جب وہ قبرستان پہنچی تو وہ یہ جانتی تھی اسے اندار نہیں جانا چاہیے مگر کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہم وہ کام بھی کر لیتے جو ہم جانتے ہیں غلط ہے اور یہ تو اس کیا قبر تھی جس پر وہ اپنی جان بھی دے سکتی تھی۔۔۔۔ وہ صرف دہ بار قبرستان آٸی تھی ایک آج اور ایک اپنی امی کے انتقال پر۔۔۔۔۔
صبا کے بہت اصرار پر وہ اسے قبرستان لے آیا تھا اس سے صبا کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی اس دن بھی صبح کے ساڑھے چھ بجھ رہے تھے سورج کی کرن ہلکی سی آسمان پر پھیل رہی تھی وہ وہاں جاکر بہت روی اتنا کے اسے سنبھالنا مشکل ہورہا تھا اس نے وہاں جاکر اپنے ہاتھوں سے پودے لگاے اور مقابل بیٹھے شخص کو ہدایت دیتے ہوۓبولنے لگی۔۔۔
سنو۔۔۔۔۔ میں رہوں نہ رہوں آپ اسے اکیلا مت چھوڑنا میری ماما میرے لیے سب کچھ تھی میری ماں باپ سب کچھ آپ ان کی قبر کا خیال رکھنا وہ آج جب پندرہ سال بعد اس قبرستان میں واپس آٸی تو اسے سب کچھ یاد آگیا وہ اندار گی تو یقین نہ آیا اپنے ماں باپ کی قبر کے چاروں طرف پھول پودے لگے دیکھ کر اسے یقین نہ آیا کے جب وہ آٸی تھی اس نے ایک پودہ لگایا تھا اور آج ۔۔۔وہ حیران تھی کہ اسے کس نے پانی دیا ہوگا وہ یہی سب سوچ رہی تھی کہ پیچھے سے کسی بزرگ کی آواز آٸی جس پر صبا نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
آگے تم…. وہ اپنے چشمے کو صاف کرتے ہوۓ بے دھیانی میں بول رہے تھے
ارے بیٹی تم کون ہو میں سمجھا وہ آگیا ہے۔۔وہ اسے دیکھ کر بول رہے تھے۔۔۔
کون آتا ہے یہاں کیا نام ہے۔۔۔۔وہ پریشانی کے عالم میں پوچھ رہی تھی ..
ارے بیٹی اب عمر ہو گی ہے نام تو مجھے یاد نہیں ہے میں تو اسے بیٹا کہتا ہوں مگر وہ روز اسی وقت آتا آج پتہ نہیں اب تک کیوں نہیں آیا ہاں اکثر اس کے ساتھ ایک بیس بایس سال کا لڑکا آتا ہے بہت روتا ہے معافیاں مانگتا ہے کوی آۓ نہ آۓ وہ ضرور آتا ہے ۔۔۔۔ یہ اس کی ماں کی قبر ہے صبا ان کی بات پر اور پریشان ندیم ہو گی۔۔۔
ویسے بیٹی تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہی ہو یہ میری امی کی قبر ہے لیکن میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں تو پھر وہ کون ھے۔[اس کے دل نے اک نام پکارہ مگر پھر اس نے اپنی سوچ پر خود ہی پانی ڈالا]
بیٹا آج تاریخ کیا ہے ١٣ اکتوبر ہے نہیں بیٹی اسلامی تاریخ کیا ہے آج ١٨ رجب ہے ۔۔۔۔ ہاں بیٹی وہ آج ان مرحومین کی برسی ہے نہ تو وہ مدارسوں میں نیاز کرتا ہے تو لیٹ آتا مگر آتا ضرور ہے ١٨ رجب اور ١٣ شوال کو وہ تھوڑا دیر سے آتا ہے رجب تو امی کا مگر شوال میں وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ اس کا فون بجا اسکرین پر سمن کا نمبر تھا اس نے فون اٹھایا۔۔
تم کہاں ہو ۔۔ سمن کی آواز میں غم پریشانی تھی
