خوبصورت لب و لہجے اور پھول جیسا نرم و نازک دل رکھنے والے قومی الجشہ بانکے شاعر ڈاکٹر ذوالفقار سیال کی تیرہویں کتاب قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ ڈاکٹر سیال کے بارے میں کیا کہوں۔ دنیا میں کبھی کبھار گھومتے پھرتے آپ کا ٹکرائو، کسی ایسی نادر اور انوکھی شخصیت سے ہوجاتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے آپ کے لئے، اہم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ آپ کبھی ملیں نہ ملیں، بات کریں نہ کریں۔ آپ ان کی دوستی، شفقت اور خلوص کے بارے میں پراعتمار رہتے ہیں۔ پھر جب ملتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویاکبھی بچھڑے ہی نہیں تھے۔ چہرے پر خوبصورت مسکان سجائے، دل میں محبتوں کا دریا سمیٹے وہ دوستوں سے اتنی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں کہ فاصلوں کااحساس جاتا رہتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی،اردو سندھی میں موجود ادب کا خزنیہ، تانیشی لہجہ، شاعر کی نثر، مضامین پڑھیں تو لگتا ہے محبت ہی محبت کے مقابل اور درپیش ہے۔ اس کے علاوہ سب بے معنی ہے۔ وہ شیریں لب و لہجہ میں دھرتی کے دکھ اور سکھ گنواتے ہیں تو بات دل میں اتر جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں رقصِ درویشاں ساوجد محسوس ہوتا ہے، تو کومل جذبوں کا رچاؤ بھی ممکن توانائی کے ساتھ سانس لیتاہے۔ ان کی شاعری دل کی دہلیز ٹاپ کر اندرآجاتی ہے اور ہمیں زندگی کے رویوں کا پتہ دیتی ہے۔ دعا گوہوں کہ ڈاکٹرذوالفقار والہانہ انداز میں یونہی اپنا اظہار کرتے رہیں اور اپنے کلام کے ذریعے اپنے ہونے کا جواز پیش کرکے ہمیں سرشار کرتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...