اوہو میں تو بھول گئی مجھے کچن کا کچھ سامان لینا ہے ، تم لوگ دس منٹ ویٹ کرو میں ابھی آئی
یار مام جلدی آ جایئے گا میں تو ساتھ آ کر پچھتا رہا ہوں ۔ کب سے ویٹ کر رہا ہوں۔۔ کتنی شاپنگ کرتے ہیں آپ لوگ ۔پارکنگ میں کھڑا حنان جھنجھلایا
جب تمہاری بیوی آئے گی تو تب پوچھیں گے کہ کتنی شاپنگ کرتی ہے
چھوڑیں مام جو حالات چل رہے ہیں یہ تو قدموں میں ہی بیٹھا رہے گا
آف کورس سمائرہ اور ویسے بھی میں اسے ان چھوٹے موٹے مالز شاپنگ تھوڑی نہ کرواں گا سپیشل لوگوں کے لیے سپیشل جگہیں اور سپیشل چیزیں ہوتی ہیں ۔ حنان میشا کو سوچتے ہوئے مسکرایا
وہ تو جب آئے گی تو آئے گی ابھی تم اس کی ساس کا اسی چھوٹے سے مال میں ہی پانچ منٹ صبر سے انتظار کر لو ۔وہ اسے کہتی ہوئیں واپس مڑیں تو سامنے سے آتی میشا کو دیکھ کر چونکیں
یہ تو اپنی میشا ہے۔ زیرلب بڑبڑا کر انہوں نے اسے آواز دی وہ جو اپنے دھیان میں گاڑی کی طرف جا رہی تھی ، جانی پہچانی آواز پر اس نےادھر اُدھر دیکھا تو نوشابہ بیگم کو اپنی طرف آتا دیکھ کر مسکرائی
نوشی خالہ کیسی ہیں آپ۔۔ وہ نوشابہ بیگم سے ملتے ہوئے بولی
میں تو ٹھیک ہوں تم کیسی ہو۔۔۔۔۔۔
ایک دم فٹ آپ سنائیں
یہ مام کس سے مل رہی ہیں سمائرہ بڑبڑائی وہ میشا کی پشت ہونے کی وجہ سے اسے نہیں دیکھ پائی تھی
حانی وہ دیکھ یہ تو تیری ہیر ہے نہ۔۔۔۔ سمائرہ نے موبائل میں مصروف حنان کا بازو پکڑ کر ہلایا تو اس نے دیکھا جہاں میشا نوشابہ بیگم کے کندھے پر بازو لپیٹے کھڑی تھی
ہاں ہے تو وہی مگر یہ مام کے ساتھ کیا کر رہی ہے ، کہیں میری شکائت تو نہیں لگانے پہنچ گئی
رئیلی خالہ یو آر سو کیوٹ ۔ میشا نے ہنستے ہوئے ان کا گال کھینچا
آو میں تمہیں سمائرہ اور حنان سے ملواتی ہوں ۔وہ اسے لیے اپنی گاڑی کی طرف چل دیں
یہ تو یہیں آ رہیں ہیں۔ سمائرہ نے حنان کو دیکھتے ہوئے کہا
چلو آ جاؤ باہر چل کر دیکھتے ہیں
سمی اس سے ملو یہ تم لوگوں کی کزن ہے میشا خالدہ آپا کی بڑی بیٹی اور میشا یہ میری بیٹی سمائرہ اور بیٹا حنان ہے۔انکے تعارف کروانے پر حنان اور سمائرہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔حنان کو نوشابہ بیگم کا بیٹا سن کر حیرانی تو اسے بھی ہوئی تھی
کیا ہو گیا ہے ایسے ہونقوں کی طرح کیوں کھڑے ہو ملو تو سہی ۔
ویسے ہم لوگ پہلے مل چکے ہیں کیوں حنان ۔ میشا اس کے آگے چٹکی بجائی جسکا بے اختیار ناچنے کو دل چاہ رہا تھا
مجھے یقین نہیں آ رہا ،ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ سمائرہ بڑبڑائی
لگتا ہے خالہ میرے کزنز کو کچھ زیادہ ہی شاک لگا ہے ۔
تم چھوڑو انہیں۔۔۔کس کے ساتھ آئی ہو
ڈرائیور کے ساتھ ۔۔۔۔۔
اسے واپس بجھوا دو کیونکہ آج تم میرے ساتھ جا رہی ہو میرے گھر چلو حنان۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولیں
جو حکم ملکہ عالیہ ۔ وہ قدرت کے اس حسین اتفاق پر سرشار سا مسکرایا
آپ بلکل بھی نہیں بدلی ویسے ہی سٹائلش اینڈ فنٹاسٹک ہیں
ارے میرا کیوٹ بچہ بدلی تو تم بھی نہیں ہو ۔ویسے کی ویسے ہی باربی ڈول ہو جیسے آج سے دو سال پہلے تھی
مام آپ کیسے جانتی ہیں ایک دوسرے کو جب کہ ہم نہیں جانتے ۔ان دونوں کو ایک دوسرے میں مگن دیکھ کر سمائرہ نے پوچھا
میں ایک بار کام سے گاوں گئی تھی تو سمیعہ کے ہاں ہی ٹھری تھی وہاں اس نے میری بہت ہیلپ کی تھی تب سے میری موسٹ فیورٹ بیٹی ہے
رہنے دیں خالہ بس کہنے کی باتیں ہیں ایک ماہ ہونے کو ہے مجھے آئے ہوئے شہر آپ نے بھولے سے ایک بھی چکر نہیں لگایا۔
تو یہ تمہاری ماں کی غلطی ہے اسے مجھے بتانا چایئے تھا اب مجھے کیسے پتہ کہ تم آئی ہوئی ہو ۔تمہیں پتہ تو ہے سو کام ہوتے ہیں
بس مجھے نہیں پتہ میں آپ سے ناراض ہوں ، منائیں مجھے ۔ میشا نے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوئے منہ بسورا۔
ایسی ناراضگی پہ بندہ قربان نہ ہو جائے۔ بیک ویو مرر سے اسے دیکھتا حنان بڑبڑایا
مجھے پتہ ہے تمہاری نارضگی بریانی کی ایک پلیٹ کی مار ہے نوشابہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں
ساتھ میں چٹنی بھی ہو جائے تو مزہ ہی آ جائے۔ میشا نے آنکھیں گھمائیں تو وہ مسکرا دیں باتوں باتوں میں وہ لوگ گھر پہنچ گئے
تم لوگ بیٹھو میں کھانا بنواتی ہوں
اور سناؤ تم دونوں کا سکتہ ختم ہوا یا نہیں ۔میشا کاوچ پر بیٹھتے ہوئی بولی
ہاہاہا ۔ سمائرہ خجل ہوئی
حنان سے تو میں مل چکی ہوں مگر تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم بھی پہلے کہیں مل چکے ہیں
اس دن ریسٹورینٹ میں ملے تھے جب تم ویٹر پر برس رہی تھی
اوہ ہ ہ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔
ویسے مجھے آب تو افسوس ہونے لگا ہے گاؤں میں رہنے کا، یار کوئی رشتے دار پہچانتا ہی نہیں ہے سب کو پکڑ پکڑ کر بتانا پڑتا ہے کہ بھئ میں بھی آپکی رشتےدار ہوں
تم لوگ باتیں کرو میں زرا یہ چیزیں سمیٹ کر آتی ہوں۔حنان تم کمپنی دو میشا کو ۔۔ سمائرہ اٹھتے ہوئے معنی خیزی سے بولی
ہاں بھئی تمہارا دل کا مسئلہ ختم ہوا یا نہیں۔ اسکے جانے کے بعد وہ حنان کی طرف متوجہ ہوئی جس کا حال ” وہ مخاطب بھی ہیں ،اور قریب بھی ۔۔۔ ان کو دیکھوں کہ ان سے بات کروں ” سے مختلف نہ تھا
نہیں اور اب تو لگتا ہے کم ہونے کی بجائے بڑھے گا وہ کیا ہے نہ کہ میرا علاج مرض سے زیادہ جان لیوا ہے
میرے پیسے کب لوٹاؤ گے ۔۔۔۔۔۔
لوٹا دوں گا کہیں بھاگا تھوڑی جا رہا ہوں میرا اصول ہے جہاں چیز لو وہیں جا کر دو، تو میں نے ہوسپیٹیل میں پیسے لیے تھے وہیں آ کر دوں گا ۔ویسے بھی کزنز اور دوستوں میں ادھار چلتا رہتا ہے ۔اسکی بے نیازی پر میشا کا منہ کھلا
اوہ ہیلو جب تم نے پیسے لیے تھے تو میں نے کزن سمجھ کر نہیں دیے تھے وہ تو ایک غریب اور بے بس کو کچھ دن کے لیے ادھا ر دیا تھا ۔۔اور یہ ہم میں دوستی کب ہوئی
ہم تین بار پہلے مل چکے ہیں اور اس وقت میرے گھر میں بیٹھی ہو کزن ہو تو دوستی ہوگئی نہ
کمال ہے دوستیاں ایسے بھی ہوتی ہیں یہ نئی بات بتائی ہے تم نے ۔۔۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں ۔سمائرہ واپس آ کر اس کے پاس بیٹھی
یہ تمہارا بھائی زبردستی کی دوستی گانٹھنے کی کوشش کر رہا ہے
اوہ ہ ہ ۔۔۔۔ تو کر لو میرا بھائی بہت اچھا اور ہنڈسم ہے اور سب سے بڑھ کر شریف اور معصوم سا ہے اس کی بات سن کر لونج میں میشا کا فلک شگاف قہقہ گونجا تو حنان اور سمائرہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
سیریسلی سمائرہ معصوم اور شریف ۔۔ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا ۔۔ میشا ہنستے ہنستے رک کر بولی تو حنان سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا
چلو پھر مجھ سے کر لو سمائرہ نے جھٹ ہاتھ آگے کیا
تم سے ہو سکتی ۔میشا نے اس کا ہاتھ تھاما
ناٹ فئیر ۔حنان نے منہ بسورا
ویسے ایک بات کہوں جب میں پہلی بار تم سے ملی تھی تو مجھے تم روڈ اور غصے کی تیز لگی تھی مگر آج ملنے کے بعد کافی شرارتی ٹائپ کی لگ رہی ہو
ہاہاہاہاہا یہ بات سونیا ،صائم اور موحد سے پوچھنا بیچارے ناک تک بھرے پڑے ہیں
اتنا تنگ کیا ہے انہیں تم نے ۔حنان نے مسکراتے ہوئے پوچھا
کچھ ایسا ہی سمجھ لو ۔۔یہ تو جب ان سے ملو گے تو پوچھنا ۔کافی دیر تک وہ لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ملازمہ نے آ کر کھانا لگنے کی اطلاع دی تو سب مل کر کھانا کھانے لگے
ویسے خالہ آپکا بیٹا تو ماشاءاللہ سے بڑا ہی ہمدرد اور درد دل رکھنے والا بندہ ہے۔ کھانا کھاتی میشا نے حنان کو شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا
اچھا وہ کیسے۔۔۔۔ انہوں نے دلچسپی سے پوچھا
کچھ دن پہلے بلڈ ڈونیشن کے لیے آیا تھا ۔۔ اسکے یوں سب کے سامنے بولنے پر حنان نے آنکھیں پھاڑیں
واقعی حنان ۔ نوشابہ بیگم نے حنان کی طرف دیکھا
ہاں کہہ رہا تھا ہردو ماہ بلڈ ڈونیٹ کرتا ہے۔سچی میں تو ایمپریس ہوگئی ۔۔انسان کو ایسا ہی ہونا چایئے ۔میشا نے پانی کا گلاس منہ لگاتے ہوئے لاپرواہی سے کہا