تم جلدی گھر آٶ ایمرجنسی ہے۔۔۔سب ٹھیک ہے حور اس کے ادھے جملے پر ہی روک کر بولنے لگی حور بلکل ٹھیک ہے تم گھر آجاٶ جلدی
اچھا ٹھیک ہے میں آتی ہوں۔۔۔
میں ابھی چلتی ہوں میں پھر آٶ گی سمن کی آواز نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا جبکہ وہ کبھی اس طرح فون نہیں کرتی تھی۔۔۔ اس لیے بابا کی آدھی بات سن کر اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کی اور باہر نکل آٸی
[اگر اولاد اچھی ہو اور فرمانبردار ہو تو ماں اور باپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوتی ہے] صبا بھی ان میں سے ایک تھی وہ جتنا اپنے باپ سے نفرت کرتی تھی اسے کہی زیادہ پیار اپنی ماں سے کرتی تھی اور وہ ان کی تربیت پر حرف نہیں آنے دے سکتی تھی اتنے سال پنڈی میں بھی اس نے ہر سال اپنے والدین کے لیے قرآن خانی کرتی انکی مغفرت کی دعا کرتی۔۔۔۔
آج گاڑی حور لے گی تھی کچھ دن پہلے ہی اس کا شناختی اور لایسنس بنا تھا اس لیے صبا ٹیکسی کروا کر گھر ہی جارہی اور دماغ میں بابا کی باتیں سوچ رہی تھی کون ہوگا اور ١٣ شوال کس کا انقال ہوا تھا اس کے دل سے ایک ہی آواز آرہی تھی اور وہ ہر بار اپنے دل سے انکاری تھی۔۔وہ سوچوں میں ہی گھوم تھی کہ پھر سمن کی کال آٸی ۔۔۔ کہاں ہو جلدی آٶ اب باقاٸدہ سمن کی رونے کی آواز اس کے کانوں میں آرہی تھی ۔۔۔۔
سمن آخر ہوا کیا ہے کچھ بتاٶ گی۔۔۔
تم بس جلڈی گھر آجاٶ۔۔
ہاں ٹھیک ہے میں آتی ہوں فون بند کر کے اس نے ڈرائيور کو جلدی چلانے کے لیے کہا اس کی بے چینی اور بڑھ گی تھی۔
۔*****
گھر میں سمن کا رو رو کے بڑا حال تھا ارمان سے اپنی خالہ کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی دکھ تو اسے بھی تھا مگر۔۔۔ صبا گھر پہنچھی تو اسے شک لگا پنڈی میں ان کی جو برانچ تھی اس میں آگ لگ گی تھی صبا نے با مشکل اپنے آنسوٶں پر قابو کیا صبا نے گھر سے یہ کام شروع کیا جسں میں ارمان اور سمن نے اس کا بہت ساتھ دیا اس لیے ان سب کا دکھ سانجھا تھا صبا نے ارمان کو پنڈی جانے کو کہا اور خود بھی وہی جانے کی تیاری کی۔۔۔
حور ابھی ابھی گھر آٸی تو سمن کو اس حال میں دیکھ کر پریشان ہوتی اسکے پاس آٸی آپیا کیا ہوگیا
اتنے میں صبا کو اترتے دیکھا تو اسکے طرف آٸی ماما آپ کہاں جارہی ھیں۔۔۔ میں پنڈی جارہی ہوں آکر سب بتاتی ہوں تم سمن کا خیال رکھو ویسے تم اتنی جلدی کیسے آگی وہ ماما آج کلاس لیٹ ہے رمشہ نے بتایا اس لیے واپس آگی۔۔۔۔
تم آج یونی مت جانا سمن کا خیال رکھو اور اسے کھانا کھیلا دینا میں کل تک آجاٶ گی۔۔۔۔
