پروفیسر شفیع ہمدم(جھنگ)
اردو ادب کی وادی میں پوری طرح داخل ہونے سے پہلے ہی میں ڈاکٹر انور سدید کے نام اور کام سے واقف تھا ۔ اٹھائیس انتیس سال پہلے مجھے لکھنے لکھانے کا شوق تو نہیں تھا ۔البتہ ادبی رسائل اور کتب کے مطالعے سے ذوق کو تسکین ملتی تھی۔ادبی رسائل و جرائد میں انور سدید کی تحریروں سے میرا نظری معانقہ اکثر ہوتا رہتا تھا۔اس زمانے میں بھی ادبی دنیا میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا تھا۔اس وقت مجھے یہ قطعاً معلوم نہ تھا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ میں توا نہیں کسی کالج کا پروفیسر سمجھتا تھا۔مطالعے کی محدودیت کے سبب ان کی تحریروں کے باطن میں چھپے ہوئے اسرار کے در پوری طرح کھولنے سے قاصر تھا۔اس کے باوجود ان تحریروں کی کشش مجھے مقناطیسی انداز میں اپنی طرف کھینچ لیا کرتی تھی۔بعض اوقات ان کے خالق کو دیکھنے کی خواہش دل میں شدت اختیار کر لیتی تھی۔ پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا تھا کہ اتنے بڑے آدمی سے سفارش یا کسی تقریب کے بغیر ملنا بہت مشکل ہے۔
کئی سال پہلے میں نے انور سدید کو پہلی مرتبہ لاہور کی ایک ادبی کانفرنس میں دیکھا تھا۔کانفرنس کے اختتام پر ان سے مصافحہ کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔اسے پہلی ملاقات تو نہیں کہا جا سکتا کہ ملاقات میں ہم نشینی اور گفتگو کا ہونا ضروری ہے تاکہ دونوں اشخاص ایک دوسرے سے متعارف ہو سکیں۔مصافحہ کرنے کے چند سال بعد مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے اور دیر تک گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ایک دفعہ میں اکیلا ہی ان کے دفتر ملنے گیا تھا۔اپنا وزیٹنگ کارڈ بھجوایا تو انہوں نے بلا تاخیر مجھے اندر بلوالیا۔جب میں نے ان کے آفس میں قدم رکھا تو ایک دراز قد کا خوش شکل کلین شیو ادھیڑ عمر آدمی سر جھکائے کسی پری وش (فائل )کی زلفوں کے پیچ و خم سنوارنے میں مصروف تھا۔ میں تو انہیں شکل سے پہچانتا تھا مگر انہوں نے مجھے وزیٹنگ کارڈ کی وجہ سے پہچانا تھا۔چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر بڑی گرم جوشی سے معانقہ کیا اور دیر تک مزاج پرسی کرتے رہے۔ وہ گفتگو بھی کر رہے تھا اور چائے او ر بسکٹ سے تواضع بھی ۔دوران گفتگو میں انہوں نے بتایاکہ ادبی رسائل و جرائد کی وساطت سے تو اکثر آپ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے مگر با المشافہ ملاقات آج ہوئی ہے۔’’میں آپ سے چند سال پہلے بھی مل چکا ہوں‘‘۔میں نے کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔پھر بولے’’مجھے تو کچھ یاد نہیں ہے۔‘‘مگر مجھے تو آپ کے ہاتھوں کا لمس تک یاد ہے۔میری بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرا دیئے۔ اس روز ہم دیر تک ادبی گفتگو کرتے رہے۔ پہلی ملاقات کی خوشگوار بارش میں بھیگا ہوا جب میں ان کے دفتر سے باہر آیا تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے اندر کی کثافتیں اس بارش نے دھو ڈالی ہوں اور میں سر سبز و شاداب ہو گیا ہوں۔
