ گٸی۔۔
”پگلی۔“وہ اس کی بچکانہ حرکت پر دھیرے سے مسکرا دیا۔۔
”پگلی کس کو بولا۔۔“ وہ رک کر پیچھے مڑی۔۔ اور کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے اس کے پاس آگئی۔۔
”کسی کو بھی نہیں۔۔“ اس نے انجان بن کر کندھے اچکا کر کہا۔۔اور کافی کا سپ لے کر دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔۔
”پکی بات ہے ناں۔۔؟“ وہ اس کے عین سر پر پہنچ گئی۔۔ اور کمر پر ہاتھ ٹکا کر لڑاکا عورتوں کی طرح کھڑی ہو گئی۔۔
”جی ‘ جی پکی بات ہے۔ “وہ کام چھوڑ کر شرارت سے اس کے خفا خفا چہرے کو تکنے لگا۔تب ہی اس کے پاس پڑا سیل پھر سے وائیبریٹ کرنے لگا۔۔لیکن وہ نظر انداز کر گیا ۔۔
”مان لیتی ہوں۔“وہ معصومیت سے بولی اور تھوڑا آگے جھک کر اس کے پاس پڑا سیل اٹھا لیا۔
”آپ کو سیل چلانا آتا ہے۔۔۔؟“
”نہیں۔۔! اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت ہے ۔۔۔“
”تو پھر کیا کرنا ہے اس کا ۔“ وہ مسکرا رہا تھا ۔۔
”کچھ نہیں ‘ کسی زرنش سبحان کی کال آ رہی ہے۔۔۔ “ وہ تنک کر بولی اور اس کی طرف دیکھا۔
”مجھے ایسی ہزاروں لڑکیوں کی کالز آتی ہیں۔ جن سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔۔ڈونٹ وری۔۔۔ “ وہ یک دم سے سنجیدہ ہوا۔۔
”جانتی ہوں دارین جی!مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔“ اس نے بھی سنجیدگی سے کہا۔۔۔
”کبھی مجھ پر شک مت کرنا بیا ۔۔۔“ وہ کاٶچ سے اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔
”نہیں کروں گی۔۔۔“ وہ بھی دھیرے سے کہہ کر بیڈ پر جا کر لیٹ گٸی۔۔ لیکن اس کی نظریں ابھی بھی دارین پر جمی تھیں۔ جو کمرے کے بیچ و بیچ کھڑا نجانے کیا سوچ رہا تھا۔اسے دیکھتے دیکھتے جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی اُسے پتا ہی نہیں لگا تھا۔۔!
….***….
“سر مس زرنش سبحان آئی ہیں۔۔۔“ وہ اپنے شاندار آفس میں فائلیں سامنے رکھے سائن کرنے میں مصروف تھا۔ جب انٹرکام پر اس کی پرسنل سیکرٹری نے زرنش سبحان کے آنے اطلاع دی۔۔اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔
”کیوں آئی ہیں۔۔۔؟“
”پتا نہیں سر انہوں نے بتایا نہیں۔بھیج دوں یا نہیں۔۔؟” دوسری طرف سے پھر پوچھا گیا۔۔
“آپ بھیج دیں انہیں۔۔” اس نے لب بھینچ کر کہا۔
“ہیلو مسٹر دراین’کیسے ہیں آپ؟ آپ تو ہمیں بھول ہی گے۔۔”کچھ دیر بعد اس نے آفس میں قدم رکھتے ہی اک ادا سے بالوں کو جھٹک کر شکوہ کیا۔دراین نے فائل سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ بلیک ٹائٹ جینز پر ریڈ کلر کا ٹاپ پہنے ‘ میک اپ سے آراستہ چہرے لیے شولڈر کٹ بالوں کو اِک ادا سے جھٹکتی’ وہ حسن کے مکمل ہتھیاروں سے لیس کسی کو بھی چاروں شانے چت کرنے لیے تیار تھی ۔۔لیکن اس وقت اس کے سامنے دراین حیدر تھا ‘ جس کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔
“مس زرنش سبحان کسی کو یاد رکھنے کے لیے اس سے رشتہ ہونا ضروری ہوتا ہے اور میرا آپ سے ایسا ویسا کوئی رشتہ نہیں۔سو آپ مجھ سے کوٸی شکوے شکایت نہیں کر سکتیں۔۔” اس نے بےتاثر اور سرد لہجے میں جواب دیا۔
“ہمممم کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔” جواباً وہ بھی اپنی خفت چھپاتے مسکرا کر بولی۔۔
