عمران نقوی(لاہور)
عمران نقوی:آپ نے ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ لکھی۔لمحہ ء موجود میں کسی ادبی تحریک کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
انور سدید:اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ لکھتے وقت مجھے احساس ہوا تھا کہ ادب کی تحریک بھی اولمپک کی شمع کی طرح ہوتی ہے جو مختلف اوقات میں معانی کے لحاظ سے محوِ سفر رہتی ہے۔میں نے اس کی مثال فرانس کی مشہورِ زمانہ رومانوی تحریک سے دی تھی جس کا اساسی آغاز جرمنی میں ہوا تھا لیکن جسے معنوی طور پر فرانس نے پروان چڑھایا اور طویل وقفے کے بعد انگلستان میں اسے فروغ ملا تو اس تحریک کے آغاز کو ڈیڑھ دو سو برس کا عرصہ گزر چکا تھا۔برصغیر میں رومانوی تحریک بیسویں صدی کے ربع اوّل میں طلوع ہوئی جب کہ اس کی نمو کے آثار قدیم داستانوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تحریک کے ضمن میں انسانی فطرت کی اس خصوصیت کا ادراک ضروری ہے کہ وہ زیادہ لمبے عرصے تک یکسانیت اور یک رنگی کو قبول نہیں کرتی اور اس کے داخل میں تغیر کی آرزو خود بخود کلبلانے لگتی ہے۔تغیر کی خواہش بذاتِ خود اتنابڑا محرک ہے کہ ارتقائے کائنات کے بیشتر زاویے اسی کے مرہونِ منت ہیں۔ تغیر کی یہ خواہش ادب میں ادیبوں کے وسیلے سے سامنے آتی ہے۔اگر یہ خواہش کسی ایک ادیب تک محدود رہے تو یہ اس کے ذاتی تجربے سے موسوم کی جاتی ہے اور اکثر اوقات چنداں اہم نہیں سمجھی جاتی تاہم اس قسم کی خواہش لا شعوری طور پر زیادہ ادبا اور شعرا کی تخلیقات میں نمو پذیر ہونے لگے تو اسے با لعموم ایک رجحان کا نام دیا جاتاہے اور یہ رجحان قیدِ زمان و مقام کو عبور کر جائے تو تحریک سے موسوم ہو نے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کہا جا سکتاہے کہ رجحان جس تغیر کے لیے زمین ہموار کرتا ہے تحریک اس کی تکمیل کے لیے مجادلہ کرتی ہے اور بالآخر ادب پاروں کی صورت میں فتوحات کے ثمرات سمیٹتی ہے۔اگرچہ اردو ادب میں ’’ترقی پسند تحریک‘‘ اور ’’ادبِ اسلامی تحریک‘‘ ایک لکھے ہوئے دستور کے مطابق رونما ہوئی لیکن ادبی تحریک بالعموم کسی باضابطہ تحریری آئین کی پیروی نہیں کرتی اور نہ لکھے ہوئے آئین کی پابند ہوتی ہے۔ ادب کی تحریک تو لالہ خود رو کی طرح اگتی ہے اور اپنی خوشبو نسیم سحر کی طرح پھیلاتی ہے۔
میں نے اوپر جس رومانی تحریک کا ذکر کیا ہے اس کے آغاز میں انگریزی اور نئے علوم کی ہندوستان میں آمد بے حد اہم ہے۔ان نئے تصورات کو شیخ عبدالقادر کے رسالہ’’مخزن‘‘نے فروغ دیا اور اسے بہت سے نامور ادیبوں نے جن میں علامہ اقبالؒ اور ابوالکلام آزاد سرِ فہرست ہیں پروان چڑھایا ۔۱۹۳۰ء کی دہائی میں اس رومانوی تحریک سے ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ کی تحریکیں رونما ہوئیں جن کا حلقہ اثر آزادی کے بعد تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کو ’’ادبِ لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘ اور ’’نقوش‘‘ کے بعد رسالہ ’’فنون‘‘نے پروان چڑھایا لیکن اب ان رسائل کی کایا کلپ ہو چکی ہے۔ دوسری طرف ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ کی تحریک کو ’’ادبی دنیا‘‘ اور ’’نئی تحریریں‘‘ جیسے رسائل نے فروغ دیا۔ حلقہ اب بھی قائم ہے لیکن اب اس میں پہلے جیسا دم نہیں ۔ اس دور میں ہی ڈاکٹر وزیر آغا نے رسالہ’’اوراق‘‘جاری کیا تو اسے ’’جدیدیت‘‘ کا ترجمان رسالہ بنا دیا۔ اب چالیس بر س کے بعد ’’اوراق‘‘ کی کار گزاری پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا ’’اوراق‘‘نے ہر نئے تجربے کا خیر مقدم کیا جب کہ ’’فنون‘‘ترقی پسند روائتی نظریے کے ساتھ چمٹارہا اور جمود کا شکار ہوتا چلا گیا ۔اب ’’اوراق‘‘ لمبے وقفو ں سے شائع ہو رہاہے تو مجھے نئے رجحانات اور نئی تحریکوں میں بھی وقفہ لمبا ہوتا نظر آتا ہے تاہم غنیمت ہے کہ کراچی سے ’’آئندہ ‘‘، ’’دنیا زاد‘‘اور ’’روشنائی‘‘ جیسے رسائل جاری ہو گئے ہیں جو نئی تحریکوں کو کروٹ دے سکتے ہیں۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آزادی سے پہلے ادب میں فکری تحریکوں کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ آزادی کے بعد ادبی تحریکوں کی جہت نظریاتی سمت اختیار کر گئی اور اس کے ساتھ ہی نئی اصنافِ ادب کو تحریک کی صورت ملتی چلی گئی۔ تاہم کوئی بھی تحریک کسی ’’ضرورت‘‘کے تحت رونما نہیں ہوئی ۔تحریک کو لالہء خود رو کی طرح اگنے کے عمل سے روکا نہیں جاسکتا ۔ مجھے یہ عمل اب بھی جاری نظر آتا ہے۔ تکنیکی نوعیت کا ایک موضوع ’’ساختیات‘‘ ہے جس کا دائرۂ اثر ہندوپاک میں محدود ہے لیکن دونوں ملکوں میں اس کا مطالعہ فروغ حاصل کر رہاہے اور گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، ضمیر علی بدایونی، قمر جمیل،قاضی قیصر الاسلام اور ڈاکٹر فہیم اعظمی کے بعد ناصر عباس نیر، شفیق احمد شفیق، رفیق سندیلوی اور رؤف نیازی جیسے نوجوان ادبا اس موضوع کی طرف راغب ہو گئے ہیں تو ایک نئی تحریک برپا ہوتی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف وزیر آغا کی متعارفہ ’’امتزاجی تنقید‘‘کوبھی تحریکی صورت میں ہی زیرِ عمل لایا جارہاہے۔اصناف سخن میں سے ماہیا اور ہائیکوکو تحریکی صورت میں قبول کیا جا رہا ہے۔
عمران نقوی:اردو ناول نگاری کہاں کھو گئی؟
انور سدید:عمران نقوی صاحب!ناول نگاری کہیں نہیں گئی۔ درحقیقت ہمارے ادبا کرام اس سر چشمۂ تخلیق سے قطع تعلق کر چکے ہیں جس کی تھرتھراہٹ بقول ڈی، ایچ لارنس’’ سالم زندہ بشر کو لرزش میں لا سکتی ہے اور شاعری ، فلسفہ ، سائنس یا کسی اور کتابی تھرتھراہٹ سے بڑھ کر ہے۔‘‘مجھے یہ بات بڑی حیرت انگیز نظر آتی ہے کہ پاکستان میں کہانی نگاروں نے زندگی کو جزو جزو افسانوں میں پیش کرنے کی کاوش تو افراط سے کی لیکن پوری زندگی پر ناول تخلیق کرنے کی بہت کم کوشش کی، اس زاویے سے مجھے عبداللہ حسین اور نثار عزیز بٹ کا نام غنیمت نظر آتا ہے کہ انہوں نے زندگی کی قاشیں پیش کرنے اور افسانے سے لو لگانے کی بجائے اپنے پورے وجود اور گردوپیش کے پورے تناظر کو ناول میں پیش کیا…………’’اداس نسلیں‘‘، ’’نادار لوگ‘‘، ………… ’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘، ’’نے چراغ نے گلے‘‘، ’’کاروانِ وجود‘‘اور ’’دریا کے سنگ‘‘ جیسے ناول لکھے۔ بلاشبہ ہمارے ہاں بانوقدسیہ ، فرخندہ لودھی، عذرا اصغر ، اور خدیجہ مستور نے بھی چند اچھے ناول پیش کیے لیکن یہ ان کے افسانوی اظہار کی بنیادی صنف نہیں بن سکی اور انتظار حسین نے ’’بستی‘‘، ’’تذکرہ‘‘ اور ’’آگے سمندر ہے‘‘ جیسے ناول پیش کئے لیکن افسانے کے مقابلے میں اس صنف کی طرف ان کی پوری رغبت نظر نہیں آتی۔ آغا گل،شمشاد احمد،انیس ناگی، محمد عاصم بٹ، اور اکرام اللہ نے ناولٹ لکھے اور ایک مکمل ناول ان کے تخلیقی عمل سے بھی محروم رہا۔ غلام الثقلین نقوی کی پہلی محبت بھی افسانے کے ساتھ تھی تاہم غنیمت ہے کہ انہوں نے نہ صرف تین ناولٹ لکھے بلکہ ناول ’’میرا گاؤں‘‘بھی تخلیق کیا اور زندگی کی جبلت کو احساس کی سطح پر متحرک اور جان سوز بنا دیا۔پاکستان کے برعکس بھارت میں ناول کی تخلیق کاری کو نسبتاً زیادہ فروغ مل رہا ہے اور معاشرے کی سا لمیت کو پیش کرنے کا رجحان نمایاں ہے۔ قاضی عبدالستار، عبدالصمد، جتندر بلّو، مصطفی کریم، شموئیل احمد ، انل ٹھکر، مشرف عالم ذوقی، صلاح الدین پرویز اور ان سب کے ساتھ قرۃ العین حیدر اور جوگندر پال نے ناول کو پوری تخلیقی توجہ عطا کی ہے۔ اب شاید یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پاکستان میں ناول نگاری کسی بند گلی میں کھو گئی ہے۔ اس گلی کی ہر نکڑ پر کہانی نویس کو ’’افسانہ‘‘تو گرا پڑا مل جاتا ہے لیکن وہ چھوٹے چھوٹے افسانوں کو زندگی کا پور ا’’کل‘‘ بنانے اور ماضی اور حال کے مابین ربط و تعلق پیدا کرنے کے لیے یا تو فرصت سے محروم ہے یا پہلے جزو وقتی کام پر ہی قناعت کر رہا ہے اور ناول کا کل وقتی کام قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔آپ اسے پاکستانی تخلیق کار کی کاہل پسندی بھی کہہ سکتے ہیں جو غزل کے کلچر سے اس کے اعصاب پر سوار ہے۔
عمران نقوی:عہد موجود میں کوئی نقاد ہے بھی؟
انور سدید:تخلیق اور تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر تخلیق کا عمل جاری ہے تو تنقید پر جمود کس طرح طاری ہو سکتا ہے۔نقاد کو ادبی منظر سے ناموجود کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ تخلیق کار اپنے فن پارے کا سب سے پہلا نقاد خود ہوتا ہے۔تخلیقی عمل کے بعد وہ فن پارے پر نقاد کی نظر ڈالتااور اس کے حسن و قبح کا اندازہ لگاتا ہے۔اگر فن پارہ اس کے معیار نقد پر پورا نہ اترے تو اسے مسترد کرنے میں تاخیر نہیں کرتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو ادب میں محمد حسن عسکری ، ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر وزیرآغا، شمس الرحمن فاروقی،وہاب اشرفی، جیلانی کامران، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، سلیم احمد، محمد علی صدیقی، مظفر علی سیّد،دیویندراِ سر، ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر قمر رئیس اور فہیم اعظمی جیسے نقادوں کا سکہ چل رہاہے اور ادب کی تفہیم ان کے نظریات اور آراء کی روشنی میں کی جا رہی ہے تو اس قافلہء تنقید میں ریاض صدیقی، شہزاد منظر،سلیم آغاقزلباش، امجد طفیل، صبا اکرام ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ناصرعباس نیر،حقانی القاسمی، جمیل آذر ، سجاد نقوی، ابوالکلام قاسمی، رفیق سندیلوی، اور متعدد نئے نقاد بھی شامل ہوئے ہیں۔