جب صبا پنڈی پہنچی تو دکان کی حالت دیکھ کر اسے اپنے آنسو پر قابو نہ رہا دکان بڑی طرح جلی تھی گیس پاٸپ پھٹنے کی وجہ سے تین لاکھ کے قریب مال جل چکا تھا کیونکہ یہ شب سے بڑی برانچ تھی اور کل ہی نیا ما لوڈ کروایا تھا پیچھے کے کمرے میں جو گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اس میں تقریبا ایک لاکھ کی مالیت کا سامان موجود تھا۔۔۔۔
صبا یہ دیکھ کر بلکل سن ہورہی ہے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیسے ہوگیا پولیس کی چہان بین کے بعد اسے اڑی اڑی خبر ملی کے یہاں کے لوگوں نے خود سامان چوری کرکے یہاں آگ لگاٸی ہے لالچ میں آکر اور یہ بات سی سی ڈی وی کمرہ سے ثابت ہوٸی جو ارمان نے چھپاکر لگاۓ تھے کراچی جانے سے پہلے۔۔۔
ارمان ایک کام کرو یہاں موجود سارا سامان کراچی بھیجوادو اور یہاں کی مرامت کروہ کر اس دکان کو بیچ دو ۔۔۔لیکن آپیا۔۔۔۔صبا نے اسکے جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی بول دیا
لیکن کحھ نہیں ارمان ہم کہا کہا تک نظر رکھیں گے اگر ہم ایسے ہی لوگوں پر بھروسہ کریں گے تو وہ ہمیں بیچ کر کھا جاۓ گے یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے۔۔۔
میں کراچی جاتی ہوں تم تما فورمیلیٹیس پوری کر کے سارا کام ختم کر کے کراچی آٶ پھر سوچتے ہیں۔۔۔ صبا نے اپنا پلین بتایا
اور ارمان اس کی بات پر ہامی بڑھ کر پولیس اٹیشن گیا۔۔۔
******
صبا کراچی پہنچی تو سمن اور حور ڈاینگ ڈیبل پر بیٹھی تھی صبا کو دیکھتے ہی سمن بھکلا کر اس کے پبس آٸی
کیا ہوا صبا کتنا نقصان ہوا ہے۔۔۔سمن کی یہ حالت دیکھ کر صبا کو اس کے محبت پر رشک آیا دنیا میں اسے لوگ ہوتے ہیں رو رو کر سمن کی آنکھیں سوج گی تھی۔۔۔
سمن حوصلہ رگھو کچھ نہیں ہوا ہے بس دکان جل گی ہے اسنے تسلی دیتے ہوۓ بتایا
مطلب۔۔۔۔۔ صبا نے اسے ساری بات بتدی اور اپنا فیصلہ بھی سنایا
یہ میرے اللہ…..
صبا جب ہماری محنت کا اک روپیہ بھی ضائع ہوتا ہے ان دونوں مل کر کتنی محنت سے خود کو اس قابل بنایا تھا وہ صرف وہ لوگ جانتے تھے۔۔۔۔۔
ان لوگوں کو تو حوالات میں ڈالنا چاہیے کسی کی محنت کی کماٸی کو اس طرح برباد کردیا ۔۔۔تم فکر مت کرو سمن ارمان ہے وہبں جو اسے بہتر لگے گا وہ کرے گا بہت سمجھدار ہے ۔۔۔۔۔اسی کی وجہ سے تو ہم اصلی وجہ تک پہنچے ھیں ورنہ ٣ لاکھ کا نقصان بڑھنا پڑتا ۔۔۔۔ صحیح کہ رہی ہو تم اللہ جو کرتا ہے اس میں ہماری بہتری چھپی ہوتی ہے۔۔۔۔
رات کے تقریبا دس بجھ رہے تھے جب وہ کمرے میں آٸی کھانا کھا کر تو فون پر رمشہ کے تین کال اور کوٸی 25 میسج آۓ ہوۓ تھےاور ہادی کے لاتعداد کال اور میسج جیسے دیکھ کر حور پہلے پریشان ہوٸی اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگی۔۔۔۔۔۔ان تین مہینے یہ بدلہ تھا کہ حور اور ہادی میں اچھی دوستی ہوگی تھی ۔۔۔۔
