زیان شاہ۔۔۔۔!!
میں آپ کے ساتھ نہیں جارہی۔۔۔۔
دعا نے زیان کو اپنا آخری فیصلہ سنایا۔
تم۔۔ غلط کر رہی ہو۔۔۔!!
زیان نے لب بھینچے۔
جانتی ہوں۔ لیکن۔۔۔ نہیں جاسکتی۔۔۔!!
دعا نے سر جھکا کےکہا۔
کیوں۔۔؟؟ ماتھے پے تیوری چڑھی۔
وجہ آپ جانتےہیں۔۔۔!! اس وقت۔۔ گھر والوں۔۔ کو ضرورت ہے۔۔ ہماری۔۔ آپ۔۔ بھی ابھی۔۔۔ مت۔۔۔!!!
دعا۔۔۔ !! ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اگر۔۔ ابھی نہ گیا تو جانتی ہو ناں۔۔پیپرز نہیں دینے دیں گے۔ اور تم۔۔ یہ بھی جانتی ہو۔۔ تمہارا جانا بھی ضروری ہے۔ ابھی ابھی نیو ایڈمیشن لیاہے۔۔ اور ابھی سے۔۔ آف۔۔۔!!
زیان کاموڈ بہت خراب تھا۔
یونی سے نوٹس آیا تھا۔ اور اسے اب شہر جانا تھا۔ وہ دعا کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ راضی نہیں ہو رہی تھی۔۔ جانے کے لیے۔
پلیز۔۔۔پھر آپ چلے جاٸیں ۔۔ زیان۔۔۔میرا مشکل ہے۔۔!!
دعا نے بھی افسردگی سےکہا۔
you are impossibe dua…
زیان غصے سے کہتا ہوا وہاں سے جانے لگا کہ دعا نے ہاتھ پکڑ کے روکا۔
زیان نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ پے دیکھا۔ تو گردن موڑی۔
کیا کچھ نہیں تھا اسکی آنکھوں میں۔۔
زیان نے گہرا سانس خارج کیا۔ وہ اسے عزیز بھی تو بہت تھی۔
واپس پلٹ کے اس کے پاس آیا۔اسکی آنکھیں جھل مل برسنےوالی تھیں۔
اب یہ بن بادل برسات کیوں۔۔؟؟ قریب ہوتے بہت پیار سے نرم لہجے میں پوچھا۔
آپپپپ۔۔۔۔۔ کو پتہ ہے۔۔۔!! نظریں اٹھاتی جھکاتی وہ زیان کا دل دھڑکا گٸ۔
اچھا۔۔۔۔ اب رونا نہیں۔۔ میں ۔۔ چلا۔جاتا ہوں۔۔ بٹ پرامس می۔۔ کہ تم جلد ہی مجھے جواٸن کرو گی۔۔۔
زان نے مسکرا کے کہا۔ تو وہ پر سکون ہوتی مسکراٸی۔
آج کتنے دنوں بعد دونوں مسکراٸے تھے۔۔ وہ بھیایک دوسرے کے لیے۔
ورنہ عفان کے جانے کے بعد حویلی سبھی مسکرانا بھول ہی چکے تھے۔
آپی۔۔۔!! آپ کی کلاٸی پے۔۔۔یہ کیا ہوا۔۔؟
وہ جو مرہم لگا رہی تھی۔ دعا کے آنے پے چونکی۔
کچھ نہیں۔۔۔ بس۔۔ گر گٸ تھی۔۔
نظر چراتے ہوٸے کہا۔
اوہ۔۔ ہو۔۔۔!! دیکھ کے چلنا چاہیے تھا۔ناں۔۔۔!
لاٸیں میں لگا دوں۔۔۔دعا نے کہتے ی خود ہی ٹیوب پکڑ کے لگانی شروع کردی۔
عین کے زہن سے ابھی بھی فارس نہیں نکل رہا تھا۔
اور۔نہ ہی اسکی باتیں۔
اپنا خیال۔رکھا کریں ۔۔آپی۔۔۔!! بہت پیار سے کہا۔
ہمممممم!! عین اٹھ کے کھڑکی کے پاس آگٸ۔
چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اور عین کادل بس ایک ہی تال پے دھڑک رہا تھا۔
کتنی دعاٸیں مانگیں تھیں۔۔۔ کہ اس شخص سے کبھی سامنا نہ ہو۔۔۔
وہ جانتی تھی۔ وہ شخص اس سے بچپن سے نفرت کرتا ہے۔۔
اور آج۔۔۔ تو۔۔۔ نجانے کیوں اتنا غصہ۔۔۔ کیا ہم پے۔۔؟؟
ہم۔۔تو ان کے سامنے بھی نہیں آتے۔۔!!
یہ۔۔ بھی ڈیول ہیں۔۔۔ابرارشاہ چھوٹا ڈیول یہ بڑا ڈیول۔۔۔
منہ بنا کے وہ واپس اندر آگٸ۔
جبکہ ٹیرس پے کھڑے فارس نے اسکا بھرپور نظروں سے جاٸزہ لیا۔
اور اس کے واپس اندرجانے پے وہ بھی اندر آگیا۔
کچھ لوگوں کے صرف چہرے معصوم۔ہوتے ہیں اندر سے وہ اتنے ہی کینہ پرور اور گرے ہوٸے ہوتے ہیں۔
اور نور العین فراز شاہ تمہارا مکرو چہرہ تو سب کے سامنے لانا ہی پڑے گا۔۔۔
اور بہت جلدوہ قت آۓ گا۔۔۔
دل ہی دل میں فارس نے پکا ارادہ کیا۔
لیکن ابھی اسے امریکہ جانا تھا۔ اپنا بزنس واٸنڈ اپ کرنا تھا۔ اور پھر ہمیشہ کے لیے واپس آنا تھا۔
الماس بیگم۔نے دل پے پتھر رکھ کےاسے بھیج دیا ۔لیکن اس نے وعدہ کیا کہ وہ واپس لوٹے گا۔
تو۔۔۔ بھابھی نے انکار کردیا۔۔۔؟ کبیر شاہ نے سوچتے ہوۓ دررانہ بیگم سے پوچھا۔
تو اور کیا کہہ رہی ہوں میں ۔۔۔؟؟ اب بتاٸیں۔۔ آگے کیا کرنا ہے۔۔۔؟
مطلب۔۔۔؟؟ ابھی بھی آپ سوچیں گے۔۔۔؟؟
ابرار بنا دستک کے اندر داخل ہوا۔ اور اس نے ساری بات بھی سن لی تھی۔
ابرار۔۔ روم میں آنے سے پہلے۔۔۔۔
کبیر شاہ نے ٹوکنا چاہا۔
بابا جان۔۔۔!! آپ جانتے ہیں۔۔ سب۔۔۔ !!عینی۔۔ میرے لیے کیا ہے۔۔۔۔؟ آپ۔۔ پھر بھی۔۔۔۔؟
ابرار شاہ سے خود پے قابو کرنا مشکل۔ہو رہا تھا۔
وہ صرف اور صرف آپ کی ضد ہے۔ بس ۔۔۔اور کچھ نہیں۔۔۔
غصے سے اٹھے۔
اچھاا۔۔۔۔۔ تو آپ کے لیے کیا ہے۔۔؟؟ یہ سب۔۔؟؟جو آپ کر رہے ہیں۔۔۔؟؟ ابرار نے بھی تیکھے انداز میں پوچھا۔
وہ سب چیزوں پے کمپروماٸز کر سکتا تھا۔ سواۓ نور العین کے۔
تم۔۔۔۔ میرے بیٹے ہو کے۔۔۔ مجھے۔۔ یہ سب کہہ رہے ہو۔۔؟؟ کبیرشاہ غصے سے آگے بڑھے۔
اللہ کی پناہ !! آپ دونوں باپ بیٹا کیوں لڑنے لگے۔۔۔۔
بجاۓ حل نکالنے کے۔۔۔ آپس میں الجھ رہے ہو۔۔۔
میں کرتا ہوں کچھ۔۔۔ لیکن۔۔ اپنے بیٹے کو سمجھا لو۔۔۔ اپنے آپ پے کنٹرول کرے۔۔۔ ورنہ سب کیے کراۓ پے پانی پھیر دے گا۔
غصہ ضبط کرتے وہ بولے اور باہر نکل گٸے۔
امی ۔۔۔ دیکھ رہی ہیں آپ۔۔۔!! وعدہ کیا تھا۔۔ آپ نے۔۔۔ اور بابا نے۔۔۔ !!
ابرار نروٹھے پن سے بولا۔
بیٹا۔۔ آپ کے بابا نے کہا ہے ناں۔۔ تو۔۔ پورا کریں گے وعدہ۔۔۔ بس آپ خود پے قابو رکھو۔
دردانہ بیگم نے سمجھایا۔
تو وہ لب بھینچ کے رہ گیا۔
***************************
کیسے دن گزرے پتہ ہی نہ چلا۔
آج عفان کی دعا ہوٸی تھی اور غریبوں میں کھانا تقسیم کیا گیا تھا۔
تقریباً ایک ماہ سے بھی اوپر ہو گیا تھا۔ عفان کی جداٸی کو۔۔
لیکن یوں لگتا تھا۔۔ کل ہی کی بات ہو۔۔
اس دوران فارس یہاں نہ تھا۔ وہ امریکہ ہی تھا۔ اور جلد ہی لوٹنا تھا اس نے۔ زیان بھی شہر جا چکا تھا۔
دعا نے بھی جواٸن کرنے کا سوچا۔ لیکن فی الحال جا نہ پاٸی۔
****************************
ایسا۔۔۔ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟ آپ نے بھاٸی جان سے بات کرنی تھی۔۔۔ ہم۔۔کیسے۔۔۔ دے دیں۔۔ اپنی پھولوں سی بیٹی۔۔۔ ابرار کو۔۔۔؟؟
جب سے ماریہ شاہ کو پتہ چلا تھا۔ کہ فراز شاہ دلاور شاہ کی خواہش پے عین کا رشتہ ابرار سے کر رہے ہیںس تب سے وہ پیچ و تاب کھا رہی تھیں۔
میں کیا بولوں۔۔۔ !!کبیر بھاٸی نے بڑے بھاٸی سے بات کی۔۔۔ اور نہیں جانتا۔۔ کیاکہہ کے راضی کیا۔۔۔
بڑے بھاٸی نے تو مجھے بس اپنا فیصلہ ہی سنا دیا۔۔
میں انہیں ۔۔ انکار نہیں کر سکتا۔۔ مر کے بھی نہیں۔۔
فراز شاہ مجبور تھے بھاٸی کی محبت میں۔
تو آپ اپنی بیٹی کو قربان کر دیں گے۔۔۔؟؟
ماریہ شاہ کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔
بڑے بھاٸی ۔۔۔۔ ہیں۔۔ ہماری اولاد کا برا نہیں سوچیں گے۔۔۔ آپ۔۔۔ عین بیٹا سے بات کر لیں۔۔ آج شام کو۔۔ سادگی سے نکاح ہوگا۔۔۔
مزید بات کرکے۔۔ انہوں نے ماریہ شاہ کے دل پے چھریاں ہی چلا دیں۔
کیا۔۔۔ ؟ اتنی جلدی۔۔۔؟؟ آخر کیوں۔۔؟؟
دو دن ہوٸے۔۔ عفان کی دعا کو۔۔۔ اور۔۔ نکاح۔۔؟؟
سادگی سے ہوگا جو بھی ہوگا۔۔۔ اور یہ بڑے بھاٸی کی ہی خواہش ہے۔۔۔
فراز شاہ نے فوراً کہا۔ تو وہ تھکے ہوٸے انداز میں بیٹھتی چلی گٸیں۔
کیا کیا نہ سوچا تھا انہوں۔۔نے۔۔ اور کتنے ارمان تھے عین کی شادی کو لے کے۔۔۔ اب یوں۔۔ ابرار کے حوالے بیٹی کرنا۔۔۔ ان کا دل نہیں مان رہا تھا۔
پریشان نہ ہوں ۔۔۔ اللہ بہتر کرے گا۔
فراز شاہ نے ماریہ شاہ کو پریشان دیکھا تو انہیں تسلی دی۔
عین سے کیسے بات کروں۔۔۔؟؟ وہ نہیں مانے گی۔۔۔
زیرِلب کہا۔
کیوں۔۔۔؟؟ ماتھے پے تیوری پڑی۔
ماریہ شاہ نے عجیب نظروں سے انہیں دیکھا۔
آپ کہہ دیں انہیں۔۔ کوٸی بدمزگی نہ ہو۔۔۔۔ بڑے بھاٸی کا حکم سر آنکھوں پے۔۔۔!!
فراز شاہ کہتے اٹھ کے باہر نکلے۔
اور ماریہ شاہ عین کے کمرے کی جانب بڑھیں۔
عین سے بات کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔
بیٹا۔۔۔۔ بس رونا بند کرو۔۔۔۔!! یہ آپ کے بابا کا فیصلہ ہے۔۔۔ !!
کافی دیر سے وہ عین کو سمجھا رہی تھیں۔
دعا تو واک آٶٹ کر گٸ تھی۔
وہ بالکل بھی راضی نہیں تھی۔ چھت پے آکر اس نے زیان کو کال۔ملاٸی۔ اور ساری بات اسکے گوش گزار دی۔ وہ بھی سخت پریشان ہوا۔ اور خان پور آنے کا بول کے فون بند کر دیا۔
اب بس دعا ک زیان کے آنے تک سب سنبھالنا تھا ۔ کچھ بھی کر کے۔
وہ نیچے آٸی تو نکاح کے لیے عین نے رضا مندی دے دی۔ یہ سن کر دعا کو مزید غصہ آیا۔ لیکن خاموش رہی۔ اور میسج پے زیان سےرابطہ رکھا۔
یقین نہیں آرہا۔۔۔ عین میری ہوجاٸے گی۔۔۔۔ سچ۔۔۔ میں بہت زیادہ خوش ہوں۔۔۔
ابرار نے ماں سے کہا۔ تو وہ صدقے واری ہوٸیں۔
امی۔۔۔۔ میں کیا کہتا ہوں۔۔۔ رخصتی بھی آج کروا لیں۔
ارے۔۔۔ بس کر دو بھاٸی۔۔۔ یہ نہ ۔ہ اگلے لڑکی کا نکاح کرنے سے ہی انکار کردیں۔۔۔۔
فاریہ نے ہنسی مذاح میں کہا۔ لیکن ابرار کو سخت غصہ آیا۔
اپنا منہ لے کے یہاں سے دفع ہو جاٶ۔
دانت پیستے کہا۔ فاریہ ڈر کے مارے وہاں سے فوراً بھاگی۔
ابرار۔۔ بیٹا۔۔۔ !! اداس مت ہوں۔۔۔ بہن ہے ایسے ہی مزاق کیا۔ آپ۔۔ تیاری کریں۔۔۔ دلہا بننے کی۔۔۔
دردانہ نے خوشی سے کہا تو ابرار کے چہرے پے مسکان آٸی۔
کیا۔۔۔ ہورہا ہے۔یہ۔۔سب۔۔۔؟؟ یہ مولوی صاحب اندر کیوں گٸے ہیں۔۔؟؟
فارس کی اچانک آمد پے گیٹ پے کھڑے گیٹ کیپر سے پو چھا۔
ارے۔۔۔ فارس بیٹا۔۔۔۔ آپ۔۔۔؟؟ یوں اچانک۔۔۔۔ آٸیں۔۔۔ اندر آٸیں۔۔۔ بڑی بی بی بہت خوش ہوں گیں۔۔۔ آپ کو دیکھ کے۔
جلیل انکل۔۔۔!! آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔۔۔؟؟ فارس نے دوبارہ پوچھا۔
اسے کچھ غلط ہونےکا احساس ہو رہا تھا۔
بیٹا۔۔! آج نور العین بیٹی کا نکاح ہے۔۔۔تو۔۔۔!!
