”جدیدادب“ خان پور کے زمانہ میں پنہاں سے رابطہ ہوا تھا۔چند شماروں میں ان کی شاعری شائع کی تھی۔انہیں دنوں میں ان کی ایک تصویر دیکھنے کوملی،مسیحی دنیا میں موجود یسوع مسیح کی تصویر سے ملتی جلتی تصویر۔شاید یہ ان کے پہلے شعری مجموعہ”احساسِ نا تمامی“میں چھپی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ وہ پی ایچ ڈی کرنے لگی ہیں۔پھر نہ جدید ادب رہا،نہ خانپور رہا۔۔۔۔۔۔مدت کے بعد جرمنی پہنچا تویہاں آکر پتہ چلا کہ ڈاکٹر پنہاں امریکہ میں ہوتی ہیں۔ہلکا سا رابطہ ہوا،لیکن اب میرا مسئلہ یہ تھا کہ دوست انٹرنیٹ پر بھی ہو اور ان پیج پروگرام کا حامل بھی ہو۔ورنہ رابطہ قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔کچھ عرصہ کے مزید وقفہ کے بعد اب بالآخر ڈاکٹر پنہاں سے باقاعدہ رابطہ ہو گیا ہے کہ انہوں نے ان پیج پروگرام بھی حاصل کر لیا ہے اور اس میں کام کرنے کی صلاحیت بھی بہتر کر لی ہے۔اس کے نتیجہ میں مجھے ڈاکٹر پنہاں کی تازہ غزلوں تک رسائی حاصل ہو گئی ہے اور میں ان کی غزلوں کے ذریعے ان سے عدم رابطہ کے دوران گزری ہوئی ان کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان سن رہا ہوں۔
اشک چھلکے،زخم مہکے،داغ دہکے اور اب پھر نئے کچھ خواب پلکوں پر سجائے زندگی
پیاس کہتی ہے کہ بحرِ بیکراں کوزے میں ہو شوقِ لا محدود اور یہ تنگ نائے زندگی
دل جو کہتا ہے کیا جائے تو کیا ہوتا ہے آگ سے کھیل لیا جائے تو کیا ہوتا ہے
آسماں چومے زمیں کو جھک کر وقت کو سکتۂ حیرت ہو جائے
درد کچھ اور بنامِ درماں دل کی کچھ اور مرمت ہو جائے
انگارے برسائے دل پر سرد نظر، لہجہ برفانی
زندگی ہم کو اگر ایسی ملی زندگی کو ہم بھی تو ایسے ملے
ڈاکٹر پنہاںزندگی کو بھوگتے ہوئے”غزل سہیلی“سے اپنے دکھ سکھ بانٹتی رہیں۔ابتدائی غزلوں سے اب آج کی غزلوں تک ڈاکٹر پنہاں کا اپنا اندازِ نظر،اپنا طریقِ اظہار ارتقائی عمل سے تو گزرا ہے لیکن اپنی بنیادی شناخت کو اس نے قائم رکھا ہے۔غزل نے بھی ڈاکٹر پنہاں کی اچھی سہیلی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔دکھ سکھ میں پوری طرح ان کا ساتھ دیا ہے۔
نہ جانے کون مجھ میں جی رہا ہے اِدھر سارے اُدھر کے مسئلے ہیں
جہانِ مردو زن میں زن کو خود بھی زمیں کے اور زر کے مسئلے ہیں
اس ادا پر مرا دل کیا،مری جاں بھی حاضر آپ یوں کھچ کے جو تلوار ہوئے بیٹھے ہیں
مشتمل میری ذات ذروں پر ایک ترتیبِ ماہرانہ ہوں
اُس کا اثبات اور نفی اپنی یعنی ایمانِ کافرانہ ہوں
ترے دل پر کروں اب کیا حکومت مِرا دل بھی نہیں جاگیر میری
بہت اچھا تھا سب کچھ زندگی میں بری تھی صرف اک تقدیر میری
سب یقیں سارے شکوک عقل و دل کی بھول ،چُوک
دل کو دنیا سا بنا دے یارب! یا مرے دل سی یہ دنیا کر دے
جنت بھی نہیں منزلِ انساں مرے آگے محدود نہ کر عالمِ امکاں مِرے آگے
اس کو بھی تعاقب کا مِرے شوق بہت تھا چکرائی بہت گردشِ دوراں مِرے آگے
عشق اپنی ذات میںخود حسن ہے
آئنہ ہونے کا مٹی میں ہے گُن
