آمنے سامنے بیٹھے وہ دونوں ہی حیران تھے ۔۔۔۔
بینش حیران تھی ۔۔ اسے ہمدانی کے حوالے کر دینے کے چار سا بعد ۔۔ چار سال بعد وہ پہلی بار اس سے ملنے یہاں آیا تھا ۔۔۔۔۔ !
خاص اس سے ملنے ۔۔ اس سے بات کرنے ۔۔۔ اس سے اپنی بےچینی کی وجہ پوچھنے ۔۔۔ اپنے لیئے سکون مانگنے ۔۔۔۔۔ !
وہ سخت حیران تھی ۔۔۔۔ ایسا بھی کیا ہوگیا آخر کہ وہ اس کے سامنے بھیگی پلکیں لیئے سرجھکائے بیٹھا تھا ۔۔۔!!!
اور پارس ۔۔۔!!
وہ خود اپنے یہاں آنے پر ۔۔ اپنی باتوں پر ۔۔۔ اپنے اشکوں پر حیران تھا ۔۔۔۔۔!
وہ یہاں آیا تو بینش سے ملنے ہی تھا ۔۔۔ لیکن اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ رو کیسے پڑا تھا ۔۔۔۔۔؟؟؟
بھیگی پلکیں اٹھا کر اس نے جونہی بینش کی طرف دیکھا اس کی نظریں بینش کی نظروں سے جا ٹکرائی تھیں ۔۔!
اس کے خوبصورت چہرے پر چھائی الجھن پل میں غائب ہوئی تھی ۔۔۔
بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت اب بھی تھی لیکن اس کے گہری لپسٹک سے سجے ہونٹوں پر ہنسی تھی ۔۔!
“تم ہنس کیوں رہی ہو ۔۔۔؟؟
ت۔۔۔ تم ۔۔ تم مجھ پر ہنس رہی ہو ۔۔۔؟؟؟ تم مجھ پر ہی ہنس رہی ہو نا ۔۔۔۔۔؟ ہنسنا بھی چاہیے ۔۔!
وہ ۔۔۔۔!! وہ بھی میری دلی کیفیت جانتی تھی ۔۔ شائد اسی لیئے مجھے اہمیت نہیں دیتی تھی ۔۔۔۔
اس نے ۔۔۔ اس نے بینش ۔۔۔۔۔ بینش !! اس نے جاتے جاتے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا ۔۔۔!!
وہ میرے لیئے دعا بھی نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔ بہت ایگو ہے اس میں ۔۔!
وہ ۔۔ وہ اکیلی مجھ سے تم سب کا بدلہ لے رہی ہے ۔۔۔۔ اللہ مجھے سکون بھی نہیں دے رہا ۔۔۔ میرے دل پر مہر ہی لگا دے ۔۔۔۔۔۔۔گناہ کرتا ہوں مگر پھر گناہ کا احساس کیوں رہتا ہے یار مجھے ۔۔۔؟؟؟
یہ تو نری مصیبت ہوئی نا ۔۔۔؟
میرا تو سر درد سے پھٹ رہا ہے ۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے ۔۔ مجھے لگ رہا ہے میرا بھیجا سر سے باہر آجائے گا یار ۔۔۔۔۔۔۔ مم۔۔ میں کیا کروں بینش ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
بینش ۔۔! تمہیں واپس جانا ہے ۔۔۔؟؟؟”
سر ہاتھوں میں گرائے وہ بےربط بولے چلا جا رہا تھا ۔۔۔ انداز سرگوشیانہ تھا ۔۔ جیسے خود سے محوکلام ہو ۔۔۔
یونہی خود سے سرگوشیاں کرتے کرتے یکدم وہ اٹھ کر بینش کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔
“تمہیں واپس جانا ہے۔۔؟ بتائو نا ۔۔۔۔۔؟؟”
ہنوز مسکراتے ہوئے بینش نے دلچسپی سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا تھا ۔۔۔
“کہاں واپس جانا ہے ۔۔۔۔؟؟”
“تمہارے گھر ۔۔! اور کہاں ۔۔۔۔؟؟؟”
“میرا گھر کون سا گھر ۔۔۔؟ کوئی گھر نہیں ہے میرا ۔۔۔۔۔۔!!”
