“یہ کیا ہے انشاء ۔۔۔ زینب بی نے حیرت سے دیکھا لفافے کو ۔۔۔
“ہفتے کے روز اجائیں گے عیان ان کو دے دجیۓ گا ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“اور تم کہاں جارہی ہو اج ۔۔۔ انہوں نے تشویش سے پوچھا ۔۔۔
“خط میں سب لکھا ہے ۔۔۔ انشاء نے دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔
“انشاء ایسی بےوقوفی مت کرو ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔۔
“بیٹھو اور میری بات سنو ۔۔۔ وہ جو کھڑے کھڑے واپس جانا چاہ رہی تھی زینب بی نے اسے ہاتھ پکڑ کر بیٹھانا چاہا ۔۔۔
“پلیز زینب بی جو بھی کررہی ہوں سب سوچ سمجھ کر رہی ہوں ۔۔۔
وہ بیٹھ تو گئی پہلو بدل کر بولی تھی زینب بی سے ۔۔۔ زینب بی بغور اور اسکا چہرہ دیکھ رہی تھیں جس کا چہرہ ضبط سے لال ہو رہا تھا ۔۔۔
“انشاء میں عیان کو فون کرکے سب بتا رہی ہوں ۔۔ اس کے سخت انداز پر زینب بی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔
“آپ کو میری قسم زینب بی اپ کچھ نہیں کہیں گی عیان سے ۔۔۔ اور اگر ایک لفظ کہا تو میں کچھ کر بیٹھوں گی ۔۔۔ انشاء کے لہجے میں سخت دھمکی تھی ۔۔۔
“عیان نے پوچھی فوں پر تمہاری خریت تو ۔۔
اب کے زینب بی نے ذرا نرم لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔
“کوئی بھی بہانہ کرلجیۓ گا ۔۔۔ اور ویسے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہوگا جو فون پر کسی کی خیریت پوچھیں گے بھی … انشاء کے لہجے کی بےاعتباری نے زینب بی کو صدمہ ہی پہنچایا تھا ۔۔۔
“اتنی بدظن کیوں ہورہی ہو عیان سے ۔۔۔ جانتی ہو کتنی فکر کرتا ہے تمہاری ۔۔۔ انہوں نے دکھ سے کہا ۔۔۔
“آپ کچھ نہیں جانتی زینب بی۔۔۔ انشاء اتنا کہے کر چپ ہوئی ۔۔۔
” آپ کچھ نہیں جانتی زینب بی غلطی ساری میری ہے اور جب کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کا ازالہ بھی کرنا پڑتا ہے اور وہی کر رہی ہوں میں ۔۔۔ عیان کی تو اس میں غلطی بھی نہیں ۔۔۔ پر اپ کو بتا کر ایک اور اذیت سے گزرنے کی ہمت نہیں مجھ میں ۔۔
انشاء نے اندر ہی اندر خود سے کہا اور زینب بی اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہی تھیں غور سے۔۔
” مانتی ہوں میں کچھ نہیں جانتی پر اتنا سمجھتی ہوں کہ میاں بیوی کی لڑائی میں کوئی بیوی گھر تھوڑی چھوڑتی ہے ۔۔۔ زینب بی نے دوبارہ سمجھانا چاہا ۔۔۔
“پلیز زینب بی ۔۔۔ مجھے پیکنگ کرنی ہے پھر نکلنا ہے یہاں سے ۔۔۔
وہ جو کبھی ایک قدم اکیلے باہر نہیں نکلتی تھی اج اس طرح اپنا گھر چھوڑ رہی ہے وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہی تھیں ۔۔۔
وہ پیکنگ کرنے جاچکی تھی وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ۔۔
کل دن کو علیزے چلی گئی تھی سب سے مل کر ۔۔۔جبکہ اس کی روانگی کے وقت انشاء نہ تھی گھر پر ، وہ فریحہ آنٹی کا کہے کر گئی تھی ۔۔۔ جبکہ آئی بھی رات کو تھی وہان سے اور جب وہ آئی تھی اس وقت عیان اسٹڈی میں تھا اور وہ زینب بی سے مل کر چلی گئی تھی اپنے روم میں ۔۔۔
اج صبح عیان سب کو خدا حافظ کہہ کر گیا تھا کیونکہ اسے افیس سے روانہ ہونا تھا ۔۔۔ کتنا دل چاہ رہا تھا زینب بی کا کہ ایک دفعہ اسے بتا دے کہ وہ باپ بننے والا ہے مگر انشاء کا خیال نہ ہوتا تو وہ خود ہی بتا دیتیں ۔۔۔ اور اب وہ سخت پچھتا رہیں تھیں ۔۔۔