ہادی کو یہ شیرنی لڑکی اچھی لگی تھی جو دل میں کچھ نہیں رکھتی تھی سب منہ پر بول دیتی تھی ناراض ہوتی تو سارا غصہ ایک بار میں بول کر نکال دیتی اور بھول جاتی کہ کبھی ناراض بھی تھے۔۔۔۔حور کو پہلے وہ بہت بڑا لگتا تھا مگر جب ہم کسی کے ساتھ وقت گزارے تو ہم ایسے سمجھ جاتے ہیں اور ان دونوں میں اچھی انڈسٹینیگ ہوگی تھی کیونکہ اب دونوں کا کافی وقت ایک ساتھ گزارنے لگا تھا یونی میں رمشہ اور ہادی کے سوا حور کا کوٸی خاص دوست نہیں تھا مگر اپنی میلٹی ٹیلنٹ اور حسن کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کو خود کی طرف ماٸل کردیتی تھی۔۔۔۔
حور اور ہادی کی دوستی کی شروات بھی یہی سے ہوٸی تھی جب حور کو یونيورسٹی کے کچھ اباش لڑکوں نے تنگ کرنے کی کوشش کی اور راستہ روکا ایسا نہیں تھاکہ حور انھیں کچھ کہ نھیں سکتی یہ کر نھیں وہ چاہتی تو انھیں ایسی دھول چاٹاتی کہ دوبارہ مڑ کر نہ دیکھتے اور ہادی نے بھی یہی کیا کہہ کبھی آج تک ان لڑکوں نے حور تو کیا کسی لڑکی کو بھی دیکھا ہو۔۔۔۔۔۔۔
مگر ہادی کا خود کے لیے ایسا ردعمل کہی نہ کہی اسے بھی اس کا گرویدہ کر گزرا۔۔۔۔اور یہی سے شروع ہوٸی انکی دوستی کی کہانی۔۔۔اور جس سے فضا کو آگ لگ جاتی تھی۔۔۔فضا بھی انہی کی طرح امیر باپ کی بیٹی تھی۔۔۔۔
حور نے پہلے رمشہ کو پوری کہانی سناٸی جسے سن کر وہ بھی پریشان ہوگی [یہی تو اچھے دوستوں کی خاصیت ہہتی ہے جو اپنے دوشتوں کی پریشانی میں پریشان ہوتے ہیں ]اور رمشہ سے کافی دیر بات کرنے کے بعد وہ ریلکس ہوٸی اور فون اٹھاکر ہادی کا نمبر نکالا ہی کے اسکی کا آگی اور ساتھ ہی حور کے چہرے پر بھی مسکاہٹ دور گی اور اس نے پہلی بیل پر کال ریسیو کر لی۔۔۔
کہا تھی یار یونی کیوں نہیں آٸی رمشہ کو بھی کچھ نہیں پتہ تھا پورا دن پریشانی میں گزرا کے کہی کچھ خدانخواستہ۔۔۔ ہادی فون اٹھاتے ہی شروع ہوگیا
ارے ارے بریک لگاٶ بتاتی ہوں سانس تو لے لو ۔۔۔حور بھی مسکرا کر بولی😊😊
اب بتاٶ لے لی سانس۔۔۔۔اس نے لمبی سانس خارج کرتے ہوۓ کہا
ہار بس گھر میں میں چھوٹا سا مسلہ ہوگیا تھا اور حور نے پوری داستان اسے سنادی۔۔۔۔۔دونوں بے تکلفی ہوگی تھی جس وجہ سے وہ ایک دوسرے کو یار اور تم کہ دیتے
اہہہہہہہہہہہوووووو۔۔۔۔۔۔۔اچھا یہ تو بہت بڑا ہوا ان لوگوں کو تو جیل میں ڈال دینا چاہیے
ہہہہہممممممم۔۔۔۔۔۔ ارمان ہے وہاں دیکھو کیا ہوتا ہے
اور پھر دونوں باتوں میں مشغول ہوے تو وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور کب ایک رات کا بجھ گیا۔۔۔
اب تم بھی سو جاٶ کافی دیر ہوگی ہے کل یونی میں بات کریں گے وہ فون بند کرنے لگی تھی کے صبا اسکے کمرے میں باتیں کرنے کی آواز سن کر آٸی
کیا ہوا حور اتنی رات کو کسے بات کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ ماما رمشہ سے اس نے بہکہلاہٹ میں اپنی امی سے جھوٹ بول دیا۔۔۔۔۔وہ میں اج گی نہیں نہ تو وہ پریشان ہوگی تھی