یہ چند نام میں اپنے حافظے سے لکھ رہاہوں جب کہ یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے اور اب آپ سے میرا سوال ہے کہ آپ کو یہ احساس کس طرح ہو گیا ہے کہ عہدِ موجود نقاد سے خالی ہے؟
عمران نقوی:آج کل آپ ادبی رسائل پر کچھ زیادہ لکھ رہے ہیں۔وجہ؟
انور سدید:اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب کے فروغ میں کتاب ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کتاب میں آپ کی ملاقات بلکہ طویل ملاقات صرف ایک مصنف سے ہوتی ہے لیکن ادبی رسالے میں آپ متعدد اصنافِ ادب کے فن پاروں کے علاوہ بہت سے تخلیق کاروں اور نقادوں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔اس لحاظ سے ادبی رسالہ کتاب کے مقابلے میں فروغ ادب میں قدرے مختلف قسم کا کردار ادا کرتاہے۔ ادبی رسالے میں آپ سینئر اور کہنہ مشق ادبا کی تخلیقات کے علاوہ نئے لکھنے والوں کی تخلیقات سے بھی متعارف ہوتے ہیں اور اس طرح ادب کی نئی اور پرانی لہروں سے آگہی کا موقعہ ملتا ہے۔ دوسری طرف میرا یہ خیال بھی ہے کہ ٹیلی ویژن میڈیا نے ادبی رسالے کے مطالعے میں خاصی کمی پیدا کر دی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ادبی رسائل جو کبھی ہر ماہ پابندیِ وقت سے شائع ہوتے تھے، اب باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتے۔نتیجہ ادب کے سنجیدہ قارئین کو بھی بعض رسائل میں چھپنے والے اچھے مضامین کی اشاعت کی خبر نہیں ہوتی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے ادبی رسائل بھارت میں اور بھارت کے ادبی رسائل پاکستان میں کم کم آتے ہیں ، چنانچہ قارئین ادب بہت اچھے مضامین کے مطالعے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ادبی رسائل پر مضامین لکھ کر میں کوشش کرتا ہوں کہ ان میں چھپنے والے مضامین کا تعارف کرا دیا جائے اور قارئین کو یہ ادبی رسالہ خرید کر پڑھنے کی طرف متوجہ کرایا جا سکے۔کیایہ بات افسوس ناک نہیں ہے کہ کراچی کے رسائل لاہور کے سٹالز پر اور لاہور کے ادبی رسائل اسلام آباد اور پشاور کے سٹالز پر دستیاب نہیں ہوتے لیکن جب ان کا ذکر ’’نوائے وقت‘‘میں چھپ جاتا ہے تو ان رسائل کی مانگ پیدا ہو جاتی ہے۔
عمران نقوی:ٹی وی ڈرامہ ادبی صنف کہلوا سکتا ہے۔اگر نہیں تو کیوں؟
