1930ء کی نمکین ستیہ گرہ اور ڈانڈی کا مارچ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نہ بھولنے والی چیزیں ہیں۔ ستیہ گرہ کے آغاز سے کچھ روز پہلے گوجرانوالہ میں ایک دھوم دھامی ستیہ گرہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور پنجاب کے ضلع کے قومی خدام اور سیاسی کارکن سمٹ سمٹا کر گوجرانوالہ میں جمع ہو گئے تھے۔ کوئی تین چار ہزار رضاکار تھے۔ پچاس ساٹھ چھوٹے بڑے لیڈر اور ان کا عملہ فعلہ، مولانا ظفر علی خاں کانفرنس کے صدر تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو بھی ایک دن کے لیے تشریف لے آئے تھے۔ ان دنوں ہم لوگ ایک حماقت کر بیٹھے تھے یعنی انصاف کے نام سے ایک روزانہ اخبار نکال رکھا تھا جس کی ملکیت میں ایڈیٹر سے کاتب اور کاتب سے چپراسی تک سب برابر کے شریک تھے۔ اس لیے دن بھر میں اخبار کو فروغ دینے اور اس کی اشاعت بڑھانے کی بیسیوں تجویزیں پیش ہوتی تھیں اور ان پر گرما گرم بحثیں رہتی تھیں۔ چپراسی نے ایک تجویز پیش کی۔ ہیڈ کاتب صاحب نے اس کی تائید فرمائی۔ دوسرے کاتبوں کو بھی مجبوراً حمایت کرنی پڑی۔ دفتری نے مخالفت کی اور کلرکوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اب اس پر بحث جو شروع ہوئی تو آدھے ایڈیٹر ایک طرف ہو گئے، آدھے دوسری طرف۔ تجویز منظور تو نہ ہو سکی لیکن کام رک گیا۔ کاپیاں ذرا دیر سے پریس میں پہنچیں۔ اخبار دیر میں چھپا اور ڈاک وقت پر نہ بھیجی جا سکی۔
گوجرانوالہ کانفرنس کے متعلق اخباروں میں اطلاعات چھپیں تو یہ تجویز بھی پیش ہوئی کہ اس کانفرنس میں انصاف کا ایک نمائندہ ضرور ہونا چاہیے جو اخبار کے لیے پروپیگنڈا بھی کرے، ضروری اطلاعات بھی بھیجے اور ممکن ہو تو مستقل خریدار بھی فراہم کرے۔ یہ تو یاد نہیں پڑتا کہ یہ تجویز کس نے پیش کی تھی۔ بس اتنا یاد ہے کہ استاد چلتی رقم منشی محمد دین کلیمی نے جو مدت تک مولانا ظفر علی خاں کی خدمت میں رہے ہیں، مقالہ افتتاحیہ کی کتابت فرماتے ہوئے حقہ کا ایک کش لگا کے جو کہا کہ اتنی بڑی کانفرنس میں بڑی آسانی سے اخبار کے تین چار سو خریدار فراہم ہو سکتے ہیں، تو سب کاتبوں کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ اور تو سب سر ہلا کے خاموش ہو رہے لیکن بخشی چپراسی نے جو استاد چلتی رقم کے بالمقابل پھسکڑا مارے بیٹھا تھا، حقہ کی لے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا: “سچ فرمایا استاد”۔ یوں کہنا چاہیے کہ یہ تجویز استاد چلتی رقم کی تحریک اور بخشی چپراسی کی تائید سے کاتبوں کی بڑی محفل میں منظور ہوگئی اور ایڈیٹروں کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
غرض یہ تو طے ہوگیا کہ گوجرانوالہ کانفرنس میں “انصاف” کی طرف سے ایک نمائندہ بھیجا جائے۔ اب سوال یہ تھا کہ کسے بھیجا جائے؟ چونکہ میں اپنے رفقا سے کسی قدر زیادہ کانگرسی واقع ہوا تھا، اس لیے سب کی نظر انتخاب مجھی پر پڑی۔ میں تو پہلے ہی کانفرنس میں شریک ہونے پر ادھار کھائے بیٹھا تھا۔ ساتھیوں کا اصرار اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ کھدر کے دو جوڑے جو مَیں نے کلکتہ کانگرس کے موقع پر بنوائے تھے، سوٹ کیس کے ایک گوشہ میں مدت سے پڑے تھے۔ انھیں نکالا، کھدر کی اچکن ایک دوست سے مانگ کے پہنی اور آٹھوں گانٹھ کانگرسی بن کے گوجرانوالہ کا رخ کیا۔
مارچ کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ابھی تک کسی قدر خنکی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ کوئی کمبل بھر کا جاڑا تھا۔ میں کانفرنس سے ایک دن پہلے سرشام گوجرانوالہ پہنچا۔ شہر کے باہر ایک وسیع میدان میں کانفرنس کا پنڈال تھا اور اس کے ساتھ رضاکاروں کا کیمپ تھا جس میں دور تک خیمے ہی خیمے لگے ہوئے تھے۔ میں کیمپ میں داخل ہوا تو مجلس استقبالیہ کے صدر ملک لال خان مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ دور تک لوگ دو رویہ صفیں باندھے بیٹھے تھے۔ سب کے سامنے پتّل بچھے تھے۔ رسوئیا آتا تھا اور پتلوں پر اڑد کی دال، آلو کی بھاجی اور چپاتیاں رکھتا چلا جاتا تھا۔ ملک صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا: خوب وقت پر آئے۔ اب بیٹھ کے پہلے کھانا کھالو۔ پھر تم سے باتیں ہوں گی۔ میں نے پتلوں پر ایک نظر ڈال کر کہا: خانۂ احسان آباد! مجھے بھوک نہیں۔ ملک صاحب کہنے لگے: بھاجی اور دال گرما گرم ہیں۔ چپاتیاں بھی ابھی ابھی توے سے اتری ہیں۔ دو نوالے کھالو۔ میں نے عرض کیا: لاہور سے کھانا کھا کے چلا تھا۔ اب کیا کھاؤں گا؟ تھوڑی دیر میں مولانا حبیب الرحمن تشریف لے آئے۔ کہنے لگے کھانا کھایا؟ میں نے کہا کھانا تو نہیں کھایا اور اب کھاؤں گا بھی نہیں۔ البتہ اگر آپ کی توجہ سے چائے کی ایک پیالی مل جائے تو بڑا کرم ہوگا۔ گھنٹہ بھر انتطار کے بعد رسوئیا پیتل کا ایک گلاس جو چائے سے منہا منہ بھرا ہوا تھا، لے کے آیا۔ پیالی وہاں کہاں تھی۔ میں نے کچھ چائے پی۔ جو باقی بچی تھی پھینک دی۔ایک وسیع خیمے میں مرطوب زمین پر دریاں بچھی تھیں۔ ان پر رضاکار کمبل اوڑھے لیٹے تھے۔ میں بھی ان کے درمیان میں کمبل اوڑھ کے سو رہا تھا۔ ادھر بچارے مولانا حبیب الرحمان مجھے ڈھونڈتے پھرے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے خیمے میں میرے قیام کا انتظام کر رکھا تھا۔ خیر وہ رات تو جوں توں کر کے کاٹی۔ صبح ہوئی تو چائے کی طلب نے پھر پریشان کیا۔ وہ پیتل کا گلاس یاد تھا۔ اس لیے مولانا حبیب الرحمن سے تو پھر عرض کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ صبح اٹھتے ہی منہ ہاتھ دھو کر شہر کا رخ کیا اور بھٹیاروں کی ساری دکانوں پر پھر آیا۔ لیکن چائے نہ ملی۔
دس بجے کی گاڑی سے صدر منتخب اور دوسرے لیڈر پہنچے۔ انھیں میں شیخ محمد حیات بھی تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔ تم کچھ پریشان معلوم ہوتے ہو۔ میں نے کہا: عرب ہوٹل کی چائے اور کباب یاد آتے ہیں۔ کہنے لگے: چائے نہیں ملی؟ میں نے کہا: چائے کا کیا ذکر ہے رات سے بھوکا ہوں۔ وہ بولے میرے ساتھ آؤ۔ میں نے کہا: مجھے معاف کرو، میں “کانگرسی چائے” پی چکا ہوں۔ کہنے لگے: بھائی! لیڈروں کے لیے الگ انتظام ہوتے ہیں۔ تم آؤ تو سہی۔
کیمپ سے اچھے خاصے فاصلہ پر ایک بنگلہ میں لیڈروں کے قیام کا انتظام تھا۔ بنگلہ بہت سجا سجایا تھا۔ قالینوں کا فرش، دروازوں پر ریشمی پردے، لیڈروں میں سے اکثر میری جان پہچان اور بعض سے خاصی بے تکلفی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی جنھیں میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر سب لوگ اٹھ کے کھانے کے کمرے میں جا بیٹھے۔ میز پر وشنو بھوجن بھی تھا اور پلاؤ قورمہ بھی۔ جو لیڈر اس موقع پر موجود تھے۔ ان میں ایک پست قامت مہاشے بھی تھے جو کھدر کا سفید پاجامہ، سفید کوٹ اور سپید پگڑی پہنے میز کے سرے پر بیٹھے تھے۔ وہ آلو کا ایک قتلہ منہ میں رکھ چکے تھے اور دوسرا قتلہ ان کے منہ اور میز کے درمیان خلا میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ شیخ محمد حیات نے میرا ان سے تعارف کرایا۔
یہ مہاشے ڈاکٹر ستیہ پال تھے اور مجھے قابوں کے دور اور چھری کانٹوں کی جھنکار میں پہلی مرتبہ ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔
ولایت کے ایک اخبار نویس نے صحیح کہا ہے کہ ساری دنیا تماشا ہے اور اخبار نویس تماشائی ہے۔ مجھے گوجرانوالہ کانفرنس پر پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اخبار نویس، مورخ، شاعر اور فلسفی صرف حقیقی انسان ہیں۔ باقی انسانوں کی حیثیت محض ایکٹروں کی ہے جو رنگا رنگ سوانگ بھر کر زندگی کے اسٹیج پر آتے ہیں اور اپنا پارٹ ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔ اسمبلی کے اجلاس، وزرا کی پارٹیاں، شادی بیاہ کی محفلیں، جلوس، جلسے اور کانفرنسیں کیا ہیں، محض ایک سیمیائی نمود جس کی اصل کچھ بھی نہیں۔ حقیقی انسان تو صرف ہم ہیں۔ ہم جنھیں دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ جن کے بچوں کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا نہیں ملتا۔ ان لوگوں کا کام طرح طرح کے روپ بھر کر نقل اتارنا ہے اور ہمارا کام ان پر تنقید کرنا۔ کبھی کبھی یہ نقلیں یہ سوانگ یہ ناٹک اور ڈرامے ہمیں دلچسپ معلوم ہوتے ہیں اور ان میں حقیقی زندگی کی ہلکی سی جھلک نظر آجاتی ہے۔ لیکن بسا اوقات ان کی یکسانی ہمیں اکتا دیتی ہے۔ کیونکہ ان سب ناٹکوں کا مرکزی تخیل ایک ہے اور وہ سب کے سب ایک ہی محور پر گھوم رہے ہیں۔