“مس زرنش تشریف رکھیئے۔۔۔ کیا لینا پسند کریں گی ‘ چائے یا کافی۔”اس نے اپنے سامنے کھڑی زرنش سبحان کو مروتاً بیٹھنے کا کہا۔
“شکر ہے آپ کو یاد تو آیا پوچھنے کا مسٹر دارین۔“وہ اس کے سامنے ہی براجمان ہو گئی۔ آج وہ بڑی فرصت سے آئی تھی وہاں۔۔
”جی بتائیے کیا لیں گی آپ۔۔۔؟“
”کچھ نہیں مسٹر دراین۔۔۔۔“ وہ اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
“تو پھر کیسے آنا ہوا۔؟” نا چاہتے ہوئے بھی اس نے پوچھا۔کیونکہ اس کی حرکتیں اِسے چڑنے پر مجبور کر رہی تھیں ۔۔
“میں نے آپ کو اتنی کالز اور میسجز کیے ، لیکن آپ نے کوئی ریسپونس نہیں کیا ، مجبوراً مجھے خود ہی آپ سے ملنے آنا پڑا۔۔” وہ بھی اسے تکنا چھوڑ کر اصل بات کی طرف آئی ۔۔
” ملنے کس لیے۔۔؟” وہ چونکا۔۔
“میری برتھ ڈے پارٹی ہے آج شام کو۔آپ ضرور آئیے گا پلیز۔مجھے اچھا لگے گا۔۔“
”اوکے۔! اگر ٹائم ملا تو ضرور آؤں گا۔۔” اس نے بات کو زیادہ بڑھانے کی بجائے جلدی سے کہا اور اپنی چیئر سے کھڑا ہوا۔اس نے علی سے ملنےجانا تھا اس کی کال آئی تھی۔۔
“آپ ضرور آئیے گا۔۔۔’ میں آپ کو اسپیشلی انوئٹ کرنے آئی ہوں۔۔“ اس کو اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے دیکھ کر اس نے اسپیشلی پر زور دے کر کہا۔اور ساتھ ہی کھڑی ہوگئی۔۔
“ہمممممممم۔۔! آئی ول ٹرائی۔۔” تب ہی انٹرکام پر بجا۔۔
“یس زیبا خیریت۔۔؟ آج تو کوئی میٹنگ نہیں تھی۔اور میں نے آپ کو بتایا بھی تھا کہ میں نے جلدی جانا ہے مجھے بہت ضروری کام ہے۔۔”
“آئی نو سر۔۔۔! لیکن۔۔۔“
” کیا لیکن۔۔؟“ وہ غصے سے بولا۔
”سر وہ آپ کو یہ بتانا تھا کہ کسی بیا میم کی کال آئی ہے۔وہ آپ سے کوٸی بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہیں۔۔وہ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے آپ کو بہت کالز کی ہیں لیکن آپ کا سیل آف جا رہا ہے۔۔”
“اوہ شٹ۔۔۔۔! کب آئی ان کی کال۔۔؟“
”ابھی کچھ دیر پہلے۔۔“
”اوکے ‘ میں ابھی دیکھتا ہوں۔“ اس نے جلدی سے ٹیبل پر پڑے اپنے سیل کو اٹھا کر دیکھا ‘ وہ چارج نہ ہونے کی وجہ سے اب آف ہو چکا تھا۔۔
“بھائی سیل کہاں ہے آپ کا بیا بھا۔۔۔” تب ہی زین بھی نان سٹاپ بولتا اندر داخل ہوا۔۔۔لیکن سامنے ہی زرنش کو کھڑے دیکھ کر اس کی زبان کو بریک لگ گئی۔۔
“اوہ مس زرنش سبحان۔۔۔! کیسی ہیں آپ اور آج یہاں کیسے۔۔؟“ سوری میں نے جلدی میں آپ کو دیکھا نہیں“
“کوئی بات نہیں مسٹر زین۔۔۔! کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے جلدی میں۔۔۔“
”جی سہی کہا آپ نے ۔۔۔! ۔۔۔“ وہ اس کو کہہ دارین کی طرف متوجہ ہوا ” بھائی آپ بات کر لیں۔۔“
”ویسے کون ہیں یہ اہم ہستی جس کی کالز آ رہی ہیں ‘ اور مسٹر دارین آپ ان کی کال نہ سننے پر اتنے پریشان ہیں۔۔” اسے اپنا نظر انداز ہونا برداشت نہیں ہو رہا تھا ، اسی لیے اس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔جو ان دونوں سے چھپا نہیں رہ سکا تھا۔
“اہم تو وہ بہت ہیں۔۔۔! آفٹر آل دارین حیدر کی مسسز ہیں وہ۔ ناٶ ایکسکیوز می۔” اس نے اک اک لفظ چبا چبا کر کہا اور زین سے سیل لے کر باہر نکل گیا۔۔