@@@@@@
“عیان بیٹا تم ۔۔۔ زینب بی سخت حیران تھیں اس وقت عیان کو دیکھ کر گھر میں ۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی تو انشاء گھر سے نکلی تھی ۔۔۔
“وہ ایک ضروری ڈاکومینٹ رہ گیا تھا گھر پر سوچا اپ کو مشکل ہوگی ڈھونڈنے میں ، اس لیۓ خود لینے اگیا ۔۔۔ عیان نے جلدی سے بتا کر روم کی طرف گیا ۔۔
اس نے جلدی میں زینب بی کی طرف غور نہیں کیا پر اب واپسی میں انہیں اسی طرح بےحال لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر پوچھنے بنا رہ نہ سکا “کیا ہوا زینب بی اور انشاء کہاں ہے ۔۔۔
اس نے ادھر ادھر نظر گھما کر کہا ۔۔۔
“بیٹا انشاء چلی گئی ہے یہ خط دے کر ۔۔۔ زینب بی کی بات پر وہ شاک ہوا اور ان سے خط لیا ۔۔۔
وہ فائل جس میں ڈاکومینٹ تھا وہ ہاتھ سے چھوٹ گیا اور صدمے کی کیفیت میں اس نے خط تھاما زینب بی کے ہاتھ سے ۔۔۔
“وہ چلی گئی اس طرح بنا بتاۓ کیسے ۔۔۔ شاک لہجے میں خود سے کہا عیان نے ۔۔۔
اس کی دکھ اور صدمے کی کیفیت کو سمجھ رہیں تھیں زینب بی ۔۔۔ عیان بلکل ان کو معصوم اور بےخبر لگا ۔۔ کتنی بےتابی سے اس نے خط کھولا تھا ۔۔۔ زینب بی کو اس کے درد کا احساس ہوا ۔۔۔
زینب بی نے فائل کو ٹیبل پر رکھا اور وہان سے چلی گئیں جانتی تھی اس وقت اسے تنہائی کی ضرورت ہوگی ۔۔
عیان نے خط کھولا جس میں انشاء نے لکھا تھا ۔۔۔۔
” جانتی ہو جب یہ خط پڑھیں گے تو آپ سے میں بہت دور ہوںگے ۔۔۔ پر یقین رکھیں اپ کا احساس اپنے ساتھ لے کر جارہی ہوں ۔۔۔ سمجھ نہیں اتا کہاں سے شروع کروں ۔۔۔ وہاں سے جہان سے میں نے بیوقوفیوں کا آغاز کیا تھا یا پھر وہان سے جہان اپ نے مجھے اگنور کرنا شروع کیا تھا ۔۔۔ اس سب میں کہیں اپ غلط نہیں تھے ہر جگہ میں ہی غلط اور خودغرض رہی ہوں ۔۔۔ جس درد سے میں گزر رہی تھی اسی درد سے اپ بھی دوچار تھے پر میں نے یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کبھی ۔۔۔ اپ نے اپنا درد چھپا کر میرے درد کو کم کرنا چاہا پر میں اپ کو اذیت پر اذیت دیتی رہی ۔۔۔ بغیر کسی احساس کے اپ کو غلط اور خود کو سہی سمجھتی رہی ۔۔۔ اپ نے مجھے بیوی کا مقام دیا اور محبت دی اور میں اسے ہوس کا نام دیتی رہی ، اپ کے سچے جذبے کو محسوس نہ کیا اور اپ کو دوسری شادی کا کہتی رہی ہر بار ۔۔ آپ سہی تھے عیان ، مجھ سے غلطی ہوئی اپ کو سمجھنے میں ۔۔۔ پر شاید مجھ سے ہی دیر ہوگئی واپسی میں ۔۔ جب میں پلٹی تو آپ نے ہی راستہ بدل لیا ۔۔۔
عیان نے ایک لمحے کو رکا اور سوچا ” میں نے راستہ بدلا ۔۔۔ اور دوبارہ خط کو پڑھنے لگا ۔۔۔ اس وقت وہ بھول چکا تھا اسے روانہ ہونا تھا ۔۔۔
اس نے دوبارہ خط پڑھنا شروع کیا ۔۔۔
“اتنا بدظن ہوگۓ مجھ سے کہ علیزے نے پوچھا میں کون ہوں اپ نے جواب تک نہ دیا اگر فرقان بھائی نہ بتاتے تو شاید گواراہ نہ کرتے میرے انٹروڈکشن کا ۔۔کتنے اور گلے کروں سمجھ نہیں ارہا علیزے کے اتے ہی میرا وجود تو اپ کی نظر میں رہا ہی نہیں ۔۔۔ پھر سب بدلنے لگا اپ نے مجھ سے بولنا چھوڑ دیا ۔۔۔ یہان تک علیزے سے دوسری شادی تک کا فیصلہ کرلیا مجھے بتایا تک نہیں ۔۔۔ افسوس پر میں جانتی ہوں کہ اپ اس سے اسلام آباد میں شادی کرنے ہی جارہے ہیں ۔۔۔ پر میں آپ کو چاہ کر بھی نہیں روک سکتی جبکہ میرے پاس وجہ بھی ہے آپ کو روکنے کی ۔۔۔ کیونکہ میں اتنی خود غرض نہیں بننا چاہتی اس لیۓ اپ کو نہیں بتارہی ہماری آنے والی اولاد کا ، میں ہماری اولاد کا استعمال نہیں کرنا چاہتی ہمارے رشتے کو بچانے کے لیۓ ۔۔۔
