آج میری بیٹی۔۔ کیوں اتنا دکھی ہے؟
الماس بیگم نے رین کے پاس جا کے جھولے پے ہی بیٹھتے بہت پیار سے پوچھا۔
نہیں۔۔ بڑی امی۔۔۔۔!! ہم تو ۔۔وہ۔۔ایسے۔۔۔۔ہی۔۔۔!!
عین تھوڑا گڑبڑا گٸ۔
اداس نہیں ہوتے بیٹا۔۔!! اب۔۔ آپ بھی سب کچھ بھلا کے۔۔ در گزر کر کے۔۔۔ آگے بڑھو۔
میں نے فارس سے بھی یہی کہا ہے اور آپ کو بھی۔۔۔!!
آپ کی۔۔ ان سے بات ہوٸی۔۔؟؟
عین نے فوراً ہی بات کو پکڑا۔
ہمممممم۔۔۔ وہ چونکیں۔
کیا مطلب۔۔۔؟؟ آپ کی نہیں ہوتی کیا۔۔۔؟؟
الماس بیگم کو کچھ صحیح نہیں لگا۔
نہیں۔۔۔ وہ۔ نہیں۔۔۔وہ۔۔۔۔!!
اچھا چھوڑیں۔۔ یہ باتیں۔۔ جاٸیں اور اچھے سے تیار ہوجاٸیں۔۔۔ مجھے اپنی بیٹی ہشاش بشاش چاہیۓ۔
بالکل ہنستی مسکراتی۔۔۔ !!
بڑی امی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔!! عین نے ٹالناچاہا۔
نور العین۔۔۔ اپنے روم۔میں جاٸیں۔ اور جو کہا ہے وہ کریں۔۔۔ اور جبتک۔۔۔ میں بولوں۔۔ناں۔۔آپ باہر نہیں آٸیں گیں۔
سمجھیں۔۔۔!!الماس بیگم نے مسکراتے کہا۔
تو عین سر اثبات میں ہلاتی اندر کی جانب بڑھ گٸ۔
اور الماس بیگم بھی سوچتی ہوٸیں مسکراتی ہوٸیں اندر کی جانب بڑھ گٸیں۔
زیان شاہ۔۔۔۔!! آپ اب بس کر دیں۔ ناں۔۔یہ کام۔۔۔!!
مسلسل لیپ ٹاپ پے کام کرتا دیکھ دعا کو اب الجھن ہونے لگی تھی۔ اس دوران وہ تین کپ چاٸے کی پی بھی چکی تھی اور زیان کو پلا بھی چکی تھی۔
بس۔۔۔ !! تھوڑا سا اور رہ۔۔۔ گیا۔۔ ہے۔۔ا سکے بعد۔۔۔فری ہی فری۔۔۔۔
بنا دیکھے ہیڈیٹا کو کور کرتا وہ دعا سے مخاطب ہوا۔
دعا ایک منٹ اسے دیکھتی وہاں سے اٹھ گٸ۔اور باہر لان میں آگٸ۔
ہوا کے ہلکے جھونکے نے اسے چھوا تو اس نے آنکھیں موند لیں۔
ایک سرور سا طاری ہوا۔
یہاں کیوں آگٸ۔
کان کے پاس میٹھی سی سرگوشی کی تو وہ لرز گٸ۔
پیچھ پلٹ کے دیکھا تو نہیں تھا۔ سامنے کھڑا چلتی ہواٶں کا مزہ لینے لگا۔
وہیں رہنا تھا۔۔۔ ابھی بھی۔
منہ بناتے شکوہ کیا۔
چلا جاٶں۔۔۔؟ شرارت سے پوچھا۔
تو وہ منہ پھیر گٸ۔
کل ٹیسٹ ہے جناب کا۔۔۔ کتنی تیاری کی ہے۔۔۔؟؟
زیان نے قریب آتے پوچھا۔
اب یونی کی باتیں گھر میں مت کریں۔ اور
for your kind information.
ٹیسٹ ریڈ ی ہے۔ ۔۔۔ اوکے۔
اچھا۔۔۔۔۔ تو کیسی باتیں کریں۔۔؟؟تم بتاٶ۔۔؟؟
مزید قریب آتے وہ اسکوسٹپٹانے پے مجبور کر گیا۔
I think…
مجھے۔۔۔ اب جانا چاہیے۔۔۔۔!!
پہلو تہی کرتی وہ پلٹی۔ کہ زان نے ہاتھ بڑھا کے اسکا آنچل ہی تھام لیا۔
سوچ رہا ہوں۔۔ اس بار۔۔۔ رخصتی ہی کر والوں۔۔۔۔ مما سے کہہ کے۔۔۔!!
مزید اسے تنگ کیا۔ تو رخصتی کے نامپے وہ بلش کرنے لگی۔
زیان شاہ۔۔۔۔!! ابھی پڑھاٸی۔۔۔مکمل نہیں ہوٸی۔۔۔
and you know….
پڑھاٸی کے بعد ہی آپ کی یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے۔۔۔۔
تھوڑا ناز سے کہا۔
میری خواہش۔۔۔۔؟؟ زیرِلب دہرایا۔ اور۔مسکرایا۔
میری خواہش ہے ۔۔ کہ ابھی تمہیں۔۔۔ خود میں چھپا کے۔۔ کہیں دور لے جاٶں۔۔۔!!
جہاں۔۔۔ !!
بس۔۔۔ بس۔۔۔ مسٹر پروفیسر۔۔۔۔!! مجھے۔۔ آپ ۔۔۔زمین پے ہی رہنے دیں۔۔ اور صرف آٸسکریم ہی کھلا دیں گے۔۔
ہم اسی پے خوش ہو جاٸیں گے۔۔۔
دعا نے فرماٸش کی۔ تو زیان مسکرا دیا۔
باٸیک پے جانا پڑے گا۔۔۔۔!!