اچھا چلو اب تم بھی سو جاٶ بہت رات ہوگی ہے ویسے بھی آج کا پورا دن بہت ٹینشن میں گزرا ہے۔۔۔۔۔اور وہ شب خیر کہتی اس کے روم سے چلی گی۔۔۔۔
آج تک حور نے اپنی ماما سے جھوٹ نہیں بولا تھا مگر پتہ نہیں آج کیوں بول بیٹھی۔۔۔۔۔۔
******
دن گزارتے رہے ہادی اور کی دوستی بڑھتی رہی صبا بھی اپنے کام میں مصروف ہوگی اور اسے واپس قبرستان جانے کا موقع نہیں ملا اسنے اب کراچی کے مختلف مولز میں اپنا boutique کھول لیا تھا اور وہ ان میں ہی مصروف رہتی تھی آج 7 ماہ ہوگے تھے انھیں کراچی آۓ اور بہت دن سے حور کو شاپنگ پر جانا تھا آج ارمان اورحور ملlucky one mall پہنچے اور مزے سے شاپنگ کر رہے تھے آج حور ارمان کی جیب خالی کرانے کے فل موڈ میں تھی۔۔۔۔۔وہ لوگ شاپنگ ککر کے فوڈ کوٹ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے
جب۔۔۔ ہادی نے اسے ارمان کے ساتھ گپے مارتے دیکھ لیا اور وہ غصے سے لال پیلا ہوگیا اور بروقت غصے کو قابو کر کے ان دونوں کے پاس پہنچا۔۔۔
ہاے حور۔۔۔۔ اس نے بے تکلف انداز میں کہا۔۔۔
ہاے ہادی تم یہاں۔۔۔۔ اسنے بھی دوستانہ انداز میں کہا
میں وہ بس ایسے ہی شاپنگ کرنے آیا تھا سمیر کے ساتھ وہ اپنے لیے سامان لے رہا ہے میں نے تمھیں دیکھا تو سوچا ہاے کر لوں۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ارے میں تو بھول گی اس سے ملوث یہ ہے ارمان۔۔۔۔ میں نے بتایا تھا نہ میرا بہت اچھا دوست😊☺اور یہ ہے میرے سینیر ہادی بہت ہیلپ فل بندے ہے جب بھی کوٸی پرابلم ہو مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔۔۔۔
اچھا یہ وہی ہےنہ جس سے پہلے دن جھگڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ارمان نے سوچھتے ہوے بولا
ارے واہ تمہیں تو اب تک یاد ہے۔۔۔۔
ہاۓ۔۔۔۔ اچھا دوست جس کی جیب میں حور میڈم آۓ دن ڈاکا مارتی ہے۔۔۔۔۔ بہت اچھا لگا آپ سے مل کر۔۔۔۔۔آپ اسکی بات کو سیریس مت لیجے کا۔۔۔۔یہ تھوڑی پاگل ہے اسے مجھ سے بہتر کوٸی نہیں جانتا😝😜
ہادی کا موباٸل بجا سمیر کی کال تھی باۓ بول کر نکل گیا غصہ اسے ابھی بھی تھا اس لیے گھر جانے کی بجاے آفس چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
اور آفس میں منہ بنا کر بیٹھا تھا اسے شدید غصہ تھا اور ایسا کیوں تھا وہ خود جان نہیں پارہا تھا اتنے میں کوٸی روم کے اندار آیا۔۔۔
کہاں تھے آپ۔۔۔ہادی نے پھلے ہوے منہ کے ساتھ کہا
میٹنگ تھی کیا ہوا ہے منہ کیوں پھلایا ہوا ہے۔۔۔۔
چاچو یار آپ کو تو بتایا تھا نہ میں نے ایک لڑکی کے بارے میں یونی میں میری جونٸر ہے آج میں نے اسے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھا اور پتہ نہیں کیوں غصہ آرہا برداشت نہیں ہوا رہا مجھ سے من چاہا رہا ہے۔۔۔۔
