شیزہ کو رکے ایک ہفتہ ہو گیا تھا وہ ہر روز اپنے کام سے جاتی تھی اور عاشر ا اسے ساتھ لے جاتا تھا ماما جان کا ہاتھ بٹانا، سب سے باتیں کرنا اور ہنسی مذاق ہر چیز میں وہ آگے تھی اس لئے وہ ماما جان کو بہت اچھی لگی تھی۔
عاشر نے آج اپنے دوستوں کی دعوت رکھی تھی وہ شیزہ سے کم ہی مخاطب ہوتا تھا مگر اب مجبوری تھی کہ اسے شیزہ سے کام تھا اور بات تو کرنے کا دل میں ارمان بھی تھا تو وہ اس سے مخاطب ہوا۔
”محترمہ؟” اس نے شیزہ کو مخاطب کیا جو مہرین کے بناۓ ہوئے مجسمے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
”فرمائیے؟” وہ ہنستے ہوئے بولی۔
”وہ کوئلہ کڑاہی بنا دو گی؟ پلیز؟” وہ اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔
”کس خوشی میں؟ ویسے بھی آپ کو وہ جلا ہوا ہی لگتا ہے” وہ خفگی سے بولی۔
”ہاں وہ جلا ہوا ہی مجھے بنوانا ہے۔” اس نے قہقہہ لگایا۔
”بنا دوں گی۔” اس نے چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے اڑاتے ہوئے کہا۔
”شکریہ۔” عاشر نے جواب دیا اتنی دیر میں ماما جان بھی آگئیں۔
”کیا فرمائش کر رہے ہو تم ہماری مہمان سے؟” وہ عاشر سے پوچھنے لگیں۔
”ایک کڑاہی کی تو فرمائش کی ہے۔” عاشر نے کہا۔
“یہ آئی نہیں کے تمہاری فرمائشیں شروع ہوگئیں عاشر۔” وہ ابھی تک اپنی مسکراہٹ چھپا کر کہہ رہی تھیں۔
”میں بنا دوں گی میں سامان تیار کر لیتی ہوں۔” وہ وہاں سے فورا چلی گئی کیونکہ عاشر کے سامنے تو اس سے کھڑا ہوا ہی نہیں جاتا تھا۔
”ویسے عاشر ایک بات بتاؤ؟” ماما جان نے اس سے پوچھا۔
”جی پوچھیں؟ “وہ متوجہ ہوا۔
”تمہیں شیزہ کیسی لگتی ہے؟” ماما جان نے اس سے پوچھا۔
پہلے تو وہ چونک گیا پھر چھینب کر نیچے دیکھنے لگا۔
”اچھی ہے۔” وہ مختصراً بولا۔
”صرف اچھی؟” ماما جان نے اسے تنگ کرتے ہوئے پوچھا۔
”صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔صحیح ہےاور کیا بولوں؟” وہ ہنس کر بولا۔
پھر ماما جان سمجھ گئیں کہ وہ شیزہ کو پسند کرتا ہے۔ مہرین جو نیچے اتر رہی تھی اس نے عاشر کے چہرے کی خوشی دیکھ کر منہ پھیر لیا تھا۔
”جاؤ اسے بھی بول دو آج دعوت میں مل لے گی سب سے۔” ماما جان نے عاشر سے کہا۔
وہ ماما جان کے کہنے پر مہرین سے مخاطب ہونے کے لئے آگے بڑھا۔
”آج میرے دوست آ رہے ہیں سارے تو آپ بھی آجایئے گا۔” الفاظ اس کے منہ سے نہیں نکل پا رہے تھے۔
”شکریہ مگر میری طبیعت ٹھیک نہیں” اس نے آج زندگی میں پہلی بار عاشر کو کوئی ڈھنگ کا جواب دیا تھا۔
”چلیں ٹھیک ہے۔” وہ کندھے اچکا کر چلا گیا۔
رات دعوت پر سب آگئے تھے۔ مہرین کو تین دن سے بخار تھا مگر اس نے دوائی لے کر خود کو صحیح کر لیا تھا وہ بستر پر ہی لیٹی تھی لیکن نیچے سے آنے والی آوازوں نے اس کے سر میں درد کر دیا تھا۔
