(Last Updated On: )
مجھے لمحے نہیں صدیاں سنیں گی
میری آواز کو محفوظ رکھنا
عالمی شہرت کے حامل اردو زبان و ادب کے نامور استاد ،مستند محقق،زیرک نقاد،ممتاز دانشور اوریگانہء روزگار فاضل پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی 23 جون 2007 کو دائمی مفارقت دے گئے ۔علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 1948میں گوجر خان (راول پنڈی۔پنجاب پاکستان ) سے طلوع ہوا پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے بعد عدم کی بیکراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔اسلام آباد میں جب ان کا آخری دیدار کرنے میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا توملک کے طول و عرض سے آنے والے ان کے ہزاروں شاگرد دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔پورا شہر حسرت و یاس کی تصویر بن گیا تھا ۔ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی ۔دلوں کو مسخر کرنے والے اس عظیم استاد نے اردو تحقیق و تنقید کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ان کی المناک وفات سے اردو زبان و ادب کے طلبا اور اساتذہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں ۔اردو تحقیق اور تنقید کا یہ مرد آہن اپنی ذات میں ایک انجمن تھا ۔زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ان کی اچانک وفات اتنا بڑا سانحہ ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر فروغ اردو کوششوں پر بھی مرتب ہوئے۔پوری دنیا کے علمی اور ادبی حلقوں میں ان کی وفات پر صف ماتم بچھ گئی اور بے شمار تعزیتی پیغامات آئے ۔وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ اردو کے سربراہ اور فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین تھے ۔ان کی قیادت میں علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو نے کامیا بیوں اور کامرانیوں کے درخشاں باب رقم کیے ۔انھوں نے پانچ سو سے زائد طلبا اور طالبات کو ایم ۔فل اردو کی تعلیم دی اور پچاس کے قریب ریسرچ سکالرزنے ان کی رہنمائی میں پی ایچ۔ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے جو کہ ان کا منفرد اعزاز ہے ۔ ؎
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا تعلق ایک ممتاز علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ان کے والد ایک عالم با عمل تھے ۔پورے علاقے میں انھیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔پاکستان بھر میں اس عظیم خاندان کی شرافت، خود داری ،انسانی ہمدردی ،خلوص اور علم دوستی مسلمہ تھی ۔ حقیقت میں وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے شخص تھے ۔ان کی خاندانی روایات جو انھیں ورثے میں ملیں ان کے مطابق ان کے مزاج میں ایک استغنا تھا ۔ وہ در کسریٰ پر صدا کرنے کے قائل نہ تھے بلکہ نان جویں پر ہی گزر بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ وہ خودی کو برقرار رکھ کر غریبی میں نام پیدا کرنے کا عملی نمونہ تھے ۔مشرقی تہذیب اور اردو زبان و ادب کا اتنا بڑا شیدائی میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔تہذیب اور زبان و ادب کے اعتبار سے وہ آفاقیت کے قائل تھے ۔ان کی تربیت ہی ایسے انداز میں ہوئی تھی کہ وہ انسانی مساوات کو اولین ترجیح دیتے ۔علاقائی ،لسانی ،نسلی اور دیگر امتیازات ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔انسانیت کا وقار اور انسانی حقوق کی پاسداری زندگی بھر ان کا نصب العین رہا۔کسی کو دکھ اور تکلیف کے عالم میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور مقدور بھر کو شش کرتے کہ ان دکھوں کا مداوا کر کے آسانی کی کوئی صورت تلاش کر سکیں۔غریبوں کی حمایت ،درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ وفا کو بجھنے نہ دیتے تھے۔ان کی زندگی شمع کی صورت تھی اور وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے وقف تھی ۔
