(Last Updated On: )
شہناز نبی(کولکتہ)
دعاسے ہاتھ خالی، دل تمناؤں سے خالی ہے
عجب سے وسوسوں میں گھر گیا تیرا سوالی ہے
تجھے تشبیہ دوں کس سے ، کروں میں استعارہ کیا
تصور تیرا مشکل ہے، تری صورت خیالی ہے
بہت چاہا کہ کترا کر گذر جاؤں ، مگر سوچو
ذرا سا مختلف ہے وہ، طبیعت کچھ نرالی ہے
ابھی سے کیوں اندھیرے کاتصور تم کو ڈستا ہے
ابھی سورج نہیں ڈ و با، ا بھی پچھم میں لالی ہے
ہمیں اس حق پرستی کا صلہ ملتا بھی کیا اس سے
کبھی تو سر زنش کردی، کبھی کچھ گو شمالی ہے
چمن زاروں سے پوچھو کس پہ اب افتاد آنی ہے
بہت بشاش ہیں غنچے، ہری اک ایک ڈالی ہے
ترے بازار میں یوسف کی قیمت ہم ادا کرتے
مگر صورت ہے لاثانی نہ سیرت ہی مثالی ہے