وہ بہت غصے میں اٹھی اور سیڑھیاں اترنے لگی اترتے ہی اس نے شیزہ کو عاشر کے ساتھ ہنستے ہوئے دیکھا اس کو تو کیسے مرچیں لگ گئیں۔
نارنجی کلر کے فراک میں کھڑی شیزہ اسے انتہا سے زیادہ زہر لگی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ اترتی ہوئی دونوں کے پاس پہنچی۔
”واہ! واقعی خون کا اثر تو ہوتا ہی ہے تم سب خاندانی آوارہ ہو؟ کیا خاندان بھی ہے تم لوگوں کا؟ یہ مردوں کو پھسانے کے ہنر کہاں سے لاتے ہو تم لوگ؟ ایک تم اور ایک عاشر کی ماں دونوں آوارہ۔” اس نے چیخ کر کہا شیزہ تو جیسے ساکت رہ گئی۔ جیسے کسی نے اس کے دل میں چھری مار دی ہو
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” شیزہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”افف ڈرامے بھی بلکل ویسے۔۔۔۔۔!!” مہرین نے طنزیہ کہا۔
عاشر جو کافی دیر سے مہرین کی بکواس برداشت کر رہا تھا اس سے رہا نہ گیا۔
”بس مہرین ایک اور لفظ مت کہیئے گا جتنی گھٹیا آپ ہیں اتنی گھٹیا ہی آپ کی سوچ بھی ہے۔” وہ بہت زور سے بولا۔
شیزہ تو وہاں رکی نہیں اور وہاں سے چلی گئی اور ساتھ میں عاشر بھی وہاں سے نکل گیا بس مہرین وہیں کھڑی رہ گی۔
★★★★★
اس واقعے کے بعد شیزہ مہرین کے سامنے کبھی نہیں آئی اور وہ ویسے بھی چھ دن بعد وہاں سے جانے والی تھی۔ ماما جان نے شیزہ کو عاشر کے لیے پسند کر لیا تھا اور عاشر کی پسنددیدگی بھی صاف ظاہر تھی۔
”تو کیا آپ چاہتی ہیں کے میں دانیال سے بات کروں؟” بابا جان ماما جان سے عاشر کی شیزہ سے
منگنی کے بارے میں پوچھا۔
”ہاں بات کر لیں جہانزیب وقت تو مناسب ہے پھر یہ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں اور شیزہ بہت سلجھی ہوئی سمجھددار لڑکی ہے۔ اگر دانیال کو کوئی اعتراض نہیں تو مل جل کر دونوں کی منگنی کر دیتے ہیں اور کچھ وقت بعد شادی کر دیں گے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟” ماما جان نے بابا جان سے مشورہ کیا۔ اب یوں تو وہ جانتی تھیں کہ عاشر تو بہت پہلے سے شیزہ کو پسند کرتا ہے مگر کبھی انہوں نے یہ بات عاشر سے کھل کر نہیں پوچھی ایک بار پوچھی تھی تو جواب کوئی خاص نہیں تھا۔ مگر پھر انہوں نے عاشر اورشیزہ کی بات بابا جان سے نہیں کی کیونکہ شیزہ کی والدہ ان سے نہیں ملیں تھیں اور یہاں تک کے کبھی فون کر کے خیریت تک دریافت نہیں کی تو اس وجہ سے ماما جان نے شیزہ کے بارے میں بات نہیں کی۔
”میں دانیال سے بات کروں گا اور شیزہ سے بھی اگر وہ لوگ راضی ہو جاتے ہیں تو ٹھیک ہے دونوں کی منگنی طے کر دیں گے اور شیزہ بہت اچھی بچی ہے ہمارے عاشر کے لیے بہت صیحح رہے گی۔”
بابا جان نے ماما جان کی بات پر حامی بھری۔
