ارشد خالد کے ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نمبر کے شائع ہونے کے بعد سے لے کر اب تک نارنگ صاحب نے اپنے سرقوں کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا،کوئی وضاحت نہیں کی۔البتہ نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد ان کے سرقوں کا ایک مجموعی تاثرجو نمایاں ہوا ہے تو اس اثرکو زائل کرنے کے لیے نارنگ صاحب کے بعض دوستوں نے ایک ہی وقت میں بیک وقت مجھے اور ارشد خالد کو نشانہ بنانے کی کاوش کی۔غیر ضروری اور غیر علمی شور شرابہ کی جو کاروائی کی گئی اور پھر جیسے یک دم خاموشی اختیار کر لی گئی،اس کی تفصیل بعد میں۔پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ نارنگ صاحب کے سرقوں کے حوالہ سے ان کے سارے حامی آن ریکارڈ بھی اور آف دی ریکارڈ بھی دو تاثر دے کر ان کے سرقوں سے توجہ ہٹانے کا کام کر رہے ہیں۔ایک تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ قضیہ در اصل نارنگ و فاروقی جھگڑے ہی کا ایک حصہ ہے۔یہ انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے۔نارنگ صاحب کی کتاب ’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے سرقوں کی نشان دہی کرنے والے پہلے مضمون سے لے کر چوتھے مضمون کی اشاعت تک (یہ چاروں مضامین نارنگ نمبر میں یکجا کر دئیے گئے ہیں)،فاروقی صاحب کہیں بھی نہیں ہیں۔اسے ایک نامناسب مفروضہ کے طور پر موضوع بنا لیا جائے کہ فاروقی صاحب اس میں کہیں موجود ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شمس الرحمن فاروقی صاحب نے نارنگ صاحب کو اکسایا تھا کہ وہ حالیؔ کے بعد تھیوری کی دنیا میں انقلابی کردار ادا کرنے کے لیے اتنا بڑا علمی و ادبی ڈاکہ مار لیں۔ڈاکٹر نارنگ کی سرقوں کے معاملہ میں خاموشی ’’مجرمانہ خاموشی‘‘ بن چکی ہے۔اس میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا کہیں بھی کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ہاں اب جب یہ سارا کچھ سامنے آگیا ہے تو اردو ادب کا ہر بہی خواہ اس میں دلچسپی تو بہر حال لے گا۔ فاروقی صاحب سمیت سارے اہلِ علم کو اب کھل کر ان سرقوں پر اظہارِ خیال کرنا چاہیے۔
دوسرا تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ در اصل مسلمانوں کی فرقہ پرستی ہے جو اردو کے ہندو ادیبوں کے خلاف محاذ بنا کر ہندو مسلم تنازعہ پیدا کر رہے ہیں۔قطع نظر اس سے کہ مجھ گنہگار کا معاملہ ویسے ہی یوں ہے کہ
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
میرے نزدیک صرف ادبی سچائی محترم ہے۔میں نام کی بجائے ادبی کام کی اہمیت کو مانتا ہوں۔اس معاملہ میں کسی کا کوئی بھی مذہبی عقیدہ ادبی سچائی کے اعتراف میں روک نہیں بن سکتا۔میں جوگندر پال جی کا نہ صرف معترف ہوں بلکہ ان کا ایک بڑا مداح ہوں۔میرے نزدیک جوگندر پال اردو فکشن کا بہت بڑا نام ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے انہیں متعدد بار نظر انداز کیا ہے لیکن اس کے باوجود جوگندر پال تخلیقی سطح پر اتنے بڑے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں گوپی چند نارنگ صاحب کا نام لینا بھی مناسب نہیں ہے۔