جدیداردو ادب کے عظیم دانشور اور ادیب
ڈاکٹر وزیر آغا انتقال کر گئے
اناللہ و انا الیہ راجعون
اردو کے عظیم دانشور اور شاعر وادیب ڈاکٹروزیر آغا۸ ستمبر۲۰۱۰ء کو رات ایک بجے کے قریب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اناللہ و انا الیہ راجعون
وزیرآغاکی عمر۸۸برس تھی۔ان کی وفات سے محض الفاظ کی رسمی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں اردو دنیا ایک بہت بڑے تخلیق کار اور ایک بہت بڑے دانشورسے محروم ہو گئی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا۸۱مئی ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئے تھے۔۱۹۴۳ءمیں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے معاشیات میں ایم اے کیا۔۱۹۵۶ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔۱۹۶۰ءمیں مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی جریدہ ”ادبی دنیا“ کے جائنٹ ایڈیٹربنے اور مولانا کی وفات تک ادبی دنیا کے ساتھ منسلک رہے۔ان کی وفات کے بعد۵۶۹۱ءمیں تاریخ ساز ادبی جریدہ اوراق کا اجرا کیا۔
ڈاکٹر وزیر آغا کثیرالجہت شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ مفکر دانشور بھی تھے۔اردو ادب میں میڈیاکر دانشوروں کی تو ہمیشہ بہتات رہی ہے لیکن علم و معرفت کے لحاظ سے ڈاکٹر وزیر آغا کے پائے کا مفکر دانشور اب دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔اردو انشائیہ کے بانی کی حیثیت سے انہوں نے ایک بڑا ادبی کام کیا۔ اردوانشائیہ کے خدو خال کو نمایاں کرنے میں بہت زیادہ محنت سے کام لیا اور اس نئی صنف کی شدید ترین بلکہ اخلاقی لحاظ سے بد ترین مخالفت کے باوجوداسے اردو میں رائج کر دکھایا ۔شاعری میں غزل اور نظم دونوں اصناف میں ان کا انتہائی گراں قدرحصہ ہے۔جدید نظم کے سلسلہ میں تو ان کا کام اتنا اہم ہے کہ ان کے مقام کا تعین کرنے کے لیے جدید نظم کے پورے سلسلے کا از سرنو مطالعہ کرنا پڑے گا۔ان کی دو طویل نظمیں”آدھی صدی کے بعد“ اور”اک کتھا انوکھی“اردو کی شاہکارجدید نظمیں ہیں۔
وزیر آغا نے”مسرت کی تلاش“سے اپناعلمی و تنقیدی سفر شروع کیا۔طنزومزاح اور حقیقی مسرت کے فرق کی جستجو میں وہ تخلیقی اسرار اور خود کو جاننے کی لذت سے آشنا ہوئے۔کائنات کے اسرار و رموز کی جستجوانہیں بیک وقت سائنس ،فلسفہ اور الہٰیات کی دنیاؤں میں لیے لیے پھری۔انہوں نے مغربی علوم کا بھر پور مطالعہ کیا لیکن مشرقی علوم کے روبرو لا کر پھر اس مطالعہ سے اپنے نتائج خود اخذ کیے۔امتزاجی تنقیدکے اصول کو علمی سطح پر بھی اور عملی سطح پر رائج کیا۔مجموعی طور پر وزیر آغا نے ساٹھ سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ان میں بعض ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں۔ان کی مرتب کردہ یا تالیف و تدوین کردہ کتب کی الگ سے فہرست ہے۔ان کی تخلیقی کتابیںتو تمام کی تمام اپنی جگہ مطالعہ کا تقاضا کرتی ہیں جبکہ علمی و تنقیدی کتابوں میں سے ”اردو شاعری کا مزاج“،”تخلیقی عمل“،”دستک اس دروازے پر“ منفرد اور امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغاکی بعض کتب اور تخلیقات کے انگریزی ،ڈینش،یونانی،سویڈش،جرمن، ہسپانوی،مالٹیز، جاپانی،ہندی، بنگالی، مراٹھی، پنجابی، سرائیکی اور دوسری زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔وزیر آغا کے فن کی مختلف جہات پر تیرہ کے لگ بھگ رسائل کے مرتب کردہ خصوصی نمبرز یا کتابیں چھپ چکی ہیں۔انڈوپاک کی یونیورسٹیوں میں ان پرایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ۰۱سے زائد مقالات لکھے جا چکے ہیں۔اردو کی علمی و ادبی دنیا کے وہ تمام لوگ جو میڈیائی شہرت کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ ادب کو معرفتِ ذات و کائنات کاایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں،ڈاکٹر وزیر آغا کی وفات پر سوگوار اور غم زدہ ہیں ۔
کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیات
لیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھے
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہی جانے والا (وزیر آغا)
(یہ خبر [email protected]سے ۸ستمبر کوصبح پونے نو بجے ریلیز کی گئی)
حیدر قریشی(جرمنی سے)
بعد ازاں ان ویب سائٹس پر بھی یہ خبر شائع کی گئی۔
http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?43296
(08-Sep-2010 07:53 AM)
http://sherosukhan.tripod.com/id990.html
——————————————————————————————-
آغا جی نے اپنے والد مرحوم کی وفات پر یہ نظم لکھی تھی۔ آج ان کی وفات کے موقعہ پر ان کی یہ نظم جیسے خود کلامی کی صورت میں پھر سے لکھی گئی لگتی ہے۔ نوٹ از حیدر قریشی
سفر کا دوسرا مرحلہ:وزیر آغا
’’چلی کب ہوا، کب مٹا نقشِ پا
کب گری ریت کی وہ ردا
جس میں چھپتے ہوئے تونے مجھ سے کہا:
آگے بڑھ ، آگے بڑھتا ہی جا
مڑ کے تکنے کا اب فائدہ؟
کوئی چہرہ ، کوئی چاپ ، ماضی کی کوئی صدا، کچھ نہیں اب
اے گلّے کے تنہا محافظ!
ترا اب محافظ خدا !‘‘