”آپ نے عاشر سے بات کی کیا اس نے ہاں کر دی ہے؟” بابا جان نے ایک بار پھر زرمینہ سے پوچھا۔
”نہیں ابھی پوچھا نہیں ہے مگر مجھے پورا یقین ہے وہ ہاں ہی کہے گا۔” ماما جان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”پہلے عاشر سے بات کر لو زرمینہ پھر میں دانیال کو بھی فون کرتا ہوں۔ ہمارے بیٹے کی زندگی میں شیزہ کے علاوہ کوئی اور لڑکی ہو ہی نہیں سکتی!” وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے۔
”اچھا جناب اگر آپ کہتے ہیں تو میں عاشر سے پوچھ لیتی ہوں۔” انہوں نے یہ کہ کر چاۓ کا مگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
★★★★★
عاشر پھولوں کو پانی دے رہا تھا اور شیزہ بانو کے ساتھ شاپنگ پر نکلی ہوئی تھی جبکہ مہرین طبیعت خراب ہونے کے باعث کمرے میں موجود تھی۔
عاشر کو پھولوں سے انسیت تھی مگر اس سے زیادہ مہرین کو اسی لیے مہرین کے پھول الگ ہوتے تھے جو کہ ہر رنگ کےہوتے تھے۔ لال، پیلے ، گلابی رنگ کے پھولوں سے بھرا رہتا تھا گارڈن۔
مہرین کےجانے کے بعد عاشر نے اپنی پسند کے سفید پھول لگا لئے تھے اور جہاں مہرین کے پھول مرجھا گئے تھے وہاں منی پلانٹ اگا دیے تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے گارڈن کی صفائی ہر دو دن بعد کرتا تھا۔یا پھر اسلام آباد جانے کے بعد ماما جان کو تاکید کرتا رہتا تھا کہ پھولوں میں پانی ڈال دیجئے گا۔
وہ پھولوں کو پانی دیتے ہوئے بڑے خوشگوار موڈ میں اپنا فیورٹ سانگ ‘Closer’ گا رہا تھا۔
”So, baby, pull me closer
In the backseat of your Rover
That I know you can’t afford
Bite that tattoo on your shoulder
Pull the sheets right off the corner
Of the mattress that you stole
From your roommate back in Boulder
We ain’t ever getting older۔”
ماما جان پیچھے ہی کھڑی اس کو گنگناتے سن رہیں تھیں۔
”اگر تم بزی نہ ہو تو بات کرنی ہے تم سے۔” ماما جان نے اسے پیار سے کہا۔
”بلکل ماما جان! اس نے سر جھکا کرکہا۔” اور ان کی طرف متوجہ ہوا۔
”اگر میں کہوں کہ میں نے اپنے بیٹے کے لیے لڑکی پسند کر لی ہے تو تم کیا کہو گے؟” اب وہ صرف اسے ٹیسٹ کر رہی تھیں۔
”تو میری پیاری ماما جان میں آپ کی پسند پر فورا آنکھیں بند کر کے ہاں بول دوں گا۔” وہ اپنے ہاتھ پیار سے ان کے کندھے پر رکھتے ہوئے بولا۔
”مگر وہ تمہارے مقابلے کی نہیں ہے مطلب کالی سی ہے، قد چھوٹا ہے مگر مجھے اچھی لگی تم کیا راضی ہو جاؤ گے؟” ان کے لیے اپنی ہنسی کو روکنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔
”ہاں ہاں۔۔۔۔۔ہاں! آپ کاحکم سر آنکھوں پر۔” وہ بہت زور سے ہنسا۔
”اچھا میں مذاق کر رہی رہی ہوں میں نے شیزہ کو تمہارے لیے پسند کیا ہے۔ کیا تمھیں کوئی اعتراض ہے؟” وہ عاشر سے پوچھنے لگیں۔