وہ یکدم بہت تلخ ہو کر کہتی اٹھنے لگی تھی لیکن پارس نے اسے بازو سے کھینچ کر واپس بٹھا لیا ۔۔
“تمہارا گھر بینش ۔۔! جہاں تمہارا بابا تھے ۔۔۔ بہن تھی بھائی تھے ۔۔۔۔۔!!”
“تھے ۔۔!! تھے پارس ! سب تھے ۔۔۔۔۔۔ اب میرا کوئی نہیں ہے ۔۔ میں واپس جائوں تو کیا لے کر جائوں ۔۔؟؟؟ سب کچھ تو چھین لیا تم نے مجھ سے ۔۔۔
لیکن خیر ۔۔۔۔۔ تم اپنے دل میں کوئی گلٹ مت رکھو ۔۔۔۔۔! مجھے اس سب کی عادت ہوگئی ہے ۔۔۔ بلکہ اچھا لگنے لگا ہے اب یہ سب مجھے ۔۔ اپنا وہ دڑبے جیسا گھر کبھی تصور میں آتا ہے ۔۔ تو دم گھٹنے لگتا ہے میرا ۔۔۔ !!
اب سے دو سال پہلے اگر تم آتے تو میں خوشی خوشی ساتھ چل پڑتی لیکن اب ۔۔۔۔۔ اب میں اس ماحول میں رچ بس گئی ہوں ۔۔۔۔
پتا نہیں میری پرورش میں کوئی کمی رہ گئی تھی ۔۔۔ یا جو بھی تھا ۔۔۔۔اب اس ماحول میں فٹ ہوگئی ہوں میں ۔۔۔۔ خوش ہوں میں ۔۔!!!”
“تم نے مجھے معاف کردیا مطلب ۔۔۔۔۔؟؟؟”
پارس کے دل سے جیسے ایک بڑا بوجھ سرکنے کو تھا ۔۔۔
“ہاں شائد ۔۔۔۔!! لیکن پارس ۔۔! میں اکیلی وکٹم تو نہیں ہوں گی نا ۔۔؟ کس کس سے معافی مانگو گے ۔۔۔۔۔؟ کتنوں کے مجرم ہو تم کچھ اندازہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟ وہ لڑکیاں تو لڑکیاں ، ان کے گھر والوں نے کیا کیا نہ برداشت کیا ہوگا ۔۔۔؟؟ نہ جانے کتنے ہی ماں باپ میرے بابا کی طرح ہارٹ اٹیک سے مر گئے ہوں گے ۔۔۔۔؟
تو کس کس معافی مانگتے پھروگے اپنے سکون کے لیئے ۔۔۔۔؟؟
تم کہتے ہو تم گناہ کرتے ہو تو گناہ کا احساس تمہیں کچوکے لگاتا رہتا ہے ۔۔۔۔؟؟؟ تم خوش قسمت ترین ہو۔۔ اللہ نے تمہارے دل پر میری طرح مہر نہیں لگا دی ۔۔۔۔!!
سو تم اللہ سے معافی طلب کرو پاری ۔۔۔۔!!!!”
آہستگی سے اس کا گال تھپک کر وہ سائڈ ٹیبل سے جوس کا گلاس اٹھا کر گھونٹ گھونٹ حلق میں اتارتی خشک ہوتا گلا تر کرنے لگی ۔۔
“لیکن بینش مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“اوہو ۔۔۔ میرا شیر آیا ہے ۔۔۔!”
بھاری طنزیہ آواز پر دونوں نے چونک کر لائونج کے دروازے کی طرف دیکھا تھا ۔۔
بینش مطمئین تھی کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا کہ اسے ہمدانی سے ڈرنا پڑتا ۔۔۔!!
