ہمارے ادب کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں ادیبوں کی زندگی میں ان پر نہ ہونے کے برابر کام ہوتاہے اور موت کے ساتھ ہی ان کی خوبیوںکی تلاش اور شمار کاعمل شروع ہو جاتاہے۔ چند خوش قسمت ادیب ایسے ضرور ہیں جن کی زندگی میں ہی انہیں خراجِ تحسین پیش کیا گیا، تاہم ان چند میں سے بھی بیشترکو جو تحسین فراواں نصیب ہوئی اس میں تخلیقی کارنامے کم اور سیاسی وفاداری کے کمالات زیادہ مد نظر رکھے گئے۔
ڈاکٹر انور سدید مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا ایسی عہد آفریں ادبی شخصیت کی زندگی میں ہی ان کے بارے میں ایک پر مغز کتاب لکھ دی اور مشفق خواجہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ادب کے ایک غیرجانبدار اور سنجیدہ قاری کی حیثیت سے اس کتاب کی اشاعت کا انتظام کرکے تخلیقی صداقتوں کا کسی سیاسی پس منظر اور مصلحت کے بغیر احترام کیا اور اس سچائی کو ادب کے دوسرے قارئین کے سامنے پیش کیا۔
ڈاکٹر انور سدید کی وزیر آغا سے عقیدت اور محبت کا تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن یہ ساری عقیدت اور محبت بھی تخلیقی سچائی کی روشنی سے پھوٹی ہے۔کتاب کے دیباچہ میں ڈاکٹر انور سدیدنے وزیر آغا سے اپنی محبت اور عقیدت کا جواز ان لفظوںمیں فراہم کیا ہے:
”وزیر آغا نے میرے دل میں ادب کی بجھی ہوئی قندیل کو دوبارہ روشن کیا۔ نیز ادب کو حصول مقاصد کاوسیلہ بنانے کے بجائے مجھے اس کے لئے خون دل جلانے کاذوق و شوق عطا کیا۔ انہوں نے مجھے اس کوہ کنی کا عادی بنایا جس کا حاصل نہ ’شیریں‘ ہے اور نہ ’جوئے شیر‘ بلکہ جس کا ثمر نکتہ آفرینی کی وہ لذت حیات آفریں ہے جس سے روح سبکسار ہو جاتی ہے اور بدن کا تمام زنگ اتر جاتاہے۔“
انور سدید نے وزیر آغا سے ادب کی جو روشنی حاصل کی اس کا نتیجہ ہے کہ وزیر آغا سے تمام تر موانست کے باوجود انہوںنے کہیں بھی بلا دلیل بات نہیں کی۔ ان کی اس خوبی کامشفق خواجہ نے ان لفظوں میں اعتراف کیا ہے:
”بلا شبہ یہ کتاب ایک عقیدت مند نے لکھی ہے لیکن انور سدید نے صرف عقیدت ہی کو معیار نہیں بنایا۔ انہوں نے دلائل کے ساتھ اور ایک صاحبِ نظر مبصرکی حیثیت سے وزیر آغا کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا ہے اور تفصیل سے بتایا ہے کہ انہوں نے ہمارے ادب کو کیاکچھ دیا۔“
سات فصلوں پر مشتمل یہ ضخیم کتاب براہِ راست وزیر آغاکی شخصیت کو نہیں ابھارتی بلکہ ان کی تخلیقات کا اس انداز سے مطالعہ پیش کرتی ہے کہ تخلیقات کے بطون سے تخلیق کار کی ہفت رنگ دلآویزشخصیت خود بخود ابھر آتی ہے۔ سچی تخلیق کا کمال یہی ہوتاہے کہ اس کاتخلیق کار اس میں خود سانس لے رہاہوتاہے۔ اس کے برعکس محض نظر یہ بردار ادیب جو نظریات کے جبر سے ہانپتے کانپتے تخلیق کا ڈھول پیٹتے ہیں، ان کی تخلیقات میں ان کی ذات کاسایہ تک نظر نہیں آتا۔