”میں تو سمجھا تھا کے مائیں اپنے بچوں کے دل کا حال سمجھتیں ہیں۔” عاشر نے شوخ ہو کر بولا تو ماما جان نے اس کے سر پر ہاتھ مارا۔
“لگتا ہے اب تمہاری شادی کرنی پڑے گی۔۔۔!!” وہ بولیں کہ اتنے میں مہرین وہاں آگئ اور عاشر کو کھڑا دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
”اگر ماما آپ کو اپنے لاڈلے کے لاڈ اٹھانے سے فرصت مل گئی ہو تو بتا دیں کے میری دوائیاں کہاں ہیں ساری؟” اس نے نہایت الجھن سے ماما جان سے پوچھا۔
“کس کی دوائی بیٹا؟” وہ مہرین سے کہنے لگیں۔
”سر میں درد کی۔۔۔!!” وہ بولی۔
”ماما جان میں جا رہا ہوں آپ دوائیاں ڈھونڈھ لیں۔” وہ وہاں سے جانے لگا۔
”آخر تمھیں ہوا کیا ہے؟ چلو ایک دفعہ ڈاکٹر کو دکھا لو۔” وہ مہرین کو بتانے لگیں جو ہاتھ باندھے غصے میں کھڑی تھی۔
”فلحال مجھے دوا دیں۔” وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور ماما جان بس بےبسی سے اس کی تکلیف کو محسوس کر رہی تھیں۔
” کیا بنے گا اس لڑکی کا!” انہوں نے سر پر ہاتھ مار کر سوچا۔
★★★★★
جہانزیب حسن نے بڑی ہمت اور انتظار کے بعد آخر کار دانیال حسن کو فون کر ہی لیا۔ فون پر انہوں نے عاشر کے لیے شیزہ کا ہاتھ مانگا تھا جسے دانیال نے فورا قبول کر لیا تھا۔
”بلکل جہانزیب بھائی ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہم تو بہت پہلے سے ہی یہ خواہش رکھتے ہیں۔ یہی کہ عاشر اور شیزہ کی آپس میں شادی ہو جاۓ اور اب یہ بات سن کر آپ ہماری خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔” وہ تو جیسے کھل اٹھے تھے۔
”کیا فریال بھابھی مان گئیں؟؟” جہانزیب نے سوال کیا۔
”ان کی بات چھوڑیں بس ہماری طرف سے ہاں سمجھیں۔ میرا یہ سن کر دل کر رہا ہے کہ میں اڑ کر کراچی آ جاؤں۔۔!” وہ خوشی سے کھل اٹھے۔
”ارے تو آ جائیں نہ آپ سب یوں منگنی بھی طے ہو جاۓ گی اور مل بھی لیں گے۔” انہوں نے دانیال کو مشورہ دیا۔
”میں گھر میں مشورہ کرتا ہوں اور پھر آپ کو فون کرتا ہوں، بھابھی کو سلام اور مہرین کو بہت پیار دیجئیےگا۔” پھر کال ختم ہوئی۔
شیزہ کو بھی ماما جان نے منگنی والی خبر بتائی تو وہ شرم کے مارے کمرے سے ہی باہر ہی نہیں نکلی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنی خوشی کس سے شیر کرے وہ انسان جس کو وہ بچپن سے چاہتی تھی وہ اسے مل رہا تھا۔ عاشر جیسا بندہ جو ہر عورت کا آئیڈیل ہو وہ اب اس کا تھا۔ اسے تو بس یہ پتا تھا کہ اب وہ عاشر کی ہے اور وہ اس کا۔ وہ اب ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ مہرین نے جو اس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی وہ اس نے بھلا دی تھی اور اب تو اس کو منگنی کی تیاری کرنی تھی۔