میں نے جدید ادب خانپور کا جوگندر پال نمبر سال ۱۹۸۵ء میں شائع کیا تھا۔سو میرے لیے کسی کا عقیدہ نہیں اس کا علمی و ادبی کام اہم ہے۔اسی طرح جب اردو ماہیے کی بحث میں چراغ حسن حسرتؔ کے مقابلہ میں ہمت رائے شرما جی کا نام سامنے آیا اور ٹھوس حقائق و شواہد دستیاب ہوگئے تو میں نے کسی جھجھک کے بغیر ۱۹۹۹ء میں اپنی کتاب’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ شائع کر دی۔چراغ حسن حسرت کے مقابلہ میں ہمت رائے شرما کو فوقیت دینے پر مجھے ایسی گالیاں سننا پڑیں کہ ماہیے کی یہ بحث کافروں کی سازش ہے۔لیکن میں نے ایسی بے ہودہ باتوں کی پرواہ نہیں کی۔ میرے مضامین کا مجموعہ’’ حاصلِ مطالعہ‘‘ شائع ہوا تو اس میں ہمت رائے شرما اور جوگندر پال کے فن کی مختلف جہات پر میرے آٹھ مضامین شامل ہیں۔دیوندر اسر کے ایک ناولٹ اور ایک افسانوی مجموعہ پر میرے تاثرات شامل ہیں۔سو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے دفاع میں مجھ گنہگار کے سامنے ہندو مسلم والا مسئلہ بالکل بے معنی ہے۔یہ علمی زبان میں صرف اور صرف سارق اور اوریجنل کا مسئلہ ہے۔ جبکہ نارنگ صاحب نے تو اتنا بڑا ڈاکہ مارا ہے کہ سارق کا لفظ بھی ان کے لیے چھوٹا پڑ گیا ہے۔
مجھے متعدد ہندو دوستوں کی طرف سے بھی ڈاکٹر نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی پر توصیفی یا ہمت افزائی والی ای میلز مل رہی ہیں۔خصوصاَ انگریزی پریس میں اس کی کچھ روداد سامنے آنے کے بعد تو کئی ایسے ہندو دوست بھی رابطہ کر رہے ہیں جو اردو نہیں جانتے اور انگریزی میں یہ سب پڑھ کر حیران ہو رہے ہیں۔ہندو دوستوں کی طرف سے ملنے والی پذیرائی کے ثبوت کے طور پر صرف آج یکم اگست ۲۰۰۹ء ہی کی تاریخ کو ملنے والی جگدیش پرکاش کی ای میل یہاں پیش کر رہا ہوں۔
Dear Mr. Qureshi,
Thanks for drawing attention to this thought provoking article by Prof.Naeem.
I never knew that an eminent Urdu scholar of the repute(??) of Dr. Narang should be indulging in this kind of reprehensible act of plagairism and getting an award for the same.
I remember a case when Mr.Narayanan, once an editor of daily ” Hindustan Times” who lifted pasages from another author’s artilces and published as his own was summarily dismissed from the editorship and has since receded into oblivion.
Knowledge is any one person’s monopoly but if you rely on someone else’s views of opinion, you must gracefully acknowledge it and never pass on as your own original work.
Jagdish Prakash
اس طرح کا ردِ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ یہ خالصتاَ علمی و ادبی سرقہ کا معاملہ ہے اور اس کا کسی،مذہب،کسی مسلک،کسی دھرم سے کوئی واسطہ نہیں۔نارنگ صاحب کے احباب ان کی چوری کو چھپانے کے لیے فرقہ پرستی کی آڑلینا چاہ رہے ہیں۔جبکہ اپنی ’’سرقہ پرستی‘‘ کے تحفظ کے لیے فرقہ پرستی کا ’’کارِ خیر‘‘ بھی نارنگ صاحب کے حلقہ کی طرف سے ہی کیا گیا ہے۔