گوجر خان سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی ، لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔اپنی تدریسی زندگی کا آغازانھوں نے 1972میں پاکستان فضائیہ کے کالج چکلالہ راول پنڈی سے بحیثیت لیکچرر کیا۔یہاں انھوں نے دو سال تدریسی خدمات انجام دیں۔اس دور کی یادوں کو وہ اپنی زندگی کا بہترین اثاثہ قرار دیتے تھے ۔دو سال بعد وہ گورنمنٹ کالج گجرات میں تدریسی خدمات پر مامور ہو گئے۔انھوں نے بڑے زوروں سے اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی ،لاہور سینامور ماہرتعلیم اور ادیب صوفی غلام مصطفی تبسم کی حیات اور ادبی خدمات کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ان کا یہ تحقیقی مقالہ معیار اور وقار کی رفعت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے ۔ اعلیٰ تعلیم ان کا نصب العین تھا اس کے بعد وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج اصغر مال ،راول پنڈی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے ۔اس عرصے میں ان کی علمی اور ادبی فعالیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ راول پنڈی ا ور اس کے گرد و نواح میں منعقد ہونے والی علمی و ادبی نشستوں میں ان کی شمولیت سے ان محافل کی رونق کو چار چاند لگ جاتے اور اس طرح اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے ایک وقیع سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس عرصے میںانھیں جن ممتاز ادیبوں کے ساتھ بیٹھنے اور مل کر کام کرنے کا موقع ملا ان میں سید ضمیر جعفری ،کرنل محمد خان،بریگیڈئیر شفیق الرحمن،کیپٹن سید جعفر طاہر،محمد خالد اختر،یوسف حسن خان، خاطر غزنوی،محسن احسان، غلام محمد قاصر،غفار بابر،بشیرسیفی ،شیر افضل جعفری ،رام ریاض ،مجید امجد اورمحسن بھوپالی کے نام قابل ذکر ہیں۔راول پنڈی میں تنقیدی نشستوں کے باقاعدہ انعقاد کے سلسلے میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا نام اس کے بنیاد گزاروں میں شامل ہے ۔ان کے ادبی مضامین اور شعری تخلیقات 1960 سے شائع ہو رہی تھیں ۔انھیں ملک کے تمام ادبی حلقوں میں پذیرائی نصیب ہوئی۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اس علاقے میں علم و ادب کے فروغ کے سلسلے میںایک تڑپ پیدا کر دی اور دلوں میں ایک ولولہء تازہ پیدا کر کے اردو زبان و ادب کے شیدائیوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔گورنمنٹ کالج اصغر مال راول پنڈی میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے چار سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ان چار برسوں میں اس عظیم مادر علمی میں بزم ادب نے جو فقید المثال کامرانیاں حاصل کیں ان کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔آج بھی اس ادارے کے اعزازات میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی گراں قدر خدمات کا ممنونیت کے جذبات سے اعتراف کیا جاتا ہے ۔کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات میں اس ادارے کے طلبا نے بھر پور شرکت کی اور خیبر سے مہران تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔وہ خود ایک قادر الکلام شاعر،شعلہ بیان مقرر،بلند پایہ مضمون نگار،اور ماہر تعلیم تھے اس لیے ان کے شاگرد ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی میں بلند ترین منزلوں کی جستجو میں رواں دواں رہتے تھے ۔وہ خاک کو اکسیر کرنے اور ذرے کو آفتاب بنانے کے لیے اپنے خون جگر کی آمیزش سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے
پر قادر تھے ۔غبار راہ سے جلوہ ہا تعمیر کرنا ان کی ایسی کرامت تھی جس میں ان کا کوئی شریک اور سہیم نہ تھا۔
1978 میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچرر اردو منتخب ہوئے ۔یہاں ان کی آمد سے علمی و ادبیحلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔جمود کا خاتمہ ہوگیا اور تخلیق ادب کے
لیے فضاانتہائی ساز گار ہوگئی۔ اس دور میں پاکستان کے نامور ادیب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامورتھے ۔ان میں ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض ،پروفیسر نظیر صدیقی،ڈاکٹر محمود الرحمن، ڈکٹرسلطانہ بخش اور ڈاکٹر بشیر سیفی کے نام قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی مقناطیسی شخصیت کے اعجاز سے یہاں ایک ایسی فضا پروان چڑھنے لگی جس نے حالات کی کایا پلٹ دی اور صحرا کو گلزار میں بدل دیا گیا۔پورے ملک سے ریسرچ سکالرز اس عظیم جامعہ میں داد تحقیق دینے لگے ۔ملک کے طول و عرض سے تشنگان علم ان نا بغہ ء روزگار دانشوروں سے اکتساب فیض کرنے کے لیے ایسے دیوانہ وار یہاں آنے لگے جیسے پیاسا کنویں کی جانب آتا ہے ۔ان اساتذہ کی بے مثال شفقت اور ایثار کا ہر طالب علم معترف تھا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا گھر دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبا کے لیے مہمان خانہ بن جاتاتھا۔ مالی لحاظ سے مستحکم طلبا و طالبات تو وزارت تعلیم کے ہاسٹل یا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قیام کرتے جب کہ مجھ جیسے طالب علموں کی پسندیدہ اقامت گاہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا گھر ہی قرارپاتا۔ وہ ایک ماہر نفسیات تھے وہ دلوں کا سب احوال جانتے تھے ۔چہرہ شناسی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔وہ خود مستحق طلبا کو دعوت دے کر اپنے ہاں ٹھہراتے اور ان کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتے ۔ان کے ہاں ہر طالب علم ایک اپنائیت محسوس کرتا او رکھل کر اپنے مسائل پر گفتگو کرتا۔ان کے خلوص اور بندہ پروری نے لاکھوں دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں تمام تدریسی عملہ ،دفتری ملازمین اور درجہ چہارم کے ملازمین غرض سب ان سے والہانہ محبت کرتے ۔وہ سب کی مشکلات اور مسائل سنتے اورحتی الوسع ان کی دستگیری کرتے ۔اکثر لوگ ان کو ایسا رانجھا قرار دیتے جو سب کا سانجھا تھا۔
ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی فضیلت اور قابلیت کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔1995میں ان کا انتخاب بحیثیت پروفیسر اردو جامعہ الازہر قاہرہ ( مصر ) ہوا۔انھوں نے چار سال تک دنیا کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی تدریس میں اہم خدمات انجام دیں ۔اس عرصے میں انھوں نے عالمی سطح کے متعدد سیمینار منعقد کرائے۔اس عرصے میں فیض احمد فیض ،مجید امجد،ن۔م۔راشد، میراجی ،سعادت حسن منٹو،اشفاق احمد ،ممتاز مفتی ،قرۃ العین حیدر ،شفیق الرحمن،کرنل محمد خان اور ناصر کاظمی پر ان کا تحقیقی کا م ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی انھوں نے دنیا کے تمام ممالک میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ۔دنیا میں فاصلاتی تعلیم کے وہ سب سے بڑے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے مصر میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران میں وہ بے حد فعال اور بھر پور کردار ادا کرتے رہے ۔دنیا کی ممتاز جامعات مین اردو زبان کے ارتقا پر ان کے توسیعی لیکچرز کی بدولت اردو زبان کو بہت فائدہ پہنچا۔مصر کی ایک عرب طالبہ نے ان کی نگرانی میں اردو افسانے کے ارتقا پر پی ایچ ۔ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھا ۔دنیا کے متعد ممالک سے غیر ملکی زبان بولنے والے ان سے اردو سیکھتے اور تخلیق ادب میں ایسی جاںفشانی اور انہماک کا مظاہرہ کرتے کہ اردو زبان پر ان کی اکتسابی مہارت پر حیرت ہوتی ۔ وہ اس دردمندی اور خلوص سے شاگردوں کی صلاحیتوں کو صیقل کرتے کہ جوہر قابل نکھر کر سامنے آ جاتا۔یہ سب کچھ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی معجز نما تدریس کا کرشمہ تھا ۔انھوں نے عالمی سطح پر منعقد ہونے والے فاصلاتی نظام تعلیم کے بارے متعدد سیمینارز میں کلیدی مقالے پیش کیے ،جنھیں بے حد پذیرائی نصیب ہوئی ۔انھوں نے میٹرک سے لے کر ایم ۔اے ۔ایم فل اور پی ایچ ۔ڈی سطح کے اردو زبان کے نصاب کی تمام درسی کتب نہایت محنت اورذاتی دلچسپی سے مرتب کرائیں ۔اس وقت یہ کتب پوری دنیا میں فاصلاتی طریقہ تعلیم کے ذریعے پڑھائی جا رہی ہیں ۔اردو زبان و ادب کے فرغ کے لیے ڈاکٹر نثار احمد قر یشی کی خدمات سے اس زبان کو پوری دنیا میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ان کے بار احسان سے اردو داں اہل علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔
دنیا میں کئی طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ۔ان میں سے ایسے بہت کم ہیں جو اپنا سب کچھ وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان کے لیے وقف کر دیں ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی ایسے ہی انسان تھے ۔موجودہ دور میں فرد کی بے چہرگی اورعدم شنا خت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کو انسان شناسی میں کمال حاصل تھا۔ان کی دوستیاں لا محدود تھیں مگر کسی کے ساتھ دشمنی کے بارے میں انھوں نے کبھی نہ سوچا اورنہ ہی ان کا کوئی دشمن تھا۔ جو شخص بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا اور ان کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔وزیر آباد میں مقیم ان کے ایک شاگرد نے ان کے لیے کٹلری کا ایک بیش قیمت سیٹ لیا اور ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہا۔ڈاکٹر نثار احمدقریشی نے اس تحفے کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور یہ کہا کہ اس کو فروخت کر کے اس سے ملنے والی رقم کسی ضرورت مند گھرانے کو دے دی جائے ۔چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق اس سیٹ کی رقم وزیر آباد کی ایک مفلس اور بے سہارا بیوہ کو پہنچا دی گئی ۔ملک کے طول و عرض میں ان کے لاکھوں شاگرد موجود ہیں وہ سب اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ انھوں نے تمام عمر کی جمع پونجی اپنی شاگردوں کی فلاح پر خرچ کر دی ۔