“پر اب جب اپ کو یہ خط ملے گا اپ اور علیزے ایک تعلق میں بندھ چکے ہونگے ۔۔۔ میں کراچی جارہی ہوں کیونکہ اپ کے ساتھ کسی اور کو دیکھنا میرے بس میں نہیں ۔۔ جب سنبھل جاؤں گی یا پھر باباجان آئیں گے تب واپس اجاؤں گی ۔۔۔ فریحہ آنٹی کے میکے جارہی ہوں ان کے بڑے بھائی کے ساتھ ۔۔۔ امید ہے اپ ہمیشہ خوش رہیں گے علیزے کے ساتھ جیسے ان دنوں اپ کو خوش دیکھا تھا اس کے ساتھ اس گھر میں ۔۔۔
“اور میں اپ کی بدنصیب انشاء جو کبھی کوئی خوشی نہ دے سکی اپ کو ۔۔۔یہ آخری نشانی ہی ہمارے تعلق کی ، جینے کی وجہ ہے میرے لیۓ ۔۔۔۔
عیان کئی لمحے بےیقینی سے دیکھتا رہا خط کو ، خط تو ختم ہوچکا تھا پر وہ ایک دفعہ اور پڑھا اس نے اور یقین کرنے کی کوشش کرنے لگا جو اس نے پڑھا کیا واقعی وہ سچ تھا اور انشاء یہ سب کرسکتی ہے ۔۔۔ کئی لمحے بےبسی کے نظر ہوگۓ پھر خود کو سنبھالا اس نے ۔۔۔
اس نے فون کرکے سب سے پہلے میٹنگ کینسل کی ایمرجنسی کا کہے کر ۔۔
پھر وہ پلٹا زینب بی کے کمرے کی طرف اس سے پہلے کے وہ دروازہ کھول کر اندر جاتا زینب بی خود باہر آ رہی تھیں۔۔۔ وہ ٹھر گئیں دروازے کے پاس ۔۔۔ پھر عیان نے کہا ۔۔
“اپ کو پتا ہے زینب بی، میں باپ بننے والا ہوں ۔۔
خوشی اور دکھ دونوں اس کے لہجے میں تھے ۔۔۔۔
” جانتی ہوں بیٹے ، پر پہلے انشاء کو واپس لاؤ ۔۔۔
زینب بی نے کہا ۔۔۔
” اس کا مطلب آپ کو پتا تھا اور آپ نے مجھے بتانا بھی ضروری نہ سمجھا ۔۔۔ پہلے انشاء کو لے کر آؤں پھر آپ سے بھی حساب لوں گا۔۔۔
عیان کے لہجے میں ناراضگی تھی اس لیۓ تھوڑا چڑ کر کہا جس پر زینب بی نے کہا ۔۔۔
“لیتے رہنا مجھ سے حساب میں کہیں نہیں بھاگی جارہی بس پہلے اس بیوقوف کو واپس لاؤ عیان بیٹے ۔۔۔
عیان کے انداز سے زینب بی کو اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا انشاء ہمیشہ کی طرح کوئی بےوقوفی کر بیٹھی ہے اور اپنی غلطی سے کسی شدید غلط فہمی کا بھی شکار ہوئی ہے ۔۔۔
“اسے تو لے ہی آؤں گا زینب بی ۔۔۔ بس بےوقوف بیوی میرے نصیب میں ہے کیا کروں ۔۔۔
اور وہ جلدی سے چلا گیا موبائل پر کسی سے کال ملاتا ہوا ۔۔
@@@@@@
داؤد صاحب نے بغور اس لڑکی کو دیکھا جو سر دونوں ہاتھوں میں گراۓ بیٹھی تھی ۔۔ جس کے انداز سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ کسی شدید خسارے میں ہے۔۔۔ گم صم اداس سی اس معصوم لڑکی پر رحم ایا ان کو ۔۔۔ دل چاہا رہا تھا اس سے پوچھ لیں کس درد سے گزر رہی ہے یہ لڑکی ۔۔۔ ائیرپوٹ پر گزرتا ہر شخص ایک نظر اس پر ڈالتا اگے بڑھ جاتا افسوس کرتا وہ اس طرح مایوسی سے جو بیٹھی تھی ۔۔۔
کچھ دیر میں ان کی فلائیٹ تھی کراچی کی ۔۔۔ ابھی فلائیٹ کی اناؤنسمینٹ کا انتظار تھا اس لیۓ رش تھا ایئرپوٹ پر ۔۔۔
اچانک انشاء کو لگا کوئی اس کے پاس بیٹھا ہے چونک کر سر اٹھایا اس نے ۔۔۔ کئی لمحے حیرت سے دیکھتی رہی ۔۔۔ شاید دل کی خواہش تھی عیان اسے روک لے اور وہ خواب تھا اس کا ۔۔۔ اسے لگا شاید وہ نیند میں ہے اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور احساس ہوا خواب نہیں ہوش وحواس میں ہے عیان اس کے سامنے ۔۔۔ وہ شرمندہ ہوئی اپنی بےوقوفی پر اور جلدی سے کہا ۔۔۔