انور سدید:میرا خیال ہے کہ ادبی صنف میں اوّلاً لکھے جانے اور ثانیاً پڑھے جانے کی صلاحیت ضروری ہے ۔لکھی ہوئی تحریر جب زیر مطالعہ آتی ہے تو یہ فرد کو ذہنی طور پر متحرک کرتی اور اس کی سوچ کو مہمیز لگاتی ہے۔میں اس کی مثال امتیاز علی تاج کے ڈرامہ ’’انار کلی‘‘ سے دوں گا جسے فلم پر پوری کامیابی سے اتارا نہیں جا سکا۔اسی طرح جب کسی اعلیٰ پائے کے ادبی ناول کو ٹیلی وژن ڈرامے کی صورت دی جاتی ہے تو مصنف شکایت کرتا ہے کہ سکرپٹ ناول کے لطیف نکات سے محروم ہے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ٹی وی ڈرامہ کتابی صورت میں چھپے تو پڑھا نہیں جاتا اور نہ وہ لطافت خیال اس طرح پیدا کرتا ہے جس طرح ٹی وی کی متحرک تصویروں اور ایکٹروں کی اداکاری نے ابھاری تھی۔اس لحاظ سے ٹی وی ڈرامہ پوری ادبی صنف قرار نہیں دی جاسکتی، اس کا ادبی ہونا ایک اضافی عنصر ہے۔
عمران نقوی:حفیظ تائب کی وفات کے بعد نعتیہ منظر نامہ کے حوالے سے آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
انور سدید:حفیظ تائب کی وفات سے ایک اعلیٰ پائے کا نعت نگار اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ حضوری کی کیفیت میں نعت لکھتے تھے اور نبی کریمؐ کی سیرۃ کے نقوش ان کے نہاں خانۂ دل میں تاباں اور منور رہتے تھے،یہ نقوش ان کی نعت میں لا شعوری طور پر شامل ہو جاتے تھے۔ ان کا کیف قاری کو منتقل ہو تا چلا جاتا تھا۔میں انہیں دورِ حاضر کا ایک بے حد اہم نعت نگار تسلیم کرتا ہوں لیکن وہ حرفِ آخر نہیں تھے۔ نعت کی اقلیم وسیع ہے اور میری نظر محدود ہے۔ اس اقلیم کو متعدد نعت نگار اپنی عقیدت کے چراغوں سے روشن کر رہے ہیں اور تاقیامت کرتے رہیں گے۔ ان میں حفیظ تائب کا نام بھی زندہ رہے گا۔
عمران نقوی:اس وقت کوئی ادیب ، عہد ساز کہلانے کا مستحق ہے؟
انور سدید:میرے ناقص خیال میں اس دور کے ہر ادیب کو ’’عہد ساز‘‘ کہلانے کا استحقاق حاصل ہے ۔ جو ادیب ’’کھوٹے سکے‘‘ چلانے کا ہنر جانتا ہے اور اپنے ساتھ چند ’’ہاکیوں والے‘‘بھی رکھتاہے اسے عہد ساز کہلانے کا زیادہ حق ہے۔ وہ اس بنیادی بات کو آسانی سے نظر انداز کر سکتا ہے کہ اعلیٰ پائے کی تخلیق انائے کاذب کی پرورش نہیں کرتی بلکہ عجزو انکساری کو جنم دیتی ہے۔ ارتقاء کا اگلا قدم اٹھانے کی تحریک دیتی ہے اور اپنی بے بضاعتی کا احساس دلاتی ہے۔اب یہ اعلیٰ خواص نایاب ہیں۔ اس لیے عہد ساز ادیبوں کی تعداد روز افزوں ہے۔
عمران نقوی:آپ ادبی کالم نگار ہیں ۔ آپ سے پہلے جو ادبی کالم نگار ی ہوئی اس کے حوالے سے آپ کے محسوسات؟
انور سدید:میری کالم نگاری صرف ایک مشقت ہے اور قطعاً غیر اہم ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ میں کالم نگاری کو صحافت کی ضرورت تسلیم کرتا ہوں۔یہ ادب کی صنف نہیں ہے۔کسی زمانے میں انتظار حسین اچھا ادبی کالم لکھتے تھے۔’’سخن در سخن‘‘ کے عنوان کے تحت خامہ بگوش رونما ہوئے، جو مشفق خواجہ کا مکمل نام تھا۔اس کالم کی ادبی جہت اور طنز و مزاح کا انوکھا انداز بہت مقبول ہوا۔ ان کے تین مجموعے بھی چھپ چکے ہیں اور کالموں کا انتخاب مظفر علی سیّد نے کیا ہے جسے لاجواب قرار دیا جا سکتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مشفق خواجہ اسے ثانوی نوعیت دیتے تھے۔بہت سے ’’گنجے فرشتے‘‘جوادب تخلیق نہیں کر سکتے وہ کالم نگاری کو ادب قرار دیتے ہیں اور اس طرح اپنا دل پشوری کر لیتے ہیں۔
عمران نقوی:آپ نے اپنے نام کے ساتھ کسی علاقے یا شہر کے نام کو نتھی کیوں نہیں کیا؟