ڈاکٹر انور سدید جدید نظم کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”جدید نظم نے معنی کا معنی تلاش کرنے کے لئے بالعموم لفظ کو منزل قرار نہیں دیا بلکہ اسے محض وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لفظ کا معنوی دائرہ محدود رہنے کے بجائے وسیع ہوگیا اور تجربے کو الفاظ میں متحجر کرنے کے بجائے اس کوفطری سیال کیفیت میں پیش کرنا ممکن ہوگیا۔“
اس کے بعد انور سدیدنے ڈاکٹر وزیر آغا کی متعدد نظموں کے حوالے دے کر ان میںتجربے کو اس کی فطری سیال کیفیت میں دکھایا ہے۔ساری کتاب ایسی دلیلوں سے بھری پڑی ہے۔ وزیر آغا کی شاعری کے مختلف امیجز ہوا، شام، رات، صبح، دھوپ، سورج، روشنی، شہر، ماں، جنگل، شجر، دھرتی اور برکھا وغیرہ کو انور سدید نے ان کی پوری معنویتوں کے ساتھ واضح کیا ہے۔
وزیر آغا کی تنقید کے ضمن میں انور سدید نے ان کے نظامِ تنقیدکو یوں بیان کیاہے:
”ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں تنقید کا جو نظام مرتب ہوتا ہے، اس نے کسی ایک سرچشمۂ علم سے استفادہ نہیںکیا بلکہ یہ سب علوم کو روشنی کے ماخذ تصور کرتاہے اور انہیں یکساں آزادی کے ساتھ مزید روشنی پھیلانے کے لئے استعمال کرتاہے۔“
ان کے تنقیدی نتائج کے بارے میں لکھتے ہیں:
”وہ نتیجے کو زورِ بازو سے ثابت کرنے کی بجائے اس کی کرنوں کو ہر چہار جانب بکھیرتے چلے جاتے ہیں اور ان کرنوں سے ہی قاری کو مرکزی نقطے کی طرف پیش قدمی کاراستہ دکھاتے ہیں۔“
انور سدید نے وزیر آغا کی جملہ تنقیدی کتب کا بالتفصیل جائزہ لیاہے، ’اردو شاعری کامزاج‘ جیسی تہلکہ خیزکتاب کی اہمیت واضح کی ہے۔ ’نظم جدیدکی کروٹیں‘،’تنقید اور احتساب‘، ’تنقید اور مجلسی تنقید‘،’ تصوراتِ عشق و خرد‘ وغیرہ کتب سے لے کر ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’اردو ادب میں طنز و مزاح‘ تک تمام کتب کا جائزہ پیش کیا ہے۔
وزیر آغا پر عائد کئے جانے والے دھرتی پوجا کے الزام کو متعدد مقامات پر مضبوط دلائل سے رد کیاہے، لیکن اس الزام کی تردید اور وزیر آغا کے موقف کی وضاحت اور صداقت میں یہ دلیل پہلی بار سامنے آئی ہے کہ وزیر آغا کی اپنی دھرتی سبز رنگ کی ہے۔ اس سبز رنگت میں کسی سرکاری نظریہ برداری کے طور پر نہیں بلکہ ان کی اپنی ایمانیات کا حصہ ہوتے ہوئے ان کی پاکستانیت نمایاں ہے۔ ’آدمی صدی کے بعد‘ کے مطالعہ میں انور سدید نے ارضِ پاک سے وزیر آغا کی گہری محبت کو یوں تلاش کیا ہے:
”وزیر آغا کی اس نظم میں سبز رنگ جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے۔ سبز رنگ دھرتی کی تخلیقی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ یہ آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو طراوت بہم پہنچاتا ہے۔دھرتی کے حوالے سے یہ ارضِ پاکستان اور اس کے پرچم کی علامت ہے۔ وزیر آغانے اس رنگ کو بار بار اپنے اوپر نچھاور کرکے ارضِ وطن سے گہری وابستگی کا ثبوت دیا ہے۔“
ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’تخلیقی عمل‘ اپنی جگہ اہمیت کی حامل کتاب ہے، لیکن انور سدید کے مطالعہ نے اس کے بعض مخفی گوشے اجاگر کرکے اس کی زبردست اہمیت واضح کردی ہے۔’تخلیقی عمل‘ 1970 میں شائع ہوئی تھی اور وزیر آغا نے اس میں جست کی کارکردگی پر تخلیقی عمل کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹرانورسدید حیرت انگیز انکشاف کرتے ہیں کہ وزیر آغا نے ادب کے راستے جست کی کارکردگی پر تخلیقی عمل کا جو نتیجہ نکالاتھا، مغرب میں پرگوجائن نے ٹھیک آٹھ برس بعد طبعیات کے راستے یہی نتیجہ اخذ کیا۔ پھر 1980 میں ایلون ٹافلر نے اپنی کتاب ’ تیسری لہر‘ “The Third Wave” میں گوجائن کے انکشافات سے اپنا تھیس ثابت کرنے کی جو کوشش کی اس کابنیادی خیال بھی وزیر آغا کی کتاب ’تخلیقی عمل‘میں موجود ہے۔ انور سدید نے باقاعدہ اقتباسات اور حوالوں سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے۔ اس انکشاف سے میرا سرفخر سے بلند ہوگیا ہے۔
وہ مغرب جو جدید علوم کی سطح پر اپنی سوچ کے مقابلے میںمشرق کی سوچ کو چنداں اہمیت نہیں دیتا۔ ہمارے ملک کا ایک دانشور اس میدان میں ان سے پہلے سوچتا ہے۔ جن خطوط پر اس نے 1970 میں سوچا تھا مغرب دس سال بعد اس سوچ تک پہنچا ہے۔ یہ مشرق کی علمی سرخروئی کا ایک اور ثبوت ہے۔ ایسا ہی ایک ثبوت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عظیم سپوت ڈاکٹرعبد السلام چند برس پہلے دے چکے ہیں۔
وزیر آغا کے ہاں ادبی سطح پر ذہنی کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ ’وزیر آغا کی تکنیک‘ کے تحت انور سدید نے وزیر آغا کا یہ حوالہ درج کیا ہے:
”پچھلے دنوں ایک نجی محفل میں اردو کے ایک بزرگ نقاد نے کسی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے لئے اس کتاب کو پسندکرنا ناممکن ہے، اس لئے کہ یہ تو میرے عقائدہی کے خلاف ہے اورمیںسوچنے لگا کہ ادب کی پرکھ کے سلسلے میں اگر عقیدے کوکسوٹی مقررکیا جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟“
وزیر آغا کا یہ سوال ادب میںایک بھیانک صورت حال کی طرف اشارہ کر رہا ہے لیکن آپ اس سوال کو سیاست اور کاروبار زندگی کے دوسرے شعبوںپر بھی چسپاںکرکے دیکھ لیں جہاں ایسی ذہنیت ہوگی وہیںبھیانک منظر ہوں گے۔
فن اورنظریات کے حوالے سے ڈاکٹرانور سدید نے وزیر آغا سے انٹرویو میں ایک سوال کیا تو ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے موقف کو یوں واضح کیا:
”میں فن کو کسی نظریاتی یا اخلاقی مقصد کے لئے شعوری طور پر استعمال کرنے کے نظریوں کو تخلیقِ فن کے سلسلے میں مضر قرار دیتا ہوں۔ البتہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اگرکوئی نظریہ چاہے وہ اخلاقی نشاة ثانیہ سے متعلق ہو یا نظریاتی یوٹوپیاسے، فنکار کی ذات کا حصہ بن جائے تو لامحالہ فن کار کی تخلیق میںشامل ہو جائے گا اور میرے نزدیک اس کی شمولیت کی یہی ادا مستحسن ہے ورنہ اگر شعوری طور پر مقصدکو فنی تخلیق میں سمونے کی کوشش ہوگی تو مخمل میں ٹاٹ کا پیوند صاف دکھائی دینے لگے گا۔“