“آپ گۓ نہیں اسلام آباد ۔۔ دل کی عجیب کیفیت ہورہی تھی انشاء کی ۔۔۔ عیان نے اسے ایک گھوری سے نوازا اور اٹھا ، جاکر داؤد صاحب کے روبرو ہوا اور کہا ۔۔۔
“انکل میرا جانا کینسل ہوگیا ہے اس لیۓ میں خود لاؤں گا اپنی بیوی کو کراچی پھر کبھی ۔۔۔ معذرت چاہتا ہوں اپ کو تکلیف ہوئی ۔۔۔ وہ اور بھی کچھ کہتا پر داؤد انکل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ۔
“کوئی بات نہیں ۔۔۔ یہ زیادہ بہتر ہوگا تم خود آؤ کراچی اپنی بیوی کو لے کر اور ہمیں مہمانوازی کا موقع دو ۔۔۔
داؤد صاحب کوئی ینگ تو تھے نہیں ایک بزرگ تھے جنہوں نے ایک دنیا دیکھی ہوئی تھی چاہۓ ان کو ان کی بہن نے کچھ نہ بتایا تھا پر انشاء کے رویۓ سے وہ کافی کچھ سمجھ گۓ تھے اس لیۓ اب اس کا شوہر اگر آہی گیا تھا تو وہ کیوں اسے شرمندہ کرتے یا اسے شرمندہ ہونے دیتے ۔۔۔۔
“جی انکل پر پھر بھی معذرت چاہتا ہوں اپ کو تکلیف ہوئی ہماری وجہ سے ۔۔۔۔
انشاء دونوں کو دیکھ رہی تھی اور سن بھی رہی تھی ۔۔۔ اسے اچھی طرح سمجھ آرہی تھی اب عیان نے اس سے ناراض ہونا ہے ۔۔۔
“کوئی بات نہیں اچھا چلو اللہ حافظ ۔۔۔ لاسٹ اناؤنسمینٹ ہورہی ہے فلائیٹ کی ۔۔۔ دونوں نے ہاتھ ملا کر ایک دوسرے سے الوداع لی اور انشاء کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دے کر اگے بڑھ گۓ ۔۔ انشاء ان کو جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔
” اب انکل کو دیکھتی ہی رہو گی یا گھر چلو گی ۔۔۔
عیان نے غصے سے بھرپور لہجے میں کہا ۔۔۔ کچھ کہنے کے لیۓ لب کھولتی پھر سکوڑ لیۓ انشاء نے ۔۔۔
“چلو ۔۔۔ عیان نے حکم دیا اور وہ سر جھکاۓ اس کے ساتھ جانے لگی ۔۔
@@@@@@@
اس وقت وہ صوفے پر بیٹھی تھی سرجھکاۓ ۔۔۔ جبکہ لاؤنج میں ٹہل رہا تھا دونوں ہاتھوں کی مُٹھیاں بھینچے ایسا لگ رہا وہ اپنا غصہ ضبط کررہا تھا ۔۔
اسی وقت زینب بی آئی اور انشاء کی طرف بڑھیں ۔۔۔
“رک جائیں زینب بی پہلے میں اس سے بات کرلوں پھر اور کوئی بولے گا اپ اندر جائیں فی الحال ۔۔۔
عیان نے دوٹوک کہا ۔۔۔ زینب بی کے قدم وہیں تھمے اور انہوں نے کہا ۔۔۔
“پہلے مجھے ملنے تو دو اپنی بیٹی سے ۔۔۔
“کوئی ضرورت نہیں پہلے میرے سوالوں کے جواب دے گی پھر کسی اور سے بات کرے گی یہ ۔۔۔
عیان کے سرد انداز پر انشاء اندر سے کانپ گئی ۔۔۔ مدد طلب نظروں سے زینب بی کو دیکھا ۔۔۔ جو آخری امید لگی انشاء کو اپنے بچاؤ کی ۔۔۔
“آپ اندر جائیں زینب بی ۔۔۔ انشاء نے نہیں کا اشارہ کیا نظروں جسے اگنور کرکے زینب بی چلیں گئیں اندر ۔۔۔ اب شدید گھبراہٹ ہوئی انشاء کو ۔۔۔ ہمت نہیں ہورہی تھی عیان سے بات کرنے کی ۔۔۔
“ادھر دیکھو میری طرف زینب بی جاچکی ہیں ۔۔۔ عیان کے کہنے پر اس نے اپنی نظر اس کی طرف کی اور اس کی سرخ شعلہ بنی آنکھوں میں زیادہ نہ دیکھ سکی انشاء اور نظرین جھکالیں ۔۔
غصے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بازو سے تھام کر اپنے روبرو کھڑا کیا اور اس کا لکھا خط اس کی انکھوں کے سامنے لہراتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“ادھر دیکھو اور مجھے بتاؤ اس خط کا کیا مقصد ہے ۔۔۔
وہ خاموش رہی ۔۔۔ اور اپنا رخ پھیر کر کھڑی رہی ۔۔۔
“میں کچھ پوچھ رہا ہوں بولو ۔۔۔
عیان نے اس کا بازو دبوچ کے دوبارہ اپنی طرف کرکے پوچھا ۔۔۔