میرے نزدیک ڈاکٹر ستیہ پال بھی ایکٹر ہیں اور کسی حد تک کامیاب ایکٹر۔ کیونکہ وہ اپنے نقادوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان کی حرکات و سکنات فن کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ بایں ہمہ میں ان کے سامنے جا کر ایک لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں بھولا کہ وہ ایکٹر ہیں۔ کیونکہ جب شیخ محمد حیات نے انھیں میرا نام بتایا تو ان کے ہاتھ سے آلو کا قتلہ گر پڑا اور دونوں ہاتھ بے ساختہ پیشانی کی طرف اٹھ گئے۔ ایک مشاق ایکٹر کے لیے جس نے لیڈر کا روپ بھر رکھا ہو ایسے موقعوں پر مسکرانا نہایت ضروری ہے اور اس معاملہ میں انھیں کوئی زیادہ دقت پیش نہیں آئی کیونکہ غالباً انھوں نے بہت سی مسکراہٹ اپنے کلوں میں گلوکاری کی طرح دبا رکھی تھی جو ہاتھوں کے پیشانی کی طرف اٹھتے ہی ہونٹوں تک پہنچی اور آن کی آن میں باچھوں تک پھیل گئی۔ نوالہ چباتے چباتے مسکرانا اور پھر اس طرح مسکرانا کہ دیکھنے والوں کو اس مسکراہٹ کے مصنوعی ہونے کا وہم و گمان تک نہ ہو، ہر شخص کا کام نہیں۔
میں نے ڈاکٹر ستیہ پال کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا لیکن ان کا نام بارہا سنا تھا۔ ان کی شہرت کا آغاز مارشل لا کے زمانہ سے ہوتا ہے۔ جلیانوالہ باغ کے حادثہ کے بعد ان کا نام بچہ بچہ کی زبان پر تھا اور ڈاکٹر کچلو کے نام کے ساتھ ان کا لیا جاتا تھا۔ لیکن انھیں جو شہرت اور ہر دلعزیزی اس زمانہ میں نصیب ہوئی پھر کبھی نہیں ہو سکی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تقریر کا آغاز جلیانوالہ باغ سے کرتے ہیں اور اکثر اوقات اسی تذکرہ پر ختم کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی نہیں کہ وہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثہ کو نہیں بھول سکے، بلکہ اس پرانی داستان کو بار بار دہرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھیں اپنی عظمت و شہرت کے اس عہد کی یاد بے چین کیے رکھتی ہے۔
دراصل مارشل لا عدم تعاون کے زمانے میں جن لوگوں کو شہرت حاصل ہوئی ان میں اکثر ایسے تھے جو سیاسی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت بالکل نہیں رکھتے تھے۔ البتہ جذبات کو ابھارنے والی تقریریں خوب کر سکتے تھے۔ وہ دور جذبات کی کارفرمائی کا دور تھا۔ اہم سیاسی مسائل پر نہ لیڈروں کی نظر تھی، نہ عوام کی تھی۔ اس لیے جن لوگوں کو اس زمانے میں لیڈری کا موقع ملا، ان میں اکثر ایسے ہیں جو اس زمانہ میں جبکہ جذبات کے بجائے حقائق سے بحث کی جاتی ہے، بہت حد تک بے مصرف ہو رہے ہیں۔ اور ڈاکٹر ستیہ پال کا شمار بھی اسی قسم کی مخلوق میں ہے۔
دراصل مارشل لا اور اس کے بعد کا زمانہ بھی عجیب تھا۔ اس زمانے میں لیڈر بننے کے لیے صرف دو شرطیں تھیں: زناٹے کی تقریر اور جیل یاترا۔ کیونکہ لوگ قید کی میعاد اور تقریر کی بے سروپائی سے لیڈری کے طول و عرض کا اندازہ لگاتے تھے، اور وہی شخص بڑا لیڈر سمجھا جاتا تھا جس کی تقریر میں دلائل سرے سے نہ ہوں، یا ہوں تو بہت کم۔ چند رٹے رٹائے جملے تھے جو عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لیے چھو منتر کا کام دیتے تھے۔ ہر لیڈر نے یہ جملے یاد کر رکھے تھے اور حسب موقع تھوڑے سے تصرف سے انھیں دہرا دیتا تھا۔ اسے ڈاکٹر ستیہ پال اور دوسرے لیڈروں کا کمال سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ ان کی لیڈری کو لونی لگنی شروع ہوگئی ہے، پھر بھی ان کی تقریروں کا وہی ہنجار ہے جو آج سے بیس برس پہلے تھا۔