ضرورت مند طلبا و طالبات کی دامے ،در مے سخنے مدد کرنا ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ۔ وہ سب شاگردوں اور احباب کی بلا امتیاز مدد کرتے اور کبھی ان کی طرف سے احساس تشکر اور ممنونیت کی توقع نہ رکھتے ۔احسان کر کے بھول جانا ان کی عادت تھی ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے ایک پروفیسر جو کہ اسلام آباد میں ایم ۔فل کی ورکشاپ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے، صحت افزا مقام کے تفریحی دورے کا پروگرام منظور نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر نثار احمد قریشی سے الجھ پڑے۔ ڈاکٹر نثاراحمد قریشی نے ایبٹ آباد اور مری کی برف باری اور شدید دھند کی وجہ سے تفریحی دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے بہت سمجھایا مگر وہ دل ہی دل میں رنجیدہ رہا ۔دسمبر کا مہینہ تھا مری سے آنے والی برفانی ہوائوں کے باعث وہ پروفیسر صاحب شدید نمونیا کا شکار ہو گئے ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کلاس میں آئے اس کی غیر حاضری کی وجہ جان کر سخت مضطرب ہو گئے اسی وقت اپنی چھٹی کی درخواست لکھی اور شاگرد کو لے کر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد پہنچے ۔ ادویات کے تمام اخراجات خود برداشت کیے جب تک بخار کی شدت کم نہ ہوئی اس وقت تک با وضو ہو کر دعائیں مانگتے رہے ۔تین گھنٹے کے بعد جب شاگرد اٹھا تو استاد کو سجدہء شکر میں پایا۔وہ فرط عقیدت سے بے قابو ہو کر آگے بڑھا اور استا دکے قدموں میں گر پڑا ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی اس سے لپٹ کر رونے لگے اور کہا میدانی علاقے کے باشندے پہاڑی علاقوں کی شدید سردی برداشت نہیں سکتے اسی لیے میں نے تفریحی دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔اس شاگرد کو اپنی شدید غلطی کا احساس ہو چکا تھا ۔اس نے معافی کی استدعا کی تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے مسکرا کر کہا ــ’’اللہ کریم آپ سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے ‘‘۔سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی دوسروں کے لیے آسانیاں تلاش کرتے کرتے بعض اوقات خود کو مشکلوں میں ڈال دیتے ۔ ان کی زندگی اسی کشمکش میں گزری کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی ۔اس کے باوجود ان کے چہرے پر کبھی گرد ملال کسی نے نہ دیکھی۔دنیا میں خیر اور فلاح کا نظام ایسے ہی نیک انسانوں کے وجو د کا مرہون منت ہے ۔
ڈاکٹر نثار احمد قریشی راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے ۔ ہر قسم کی عصبیت اور فرقہ وارانہ تعصب سے انھیں شدید نفرت تھی ۔ انھوں نے چار مرتبہ فریضہ حج کی سعادت حاصل کی اور چار مرتبہ رمضان المبارک
کے مہینے میں عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہوئے ۔ عمر ہ کے دوران ماہ صیام کے آخری عشرے میں وہ مسجد نبوی اعتکاف میں بیٹھتے اور ہر تیسرے روز وہ قرآن حکیم کی مکمل تلاوت کر لیتے ۔ان کی نیکیوں اور عبادات سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں ۔اصل معا ملہ یہ ہے کہ وہ اک شان استغنا سے متمتع تھے ۔نمود و نمائش اور ریا کاری سے ان کو چڑ تھی۔وہ پابند صوم و صلوتہ تھے ۔ہر روز وہ نماز تہجد اسلام آباد کی فیصل مسجد میں
ادا کرتے ۔اپنی رہائش گاہ سے مسجد تک کا فاصلہ جو قریبا ایک کلو میٹر ہے وہ روزانہ پیدل طے کرتے۔یہی ان کی ورزش تھی اور اسی کو وہ صبح کی سیر پر محمول کرتے تھے ۔نیکی اور صحت کا یہ حسین امتزاج ان کی شخصیت کو مسحورکن بنا دیتا تھا۔وہ با وضو ہو کر اپنے دفتر میں بیٹھتے نہایت مستعدی اور فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ۔ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور احساس ذمہ داری کو سب تسلیم کرتے تھے۔ان کے دفتر میں دعوتوں اور ضیافتوں کا تصور ہی نہ تھا ۔فارغ وقت میں درود پاک اور آیات قرآن حکیم کی تسبیح پڑھتے۔ ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث عمومی اعتبار سے بے حسی کا شکار ہے کسی کے بارے میں کلمہء خیر ادا کرنے میں بالعموم تامل سے کام لیا جاتا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ حسد اور بغض و عناد کے باعث بعض کینہ پرور لوگ بلا وجہ بھی درپئے آزار ہو جاتے ہیں ۔ان اعصاب شکن حالات میں وہ ایسے وقت گزارتے جیسے بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے ۔ وہ سب کے لیے فیض رساں تھے جو لوگ ضرر رساں ہوتے ان سے ہمیشہ دور رہتے یہاں تک کہ ان سے سرسری ملاقات میں بھی اکثر تامل کرتے تا ہم کسی کے خلاف کوئی رد عمل کبھی ظاہر نہ کرتے البتہ قرآن حکیم کی سورۃ الناس اور سورۃ ا لفلق کا کثرت سے ورد کرتے ۔ان کا برتائو سب کے ساتھ ہمدردانہ اور مشفقانہ رہا کسی کو محض ذاتی رنجش کی بنا پر انھوں نے کبھی ہدف تنقید نہ بنایا۔وہ احباب کی خوبیوں پر نظر رکھتے اور ان کو جی بھر کر سراہتے اگر کسی کی کوئی خامی انھیں معلوم ہوتی تو اسے تنہائی میں سمجھاتے اور دلائل سے قائل کرتے، تحکمانہ لہجہ کبھی اختیار نہ کیا بلکہ ہمیشہ عجز و انکسار کی روش اپنائی ۔کسی کی غیبت نہ کرتے اگر کوئی ان کی موجودگی میں کسی کی غیبت کرتا تو سختی سے اس کی ممانعت کرتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی زندگی کے بیش تر مسائل اور فسادات کا بنیادی سبب غیبت ہی ہے ۔ ان کی محفل میں جب کوئی نا دانستہ طور پر بھی کسی کے عیوب خواہ وہ حقیقی بھی ہوتے ان کے سامنے بیان کرتا تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اوروہ نہایت ناگواری سے اسے ٹوکتے اور اکثر یہ مصرع پڑھتے:
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ڈاکٹر نثار احمد قریشی سال 2001 ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ اردو کے صدر مقر ر ہوئے۔اس کے بعد سال 2005 ء میں انھیں ڈین آف آرٹس کے منصب پر فائز کیا گیا۔اپنی خدادا صلاحیتوں اور وسیع تجربہ کو بروئے کا رلاتے ہوئے آپ نے اس یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کو ملک کی یونیورسٹیوں میں ممتاز مقام عطا کیا ۔اس طرح اس جامعہ کو ملک بھر کی جامعات کی رینکنگ میں بہت آگے پہنچانے کی مساعی کو تقویت ملی۔عالمی جامعات کی رینکنگ میں بھی اس عظیم مادر علمی کو ممتاز اور منفرد مقام نصیب ہوا۔یہ سب کامرانیاں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی ولولہ انگیز قیادت اورفقید المثال تدبر کا ثمر ہیں ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تاریخ میں جس طرح ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی ،ادبی اور تدریسی خدمات کا اندرن ملک اور بیرون ملک ہر سطح پر اعتراف کیا گیااور ان کے اعزاز میں پر وقار تقریبات کے انعقاد سے ان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ،اس سے قبل ایسی کوئی تابندہ روایت موجود نہ تھی۔انھوں نے اس عرصے میں متعد سیمینارز کا اہتمام کیا جن میں ممتاز ماہرین لسانیات ،دانش ور،ادیب ،محقق ،اساتذہ ،فلسفی ،ماہرین نفسیات اور نقاد شامل ہوئے۔اب جامعہ کے ڈھنگ ہی نرالے تھے کہیں ادبی نشستیں منعقد ہو رہی تھیں اور کہیں ڈرامہ فیسٹیول کا اہتمام ہو رہا تھا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے تعلیمی نظام میں پائے جانے والی تشکیک ،بے یقینی ،بے عملی اور جمود کو رفع کرنے کی خاطر جو لائق صد رشک و تحسین جدو جہد کی عالمی سطح پر اسے بہ نظرِتحسین دیکھا گیا۔ ان کی طلسمی شخصیت ، مشفقانہ طرز عمل ، تبحر علمی اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی تاریخ میں آرٹس کے شعبے میں اس قدر چہل پہل اس سے قبل کبھی نہ دیکھی گئی اور اب ان کی وفات کے بعد شعبہ آرٹس حسرت و یاس کی تصویر نظر آتا ہے ۔فیض ا حمد فیض کا یہ شعر بے ساختہ لبوں پر آجاتا ہے ؎
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
پاکستان میں اورپاکستان سے باہر رہنے والے دانشوروں سے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے قریبی تعلقات تھے ۔ممتاز فرانسیسی دانشور دریدا a) (Derrid اور ماہر بشریا ت کلاڈ لیوی سٹراس سے وہ مل چکے تھے ان کے نظریات کے بارے ان سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد جب وہ رد تشکیل ،جدیدیت ،مابعد جدیدت ،ساختیات اور پس ساختیات کے بارے میں تجزیہ پیش کرتے تو فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ دریا کی روانی کے مانند دلائل کا سیل رواں ہے جو جہالت کو خس و خاشاک کی صورت بہائے لیے جا رہا ہے۔جب و ہ تقریر شروع کرتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے ۔ تقریر کی اثر آفرینی کا یہ عالم ہوتا کہ جو کچھ وہ کہتے وہ قلب و روح کی گہرائیوں میں سما جاتا۔ان کی بات دل سے نکلتی اور دل میں اترتی چلی جاتی اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ۔ان کے لیکچرز اگر کتابی صورت میں شائع ہو جائیں تو یہ بہت بڑی علمی خدمت ہو گی ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی طرف سے اب تک اردو کی جتنی نصابی کتب شائع ہوئی ہیں ا ن میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے معرکہ آرا تحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں جہاں اردو کی تدریس جاری ہے وہاں یہ کتب بے حد مقبول ہیں۔ درسی کتب کے علاوہ ان کی تحقیقی اور تنقیدی کتب کی تعداد بیس کے قریب ہے۔ان کی کتاب ’’ دنیا جن سے روشن ہے ‘‘ بے حد مقبول ہوئی ۔اس تالیف میں انھوں نے نامور شخصیات سے ان کے پسند یدہ اساتذہ کے سوانحی خاکے لکھوائے ۔یہ سب خاکے ان نابغہ روزگار اساتذہ کے بارے میں لکھے گئے ہیں جن کے فیضان نظر سے نوع انساں کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔زندگی کی معنویت اور مقصدیت کو اجاگر کرنے میں یہ کتاب ایک گنج گرانمایہ ہے۔اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی حیات اور خدمات پر ان کی تحقیقی کتاب اس کی درخشاں مثال ہے ۔وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے اپنے فنی تجربات کے ذریعے وہ نئے امکانات کی جستجو میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے۔ ان کا لہجہ اور اسلوب ندرت ،تازگی اور تنوع کا مظہر تھا۔ اس وقت اردو زبان و ادب کی تدریس کا سلسلہ پوری دنیا میں روز افزوں ہے اس کی بنیاد میں بلا شبہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی محنت شاقہ اور خون جگرکی آمیزش موجود ہے ۔اردو زبان و ادب اس وقت افلاک کی وسعتوں سے آشنا ہے اس ارفع مقام تک رسائی کے کٹھن مرحلے میں اسے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی بے لوث اور دانشورانہ اعانت نصیب رہی ہے ۔اس شمع کو فروزا ں رکھنے میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ،ان کی بدولت جریدہء عالم پر ان کا نام تا ابد نمایاں طور پر ثبت رہے گا۔
ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی میں مذہب کو بہت اہم مقام حاصل رہا۔عبادات اور عقائد کو وہ ہمیشہ کلیدی مقام کا حامل سمجھتے ۔سیمینارز ،تقریبات،کلاسز،ادبی محافل اور مشاعر وں میں بھی وہ نماز کے لیے وقفہ ضرور رکھتے اور یہ کوشش کرتے کہ تمام حاضرین با جماعت نماز پڑھیں۔جب وہ اپنے شاگردوں کے جھرمٹ میں مسجد میں درس قرآن دیتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ماہتاب اور ستاروں کی ایک کہکشاں بن گئی
ہے جو ظلمتوں کو کافور کرنے کی سعی میں انہماک سے مصروف عمل ہے ۔وہ الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی ذہنی اور روحانی کیفیات سے سامعین کو مسحور کر دیتے ۔تاریخ کو وہ ایک مسلسل عمل سے تعبیر کرتے اور اسے تہذیبی بالیدگی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ۔وہ تاریخ اسلام کے ذریعے نئی نسل کو اسلام کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کی سعی کرتے تھے ۔ان کا استدلال یہ تھا کہ تہذیب اورتمدن کی نشو و ارتقا اور بالیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ عصری آگہی کو فرو غ دیا جائے اور اقتضائے وقت کے مطابق ہر قسم کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے خود کو تیار رکھا جائے ۔قرآن حکیم کی تعلیمات کو وہ بہت اہم قرار دیتے اور اس بات کی جانب توجہ دلاتے کہ یہ الہامی کتاب تمام بنی نوع انساں کے لیے پیام نو بہار ہے ۔اپنے آبا و اجداد کی تحریک پاکستان میں خدمات اور معاشرتی زندگی کو راہ راست پر لانے کی انتھک جدوجہد کے
بارے میں تما م حقیقی واقعات وہ بڑے انکسار سے بیان کرتے ۔ اپنے خاندان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیںبجا طور پر ناز تھا ۔اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو لائق اعتذار نہیں سمجھتے تھے کہ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے ،جس نے اپنی محنت اور لگن سے اپنے لیے رزق حلال کے مواقع پیدا کیے ۔ماضی اور حال کے بارے میں غور و فکر سے وہ اپنے شاگردوں کے ذہنوں کو جلا بخشتے اور استعداد کار کو مہمیز کرتے۔ حریت فکر و عمل اور آزادیء اظہار کو وہ انسانی آزادی کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے حقیقی آزادی کا احساس وہ گوہر یکتا ہے جو شعور اور ذہن کے ارتقا کے لیے لازمی ہے اور اسی کے اعجاز سے مقاصد زیست کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کیا جا سکتا ہے ۔وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ فطرت جس طرح لالے کی حنا بندی کرتی ہے اس کے تہذیب ومعاشرت اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوئوں پر پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔فطرت کی تمنا یہ ہے کہ ہر شب کو سحر کرنے کی سعی کی جائے۔ منشائے قدرت اور رمز مسلمانی بھی یہی ہے کہ بنی نوع انساں کو ایسی تہذیب سے متمتع کیا جائے کہ اس کا وجود پوری تابانی کے ساتھ برقرار رہے اور ہر رنگ میں اس کے وجود کا اثبات سامنے آئے۔