کقن میں میٹھی سی سرگوشی کی۔
وہ پھر سے بلش کرنے لگی۔
یہ۔۔۔یہ۔۔کیا ہوا۔۔۔؟؟ یہ گال۔۔۔ ریڈ ریڈ کیوں۔۔ہو رہے ہیں۔۔؟؟
زیان نےباسکے گالوں کو چھوتے مصنوعی حیرت سے دریافت کیا تو وہ نظریں جھکا گٸ۔ اب کیا بتاتی اسے۔۔۔۔؟؟
زیان شاہ ۔۔۔ !! چلیں۔۔ ناں۔۔۔!!
زیان کا دھیان ہٹاتے اسے اپنے ساتھ کھینچا۔ تووہ اسکی اس حرکت پے مسکراتے ہوا اسکے ساتھ چل دیا۔
فارس کے آنے سے گھر بھر میں رونق ہوگٸ تھی۔ سبھی اس سے بہت محبت سے ملے تھے۔
کافی دنوں بعد وہ گھر آیا تھا۔
سب سے مل۔چکا تھا۔ لیکن نظریں جس کو تلاش کر رہی تھیں۔ وہ سامنے نہیں آٸی تھی۔
ارے۔۔۔۔ بیٹا کھانا کھاٶ ناں۔۔۔ کتنا کمزور ہوگۓ ہو۔۔۔۔!!
الماس بیگم نے اسے کھانا نہ کھاتے یوں ہی پلیٹ میں چمچ ہلاتے دیکھ ٹوک دیا۔
جی جی۔۔کھا رہا ہوں۔۔۔!!۔باقی سب۔۔۔کہاں۔۔۔ہیں۔۔؟؟
بالآخر۔۔۔ ان ڈاٸریکٹلی اس نے نورکا پوچھا۔
ارے بیٹا ۔۔۔!! سارے ادھر ہی ہیں۔۔ ملتو لیا سب سے۔۔!!
زیان اور دعا۔۔ تو شہر میں ہیں۔۔۔ اور۔۔ عین ۔۔۔بھی انہی کے ساتھ ہے۔۔۔۔!! بیچاری بور ہوگٸ تھی۔۔۔!!
تو ادھر ہی بھیج دیا۔
الاماس بیگم کے کہنے پے فارس کوکھانسیکا زور کا جھٹکا لگا۔
الماس شاہ نے اسے پانی پلایا۔
کیاہوا بیٹا۔۔۔؟؟ آپ ۔۔۔ٹھیک ہو ناں۔۔۔؟؟
جی جی۔۔۔۔!! لیکن۔۔۔ وہ۔۔ وہاں۔۔۔ کیوں۔۔گٸ۔۔۔؟؟
ناراضگی سے پوچھا۔
بیٹا بتایا تو ہے۔۔۔ گھر میں بور ہو رہی تھی میں نے ہی زبردستی بھیج دیا۔
نارمل۔اندازمیں کہا۔
ایکسکیوز می۔۔۔۔!!
وہ ایکسکیوز کرتا وہاں سے اٹھااپنے روم کیجانب بڑھا۔
دل۔میں ایک فم سے غصہ بھر گیا تھا۔
وہ کیسے جا سکتی ہے یوں۔۔۔!!
بنا مجھ سے پوچھے۔۔۔۔!!
غصے میں روم۔میں دخلہوتا وہ سیدھا کبرڈ کیجانب بڑھا۔ اور وہاں سے کپڑے نکالنے لگا لیکن۔۔ کوٸی بھی سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔ کہ کیاپہنے۔
جبکہ پیچھے بیٹھی میگزین کی ورق گردانی کرتی نور بہت سخت ڈری تھی۔ اور اب فارس کو یوں کبرڈ میں منہ سر دیٸے وہ نجانے کیا تلاش کر رہا تھا۔۔۔؟؟
کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔۔ کہ کیاپہنے تو غصے سے زور سے کبرڈ بند کر کے وہ پلٹا۔ لیکن۔۔۔ وہ حیران رہ گیا۔ سامنے ہی نور کو دیکھ اسکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
تم۔۔۔۔!! یہاں۔۔۔ ہو۔۔۔؟؟
فارس حیرانی سے کہتا اپنے اندر کی خوشی کو چھپاتا نور کی جانب بڑھا۔
جججی۔۔۔ وہ۔۔میں۔۔۔ !! اس کے وں قدم بڑھانے پے وہ نروس ہوٸی۔ اسے کیا پتہ تھا۔۔ وہ یوں اچانک آجاۓ گا۔۔۔؟؟
تو۔۔۔ تم۔۔۔ گٸ۔۔۔ نہیں۔۔۔؟
فارس نے اسکے قریب آتے الماس بیگم کی شرارت کو سمجھتے زیرِ۔لب مسکراتے اسے کہا۔
اور وہ تو اسکو مسکراتا دیکھ ہی حیران رہ گٸ تھی۔
ایسے کیا یکھ رہی ہو۔۔۔؟؟
تھوڑا اور قریب آتے پوچھا۔
کچھ نہیں۔۔۔ آپ۔۔۔ کھانا۔۔۔۔۔؟؟
کھانا تو کھا لیا ہے۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ پیٹ ۔۔۔نہیں بھرا۔۔۔۔
فارس نے عین کی بات کاٹتے اسکے بہت قریب ہوتے کہا۔
عین کی تو ہتھیلیاں پسینے سے تر ہوگٸیں۔
اپنی تیاری کے پیشِ نظر وہ زیاددہ خجل ک شکار ہو رہی تھی۔
نظریں تھیں کہ اٹھ ہی نہیں رہیں تھیں۔
اور دل تھا کہ دھڑک دھڑک پسلیاں توڑ باہر آنے کو مچل رہا تھا۔
کیا۔۔ہوا۔۔۔؟؟ گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔؟
فارس نے اسکے گھبرانے سے محظوظ ہوتے اسکی تھوڈی کے نیچے ہاتھرکھتے چہرہ اوپر کی طرف کیا۔
مجھے ایسے کیوں لگ رہا ہے۔۔۔ کہ نورِ شاہ۔۔ شرما رہی ہے۔۔۔؟؟
اسکی اتنی سی قربت پے ہی عین کا برا حال ہوگیاتھا۔
اگر۔ برا نہ گے تو۔۔۔ایک کپ کافی مل سکتا ہے۔۔۔؟؟
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اچانک اسکی بات پے عین کو اچھنبا ہوا۔
فارس مسکرایا تو وہ سر ہلاتیباہر کی جانب گٸ۔
اور فارسدل سے مسکراتا شاور لینے چلا گیا۔
اللہ اللہ کتنے ۔۔وہ ہیں۔۔۔ !!
