دکانوں کے چکر کاٹتے ہوئے انھیں دو گھنٹے ہوگئے تھے لیکن سحرش کو برائیڈل ڈریس پسند نہیں آرہا تھا جو جہانگیر کو اچھا لگتا وہ سحرش کو پسند نہیں آتا جہانگیر کو ویسے ہی الجھن ہوتی تھی ان سب چیزوں سے اوپر سے سحرش کو کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا جہانگیر کا غصہ سوا نیزے پہ پہنچ گیا ۔۔۔۔۔
“اگر تم 15 منٹ میں کوئی ڈریس پسند نہیں کیا نہ تو میں تمھیں دوکان سے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔۔۔”
جہانگیر سحرش کے کان میں غرایا۔۔۔ دکان کے ورکر نے دیکھا تو منہ چھپا کہ ہنس نے لگا۔۔۔۔
اللہ اللہ کر کے اس نے سلور اور پنک کلر کی میکسی پسند کی جہانگیر نے پیمنٹ کی اور پارکنگ کی جانب بڑھنے لگا ۔۔۔۔
آپ نے اپنا ڈریس نہیں لینا کیا ؟؟؟
سحرش نے اسے گاڑی کی سمت جاکر دیکھتے ہوئے پوچھا:
“تمھارے ساتھ تو اب بلکل نہیں لوں گا اور میرے ماں باپ کی توبہ جو اب تمھارے ساتھ شوپنگ پر آوں۔۔۔”
جہانگیر اسے نے کھری کھری سنا دی جس پر سحرش کی شکل رونے والی ہوگئ تھی۔۔۔۔
مجھے سینڈل بھی لینے تھے ؟؟؟
“میں خود لادوں گا ”
سحرش نے پھر کچھ نہیں پوچھا کہ اس سے بعید بھی نہیں کہ کہیں یہیں ہی نہ چھوڑ دے ۔۔۔۔
گھر اکر وہ تو کمرہ میں بند ہوگئ تھی جبکہ جہانگیر آفس چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔
بی جان کے کہنے پر پورا گھر رنگ برنگی قمقموں سے سجایا گیا تھا جہانگیر نے تو منع کیا تھا لیکن بی جان نے اسکی بات کی تردید کرتی تھی ۔۔۔۔۔
“میرا ایک ہی تو بیٹا ہے اسکی خوشیاں میں دھوم دھام سے منانا چاہتی ہوں اتنے سالوں بعد تو حویلی میں کوئی خوشی آئی ہے” ۔۔۔۔ کیوں نگی صحیح کہہ رہی ہوں نہ ؟؟؟
آج نگین بھی سب کے ساتھ وہاں موجود تھی کافی سالوں بعد حویلی میں رونق لگی ہوئی تھی دور دراز سے رشتہ دار آئے ہوئے تھے ۔۔
پھپھو آپ نے مجھے معاف کردیا نہ ؟؟؟ میں آپ کا اور سحرش کا گنہگار ہوں پلیز مجھے معاف کردیں؟؟؟
جہانگیر ، نگین کے سامنے دوزانوں ہوکر جھکے ہوئے سر کے ساتھ معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔
نگین نے نم انکھوں سے اسکی کشادہ پیشانی پر بوسہ دیا ۔ وہاں بیٹھے ہر شخص کی انکھیں نم ہوگئیں تھیں۔۔۔۔
“بس آج کے بعد اس حویلی میں کوئی نہیں روئے گا ”
جہانگیر نے نگین اور بی جان کے آنسو صاف کرتے ہوئے سحرش کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
سحرش سو کر اٹھی تو سامنے صوفہ پر کافی سارے شوپنگ بیگز پڑے تھے کھول کر دیکھا تو کسی میں جیولری ، کسی میں سینڈل اور کوسمیٹکس تھے ۔۔۔۔۔
“ہمممم جناب کی چوائس تو زبردست ہے شکل سےتو روکھے پھیکے ہی لگتے ہیں ۔۔ اور لگتا ہے لڑکیوں کی شاپنگ کا پورا تجربہ ہے ۔۔۔ ”
“اس میں ان کا تو کوئی سوٹ نہیں ہیں “۔۔ کیا اپنی چیزیں نہیں لائے؟؟؟
“آئیں گے تو پوچھ لوں گی ” ۔۔۔۔۔۔۔۔
لاونج میں سب بیٹھے ہوئے خوش گپوں میں مصروف ولیمہ کے ارنجمنٹس پر بات کررہے تھے سارہ جو کہ جہانگیر کی بڑی بہن تھی اپنے شوہر اور دو بچوں سمیت حویلی میں آئی ہوئی تھیں۔۔۔
بڑا بیٹا ریان اور چھوٹی بیٹی شمائلہ دونوں اسکول میں پڑھتے تھے اور اب ماموں کی شادی میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
“ماموں ،ممانی کہاں ہیں ”
یہ ریان تھا جسے سحرش کے دیدار کی کچھ زیادہ ہی جلدی تھی ۔۔۔
“لو اگئیں تمھاری ممانی ”
جہانگیر نے ریان کو بتایا ۔۔۔۔
سحرش نیچے آئی تو نئے نئے چہرے دیکھنےکو ملے۔۔۔
سارہ نے اگے بڑھ کر اسے گلے لگایا
“تم تو بہت پیاری ہو ماشاءاللہ سے ”
سحرش نے ناسمجھی سے جہانگیر کو دیکھا۔۔۔۔
“یہ میری بہن ہیں بڑی ”
جہانگیر نے اسکی سوالیہ نگاہوں کو سمجھ لیا تھا جبھی اسکی مشکل آسان کردی۔۔۔۔
“ماشااللہ چاند سورج کی جوڑی لگ رہی ہے ”
سارہ نے سحرش کا ہاتھ پکڑ کر جہانگیر کے برابر میں بٹھاتے ہوئے بلائیں لیں۔۔۔۔
“آخر پسند کس کی ہے ”
جہانگیر نے کالر کھڑے کر کے فخر سے کہا :
جیسے پتا نہیں کتنی محبت کی شادی ہو ۔۔۔۔۔
سحرش نے اسے دیکھا تو جہانگیر نے شوخی وشرارت سے اسکا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔ اس نے گھبرا کر چھڑانہ چاہا تو جہانگیر نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم دونوں نے اپنی شوپنگ کرلی ؟؟؟
“جی بی جان ”
سحرش نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے بتایا۔۔۔۔
“آئیے سارہ آپی میں اپکو شوپنگ دیکھاتی ہوں ”
سحرش نے جان چھڑانے کے لیے وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت جانی ۔۔۔۔۔۔
“چلو”۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر نے سحرش کو گھورا ۔۔۔ جب کہ سحرش نظر انداز کرتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