ڈاکٹر نثاراحمد قریشی انتہائی وضع دار ،شریف اور خوش اخلاق انسان تھے ۔یہاں تک کہ تمام وضیع بھی ان سے خائف رہتے۔وہ اکثر کہا کرتے روزمرہ معمولات میں ملاقاتیوں کے ساتھ حسن سلوک اور خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی ایک نیکی ہے جس کا اجر اللہ کریم کی بارگاہ سے ضرور ملتا ہے ۔یہ ایک ایسی نیکی ہے جس کے لیے چلہ کشی یا کسی بڑی تپسیا کی ضرورت نہیں ۔درد آشنا لوگوں کے لیے اس کے فراواں مواقع تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت سامنے آتے ہیں ۔حیف صد حیف کہ اکثر لوگ خلوص،دردمندی اور ایثار سے عاری ہونے کے باعث اس نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ہوس نے نوع انساں کو جس انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اس کے باعث ایسی نیکیوں سے لوگوں نے شپرانہ چشم پوشی کو شعار بنا لیا ہے ۔زندگی آرزوئوں،امنگوں اور تمناوئں کے ایک لا محدود اور غیرمختتم سلسلے کا نام ہے۔ ان حالات میں میں بھی دل بینا رکھنے والے اپنے لیے ایک الگ راہ کا تعین کر لیتے ہیں ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی قناعت ،استغنا اور خود داری کی درخشاں مثال تھی ۔آپ نے اپنی خواہشات کو ہمیشہ اعتدال اور توازن میں رکھا اس لیے وہ ایام کے مرکب نہیں بلکہ راکب تھے ۔ان کی شخصیت کی عطر بیزی اور اور سدا بہار شگفتگی کا راز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ احتیاط سے کام لیتے اور دانش مندانہ ذاتی رائے کی روشنی میں فیصلے کرتے ۔وہ متلون مزاج لوگوں کو ناپسند کرتے تھے ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے تما م پہلو پیش نظررکھتے اور حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں ایک مضبوط اور مستحکم انداز میں رائے قائم کر تے ۔اس کے بعد اس پر نہایت استقامت کے ساتھ قائم رہتے اور ہر قسم کی آزمائش سے گزرنے پر تیار ہو جاتے ۔ کورانہ تقلیدی تصورات کو انھوں نے ہمیشہ مسترد کیا اور جہان تازہ کی جستجو پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔
اللہ کریم نے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کو اطاعت خداوندی ،ضبط نفس ،تحمل ،بردباری اور توازن کی فراواں دولت عطا کی تھی ان کے ذوق سلیم اور عمدہ صفات کا ایک عالم معترف تھا ۔زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ میں انھوں نے گہری دلچسپی لی ۔انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے وہ قلم کی حرمت پر اصرار کرتے تھے ۔ایک نکتہ طراز نقاد کی حیثیت سے انھوںنے نہ صرف ادب کی اہمیت اور ا فادیت کو نہایت خلوص کے ساتھ اجا گر کیا بلکہ ادیب کی عزت نفس،اور قدر و منزلت اور معاشرتی حیثیت کو تسلیم کرنے کی جانب توجہ دلائی ۔جذبہء انسانیت نوازی کا جو بلند معیار ان کی شخصیت میں موجود تھا موجودہ زمانے میں عنقا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انساں کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف تھا۔اپنی تحریروں میں وہ ارتباط و تعمیم کی ایک مسحور کن دلکش فضا پیدا کر لیتے تھے۔ جب وہ اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو پیرایہء اظہار عطا کرتے تو قاری ان کے اسلوب کا گرویدہ ہو جاتا۔اسے یہ محسوس ہوتا کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے سے اس کے دل میں موجود تھا۔فکر و نظر کی صحیح سمت،حق گوئی و بے باکی تخیلات کی تونگری ،مشاہدات کی ندرت ،اسلوب کی انفرادیت اور مقاصد کی حکمت کے حسین امتزاج سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ۔اس طرح ان کی تحریریں روح کی تفسیریں بن کرسامنے آتیں اور پتھروں کو بھی موم کر دیتیں ۔ان کے تمام معمولات ،قول و فعل اور گفتار و کردار میں ان کی شخصیت کے دھنک رنگ پہلو صاف دکھائی دیتے تھے ۔
عادات اور ارادی اعمال کی تنظیم وہ اس انداز میں کرتے کہ سیر ت اور کردار میں نکھار پیدا ہو جاتا۔ان کا خیال تھا کہ وہ تمام عادات و افعال جو آغاز کار کے وقت شعوری اور اختیاری صورت میں رو بہ عمل لائے جاتے ہیں بالآخر وہی انسان کی سیرت اور کردار کے روپ میں جلوہ گر ہو کر اس کی شناخت کا وسیلہ بن جاتے ہیں سیرت کو وہ کردار کے باطنی پہلو کا نام دیتے تھے ۔سیرت اور کردار کی تعمیر میں وہ معاشرے اور سماج کو بہت اہم خیال کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ حلقہء احباب کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ان کی پہچان ان کی صحبت سے کی جا سکتی ہے ۔ان کے حلقہء احباب میں دنیا کے ممتاز ادیب ،دانشور ،نقاد ،محقق اور فلسفی شامل تھے ۔وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ثبوت اور ناقدانہ بصیرت کے ذریعے فرد کی عدم شناخت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ا نھوں نے زمانہ حال اور ماضی کے اہم واقعات اور نشانیوں کو بہت اہم گردانتے ہوئے ان کے تحفظ کی تلقین کی ۔ان کی تحریریں جہاں تک مواد کا تعلق ہے ،اجتماعی نوعیت کی ہیں مگر تخلیقی اسلوب کے لحاظ سے ان کی انفرادیت مسلمہ ہے ۔ان کی شخصیت کا ایک واضح پرتو ان کے اسلوب میں پرتو فگن ہے جو انھیں اپنے معاصر اہل قلم سے ممیز کرتا ہے ۔وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنا اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے ۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اور کسی مصلحت کے تحت کلمہء حق ادا کرنے سے گریز کرنا ان کے نزدیک منافقت اورریا کاری کی قبیح مثال ہے ۔ظلم کو برداشت کرنا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنا ان کے نزدیک بہت اہانت آمیز رویہ ہے ۔اپنی تمام زندگی میں انھوں نے کبھی کسی باب رعایت سے داخل ہونے کی کوشش نہ کی ۔وہ میرٹ کے زبردست حامی تھے ۔انھوں نے تعلیمی زندگی میں میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر کوشش کی اور کبھی کسی سفارش یا پرچی پر دھیان نہ دیا۔اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہاں ؟
موت کے جانکاہ صدمے اور اس کے نا قابل اندمال چرکے ازل سے انسان کے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں ۔موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے آج وہ تو اس کے بعد کل ہماری باری ہے ۔یاں تو سب یار کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔رخش عمر مسلسل رو میں ہے ،کسی کو کیا معلوم کہ یہ کہاں تھمے گا ؟انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ہے ۔بنی نوع انساںکے مقدر میں یہ
روح فرسا المیہ لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا ہے کہ تمام نفوس فنا کی زد میں آ کر رہیں گے اور بقا صرف اللہ کریم کی ذات کو ہے ۔یہ معمہ ایسا ہے جو نہ سمجھ میں آتاہے اور نہ ہی کوئی دانائے راز اس کی گرہ کشائی کر سکا ہے کہ وہ لوگ جو سفاک ظلمتو ںمیں ستارہء سحر کے مانند ضو فشاں رہتے ہیں ،جن کا وجود انسانیت کی فلاح ،مسرت اور وقار کے لیے عطیہ ء خداوندی ہوتا ہے ،جن کی زندگی کا مقصد دردمندوں اور ضعیفوں سے محبت کرنا ہوتا ہے ،جو ایک شجر سایہ دار کے مانند ہوتے ہیں کہ خود سورج کی جھلسا دینے والی گرمی برداشت کرتے ہیں مگر دکھی انسانیت کو خنک چھائوں فراہم کرتے ہیں اچانک اور وقت سے پہلے ہم ان کی رفاقت سے کیوں محروم ہو جاتے ہیں ۔اجل کے ہاتھ ایسے عطر بیز گلستانوں کو ویران کیوں کر دیتے ہیں ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی اچانک وفات نے دل دہلا دیا ،مایوسی اور محرومی کی جان لیوا کیفیت میں کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ
ہی جانگسل تنہائی کی عقوبت سے بچ نکلنے کی کوئی صور ت نظر آتی ہے ۔زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی تفہیم پر کون قادر ہے ۔ فرشتہ ء اجل ان چارہ گروں اور مسیحا صفت لوگوں کو ہم سے مستقل طور پر جدا کر دیتا ہے جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے وہ ہمیں دائمی مفارقت دے کر ہمیں اس دھوپ بھری دنیا میں بے یار و مدد گار چھوڑ کر کر چلے جاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد گل چین ازل ہمیں ان کی دائمی مفارقت دے کر آہوں ،آنسووئں اور سسکیوں کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے ۔اس وقت جب کہ ہم اپنے ایک عظیم استاد سے محروم ہو چکے ہیں ہماری بے بسی اور بے چارگی کا احساس کون کرے گا اور کون یہ کیفیت دیکھے گا ۔مجید امجد کے یہ اشعار حقیقی صورت حال کے غماز ہیں ؎
کون دیکھے گا
جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوںمیں اس اک دن کو کون دیکھے گا
اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انہی دنوںکی تہوں میں ہے ، کون دیکھے گا
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کو ن دیکھتا ہے
میںجب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیںکو ن جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
ڈاکٹر نثار احمد قریشی اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ان کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے لیے ان کے لاکھوں شاگرد اور کروڑوں مداح تقدیر کے لگائے ہوئے زخموں کے باوجود زندہ ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ یہ زندگی اب ایک مستقل محرومی کے سوا کچھ نہیں رہی۔