جدید ادب خان پور کے شمارہ مارچ ۳۸۹۱ءمیں شائع شدہ ڈاکٹر پنہاں کی غزل کا ایک شعر تھا:
نہ آئے چائے پہ تم ،خیر،تم کو کیا معلوم کسی نے کتنی محبت سے اہتمام کیا
چائے اور چاؤ کی یہ باتیں زندگی کے تجربات سے کیسے گزرتی گئیں،اس کی جھلک چند نسبتاََ نئے اشعار میں دیکھیں:
تھوڑی باتیں،تھوڑے شکوے،تھوڑے وعدے اور بس
ساتھ اس کے شام کی اچھی سی چائے زندگی
شام کی چائے کا وعدہ وہ اُدھر بھول گئے ہم اِدھر صبح سے تیار ہوئے بیٹھے ہیں
بھول جائے گا اس بار بھی صبح تک جو بھی وعدے کئے شام کی چائے پر
لوٹ گیا کیوں آنے والا کھول رہا ہے چائے کا پانی
ڈاکٹر پنہاں کی غزلوں میں ایسی بے ساختگی کا اپنا ایک الگ مزہ ہے،جہاں غم میں بے فکری نمایاں ہے۔ جیسے غم کا سامنا ہنستے کھیلتے کیے جارہی ہیں۔
مفت مل جاتے ہیں غم اور آنسو مفت میں کھائے،پیئے جاتے ہیں
اب دعائیں نہ بے اثر جائیں موسموں سے کہو سُدھر جائیں
چل دلِ بے قرار چلتے ہیں چھوڑ دنیا کو یار چلتے ہیں
دردِدل کی تھی شکایت جس کو اس کو سر درد کی گولی دی ہے
مرض ہے عشقِ انساں کا غزل کو سند ہے ڈاکٹر پنہاں کی رائے
زہر ان میں ہوتا ہے،موت ان میں پلتی ہے زندگی کی خاطر جو ادویات لیتی ہوں
زندگی کے بہت سارے موضوعات پنہاں کی غزلوں میں موجود ہیں۔انسانیت کی تعظیم،فرقہ پرستی و نسل پرستی کی مذمت،قتل و غارت مقامی نوعیت کا ہو یا عالمی نوعیت کا ہر دو سے بیزاری ،اور انسانیت کی طرفداری۔
جنگ میں جیت ہو کسی کی بھی
ہار انسانیت کی ہوتی ہے
مختلف موضوعات کو نبھانے کے باوجود پنہاں کی غزل کا اہم ترین موضوع محبت ہے۔وہ محبت کے سرور اور اس محبت سے ملنے والے زخموں میں چُور،سرشاری کے عالم میں محبت کا ورد کیے جا رہی ہیں۔اس دوران اللہ تعالیٰ سے بھی بے تکلف ہو جاتی ہیں۔اس محبت میں ان کا نسوانی روپ توحُسن کی صورت میں نمایاں ہے لیکن کئی مقامات پر وہ حُسن کی بجائے عشق کا روپ اختیار کر لیتی ہیں ۔چاہے جانے سے زیادہ چاہنے کا مقام آجاتا ہے،محبوببیت کی بجائے محب دکھائی دینے لگتی ہیں۔شاید یہ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی سے ملتا جلتا کوئی تجربہ ہے جو پنہاں کی غزلوں میں ایک الگ انداز سے دکھائی دیتا ہے۔لیکن یہ ایسا موضوع ہے کہ پنہاں کی ساری غزلوں کے مطالعہ کے بعد اسی حوالے سے ایک الگ مضمون کے لکھے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔دیکھتے ہیں ادب کا کوئی اورقاری یہ کام کرتا ہے یا مجھے ہی کسی روز یہ فرض بھی نبھانا ہوگا۔آخر میں ڈاکٹر پنہاں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک شعر میں میرا بھی ذکر رکھا ہے۔
سراہیں گے تری غزلوں کو پنہاں
خرد مندوں میں کچھ پاگل بھی ہوں گے
میری دعا ہے کہ پنہاں اپنا شعری سفر اسی طرح جاری و ساری رکھیں اوراس نفرت بھری اندھیر نگری میں اپنی محبت آمیز شاعری کے ذریعے اپنے حصے کی شمع کو اسی طرح روشن کئے رہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