کافی بناتے ساتھ دل کی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کا سنبھالتی بڑبڑاٸی۔
یہ۔۔۔کب۔۔۔آٸے۔۔۔؟؟ یونہی بنا بتاٸے چلے گٸے۔۔۔ بنا بتاٸے ہی آگۓ۔۔۔!! نہ یہ کیا بات ہوٸی۔۔۔؟؟
ہم بھی نہیں بات کریں گے ان سے۔۔!!
خود سے ہی پلاننگ کرتی وہ پھر سے ہی فارس کو ہی سوچے جا رہی تھی۔
کافی کا کپ تھامے وہ بیڈ پے ٹیک لگاٸے اسے نظروں کے حصار میں لیے ہوٸے تھا۔ اور وہ جو۔۔ ناراضگی کا سوچ رہی تھی۔
فارس کی نظروں سے ہی خود کو پگھلتا محسوس کیا۔
یہاں آٶ۔
کافیکامگ ساٸیڈ پے رکھتے عین کی جگہبناۓی بیڈ پے اور اسے اشارے سے پاس بلایا۔
عین کی ٹانگوں نے صوفے سے اٹھ کے کھڑے ہونے سے ہی انکار کر دیا۔
نوِشاہ۔۔۔۔!! یہاں آٸیں۔۔۔۔!! ابکی بار لہجہ تھوڑا تحکمانہ سا محسوس ہوا۔
ین نے اٹھنا چاہا۔ لیکن اٹھ ہی نہ پاٸی۔
اللہ جی۔۔۔! یہ ہمیں کیوں۔۔۔ اپنےپاس بلا رہے ہیں۔۔۔؟؟
دل ہی دل۔میں ڈرتے چور نظروں سے فارس کا چہرہ دیکھا۔
جہاں اسکے تاثرات عین کو سمجھ نہ آٸٕے۔
فوراً سے بیشتر اٹھا اسکے پاس جاتے اپنی بانہوں میں بھرا۔ عین کا دلاچھل کے حلق میں آگیا۔
فارس نے ایک نظر اس گھبراٸی سی چھوٸی موٸی کو دیکھا۔
اور اسے لیے بیڈ پے آیا۔
لگتا ہے۔۔ پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی آپ کو۔۔۔۔؟؟
تھوڑا سا اسکی طرف جھکتے گھمبیر لہجے میں کہتے وہ عین کے وجود کو ہلاکے رکھ گیا۔
اس شخص کی قربت عین کو عجیب سے احساس سے روشناس کرا رہی تھی۔
فارس نے پاس بیٹھتے اسکا ہاتھ تھاما۔
جو بے انتہا ٹھنڈا تھا۔
نورِ شاہ۔۔۔!! مجھ سے ناراض ہو۔۔۔؟؟
اب کی بار وہ تھوڑا دکھی لگا۔
ہونا بھی چاہیے۔۔۔۔!! بہت۔۔۔ ظالم ہوں ناں۔۔ میں۔۔!!
سارا سچ جانتا بھی تھا پھر بھی۔۔۔۔ تمہیں موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔۔۔۔
وہ خود ہی سوال۔اور خود ہی جواب دے رہا تھا۔
جانتی ہو۔۔۔!! بچپن سے مجھے۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے خوف دکھا ہے۔۔۔!!
تم۔۔۔جب بھی ۔۔مجھے دیکھتی۔۔۔ بھاگ جاتی۔۔۔۔!!
فارس سامنے دیوار پے دکھتے اپنے دل۔کا حالبیانکر رہا تھا۔۔۔
تمہاامجھ سے۔۔۔گریز۔۔۔ اور ۔۔۔عفان۔۔سے نزدیکی۔۔۔۔ مجھے۔۔کھلنے لگی۔۔۔۔ مجھ سے۔۔۔۔۔ برداشت نہ ہوتا تھا۔۔ ۔
عفان کے زکر پے عین کا دل دھڑنا بھول گیا۔
آج وہ پرانے خمکیوں ادھیڑ رہا تھا۔۔۔؟
عین سوچ کے رہ گٸی۔
مجھے تم۔۔سے نفرت ہونے لگی۔۔۔۔
مجھےلگا۔۔۔ میں۔۔۔ تم سے سخت نفرت کرنے لگا ہوں۔۔
اور یہ۔۔نفرت۔۔کب۔۔۔ جنون بن کے میری رگوں میں دوڑنے لگی۔۔۔ مجھے خو بھی نہ پتہ چلا۔
جو در حقیقیت۔۔۔ نفرت نہیں۔۔۔ محبت ۔۔۔تھی۔۔۔
جنوں۔۔۔ تھا۔۔۔
عشق۔۔۔ تھا۔۔۔
لیکن۔۔۔۔ بے زباں۔۔۔ تھا۔۔۔
اور۔۔۔ آج۔۔۔ ایک۔۔ آتش فشاں بن چکا ہے۔۔۔
کہتےہوٸے اسکے قریب آیا۔
اس کی پلکیں ایک ٹک فارس کو دیکھی جارہی تھیں۔
تم سے نکاح کیا۔۔۔بدلے کے لیے۔۔۔
تکلیف دینے کے لیے۔۔۔
لیکن۔۔۔۔ تمہیں تکلیف دے نہ سکا۔۔۔
میرا دل یہ۔ ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔۔ کہ۔۔تم۔۔۔ عفان۔۔۔سے نہیں۔۔ مجھ سے۔۔۔۔؟؟
وہ خط۔۔۔ مجھے سچ لگا تھا۔۔۔
لیکن۔۔۔ جذبات کی رومیں بہک جاتا۔۔ اگر اس خط کی ہینڈ راٸیٹنگ پے نظر نہ پڑتی۔۔۔
جو تمہاری۔۔ نہں تھی۔۔۔
کیونکہ تمہاری راٸٹنگ اسٹاٸیل میں پہچانتا تھا۔
آپ کی ۔۔دو لوگوں پے کڑی نظر ہوتی ہے۔۔
ایک جس سے آپ محبت کرتے ہیں۔
اور ایک وہ جس ے آپ نفرت کرتے ہیں۔
میں اپنی دانست میں تم سے نفرت کرتے تمہاری ہر چیز۔۔ہر بت پے نظر رکھتا تھا۔۔۔
اور نہیں جانتا تھا۔۔۔ وو نفرت نہیں۔۔ محبت ہے۔۔!!