اچھا اچھا بس صاف کہنا پیار ہوگیا ہے وہ دونوں ایسے باتو کر رہے تھے جیسے ہم عمر ہوں۔۔۔۔ہادی کی اس کے چاچو سے بہت بنتی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ بہت آسانی سے اپنے دل کی ہر بات اس سے کر دیتا تھا۔۔۔
پتا نہیں یہی تو سمجھ نہیں آرہا اسی لیے تو آپ کے پاس آیا ہوں اور آپ ھیں کہ اپنے کام سے فرصت نہیں ہے۔۔۔۔
بس کردے اور ایکڈنگ کی دکان۔۔۔ مسلہ کیا ہے جاکر اپنے دل کی بات بتا دے اس سے پہلے کوٸیا اور اڑا لے جاے۔۔۔مانی تو ٹھیکو ورنہ زبردستی مت کرنا۔۔۔رشتے کبھی ذبردستی نہیں بنتے اور نہ ہی زبرستی کے رشتے زیادہ دیر چلتے ہیں میری اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔۔سمجھے یا نہیں
جی باس سب سمجھ گیا۔۔۔۔ہادی نے بھی شوخی دیکھاٸی
اچھا سنو کل بات کرو اور ڈنر پر لے جاکر دل کی بات بتادو کہی دیر نہ ہوجاۓ۔۔۔۔
یو مین پروپوز کروں راٸٹ وہ انگریزی میں بولتا امپریشن جمع رہا تھا۔۔۔
ہیں انگریز کی اولاد۔۔۔۔وہ بھی ہنستے ہوے بولنے لگا
کہاں میں تین ماہ سے آپ اپنے جھوٹے بھتیجے کے پاس تھے میرا تو آپ کو خیال بھی نہیں آیا بھی نہیں آیا ہوگا
ارے نہیں یار تو تو جانتا ہے نہ پردیس میں بزنس کرنا اسان نہیں اور ہمارے چھوٹے صاحب باہر تو چلے گے مگر اکیلا رہنا نہیں سیکھا دیکھلو اب آپ کے اماں ابا کو بلایا ہے۔۔۔۔
وہ تو ہمیشہ جھوٹا کا جھوٹا رہے گا۔۔۔۔وہ دونوں ہنسنے لگے
چلو چاچو میں چلتا ہوں اپ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر چلنے کے لیے تیاری بھی تو کرنی ہے۔۔۔
اچھا سن۔۔۔اس نے جاتے ہوۓ ہادی کو پکارا اور ہادی نے اپنے چاچو کی آواز پر مڑ کر دیکھا
نام تو بتاتا جا ارے چاچو میں آپ کو ڈایریک ملواٶں گا۔۔۔وہ کہتے ہوۓ روکا نہیں اور چلا گیا۔۔۔۔
یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔اس کے جانے کے بعد مسکراتے ہوۓ کہا
یہ اللہ ایسے اپنی محبت دے دینا اور ہمارے گھر کی خوشیاں لوٹا دے
******
آج صبح سے ہی ہادی کوشش کر رہا تھا کہ حور کو اپنے ساتھ جانے کے لیے کیسے کہے۔۔۔حور بھی یہ بات محسوس کر رہی تھی کہ ہادی کچھ کہنا چاہا رہا ہے مگر کہ نہیں پارہا ہے۔۔۔
ہادی۔۔۔حور کی آواز پر وہ چونکا
خیریت ہے کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔۔
نہیں یار کچھ نہیں بس تمسے کچھ کہنا تھا۔۔۔ہادی نے ہمت کرکے بول ہی دیا
ہاں تو بولو نہ اس میں گھبرا کیوں رہے ہو۔۔۔۔
نہیں گھبا نہیں رہا بس ایسے ہی۔۔۔۔اس کے تو جیسے پسینے چھوٹنے لگے
وہ حور میں چاہا رہا تھا کہ آج تم میرے ساتھ ڈنر پر چلو گی۔۔۔۔ہادی کی بات پر حور کو حیرت ہوٸی کیونکہ اس نے ایسا پہلے کبھی نہیں کہا تھا۔۔۔
وہ سوچ میں پڑ گی تھی وہ جتنی بھی اوپن مانڈیڈ ہو مگر کبھی صبا کی اجازات کے بغیر نہیں گی تھی۔۔۔۔
اس نے کچھ سوچ کر ہاں کہ دیا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...