” واٹ مسسز دارین۔۔؟ دارین حیدر شادی شدہ ہیں۔۔؟” اسے زور دار قسم کا جھٹکا لگا تھا۔۔اس کے اندر کچھ بہت زور سے ٹوٹا تھا ، چار ماہ پہلے جب پہلی بار دارین حیدر سے اس کی ملاقات ہوئی تھی تو اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی اور اسے دارین سے پہلی نظر والا پیار ہوگیا ، تب ہی اس نے سوچ لیا تھا وہ شادی کرے گی تو دارین حیدر سے۔۔تب سے ہی وہ اس کے پیچھے پڑ گئی تھی۔کبھی کالز کرتی اُسے، کبھی میسجز ۔۔لیکن دارین نے کبھی کوئی ریسپونس نہیں کیا تھا ۔۔ رات کو بھی وہ اس کو کالز کرتی رہی لیکن اس نے اٹینڈ نہیں کیں۔تو مجبوراً وہ اس کے آفس پہنچ گئی اور یہاں آ کر اسے ایسی نیوز ملی جس نے اسے شاکڈ کر دیا تھا۔۔
”جی مس زرنش ‘ دارین بھائی میریڈ ہیں۔! انابیہ ‘ ان کی مسسز اور میری سویٹ سی بھابھی ہیں۔ان کی لو میرج ہوئی ہے’ بہت پیار کرتے ہیں وہ اک دوسرے سے۔“ زین نے اسے تفصیل سے بتایا۔
”آئی کانٹ بی لیو دِس۔۔“وہ شاک کی کیفیت میں بولی،
”آپ یقین کریں یا نہ۔۔یہ سچ ہے کہ بھائی میرڈ ہیں اور بیا ان کی مسسز ہے۔۔ “
”بھاڑ میں گئی بیا۔۔! کان پک گئے میرے یہ نام سن کر“ وہ یک دم زور سے چلائی۔اور اک جھٹکے سے آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔۔
”اس کو کیا ہوا۔۔۔؟“ زین وہیں کھڑا تعجب سے بڑابڑیا۔۔ ”لگتا کافی شاک لگا ہے محترمہ کو بھیا کی شادی کا سن کر۔۔۔۔ “ وہ بھی کندھے اچکا کر کہتا آفس سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔!
….***….
”بات سنو۔۔۔“وہ کچن سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب رمل نے اسے پکارا ۔۔
”آپ نے مجھے بلایا۔۔ “ وہ بھی رک کر پیچھے مڑی۔۔ آج رمل کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، اس لیے وہ گھر پر ہی تھی۔
”ظاہر ہے تمہیں ہی بلایا ہے۔۔۔! اور ہے ہی کون یہاں پر تمہارے سوا۔۔“ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
”جی کہیے کیا کہنا ہے رمل ۔“ وہ چلتی ہوٸی اس کی طرف آ گٸی۔۔
”میرے لیے اک کپ کافی کا بنا کر لاٶ۔۔“ اس نے نیا آرڈر جاری کیا۔ بیا نے اک نظر اس کے مغرورانہ انداز پر ڈالی اور بغیر کوٸی جواب دیٸے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گٸی۔۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے’ میں نے تم سے کچھ کہا ہے۔۔“ وہ اس کو جاتا دیکھ کر غصے سے بولی۔
”سوری مس رمل میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں۔۔۔“ وہ اک اک لفظ پر زور دے کر بولی ۔
”اوہ۔۔۔! تو پھر کیا ہو۔۔؟“ وہ تمسخرانہ انداز میں ہنسی اور صوفے سے اٹھ کر اس کی طرف آگٸی۔۔
”شاید آپ بھول رہی ہیں’میں اس گھر کی مالکن ہوں۔“
”ہاہاہاہاہا مالکن۔۔۔! ویسے کتنی خوش فہیماں پال رکھی ہیں تم نے بیا۔۔۔“ وہ اس کی بات پر زور سے قہقہہ لگا کر ہنسی۔
”یہ خوش فہمی نہیں۔! سچ ہے ‘ جتنا جلدی ہو سکے اسے قبول کر لو۔تمہارے لیے اچھا ہے۔۔۔“اس نے رمل کی ہنسی کی پرواہ کیے بغیر دوبدو جواب دیا۔
”شٹ اپ۔۔۔! بڑی زبان چلنے لگی ہے تمہاری۔۔“ وہ غصے سے بھڑک اٹھی ، ساتھ ہی اس کی آواز بھی تیز ہو گٸی تھی۔رجو اور شنو کچن میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں وہ بھی آواز سن کر تیزی سے لاٶنج میں آٸیں۔
”سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے رمل۔۔۔“
”بڑی اکڑ رہی ہو تم ۔۔! شانہ مام کو آنے دو نکلواتی ہوں تمہاری ساری اکڑ ۔۔“ وہ اس کو دھمکی دینے والے انداز میں بولی۔۔
”کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔؟“