ڈریم لینڈ’ نائٹ کلب کے ہال میں اس وقت حسن و اداؤں کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ہال کے وسط میں بنے ریمپ پر چلتی ماڈلز اپنے ناظرین کو انٹرٹین کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں۔نامور ڈیزائنر کے لباس میں ملبوس وہ لوگوں سے اپنے حسن کا پورا خراج وصول کر رہی تھیں ۔سب سے آگے کی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھا افہام حیدر قدرے بے چینی سے اپنے پیر کو ہلاتا اپنی نظریں اس جگہ جمائے ہوئے تھا جہاں سے وہ ماڈلز ریمپ واک کرتی آ رہی تھیں ۔اسے نا ہی ان ماڈلز میں دلچسپی تھی اور نا ہی وہ یہاں فیشن شو دیکھنے آیا تھا ۔وہ تو اس وقت انابہ کے کہنے پر اسکے ساتھ آیا تھا جو اسے یہاں بیٹھنے کو کہہ کر بیک اسٹیج چلی گئی تھی ۔اسے معلوم تھا کہ انابہ ماڈلنگ کی شوقین ہے مگر اسنے اسے کبھی ریمپ واک کرتے نہیں دیکھا تھا ۔یکدم اسٹیج کی ساری لائٹیں بجھ گئیں اور دھیمے دھیمے بجنے والا میوزک آہستہ آہستہ تیز ہونے لگا۔ایک عجیب سا طلسم فضا میں قائم ہو رہا تھا ۔لبوں کو بھینچے وہ اسٹیج کی طرف دیکھے گیا۔تیز اسپاٹ لائٹ کی روشنی میں چلتی وہ اسے نظر آ گئی تھی ۔ایک ہاتھ کمر پر رکھے ماڈلز کے درمیان وہ سفید گاؤن میں کوئی غیر مرئی مخلوق لگ رہی تھی ۔لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے وہ ہائی گلاس ہیل سے چلتی آگے آئی۔دوسرے ہاتھ کو فضا میں لہراتے ہوئے اسنے لوگوں کی ستائش کا خیر مقدم کیا ۔وہ آج کی شو اسٹاپر تھی۔اور وہ یقیناً اس پورے ہال میں سب سے حسین لگ رہی تھی ۔افہام یک ٹک بس اس سفید پری کو دیکھے جا رہا تھا ۔اسے یوں لگ رہا تھا کہ پرستان سے کوئی معصوم پری اپنا راستہ بھول کر یہاں آ گئی تھی۔اسنے اپنے اطراف دیکھا۔اسکے علاوہ بھی دوسرے لوگ تھے جو اس پری کو محویت سے دیکھ رہے تھے ۔اسے برا لگا۔ہاں اسے بہت برا لگا تھا۔آخر کیوں نا لگتا وہ انابہ سلمان ہی تو تھی جو افہام حیدر کے بچپن کی محبت تھی، جسکے عشق میں وہ نا جانے کب سے گرفتار تھا۔وہی تو تھی جو ‘یہاں’ رہتی تھی ۔اسنے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا ۔خیر وہ اسے بعد میں سمجھا لیگا کہ وہ ماڈلنگ چھوڑ دے۔اب وہ یونہی دلکشی سے مسکراتی واپس پلٹ رہی تھی ۔
اسی ہال میں سب سے آخر کی نشست پر سیاہ شرٹ اور سیاہ جینز پر بغیر آستین کی جیکٹ پہنے حسن مجتبٰی بھی بیٹھا تھا ۔وہ بھی یہاں فیشن شو دیکھنے نہیں آیا تھا ۔اسے بھی ان ماڈلز میں دلچسپی نہیں تھی۔اسکی دلچسپی کا محور نائٹ کلب کی چوتھی منزل پر ہونے والی میٹنگ تھی جو کچھ دیر بعد شروع ہونے والی تھی ۔مگر وہ انابہ سلمان کو دیکھ کر حیران ہوا۔اسے علم نہیں تھا کہ وہ بھی یہاں موجود ہے ۔اور اسکے ساتھ افہام کو دیکھ کر اسے مزید حیرانی ہوئی ۔پھر انابہ کو ماڈلنگ کرتے دیکھ کر اسکی بھوری آنکھوں میں حیرانی کی جگہ غصہ آیا تھا۔اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں کے کمنٹس اسے ناراض کرنے کے لئے کافی تھے۔وہ اسکے لئے اسی طرح حساس ہو رہا تھا جس طرح اپنے گھر کی کسی عورت کے لئے ہوتا۔پھر اسنے اسے واپس مڑتے دیکھا۔اب وہ بیک اسٹیج غائب ہو چکی تھی ۔ایک نگاہ کلائی میں بندھی گھڑی اور دوسری اس دروازے پر جمائے جس سے کپڑے تبدیل کر کے ماڈلز باہر نکل رہی تھیں وہ بے چینی محسوس کرتا رہا۔آدھا گھنٹہ گزر گیا ۔جب آخری لڑکی بھی باہر آ گئی تو وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔کچھ تھا جو اسے گڑبڑ لگ رہا تھا ۔