تقریباً دوسال بعد مجھے ان سے ملاقات کا پھر اتفاق ہوا ۔ انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ گر جوشی کا مظاہرہ کیا۔ گفتگو کے دوران میں جھنگ اور جھنگ کے ادباء کا ذکر ہوا۔انہوں نے سب سے پہلے ناصر عباس نیر کی خیریت دریافت کی۔ میں نے انہیں نیّر صاحب کی خیریت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ’’ہم دونوں ایک ہی کالج میں پڑھاتے ہیں۔اس لے ان سے طویل نشستوں کے مواقع مل جاتے ہیں۔ان کا مطالعہ وسیع اوروہ دوسروں تک اپنے علم کی ترسیل کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ان کے ساتھ مکالمہ کر کے مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میرا ذہن پہلے کی نسبت زیادہ روشن ہو گیا ہے ’’میری بات سن کر انور سدید بولے ’’بے شک ناصر عباس نیر ایک ایسا نقاد ہے جس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ تیز ہے۔اس وجہ سے کم عمری میں اس کا شمار اردو کے صف اوّل کے نقادوں میں ہونے لگا ہے۔‘‘بعد ازاں انہوں نے خیر الدین انصاری ، معین تابش اور حنیف باوا کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ تینوں آج کل شدید معاشی بحران کا شکار ہیں ۔ خاص طور پر خیر الدین کی صرف مالی حالت ہی ابتر نہیں ہے ۔ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بھی خستہ حالی کا شکارہے۔میری بات سن کروہ سامنے پڑی ہوئی میز کو تکتے رہے پھر بولے’’اچھا ان کے لیے کچھ کرتے ہیں۔‘‘اس ملاقات کے تقریباً چھ سات ماہ بعد ایک تقریب میں جھنگ کے ناظم حمید سلطان نے خیر الدین انصاری (جو اب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں)کو تیس ہزار روپے اور باقی دونوں کو پچیس پچیس ہزار کے چیک پیش کیے۔(میں یہ بات بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ معین تابش بھی دو روز پہلے ہمیں سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔)یہ چیک پنجاب حکومت کے رائٹرز ویلفیئر فنڈ کی طرف سے جاری ہوئے تھے۔یہ سب انور سدید کی تگ و تاز کا نتیجہ تھا۔انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا سے سفارش کر کے دلوائے تھے۔اس سلسلے میں جھنگ سے ناصر عباس نیر نے بھی آغا صاحب سے برابر رابطہ رکھا تھا۔انور سدید کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑک رہا ہے جو مصیبت زدہ لوگوں کے لیے تڑپ اٹھتا ہے۔ جو انہیں افتاد سے نکالنے کے لیے صرف دوا ہی نہیں کرتا دعا بھی کرتا ہے۔ان کا شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں ایثار و قربانی کا مادہ وافر مقدار میں موجود ہے۔جب ان کی ساس چھ بیٹیوں کے بعد اکلوتے بیٹے کو جنم دے کر اپنی جان ہار گئیں تو وہ اپنے خسر اور ان کے بچوں کی وجہ سے اپنی بیوی اور اکلوتے بیٹے سے اس وقت تک علیحدہ رہے جب تک کہ نومولود نے ہوش نہیں سنبھالا۔ان کا یہ ایثار صرف اپنوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ غیروں کے ساتھ بھی وہ اسی حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ان کے محکمے کا ایک افسر ٹریفک کے ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔مرحوم کی بیوہ اور چار بچوں کی کفالت کرنے والا کوئی نہ تھا۔وہ مرحوم کی بیوہ کو اس کا حق دلانے کے لیے چار سال تک مقدمہ لڑتے رہے ۔ ان کے مقابل صاحب اقتدار لوگ تھے۔ان سے ٹکر لینا کوئی آسان کام نہ تھا۔مگر انور سدید نہایت استقلال کے ساتھ ان کے مقابل ڈٹے رہے۔ بالآخر انہوں نے مقدمہ جیت لیا اور مرحوم کی بیوہ کو اس کا حق (نقدی کی صورت ) میں دلا کر دم لیا۔ڈاکٹر صاحب کا اصل نام انوار الدین اور قلمی نام انور سدید ہے۔ انور سدید اگر مطلع ادب پر جلوہ افرو ز ہے تو سماجی سطح پر انوارالدین سرگرم عمل ہے جو رشتہ داروں اور واقف کاروں کی تقریباً سبھی تقاریب میں شریک ہوتا ہے اور اپنے رویے سے انہیں مطلق احساس نہیں ہونے دیتاکہ وہ آسمان ادب کا ایک روشن ستارہ ہے۔