نصرت ظہیر صاحب نے اپنے’’ ادب ساز‘‘ میں جو اخلاق اور تہذیب سے گری ہوئی زبان والا مضمون شائع کیا تھا،جس کے نتیجہ میں عکاس کا نارنگ نمبر اتنی جلد شائع کیا گیا ۔اس مضمون میں زبان کی غلاظت اور بے دلیل دفاع سے قطع نظر عمران شاہد بھنڈر کو احمدی قرار دینا بجائے خود ایک سفید جھوٹ اور مذہبی اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں تھا۔اگر وہ احمدی ہوتے تب بھی نارنگ صاحب کے سرقوں کے دفاع کا یہ حربہ نہایت گھٹیا حربہ ہوتا۔سو فرقہ پرستی کا طوق بھی اسی قبیلہ کی گردن میں موجود ہے۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ۲۶جون ۲۰۰۹ء سے لے کر۲جولائی ۲۰۰۹ء تک ایک خاص مہم کے طورعکاس کے مدیر ارشد خالد صاحب کو اور مجھے پورے تال میل کے ساتھ غیر ضروری باتوں میں الجھانے کی شرارت کی گئی اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ نارنگ صاحب کے اشارۂ ابرو پر کیا گیا۔مجھے ای میل کے ذریعے کی گئی اپنی ساری خط و کتابت برادرم ارشد خالد نے فراہم کر دی ہے،تاہم انہوں نے ایک حد تک ان کے حوالے دینے کی اجازت دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ خوداس ساری خط و کتابت کی روداد اور اپنا جواب عکاس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔سو میں ان کی دی ہوئی حد کے مطابق یہاں ان ای میلز کا ذکر کروں گا۔ تاہم سب کا سیاق و سباق اور نفسِ مضمون مستحکم ہو گا اس کی میں مکمل ذمہ داری لیتا ہوں۔
۲۶جون کو ارشد خالد کوای میل کے ذریعے لندن کے فارسی سے چوریاں کرکے نقاد بننے والے اور ’’واہی تباہی‘‘بکنے کی شہرت رکھنے والے غلیظ شخص نے ایک ہندو عورت کے نام کی آئی ۔ڈی سے اپنا مضمون بھیجا۔وہ میل نہیں کھلی۔فائل دوبارہ بھیجی گئی۔۲۸جون کو نئی میل کی فائل کھلی تو ارشد خالد نے انہیں فوری طور پر یہ ای میل بھیجی۔
’’مضمون مل گیا اور دیکھ بھی لیا۔اس مضمون میں سے بعض زیادہ بے ہودہ حصے حذف کرکے اور عنوان بھی تبدیل کرکے اسے انڈیا میں ڈاکٹر نارنگ کے ایک دوست چھاپ چکے ہیں۔کیا ا س میں نارنگ پر سرقوں کے الزام کا رد کرنے کے لیے آپ نے کوئی ایک بھی دلیل یا ثبوت فراہم کیا ہے؟میں جہالت کے فروغ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔سرقوں کے رد میں کوئی دلیل لائیے۔گالیاں دینے اور بد زبانی کرنے سے سرقوں کا رد نہیں ہو جاتا۔آپ نے نارنگ کا کیا دفاع کرنا ہے۔پہلے آپ ’’پرواز‘‘لندن اپریل ۲۰۰۲ء میں چھپنے والے مضمون ’’ادب کے کھیپیے‘‘کا علمی جواب لکھ کر اپنی صفائی دیں۔میں وہ مضمون آپ کے جواب کے ساتھ چھاپ دوں گا۔ورنہ ایک ہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ نارنگ صاحب بھی چور اور ان کے سارے آپ جیسے ساتھی بھی چور۔اور ہاں یہ آپ کے ای میل آئی ۔ڈی میں آپ کے نام کی بجائے کسی ہندو عورت کے نام کا کیا مطلب ہے؟ ضرور بتائیے گا۔آپ کا خیر خواہ ارشد خالد‘‘