پہلی نشست پر بیٹھا افہام بھی انابہ کا انتظار کرتا اسے کال لگانے لگا۔مگر نمبر آف جا رہا تھا ۔پریشانی سے کھڑے ہوتے ہوئے اسنے اپنے اطراف دیکھا۔پھر اسنے کسی کو اسی دروازے کے پیچھے غائب ہوتے دیکھا جدھر سے انابہ کا باہر آنا متوقع تھا۔وہ ایک طویل سانس لیتا بیٹھ گیا ۔اسکا انداز قدرے مطمئن تھا ۔وہ وکی کو اسکی پشت سے بھی پہچان سکتا تھا ۔وہ اب پر سکون تھا۔وہ جانتا تھا کہ اسکا دوست یقیناً انابہ کے پیچھے ہی گیا ہے ۔
چوتھے فلور کے کاریڈور میں پہلے اسنے ساری لائٹ آف کی اور احتیاط سے چلتی اپنے اطراف سے قدرے محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگی۔اسکے جسم پر اب سفید گاؤن کی جگہ سیاہ ٹی شرٹ اور جینز تھی اور پیروں میں اسنیکرز پہن رکھے تھے ۔اپنی ذہانت سے بھر پور آنکھیں اندھیرے کاریڈور پر جمائے وہ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی ۔اور جینز کی جیب سے موبائل نکال کر آن کیا تو افہام کے ڈھیروں کالز موجود تھیں ۔اسکا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔وہ جانتی تھی کہ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے تو فوراً اسکے پیچھے آ جائیگا۔اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دے کر اسنے اسکرین کو ٹچ کیا۔ٹچ کرتے ہی اسی میٹنگ کا شیڈول آ گیا تھا جو ڈی ڈی گروپ کے نمائندے اور وزیر معاشیات کے درمیان ہونے والی تھی۔وہ جانتی تھی کہ حسن مجتبٰی اس پر اعتماد نہیں کرتا۔اسے ایسا لگتا ہے کہ کسی موقع پر انابہ سلمان اپنے انکل کے ساتھ مل جائیگی۔وہ آج اس خفیہ میٹنگ کا راز فاش کر کے اسے یقین دلانا چاہتی تھی کہ اُسکے لئے انابہ کو جس سے بھی لڑنا پڑے وہ لڑیگی، جسکے بھی خلاف کھڑا ہونا پڑے وہ کھڑی ہوگی۔دیوار سے لگے لگے اس نے موبائل واپس جیب میں ڈالا اور اپنے ہاتھ کی مٹھی میں دبے اس طاقتور مائیکرو بگ کو دیکھا۔اس کی فریکوینسی کو وہ دور سے بھی رسیو کر سکتی تھی۔وہ دبے پاؤں چلتی اس کمرے کی طرف بڑھی جہاں متوقع میٹنگ ہونے والی تھی اور جسکے لئے یہ فلور ہی بک کرایا گیا تھا ۔اسے بس کیمرے کی نظر سے بچ کر اس بگ کو پلانٹ کرنا تھا۔وہ بغیر آواز پیدا کئے چلتی آگے بڑھی تھی کہ کسی نے اسے گردن سے دبوچ کر پیچھے کھینچ لیا ۔اسکے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔وہ جو بھی تھا اب اسکی گردن کو اپنے پنجے میں جکڑے اسے دیوار سے لگائے بے بس کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا ۔ایک ہاتھ سے اسکی گردن پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے اسکی دونوں کلائیوں کو پکڑ لیا تھا۔
“کون ہو تم؟” اسنے سرگوشی کرتے ہوئے اسکی گردن پر دباؤ ڈالا ۔انابہ نے اسکے ناخنوں کو اپنی جلد میں دھنستا محسوس کیا ۔وہ اپنا زور صرف کر کے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔
“کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو؟” اسنے دوبارہ پوچھتے ہوئے اسے جھٹکا دیا۔اب انابہ کو سانس لینا بھی مشکل لگنے لگا۔گردن کے گرد کسا شکنجہ بہت سخت تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ ابھی بے ہوش ہو کر گر پڑیگی۔آنکھوں کے سامنے چھائی تاریکی مزید گہری ہونے لگی۔یکدم اسنے اپنی گردن پر اس شخص کی گرفت ڈھیلی ہوتی محسوس کی۔اسنے تاریکی میں ایک سیاہ ہیولے کو ابھرتے دیکھا جو اس پر حملہ کرنے والے شخص کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔اسنے دیوار سے لگے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ زور زور سے سانس لینے کی کوشش کرتے ہوئے دو سیاہ پرچھائیوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے دیکھا۔تھوڑی دیر کے بعد پہلا سایہ زمین پر گر پڑا اور دوسرے سائے نے اسکے قریب آتے ہوئے اسکا ہاتھ نرمی سے تھاما اور ایک طرف لے گیا تھا ۔وہ خاموشی سے اسکے ساتھ چلی آئی ۔
“یہ کیا بیوقوفی تھی انابہ؟” وہ اسکے گملوں کے پاس رکھی بینچ پر بٹھاتا ہوا بولا۔وہ بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا ۔
انابہ نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا اور دائیں ہاتھ سے اسکی بائیں کلائی مضبوطی سے پکڑ لی۔جیسے اسے خوف تھا کہ اگر اس نے اسے لمحے کے لئے بھی چھوڑا تو وہ دوبارہ مشکل میں ہوگی۔
“ریلیکس! میں ہوں یہاں پر ۔” اسنے نرمی سے اسکے سر کو تھپکا تو چپکے سے ایک آنسو انابہ کی آنکھوں سے پھسل پڑا تھا ۔اور حسن مجتبٰی جسے آنسوؤں سے نفرت تھی اسنے ان قطروں کے آگے خود کو بے بس ہوتا محسوس کیا ۔
“تم نے مجھے ڈرا دیا تھا۔اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچتا تو… ” اسنے کہتے ہوئے اسکے دائیں ہاتھ کو سہلایا۔
“آئی ایم سوری!” وہ بے آواز بالکل خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔”میں تو بس آپکی مدد کرنا چاہتی تھی۔میں چاہتی تھی کہ جس طرح آپ افہام پر اعتبار کرتے ہیں اسی طرح مجھ پر بھی اعتبار کریں ۔”وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
” بے وقوف ہو تم!” وہ خفا ہوا۔”اس میٹنگ کے لئے میں نے پہلے ہی انتظام کر لیا تھا۔میری یہاں ایک ویٹر سے جان پہچان ہے ۔میں نے اسے سمجھا دیا ہے ۔وہ اس کمرے میں سرو کرتے وقت بگ پلانٹ کر دیگا۔”اسنے بتایا تو انابہ کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا ۔اسے اپنا آپ واقعی ایک بیوقوف کی طرح لگا تھا۔
“اوکے اب تم اٹھو ۔نیچے پارکنگ میں افہام تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔”اسنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔وہ بھی اٹھ گئی۔
” ایک منٹ انابہ! “وہ لفٹ کی جانب بڑھی تھی کہ حسن نے اسے روکا۔پھر وہ چلتا ہوا اسکے قریب آیا اور گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھ گیا ۔انابہ نے حیرانی سے اپنا سر نیچے کر کے اسے دیکھا۔وہ اپنا سر جھکائے اسکے شو لیس کو باندھ رہا تھا ۔
“اوکے اب جاؤ۔” وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
” اور سنو! حسن مجتبٰی انابہ سلمان پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتا ہے ۔” انابہ نے لفٹ میں داخل ہونے سے پہلے اسکی مدھم سرگوشی سنی تھی۔
جب وہ پارکنگ میں آئی تو افہام اسکی طرف تیزی سے آیا تھا ۔