ٹانگ پر ٹانگ جما کر وہ صوفے کی نرم پشت سے ٹیک لگا کر آرام دہ انداز میں بیٹھ چکی تھی ۔۔۔۔۔
لیکن پارس ۔۔۔۔!! اس نے کچھ تو دیکھا تھا ہمدانی کی آنکھوں میں جو وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پایا تھا ۔۔۔۔۔
صوفے پر سکون سے بیٹھنے کے بعد ہمدانی نے بہت اطمینان سے سگار سلگایا تھا ۔۔ وہ چپ چاپ بینش کے قدموں میں بیٹھا ہمدانی کو تکتا رہا ۔۔۔۔۔
“زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے میرے شیر ۔۔!! یہ جدید دور ہے ۔۔۔۔ کیا سمجھے ۔۔؟؟؟”
گھٹنوں پر کہنی ٹکا کر وہ دھیرے سے ہنس دیا تھا ۔۔۔۔
“یہاں آئو تم میری جان ۔۔۔۔!!”
بیٹھے بیٹھے ہی اس نے بینش کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا ساتھ ہی ایک جلا دینے والی نظر پارس پر بھی ڈالی تھی ۔۔۔
پارس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا تھا ۔۔۔ وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا اور بینش کے اٹھ کر جانے کے بعد بہت اعتماد یا کہہ لیں ڈھٹائی سے اس کی جگہ بیٹھ گیا تھا ۔۔
ایک ابرو اچکا کر ہمدانی نے بغور اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔
“تم اور مون ۔۔!!!
تم لوگ شاطر کھلاڑی سہی ۔۔۔! لیکن میری جان میں چیمپئن ہوں اس کھیل کا ۔۔۔
کسی کی جلی لاش میرے سامنے لا کر رکھ دوگے اور میں آنکھیں بند کر کے یقین کرلوں گا ۔۔۔؟؟”
پارس نے اضطراب سے پہلو بدلا تھا ۔۔
“دو دو ہاتھ پہلے ہی کر لیتے لیکن کچھ اور معلومات بھی حاصل کرنی تھیں مجھے میرا بچہ ۔۔۔!”
پارس نے ایک گہری سانس خارج کر کے اپنے اندر کی گھبراہٹ کم کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔
کرسٹل کے خوبصورت شوپیس پر نظریں جمائے وہ ہمدانی کی طرف دیکھنے سے گریزاں تھا ۔۔۔
“میشا نام ہے اس کا ۔۔۔۔؟ وہی جس پر ربانی فدا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔؟؟”
پارس اب بھی چپ ہی رہا لیکن اس کی پیشانی کی رگ پھڑکنے لگی تھی ۔۔
ہاتھ پر چہرہ گرائے پارس کا چہرہ یک ٹک تکتی بینش چونک کر زیرلب بڑبڑائی تھی ۔۔
“میشا ۔۔۔؟؟”
“وہ پاکستان میں ہوتی تو اب تک میری دسترس میں ہوتی ۔۔۔۔ کہاں ہے وہ ۔۔۔۔؟؟؟؟”
ہمدانی یقیناً ابھی میشا اور ساشہ کے تعلق سے واقف نہیں تھا ۔۔
لیکن جو کچھ اسے معلوم ہوچکا تھا وہ پارس کا سکون غارت کرنے کے لیئے کافی تھا ۔۔۔
“پاری ۔۔۔!!! میں پوچھ رہا ہوں کہاں ہیں وہ لوگ ۔۔۔۔؟؟؟؟
دبئی ۔۔؟ چین ۔۔؟ ترکی ۔۔؟”
جن ممالک میں ان کا آنا جانا تھا وہ وہاں کا نام لیتے ہوئے گہری نظروں سے پارس کے تاثرات بھی دیکھ رہا تھا ۔۔۔
لیکن پارس اس بات سے واقف تھا ۔۔ تب ہی چہرہ سپاٹ کیئے بیٹھا رہا ۔۔۔
طویل سانس خارج کرتا ہمدانی اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
“تم جتنی جلدی بتادوگے اتنا اچھا ہوگا تمہارے لیئے ۔۔۔۔
تم اور مون میرے بیٹوں کی طرح ہو لیکن بیٹے تو نہیں ہو ۔۔۔ خیر ۔۔۔۔۔،!! تم لوگوں کی تکلیف مجھے تکلیف دے گی ۔۔ اس لیئے میں نہیں چاہتا کہ تم زیادہ تکلیف جھیلو ۔۔۔۔!!! مجھے امید ہے تم مجھے جلد ہی ان سب کا اتاپتا بتادو گے ۔۔۔۔!”