فارس نے اسکے کان کی لو کو چھوتے بہت نرمی سے اداکیا۔ تو وہ لرز ہی گٸ۔
میرا عشق ہے۔۔۔
میرا جنون ہے۔۔۔
اسکی جسارتیں مزیدبڑھتی جا رہی تھیں۔
اور عین کے دل۔کی دھڑکنوں کا شور بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
آنکھیں موندے وہ فارس کومزید گستاخیوں پے آمادہ کر رہی تھی۔
شرم و لجا سے اسکا لرزتا وجود فارس کو بے خود کیے جا رہا تھا۔
بہت شور مچا رہی ہیں۔۔۔ یہ دھڑکنیں۔۔۔!!
فارس کی گھمبیر آواز کانوں سے ٹکراٸی۔
تو تھوڑا پیچھے کو سرکی۔
اور سر اٹھا کے اس جنونی انسان کو دیکھا۔
آپ۔۔۔۔۔ دور۔۔۔ رہیں۔۔۔ پلیز۔۔۔!!
عین کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔
فارس اس کے اس رویے کا بس دیکھے گیا۔
اسے لگا۔۔۔ عین اس کے لیے بھی ویسے ہی تڑپی ہوگی۔ جیسے وہ اس کے لیے تڑپا ہے۔۔
ان چند دنوں میں وہ ایک پل بھی اسے بھلا نہیں پایا۔ تھا۔
فارس ایک دماس کے پاس سے اٹھا۔ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ساتھ جم روم میں چلا گیا۔
اور آنکھیں بند کیے وہ اپنے اندر اترنے والے غصے کو۔کنٹرول کرنے لگا۔۔
دوسری طرف عین اپنی بے ترتیب ہوتی سانسوں کا سنبھالنتےہوٸے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا گٸ۔
کیا ہوگیا تھا ہمیں۔۔۔۔۔؟؟
فارس شاہ کے قریب آتے یہ دل اسطرح کیوں۔۔ شور مچاتا ہے۔۔۔۔۔!!
ہمیں لگا۔۔۔ ہم۔مر جاٸیں گے۔۔ آج۔۔۔۔!!
خود سے بولتی وہ یہ جانے بنا کہ فارس پے اسکی اس حرکت کا کیا اثر ہوا ہوگا۔
وہ اپنے آپ اور اپنےخوف سے لرزتے وجود کو ریلیکس کر رہی تھی۔
کافی رات بیت گٸ تھی۔۔
لیکن فارس روم۔میں واپس نہ آیا تھا۔
عین کو اسکی فکر ہوٸی۔
دھیرے سے اٹھی۔ اور ننگے پاٶں چلتی وہ جم والے ڈور کے پاس پہنچی۔
کافی دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد حوصلہ جمع کرتی اس نے دروازے پے دھیرے سے دستک دی۔ لیکن جواب ندارد۔
ہمت کرتی ایک بار پھر سے دستک دی۔
اب بھی کوٸی جواب نہ آیا۔
تو مجبوراً دروازہ کاناب گھمایا۔ تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔
تھوک نگلتی وہ روم کے اندر داخل ہوٸی۔
فارس کے جانے کے بعد وہ صرف رومتک ہی محدود رہی۔ اس روم کو وہ آج یکھ رہی تھی۔
ایکسرساٸز کرتا۔۔ یا یہ بجا ہوگا کہ ایکسر ساٸز پے وہ غصہ اتارتا پسینہ سے شرابور بنا عین کی آنے کی طرف دھیان دیے بزی تھا۔
عین کواسے دیکھ پھر سے گھبراہٹ ہونے لگی۔
مرے ہوٸے قدموں سے اسکے قریب آٸی۔
وہ شرٹ لیس اپنی باکسنگ میں بزی رہا۔
عین کو اسے اس حال میں دیکھ شرم سے نظریں ہی نہیں اٹھ پا رہی تھیں۔
بار بار پلکیں اٹھاتی گراتی وہ فارس کو متوجہ کر ہی گٸ۔
بببببات۔۔۔۔ سنیں۔۔۔۔!!
بمشکل الفاظ ادا ہوٸے۔
فارس نے تیکھی نظر اس پے ڈالی ۔
لیکن پھر سے اپنے کام میں بزی رہا۔
بلکہ اور تیزی آگٸ۔
وہجو خود کوبمشکل اس کے سحر سے نکال پایا تھا۔
پھر سے اسکی آزماٸش بنی سامنے کھڑی تھی۔
نظریں پھیرتا پاس پڑا ٹاول اٹھایا۔ اور اس سے اپنا پسینہ صاف کرنے لگا۔
جبکہ عین کو مکمل نظر انداز کر دیا۔
جس پے عین تڑپ ہی گٸ۔
بالکل اس کے سامنے آگٸ۔
آپ۔۔۔ہمیں۔۔۔ اگنو کر رہے ہیں۔۔۔!!
بہت لاڈ سے کہتی وہ فارس کے صبر کا پیمانہ لبریز کر گٸی۔
فارس نے اسکی کم میں ہاتھ ڈال کے اسے خود کے قریب کیا۔
اور وہ۔۔ جو اسے منانے آٸی تھی۔ اسکی اس حرکت پے دم بخود رہ گٸ۔
ہرنی سی آنکھیں اسکی لال انگارہ آنکھوں میں ٹکاٸیں۔
کیا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟ بہت گھمبیر لیکن سخت لہجے میں پوچھا۔
قریب آٶں تو آنے نہیں دیتی۔۔۔
دورجاٶں تو۔۔ جانے نہیں۔۔۔ دیتی۔۔۔
کیوں۔۔ میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو۔۔۔۔؟
کہتےبوہٸے اسکی کان کی لو کو چھوتا وہ آرام سے گردن تک کا قاصلہ طے کر گیا تھا۔
عین اسکی بانہوں میں جھٹپٹاٸی۔
لیکن فارس کی گرفت سے نکل نہ پاٸی۔
آپ۔۔۔۔ ہمیں۔۔۔ ڈراٸیں۔۔۔ مت۔۔۔۔۔!!