برخوردار تم نے کب سے ڈونیشن دینے شروع کر دیے ہیں جہاں تک میں جانتا ہوں تمہارا بچپن کا انجیکشن فوبیا اب تک قائم ہے ۔حسن صاحب حنان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے میشا کا فون بجا تو معذرت کرتی اٹھ گئی
یار بابا سمجھا کریں نہ مجنوں نے اپنی لیلی کے لیے صحرا کی خاک چھان لی تھی میں نے تو پھر بھی بلڈ دیا ہے
اوہ تو یہ چکر ہے ۔ ویسے ایک بات بتاؤ یہ بلڈ دینے سے کیا لڑکیاں مان جاتی ہیں اگر ایسی بات ہے تو میں چار بوتلیں دینے کو تیار ہوں
حد ہے بھئی کچھ تو خیال کر لیں اولاد جوان ہو گئی ہے۔نوشابہ بیگم جھنجھلائی
خالہ آپ بھی کمال کرتی ہیں جوان اولاد ہوئی ہے اور آپ خیال کرنے کا باپ کو کہہ رہی ہیں ۔میشا ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بولی
ہاہاہاہا بلکل ٹھیک کہا ۔ حسن صاحب نے قہقہ لگایا
ٹھیک ہے خالہ میں چلتی ہوں پھر آؤں گی
کیسے جاؤ گی
راحم یا ڈرائیور کو کال کر لیتی ہوں
حنان ڈراپ کر دیتا ہے جاؤ حنان میشا کو چھوڑ ۔۔۔۔۔۔۔ بات ابھی نوشابہ بیگم کے منہ میں ہی تھی کہ حنان جھٹ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔
ہاں آؤ میں چھوڑ دیتا ہوں ۔وہ تو اپنے بیٹے کی پھرتیاں دیکھ کر ہی حیران تھیں جسے ایک کام کے لیے سو سو بار کہنا پڑتا تھا کیسے سیکنڈوں میں اٹھ گیا
مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے ۔حنان نے مسکراتے ہوئے کہا
کس بات کا ۔ کھڑکی سے باہر جھانکتی میشا نے اسے دیکھا
یہی کہ ہم کزنز ہیں
اس میں یقین نہ آنے والی کیا بات ہے
تم نہیں سمجھو گی
تو تم سمجھا دو ۔۔
ابھی نہیں۔۔۔۔۔ وقت آنے پر سمجھاؤں گا۔
میں کل تمہارے ہوسپیٹل آؤں گا ۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولا
کیوں۔۔ میشا نے ابرو اچکائے
تمہارے پیسے دینے ہیں نہ
تو ابھی دے دو
نہیں نہ ملنے کا کوئی بہانہ مل جائے گا۔ بے ساختہ اس کے منہ سے پھسلا
کیا مطلب ۔۔۔۔۔
نہیں کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔ حنان نے خود کو سرزنش کی
چھوڑنے نہیں والی میں یاد رکھنا۔میشا نے انگلی اٹھا کر کہا
اب اپنی بات پر قائم رہنا ۔۔۔۔۔۔
کونسی بات۔۔ میشا نے ناسمجھی سے پوچھا
یہی، نہ چھوڑنے والی ۔حنان ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولا
بڑے ہی کوئی چھچھورے انسان ہو
بس کبھی غرور نہیں کیا ۔ ڈھٹائی تو حنان پر ختم تھی
اچھا سپیڈ تو بڑھاؤ ،ایسا لگ رہا ہے گاڑی کے بجائے گدھا گاڑی پر بیٹھے ہیں ۔ پانچ منٹ کا سفر تھا بیس منٹ ہوگئے ہیں ہمیں نکلے ہوئے میشا نے کہا تو اس
نے سپیڈ بڑھائی
اندر نہیں آؤ گے۔ حنان اسے اتار کر وہیں سے جانے لگا تو میشا نے پوچھا
تم کہو گی تو ضرور آؤں گا
لو بھلا پہلے میرے بلانے پر ہی تو آتے ہو نہ جیسے
اچھا کہو حنان اندر آ جاؤ
بڑے ہی کوئی ڈرامے باز ہو ۔حنان پلیز اندر آجاؤ میشا اسے گھورتے ہوئے بولی تو وہ ہنستا ہوا باہر نکلا
ارے واہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔لاونج میں بیٹھی عیشا حنان کو دیکھ کر بولی
حنان بیٹا تم ۔۔کیسے ہو آج کیسے راستہ بھول گئے۔ خالدہ بیگم نے لاونج میں آتے ہوئے کہا
کہاں ماما یہ تو باہر سے ہی جا رہا تھا بڑی مشکل سے کھینچ کھانچ کرلائی ہوں ۔ میشا نے آنکھیں پٹپٹائیں
یہ صرف شکل سے ہی انوسینٹ دکھتی ہے۔ حنان مسکراتا ہوا زیرلب بڑبڑایا
اب آئے ہو بیٹھو چائے پیئے بغیر نہیں جانے دوں گی
اب تو قیامت تک بھی بیٹھنے کا کہیں گی تو بیٹھا رہوں گا ۔اس نے بے اختیار سوچا
کیوں نہیں خالہ ضرور ۔۔۔۔۔ میشا چینج کر کہ آئی تو حنان سونیا کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا عیشا اٹھ کر جا چکی تھی اچانک اس کے زہن میں کوئی خیال آیا تو وہ دو دو سیڑھیاں پھلانگتی نیچے اترنے لگی
حنان زینی کو تم کیسے جانتے ہو ۔اپنے زہن میں کلبلاتا سوال بلا آخر سونیا نے پوچھ ہی لیا کہ کہاں حنان جیسا ویل ایجوکیٹیڈ ویل اسٹیبلشڈ اور نک چڑا سا بندہ زینی کے ساتھ گھوم رہا ہے