وزیر آغا نے اپنے اس موقف کی روشنی’اوراق‘ کے اولین شمارے سے ہی عام کرنا شروع کردی تھی، ان کے موقف کا جادو یہ ہے کہ عطاءالحق قاسمی جیسے کالم نگار جو وزیر آغا کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وہ بھی ’معاصر‘ نکالتے ہیں تو اس کے اولین اداریے میں اسی شد و مد سے وزیر آغا کے موقف کو اپنا موقف بنا کر پیش کرتے ہیں جس شدو مد سے وزیر آغا کی مخالفت کرتے ہیں۔
اردوانشائیہ اور وزیر آغا لازم و ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انور سدید نے وزیر آغا کے مطالعہ میں اس حیثیت کو مضبوط دلائل کے ساتھ اجاگرکیا ہے۔ ’فصل ہفتم‘ میں وزیر آغا کے انشائیہ ’چیخنا‘ کا اختتام ان لفظوں کے ساتھ ہوتا ہے:
”میں جب اس چیخ کو سنتا ہوں تو مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور نجانے کیوں مجھے اپنا بچپن یاد آجاتا ہے۔ یقینا ریل کی اس چیخ کا میرے بچپن سے کوئی گہرا تعلق ہے، لیکن کیسا تعلق، یہ بات میں نہیں جانتا۔“
ریل کی چیخ کو اپنے بچپن کے کسی انجانے تعلق سے مربوط کرنے کے باوجود وزیر آغا شعوری طور پر اس تعلق کی وضاحت نہیں کر سکتے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ غیر شعوری طور پر ان سے اس تعلق کی نوعیت بھی ظاہر ہوگئی ہے۔ انور سدید نے فصل ہفتم میں وزیر آغا کی نظم ’ٹرمینس‘ بھی شامل کی ہے۔ اس نظم کا مرکزی دھاگہ ان کا وہ بچپن ہے جب وہ اپنے بابا کے ساتھ چھنی کھچی اسٹیشن کو دیکھنے جاتے ہیں۔ فرط شوق سے لبریز اس بچپن میں یہ منظر بھی آتا ہے:
’چھنی کھچی کی بو سونگھ کر کالے انجن نے
فرطِ مسرت سے
اک چیخ ماری تھی
——
پھر اچانک مجھے میرے بابا نے
پینک سے بیدارہو کر کہا
لو سفر کٹ گیا
اب اٹھو
گاڑی رکنے کو ہے اپنی چیزیں سنبھالو
زمیں پر اترکر، اسے دیکھ کر
اپنی حسرت نکالو‘
ریل کی یہی وہ چیخ ہے جس کا پس منظر انشائیہ ’چیخنا‘ میں اپنی موجودگی کا احساس تو دلاتا ہے لیکن سامنے نہیں آتا، نظم ’ٹرمینس‘ میں کھل کر سامنے آگیا۔ انورسدید صاحب اس طرف توجہ کرنا بھول گئے۔ بھولنے کی بات آہی گئی ہے تو انور سدید کی ایک اوربھول کا بھی تذکرہ ہو جائے۔وزیر آغا کے ہاں ماں کی علامت مختلف معنویتوں کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔ انور سدید نے اس علامت کے حوالے سے وزیر آغا کی تمام متعلقہ نظموں کو سمیٹ لیا ہے لیکن ’جزیرے ‘ جیسی اہم نظم کو بالکل بھول گئے جب کہ اس میں دھرتی کے حوالے سے ماں کا امیج ایک بالکل نئے اورانوکھے انداز میں سامنے آیاہے۔ یہ کرۂ ارض پر خشکی اور پانی کا جو تناسب ہے، وہی انسانی جسم میں مائع اور ٹھوس کا تناسب ہے۔ پانی ماں ہے اور خشکی ایسا جزیرہ جو ماں کے بطن سے پیدا ہوتاہے۔ یوں اس کرہ ارض اور انسان میں ایک عجیب مماثلت سامنے آتی ہے۔
انور سدید نے ڈاکٹر جمیل جالبی کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ ایلیٹ اور حالی کی تنقید اور شاعری الگ الگ شخصیتوں میں بٹی ہوئی ہے اور پھر وضاحت کی ہے کہ:
”ایلیٹ اور حالی کے ہاں تو شاعر اور نقاد ایک ہی وجود کا حصہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے نظر آتے ہیں لیکن وزیر آغا کے ہاں انہیں مقام اتصال مل جاتا ہے۔“