انور سدید کو ایک مخصوص ادبی گروہ نے متنازع بنانے کی نا قابل رشک کوشش کی ہے مگر دوسری طرف ان کے قدر دانوں ، مداحوں اور دوستوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے۔اپنے خلاف مخالفین کے حملے کو تو وہ اتنی اہمیت نہیں دیتے مگر جب کوئی شخص ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت پر حملہ آور ہوتا ہے تو ان کا راجپوتی خون جو ش مارنے لگتا ہے اور حملہ آور کے ایسے لتے لیتے ہیں کہ اسے میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔انہیں وزیر آغا سے بے پناہ عقیدت ہے۔ جب انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے دوبارہ تعلیمی سلسلہ شروع کیا تو مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنے اندر کے ادیب کو تقریباً فراموش کر بیٹھے تھے۔انہیں دوبارہ ادب کی طرف لانے والے ڈاکٹروزیر آغا تھے۔ ورنہ آج وہ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد دوسرے بہت سے ریٹائرڈ آفیسرز کی طرح گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ۔احباب کی محافل میں ان کے منہ سے پھول جھڑتے اور وہ زیر لب مسکراتے رہتے ہیں۔مہانوں سے پُر لطف باتیں کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ خاطر تواضع کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ آپ ان کی صحبت میں کچھ وقت گزار کر تو دیکھئے۔ تمام دنیوی تفکرات سے نجات حاصل کر کے تروتازہ اور شاداب ہو کر اٹھیں گے۔
حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم انور سدید جب ادبی حریفوں سے معرکہ آرا ہوتے ہیں تو ان کی کا یا کلپ ہو جاتی ہے اور وہ سراپا فولاد بن جاتے ہیں۔ وہ محبتیں کرنے اور دوستیاں نبھانے میں نہایت کشادہ دل اور پُر خلوص ہیں ۔دوستی اور محبت کے آمیزے میں دکھا وے یا ریا کاری کی آمیزش کے سخت خلاف ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہے جو دوستی جیسے پوتر رشتے کو اپنی ذاتی اغراض کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اپنے چہروں پر مصلحت اور خود غرضی کے نقاب چڑھائے ہوئے لوگ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔انور سدید ان کے چہروں پرچڑھے ہوئے نقاب اتارتے ہیں تو وہ بر انگیختہ ہو کر لفظوں کے تیر و تفنگ سے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں مگر وہ بھی جب تک ان کی چیں نہ بول جائے، چین سے نہیں بیٹھتے۔
انور سدید جامع الکمال شخصیت کے مالک ہیں۔وہ بیک وقت نقاد، محقق، مبصر، ادیب، شاعر، مزاح نگار، انشائیہ نویس،خاکہ نگار، دانشور، مورخ، کالم نگار اور مترجم ہیں۔اتنی ڈھیر ساری اصناف پر معیاری کام کرنا آسان نہیں ہے مگر وہ ان تمام اصناف سے انصاف کر رہے ہیں۔قدرت نے انہیں ایسی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے لفظوں سے وہ ابھی تک نا آشنا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم کبھی تھکاوٹ کی زد میں نہیں آتا۔انور سدید اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں عام طور پر نقاہت اور تھکاوٹ استقبال کے لیے پہنچ جاتی ہیں اور انسان کی کار کردگی کا گراف گر جاتا ہے۔میری نظرمیں ایسے بہت سے ادبی اور غیر ادبی لوگ ہیں ضعف عمر کے سامنے جنہوں نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔انور سدید ایک ایسے قلم کار ہیں جن کے قلم پر عمر رسیدگی کے اثرات نہیں پڑے اور ان کا رہوار قلم اب بھی پہلے جیسی رفتار سے جادۂ قرطاس پر دوڑ رہا ہے۔