ایک بار ہوسپیٹل میں چیک اپ کروایا تھا میشا سے تب سے جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آج مام کے تھرو پتہ چلا کہ کزنز ہیں ہم
ایک نرس سے چیک اپ ۔۔۔۔۔ سونیا حیرت سے بولی
نرس سے نہیں میں نے میشا سے کروایا تھا
ہاں تو اسی کی ہی بات کر رہی ہوں نرس ہے نہ وہ
نہیں سونیا ۔۔۔۔
حنان اٹھو یہاں سے ۔۔ میشا نے جلدی سے اس کی بات کاٹی
کیا ہوا میشا۔۔۔
تم چائے پینے کے لیے بیٹھے تھے نہ اب پی لی ہے تو اپنے گھر جاؤ ۔میشا اس کے سر پر کھڑی ہو کر سختی سے بولی
زینی تمیز سے یہ کون سا طریقہ ہے گھر آئے مہمان سے بات کرنے کا
تم چپ رہو سونیا یہ ہمارا مسئلہ ہے
کیا بات ہے میشا ایسے کیوں کر رہی ہو اگر کوئی بات بری لگی ہو تو سوری یار۔ حنان حیران تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ ٹھیک ٹھاک تھی
تم ایسے نہیں اٹھو گے ۔میشا نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کھینچتے ہوئے باہر لے گئی لان میں لے جا کر اسے چھوڑا
کیا کر رہے تھے پاگل ہو گئے ہو کیا وہ نہیں جانتی میں ڈاکٹر ہوں اس کے لیے میں ایک جاہل پینڈو لڑکی ہوں اور تم میرے کیے کرائے پر پانی پھیرنے لگے تھے ۔میشا نے اسے آنکھیں دکھائیں تو اسے فضہ کی بات یاد آئی
اوپس سوری ۔ اس نے کان پکڑا
ٹھیک ہے اب جاؤ
کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں بھی جانا ہے اندر جانا ہے تو جاؤ اپنے گھر جانا ہے تب بھی جاؤ۔ مگر اس بات کا خیال رکھنا سمجھے
تم بتاؤ نہ کہاں جاؤں۔وہ اس کی طرف تھوڑا سا جھکا
یہ میرے پیر میں جتی دیکھ رہا ہے ،مجھے ایک اکھ بھی چنگی نہیں لگتی اس لیے اگر یہ تیرے اوپر ٹوٹ بھی گئی نہ تو مجھے آنے کا بھی افسوس نہیں ہوگا ۔۔میشا نے صائم کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ٹون بدلی
یہ تم کس طرح سے بات کر رہی ہو حنان سے
جس سے کر رہی ہوں جب اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہے تو توُ ماما لگتا ہے ۔ اس نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے تڑاخ سے جواب دیا تو حنان نے چہرہ جھکا کر اپنی مسکراہٹ چھپائی
تم سے بات کرنا ہی فضول ہے۔۔ سٹوپڈ لڑکی۔۔ صائم حنان کے سامنے اپنی عزت افزائی پر سلگا
ہاں تو میں نے بھی تیرے کو ِچھٹی نہیں ڈالی کہ آ کہ مجھ سے بات کر۔اس نے ناک سکوڑی تو حنان کی نظر اسکےنوزپن پر پڑی جو اسکی ستواں ناک میں پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا صائم کو پاس کھڑا دیکھ کر اس نے جلدی سے نظروں کا زاویہ بدلہ
کوئی بات نہیں برو۔ مجھے برا نہیں لگا اٹس اوکے میشا تم جاؤ۔۔ حنان سنجیدہ ہوا تو میشا اندر کی طرف چلی گئی
ٹھیک ہے میں بھی چلتا ہوں پھر ملیں گے ۔۔صائم سے ہاتھ ملا کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا
اسلام و علیکم ماما
وعلیکم اسلام بیٹا ناشتہ لاوں
نہیں ماما مجھے بھوک نہیں ہے بس چائے دے دیں ۔وہ صوفے پر بیگ پھینکتی آنکھیں موندے ٹیک لگا گئی
یہ لو تمہاری چائے .خالدہ بیگم نے چائے ٹیبل پر رکھی
میشا چائے پی لو ۔اس کو اٹھتا نہ پا کر انہوں نے دوبارہ آواز دی
لگتا ہے سو گئی ہے .رفعت بیگم نے کہا
بیٹا اٹھو روم میں جا کر سو ۔خالدہ بیگم نے اٹھایا تو وہ آنکھیں ملتی اٹھ کر لاونج سے نکلی وہ نیند میں ہونے کی وجہ سے سامنے بنے پلر کو نہ دیکھ سکی اور سیدھا اس جا ٹکرائی ۔اندر آتے موحد نے بےساختہ قہقہ لگایا
کیا بات کزن پہلے انسانوں کو ٹکریں مارتی تھی اب دیواروں کو بھی مارنی شروع کر دی ہیں۔۔ویسے مزہ نہیں آیا زرا زور سے مارو نہ تاکہ ہماری بھی جان چھوٹے ۔ نیند میں ہونے کی وجہ سے میشا نے اسے صرف گھورنے پر ہی اکتفا کیا
کمال ہے کوئی جواب دیے بغیر ہی چلی گی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس لیے کہ آپی ابھی نائٹ ڈیوٹی سے آئی ہیں اس لیے نیند میں ٹن ہے عیشا ہنستے ہوئے بولی۔ کچھ دیر بعد حنان اور سمائرہ بھی آگئے ۔وہ سب مل کر لان میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے
آج کافی دن بعد سب یوں اکھٹے ہوئے ہیں۔ولید نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا
ہاں یہ حنان اور سمائرہ تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ بعد آئے ہیں
موحد بھائی افق نہیں آئی ۔عیشا نے پوچھا
وہ سیلون کے کام سے آؤٹ آف سٹی ہے
تم بتاؤ حنان کیسا چل رہا تمہارا آفس ولید نے پوچھا
اچھا جا رہا ہے اس نے بے دلی سے جواب دیا وہ جب سے آیا تھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا
یہ میشا نظر نہیں آ رہی ہوسپیٹل گئی ہے کیا ۔۔اس کی بےتابی کو سمجھتے ہوئے سمائرہ نے عیشا سے پوچھا
آپی کی ناٹ ڈیوٹی تھی اس لیے وہ سو رہی ہیں
اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔
شکر ہے سو گئی ورنہ اس آفت نے کہاں اتنے سکون سے بیٹھنے دینا تھا۔ موحد نے منہ بنایا تو لان قہقوں سے گونج اٹھا
ویسے موحد کافی دن ہو گئے ہیں تمہارا گانا سنے ہوئے آج سب اکھٹے بھی ہیں تو کچھ سنا دو
رہنے دیں صائم بھائی آپی سو رہی ہیں اگر ان کی نیند ڈسٹرب ہوئی نہ تو کچا چبا جائیں گی
چھوڑ راحم، اسے اگر نہ بھی ڈسٹرب کیا جائے تو بھی وہ کھانے کو آتی ۔ صائم نے سر جھٹکا
تم لوگ خواہ مخوا تنگ ہو ۔ اتنی کیوٹ اور سویٹ سی تو ہے۔ سمائرہ کو ایک کے بعدایک کو یوں اس کے بارے میں بولتا دیکھ کر حیرانی ہوئی
واٹ ۔۔۔کیوٹ اور سویٹ تمہیں وہ کہاں سے کیوٹ سویٹ سی لگتی ہے اسکی زبان دیکھی ہے کم سے کم دو گز کی ہے ال مینرڈ جاہل۔ سونیا کو مانو تلوں پر لگی تھی
سونیا کسی کو جانے بغیر یوں جج نہیں کرتے۔۔ سمائرہ نے ناگواری سے کہا
راحم جاؤ میرے روم میں گٹار پڑا ہے لے آؤ۔ ولید نے ماحول کا تناؤ دیکھتے ہوئے ٹاپک بدلا
اسے ابھی سوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ باتوں کے شور سے اسکی آنکھ کھل گئی ۔کوفت زدہ ہوتے ہوئے اس نے تکیہ اٹھا کر منہ پر رکھا قہقوں کی آواز پر اس نے دوسرا تکیہ اٹھا کر بھی رکھا اس سے پہلے وہ گہری نیند میں جاتی رہی سہی کسر گٹار اور گانے نے پوری کر دی ۔ اس کے کمرے کی کھڑکی جو کہ لان میں کھلتی تھی کھلی ہونے کی وجہ سے صاف آوازیں سنائییں دے رہی تھیں کچھ دیر تک تو گٹار بند ہونے کا انتظار کرتی رہی ۔ایکدم اس نے تکیے سائیڈ پر پھینکے، پاؤں میں جوتا اڑستی ٹیرس کا دروازہ کھول کر باہر آئی تو موحد کو گانا گاتا دیکھ کر اس کا دماغ گھوما ۔نیچے جانے کی زحمت کیے بغیر دیوار کے قریب ہو کر کاٹ کھانے والے لہجے میں بولی
مصبیت کیا ہے ۔۔۔۔۔یہ تُو سویرے سویرے گلا اور منہ پھاڑ کر کس کی جان کو رو رہا ہے۔۔۔۔۔.نیند حرام کر کہ رکھ دی ہے۔۔۔۔۔۔۔
تم میرے گانے کو رونا کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ موحد شاک کی سی کیفت میں تھا ۔ اسکی آواز اور گٹار کو ہمیشہ ہر جگہ پسند کیا جاتا ، فیملی میں جب بھی کوئی گیدرنگ ہوتی یا پھر ینگ پارٹی اکھٹی ہوتی تو اس کے گانے کی خصوصی فرمائش ہوتی ۔
گانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تُو گانا گا رہا ہے، میرے کو تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی قوال آرا میشن میں پھنس گیا ہو۔۔ اسکے انوکھے تبصرے پر اسکے ہاتھ سے بے اختیار گٹار چھوٹا ۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا جو منہ پر ہاتھ رکھے جمائیاں لے رہی تھی
تت ۔۔۔۔ تم۔۔ وہ مارے صدمے کے بات بھی پوری نہ کر سکا ۔
میرے کو بڑی نیند آئی ہوئی ہے ،بند کر اپنا یہ مراث پنا ۔۔۔۔ اب اگر تیرے اس رونے پیٹنے کی آواز آئی نہ تو میں نے آکہ گٹار کی تاروں کی جگہ تیرے کو فٹ کر کر دینا ہے لان میں سب سے پہلا قہقہ حنان کا گونجا ۔سمائرہ نے بھی اپنی ہنسی روکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔باقی سب تو واقف تھے مگر ان دونوں کے لیے نئی بات تھی
کون ۔۔۔۔ابھی یہاں کون کہہ رہا تھا کہ کیوٹ اور سویٹ سی ہے ۔۔۔موحد نے اپنے بال دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں جکڑے
سمائرہ ہی کہہ رہی تھی ۔۔سونیا نے نخوت سے کہا
منع کیا تو تھا آپکو مگر آپ نے میری سنی ۔۔عیشا نے اسے گھورا
