چلو نکالو میرے دو ہزار میں شرط جیت گئی ——-
مونا نے بچوں کی طرح خوش ہو کے کہا
ہائے میں صدقے میں قربان میرا شونا بچہ !
کتنی عقلمندی سے بیوقوفی کی باتیں کرتا ہے
سوہا نے پچکارتے ہوئے کہا——
کیا مطلب میں تمھیں بیوقوف لگتی ہوں؟
مونا نے آنکھیں دکھاتے ہوئے غصے سے کہا
لیسن مونا ڈارلنگ !
محترم علی صاحب نے آپ کے حسن سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ فیسبک کے میسیج سے متاثر ہو کر دوستی کی آفر کی ہے
کس غلطی فہمی میں گم ہو بی بی؟
اس نے کیا موبائل سے گردن باہر نکال کے آپ کا دیدار شریف کیا تھا؟
سوہا کو قائل کرنا کونسا آسان تھا وکیلوں کی طرح جرح کرتی تھی ——
اچھا تو یہ بات ہے تو ٹھیک ہے میڈیم سوہا ——
کل ٹھیک پانچ بجے مسٹر علی اسی پارک میں مس مونا کے سامنے گھٹنے ٹیک کے اپنی محبت کا اظہار کریں گے
لگاؤ چار ہزار کی شرط
مونا نے سوہا کو چیلینج کیا ——
آہا اتنی بڑی خوش فہمی
چلو ٹھیک ہے لگی شرط پیسے لے کر پارک آنا!
میں بھی تو دیکھوں آپ کے اندر ایسا کونسا جادو بھرا ہے جو ایک اچھے خاصے شریف انسان کو پاگل بنا دیتا ہے اور وہ آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے
سوہا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا
ٹائم پہ آ جانا پھر نہ کہنا شو مس ہو گیا
مس سوہا پاروتی جی
مونا نے اسے مزید چڑاتے ہوئے کہا
اور سوہا توبہ توبہ کرتی چہرے کے زاویے بدلتے اٹھ کر کمپیس کی طرف چلی گئی ——-
مونا نے علی کو وہیں بیٹھے بیٹھے شام کے پانچ بجے پارک میں ملنے اور اسے اپنی سامنے گھٹنے ٹیک کر
محبت کا اقرار کرنے کا میسیج کیا
تاکہ وہ اپنی زندگی کے ان حسین پلوں کو یادگار بنا سکے
ساتھ میں تاکید کی کہ اس کے لیے تازہ گلاب کے سرخ پھول بھی لے کے آئے کیونکہ اسے پھول بہت پسند ہیں
اسے تلاش نہ کرتا پھرے وہ خود ہی اسے پہچان لے گی ——
سب کچھ طے کر کے مونا واپس کلاس روم کی طرف چل دی —–‘-
منہ پھلا کے وہ کلاس روم میں سوہا سے دور ہٹ کے الگ چئیر پہ بیٹھ گئی ——
شام سے پہلے وہ اس سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کرنا چاہتی تھی —–
وہ اسے دیکھانا چاہتی تھی کہ وہ صرف زبان سے دعوے نہیں کرتی بلکہ حقیقت میں اتنی طاقت رکھتی ہے کہ ایک پل میں کوئی بھی مرد اس کے سامنے جھک سکتا ہے
پانچ بجنے میں بیس منٹ باقی تھے
مونا پنک ٹوپ وائٹ ٹائٹس کے ساتھ نیٹ کا ہلکا سا دوپٹہ گلے کے گرد لپیٹ کے ڈریسنگ کے سامنے کھڑی میک اپ کو آخری ٹچ دے رہی تھی
ہلکی پھلکی جیولری پہن کے اس نے آئنے میں اپنے حسین سراپے کا جائزہ لیا
یقیناً وہ قدرتی حسن کا ایک جیتا جاگتا شاہکار تھی
جو کہ ذرا سا میک اپ کا ٹچ دیتے ہی قیامت ڈھانے لگتا تھا اور دیکھنے والوں کی آنکھیں ایک بار اس کی طرف اٹھ جاتی تو پھر وہ نظریں ہٹانا ہی بھول جاتے
کہاں جا رہی ہو مونا ؟
شاہدہ بیگم نے اسے اتنا تیار ہو کے باہر جاتے دیکھ کر پوچھا ——
کہیں نہیں مما سوہا کے ساتھ پارک جا رہی ہوں ابھی گھنٹے تک آ جاؤں گی واپس —-
مونا مما کو بتا کر ان کی پوری بات سنے بغیر ہی یہ جا وہ جا ———
افف میرے خدا ایک تو یہ لڑکی میری ایک نہیں سنتی پتہ نہیں ہر وقت کونسے ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی ہے
شاہدہ بیگم نے اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے کہا——
وہ ٹائم سے دس منٹ پہلے ہی پارک پہنچ گئی —-
سوہا اس کے آنے سے پہلے ہی اس کے بتائے ہوئے بنچ پہ بیٹھی اس کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی
پیسے لے کر آئی ہو——
مونا نے سلام دعا کے بغیر ڈائیریکٹ کام کی بات کی
جی مونا ڈارلنگ—-
پیسے میرے پرس میں موجود ہیں بس آپ اب اپنے حسن کا جادو دکھائیے تاکہ میں وہ حقیر رقم آپ کے قدموں می حسن کا صدقہ سمجھ کر نچھاور کر سکوں ۔
سوہا نے ادب سے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
اوکے اوکے بس تھوڑی دیر ہے وہ بدھو آتا ہی ہو گا –”