ماتھے پے تیور لاٸی وہ فارس کو کوٸی چھوٹی سی بچی ہی لگی۔
بے اختیار فارس کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔
اور عین وہیں میمراز ہوٸی۔
اسکی مسکراہٹ پے ہی تو وہ دل و جان سے فدا تھی۔
آپ۔۔۔کی مسکراہٹ ۔۔۔۔بہت۔۔پیاری۔۔۔ ہے۔۔۔۔!!
کسی ٹرانس کی کیفیت میں کہتی وہ فارس کو حیران کر گٸی۔
یہ حیرانی بے انتہا کی خوشی میں بدل گٸی۔
اگر۔۔۔ تم۔۔۔ چاہو۔۔۔ تو ۔۔۔یہ۔۔ہر پل۔۔۔ تمہیں۔۔ نظر آسکتی ہے۔۔۔!!
فارس نے اسے اب اپنی دونں بانہوں میں پیار سے سمیٹا۔
اور وہ اس اچانک افتاد پے حیران ہوٸی۔
ششششااہ۔۔۔!!
ششششییییی!!
فارس نے اسکے لب پے ہاتھ رکھے اسے چپ کرا دیا۔
اور اسے باولوں سے پکڑے دھیرے اس اپنے چہرے کے پاس اسکا چہرہ لایا۔
جانِ جاں۔۔۔
یہ جہاں۔۔
یہ زمین آسماں۔۔
یہ۔میرے رات دن۔۔۔۔
خاک ہیں تیرے بن۔۔
سب تمہارے لیے۔۔۔۔
اب تمہارے۔۔۔۔لیے۔۔۔
اسکی لٹ کو کان کے پیچھے کرتا وہ اس پے سحر پھونک رہا تھا۔
فارس۔۔۔۔۔ شاہ۔۔۔۔۔!! آپ۔۔۔بہت بڑے۔۔جادوگر ہیں۔۔
منہ نیچے کیے وہ مسکراہٹ لبوں میں دباتی فارس کو ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر گٸی۔
یہی تو وہ چاہتا تھا۔۔
کہ وہ اس سے ڈرے نہ۔۔۔
اس سے خوف نہ کھاٸے۔۔
you are my heartbeat….
دھیے کہتا وہ اسکے لبوں پے جھکا۔ اور وہ آنکھیں بند کیے اسکے سینے پے ہاتھ رکھے لرز گٸ۔
کسی پیاسے کی طرح سیر ہوتا وہ پیچھے ہٹا۔
تو وہ گہرا سانس لیتی اس کے سینے سے جا لگی۔
خود سپردگی کا یہ احساس فارس کی رگوں میں خون بن کے دوڑنے لگا۔۔
اسے اپنی بانہوں میں اٹھاۓ وہ اسے نظروں کی حصار میں لیتاروم کی جانب بڑھا تھا۔
جہاں۔۔ اسکے ارمان سجےتھے۔
وہ خود سجی تھی اس کے لیے۔۔
اور وہ ان پلوں کو راٸیگاں نہیں کر سکتا تھا۔
ہاں۔۔ وہ دھڑکنوں کو سنتا تھا۔۔۔
اسکی دھڑکنوں میں بسا اپنا نام سنتا تھا۔۔۔
وہ اسے اس سے بھی زیادہ جانتا تھا۔۔۔
اور ۔۔۔اسے اپنا بنانا بھی جانتا تھا۔
ناشتہ تیار ہوگیا ہے۔۔۔ سب۔۔!!
بچے ابھی تک نہیں آٸے۔۔۔۔!!
ماریہ شاہ نے ٹیبل پے ناشتے کے لوازماات دیکھتے ہوٸے ہمکلامی کی۔
رودابہ۔۔۔۔ جاٶ۔۔۔ دیکھو۔۔۔ بچے جاگ گٸے ہیں۔۔؟؟
اپنی نٸ ملازمہ کو کہتے وہ ٹیبل سیٹ کرنے لگیں۔
ارے۔۔۔ماریہ ۔۔رہنے دو۔۔۔۔!! وہ خود آجاٸیں گے۔۔۔
ڈسٹرب نہیں کریں۔۔ انہیں۔۔۔!!
اندر آتی الماس بیگم نے ماریہ شاہ کو ٹوکا۔
تو رودابہ بھی رک گٸ۔
ماریہ شاہ نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا۔
محبت کی ملن کی یہ صبح بہت خوشگوار تھی۔
فارس نے خود میں سمٹی سمٹاٸی اس چھوٸی موٸی کو دیکھا تھا۔
ایک دلفریب مسکراہٹ نے لبوں کو چھوا تھا۔
اسکا جی نہیں چاہا تھا۔ کہ اسکی نیند خراب کرے۔
آگے ہوتے اسکے ماتھے پے پیار کی مہر ثبت کرتے وہ اٹھ کے فریش ہونے چلا گیا تھا۔
واپس آتے آٸینے کے سامنے کھڑا وہ خود پے پرفیوم کا سپرے کر رہا تھا۔
عین کی پوزیشن چینج تھی۔ وہ مکمل کمفرٹر اوڑھے بستر میں گھسی تھی۔
فارس جان گیا تھا وہ جاگ گٸ ہے۔
جانِ جاں۔۔۔!!
اٹھ جاٸیں۔۔۔ چھپنا بے کار ہے۔۔۔۔!!