اس کا جواب اس فارسی چور نے اپنے نام سے نہیں دیابلکہ اس ہندو عورت کی طرف سے ایک اوٹ پٹانگ سا خط بھیج دیا۔اس معاملہ کی ساری تفصیل اور مزید دلچسپ حقائق ارشد خالد خود لکھنا چاہتے ہیں،اس لیے میں اپنی توجہ اصل موضوع تک ہی رکھتا ہوں۔ارشد خالد کی ۲۸ جون ۲۰۰۹ء کی مذکورہ ای میل کے تین دن بعد یکایک انہیں ستیہ پال آنند صاحب کی جانب سے ایک حیران کن ای میل ملی۔یہ ساری الیکڑانک خط و کتابت صرف ایک ہندو خاتون کی آئی ڈی کی آڑ میں لندن کے چور نقاداور ارشد خالد کے درمیان تھی۔ستیہ پال آنند تین دن کے بعد کیسے اس معاملہ میں آ ٹپکے۔قارئین خود اندازہ کر سکتے ہیں۔لندن کے ’’واہی تباہی‘‘بکنے والے چور نقاد کے کہنے پر وہ کبھی اتنی بڑی حماقت نہیں کر سکتے تھے۔لازمی طور پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ان سے ذاتی طور پر اس معاملہ میں دخل دینے کے لیے کہا اور وہ نارنگ کی محبت میں اس غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے۔
ستیہ پال آنند صاحب کی پہلی ای میل کے جواب میں ارشد خالد صاحب نے انہیں لکھا کہ میں لندن کے چور نقاد کی ساری مراسلت کے ساتھ آپ کا خط بھی عکاس کے اگلے شمارہ میں شامل کر رہا ہوں۔اس پر یکم جولائی کو ارشد خالد کے نام ستیہ پال آنند صاحب کی ای میل آ گئی۔
’’مجھے کچھ وقت دیں بھائی جان! کہ میں اس معاملے کی تہہ تک پہنچ سکوں۔جلد بازی کرتے ہوئے میرا مراسلہ اور اپنا جواب شامل اشاعت نہ کریں۔میری رائے اگر آپ کو پسند آئے تو آپ مجھے صرف دوسطریں لکھ دیں۔مجھے آپ سے کوئی خدا واسطے کا بیر نہیں ہے۔میں نے آج تک خود کو ان بکھیڑوں سے دور رکھا ہے۔اور اب بھی رکھنا چاہتا ہوں۔مجھے اپنے دشمنوں میں شمار نہ کریں۔آپ کا خیر اندیش ستیہ پال آنند۔‘‘
دو دن کے انتظار کے بعدتین جولائی کو ارشد خالد صاحب نے ستیہ پال آنند صاحب کو پھر توجہ دلائی اور لکھا:
’’آنند صاحب! امید ہے اب تک معاملہ کی تہہ تک پہنچ گئے ہوں گے۔آپ کی ای میل کا منتظر ہوں۔ایک ان پیج فائل اور ایک اخبار کا تراشہ اٹیچ ہے۔ارشد خالد‘‘
اس کے جواب میں تین جولائی کو ہی ستیہ پال آنند صاحب کی جانب سے یہ جوابی ای میل آئی۔
Bhai jaan: aadab. This is only in my personal context please. I have no quarrel with you. So, let’s forget and forgive. Nothing is to appear in press. 7 9years old that I am, I have always been an uncontroversial literary figure and want to remain so, a friend to all, till my last breath. Satyapal Anand
حقیقت یہ ہے کہ ستیہ پال آنند صاحب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے انکشاف کی حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔لیکن کہیں نارنگ صاحب کی محبت میں کچھ out of the wayکر بیٹھے ہیں۔یہاں ستیہ پال آنند صاحب کے میرے نام لکھے گئے ۳۰جنوری ۲۰۰۹ء کے ایک برقی مکتوب(ای میل کے لیے برقی مکتوب کے الفاظ سے کام چلایا جا سکتا ہے)میں نارنگ صاحب کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ان کے ایک مضمون میں حیرت گورکھپوری کے جدید ادب کا ذکر تھا،میرے استفسار پر انہوں نے لکھا:
’’بھائی جان!آداب جلدی میں یہ ای میل بھیج رہا ہوں۔ابھی میرے بیٹے نے مجھے ہسپتال لے جانا ہے۔Radiation therapyوالی جگہ پر کچھcomplicationہو گئی ہے۔شاید ہاسپٹل داخل ہونا پڑے۔میرے پاس ایک ڈائری ہوتی ہے،جس میں کسی بھی مضمون کے مندرجات کے بارے میں اپنے نوٹس اور حوالہ جات (references)اور کتابیات(bibliography)لکھ لیتا ہوں۔میں نے حیرت گورکھپوری کا جدید ادب تو دیکھا نہیں،لیکن میری ڈائری میں اس کا حوالہ موجود ہے۔یہ دو ماہی تھااور باقاعدگی سے کچھ برس چھپتا رہا۔شوکت مرحوم نے اس میں ۱۳۔۱۴ماہ تک نوکری کی۔جو جملہ میں نے آپ کو ای میل میں لکھا تھا وہ آپ کے جدید ادب کی تعریف میں تھا کہ میں تو کسی اور جدید ادب کو نہیں جانتا۔حیرت گورکھپوری کے حوالے سے نہیں تھا۔ہم لوگ جو انگریزی کے پروفیسر ہیں اور تنقید کے علاوہ تحقیق بھی کرتے ہیں،اس معاملے میں بے حد محتاط رہتے ہیں کہ کہیں کوئی “referential mistake“نہ ہو جائے۔میں تو ۲۵برسوں سے مغرب کی جامعات میں پڑھا رہا ہوں۔میں نارنگ صاحب جیسی غلطی نہیں کر سکتا۔اطمینان رکھیں۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔ستیہ پال آنند‘‘
نارنگ صاحب جیسی غلطی سے بچنے والے ستیہ پال آنند جی کے اس مکتوب سے قطع نظر ۲۶جون سے ۳جولائی تک ہونے والی اس ساری ڈرامہ بازی کے پہلو بہ پہلو اسی دورانیہ کے اندر ایک اور ڈرامہ میرے بہت ہی عزیز دوست نصرت ظہیر صاحب نے اوپن ای میل کی صورت میں دہلی سے شروع کر رکھا تھا۔ان کی یہ اوپن ای میلز میرے نام تھیں ۔ ان کے ساتھ ہونے والی مراسلت کو مکالمہ کی صورت میں محفوظ کر رہا ہوں۔نصرت ظہیر صاحب نے پہلی ای میل ۲۹جون ۲۰۰۹ء کو جاری کی اور چوتھی و آخری ای میل ۲جولائی ۲۰۰۹ء کو رات نو بج کر بارہ منٹ پر جاری کی۔اس ای میل میں انہوں نے مزید مکالمہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا اور وجہ اپنی اہم مصروفیات بتائیں۔برادرم نصرت ظہیر صاحب کی اوپن ای میلز کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ عکاس کے نارنگ نمبر میں نصرت ظہیر صاحب کا جو اقتباس دیا گیا ہے وہ سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش کیا گیا ہے جو جعلسازی ہے۔اورجعلسازی تو سرقہ سے بھی بڑا جرم ہے ۔میں نے اپنی جوابی ای میلز میں ان کا اقتباس پوری طرح روشن کرکے پیش کیا اور بار بار انہیں کہا کہ وہ اصل سیاق و سباق پیش کرکے جعلسازی کو واضح کریں لیکن وہ آخر دَم تک ایسا نہیں کر سکے۔پھر وہ بحث کو کئی دوسرے موضوعات میں الجھانے کی تگ و دو کرتے رہے لیکن میں نے انہیں صرف ان کے اقتباس کے اصل سیاق و سباق اور نارنگ صاحب کے سرقوں کے نکات تک ہی محدودرکھا۔البتہ اب سوچ رہا ہوں کہ برادرم نصرت ظہیرنے سرقہ سے بھی بڑا جرم جعل سازی کو قرار دیا ہے تو عجیب بات ہے کہ مغربی دنیا میں نارنگ صاحب کے اعزاز میں تقریبات کرانے والے بیشتر لوگ(بہ استثنائے چند بیشتر لوگ )حقیقتاََ یا سارق ہیں یا جعلی شاعر بنے ہوئے ہیں۔جرمنی،انگلینڈ اور امریکہ کے ایسے سارقوں یا جعلی شاعروں کے بارے میں پہلے سے آن ریکارڈ مواد موجود ہے۔تو جناب نارنگ صاحب کا اپنا کام ہی سرقہ اور جعلسازی پر استوار نہیں بلکہ ان کے مغربی دنیا کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی زیادہ تر سارق و جعلی لوگ ہیں۔کند ہم جنس با ہم جنس پرواز۔کسی ادبی رسالہ کو ان حقائق کی ضرورت ہو توپہلے سے چھپا ہوا سارا میٹر انہیں فراہم کر سکتا ہوں۔خیر یہ ایک متعلقہ لیکن دوسرا موضوع ہے۔بات ہو رہی تھی کہ نصرت ظہیر صاحب نے۲جولائی کو چوتھی ای میل کے ساتھ بحث ختم کر دی۔بظاہر انہوں نے اپنی مصروفیات کا جواز پیش کیالیکن ادھر برادرم سعید شباب کی ایک ای میل نے اس ساری مہم جوئی کا ایک اور ہی منظر پیش کر دیا۔۲جولائی ۲۰۰۹ء کوصبح ۹بج کر تین منٹ پر سعید شباب صاحب نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو یہ ای میل بہ عنوان’’مزید غور فرمائیے‘‘ بھیجی تھی۔