مونا نے دودھ سی گوری کلائی پہ بندھی ریسٹ واچ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ——
مونا وہ دیکھو تمھارا شکار
سوہا نے دور سے علی کو آتا دیکھ کے کہا—–
میرا خیال ہے اس نے تمھیں دیکھ لیا ہے ادھر ہی آ رہا ہے
ایسا کرتی ہوں میں ادھر درخت کے پیچھے چھپ جاتی ہوں
سوہا نے علی کو نزدیک آتے دیکھ کر سرگوشی کی
اوکے جاؤ مگر بھاگ نہ جانا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا
مونا نے اسے گھورتے ہوئے کہا
گرے کلر کی ٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر کے ساتھ وہ بلیک اینڈ وائٹ جوگر پہنے تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا یقیناً مجھے تلاش کر رہا ہے مونا نے خوش ہوتے ہوئے سوچا
لمبا قد متناسب بدن ہلکی ہلکی شیو نفاست سے پیچھے کی طرف جمے ہوئے بال وہی بولتی آنکھیں
مونا کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں
اف میرے خدا یہ تو تصویر سے بھی زیادہ خوبصورت ہے
مونا نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
ہائے پھول بھی لے کر آیا ہے
مونا کی نظر علی کے ہاتھ میں پکڑے بکے کی طرف اٹھی
وہ ادھر ادھر دیکھتا ہوا مونا کے نزدیک پہنچ کے رک گیا
اور اسے غور سے دیکھنے لگا
اف آئی ایم ناٹ رانگ یو آر مس آمنہ
آنے والے نے مونا کے اسے میسیج پہ بتائے ہوئے حلیے سے پہچانتے ہوئے کہا
یس شیور آئی ایم آمنہ
نائس ٹو میٹ ہو
آئی ایم علی
مونا کا جادوئی حسن دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا
پھر یاد آتے ہی
سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا
مونا نے جلدی سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اس کی جانب دیکھ کر شرمانے کی ایکٹنگ کرنے لگی
وہ علی جی بات یہ ہے کہ میں یہاں نزدیک ہی رہتی ہوں روز آپ کو یہاں آتے جاتے دیکھتی ہوں مگر آپ سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لیے میسیج پہ آپ کو سب بتانا پڑا
دراصل میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں
آئی لو یو علی جی
علی جو کافی دیر سے مونا کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا
اس کی بات سن کر خوشی سے پوری طرح کھل اٹھا
اور بے چینی سے جیب ٹٹولنے لگا
وہ مس آمنہ میں آپ کے لیے کچھ لے کر آیا تھا
علی نے ٹراؤزر کی جیب میں ہاتھ مار تے ہوئے کہا
ہائے یقیناً ڈائمنڈ کی رنگ ہو گی
سوہا تو جل کر کباب ہو رہی ہو گی
مونا نے دل میں اس کی رونی صورت لاتے سوچا
ایسے نہیں دوں گا پہلے اپنی آنکھیں بند کریں
علی نے پیار سے اس کی پلکوں پہ ہاتھ رکھ کر بند کرتے ہوئے کہا
مونا نے آنکھیں بند کر کے ہتھیلی آگے کر دی
یہ رہا اپ کا گفٹ اور آنکھیں کھول دیں —–
علی کی آواز سنتے ہی مونا نے جلدی سے آنکھیں کھول کر ہتھیلی کی طرف دیکھا
جس پہ ہزار ہزار کے چار نوٹ رکھے ہوئے تھے
ایک بات ماننی پڑے گی مس مونا!
آپ کی ایکٹنگ بہت شاندار تھی
میں تو کیا کوئی بھی لڑکا بہت آسانی سے پھنس سکتا ہے بشرطیکہ وہ آپ جیسا بیوقوف ہو
یہ اپنی شرط کے چار ہزار اٹھائیں اور گھر جا کر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ ہر کوئی لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے والا نہیں ہوتا ——
کہ آپ جیسی کوئی بھی چلتی پھرتی لڑکی اسے دو میسیج کرے اور وہ اس کے لیے سب کام چھوڑ کر دوڑا چلا آئے
پیار کوئی ٹہنی پر لگا آم نہیں ہوتا جیسے آرام سے اتار کر کھا لو —-
اور نہ ہی یہ کوئی کھیل ہے جسے تم جیسی لڑکیا ں ہزار ہزار کی خاطر کھیلتی پھرتی ہیں
یہ تو وہ موسم گل ہے جو نصیب سے ملتا ہے
انڈر سٹینڈ یا میں کچھ اور کہوں آپ کی شان میں
مونا اپنی اصلیت کھلنے پہ بری طرح ڈر گئی اور اب وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت تھی
مگر سوہا کے سارے راستے دانت ہی اندر نہیں ہو رہے تھے
اور مونا کا غصے سے برا حال تھا
سوہا سٹاپ سٹاپ ایک منٹ!