معنی خیی سےکہتا وہ ایک نظر اسے مزید چھپتا دیکھ موباٸیل لیے گیلری کی جانب بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد جب عین کو یقین ہو گیا کہ وہ جا چکا ہے۔تو منہ سے کمفرٹر ہٹاتی وہ جھپاک سے اٹھتی باتھ روم۔میں بند ہوٸی۔
اسکی یہ حرکت بھی فارس سے نہ چھپ سکی۔
لیکچر لیتے یان کی نظریں مسلسل دعا پے تھیں۔
جو آج اسے زچ کرے جا رہی تھی۔
اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے۔۔
وہ کل۔کابدلہ لے رہی تھی۔
ابھی بھی لبوں کو آپس میں جوڑے اس نے ایک کس زیان کی طرف اچھالی تھی۔
زیان کا ماٸنڈ کنورٹ ہو چکا تھا۔
دوبارہ لیکچر پے دھیان دیتا وہ دعا کو اگنو کر چکا تھا۔
لیکن اسکی ایک آنکھ ونک کرنا زیان کے برداشت کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
فوراً اسکی طرف مڑا۔
مس۔۔ دعا۔۔۔!!
Stand up….!!
تھوڑا سختی سے کہا۔
وہ معصوم سا منہ بناتی کھڑی ہوٸی۔
یہ جو ابھی پڑھایا اسکو
Explain
کریں۔
وہ دعا کو رعب میں لاتے بولا۔
کیوں ۔۔سر ۔۔۔آپ کو۔۔ ایکسپلین کرنا نہیں آتا۔۔۔؟؟
بہت معصومیت سے پوچھا۔
کلاس میں ایک مسکراہٹ کی لہر دوڑ گٸ۔
سب پے غصیلی نظر ڈالتا وہ دوبارہ دعا کی جانب متوجہ ہوا۔
آپ کا دھیان کہا ں پے ہے۔۔۔؟؟مس دعا۔۔۔؟؟
چبا چبا کے کہتا وہ سب کو سہما گیا۔
آپ پے۔۔۔۔!!
برجستہ جواب آیا۔
ممم۔۔۔میرا مطلب۔۔۔ آپ کے لیکچر پے۔۔۔!!
فوراً سے تصحیح کی۔
زیان کو اسے ہینڈل کرنا مشکل لگا۔
جو وہ کام کرتا تھا۔ اس میں ددشم ہر وقت اس پے نظر رکھے ہوٸے تھا۔ اور وہ کوٸی کمزوری نہیں دے سکتا تھا۔
اور دعا کا یہاں آنا اسے اپنے مشن کے لیے مٸسلے کھڑے کر سکتا تھا۔
آٶٹ۔۔۔ مس دعا۔۔۔۔!!
سخت غصے سے کہتا وہ دعا کو بھی ٹھٹھکا گیا۔
خجالت کے احساس سے دوچار ہوتی وہ کلاس سے باہر بھاگی۔
جبکہ اسکی آنکھوں کےدو موتی گرتے وہ دیکھ چکا تھا۔
گڈمارننگ جانِ شاہ۔۔۔۔!!
وہ ایک دم سے پیچھے سے اسے جکڑے اپنی پناہوں میں لے گیا۔
اور وہ جو بالوں میں کنگھی چلا رہی تھی۔
فارس کے خود پے حاوی ہونے کو محسوس کرتی وہ لرزی تھی۔
شرم و حیا سے پلکیں جھکیں تھیں۔
اسطرح کرو گی۔۔ تو۔۔ خود پے اختیار کھو دوں گا۔۔ جانِ شاہ۔۔۔!!
اسکے بھیگے بالوں میں منہ چھپاتا وہ گھمبیر لہجےمیں گویا ہوا۔
عین اسے واپس رات والے روپ میں جاتا دیکھ ھر جھری لی۔
اور فوراً واپس پلٹتے اسے دیکھا۔
ہم۔۔ناں۔۔ آپ سے ۔۔کچھ پوچھنا ۔۔۔ چاہتے ہیں۔۔۔
بہت ۔۔ ہمت کرتے وہ پلکیں گراتی اٹھاتی فارس کے دل دھڑکاتی جارہی تھی۔۔۔
آپ۔۔۔مجھ۔۔۔ تک۔۔کیسے۔۔پہنچے تھے۔۔۔؟؟
ایک سوال جو اسے مسلسل پریشان کیے ہوٸے تھا۔ آخر پوچھ لیا۔
فارس نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
مطلب ۔۔اس بے وقوف کو پتہ ہی نہ چلا۔
ہاتھ بڑھا کے اسکی گردن کو ٹچ کیا۔
وہ گھبراٸی۔۔۔
اسکی طرف دیکھتےاسکی نازک سی گدرن سےایک ین نکال کے اسکے سامنے کی۔
یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔ دیکھی ہے۔۔؟؟
جی۔۔یہ۔۔میری ہے۔۔۔۔!!
حیران ہوتے کہا۔
غورسے دیکھو۔۔ جانِ شاہ۔۔۔!!
فارس کے کہنے پے عین نے غور کیا۔
یہ۔۔۔ اسکی گولڈ چین کی طرح تھی۔۔۔لیکن۔۔ یہ اسکی نہیں تھی۔۔۔
حیرت زدو ہوتی وہ آنکھیں پھیلا کے فارس کو دیکھنے لگی۔
یہ۔۔ بہت خاص ہے۔۔جانِ شاہ۔۔۔!! آپ جہاں۔۔ بھی جاٸیں۔۔ مجھ سے چھپ نہیں سکتیں۔۔۔ گردن میں ہاتھ ڈالتے نرمی سے اسے خود سے قریب کیا۔
اسکے کہجے کا جنون عین کو لرزا گیا۔
وہ کیاتھا۔۔۔؟؟
کیسا جادوگر تھا۔۔۔
وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی۔۔۔
لیکن وہ یہ جان گٸ تھی۔۔
وہ اسکے دل کے مقام پے ہے
اور اسکی دھڑکنو ں کا محافظ ہے۔
دو سال بعد۔۔!
