سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی
زیبا منظر 1، شرف آباد 5، شہیدِ ملت روڈ کراچی
علامہ حافظ محمد ایوب صاحب مرحوم و مغفور کی خدمت میں جن اہل علم کو حاضری کا موقع ملتا تھا، وہ ان کے تبحرِ علمی کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ علامہ موصوف کو علوم معقول و منقول میں حیرت انگیز دستگاہ تھی، اس زمانے میں ایسے علماء جو علم الکلام میں اس درجہ امتیازی قابلیت کے حامل ہوں نظر نہیں آتے۔ منطق و فلسفہ اور قرآن و حدیث کے علوم کا ایسا امتزاج دوسروں کی تصانیف میں مشکل سے ملتا ہے، اس پر مستزادیہ کہ مولانا کا علم اس قدر حاضر تھا کہ ان کی تقریر معانی و معارف سے لبریز ہوتی تھی، وہ بے تکان مسلسل ایسی علمی تقریر کرتے تھے کہ دوسروں کو غرق ریزی اور مطالعے کے بعد بھی تحریر تک میں وہ بات پیدا کرنی دشوار ہوتی تھی۔ ان کے برجستہ ارشادات نکات و حقائق کا خزینہ ہوتے تھے۔ ان کی تقریروں کے ملحض دو کتابیں ’ختمِ نبوت اور ’فتنہ انکارِ حدیث‘ اگرچہ مختصر ہیں لیکن ہرچہ بقامت کمتر بہ قیمت بہتر کی پوری طرح مصداق ہیں۔ مکتبہ رازی نے ان دونوں کتابوں کو شائع کر کے کثیر تعداد میں تقسیم کیا ہے اور ان سے ہزاروں مسلمان فیض یاب ہوئے ہیں۔
اوّل الذکر (ختمِ نبوت) کا انگریزی ترجمہ بھی ہوا ہے اور نظر ثانی کے بعد انشاء اللَّہ عنقریب شائع ہو جائے گا۔ اور فرانسیسی زبان میں ترجمہ کی پوری کوشش ہو رہی ہے۔ حضرت علامہ کی تقریروں کے ٹیپ ریکارڈ موجود ہیں جن سے بہت سے قابل اشاعت اور گراں قدر رسالے مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کے معتقدین میں علماء اور دیگر مخلص افراد کی ایسی جماعت موجود ہے جو اس خدمت کو عبادت سمجھ کر انجام دے رہی ہے۔ اس جذبہ خدمت کا ایک ثمر ’مقصودِ کائنات‘ بھی ہے جو بہت سے دینی حقائق پر مشتمل ہے۔ لیکن جس کا ماحصل یہ ہے کہ ’مقصودِ کائنات‘ حضورِ ختمی مرتبت کی ذات گرامی تھی، اس لئے کہ انہی پر اعلیٰ ترین افضالِ الٰہی کا خاتمہ ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو ایمان کے ذریعہ سے ضلالت و گمراہی کی ظلمت سے نکال کر رشد و ہدایت کے نور میں داخل کرنے کاجو اہتمام مشیت الٰہی کی طرف سے ہوا تھا، اس کا کمال حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی وساطت سے عالَم شہود میں آیا۔
میں نے اس کتاب کے مسودہ کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہے، اس میں قول و فعلِ الٰہی کے رشتے اور مقامِ اسلام اور دیگر ادیان کا تعلق و امتیاز تمام مخلوقات بالخصوص ملائکہ پر انسان کی برتری اور اس قسم کے دوسرے مباحث پر قرآن کریم کی روشنی میں فلسفیانہ بحثیں ہیں، جن سے مسلمانوں کے کلاسیکی علمِ کلام کی عظمت دلنشین ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن طبائع کے لئے یہ علمِ کلام عالَم وجود میں آیا تھا اس میں فلسفیانہ مسائل اور عوامق کو سمجھنے کی کس درجہ صلاحیت موجود تھی فی زمانہ منطق و فلسفہ کی کساد بازاری کی وجہ سے۔ نیز فکر کی افتاد بدل جانے کے باعث ان کتابوں کی تصنیف نا ممکن ہو گئی ہے۔ اس عمق کے باوجود تحریر ایسی نہیں ہے جو معمولی استعداد کے قاری کے فہم سے بالاتر ہے اور اس سے استفادہ نہ کر سکے۔ البتہ یہ کتاب ایسی نہیں ہے کہ اس سے سرسری طور پر پڑھ لیا جائے، بلکہ اس کے مطالب فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ذہن کو مزید جستجو کی طرف راغب کرتے ہیں، لیکن فکر و جستجو کو دونوں کو وہی نہیں چھوڑ دیتے بلکہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
ہر زمانے میں حقائق کا فہم اس عہد کے فکر کے ماتحت ہوتا ہے جس میں عصری رجحانات کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن حقیقت نہیں بدلتی نہ اس کا ادراک بدلتا ہے، صرف محاورہ اور الفاظ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس کتاب کا طرزِ تخاطب کلاسیکی ہے لیکن حقائق وہ ہیں جو ہر زمانے میں دعوتِ مطالعہ دیتے رہیں گے اور استوری عقیدہ میں معاون ہوں گے۔ اسلام کی عظمت اور تعلیم کی عمدگی پوری طرح سمجھ میں اس وقت آتی ہے جب اس کی ہمہ گیری اور رفعت کا گہرے مطالعے کے ذریعے سے اندازہ لگایا جائے۔ میرا خیال ہے کہ ’مقصودِ کائنات‘ کے مطالعہ سے اس مطالعہ کے اسلوب واضح ہوں گے۔
(17 اگست 1973ء)
٭٭٭