آگے بڑھ کر اس کا چہرہ تھپک کر ہمدانی نے ملازم کو بلوایا تھا اور اسے باہر موجود اپنے گارڈز کو بھیجنے کا حکم دے کر ایک بار پھر اس کا زرا جھکا ہوا سرخ چہرہ دیکھا اور اس کے مضبوط شانے پر ہاتھ سے دبائو ڈال کر لائونج سے نکل گیا ۔۔۔۔
“پارس مجھے کچھ چاہیے ۔۔۔ دوگے مجھے ۔۔۔۔؟؟”
بینش اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی ۔۔ انداز عجلت آمیز تھا ۔۔۔۔!
“تمہیں واپس جانا ہے نا اپنے گھر ۔۔۔؟؟”
پارس جانتا تھا وہ جتنی بھی کوشش کرلے ہمدانی کی کوٹھی سے بھاگ نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔۔ کوٹھی کے چاروں طرف ہمدانی کے ہٹے کٹے گارڈز موجود تھے ۔۔۔۔ اس لیئے بظاہر سکون سے بیٹھا رہا ۔۔ ورنہ دل لرز رہا تھا اور دماغ پھٹنے کے قریب لگتا تھا ۔۔۔
“فلحال تو تم اپنی خیر منائو ہبی ۔۔۔!!!
میری فکر چھوڑو ۔۔ میں نے کہا نہ کہ میں فٹ ہوگئی ہوں یہاں کے ماحول میں ۔۔ جیسے ہمیشہ سے یہیں کے لیئے تھی ۔۔۔ اب بتائو کروگے ۔۔۔۔؟؟”
“دو منٹ کا کام ہے ۔۔۔!”
“کہو ۔۔۔؟؟”
گلاس وال کے پار سے اسی طرف آتے گارڈز کو دیکھ کر وہ بھی جلدی سے بولتا اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔
“طلاق دے دو مجھے ۔۔۔! حالانکہ ہمارے نکاح کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر بھی جب جب تم سے نکاح کا خیال آتا ہے بہت برا فیل ہوتا ہے مجھے ۔۔ سارا سکون اور خوشی غارت ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔!!!”
ایک پل کے لیئے تو پارس بلکل ساکت رہ گیا تھا ۔۔۔ گم صم سا ۔۔!
اور جب گارڈز نے اس کے دونوں بازو جکڑ لیئے تب اٹک اٹک کر طلاق کے الفاظ اس کے منہ سے نکلے تھے ۔۔۔۔۔
بینش کا پہلا پہلا سادہ سا روپ نظروں کے سامنے لہرایا تو احساس گناہ اور بڑھ گیا ۔۔۔
ایک پیاری سی گھر بھر کی لاڈلی کو کیا بنا دیا اس نے ۔۔۔ وہ اس ماحول میں فٹ ہوئی نہیں تھی ۔۔ کوئی راستہ نہ دیکھ کر اس نے خود کو فٹ کرلیا تھا ۔۔!!!
“تم میرے لیئے دعا کروگی بینش ۔۔؟؟”
گارڈز کے ساتھ گھسٹت کر جاتے ہوئے اس نے چیخ کر پوچھا تھا ۔۔۔
“دعائیں کرنی چھوڑ دی ہیں میں نے ۔۔۔۔ جو چاہتی ہوں ایک بار کہنے سے حاصل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!”