مہرین کو صبح سے تیز بخار تھا اور جسم میں کمزوری کے ساتھ کپکپی بھی تھی۔ رات بھر اسے نیند نہیں آئی تھی اور اب بھی وہ شدید درد میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی کے اچانک اس کا فون بجا۔
بہت دیر تک فون یوں بجتا رہا اور کچھ دیر بعد بہت ہمت کر کے مہرین نے فون کو کان سے لگایا۔
“ہیلو!” اس نے بہت آہستہ سے کہا۔ کال جاری تھی مگر جواب کوئی نہیں دے رہا تھا۔
“ہیلو؟” مہرین نے دوبارہ بولا مگر کسی نے جواب ہی نہیں دیا۔
“عجیب پاگل ہے جب منہ میں زبان نہیں ہے تو کال کیوں کرتے ہیں!” اس نے شدید غصے کے عالم میں فون رکھا۔
نیچے ہر طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔ آج اسلام آباد سے سب آرہے تھے۔ عاشر کے مامو، کزن، فرح ملک کے بھی سارے رشتے دار اور شیزہ کی کزنز سب ہی ان کے گھر آرہے تھے۔ شیزہ بھی خوشی خوشی سارے کام ماما جان کے ساتھ کروا رہی تھی۔ گھر میں ہر طرف رونق سی لگی ہوئی تھی اور ہر طرف خوشی ہی خوشی تھی۔ مگر اگر کوئی تکلیف میں تھا تو وہ مہرین تھی جس نے خود کو دنیا سے الگ کر رکھا تھا۔ کوئی مہرین کے دروازے سے پر کھٹکا رہا تھا۔
“آجاؤ!” اس نے دھیمی سے لہجے میں کہا۔
“مہرین باجی سب نیچے آپ کا انتظار کر رہے ہیں آپ بھی آجائیں۔” شیزہ نے مہرین سے کہا۔
“آجاؤں گی۔” وہ بس اتنا بول کر دوبارہ لیٹ گئی۔
پھر شیزہ نیچے آنے لگی تو عاشر بھی اوپر آرہا تھا۔
عشر کو دیکھ کے تو شیزہ سے نظریں ہی اوپر نہیں اٹھ رہی تھیں۔ دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شرم سے زمیں میں ہی نہ گڑھ جائے۔
“شیزہ!” عاشر کی آواز پر وہ ٹھہر گئی اور بہت مشکل سے اس نے اپنی دھڑکنوں کو قابو کر کے عاشر کا جواب دیا۔
“جی۔”
“تم خوش ہو نا؟ میرا مطلب اس منگنی پر؟” وہ اس کے قریب کھڑا تھا۔
“جی۔” اس نے بس اتنا ہی کہا۔
“بس جی؟” وہ شوق ہو کر بولا۔
“آنٹی بلا رہی ہیں۔” اس نے بہانہ بنایا اور وہاں سے بھاگ گئی۔ پھر کچن میں آکر اس نے سکون کا سانس لیا کیونکہ عاشر کے سامنے تو اسے لگتا ہے کے اس کی دنیا ہی رک گئی ہے۔
کچھ لوگ فرح ملک کی کزن کے گھر رک گئے تھے باقی لوگ جہانزیب کے گھر رک گئے تھے۔ عالیہ، دانیال، رضا اور زبیر جہانزیب کے گھر آے تھے مگر ساتھ میں دانیال کی بیوی نہیں آئی تھیں۔
“دانیال کیا تمہاری بیوی نہیں آئی؟” ماما جان نے تشویش سے پوچھا۔
“وہ ابھی پاکستان میں نہیں اور وہ کچھ وجوہات کی وجہ سے منگنی میں شاید شرکت نہیں کر سکے گی۔” دانیال نے بتایا تو ماما جان نے آگے کچھ نہ کہا۔
پھر پورا ہفتے تیاری رہی اور تیاری کے دوران شیزہ نے دانیال سے بار بار پوچھا تھا کے اس کی امی کیوں نہیں آئیں مگر دانیال نے اسے ساری بات سمجھا دی تھی۔