ان کی مستعدی کی وجہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے بڑھتی ہوئی عمر کے عفریت کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیا۔ان کی تصنیف و تالیف کی گئی کتب کی تعداد تین درجن کے لگ بھگ ہے اور ان میں اضافے کاسلسلہ جاری ہے۔وہ اپنے ادبی کام کو توشۂ آخرت سمجھتے ہیں۔ایک دفعہ انہوں نے میرزا ادیب سے گفتگو کے دوران میں کہا تھا۔
روز قیامت میرے اعمال کی پرسش ہو گی تو میں اپنی ساری کتابیں اللہ میاں کے حضور پیش کر دوں گا اور کہوں گا یہ میرا اعمال نامہ ہے۔میرزا ادیب بولے۔اگر اللہ میاں نے یہ اعمال نامہ قبول نہ کیا تو؟
نہیں میرزا صاحب اللہ میاں بد ذوق نہیں ہیں۔وہ کوئی تعصب اور تنگ نظر نقاد بھی نہیں ہیں جنہیں صرف اپنوں کی تحریریں پسند آتی ہیں اور دوسروں میں سو سو کیڑے دکھائی دیتے ہیں وہ میری عبادت قبول کرکے مجھے داخل بہشت ہونے کی اجازت دے دیں گے۔
انور سدید کی نظر میں مال ومتاع اور جاہ و اقتدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔وہ محکمہ آبپاشی میں ایگز یکٹو انجینئر رہے ہیں۔جو بڑا منصب تھا مگر انہیں اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ وہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔وہ تو اسے روزی روٹی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ان کی اس درویشی کا سبب یہ ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت ایسے لوگوں کے زیر سایہ ہوئی۔جن کا کردار بلند اور سینے علم کی روشنی سے منور تھے۔ان کی والدہ ایک پرہیز گار اور تہجد گزار خاتون تھیں۔ان کے والد بھی ایک درویش منش انسان تھے۔انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ بھی نہایت دیانت دار، محنتی اور با کردار اور با عمل لوگ تھے۔جو بچوں کی شخصیت سازی پر پوری توجہ دیتے تھے اور انہیں محنت کے ذریعے زندگی میں آگے بڑھنے کا سبق سکھاتے تھے۔ان بر گزیدہ لوگوں کے زیر سایہ پرورش پانے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے انور سدید کی شخصیت میں ایسا نکھار پیدا ہو گیا تھا کہ وہ تمام عمر مایا کے جال میں گرفتار نہ ہو سکے۔اگر آپ دنیا جہاں کی نعمتیں اور تعیش ان کے قدموں میں رکھ کر ان کے ہاتھ سے قلم لینا چاہیں تو وہ ہر گز تیار نہ ہوں گے۔قلم ان کی طاقت ہے جس کا سودا کرنے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ جس طرح اساطیری کہانیوں میں دیو کی جان طوطے میں ہوتی تھی۔اسی طرح ان کی جان ان کے قلم میں ہے۔اسی لیے تو ان کا قلم ہر دم رواں دواں اور سدا جواں رہتا ہے۔ایک دفعہ میں نے ان کی بسیار نویسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔آپ اتنا کچھ کیسے لکھ لیتے ہیں ہندو وپاک کا کوئی بھی رسالہ اٹھاؤآپ کی تحریر ضرور ہوتی ہے۔میرے خیال میں تو آپ نے کوئی جن قابو کر رکھا ہے جو لکھنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔میری بات سن کر وہ مسکرا کر بولے میرا شوق ایک ایسا جن ہے جو مجھ سے بے تحاشہ لکھواتاہے اور کبھی تھکن کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ہر ذی روح کو زندہ رہنے کے لیے ہوا،پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔میرے کھانے میں کتاب اور قلم کا مزید اضافہ کر لیجئے۔