“لگتا زبان گروی دے دی ہے نا جو اب لفظ نہیں نکل رہے ۔۔ ہممممم ۔۔۔ وہ ڈھیٹ بن کے کھڑی تھی اب انشاء کی انکھین نم ہونے لگیں ۔۔ وہ جو اپنی گرفت سخت کررہا تھا اس کے بازو پر غصے سے ۔۔۔ اب اس کی نم ہوتی پلکیں دیکھ کر ڈھیلا پڑ گیا اور کہا ۔۔۔
“کیا لکھا تھاخط میں تم نے ، مجھے تمہارا انٹروڈکشن کروانا گوارا نہیں تھا علیزے سے ۔۔۔ افسوس تم نے دیکھا تک نہیں جب اس نے تمہارا پوچھا یہ کوں تو میں اسے گھور کر دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ تمہیں یونیورسٹی کے زمانے سے دیکھتی ارہی ہے جب ایمان تم سب کی پکس مجھے بھیجا کرتا تھا تم ہماری فیملی کا حصہ ہو بابا جان کی بیٹی ہو ایون اس نے ہماری نکاح کی پکس تک دیکھی ہوئیں تھیں پھر اس کا اس طرح پوچھنا بلکل انجان لہجے میں اور میرا اسے گھورنا اس کی ڈھٹائی پر ، کچھ نہ نظر ایا تمہیں اور تم نے اتنی غلط فہمیاں پال لیں اور جو دماغ میں ایا سوچ لیا ۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا اگر مجھے علیزے سے شادی کرنی ہوتی تو بہت پہلے کرچکا ہوتا وہ دور نہ تھی میری پہنچ سے ۔۔۔ پر دوستی میں ملاوٹ کا قائل نہ میں ہوں اور نہ علیزے ۔۔۔
اب شاک ہوکر انشاء اسے دیکھنے لگی سمجھ نہیں ارہا تھا اب کیسے اپنی صفائی دے جیسا عیان سوچ رہا ہے سب کچھ ویسا بھی نہیں ۔۔
“مجھ سے ایک بیوی نہیں سنبھلتی اور تم نے کیسے سوچ لیا میں علیزے سے دوسری شادی کررہا ہوں ۔۔۔
چند لمحے رک کر دوبارہ بولا ۔۔۔
” بتاؤ مجھے تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس طرح گھر چھوڑنے کی اور مجھ سے چھپانے کی اتنی بڑی خوشخبری ، بولو مجھے جواب دو کیوں کیا ایسا تم نے ، بولو ۔۔
“عیان وہ ۔۔ انشاء کا لہجہ لڑکھڑایا ۔۔۔
“میں بتاتی ہوں عیان ، اس میں انشاء کی غلطی نہیں ، یہ سب ہمارا پھیلایا سارا فساد ہے ۔۔۔
اسی وقت علیزے نے کہا جس کے پیچھے عمر کھڑا تھا ۔۔۔ اب عیان اور انشاء نے حیرت سے دونوں کو دیکھا ۔۔۔
@@@@@@@
کچھ دن پہلے ۔۔
اس وقت علیزے اور عمر دونوں وڈیو کال پر بات کررہے تھے اور ابھی اس کے پاکستان انے میں چند دن تھے اور اب جو عمر نے اسے بتایا وہ سن کر چند لمحے کے لیۓ ساکت ہوگئی ۔۔۔
“اف شرم تو اتی نہیں تمہیں جو نازیہ بھابھی کی نظر میں میرا امیج خراب کردیا ۔۔۔ علیزے نے چڑکر انکھیں دکھائیں عمر جو جس کا اس نے ذرہ برا نہ منایا اور مزے سے کہا ۔
“کیا کریں دوست ہی دوست کے کام اتے ہیں ، بس عیان کے لیۓ کررہے ہیں ۔۔۔
عمر نے شانے اچکاۓ ۔۔۔ جس پر دانت پیس کر علیزے نے کہا ۔۔
“بیڑا غرق ہو تمہارا ، میرے انے سے پہلے ، میری نکالے جانے کا سامان کردیا تم نے ۔۔۔ واہ !! کی دوستی نبھائی تم نے ، دیکھ لیا دوستی کا عظیم جذبہ تم میں ، پرچا میرے نام کا کٹواکر شہیدوں میں نام تمہارا ہوگا واہ واہ ۔۔۔ سلام ہے ایسی دوستی پر ۔۔۔
“بس کرو علیزے ، کتنا شرمندہ کرو گی ۔۔۔ عمر نے ڈھٹائی سے کہا ۔۔۔
“شرمندہ اور تم یہ ناممکن ہے ، بہت ڈھیٹ ہو تم ۔۔۔ دل چاہتا ہے مار مار کر گنجا کردوں تمہیں ۔۔۔آنے دو پاکستان پھر دیکھنا کیا کرتی ہوں ۔۔۔
علیزے نے وارنگ دیتے ہوۓ کہا ۔۔ پر سامنے بھی عمر تھا جس نے اس کے غصے کو انجواۓ کرتے ہوۓ کہا ۔۔