وہ بہت بری طرح پھسی ہوٸی تھی۔
ایک طرف وقت کم تھا تو دوسری طرف وہ ابھی تک ڈریس اپ نہیں ہوٸی تھی۔
بار بار ڈریس دیکھتی وہ الجھی ہوٸی تھی۔
جانِ شاہ اب اور کتنی دیر لگے گی۔۔۔؟؟ وہ عجلت میں روم۔میں داخل ہوا۔
تو وہ گہری سانس لیتی ناراضگی چہرے پے سجاٸے فارس کی طرف مڑی۔
ہم۔۔سے نہیں۔۔ ہو رہا۔۔۔؟؟
ہم تھک گٸے۔۔۔ ہیں۔۔ اسے کیسے پہنیں۔۔ ہم۔۔۔؟؟
وہ روہانسی ہوتی بولی۔
جبکہ فارس ماتھے پے ہاتھ مارتا مسکراتا اس کےپاس آیا۔
وہ پہلے سے بھی زیادہ دلکش ہو گٸ تھی۔
فارس کی محبت اور کٸیر نے اسے دن بدن سنوارا تھا۔
اور وہ اسکی محبت میں مزید لاڈلی بن گٸ تھی اسکی۔۔ اور بہت پر اعتماد بھی۔
اورفارس ا سکے ہر طرع کے سارے ہی لاڈ اٹھاتا تھا۔
چلو جی۔۔۔ میرے ہوتے۔۔ کیوں پریشان ہو۔۔۔؟؟
میں ہوں ناں۔۔۔!! میں ہیلپ کرتا ہوں۔۔ آٶ۔۔۔۔!!
فارس نے اپنی خدمات پیش کیں تو وہ ماتھےپے تیوری ڈالے پلٹی۔
نہ جی۔۔۔!! آپ جاٸیں بچوں کے پاس۔۔ ہم کر لیں گے۔
فوراً سے بیشتر ناں کی۔
بچے اپنے سیو مفقام پے ہیں۔۔۔ فارس نے مطمیں ہوتے کہا۔
مطلب۔۔۔۔؟؟ عفان کہاں ہیں۔۔؟؟
اپنے دادا دادی کے پاس۔۔۔۔۔!!
اچھا۔۔۔!!اور۔۔۔۔ اُم ہانی۔۔۔؟؟
اسکاانداز فارس کو بہت بہایا تھا۔
وہ نانا نانی کے پاس۔۔۔۔!!
اور اگر پھر بھی تمہارا بچوں کا شوق پورا نہیں ہوا تو آٶ۔۔ہم تیسرے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتا وہ اسے خود کے قریب کر گیا۔
ان دو سالوں میں کافی کچھ بدل گیا تھا۔
کبیر شاہ اور اسکی فیملی کو معاف کر دیا گیا تھا۔
ان کا آنا جانا تھا اب بڑی حویلی میں ۔
ابرار آٶٹ آف کنٹری چلا گیا تھا۔
فاریہ کی اپنے ہی جاننے والوں میں دردانہ شاہ نے بات پکی کر دی تھی۔
پوری حویلی میں اس دن خوشی کی لہر دوڑ گٸ۔ جب نور العین کے جڑواں بچے ہوٸے۔
دلاور شاہ نے پوتے کا نام عفان رکھا ۔ تو فراز شاہ نے نواسی کا نام اُم ہانی .
آج ان دونں کی پہلی سالگرہ بھی تھی۔
اورساتھ میں دعاکی رخصتی بھی۔
جو کہ بہت دھوم دھام سے کی جا رہی تھی۔
التاج بینکوٸیٹ میں۔۔۔
پلیز جاٸیں ناں۔۔۔ دیر ہو رہی ہے۔۔۔ ہمیں تیار بھی ہونا ہے۔۔۔
اچھھھاااا۔۔۔۔ یعنی۔۔۔ ہمار بات سے متفق ہیں۔۔۔۔ آپ۔۔۔!!
فارس نے اپنی بات جاری رکھی۔
عین نے اب کی بار گھور کے دیکھا۔
ایک تو ہم سے یہ تھان پہنا نہیں جارہا ۔۔۔ اوپر سے آپ آگٸے تنگ کرنے۔۔۔۔!!
منہ بنایا۔
اتین خوبصورت بلیک کلر کی ساڑھی کو تھان کہتی وہ فارس کو صحیح معنوں میں بچی لگی۔
یہ۔۔۔تھان لگ رہا ہے۔۔۔ تمہیں۔۔۔؟؟
دانت پیستے ہوٸے پوچھا۔
اتنی اچھی اچھی میکسی ہیں فراک ہیں۔۔ اور بھی بہت سارے۔۔۔ ڈریسز ہیں۔۔ لیکن۔۔ آپ کو ۔۔۔ آج ہمیں یہ تھان۔۔۔۔۔ آٸی مین۔۔۔ گھوری کا اثر تھا۔ کہ لفظ کو پلٹا۔
اس ساڑھی میں ہی دیکھنا ہے۔۔۔
اتنے میں درازے پے ناک ہوٸی۔
فاریہ اندر داخل ہوٸی۔
کہیں۔۔۔ میں نے۔۔۔ ڈسٹرب تو نہیں کر دیا۔۔۔؟؟ وہ شرمندہ ہوٸی۔
نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔ آٶ۔۔۔ ہماری ہیلپ کرو۔۔۔ بہت اچھے ٹاٸم پے آٸی۔
فارس کو چھیڑنے والے انداز میں وہ فاریہ سے مخاطب ہوٸی۔
ہمممممم۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔!! تو۔۔۔ پھر۔۔۔ پلاننگ کرتےہیں۔۔۔ !!