******
آج عاشر کی منگنی کا دن تھا۔ سارے گھر میں ہللہ گللہ تھا۔ ایک بار پھر سے جہانزیب کا گھر رونقوں سے سج گیا تھا۔ ہر طرف شور اور میوزک لگا ہوا تھا۔ عاشر کے سب ہی دوست گھر آگئے تھے۔ ماما جان تو شیزہ کی بلائیں لے لے کر نہیں تھک رہی تھی۔ آہستہ آہستہ سب گھر میں آنا شروع ہوگئے۔ جیسے ہی سب لوگ ساتھ جمع ہوئے تو بابا جان نے رسم شروع کروانے کا کہا۔
شیزہ کا ہاتھ اس نے تھام لیا تھا اور اس نے خوبصورت سی ڈائمنڈ رنگ جس میں تین اور نگ خوبصورتی سے جڑے ہوئے تھے اس کی انگلی میں پہنائی تو سب خوشی سے جھوم اٹھے۔ وہ نارنجی کلر کی فراک جو عاشر خود اسکے لیۓ لیا تھا وہ اس نے پہن رکھی تھی۔ شیزہ کی تو دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کے وہ سانس تک نہیں لے پا رہی تھی۔ عاشر تو ویسے ہی حسین لگتا تھا اور کالے کامیز شلوار میں تو وہ بہت ہی ہینڈ سم لگ رہا تھا۔ گھر کی خوشیاں لوٹ آئین تھی اور سب ہی خوشی میں گانوں پر ڈانسکر رہے تھے مگر اگر کوئی خوش نہیں تھا تو وہ مہرین۔ اس نے اپنے کمرے کی ساری چیزیں توڑ ڈالی تھیں اور رو رو کر اس نے اپنا حشر بگاڑ لیا تھا۔
“اگر میں خوش نہیں ہوں تو عاشر بھی نہیں رہے گا۔” زور سے پر فیوم کی بوتل توڑ کر وہ بولی۔ اس سے عاشر کی خوشی برداشت نہیں ہورہی تھی۔ وہ کسی صورت اسے کامیاب نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ نفرت کی آگ نے اس کے پورے وجود کو جھسلا دیا تھا۔ وجود میں بے سکونی تھی اور ہر طرف ایک نفرت کی آگ جل رہی تھی جسے وہ چاہ کر بھی نہیں بجھا سکتی تھی۔
عاشر بہت ہی خوش خوش کپڑے چینج کر کے آرہا تھا ساتھ میں کال پر شیزہ تھی جب ماما جان نے آکر اسے بتایا کےمہرین کوبہت تیز بخار ہے اور وہ بے ہوش پڑی ہے۔
“کیا؟” وہ شیزہ کا فون رکھتے ہوئے بولا اور ماما جان کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھا۔ وہ بے ہوش پڑی تھی عاشر کو اس کی حالت پر حیرانی ہوئی اور اس نے بغیر دیر کیۓ ڈاکٹر کو فون کیا جو کے تین گھر چھوڑ کر قریب ہی رہتے تھے۔ ڈاکٹر پندرہ منٹ میں آگئے تھے اور فورا مہرین کا بی پی چیک کیا جو کم تھا۔ پھر چیک اپ کر کے بتایا کے وہ شدید تکلیف میں ہے اور شاید ڈپریشن کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی ہے۔
ماما جان کے تو مہرین کی یہ حالت دیکھ کر ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ شدید پریشانی میں بابا جان کے ساتھ کھڑے ہو کر انھیں سنا رہی تھیں۔
“آپ کو کیا ذرا بھی خیال نہیں آیا مہرین کا؟ میں کب سے کہہ رہی تھی کے وہ ٹھیک نہیں ہے جہانزیب!” ماما جان نے روتے ہوئے کہا۔
“کچھ نہیں ہوا اسے زرمینہ، ٹھیک ہوجائے گی۔” بابا جان نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