میں ہر بار پختہ ارادہ کرتا ہوں کہ دوبارہ نہیں آؤں گا میرا ہی دماغ خراب ہوتا ہے جو پھر منہ اُٹھا کر آ جاتا ہوں
ولید تم سمجھا لو اسے کسی دن میں نے اس کا گلہ دبا دینا ہے
تم لوگ نہ چھیڑا کرو اسے ۔ولید نے مسکراہٹ دبائی
اوہ بھائی اس بھڑ کے چھتے کو کوئی نہیں چھیڑتا۔ وہ آلریڈی کھسکی ہوئی ہے
کچھ زیادہ ہو رہا ہے موحد بھائی آپ ہمارے سامنے ہماری بہن کو برا بھلا کہہ رہے ہیں
دھیان سے سنو راحم میں اسے برا بھلا نہیں صرف برا کہہ رہا ہوں
اچھا بس کرو چلو آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔۔ ولید نے انہیں ٹوکا
میں میشا کے بغیر نہیں جاؤ گی۔۔ سمائرہ نے جھٹ سے منع کیا
اور ہم بھی ۔عیشا اور راحم نے بھی تائید کی
ٹھیک ہے جس نے نہیں جانا نہ جائے ہم چلتے ہیں سونیا یوں میشا کے لیے سب کو رکتا دیکھ کر جل کر رہ گئی
تم لوگ جاؤ مجھے بھی زرا ایک کام ہے میں ایک گھنٹے تک آ جاؤں گا ۔حنان بھلا کسیے اس کے بغیر جا سکتا تھا
نہیں جانا تو سیدھا سیدھا ہی کہہ دو تم لوگ ۔۔۔۔ خومخواہ کے بہانے بازی کر رہے ہو ان سب کو ایک ایک کر کہ کھسکتا دیکھ کر سونیا پیر پٹختی اٹھ گی۔ ان سب نے لنچ اور ڈنر بھی وہیں کیا ۔میشا صبح کی سوئی تو مغرب کے وقت اٹھی مگر مجال تھی جو حنان تھوڑی دیر کے لیے بھی ادھر اُدھر ہوا ہو اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اس کے آس پاس تھی
کیسی ہو. ان سب کو میچ میں مصروف دیکھ کر وہ اس کے پاس آ بیٹھا
ٹھیک ہوں تم سناؤ کیا چل رہا ہے
کچھ نہیں بس وہی آفس روٹین۔۔۔۔۔۔۔
تم یہ نائٹ ڈیوٹی مت کیا کرو ۔ دیکھو تو کیسے آنکھیں سوجھی پڑی ہیں اور حلقے بھی بن گئے ہیں۔ اس کے آنکھوں کے گرد پڑے حلقے دیکھ کر وہ کہے بغیر نہ رہ سکا
ہوسپیٹل میرے باپ کا تو نہیں ہے جیسی سب کی روٹین ہے میری بھی ویسی ہی ہو گی نہ
تو تم چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاگل ہو گئے ہو میری پریکٹس چل رہی ہے کیسے چھوڑ دوں
سمی یہ سب سے میرا تعارف ہو گیا ہے یا ابھی کوئی رہتا ہے
نہیں ابھی ہماری ایک کزن رہتی ہے افق، موحد کی سسٹر وہ آؤٹ آف سٹی ہے
اوہ ۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ گھر پر نہیں ہے آجاتی ہے تو چلیں گے ملنے
ڈنر کے بعد سب اپنے اپنے گھر جانے کی تیاریوں میں تھے کہ میشا ہوسپیٹل کے لیے تیار ہو کر آئی
راحم مجھے ہسپتال چھوڑ دو گے
آپی اس وقت ۔۔۔ اس نے ٹائم دیکھا جہاں رات کے نو بج رہے تھے
نائٹ ڈیوٹی ہے ۔ جلدی کرو میں پہلے ہی لیٹ ہو چکی ہوں
چلو آو میں چھوڑ دیتا ہوں ۔۔ ولید اٹھتے ہوئے بولا
ہے برو مجھے تمہاری گاڑی کی چایئے صائم نے اس کے ہاتھ سے ہنڈا سیوک کی چابی پکڑی اسکو یوں ولید سے چابی لیتا دیکھ کر جہاں راحم اور عیشا نے اسے ناگواری سے دیکھا وہیں زینی کو بھی تپ چڑھی
تیرے کو نظر نہیں آ رہا ہے ہم لوگ جا رہے ہیں تو پھر یوں چابی لینے کی کیا تک بنتی ہے
کم آن زینی میں دوستوں کے ساتھ پارٹی پہ جا رہا ہوں تم لوگ کسی اور گاڑی میں چلے جاؤ
نہ تیری شکل زیادہ سوہنی ہے جو تو اس گاڑی کے علاوہ کسی اور میں نہیں جا سکتا گیراج میں دو گاڑیاں اور بھی کھڑی ہیں ،جانا ہے تو وہ لے جا۔ زینی نے اسکے ہاتھ سے چابی چھینی اور رنگ انگلی میں ڈال کر گھمانے لگی
پوری شیرنی ہے۔ حنان سوچتے ہوئے مسکرایا
ہاؤ ڈئیر یو سٹوپڈ گرل۔ صائم کو آگ ہی تو لگی تھی
کیا ہو رہا ہے یہ ۔ فاروق صاحب اندر آتے ہوئے بولے
چاچو اب میری یہ اوقات رہ گئی ہے کہ آپ کی بیٹی مجھ سے گاڑی کی چابیاں چھین لے ۔
بات کو بڑھا کر نہ بتا میں نے صرف یہ کہا ہے کہ تو کسی اور گاڑی میں چلا جا میں بھائی کے ساتھ جا رہی ہوں اتنی سی بات پر بھڑکنے کی کیا لوڑ ہے
تو تم لوگ ہوسپیٹیل ہی جا رہے ہو نہ تو کوئی اور لے جاؤ مجھے دوستوں کے ساتھ باہر جانا ہے
وہ ٹھیک کہہ رہا ہے زینی تم چابی اسے دے دو
میں نہیں دے رہی ۔ یہ کوئی اور لے جائے
میشا ضد مت کرو
اسکی اپنی بھی تو ہے ، وہ لے جائے
میں کہہ رہا ہوں نہ دو اسے۔۔
ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس بہت ہوا دو اسے چابی ۔ میں کرتا ہوں ہارون سے بات یہ تمیز سکھائی ہے اس نے تمہیں ۔۔۔۔۔ فاروق صاحب سختی سے بولے تو زینی نے چابی سامنے دیوار پر لگے زیبائشی آیئنے پر پھینکی جس سے شیشہ چکنا چور ہو کر نیچے گرا
آپ ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی اولاد سے زیادہ آپکو پرائی اولاد پیاری رہی ہے
مجھے جانا ہی نہیں ہے ۔ غصے سے اس نے اپنا موبائل بھی زمین پر دے مارا ۔اس کے اتنے سخت ریئکشن پر سبھی ہقا بقا ہوئے
آپکو کبھی ہماری پرواہ نہیں ہوتی ۔۔ہم سے زرا برابر بھی پیار نہیں کرتے ۔۔اپنا پرس وہیں پھینک کر وہ آنسو صاف کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ سیڑھیوں پر جا کر وہ رکی پلٹ کر انکے سامنے آئی
آئی ہیٹ یو ڈیڈ ۔۔۔ آئی ہیٹ یو۔آنسوؤں سے تر آنکھیں لیے وہ ان کے سامنے کھڑی بول رہی تھی ایک لمحے کو وہ سن ہوئے ۔ ون سیٹر صوفے کو ٹھوکر مار کر گرایا۔راستے میں کھڑے راحم کو پوری قوت سے دھکا دے کر وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی ۔
زینی بیٹا رکو بات سنو خالدہ بیگم اسے آوازیں دیتی اسکے پیچھے گئی ۔ولید نیچے بیٹھ کر موبائل اور اسکا بیگ اٹھانے لگا
اتنا غصہ۔۔۔حنان جھرجھری لے کر سیدھا ہوا
یہ مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ مجھے کس غلطی کی سزا ملی ہے ۔راحم کمر پر ہاتھ رکھ کر کراہتا ہوا اٹھا
سب کو رلانے والی روتی بھی ہے، سٹرینج ۔۔۔۔موحد بڑبڑایا
ڈیڈ آپکو اس سے سختی سے بات نہیں کرنی چایئے تھی جانتے ہیں نہ کتنی ضدی ہے ، لازمی تو نہیں تھا کہ یہ اسی گاڑی پر جاتا ۔ ولید نے پاس کھڑے صائم کو گھورا
سوری صائم بیٹا ، تم جاؤ اپنا خیال رکھنا ۔ پیچھے سے آتی فاروق صاحب کی آواز پر ولید نے نفی میں سر ہلایا
بیٹا دروازہ کھولو۔ خالدہ بیگم مسلسل دستک دے رہی تھی
کیا ہوا مام ۔۔
دروازہ نہیں کھول رہی ہے ۔کب سے آوازیں دے رہی ہوں
زینی دروازہ کھولو نہ
مجھے نہیں بات کرنی کسی سے ۔آپ جائیں یہاں سے ۔۔ اندر سے اسکی روتی ہوئی آواز سن کر خالدہ بیگم نے ولید کو دیکھا
جاؤ عیشا ایکسٹرا کیز لے کر آؤ۔وہ سب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو زمین پر بیٹھی رو رہی تھی
زینی میری بیٹی کیوں رو رہی ہو ۔خالدہ بیگم اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولیں ،مگر اس نے اپنا رونے کا شغل جاری رکھا
آپی یار کیا ہو گیا ہے ڈیڈ ایسے ہی کرتے ہیں ۔آپ دل پر کیوں لیتی ہیں ۔ عیشا اسکے پاس بیٹھی راحم البتہ اب کی بار تھوڑا سائڈ پر ہو کر کھڑا تھا
اچھا تم رو مت میں تمہیں ایسی ہی نئی گاڑی لے دوں گا ۔زینی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور عیشا کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو ایک جھٹکے سے کھینچا
نہیں چایئے آپ لوگوں کا کوئی احسان۔ آپ یہاں سے جائیں ۔۔کہتی ہوئی وہ نمبر ملانے لگی
ہمارا کیا قصور ہے میشا ہمیں تو خود ڈیڈ سے یہی شکوہ رہا ہے۔ ولید بے بسی سے بولا
ہیلو بابا ۔۔۔۔۔۔ اسکی روتی آواز سن کر دوسری طرف گاوں میں بیٹھے ہارون صاحب بے چینی سے اٹھ کھڑے ہوئے
زینی میرا بچہ کیا بات ہے رو کیوں رہی ہو
بابا۔۔۔مم مجھے آپ کے پا س آنا ہے ۔۔۔۔۔ آئی مس یو بابا
ٹھیک ہے بچے آجاؤ مگر تم رونا تو بند کرو ۔۔ اس میں رونے والی کیا بات ہے
کیا ہوا زینی تُو ٹھیک ہے نہ ۔ سمعیہ بیگم نے ان کے ہاتھ سے فون لے کر کان سے لگایا
ماں مجھے آپ لوگوں سے ملنا ہے ۔۔ آپ آ جائیں نہ۔ اس نے ہتھیلی سے گال رگڑے
ٹھیک ہے ہم آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ابھی آئیں اور اور مجھے گاڑی بھی چاہیے آپ بابا کو کہیں میرے لیے گاڑی لے کر آئیں ۔ وہ کسی ضدی بچے کی مانند رو رہی تھی ۔حنان اسے مزید اس طرح نہیں دیکھ سکا اس لیے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا
ہاں ہاں پتر گاڑی بھی آ جائے گی تو رونا تو بند کر ۔ تو جانتی ہے نہ تیری ماں تجھ روتا نہیں دیکھ سکتی