بےپرواہی سے کہہ کر وہ بےنیاز سی صوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
*********************
کام میں مصروف وہ وقتاً فوقتاً تیکھی نظریں سلیم اور ساشہ پر بھی ڈال لیتا تھا ۔۔ تین مہینوں کے لمبے عرصے میں سلیم ساشہ کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔۔ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ ہوٹل کے نزدیک ہی رہتا تھا ۔۔۔۔ شام کی چائے وہ یہیں پیتا تھا اور اس دوران ساشہ سے گپ شپ بھی لگی رہتی تھی ۔۔ اس کی الٹی سیدھی انگلش سمجھ کر ساشہ اس کا مزاق اڑائے بغیر بہت تفصیل سے اسے جواب دیا کرتی تھی ۔۔۔ آسان ترین انگلش استعمال کیا کرتی تھی جس نے سلیم کا دل یقینی طور پر جیت لیا تھا ۔۔
تھوڑی تلے ہاتھ رکھے وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو بہت محبت اور احترام سے اسے پاکستان کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔
اس نے پاکستان میں جو بھی حالات دیکھے تھے ۔۔ مگر وہ یہ ہرگز پسند نہیں کرتی تھی کہ کوئی اجنبی اس کے وطن کے بارے میں کچھ غلط سلط سوچے ۔۔۔۔
“آپ سے زیادہ ہینڈسم نہیں ہیں وہ ۔۔۔!”
علیشہ جو آج پہلی بار ہوٹل میں ان کی مدد کروا رہی تھی ۔۔ دھیمی آواز میں اس سے بولی تھی ۔۔
“مجھے بھی پتا ہے ۔۔۔!!”
منان کا لہجہ اکڑ سے پر تھا جو علیشہ کو زرا اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔
“لیکن لگتا ہے ساشہ آپی ان کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔۔۔”
منہ بنا کر کہتی وہ منان کی تلملا کر گھورنے پر ہنستی ہوئی اپنے کام میں لگ گئی تھی ۔۔
“شہزادہ سلیم آپ مرجائیں گے میرے ہاتھوں ۔۔۔۔!!”
آنکھیں سکیڑے وہ سخت غم و غصے کا شکار لگ رہا تھا ۔۔۔
******************
“مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا ۔۔۔ بس اتنا پتا ہے دعائیں دل سے مانگتے ہیں اور یقین کامل رکھتے ہیں کہ اللہ میری دعا قبول ضرور کرے گا ۔۔ نہیں کرے گا تو کوئی مصلحت ہوگی ۔۔ کوئی بلا ٹل جائے گی ۔۔۔ آخرت میں کام آجائے گی ۔۔۔۔۔ میں ساری زندگی آپ سے دعائیں مانگتی رہی اللہ جی ۔۔ کوئی خاص دعا جو مانگی ہے وہ قبول نہیں ہوئی ہے ۔۔ میں نے پھر بھی کبھی شکوہ نہیں کیا نا ۔۔؟
مجھے یقین ہے ان دعائوں کا صلہ کسی نہ کسی طرح مل جائے گا لیکن ۔۔۔۔!!
لیکن اللہ جی ۔۔ میں جن دعائوں میں اپنے شوہر کی خیرو عافیت اور اسے مانگتی ہوں میں ان پر صبر نہیں کر پا رہی ۔۔ جو دعائیں میں نے اس کے لیئے مانگی ہیں ۔۔ جن دعائوں میں’میں نے اسے مانگا ہے ۔۔ میری آپ سے گزارش یے وہ ویسے ہی پوری ہوں ۔۔ میں اس کے لیئے صبر نہیں کرسکوں گی ۔۔۔ مجھے وہی چاہیے ۔۔۔ مجھے میرا پارس چاہیے ۔۔۔”
آج بھی اس کے لب جامد تھے لیکن آنکھوں سے آنسئوں کی جھڑی جاری تھی ۔۔ دل آہ و بکا میں مصروف تھا ۔۔۔ چار مہینوں کا کون سا ایسا دن تھا ۔۔ بلکہ کون سی ایسی گھڑی تھی جب اس نے پارس کے لیئے دعا نہیں مانگی تھی ۔۔؟؟
کمرے میں داخل ہوتی ساشہ ایک پل کو ساکت رہنے کے بعد دبے قدموں کمرے سے واپس نکل گئی تھی ۔۔۔ وہ بھی اس منظر کی عادی ہوچکی تھی ۔۔۔۔
*******************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...