“آپ کو عاشر کا خیال تو ہے مگر مہرین کا ذرا برابر بھی نہیں۔ آپ کو دیکھنا چاہیے تھا کے وہ کس قدر تکلیف میں ہے۔” ماما جان بہت جذباتی ہوگئی تھیں۔ آخر انہوں نے کہہ ہی دیا کے مہرین کے ساتھ بابا جان نے زیادتی کی ہے جو کے عاشر نے کمرے کے باہر سے سن لیا تھا۔
“کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہورہی معمولی سا بخار ہے صحیح ہوجاۓ گا۔” بابا جان انکی ہمت باندھ رہے تھے مگر انہیں مہرین کی تکلیف کے سامنے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
“یہ معمولی بات نہیں ہے! وہ ہماری بیٹی ہے ایک ہی بیٹی آپ کو شاید اس سے ہمدردی نہ ہو مگر مجھے ہے!” وہ یہ سب کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھیں اور بابا جان بس چپ چاپ کھڑے ہو کر اپنے مقدر پر آنسوں بہا رہے تھے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مہرین کے پاس آئے جو بے ہوش بستر پر پڑی تھی اور اسکی بند آنکھوں پر انہوں نے اپنے ہاتھ رکھ دئے پھر اسکے قریب بیٹھ گئے۔ کتنی ہی دیر وہ یوں اس کے قریب بیٹھ کر اسے دیکھتے رہے اور آنکھوں سے آنسوں بہاتے رہے۔
“میری بیٹی مہرین اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس دنیا کا سب سے اچھا اور سلجھا ہوا شخص تمہارے لئے پسند کرتا مگر تم نے اتنی دیواریں کھڑی کر دیں کے اب چاہ کے بھی یہ نہیں ہوسکتا۔” یہ بولتے بولتے انکی آنکھوں سے مزید آنسوں نکلے۔
*****
منگنی کے ایک دن بعد ہی شیزہ اور باقی سب وہاں سے اسلام آباد چلے گئے۔ عاشر کا تو جی چاہ رہا تھا کے شیزہ کو وہیں روک لے مگر وہ محبت ہی کہاں جس میں وصال نہ ہو۔ جو لوگ محبت کرنے لگتے ہیں انکا دل اور وجود اپنے محبوب سے جڑ جاتا ہے پھر چاہے دنیا ہی کی ہر خوشی ان کے مقدر میں آجاۓ انکا دل صرف محبت کی طلب حاصل کر کے ہی خوش ہوتا ہے۔
عاشر کی تین دن بعد کی فلائٹ وہ تیاری کر رہا تھا۔ مہرین کی طبعیت ٹھیک تھی اور وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب ماما جان اور بابا جان کی زور زور سے آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ مہرین عاشر دونوں ہی کمرے کی طرف بڑھے اور ساتھ ہی دروازہ کھولا۔
“کیا یہ بات دانیال نہیں جانتا تھا! آخر یہ تماشہ کیوں بنایا ہمارا؟” ماما جان نے زور سے چیخا۔
مہرین نے عاشر کی طرف دیکھا جو خود پھٹی پھٹی نظروں سے ان دونوں کی طرف پریشانی سے دیکھ رہا تھا۔
“اگر دانیال کی بیوی کو ہمارے خاندان سے مسلہ تھا اور شیزہ کی کہیں اور ہی کرنا چاہتی تھیں تو یہ بات پہلے کیوں نہیں کی؟” ماما جان نے جب یہ کہا تو عاشر کے سر پر تو جیسے کوئی پہاڑ ٹوٹ گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے آخر یہ ہوا کیا ہے۔