“میں نے بھی چوڑیان نہیں پہن رکھیں ، تم جیسی بلیک بیلٹ سے ٹکر کا مقابلہ کروں گا ۔۔۔ میں بھی تمہارے بالوں کو بخشنے والا نہیں سمجھی ۔۔۔ عمر کو بہت پیار تھا اپنے بالوں سے جب بھی کوئی اس کے بالوں پر بات کرتا وہ بھی سامنے ایسے جواب دیتا تھا ۔۔ اس لیۓ اکثر عیان اور علیزے اسے مذاق میں گنجا کرنے کو کہتے تو وہ بھی چڑ کر جو منہ میں اتا کہتا ۔۔۔
اس سے پہلے لڑائی بڑھتی عمر سیریس ہوا اور کہا ۔۔۔
“اچھا یار بعد میں سکوں سے لڑ لیں گے پہلے انکل کو کہو عیان سے بات کرے تاکہ ہمارا پلان کچھ کام کرے ۔۔۔ اگر تم نے ویسے ہی کہا عیان سمجھ جاۓ گا سب ۔۔۔ وہ الریڈی مجھے سختی سے منع کرچکا ہے اس کی لائف میں انوالوو نہ ہوں پر کیا کروں اس کا درد بھی نہیں دیکھا جاتا مجھ سے ۔۔
پھر عمر کے سمجھانے پر وہ اچھی طرح سمجھ گئی کیا کرنا ہے اور کیسے ۔۔۔
“بس ہمیں اب انشاء بھابھی کے جذبات جگانے ہیں بیوی والے اور ان کو یہ احساس تم ہی دلاسکتی ہو کیونکہ تم سے زیادہ نزدیک کوئی لڑکی نہیں عیان کے ۔۔۔ تم سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا یہ کام ۔۔۔
“ہمممنممم ٹھیک کہے رہے ہو ۔۔۔ آخرکار علیزے مان گئی اس کی بات ۔۔۔ پھر کافی دیر دونوں ڈسکس کرتے رہے ۔۔۔
@@@@@@@@
“پاپا عیان کو فوں کریں جو کہا ہے اپ سے کہنے کو ۔۔۔ علیزے اپنے باپ سے کہے رہی تھی جو عمر نے کہا تھا ۔۔۔
“کیا مطلب اس بات کا ، کیا واقعی تم ۔۔۔ گِل صاحب نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔
“اف پاپا ایسا کچھ نہیں بس عیان کو ایسا کہنا ہے ۔۔۔ سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔
علیزے نے سر پیٹ کر کہا ۔۔۔
“تو اور کیا وجہ سمجھوں اب تک تمہاری شادی نہ کرنے کی ۔۔ ہر باپ کی طرح ان کی بھی خواہش تھی بیٹی کی شادی کی پر کیا کرتے جو کبھی مانتی نہ تھی چاہے جتنا سمجھاتے۔۔۔
“اچھا پاپا اب کرلوں گی شادی ، جس سے کہیں گے ۔۔۔ علیزے نے نظر چرا کر کہا ۔۔۔
“بس ایک دفعہ پاکستان سے ہوکر اجاؤں ۔۔۔ پھر جس سے چاہیں کروالیں ۔۔۔ علیزے نے کہا ۔۔۔
“سچ میری جان ۔۔۔ گِل صاحب نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔
“سچ پاپا پکا کرلوں گی شادی اپ کے پسند کے لڑکے سے ۔۔۔
علیزے نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کہا ۔۔۔۔
اور کچھ دیر بعد انہوں نے عیان کو کال لگائی اور علیزے نے ان کو کہتے سنا کس طرح وہ عیان کو کہے رہے تھے وہ سمجھاۓ علیزے کو ایک شادی شدہ مرد سے شادی نہیں کرنی چاہیۓ اور یہ کسی طرح مناسب نہیں لگتا جبکہ اس کی ایک بیوی الریڈی زندہ سلامت بیٹھی ہے ۔۔۔ علیزے کو روکے اس کو سمجھاۓ کتنی بڑی غلطی کررہی ہے جبکہ اس تعلق میں صرف نقصان ہی نقصان آئیں گے اس کے حصے میں ۔۔۔ عیان کیسے نہ ہامی بھرتا اسے روکنے کی آخر وہ اس کی بیسٹ فرینڈ جو ہے ۔۔۔۔ یہی وجہ تھی عیان نے اسے اپنے گھر ٹھرایا تھا تاکہ اسے اچھی طرح سمجھا سکے ۔۔۔
@@@@@@@
عیان حیرت سے سن رہا تھا علیزے کی زبانی یہ سب ۔۔۔
“میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا یہ تم دونوں کی کارستانی ہے ۔۔۔ عیان نے حیرت بھرپور لہجے میں کہا ۔۔۔
دونوں نے شرمندگی سے نظر جھکالی ، انشاء بھی حیران ہوئی ساری سچائی جان کر ۔۔
“علیزے اپ نے اس طرح کیوں کیا میرے ساتھ کیا اپ کو احساس سے میرے اوپر کیا گزری ان دنوں کتنی اذیت میں رہی ہوں میں ۔۔۔