اسے یہ بات کس نے بتائی کہ میں نے چار ہزار کی شرط لگائی ہے ؟؟
مونا نے الجھتے ہوئے سڑک پہ رک کر پوچھا
مممم مجھے کیا پتہ اسے خود ہی پتہ چل گیا ہو گا
سوہا نے صفائی پیش کی
یہ بات تمھارے اور میرے علاوہ تیسرا کوئی بندہ نہیں جانتا تھا تو اسے کیا الہام ہوتا ہے؟
مونا نے سوہا کو گھورتے ہوئے پوچھا
میری طرف ایسے کھا جانے والی نظروں سے کیا دیکھ رہی ہو تمھاری قسم میں نے نہیں بتائی
سوہا نے جان بچاتے ہوئے کہا —-
سوہا کی بچی چیٹر تم نے ہی اسے یہ سب بتایا ہے —–
اور اب میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گی کمینی—-
اور سوہا فل سپیڈ سے مونا کے آگے بھاگ رہی تھی جو اگر مونا کے ہاتھ لگ جاتی تو شاید وہ اس کا گلا دبا دیتی
دونوں نے اپنے اپنے گھر پہنچ کر ہی سانس لیا
….
ہوں آئے بڑے ارسطو کے چچا پیار کھیل نہیں تم جیسے لوگوں کو نہیں کھیلنا چاہیے
یہ وہ فلاں ٹمکاں ——-
مونا منہ میں بڑ براتی اپنے کمرے کی طرف چل دی
رات اس غصے سے نیند بھی نہیں آ رہی تھی
فیسبک اوپن کی تو سامنے علی کی آئی ڈی پہ سبز بتی جل رہی تھی —–”’
مونا کا غصے سے پارہ ہائی ہو گیا پہلے دل کیا اسے بلاک کر دے —-
لیکن اس کے دل کو صرف بلاک کر کے ٹھنڈ نہیں پڑے گی
اسے تو وہ اب روز اس بے عزتی کا مزہ چکھایا کرے گی
پھر کچھ سوچ کر مسنجر اوپن کیا اور میسیج ٹائپ کرنے لگی –
کمینے چول سڑیل کھڑوس
ڈیش ڈیش ڈیش _______________
صرف تم —””
اللّٰہ کرے کل تمھاری شرٹ پہ چائے گر جائے تمھاری گاڑی کا چالان ہو جائے وہ کالے گیٹ کا بڑا کتا تمھارے پیچھے لگ جائے دفع دور _____
مونا نے خوب دل کی بھڑاس نکال کے میسیج سینڈ کر دیا
علی میسیج پڑھ کے حیرانگی سے مسکرا دیا
افف یہ لڑکی مجھے پاگل لگتی ہے
غلطی بھی ساری اپنی اور غصہ الگ؟
ہائے پتہ نہیں یہ ساری لڑکیاں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں
علی اپنی بہن عائشہ کو یاد کر کے مسکرا دیا
جو پہلے خود ہی اس سے خوب لڑتی اور پھر الٹا اس سے سوری کہنے کی بجائے منہ سوجھا کر بیٹھ جاتی کہ علی اس کی منتیں کر کے اسے منائے —–
اور علی صاحب کو بھی اس کی منتیں کرنی پڑتیں آخر کو اکلوتی بہن تھی کیسے ناراض دیکھ سکتا تھا
________________
پاگل کہیں کی
علی منہ میں بڑ بڑا کر فیسبک سکرولنگ کرنے لگا
جبکہ مونا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس سبز بتی پہ مکوں کی بوچھاڑ کر دے یا ڈنڈوں سے پیٹ ڈالے کتنی انسلٹ کی تھی اس نے آج سوہا کے سامنے اس کی
مونا کے ذہن میں رہ رہ کے علی کے الفاظ گردش کر رہے تھے
ایک بار تو وہ غصے سے موبائل اٹھا کر دیوار پہ مارنے لگی تھی
مگر یہ سوچ کر رک گئی کہ علی کو تو کوئی چوٹ نہیں لگے گی
مگر اس کا موبائل ضرور سر پہ چوٹ لگنے سے فوت ہو جائے گا
اور پاپا اسے اب نیا موبائل ہر گز نہیں لے کر دیں گے وہ تو یہ بھی اس سے چھیننا چاہتے تھے
وہ تو ماما کی سفارش کی وجہ سے اس کے پاس موجود تھا
مگر وہ اب ایسا کیا کرے کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے ؟
اسے نے اپنا دکھتا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے سوچا
ایسا کرتی ہوں سو ہی جاتی ہوں –”-
شاید اسی طرح اس چول علی کی باتوں کے زہر کا اثر کم ہو سکے ؟؟
کروٹیں لیتے لیتے آخر کار نیند آنا شروع ہو ہی گئی
اور جلد ہی وہ سب کچھ بھول کر گہری نیند سو گئی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...