“بابا جان ہوا کیا ہے؟” عشر نے بہت مشکل سے یہ سوال کیا۔
“بیٹا تمہاری شادی شیزہ سے نہیں ہو سکتی۔ اس کی والدہ نے فون کر کے ہمیں منع کردیا ہے اور منگنی کی انگھوٹی واپس بھیجنا کا کہا ہے۔” وہ بہت ہی درد بھرے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
“کیا؟ مگر کیوں؟” عشر نے آج پہلی بار چیخ کر کہا تھا۔
“کیونکہ کے ان کا کہنا ہے کے دانیال نے ان کی مرضی کے بغیر یہ شادی طے کی ہے اور وہ مہرین کی موجودگی میں اپنی بیٹی نہیں دیں گی اور یہ بھی کے انہوں نے بچپن میں ہی شیزہ کی بات اپنے بھانجے سے کر رکھی ہے۔” وہ عاشر کو نہایت افسردگی سے بتا رہے تھے۔
“تو ان لوگوں نے ہاں کیوں کی پھر؟ جب سب راضی تھےتو ہمیں یوں بدنام کیوں کرا انہوں نے؟ اور شیزہ وہ؟ ” وہ اس وقت کسی شاک کی حالت میں تھا۔
منگنی ٹوٹنے کا اسے صدمہ لگا تھا شاید خوشیاں اس کے نصیب میں ہی تھیں۔ شاید غم اس کی زندگی کا حصہ تھا اور اب وہ مزید کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔
مہرین بھی کافی شاک میں تھی کے یوں بیٹھے بیٹھے یہ رشتہ کیسے ختم ہوگیا مگر خوش بھی تھی کے اب عاشر بھی اس کی طرح روئے گا اور اب اس کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑی تھی۔ وہ تو کچھ نہ بولی بس ایک مسکراہٹ لے کر وہاں سے چلی گئی۔ بابا جان تو سر پکڑ کے بیٹھ گئے کے یہ کیسی آزمائش آ پڑی تھی ان پر کے ان کے دونوں بچے یوں برباد ہوئے تھے۔
“میں کچھ نہیں کر سکا اپنے بچوں کے لئے زرمینہ! کچھ بھی!” وہ منہ پر ہاتھ مار کر صوفہ پر بیٹھ گئے۔
“ایسا نہ کہیں اس سب میں الله کی مصلحت تھی آپ کا قصور نہیں بس کر دیں۔” وہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔
“مہرین کا کیا کروں میں؟ اگر اس کو یوں چھوڑ دیا تو وہ پاگل ہوجائے گی۔ اور اب عاشر بھی شدید غصے میں ہے میں نے حل سوچ لیا ہے!” وہ ایک دم یہ کہتے ہوئے اٹھے۔
“کیسا حل؟” ماما جان نے حیرانی سے پوچھا۔
“مجھے عاشر سے بہت بڑی گزارش کرنی پڑے گی۔ وہ راضی نہیں ہوگا مگر اسے بیٹا ہونے کا حق دینا ہوگا۔” وہ جو بول رہے تھے وہ ماما جان نہیں سمجھ پا رہی تھیں۔
“مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ آپ کیا فیصلہ کرنے جارہے ہیں؟۔۔۔؟” ماما جان نے کہا۔
“میں چاہتا ہوں کے عاشر مہرین سے شادی کر لے اور اسے ساتھ لے جائے۔ میں چاہتا ہوں کے عاشر مہرین کو اپنا لے۔” یہ بات سن کر ماما جان پر تو جیسے پہاڑ ہی گر گیا ہو۔ وہ حیرت سے بابا جان کی طرف دیکھنے لگیں اور الفاظ جیسے ان کے پاس ختم ہوگئے تھے۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔!! عاشر کی شادی مہرین سے؟” وہ تو جیسے بولنا ہی بھول گئیں ہوں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...