اوکے سوری میں نہیں رو رہی ، لیں خاموش ہو گی ۔اس نے جلدی سے آنسو پونچھے۔
اب دوبارہ نہ رونا صبح تک ہم بھی آ جائیں گے اور گاڑی بھی۔
بھابھی کدھر ہے ۔۔۔۔
میرے پاس ہی ہیں ۔۔۔
میری بات کروا ان سے ۔۔زینی نے فون خالدہ بیگم کو پکڑایا
ہوا کیا ہے بھابھی یہ کیوں اتنا رو رہی ہے ۔ سمعیہ بیگم کے پوچھنے پر خالدہ بیگم نے انہیں بتانے لگیں
پلیز بھابھی آپ اسکا خیال رکھیے گا ۔ بھائی صاحب سے تو ہم آ کہ بات کرتے ہیں ۔ اگلی صبح وہ لوگ ابھی ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے کہ ہارون صاحب اور سمعیہ بیگم پہنچ گئے
بابا آپ لو گ آ گئے ۔۔ وہ بھاگ کر ان کے گلے لگی
میری بیٹی نے بلوایا تھا تو کیسے نہ آتے ۔۔۔
کیسی ہے۔۔ میرے کو تو رات نیند بھی نہیں کہ تو کتنی زور زور سے رو رہی تھی۔
سمعیہ بیگم نے اس کا سر چومتے ہوئے گلے لگایا
یہاں آ میرے پاس بیٹھ ۔ وہ اسے لے کر وہیں ہال میں رکھے صوفے پر بیٹھ گئی
اب بتا کیا بات ہے کیوں رو رہی تھی
ماں ڈیڈ نے نہ میرے کو اتنی زور سے جھڑکا تھا رات کو اور بولے کہ میں بدتمیز ہوں ۔سمعیہ بیگم کے سینے سے لگی وہ منہ بسورتے ہوئے بولی
حد کرتے ہیں بھائی صاحب آپ بھی اگر بچی نے ضد کر ہی لی تھی تو جانے دیتے ۔ویسے بھی صائم بچہ تو تھا نہیں جو ضد لگا کر بیٹھ گیا۔ پتا نہیں آپکو سب بچوں میں برابری کرنا کب آئے گی
بھابھی صائم بھی ضد کر رہا تھا تو میں نے اسے ڈانٹ دیا۔۔ فاروق صاحب سےکوئی بات نہ بن پائی
بچی کو ڈانٹ سکتے ہیں مگر آپ نے صائم کو سمجھانا گواراہ نہیں کیا سمعیہ بیگم نے سر جھٹکا
بھابھی میں نے آپ سے کہا تھا کہ میری بچی کا خیال رکھیے گا ۔یہ خیال رکھا ہے۔۔۔۔ ہم نے کبھی اسکی آنکھیں نم تک نہیں ہونے دیں اور آپ لوگوں نے اسے کتنی شدت سے رلایا دیا ۔
معذرت چاہتا ہوں بھابھی آئندہ ایسا نہیں ہو گا ۔ سمیعہ بیگم کی سنجیدگی دیکھتے ہوئےفاروق صاحب نے کہا۔ کہیں نہ کہیں انہیں بھی اپنے سخت لہجے کا افسوس تھا
آئندہ تو تب ہو گا نہ جب ہم اسے یہاں چھوڑیں گے میں اسے آپا کے گھر چھوڑ کر جاوں گی ، اب سے یہ بھی فضہ کے ساتھ وہیں رہے گی
نہیں سمعیہ اسکی ضرورت نہیں ہے غلطی ہو گی دوبارہ نہیں ہوگا ۔خالدہ بیگم جلدی سے بولی مبادا وہ واقعی ہی نہ اسے لے جائیں
میرے لیے میشا اور فضہ میں کبھی بھی کوئی فرق نہیں رہا دونوں ہی کی تکلیف میری بے چینی کا سبب بنتی ہے آپ لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے یہ رات ہم نے کیسے کاٹی ہے ۔میں امید کروں گا کہ دوبارہ ایسا کچھ نہ ہو اگر آپ لوگ نہیں رکھ سکتے تو بتا دیں میں کوئی اور بندوبست کر لیتا ہوں مگر دوبارہ میری بیٹی کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے چاہیں
جی بھائی صاحب۔۔۔۔ خالدہ بیگم نے کہا
اورزینی بیٹا تم مجھے اس گاڑی کا نام بتاو جس کی وجہ سےاتنا ہنگامہ ہوا ہے شام تک وہ بھی آ جائے گی
بابا میرا موبائل بھی ٹوٹ گیا ہے ۔۔۔۔
کوئی نہیں میرا بچہ موبائل بھی آ جائے گا ۔۔۔
فضو کے لیے بھی ۔۔۔۔ اسکا بھی پرانا ہو گیا ہے
ہاں ہاں فضو کے لیے بھی لے آئیں گے
کیا لانا ہے بھئی میرے لیے۔ فضہ لاونج میں داخل ہوتے ہوئے بولی
اس چڑیل کو کس نے بتایا کہ آپ لوگ آ رہے ہیں۔ صبح صبح ہی ٹپک پڑی ہے
اوہ ہیلو یہ میرے ماما بابا ہیں جن پر تم نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے ۔فضہ نے ہارون صاحب سے ملتے ہوئے اسے چڑایا
بلکل بھی نہیں یہ میرے ماں بابا ہیں بس غلطی سے غلط ایڈریس پر چلے گئے تھے۔کیوں بابا
ہاں بھئی ہم صرف اپنے بچے کے ماں بابا ہیں۔۔ ہارون صاحب نے اس پچکارا
ٹسوے بہا کر ہمدردیاں بٹورتی ہو ڈرامے باز عورت
ہا ہاہا تم بھی بہا لیا کرو
سمعیہ فضہ بیٹا آجاؤ ناشتہ کر لو بھائی صاحب آپ بھی آ جائیں خالدہ بیگم ناشتے کے لیے بلانے آئیں تو سب اٹھ کر ناشتہ کرنے لگے ۔شام تک وہ اسے گاڑی اور موبائل دلا کر اور دونوں کو شاپنگ کروا کر واپس گاؤں چلے گئے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...