ڈاکٹر ستیہ پال کی تقریر کا عام انداز یہ ہے کہ پہلے تشبیب کے طور پر جلیانوالہ باغ کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر اس سے گریز کرکے آزادی کی مدح و توصیف پر پہنچتے ہیں اور اس کی خوبیوں کے متعلق چند فرسودہ کلمے دہرا کے ہندو مسلم اتحاد پر تقریر ختم کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ کسی قدر منطقی بھی واقع ہوئے ہیں، اس لیے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہندو مسلم اتحاد سے آزادی ملے گی اور آزادی ملتے ہی جماعتی اختلافات خود بخود مٹ جائیں گے، اقتصادی مصائب کا خاتمہ ہوجائے گا اور ملک میں کوئی بھوکا ننگا نہ رہے گا۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آزادی سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو وہ سر کو کھجلا کے کچھ سوچنا شروع کردیں گے اور پھر مسکرا کے فرمائیں گے: آزادی سے میری مراد “آ – زا- دی” سے ہے، آیا خیال شریف میں! معلوم ہوتا ہے اب بھی آپ نہیں سمجھے، اجی یہی آزادی۔
ڈاکٹر صاحب نازک اور پیچیدہ سیاسی بحثوں اور دقیق مسائل میں نہیں الجھتے بلکہ آزادی کے متعلق وہ جو کچھ کہتے چلے آئے ہیں، برابر کہتے چلے جاتے ہیں۔ تقریر ہو یا تحریر، دونوں میں ان کا طرز استدلال یکساں ہے۔ نج کی بحثوں اور گفتگوؤں میں بھی وہ اکثر اسی طرز استدلال سے کام لیتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ڈاکٹر ستیہ پال رائے جواہر لال کی طرح مفکر نہیں لیکن اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ ان کی لیڈری جس موسم کی پیداوار ہے اس موسم میں مفکر نہیں بلکہ صرف آتشیں تقریریں کرنے والے لیڈر پیدا ہوا کرتے تھے۔ پھر ان کی تعلیم پر غور کیجیے تو عجیب حال ہے، ایلوپیتھی کے ساتھ ہومیوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے ساتھ دندان سازی۔ انگریزی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ تھوڑی سی فارسی۔ چنانچہ ایک دوست کا بیان ہے کہ انھوں نے حکیم فیروز الدین طغرائی مرحوم سے نام حق، کریما اور گلستان بھی پڑھی ہے۔ لیکن گلستان کے باب پنجم سے آگے نہیں بڑھے۔ پہلے امرتسر میں مطب کرتے تھے، پھر لاہور اٹھ آئے۔ اب مدت سے نسبت روڈ پر رہتے ہیں۔ مطب کے ساتھ ساتھ دندان سازی کا اسکول بھی چلاتے ہیں۔ ان کے پیشہ پر غور کیجیے تو ہنسنے اور مسکرانے میں انھیں جو مہارت حاصل ہے اس کا راز بھی کھل جاتا ہے۔ دانت نکالنا ان کا پیشہ ہے۔ خود بھی دانت نکالتے ہیں، دوسروں کو دانت نکالنا سکھاتے بھی ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال نے جب سے قومی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا ہے وہ برابر کانگرس سے وابستہ رہے ہیں۔ عدم تعاون کے زمانے میں تو خیر ہر قسم کے لوگ کانگرس میں شریک تھے۔ لیکن جب اس تحریک کا زور ٹوٹا اور شدھی اور سنگٹھن کی تحریکیں شروع ہوئیں تو جماعتی اختلافات کا سیلاب اس طرح امڈا کہ بڑے بڑے لیڈر اس کی رو میں بہ نکلے۔ لالہ لاجپت رائے پرانے انقلابی تھے اور کانگرس کی تحریک سے پہلے بھی بڑی قربانیاں کر چکے تھے۔ لیکن اس امتحان میں وہ بھی پورے نہ اتر سکے، یعنی کانگرس سے الگ ہوکر مہاسبھا سے جا ملے۔ ڈاکٹر گوپی چند نے بھی ان کی پیروی کی۔ ڈاکٹر کچلو پہلے کچھ دیر تو چپ چاپ تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ کیفیت دیکھی تو وہ بھی دامن گردان کے اٹھے اور سنگٹھن کے جواب میں تنظیم کا ڈول ڈال دیا۔ غرض یہ بھرا پرا میلہ دنوں میں بچھڑ گیا۔ یا تو پنجاب میں کانگرس کی تحریک کا یہ زور تھا کہ خلقت کھچی چلی آتی تھی یا پھر عالم نظر آیا کہ ہر طرف خاک اڑ رہی ہے اور وفا کا مارا بچارا ستیہ پال تن تنہا کانگرس کا دامن تھامے کھڑا ہے۔
ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد وقتی جذبات پر تھی۔ اس لیے اس اتحاد کا مٹ جانا لازمی اور یقینی تھا۔ چنانچہ جس تیزی سے ہندو مسلم اتحاد ہوئے تھے اسی تیزی سے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور ان کے اختلافات جو زیادہ تر اقتصادی تھے نئی نئی صورتوں میں نمودار ہونے لگے۔ اس حالت میں دونوں جماعتوں کے لیڈروں کا کانگرس سے علاحدہ ہوجانا قدرتی تھا۔ صرف وہی لوگ کانگرس سے وابستہ رہ گئے تھے جو بے حد غور و خوض کے بعد اس جماعت میں شریک ہوئے تھے۔ یا وہ لوگ جن میں بدلنے کی صلاحیت کم تھی۔