“مجھے احساس ہے انشاء ، پر دوست بن کر سمجھاتی تمہیں کبھی احساس نہ ہوتا اس لیۓ دشمن بن کر تمہارے احساس جگانا چاہے اور اس رشتے کی اہمیت واضح کرنا چاہی ، پر یقین کرو اگر ہمیں پتا ہوتا تم مان بننے والی ہو تو یہ ذہنی اذیت کبھی نہ دیتے تمہیں ۔۔۔ ہوسکے تو مجھے معاف کردو میں نے بہت کچھ کہا تم سے انشاء ۔۔۔۔
علیزے نے شرمندگی سے ہاتھ جوڑے اس کے سامنے ۔۔ انشاء نے ایک دم اس کے ہاتھ تھام کر ان کو کھولا اور کہا ۔۔۔
“تم جیسا دشمن ہو تو اسے دوست کی کیا ضرورت ہوگی علیزے ۔۔۔ عیان بہت خوش قسمت ہے جسے اس قدر چاہنے والے دوست ملے ہیں ، کیا اپ میری دوست بنیں گیں علیزے ۔۔۔
انشاء کی بات پر سب ہی حیران ہوۓ علیزے جو اس سے ڈھیر ساری ڈانٹ کی امید کررہی تھی اس کی بات پر حیران ہوئی اور اس سے گلے لگ گئی ۔۔۔ اور کہا ۔۔۔
“بلکل بنوگی دوست بس مجھے معاف کردو میرے لفظوں کے لیۓ ۔۔ علیزے نے شدید شرمندگی سے کہا ۔۔۔
“میں نے اپ کو معاف کیا علیزے اپ ریلکس ہوجائیں ۔۔۔ انشاء تو اسی بات پر خوش تھی کہ عیان صرف اسی کا ہی ہے ۔۔۔
“تم نے تو معاف کردیا انشاء پر مجھے شدید افسوس ہے انہوں نے اتنی تکلیف سے دوچار کیا تمہیں ۔۔۔ میں کسی کو اجازت نہیں دیتا تمہیں کوئی تکلیف دے جانتا ہوں تم معصوم اور سادہ دل ہو ، تمہیں لوگوں کی پہچان کرنا نہیں اتی اس کا مطلب یہ نہیں کوئی تمہارے جذبات کے ساتھ کھیلے اور مجھے گواراہ نہیں کسی کا یوں تمہیں ذہنی اذیت دینا کس اذیت اور کرب سے گزری ہو تم اس خط کو پڑھ کے مجھے اندازہ ہے ۔۔۔ تم اگر تھوڑی بے وقوف ہو تو کیا اس مطلب اس طرح کوئی تمہیں راہ راست پر لاۓ مجھے نہیں ہے گوارا۔۔
انشاء دکھ اور خوشی سے ملی جلی کیفیت سے دیکھ رہی تھی اس شخص کو جو شوہر ہونے کا ہر فرائض کو نبھا رہا تھا وہ خوش تھی اس کے محبت کے انداز پر ، دکھ تھا تو اس بات کا کہ وہ کبھی اچھی بیوی ہونے کا ثبوت نہ دے سکی ہمیشہ اس کا دل دکھاتی رہی ۔۔۔
“اور ایک بات واضع کردوں تم دونوں پر ۔۔۔ انشاء کو ایسا بنانے میں زیادہ ہاتھ ہمارا ہے ہم سب کا ہے ، پلیز تم لوگ فی الحال یہاں سے جاؤ مجھے کچھ وقت لگے گا تم لوگوں کی اس حرکت کو بھولنے میں ۔۔ عیان نے سرد لہجے میں کہا ۔۔۔
“پر عیان ہم جانتے ہیں ہمارا انداز غلط تھا پر ہماری نیت صاف تھی اور بےشک ہمارا رب ہماری نیت جانتا ہے ۔۔۔ انشاء بھابھی کو اتنی تکلیف دینی کی ہماری نیت نہ تھی پر کرنا پڑا ۔۔۔ عمر نے شرمندگی سے کہا جبکہ علیزے سے تو کچھ بولا ہی نہیں گیا ۔۔۔
“یہ سب کرکے کیا ملا تمہیں ، تم جانتے ہو ، انشاء کو کچھ ہوجاتا میں بابا کو کیا جواب دیتا ، میرا احساس کرتے ہو تم دونوں اور انشاء کا تم دونوں کو ذرہ احساس نہیں ہوا اس کے دل پے کیا گزری ہوگی جب اسے اس کے گھر سے نکالے جانے کی بات کی ہوگی ۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں کیا تم نے علیزے ۔۔۔
عیان کے اس طرح کہنے پر علیزے نے کہا ۔۔۔
“تم سہی ہو عیان ، تم نے عمر کو روکا تھا کہ تمہارے معاملے نہ بولا جاۓ پر کیا کریں دوستی چیز ہی ایسی ہے کہ ہم خود کو تمہارے درد سے بےخبر نہیں رکھ سکے اور تمہیں اس سے نکالنے کے لیۓ کوشش کی ۔۔۔ اب اگر ہماری غلطی ہے تو سزا دو جو دل چاہے پر ہماری نیت پر شک مت کرو ۔۔۔
اس سے پہلے عیان کچھ کہتا انشاء نے کہا ۔۔۔