“انابہ! آر یو اوکے؟” وہ پریشانی سے بولا۔
” میں ٹھیک ہوں ۔” وی کہتی ہوئی کار کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔
” خبردار آئندہ اگر تم نے مجھے یا وکی کو بتائے بغیر کو الٹا سیدھا قدم اٹھانے کا سوچا تو.. معلوم ہے میں کتنا ڈر گیا تھا؟” وہ اسے خفگی سے کہتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
– – – – – – – – – –
نیلی ٹی شرٹ اور سیاہ ٹراؤزر میں ملبوس ٹریڈ مل پر دوڑتا وہ کافی دیر سے ورک آؤٹ کر رہا تھا ۔پسینے سے بھیگے بال پیشانی تک آ گئے تھے ۔اسکی آج کی ایکسرسائز اب اختتام پر تھی۔مشین بند کرتا ہوا وہ اس سے اترا اور مڑا تھا۔سامنے کھڑے وکی کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں استعجاب آمیز خوشی آ گئی۔وہ بھی شاید جاگنگ کر کے ہی واپس آیا تھا ۔
“ہیلو افہام!” اسنے اسکی جانب ایک ہاتھ سے ٹاول اور دوسرے سے پانی کی بوتل بڑھائی۔
“اچھا ہوا تم خود ہی آ گئے ۔میں تمہیں آج ملنے کے لیے کہنے والا تھا ۔” اسنے تولیہ ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنی گردن اور چہرہ صاف کیا اور بوتل کا ڈھکن کھول کر لبوں سے لگا لیا ۔
وہ دونوں اب گلاس وال کے ساتھ لگے آرام دہ صوفے پر بیٹھ گئے تطے۔تیسری منزل پر واقع اس جم کی شیشے کی دیوار کے پار پورا شہر جاگتا نظر آ رہا تھا ۔
” اگر تم نے مجھے بتایا ہوتا کہ تم اس کلب میں جانے والے ہو تو میں انابہ کو لے کر وہاں کبھی نہیں جاتا۔” افہام نے قدرے ناراضگی سے کہا۔
“مگر تم اسے اپنے ساتھ وہاں کیوں لے گئے تھے؟اگر لے بھی گئے تھے تو پہلے اس سے وہاں جانے کا مقصد پوچھ لیتے۔”وہ بھی ناراض ہوا۔
“مجھے شو کے آرگنائزر سے پاس ملا تھا۔یہ بات انابہ کو نا جانے کس طرح معلوم ہو گئی اور اس نے مجھ سے اصرار کر کے اپنا ریمپ واک بھی شامل کرایا۔مجھے لگتا ہے کہ یہ سب اسنے پہلے سے پلان کیا ہوا تھا ۔”
” بہرحال تمہاری کزن کی بیوقوفی نے مجھے مشکل میں ڈال دیا تھا۔” اسنے اپنا سر جھٹکتے ہوئے کہا ۔
” اوہ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ پلان فیل ہو گیا ۔”اسکا لہجہ تیز ہوا۔” ہمارے پاس کتنا اچھا موقع تھا کہ ہم ڈی ڈی گروپ اور این سی پی پارٹی کے درمیان تعلقات کی نوعیت معلوم کر سکیں ۔”
” تھینکس ٹو یور کزن! “اسنے بے نیازی سے کہا ۔
” اسے الزام دینے سے کیا حاصل ہے؟ میں نے تم سے ہمیشہ کہا ہے کہ پلان اے کے ساتھ بی، سی اور ڈی بھی بنایا کرو۔مگر نہیں.. تمہیں تو اپنے پلان اے پر ہی بڑا زعم رہتا ہے ۔”اسے وکی پر بہت غصہ آ رہا تھا ۔
” ریلیکس مائی ڈئیر! “اسنے ہاتھ بڑھا کر اسکا شانہ تھپکتے ہوئے اسکا غصہ کم کرنے کی کوشش کی ۔” تم جانتے ہو نا کہ تمہارے وکی نے کبھی ہار ماننا نہیں سیکھا ہے ۔”یہ کہتے ہوئے اسکی گہری بھوری آنکھیں چمکیں۔
” گڈ! تو اس دفعہ تمہارے پاس پلان بی موجود تھا ۔” اسکا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا۔
” نہیں ۔بس میں نے پلان کو اے کو تھوڑا ایکسٹنڈ کر لیا تھا۔” اسنے شرارت سے کہا تو افہام لب بھینچ کر رہ گیا ۔
” خیر مجھے تمہارے پلانز میں دلچسپی نہیں ہے ۔مجھے بس ریزلٹ بتاؤ۔”
“مگر مجھے تو تمہیں اپنا پورا پلان بتانا ہے ۔اسکے بعد ہی…”
“اوکے بتاؤ۔” اسنے طویل سانس لے کر حسن کی بات کاٹی۔