ڈاکٹر ستیہ پال کو اس آخری گروہ میں شمار کرنا چاہیے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ کانگرس سے الگ ہو جاتے تو سخت غلطی کرتے کیونکہ ہندو مہا سبھا میں لالہ لاجپت رائے کے سامنے ان کا چراغ جلنا مشکل تھا۔ ثابت قدمی کا فائدہ یہ ہوا کہ کانگرس کی باگ ڈور پوری طرح ڈاکٹر صاحب کے قبضہ میں آگئی اور وہ پنجاب میں کانگرس کے سب سے بڑے لیڈر سمجھے جانے لگے۔ یہ اور بات ہے کہ لوگ ان کے ساتھ نہیں تھے اور ان کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ انتخابات میں جب انھوں نے ہندو مہا سبھا کا مقابلہ کرنا چاہا تو اپنی ضمانت ضبط کرا بیٹھے۔ لیکن جو انے گنے آدمی ان کے ساتھ رہ گئے تھے وہ سب کے سب ان کی طرح دھن کے پکے اور ارادے کے مضبوط تھے۔
ڈاکٹر ستیہ پال کی ذہانت کا میں قائل نہیں۔ شاید وہ ذہین ہوتے تو اتنی دیر کانگرس سے وابستہ نہ رہ سکتے۔ البتہ ان میں ایک نڈر اور بے باک سپاہی کے تمام اوصاف موجود ہیں۔
شجاعت کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں کسی قدر اکل کُھرا پن بھی ہے۔ جب بگڑ گئے، بگڑ گئے۔ پھر سرکش گھوڑے کی طرح پٹھے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیتے۔ لالہ لاجپت رائے کا مقابلہ کرنا سنگ خارا کی چٹان سے ٹکرانا تھا۔ ڈاکٹر ستیہ پال ان سے خوب خوب لڑے، بار بار گرے لیکن چھاڑ پونچھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور متواتر شکستوں کے باوجود ان کے دم خم میں کوئی فرق نہ آیا۔
ان کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے فوراً زبان پر آجاتا ہے۔ تلخ سے تلخ بات بر سر عام کہہ گزرتے ہیں اور کوئی سمجھائے بھی تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ لالہ لاجپت رائے کے ساتھیوں سے ان کے تعلقات آج تک درست نہیں ہو سکے۔ ان کی رائے ہے کہ پنجاب کانگرس کی عنان انھیں لوگوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے جو کانگرس کی تحریک سے وابستہ رہے ہیں اور ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوئے۔ اور سچ پوچھیے تو اسی دلیل کے زور سے انھوں نے کانگرس کی صدارت پر اجارہ قائم کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند سیرت کے اعتبار سے ڈاکٹر ستیہ پال کے الٹ ہیں۔ ان میں اکل کھرا پن نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس بچھے ہی جا رہے ہیں۔ یوں تو جوڑ توڑ میں ڈاکٹر ستیہ پال بھی کم نہیں۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس فن میں وہ اپنے حریف کو نہیں پہنچتے۔ ڈاکٹر ستیہ پال اپنے سیاسی حریفوں سے میل جول کو بہت معیوب سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر گوپی چند ہر قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں۔ لیکن اس آزادانہ خلا ملا کے باوجود ان کے دل کی تھاہ پانا مشکل ہے۔
کچھ عرصہ سے پنجاب کی سیاست کا یہ رنگ ہے کہ کانگرس سوشلسٹ پارٹی ڈاکٹر ستیہ پال کے ساتھ ہے۔ احرار سے بھی ڈاکٹر صاحب کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ادھر اکالی پارٹی ڈاکٹر گوپی چند کی پشت پر ہے۔ اتحاد ملت والے اگرچہ مٹھی بھر ہیں لیکن ڈاکٹر گوپی چند کو وہ ڈاکٹر ستیہ پال سے کم خطر ناک سمجھتے ہیں۔ یونینسٹ پارٹی کا رجحان بھی زیادہ تر ڈاکٹر گوپی چند کی جانب ہے۔
مجھے ڈاکٹر ستیہ پال سے بہت کم ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ گوجرانوالہ میں دو تین دفعہ ملاقات ہوئی۔ وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے۔ گوجرانوالہ کانفرنس کے بعد صرف دو دفعہ لاہور میں ملا۔ پھر سات آٹھ سال ان سے ملنے کا موقع ہاتھ نہ آیا۔ البتہ جلسوں میں ان کی تقریریں ضرور سنتا تھا۔ کیونکہ ان کی تقریریں اپنی اکتا دینے والی یکسانی کے باوجود مجھے پسند ہیں۔ وہ بار بار ایک ہی بات کہتے ہیں اور ایک ہی اسلوب سے کہتے ہیں۔ وہ کتابیں نہیں پڑھتے، مسائل پر غور نہیں کرتے اور اپنے پرانے ڈھرّے پر چلے جا رہے ہیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی نظروں میں شاید ان کی حرکت معیوب ہو لیکن داغ مرحوم نے جو پرانے انداز کے شاعر تھے، وضعداری کے مفہوم کو اس قدر وسعت دی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ ادا بھی ایک قسم کی وضعداری معلوم ہوتی ہے۔ داغ کا مشہور شعر ہے ؎
کتنا باوضع ہے خیال یار!