’’ محترمی جناب ڈاکٹر نارنگ صاحب آداب
دیکھیے آپ کی حمایت کے نام پر آپ کے دوست آپ کو کس طرح مزید تماشہ بنوا رہے ہیں۔میں نے اپنے طور پر تصدیق کی ہے کہ عکاس کا ڈاکٹر نارنگ نمبر صرف اس وجہ سے چھپا ہے کہ نصرت ظہیر نے کسی طباطبائی کا کوئی بے ہودہ مضمون شائع کیا تھا۔وہ مضمون آپ کو سپورٹ کرنے والا تھا یاdamageکرنے والا؟اچھی طرح سے سوچئے۔بالکل اسی طرح اب نصرت ظہیر صاحب جس طرح اپنی صفائی دینے نکلے اور آپ کا دفاع کرنا شروع کیا،اس میں ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے لیکن اصل تماشہ تو آپ کا لگ رہا ہے۔آپ اس صورتحال پر خوش ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے نادان دوستوں سے بچئے۔نصرت ظہیر صاحب کی موجودہ کاروائی کے نتیجہ میں اب ’’مشرقی شعریات‘‘پر تحقیق کا کام بھی شروع ہو گیا ہے۔اور اس کی جتنی معلومات ابھی تک مل سکی ہے ،خاصی افسوسناک ہے۔کوئی ٹھوس بات میرے علم میں آئی تو اس کا اشارہ ضرورآپ کو دوں گا۔لیکن بہر حال آپ کے بے ہودہ حمایتیوں نے اب آپ کو ’’مشرقی شعریات‘‘کے حوالے سے بھی تماشہ بنوا دینا ہے۔اس صورتحال پر رنجیدہ ہوں۔
آپ کا مداح سعید شباب‘‘
اس دوران بات صرف مشرقی شعریات تک نہیں رہی،لسانیات پر نارنگ صاحب کا سارا کام بھی ’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘جیسا ہی نکل آیا ہے۔وہاں بھی ان کے سرقہ کا طریقۂ واردات وہی ہے جو ساختیات والی شاہکار’’تصنیف‘‘ کا رہا ہے۔اس سلسلہ میں مزید کچھ کہنا مناسب نہیں ہے،جب وہ سرقے بے نقاب ہوں گے تو اردودنیاخود دیکھ لے گی۔
سعید شباب کے مذکورہ بالا ۲جولائی کے ارسال کردہ برقی مکتوب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے صبح ۹بجے کے لگ بھگ نارنگ صاحب کو ان کے حمایتیوں کی سرگرمیوں کے نتائج سے آگاہ کیا اور اسی روز رات کو نو بجے کے لگ بھگ نصرت ظہیر صاحب کی مصروفیات یکایک بڑھ گئیں اور وہ اپنی چھیڑی ہوئی بحث سے الگ ہو گئے۔اور اگلے روز جواب مانگنے پر ستیہ پال آنند صاحب بھی معذرت کر گئے ۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ سارا شور شرابہ نارنگ صاحب کے کہنے پر تین اطراف انگلینڈ،دہلی اور امریکہ سے شروع کرایا گیا اور تینوں اطراف میں علمی سبکی کے بعد سعید شباب کے مکتوب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے یکدم بند کرادیا گیا۔تاہم ہو سکتا ہے یہ سب اتفاقاََایک ساتھ شروع ہو گیا ہو اور نارنگ صاحب کا اس میں کچھ عمل دخل نہ ہو۔
میں نے جملہ شواہد پیش کر دئیے ہیں کسی بہتر نتیجہ تک پہنچنے کے لیے قارئین ادب اپنے اپنے ذہن سے کام لے سکتے ہیں۔
(مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی ۔دو قسطوں میں۶اگست ۲۰۰۹ء، ۷ اگست ۲۰۰۹ء)