انور سدید کے والد کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ ایف ایس سی میں اعلیٰ نمبر حاصل کر کے انجینئر بنیں مگر وہ تو ادب کی دیوی کے زیر اثر آچکے تھے۔طالب علمی کے زمانے میں وہ اپنے والد سے چھپ چھپ کر ادبی کتابیں پڑھتے اور افسانے لکھے تھے۔جب ان کے افسانے ادبی رسائل میں شائع ہو کر داد وصول کرنے لگے تو ان کی خوشبو ان کے والد تک پہنچ گئی۔انہوں نے اپنے بیٹے کی راہ میں حائل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ادب نے انہیں شہرت تو دلوادی مگراس ناموری نے انہیں محکمہ آبپاشی میں افسر کی بجائے کلرک بنادیا۔پھر انہیں شدت سے احساس ہوا کہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے شہرت کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی نا گزیر ہے۔چناچہ وہ انجیئنرنگ سکول رسول میں داخل ہوگئے۔اعزاز کے ساتھ امتحان پاس کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا۔بعد ازاں انجینئرنگ میں گریجوایشن کی۔اس ڈگری نے ان پر ترقی کے دروا کرنے میں ’’کھل جاسم سم ‘‘کا کردار ادا کیا۔وہ ایس ڈی او اور ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے تک پہنچے۔دوران تعلیم انہوں نے اپنے اندر کے ادیب کو خواب آور گولیاں دے کر سلائے رکھا مگر اس کے باوجود اردو ادب کے منظر نامے سے غائب نہ ہوئے۔ان کے دوست انور گوئندی اس عرصے میں ان کے پرانے مسودات تلاش کر کے اپنے رسالہ’’ کامران‘‘ میں ان کی تحریریں شائع کرتے رہے ۔ڈاکٹروزیر آغا نے ان کے اندر کے ادیب کو خواب آور گولیوں کے اثر سے باہر نکالا اور ان کا پہلا مضمون ’’اوراق‘‘کی زینت بنا۔ اس کے بعد تنقیدی اور تحقیقی مضامین تواتر سے شائع ہونے لگے اور بطور نقاد بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔اس کے بعد انہوں نے پرائیویٹ طور پر ایم اے کا امتحان دیا اور صوبے بھر میں اوّل رہے۔پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے وہ انور سدید سے ڈاکٹر انور سدید بن گئے۔ان کے مقالے کا موضوع تھا ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔انور سدیدکا کلرک سے ایگزیکٹو انجینئر کا سفر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول اس بات کا درس دیتا ہے کہ اگر قدرت نے انسان کو ذہانت جیسی دولت سے نوازا ہے تو وہ ذہانت کے گھوڑے کو محنت کی مہمیز سے سرپٹ دوڑا کر زیرو پوائنٹ سے ہیرو پوائنٹ تک پہنچ سکتا ہے۔
انور سدید کی ادبی دنیا میں شہرت اور پذیرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب ’’روشنائی‘‘کے مدیر احمد زین الدین نے اپنے رسالہ میں ان کا گوشہ شائع کیا تو اہل قلم نے ان کے بارے میں اتنی تعداد میں مضامین ارسال کئے کہ رسالہ کے مدیر کو معذرت کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ انور سدید کے بارے میں ارسال کئے گئے مضامین کمپوز ہونے کے باوجود شامل اشاعت اس لیے نہ کئے جا سکے کہ اس سے پرچے کا توازن بگڑ جاتا۔ہنوز مضامین کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔احمد زین الدین کی معذرت کے آئینے میں انور سدید کی شہرت اور مقبولیت کا عکس اتنا واضح اور نمایاں ہے کہ ضعف بینائی میں مبتلا لوگوں کو بھی نظر کی عینک کے بغیر اس کے خدوخال آسانی سے نظر آجائیں گے۔ اگر اس کے باوجود کسی شخص کو دکھائی نہ دیں تو وہ اپنی آنکھوں پر بندھی ہوئی تعصب کی پٹی اتار کر دیکھے تو اس پر بھی اس عکس جلی کے نقوش اجاگر ہو جائیں گے۔