بیکسی میں بھی آئے جاتا ہے
پچھلے سال کئی برس کے بعد پھر مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ کشمیر میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو قومی کارکنوں میں سے دو صاحب بخشی غلام محمد اور پنڈت پریم ناتھ لاہور تشریف لائے اور یہاں مختلف لیڈروں سے ملے۔ ڈاکٹر گوپی چند نے فوراً تحریک کشمیر کی حمایت میں ایک بیان شائع کرادیا۔ لیکن کچھ ایسے واقعات پیش آتے رہے کہ ڈاکٹر ستیہ پال سے انھیں ملنے کا موقع نہ ملا۔ ایک دن میں ان دونوں کو ساتھ لے کے لالہ کرم چند ایڈیٹر پارس سے ملنے گیا۔ ایک اور کشمیری نوجوان مسٹر درگا پرشاد بھی ہمارے ساتھ تھے۔ لالہ کرم چند نے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا: آپ ڈاکٹر ستیہ پال سے بھی ملے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ کہنے لگے ضرور ملیے۔ میں چاہتا ہوں کہ تحریک کشمیر کی حمایت میں ایک جلسہ ہو جائے۔ اگر کسی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکا تو کم از کم ڈاکٹر صاحب ایک آدھ بیان ہی شائع کرا دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب پارس کے دفتر سے چند قدم کے فاصلہ پر رہتے ہیں۔ ہم سب اٹھ کے ان کی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت وہ تنہا بیٹھے تھے۔ لالہ کرم چند نے ہم سب کا تعارف کرا کے کہا: میں تو چلتا ہوں آپ خود باتیں کر لیجیے۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر کا نام سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ ان کی باچھوں پر جو مسکراہٹ سی پھیلی ہوئی تھی وہ آناً فاناً کہیں غائب ہو گئی۔ انھوں نے زور سے منہ بند کر لیا اور ذرا تن کے بیٹھ گئے۔ بخشی غلام محمد ان کے بالکل بالمقابل تھے اور ان دونوں کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دو حریف آمنے سامنے بیٹھے اس انتظار میں ہیں کہ دیکھیں پہلے کون وار کرتا ہے۔
پہلا وار بخشی غلام محمد نے کیا۔ یہ وار ڈاکٹر ستیہ پال کے دماغ پر تھا۔ یعنی بخشی صاحب نے ریاستوں کے مسئلہ کی اہمیت اور اس مسئلہ کے متعلق کانگرس کے زاویۂ نگاہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ لیکن انھیں تھوڑی دیر میں ہی معلوم ہوگیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال کا دماغ بعض قدیم تصورات کی تاریکی میں اس طرح گھرا ہوا ہے کہ اس تک روشنی کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے اور پھر کہنے لگے: “ان باتوں کو کانگرس ہائی کمانڈ ہی سمجھ سکتی ہے۔ ہم تو ان معاملات میں اس کے تابع فرمان ہیں”۔ ایسے موقعوں پر بے خبری اور لا علمی کا اظہار بہت بڑا دفاعی حربہ ثابت ہوتا ہے۔ بخشی صاحب نے جب دیکھا کہ یہ وار خالی گیا تو وہ دماغ سے دل کی جانب متوجہ ہوئے۔ یعنی کشمیریوں کی مظلومی کی داستان سے ڈاکٹر صاحب کو متاثر کرنا چاہا۔ لیکن یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا اور ڈاکٹر صاحب نے کچھ سننے کے بعد فرمایا: “کشمیر کا موجودہ وزیر اعظم گوپال سوامی آئنگر بہت بڑا مدبر ہے۔ دیکھا، چند دنوں کے اندر تحریک کو کچل کے رکھ دیا”۔ اب تک ان کے چہرے پر انقباض کے آثار نمایاں تھے۔ لیکن آئنگر کا نام آتے ہی ان پر انقباض کے بجائے انبساط کی کیفیت طاری ہونے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھیں بیٹھے بیٹھے کسی نے گدگدا دیا ہے۔ انھوں نے مسکرا کے پھر ایک مرتبہ کہا: “ہاں یہ آئنگر بڑا قابل شخص ہے۔ سول نافرمانی کی تحریک کو دبا دینا اسی کا کام تھا”۔
میری حیثیت تو تقریباً تماشائی کی تھی۔ اس لیے مجھے اس موقع پر ان سے کچھ کہنا مناسب معلوم نہ ہوا۔ بخشی صاحب نے بھی مصلحت اسی میں سمجھی کہ خاموش رہیں۔ ورنہ اس قدر ظاہر تھا کہ آئنگر کے کارنامہ پر وہ اس طرح خوش ہیں جس طرح ولنگڈن کی کارکردگی پر برطانیہ کے بڑے بڑے امرا اور حکام خوش تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد جب بخشی صاحب نے ان سے استدعا کی کہ آپ سے اور کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم موجودہ تحریک کشمیر کی حمایت میں ایک آدھ جلسہ ہی کرا دیجیے تو انھوں نے فرمایا: “مجھے معاف رکھیے۔ شیخ محمد عبد اللہ بڑا فرقہ پرست ہے اور مجھے یقین نہیں آتا کہ کشمیر میں ہندوؤں کا جان و مال محفوظ ہے”۔ یہ الفاظ کہہ کے انھوں نے ہاتھ جوڑ لیے اور سرجھکا دیا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ “اب ہوا کھائیے”!