جاتےجاتے فارس بھی پھر سے اسے چھیڑ گیا۔
تو وہ اسکی بات پے بلش ہوتی تیار ہونے لگی۔
التاج بینکوٸیٹ اس وقت روشنیوں کی آماہ جگ بنا ہوا تھا۔
دعا اور زیان اسٹیج پے بیٹھے چاند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔
دو سال پہلے جو زیان نے اسے ڈانٹا اسکے بعد کتنی مشکل سے منایا اس نے دعا کو وہی جانتا تھا۔ اسکے بعد سے اس نے دعا کو نہ کبھ ڈانٹا نہ غصہ کیا۔
یہی تو راضی ہونے کی شرط رکھی تھی۔۔ دعا نے۔
دادا اور نانا کے ہاتھوں میں عفان اور اُم ہانی کی ایک سال کا ہونے پے اسٹیج پے ہی کیک کٹنگ سرمنی تھی۔
دونوں ہی اپنے بڑوں کے لاڈلے تھے۔
تالیوں کی بھرپور آواز میں کیک کٹ کیا گیا۔ ساری فیملی اسٹیج پے براجمان تھی۔
التاج بینکوٸیٹ کے اونر تاج سکندر بھی اپنی پوتی کشش کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔
ان کے مرحوم دوست اکبر شاہ کے بچے آج خوشی کر رہے تھے۔ تو وہ بھی ان کی اس خوشی میں شامل ہونے کراچی سے اسلام آباد آٸے تھے۔
دلاور شاہ کی فیملی کی بھی یہ پہلی خوشی تھی جو بڑی حویلی سے باہر بینکوٸیٹ میں ہو رہی تھی۔
ارے۔۔۔۔۔۔ بچوں۔۔۔ اتنا منہ کیوں بنایا ہے۔۔۔؟؟
کشش بچوں کو ایک طرف کھڑا دیکھ ان کے پاس آگٸ۔
ہاٸے۔۔۔۔ یہ۔۔منا ۔۔۔رو کیوں رہا ہے۔؟
ایک بہت ہی گول مول بچے کو گود میں بٹھایا۔
بوتل۔۔۔نہیں۔۔ملی۔۔۔ ناں۔۔ اسے۔۔۔۔ اسلیے رو رہا ہے۔۔۔۔۔!!
ساتھ میں کھڑے تھوڑے سے بڑے بچے نے ہنستے ہوٸے کہا۔
اوہ۔۔۔۔ رونا نہیں۔۔۔ میری جان۔۔۔ ابھی بوتل۔۔۔ منگواتی ہوں۔۔۔!!
بلکہ۔۔۔۔ ایک کے لے نہیں۔۔۔ سب کے لیے۔۔۔ منگواتی ہوں۔۔۔!!
کشش کی آواز پے سبھی نے یاہو کا نعرہ لگایا۔
ایک ویٹر کو اشارے سے بلایا۔
دیکھو۔۔۔!! ان سب معصوم بچوں کو بوتل پینی ہے۔۔!!
اور مجھے۔۔۔ ان کے چہرے پے مسکان دیکھنی ہے۔۔۔ تو فٹ سے۔۔۔ بوتلز کے کریٹ لا کے رکھو یہاں۔۔۔ !!
جتنی چاہیں۔۔ یہ بوتلز پیٸیں۔۔۔ ختم نہیں ہونی چاہیٸیں۔۔۔۔۔
آرڈر دیتی وہ کوٸی راج کماری ہی لگی۔
جیییییییییی!!
ویٹر اس آرڈر پے حیران ہوا۔
لیکن۔۔۔ میڈم۔۔۔۔۔۔!! یہ۔۔۔۔!!
اوفو۔۔۔ دیکھو۔۔۔ والدین ناں۔۔ بچوں کو یہ بوتل۔پینے نہیں دیتے۔۔ اور بچہ پارٹی یہ سوچ کے۔۔ شادیوں بیاہوں اور فنکشن میں آتے ہیں۔۔ کہ بوتل پینے کو ملےگی۔۔۔
اب اگر۔۔۔۔ان کے ارمان یہاں آکے بھی اھورے رہ جاٸیں۔۔ تو کیا فاٸدہ ہوا ان کے آنے کا۔۔۔۔؟؟
چلو۔۔۔ اب دماغ نہ کھاٶ۔۔ اور۔۔ بوتلز کے کریٹ لے کے آٶ۔ زیادہ سارے۔۔۔۔
اور ہاں۔۔ تھوڑا قریب ہوکےسرگوشی کی۔
بل ۔۔۔ اس بینکوٸیٹ کے مالک یامین سکندر کے کھاتے میں ڈالنا۔۔۔ سمجھے۔۔۔۔۔۔!!
سرگوشی والے انداز میں کہتی وہ اب بچوں کی جانب مڑگٸ تھی۔
اور ویٹر حیران رہ گیا۔
لیکن آرڈر پاس ہوگیا تھا۔
دادا اپنی پوتی کی بھلاکوٸی بات ٹال سکتے تھے۔۔۔؟؟
ان تک بات پہنچی اور اوکے کا ساٸن ملتےہی بوتلز کے ڈھیر لگ گٸے۔
ہر بچے کے ہاتھ میں ایک سےزیادہ بوتلز تھیں۔
ہیلو۔۔۔۔ ویٹر۔۔۔ !!ایک ایک بچہ ڈھونڈ کے کونے کھدروں سے نکال کے۔۔۔ اسے بوتل دو۔۔۔ چلو۔۔ شاباش۔۔ کام پے لگو۔۔۔
آرڈرلگاتی وہ ویٹر کو کام پے لگاتی اسٹیج پے آٸی۔
فیملی پکچر لیتا کیمرہ مین ٹھٹھکا۔
ارے رک کیوں گٸے۔۔۔۔؟؟
دلاور انکل۔۔۔۔!! میں بھی تو حصہ ہوں ناں فیملی کا۔۔۔۔؟؟
آنکھیں چمکاتی وہ سبھی کو بہت بھاٸی تھی۔
دلاور شاہ کے اثبات میں سر ہلانے پے کیمرہ مین نے ایک فیملی فوٹو لی تھی۔
جن میں سبھی کے چہرے اندرونی خوشی سے جگمگا رہے تھے۔
کسی نے صحیح کہا ہے۔۔
انت بھلا سو بھلا۔
لالچ جہاں جانوں کھا جاتا ہے۔۔
وہیں نفرت رشتوں کوکھا جاتی ہے۔
آٸیے عہدکرلیں۔ کبھی بھی اپنے اندر نفرتوں کو۔پلنے نہیں دیں گے۔۔۔
اور سب سے محبت اور خلوص کا رشتہ رکھیں گے۔
اسی میں دنیا میں بھی ہماری کامیابی اور عزت ہے۔ اور آخرت میں بھی۔۔
جزاك اللهُ
ختم شد۔