انور سدید:اپنے نام میں ہی کچھ نہیں رکھا تو اپنے علاقے یا شہر سے نسبت قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ علاقے اور شہر کے تخصص کی ضرورت وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ایک نام کے کئی اصحاب موجود ہوں۔مثلاً حفیظ جالندھری، حفیظ میرٹھی، حفیظ ہوشیار پوری، حفیظ مالیگانوی وغیرہ ۔ جب کہ فیض احمد فیض ایک ہی ہے ، دوسرے ’’فیض‘‘ نے اپنے تخلیقی تحفظ کے لیے ’’فیض لدھیانوی ‘‘ کہلوانا پسند کیا ۔
عمران نقوی:اردو کے پہلے چودہ بڑے شاعر؟ معیار شاعری ہو گازمانی ترتیب نہیں چلے گی؟
انور سدید:آپ کایہ سوال تو بہت پریشان کن ہے؟ آپ نے چودہ کا عدد کیوں اختیار کیا ہے؟ اور اگر اختیار کیا ہی ہے تو اس کے لیے زمانے کا تعین نہیں کیا؟واقعہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی آغاز ہوئی اور معیاری ادبی جائز ے لکھے گئے تو اٹھارویں صدی:۔میر تقی میر کے نام۔۔۔ انیسویں صدی:مرزا غالب کے نام اور بیسوی صدی اقبال کے نام منسوب کر دی گئی اور اسے سب نے تسلیم کرلیا ہے۔ چندسال قبل ایک ادارے نے گزشتہ ایک صدی کے ۱۲منتخب
شعرا کا کیلنڈر شائع کیا گیا اور ان کی عظمت کے ثبوت کے طور پر ان کا کلام بھی ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ یہ ترتیب حسب ذیل ہے۔
۱۔علامہ اقبالؒ ۲۔جوش ملیح آبادی ۳۔حفیظ جالندھری ۴۔ن، م، راشد
۵۔فیض احمد فیض ۶۔ناصر کاظمی ۷۔منیر نیازی ۸۔احمد فراز
۹۔جون ایلیا ۱۰۔افتخار عارف ۱۱۔فہمیدہ ریاض ۱۲۔پروین شاکر
ماہنامہ ’’کاغذی پیرہن‘‘ میں ’’جدید اردو نظم کے معمار ‘‘ کے عنوان سے بیسویں صدی کے منتخب شعرا کا مدلل اور دستاویزی تعارف کرایا جا رہا ہے۔شعرا کی اس فہرست میں اوّلین چودہ جدید شعرا کے نام حسب ذیل ہیں۔
۱۔مجید امجد ۲۔ن، م ، راشد ۳۔وزیر آغا ۴۔میرا جی
۵۔فیض احمد فیض ۶۔اختر الایمان ۷۔ضیاٗ جالندھری ۸۔منیر نیازی
۹۔بلاج کومل ۱۰۔صفدر میر ۱۱۔عزیز حامد مدنی ۱۲۔ جیلانی کامران ۱۳۔اختر حسین جعفری ۱۴۔امین راحت چغتائی
آخر الذکر انتخاب چونکہ ہندوپاک کے شعرا پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہ نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر سب نے تسلیم کیا ہے ۔ آپ نے چودہ بڑے شعرا کو زمان کی قید سے آزاد کر دیا ہے۔پوری اردو شاعری کو زیر نظر رکھیں تو مندرجہ ذیل شعرا اس فہرست میں شامل ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ۱۔ ولی دکنی ۲۔میرزا رفیع سوداؔ ۳۔میر تقی میر ۴۔میر ببر علی انیس ۵۔مرزا غالبؔ ۶۔الطاف حسین حالیؔ ۷۔نظیر اکبر آبادی ۸۔اکبر الہٰ آبادی ۹۔علامہ اقبالؒ ۱۰۔فراق گورکھ پوری ۱۱۔فیض احمد فیض ۱۲۔مجید امجد
۱۳۔ن، م، راشد ۱۴۔وزیر آغا
آپ حیران ہوں گے کہ گزشتہ دنوں ایک اہم سبب ایسا رونما ہوگیا کہ جناب احمد ندیم قاسمی کو مرزا اسداللہ خان غالبؔ سے بڑا قرار دینا نا گزیر نظر آیا۔ یہ نا چیز اپنی اس رائے پر قائم ہے اور آپ کو اختلاف کا حق دیتاہے۔ ٭٭٭
اس کو انور سدید سمجھے کون بات جو ہے گمان میں اُتری