“پلیز عیان اتنے اچھے دوست نصیب سے ملتے ہیں ، ایسے قیمتی رشتوں کی اپ بےقدری نہ کریں پلیز سب بھول جائیں جب میں نے دل سے معاف کردیا اور اب تو علیزے کو میں نے دوست بنالیا ہے ۔۔۔
علیزے اس کی سادگی پر مسکرا اٹھی اور عیان کے سرد تاثرات کچھ نرم ہوۓ تو عمر نے اسے گلے لگا لیا ۔۔۔ وہ بھی مسکرا اٹھا اور علیزے نے انشاء کو گلے لگا لیا اور دونوں مسکرا اٹھیں ۔۔۔
@@@@@@@@
وہ گیلری میں کھڑی چاند کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسے کچھ دیر پہلے کہی اپنی بات یاد آئی جو اس نے اکیلے میں علیزے سے کہی ۔۔۔
“میں جانتی ہوں اپ عیان کو بہت چاہتی ہیں ۔۔ اس کے یقین کو علیزے جھٹلا نا سکی اور انکھین نم ہوئیں اس کی ۔۔۔
“ہمممم پر عیان صرف تمییں چاہتا ہے ، وہ دوستی میں محبت کی ملاوٹ کا قائل نہیں اور میں اس کے جذبات کا احترام کرتی ہوں ۔۔۔ علیزے نے انکھوں کی نمی کو پونچھ کر کہا ۔۔۔
انشاء کو اج وہ بہت معصوم لگی ۔۔۔ جس نے کبھی احساس نہ ہونے دیا عیان کو اپنے جذبات کا ۔۔۔ صرف دوستی نبھاتی رہی ۔۔۔۔
“تم خوشنصیب ہو انشاء جو ایسا چاہنے والا تمہیں شوہر ملا ہے ۔۔۔ اب اس کے جذبات کی کبھی بےقدری مت کرنا۔۔۔ علیزے نے پیار سے کہا ۔۔۔
“جی ۔۔۔ انشاء نے یقین دہائی کروائی ۔۔۔
کچھ لمحے خاموشی کے نظر ہوئے اور پھر انشاء نے ہی اس خاموشی کو توڑا ۔۔۔
” پر ایک بات پوچھوں اپ کو کیسے پتا چلا ہم گھر اگۓ ہیں ۔۔۔ انشاء حیران تھی کتنی برداش تھی اس لڑکی میں ۔۔۔
“چینا نے بتایا تھا عمر کو اور مجھے لگتا ہے عیان کو بھی اسی سے پتا چلا ہوگا ۔۔۔
کچھ دیر کے بعد وہ چلی گئی اپنے ننھیال اور ساتھ میں یہ بتایا بہت جلد وہ شادی کرنے والی ہے جس میں ان دونوں کو بھرپور شرکت کرنی ہے ۔۔۔ ان دونوں نے انے کی ہامی بھر لی تھی ۔۔۔
“کیا سوچ رہی ہو انشاء ۔۔۔ عیان نے پیچھے سے آ کر کہا۔۔
“سوچ رہی ہوں کبھی کبھی جو سب کو غلط لگتا ہے حقیقت میں اس میں بھی کچھ اچھا ہوتا ہے …
“ٹھیک کہے رہی ہو تم ۔۔۔ عیان نے اس کے ہاتھ تھام لئے اور خود سے لگا لیا انشاء کو ۔۔۔ ان دونوں کا اشارہ علیزے کی طرف تھا ۔۔۔
“مجھے معاف کردیں عیان اپ نے اس رشتے کو دل سے نبھایا اور میں نے اپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔۔۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں میں بیوقوف ہوں ۔۔۔ وہ اس کے سینے میں منہ چھپائے اعتراف کر رہی تھی ۔۔۔
“میں نے تو تمہیں معاف کردیا انشاء اور تم بھول جاؤ سب ۔ تم بےوقوف نہیں بس معصوم ہو اور یقین رکھو ہمیں ایسی ہی پسند ہو ۔۔
عیان کے کہنے پر اس نے اس کے سینے سے سر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا جس میں بے پناہ محبت تھی اس کے لئے ۔۔
“عیان ۔۔۔ باباجان کب آئیں گے ۔۔ انشاء نے پوچھا ۔۔۔
” بابا جان تو آ جائیں گے نہ تم نے بہانہ جو کر دیا ہے ۔۔۔
“بہانہ ۔۔۔ انشاء نے زیرلب کہا ۔۔
“ہان بہانہ ۔۔۔ خوشخبری کا سن کر جو پہلی فلائیٹ مل رہی ہے ارہے ہیں ۔۔۔ عیان نے ہنس کر کہا ۔۔۔
“پھر واقعی میں بےوقوف ہوں جو ان کا اشارہ ناسمجھی اس دن ۔۔۔انشاء نے منہ بنا کر کہا جس پر بےساختہ عیان ہنستا چلا گیا اور عیان کو ہنستا دیکھ کر وہ بھی ہسنے لگی ۔۔۔ درد کے بادل چھٹ گۓ اور چاند ان کی مسکراہٹ پر کھل اٹھا ۔۔۔
ختم شد ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...