” اپنا کام نکالنے کے لئے ڈسٹریکشن یا گمراہ کرنا ایک پرانا فارمولا ہے ۔میں نے اسی پر عمل کیا۔انابہ کے جاتے ہی میں نے اپنی مدد کرنے والے ویٹر کے ذریعے پورے کلب میں اس بات کی تشہیر کرا دی کہ چوتھے فلور پر ایک مشتبہ لڑکی اور اسکے ساتھ اسکے معاون کو دیکھا گیا ہے ۔اور مزے کی بات ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں انابہ تھی مگر اسکا چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔اس مشتبہ لڑکی کو چور کی شکل دینے کے لئے مجھے زندگی میں پہلی دفعہ چوری بھی کرنی پڑی۔”اسنے خفیف ہو کر کہا۔
” اچھا! کیا چرایا؟ “افہام کو اس صورتحال سوچ کر ہی مزا آیا۔
” گیلری میں لگی چند قیمتی پینٹنگز اور ایک کیمرہ۔”اسنے ہنوز خفت زدہ انداز میں کہا ۔
” استغفار کرو وکی۔اف کتنے افسوس کی بات ہے کہ دوسروں کی چوریاں پکڑنے والے حسن مجتبٰی کو خود چوری کرنی پڑی۔” اسنے مصنوعی انداز میں افسوس جتایا ۔
“شٹ اپ ! ساری چیزیں آج ہی کلب میں واپس رکھ آیا ہوں ۔خیر اسکے بعد کلب مینیجر نے سیکیورٹی عملے کی اچھی کلاس لی۔اس طرح کسی کو اس بات کا شک نہیں ہوا کہ انابہ چور کے بجائے اسپائی تھی۔یوں وہ میٹنگ اپنے مقررہ وقت سے ایک گھنٹے دیر سے شروع ہوئی مگر شکر ہے کہ ہمارا مقصد پورا ہو گیا ۔”
” اچھا یہ تو بتاؤ کہ کیا چیز سامنے آئی؟ “اسنے بے چینی سے پوچھا ۔
” تمہارے ماموں انرجی ڈرنک میں ایک ایسی چیز ملاتے ہیں جسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔اور این سی پی پارٹی یہ سب جانتے ہوئے بھی انکے خلاف ایکشن نہیں لیتی۔بلکہ انہیں فیکٹری کے لیے کم قیمت پر پلاٹ مہیا کراتی ہے۔اور ان سب کے عوض ڈی ڈی گروپ اس پارٹی کو فنڈ دیتا ہے ۔الیکشن میں اس پارٹی کے اوپر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے ۔کل کی میٹنگ میں آنے والے الیکشن کے لئے اسٹریٹجی طے کی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک بڑی ڈیل بھی قرار پائی ہے ۔”وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا ۔افہام کے چہرے پر بھی سنجیدگی طاری تھی۔
‘اوکے تو اب کیا پلان ہے؟” اسنے پوچھا ۔
“ہمیں سب سے پہلے یہ ثبوت چاہیے کہ ڈرنک میں کون سی ممنوعہ اجزاء ملائی جاتی ہے اور یہ کام تم کروگے۔مجھے یقین ہے کہ کمپنی کے ڈیٹا بیس میں یہ فیڈ ہوگا۔اور پھر میں این سی پی پارٹی کا کوئی حل نکالتا ہوں ۔کیونکہ جب تک کریم یزدانی کی مدد کرنے والے ہاتھوں کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک انکا کچھ نہیں بگڑیگا ۔”
” آل رائٹ! مگر پلان بی کیا ہے؟ ”
” حسن مجتبٰی کے پاس صرف پلان اے ہوتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اے کے فیل ہونے کے چانسز زیرو ہیں ۔”اسنے افہام حیدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔اسکی آنکھوں سے جھلکتی شرارت بے اسے دوبارہ جھنجھلایا ۔
” ٹھیک ہے ۔خدا نخواستہ اگر تمہارا پلان اے فیل ہو جائے تو میرے پاس ضرور آنا کیونکہ افہام حیدر کے پاس پلان نہیں پلانز ہوتے ہیں ۔”وہ جل کر بولا تو حسن نے اختیار ہنس پڑا تھا۔اسکی ہنسی میں افہام کی ہنسی بھی شامل ہو گئی۔
– – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...