اس واقعہ کو مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہوا تھا کہ ڈاکٹر ستیہ پال نے “نیشنل کانگرس” نکالنے کا ارادہ کیا۔ شیخ محمد حیات نے ایک دن مجھ سے کہا کہ تم نیشنل کانگرس میں کیوں نہیں آجاتے۔ کانگرس کا پر چہ ہے تمھیں اس میں آزادی سے کام کرنے کا موقع ملے گا۔ میں نے کہا: “میرے نزدیک تو ڈاکٹر ستیہ پال کی کانگرسیت بھی مشتبہ ہے”۔ کہنے لگے: “تمھیں وہم ہوا ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال ایسے نہیں اور پہلے کبھی ایسے تھے تو اب ویسے نہیں رہے۔ اور پھر اخبار میں ڈاکٹر ستیہ پال کا کیا ہے، اس کی ترتیب تمھارے سپرد ہوگی جو چاہو کیجیو”۔ اس کے کہنے سے میں “نیشنل کانگرس” کے ادارہ میں شامل ہو گیا۔
ڈاکٹر ستیہ پال کو خود تو اخبار سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ وہ صرف اخبار کے لیے لیڈنگ آرٹیکل گھسیٹ دیا کرتے تھے اور کسی دن مزے میں آکر تین تین چار چار لیڈنگ آرٹیکل گھسیٹ ڈالتے تھے۔ اخبار کا انتظام ڈاکٹر صاحب کے ایک نوجوان عقیدت مند لالہ رام لال کے سپرد تھا۔ لالہ رام لال کی قابلیت، استعداد اور ان کے گذشتہ مشاغل کے متعلق تحقیق کے باوجود مجھے صرف اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ وہ پنجاب کانگرس میں مدت سے کام کر رہے ہیں اور ڈاکٹر ستیہ پال کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک عقیدت کا تعلق ہے، جتنی عقیدت لالہ رام لال کو ڈاکٹر ستیہ پال سے ہے اس سے کہیں زیادہ ڈاکٹر صاحب کو ان کے ساتھ ہے۔ لالہ رام لال غالباً پنڈت چمبا رام کے توسط سے ڈاکٹر ستیہ پال تک اور ان کے توسط سے پنجاب کانگرس تک پہنچے۔ کانگرس میں ان کا عمل دخل نہیں رہا۔ لیکن ڈاکٹر ستیہ پال کی طبیعت میں وہ اب تک دخیل ہیں۔ چھریرے بدن کے آدمی ہیں۔ گوری رنگت، عمر اکیس بائیس سال کی ہوگی۔
پنڈت چمبا رام پنجابی زبان کے شاعر ہیں اور ڈاکٹر ستیہ پال کی پارٹی انھیں پنجاب کا قومی شاعر کہتی ہے۔ زیادہ لکھے پڑھے نہیں۔ شاید اپنا نام پڑھ لیتے ہوں۔ لیکن اپنے دوستوں میں وہ اقبال اور ٹیگور دونوں سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔
لالہ رام لال سے ان کی پرانی دوستی ہے اور ابھی تک بچارے برابر اسے نباہتے چلے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں پنجاب کانگرس کے اندر ان دونوں کا اثر بہت بڑھ گیا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر ستیہ پال ہمیشہ انھیں کے اشاروں پر چلا کرتے تھے۔ میرے ایک دوست انھیں “چمبا رام لال کانگرس مرچنٹس یا ڈیلرز ان کانگرس” کہا کرتے ہیں۔ لالہ رام لال نیشنل کانگرس کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور مینیجنگ ایڈیٹر تھے اور نیشنل کانگرس کے خاتمہ تک اس عہدہ پر رہے۔ چمبا رام کا عہدہ تو مشخص نہیں ہو سکا۔ بہر حال وہ اس اخبار میں کوئی اعلیٰ عہدہ رکھتے تھے۔ اخبار میں ان کا کام صرف اتنا ہے کہ رات کو جب کاپیاں مرتب ہو کے پریس میں بھیجی جاتی ہیں تو وہ انھیں ایڈیٹر سے لے کے چپراسی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ چونکہ وہ بچارے ہمیشہ “فکر شعر” میں کھوئے رہتے ہیں، اس لیے انھیں اخبار کے معاملات میں دخل دینے کا موقع کم ملتا ہے۔
ان کے علاوہ لالہ دیسراج مہاجن بھی اخبار کے کاموں میں بہت دخیل تھے۔ مہاجن صاحب کسی زمانے میں سیالکوٹ سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے رہے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر ستیہ پال کی پارٹی میں ان سے زیادہ اخباری تجربہ کسی کو حاصل نہیں۔
مقالہ افتتاحیہ خود ڈاکٹر ستیہ پال لکھتے تھے اور میرا بہت سا وقت اس کی تصحیح میں صرف ہو جاتا تھا۔ وہ لکھنے پر آتے ہیں تو بس لکھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی تحریر کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ موضوع کچھ ہو، ہر پھر کے ایک ہی بات کہیں گے۔ ان کے مضامین کی اصلاح کرتے کرتے میرا یہ حال ہوگیا کہ خود کچھ لکھنے بیٹھتا تھا تو اس میں بھی ایک حد تک ڈاکٹر ستیہ پال کی تحریر کا انداز ہوتا تھا۔