فارس نے پوری بات نہ سنی اور اندر کی جانب بڑھا۔
سامنے ہال میں سبھی اکٹھے ہوٸے تھے۔ کبیر شاہ کی فیملی۔۔ فراز شاہ کی اور فارس کو اپنے بابا اور ماں کو ان سب میں دیکھ زیادہ دکھ ہوا۔
یہ سب کیا ہے۔۔۔؟؟ فارس نے اونچی آواز میں کہا تو سب متوجہ ہوٸے۔
الماس بیگم تو اسے دیکھ جی اٹھیں۔
فوراً پاس آکے اسے پیار کیا۔
میری جان ۔۔۔!/ الماس بیگم فارس کے سینے سے لگیں ۔
فارس نے بھی ماں کو اپنی بانہوں میں لیا۔ وہی تو اسکی سکون کی اسکی جنت تھیں۔
اماں۔۔۔ یہ۔۔ سب۔۔۔ کیا۔۔۔؟؟
الماس شاہ ے ہی پوچھ لیا۔ جبکہ باقی خاموش ہی رہے۔۔۔
عین کا نکاح ہے بیٹا۔۔۔ ابرار سے۔۔۔!!
کس نے کیا یہ فیصلہ۔۔۔؟؟
فارس کا خود پے سے آپا کھونے لگا۔
فارس بیٹا۔۔۔!! آپ کو کوٸی اعتراض ہے۔۔کیا۔۔۔؟؟
دلاور شاہ کی چھٹی حس نے انہیں خبر دار کیا۔
نہیں۔۔۔ نکاح سے کوٸی مٸسلہ نہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔
نور العین کا نکاح۔۔۔ مجھ سے ہوگا۔ فارس شاہ سے۔۔۔۔!
ہال میں فارس کی آواز گونجی ۔ تو سبھی ایک لمحے کو چپ ہوگٸے۔
فارس۔۔۔؟؟ بیٹا۔۔۔؟؟ آپ۔۔۔۔!! فراز شاہ نے فارس کے قریب آتے اس سے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن الفاظ نے ساتھ نہ دیا۔
کیا آپ۔۔۔ مجھ پے بھروسہ نہیں کرتے۔۔۔؟؟ بہت مان سے پوچھا۔
فراز شاہ کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔
انہوں نے عفان اور فارس کے بیچ کبھی فرق نہ کیا تھا۔
فراز شاہ نے فارس کے کندھے پے ہاتھ رکھ اسے اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلایا۔
جہاں الماس بیگم خوش ہوٸیں۔
وہیں کبیر شاہ اور اسکی فیملی آگ بگولہ ہوگٸ۔
ایسا۔۔۔ کیسے۔ ممکن ہے۔۔؟؟ عین۔۔کی بات ابرار سے۔۔ طے ہوگٸ ہے۔۔۔!!
دردانہ بیگم نے تیز لہجے میں کہا۔
فارس نے ایک گھوری سے انہیں نوازا۔
اور اپنے باپ کی طرف قدم بڑھاۓ۔
باباجان۔۔۔۔!! میں نور العین سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آج ابھی۔۔ اسی وقت۔۔۔!!
دھیمے لیکن مضبوط لہجے میں کہتا وہ دلاور شاہ کو عفان سے بہت الگ لگا۔
وہ تو سر جھکا کے فرمانبرداری سے بات کرنے والا بیٹا تھا۔
لیکن فارس۔۔ سر اٹھا کےاپنا فیصلہ خود کرنےوالا بیٹا تھا ان کا۔
انہوں نے ایک جنون دیکھا فارس کی آنکھوں میں۔
وہ جنوں کیسا تھا وہ سمجھ نہ پاٸے۔
لیکن۔۔ انہیں فارس کے فیصلے سے خوشی ہوٸی۔ کیونکہ وہ بھی تویہی چاہتے تھے۔لیکن فارس پےاپنا فیصلہ تھوپنانہیں چاہتےتھے۔ اس لیے خاموش تھے۔
اور کبیر شاہ کی بات ماننے کے علاوہ انکے پاس کوٸی اور راستہ نہ تھا۔
***************************