یہاں بھی انور سدید نے ایلیٹ اور حالی کے اسماءپر اکتفا کر لیا ہے وگر نہ اردو میں ایسے اور بھی بہت سے نام مل جاتے ہیں۔کلیم الدین احمد نے اپنی تنقید میں اردوشاعری سے اتنے کڑے مطالبے کئے کہ اچھے اچھے شعرا پریشان ہوگئے، لیکن جب انہوں نے خود شاعری فرمائی تو وہ تیسرے درجے کے معیار پر بھی پوری نہیں اتری، سلیم احمد نے اپنی تنقید میں جو اخلاقیات پیش کی ہے ان کی شاعری کا معیاری حصہ اس سے پاک ہے اور جس حصے پر انہوں نے اخلاقیات کا پھندہ فٹ کیا ہے وہاں شاعری پروپیگنڈہ کی سطح پر اتر آئی ہے۔ میرا خیال ہے ان دو نقاد شعرا کا تذکرہ بھی کتاب میں آسکتا تھا۔ ان کے اپنے تنقیدی فیصلوں کی روشنی میں ان کی شاعری کو باآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور کمی جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ اردو انشائیہ جس نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنابا وقار مقام بنالیاہے۔ اس کی تنقید مغرب میں انشائیہ کی تنقید سے کہیں زیادہ بہتر اور واضح ہے۔ یہاں تک کہ اب خود مغرب والے بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہ وزیر آغا کی بہت بڑی عطا ہے۔ انور سدید نے اس حقیقت کا کہیں اظہار نہیں کیا۔ یہ چند ایسی کمیاں ہیں جو مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوئیں، تاہم اس سے کتاب کی قد ر و قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ انور سدید نے وزیر آغا کے ادبی مقام کے تعین میں بجاطور پر لکھا ہے کہ:
”وہ عالمی سطح کے ان عہد سازادیبوں کے دوش بدوش کھڑے ہیں جنہوں نے ادب پر اپنے مستقل اثرات ثبت کئے اور تنقیدی مباحث سے اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی“۔
انہوں نے مقدار اور معیار دونوں زاویوں سے اردو ادب کو اتنی جاندار تحریریں دی ہیں کہ ذہنی تحفظات اور تعصبات کے باوجود ان کے فن کا اور ادب پر ان کے اثرات کا اعتراف بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے چنانچہ وزیر آغا کو ایسے ادباءاور مفکرین میں شمار کیا جاتا ہے جن کے نظریات، تصورات اور افکار نہ صرف اپنے عہد کے لئے اہم ہوتے ہیں بلکہ جو آنے والے زمانوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید نے وزیر آغا کے بارے میں یہ مدلل اور متوازن کتاب لکھتے ہوئے محبت اور عقیدت کے باوجود محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ اس کتاب سے جو وزیر آغا ابھرے ہیں وہ میرے لئے مانوس ہونے کے باوجود کئی جہات سے اجنبی ہیں۔ ان جہات سے میرا ان کا یہ پہلا تعارف انور سدید کے وسیلے سے ہوا ہے۔ یہ تعارف تحیر خیز بھی ہے اور مسرت آمیز بھی ۔اس تعارف کے بعد میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہورہی ہے کہ اس عہد کے اس عظیم مفکر ، ادیب اور دانشور کے بارے میں میں بھی کوئی کتاب لکھ سکوں۔
کاش میں ایسا کرسکوں!۔۔