چند دنوں میں ہی ہمیں معلوم ہوگیا کہ ان لوگوں سے زیادہ دیر تک نباہ نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے مجھ سے کہا گیا کہ آپ تحریر میں مہاشہ ناز کا تتبع کیجیے کیونکہ اردو لکھنے کا صحیح انداز وہی ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ اخبار میں عربی فارسی کے الفاظ بہت ہوتے ہیں۔ ایک دن تو معاملہ حد سے گزر گیا، یعنی صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اخبار میں جمعرات اور جمعہ کے بجائے ویروار اور شکروار لکھا جائے۔
ہم سمجھتے تھے کہ یہ اخبار لوگوں کو کانگرس کے قریب لانے کی کوشش کرے گا لیکن ڈاکٹر ستیہ پال اور ان کے ساتھیوں کو پارٹی بازی کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا۔ آخر اخبار کے کالم انھیں جھگڑوں کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ مسٹر رام لال جب تک صرف “چمبا رام رام لال” تھے اس وقت بھی ان کے غرور کا یہ حال تھا کہ زمین پر پاؤں نہیں دھرتے تھے۔ جب سے وہ اخبار کے مینیجنگ ڈائریکٹر بنے، اپنے آپ کو “مہاشہ ویریندر” کا حریف سمجھنے لگے۔ ہم میں ناز برداری کا حوصلہ نہیں تھا۔ اس لیے مجبور ہو کے علاحدگی اختیار کر لی۔ پہلے میں علاحدہ ہوا پھر باری صاحب اور حمید نظامی صاحب بھی الگ ہو گئے۔
ہمیں اخبار میں ڈاکٹر ستیہ پال سے ملاقات کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ وہ کچھ دن تو روز آیا کرتے تھے۔ پھر دوسرے تیسرے آنے لگے۔ اسی زمانہ میں انتخابات کا قصہ شروع ہوگیا اور ان کی توجہ اس طرف بٹ گئی۔ بہرحال ان دنوں ان سے جو باتیں ہوئیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ اب وہ لیڈری چھوڑ کے اخبار نویسی کو اپنا مستقل پیشہ بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اخبار کا معاملہ بھی ذرا ٹیڑھا ہے۔ لیڈری ہر حال میں چل جاتی ہے اور اخبار ذرا مشکل سے نکلتا ہے۔ مولوی عبد القادر صاحب قصوری کانگرس کے صدر مقرر ہوجاتے۔ ڈاکٹر صاحب کی چاندی تھی۔ یعنی اخبار بھی چلاتے اور مولوی صاحب کے پردہ میں کانگرس کی صدارت بھی کرتے۔ لیکن بدقسمتی سے ادھر ڈاکٹر کچلو صدر منتخب ہوئے، ادھر اخبار کی کشتی ڈانوا ڈول نظر آنے لگی۔ آخر انھوں نے سوچا کہ ان سارے قضیوں کو چھوڑ کے ریاستوں کے سیاسی معاملات میں حصہ لینا چاہیے۔ چنانچہ ادھر پٹیالہ کے بعض ریاستی کارکنوں کو گانٹھا، ادھر جموں کے کانگرسیوں سے تعلقات پیدا کیے۔ ساتھ ہی حیدرآباد ستیہ گرہ میں بھی دلچسپی لینی شروع کردی اور اس ستیہ گرہ کے سلسلہ میں ایک دو ایسی تقریریں کرگئے جن پر ڈاکٹر مونجھی اور بھائی پرمانند دونوں کو رشک آئے۔
ڈاکٹر ستیہ پال کے اکثر مسلمان دوستوں کو ان کے موجودہ طرز عمل سے شدید اختلاف ہے۔ لیکن بچارے ڈاکٹر ستیہ پال کیا کریں۔ جب تک ان سے ممکن ہوا انھوں نے کانگرس کی حمایت میں خون پسینہ ایک کر دیا۔ اب ڈاکٹر کچلو کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد کانگرس میں سرے سے ان کی گنجائش نہیں رہی۔ ایسی حالت میں وہ اگر آریہ سماج کی طرف جھک گئے اور جوش کے عالم میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہر کانگرسی آریہ سماج کی تحریک کے ساتھ ہے تو انھیں معذور سمجھنا چاہیے۔
میں یہ بات اس مضمون کے آغاز میں کہہ چکا ہوں کہ ڈاکٹر ستیہ پال کوئی صاحب فکر شخص نہیں تھے۔ لیکن اس دور میں جب کہ سیاسیات کے اہم مسائل کو اقتصادی زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کا مذاق عام ہو رہا ہے، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ پنجاب کی موجودہ طبقاتی جنگ میں جو زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ جماعت کے درمیان ہے انھیں لا محالہ غیر زراعت پیشہ کا ساتھ دینا پڑے گا۔ چنانچہ جس زمانہ میں کانگرس کے صدر کی حیثیت سے ان پر بڑی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں انھوں نے اس معاملہ میں اس حد تک جرات کا ساتھ دیا کہ ہائی کمانڈ کے احکام تک کی پروا نہیں کی۔ کانگرس کی صدارت کے بار گراں سے سبک دوش ہونے کے بعد ان کے لیے بنیوں اور ساہوکاروں کی حمایت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے اور وہ یہی کریں گے۔
پچھلے دنوں انھوں نے فارورڈ بلاک سے تعلق قائم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن فارورڈ بلاک ان کے ڈھب کی چیز نہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا ہے اس کی حیثیت محض انتقامی ہے۔